و علیکم السلام !
میں نے آپ سے سوال کیا تھا :
آپ سے سیدھا اور سادہ سوال ہے کہ قرآن بلاواسطہ آپ پر نازل ہوا ہے یا کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہے ؟
اگر کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہےتو اس واسطے پر اعتماد آپ کس کے کہنے پر کرتے ہیں ؟ ( امید ہے وضاحت کریں گے کہ یہ واسطہ ہے اور اس پر اعتماد کرنے کی یہ قرآنی آیت دلیل ہے )
آپ بجائے اس کے کہ بلاواسطہ یا بالواسطہ کے حوالے سے اپنے موقف کی وضاحت کرتے آپ نے جوابا لکھا تھا :
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿٧٥-١٩﴾
آپ قرآن پراپنی زبان نہ ہلایا کیجیئے تاکہ آپ اسے جلدی جلدی لیں (16) بیشک اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، (17) تو جب ہم اسے پڑھ چکیں اس وقت اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو (18) پھر بیشک اس کی باریکیوں کا تم پر ظاہر فرمانا ہمارے ذمہ ہے، (19)
الرَّحْمَـٰنُ ﴿١﴾ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ﴿٢﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ ﴿٣﴾ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴿٥٥-٤﴾
رحمٰن نے (1) اِس قرآن کی تعلیم دی ہے (2) اُسی نے انسان کو پیدا کیا (3) بیان کا علم دیا (4)
اگرچہ آپ نے قرآنی آیات تو لکھ دیں لیکن مطلوبہ سوال کی وضاحت نہیں کی تھی لہذا آپ سے گزارش کی گئی کہ :
آپ نے اپنے موقف کی وضاحت نہیں کی کہ میرا موقف یہ ہے جس پر یہ آیات دلالت کرتی ہیں ۔
اگر آپ کا موقف یہ ہے کہ قرآن آپ نے بلاواسطہ اللہ تعالی سے حاصل کیا ہے ۔ تو اس کی مذکورہ آیات میں کہاں وضاحت ہے ؟
اگر آپ کا موقف ہے کہ آپ نے کسی واسطہ سے قرآن حاصل کیا ہے تو مذکورہ آیات میں کہاں وضاحت ہے ؟ اللہ نے آپ کو کہاں مخاطب کر کرکے کہا ہے کہ فلاں آدمی کے پاس میری کتاب قرآن ہے اس سے جا کر لے لو ۔
جوابا آپ نے یوں فرمایا :
سمجھنے کے لیئے آپ اپنی مثال سامنے رکھ لیں۔ آپ کو اللہ کی کتاب کس نے دی؟
جواب میں دیتا ہوں کہ اللہ نے دی۔ جیسے کہ وہ آپ کو رزق دے رہا ھے۔
اللہ کی کتاب انسانوں کے لیئے ہدایت ھے، اس لیئے انسان ہی کتاب کو اگلی نسل تک منتقل کررہا ھے۔ انسان اللہ کی کتاب کا نگہبان یا
حفاظت کرنے والا نہیں ھے۔ اور نہ ہی کوئی انسان یہ طاقت رکھتا ھے کہ اللہ کی کتاب کو بدل ڈالے یا اس میں کمی بیشی کر سکے۔
ایک اور آیت پیش کرتا ہوں کہ کتاب کس نے دی ھے۔
وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ﴿٣-١٨٧﴾
اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ لیا جنہیں کتاب عطا کی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے صاف صاف بیان کرو گے اور (جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے) اسے نہیں چھپاؤ گے تو انہوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت وصول کر لی، سو یہ ان کی بہت ہی بُری خریداری ہے،
اللہ اپنے جن بندوں کو چاہتا ھے ، اپنی کتاب کا وارث بناتا ھے۔
مذکورہ عبارت میں بھی آپ نے واضح جواب نہیں دیا اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل دی ہے ۔ البتہ آپ کے سرخ رنگ کے الفاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن آپ نے کسی واسطہ سے حاصل کیا ہے ۔
بلاواسطہ حاصل نہیں کیا ۔ لیکن اس کی دلیل کوئی نہیں بیان کی ۔
ہم آپ سے باردیگر گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں وضاحت کریں کہ ہم جو آپ کی بات سے آپ کا موقف سمجھے ہیں آپ اس سے موافق ہیں کہ نہیں ؟ اور اگر متفق نہیں ہیں تو پھر اپنا موقف واضح کریں ۔ اور ہر دو صورتوں میں قرآن سے کوئی دلیل بھی پیش کریں ۔ امید ہے مایوس نہیں فرمائیں گے ۔
آپ نے فرمایا :
بسم اللہ سے والنّاس تک قران بالکل محفوظ اور شک سے بالا تر ھے۔
یہاں آپ نے دو باتیں کی ہیں ۔
قرآن کا محفوظ اور شک سے بالاتر ہونا ۔
بسم اللہ سے والناس تک ۔
حالانکہ آپ نے جتنی قرآنی آیات پیش کی ہیں ۔ ان میں محفوظ ہونا اور شک سے بالاتر ہونا کی وضاحت تو ہے ۔ لیکن ان میں یہ لفظ بالکل بھی نظر نہیں آئے کہ ’’ بسم اللہ سے والناس ‘‘ تک محفوظ اور شک سے بالا تر ہے ۔ یہ دوسری بات کی اگر اب بھی آپ کوئی دلیل بیان کر سکتے ہیں تو کریں ۔
اسی طرح آپ نے فرمایا :
ہر رمضان میں مسجدالاحرام اور دنیا کی بے شمار مساجد میں مکمل قرآن کی تلاوت، صلاۃ تراویح میں ہوتی ھے۔
اگر آپ کی مراد مکہ میں موجود وہ مسجد ہے جس میں خانہ کعبہ ہے تو اس کا نام مسجد الحرام ہے الاحرام نہیں ہے ۔
مسجد حرام میں یادیگر مساجد میں ہر سال مکمل قرآن کی تلاوت ہوتی ہے ۔ یہاں اس بات کو آپ کا ذکر کرنے کا کیا مقصد ہے ؟ کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مکمل ہے ؟
مزید لکھا :
دیکھیں قرآن کو مکمل ثابت کرنے کے لیئے قرآن سے باہر کی کسی شہادت کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔
اگر کوئی کافر یہ کہتا ھے کہ صرف سورۃ الفاتحہ ہی قرآن ھے اور باقی قرآن سے انکار کرتا ھے یا کہتا ھے کہ قرآن کے
چالیس سپارے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ بھی ایسا کلام بنالے۔
خالی دعوٰی نہ کرے، قرآن کی مثل لے کر آئے۔
یعنی یہاں آپ کی دلیل قرآن کے مکمل ہونے پر کوئی قرآنی آیت نہیں ہے ۔ بلکہ کسی کا قرآن کی مثل نہ لا سکنا ہے ۔ کیا أیسا ہی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کس خارجی شہادت کا محتاج نہیں ؟ یا پھر آپ کے نزدیک ان لوگوں کا فعل ( مثل لانے سے عاجز ہونا ) بھی آپ کے نزدیک قرآن ہی ہے ۔ وضاحت کریں ۔
دوسری بات جب آپ کسی سے کہیں گے کہ آپ قرآن کی مثل نہیں لا سکتے ۔ وہ یہ کہے گا بھائی میں قرآن کی مثل نہیں بلکہ قرآن ہی لے کر آیا ہوں ۔ کیونکہ جس کو آپ قرآن کی مثل کہہ کر نفی کر رہے ہیں وہ آپ کے فہم کی غلطی ہے وہ مثل نہیں بلکہ قرآن ہی ہے ۔ بتائیں اب آپ اس کو قرآن سے کیا دلیل دیں گے کہ قرآن کیا ہے اور کیا قرآن نہیں ۔ ( یہ بات شاید آپ کی سمجھ سےبالا ہو گی ۔ )
ایک اور انداز سے آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
آپ نے کہا :
خالی دعوی نہ کرے ،قرآن کی مثل لے کر آئے ۔
کیا آپ قرآن اور غیر قرآن میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ آپ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے سوا کسی اور پر ( بشمول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) اعتماد کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کونسا کلام اللہ کا ہے اور کونسا کلام غیر اللہ کا ہے ۔
اگر واقعتا آپ اسلوب قرآن میں مہارت اور اس کے انداز بیان اور سیاق وسباق سے شناسا اور قرآن کی فصاحت و بلاغت سے عارف ہیں تو ذرا اپنے اس ملکہ کی بنیاد پر درج ذیل عبارت پر حکم لگائیں کہ یہ قرآن کیوں نہیں ہے :
الزانية والزاني إذا زنيا فارجموها البتة نكالا من الله ۔۔
اس میں اور قرآنی آیات میں کیا فرق ہے ؟
فأجمعوا أمرکم و شرکاؤکم ۔۔۔ اور اس بات کا جواب دیں ۔
اور اگر آپ کے اندر اور آپ کے دیگر شرکاء و زملاءمیں اتنی صلاحیت نہیں ہے تو خدارا ان لوگوں سے رجوع کر لیں جو ان اشکالات کا حقیقی جواب جانتے ہیں ۔اگر پہلی بات سے آپ عاجز آجائیں اور دوسری کی آپ کوتوفیق نہ ہو تواضطراری حالت میں ایک تیسراحل بھی ہے ۔ کہ کم ازکم خاموشی ہی اختیار کر لیں ۔ اور ایسے دعاوی نہ کریں جن کا بوجھ آپ کے کندھے برداشت نہیں کر سکتے ۔
آخر میں دو بنیادی باتیں کرنا چاہتا ہوں :
١۔ ہم قرآن کے ثبوت کے منکر نہیں ہیں بلکہ الحمد للہ ہماراایمان ہے کہ قرآن کامل و مکمل ١١٤ سورتوں پر مشتمل ہے ۔ نہ کچھ اس میں کمی ہوئی نہ زیادتی کی کوئی گنجائش ہے ۔ اور اس کو ثابت کرنا بھی ہم اللہ کی توفیق سے اہل سنت والجماعت ، اہل حدیث ، سلف صالحین کے مسلمہ اصولوں کے مطابق جانتے ہیں ۔ بلکہ اگر آپ ہمیں کہیں کہ صرف قرآن سے قرآن کاثبوت دو تو اس کے لیے بھی تیار ہیں ۔ رہا آپ پر اعتراض کرنا تو یہ آپ کو سمجھانے کے لیے ہے شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ۔
٢۔ آپ نےقرآن کی جتنی آیات پیش کی ہیں کسی ایک میں بھی صراحت نہیں ہے کہ اس سے مراد (( بسم اللہ سے لیکر سورۃ الناس تک ١١٤ سورتوں پر مشتمل )) موجودہ قرآن ہے ۔ لہذایہ وضاحت کرنی آپ کے ذمہ ہے ۔ جیساکہ ہم پہلے بھی مطالبہ کر چکے ہیں ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔