• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ قرآن کہاں سے آیا؟ کس نے کہا کہ یہ قرآن ہے؟

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
اصل پیغام ارسال کردہ از: کنعان
السلام علیکم



ہمیں اللہ سبحان تعالی نے اس عقل سے نوازہ ھے کہ قرآن مجید کو کھولے بغیر نن مسلم کو اللہ سبحان تعالی کی کتاب ثابت کر دیں۔
والسلام
السلام علیکم۔

بھائی صاحب اس عقل کا اظہار تحریر میں لے آیئں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔


یاد دہانی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
یاد دہانی۔

مجھے آپ کی تحریر سے یہ لگ رہا ھے کہ شاید، اللہ کی آیات سے زیادہ معتبر آپ کے نزدیک تاریخی باتیں ہیں، شاید آپ ان تاریخی
باتوں کی وجہ سے ہی قران کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ شاید ایسا نہ ہو۔ وضاحت کردیں، کہ کیا اللہ کی آیات سے
زیادہ معتبر اور حق بات آپ کو کہیں اور سے مل سکتی ھے؟۔
اللہ کی بات سے زیادہ حق اور معتبر بات کہین بھی نہیں مل سکتی ۔
لیکن کیا آپ کا اللہ تعالی سے براہ راست بلاواسطہ رابطہ ہے ؟
وحی کا نازل ہونے کا گمان بھی آپ کے بارے میں نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں بھی فرشتہ واسطہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس طرح تو آپ فرشتہ کا کہنا مانتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں ۔ ؟
آپ سے سیدھا اور سادہ سوال ہے کہ قرآن بلاواسطہ آپ پر نازل ہوا ہے یا کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہے ؟
اگر کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہےتو اس واسطے پر اعتماد آپ کس کے کہنے پر کرتے ہیں ؟ ( امید ہے وضاحت کریں گے کہ یہ واسطہ ہے اور اس پر اعتماد کرنے کی یہ قرآنی آیت دلیل ہے )

آپ کی بات سے متعلق ایک سوال ہے کہ
اگر کوئی شخص قرآن میں کمی یا زیادتی کردے تو آپ اس کارد کس طرح کریں گے ؟ قرآن کی کونسی آیت پیش فرمائیں گے ؟( امید ہے جوابا تاریخ کی بجائے کوئی قرآنی نص پیش فرمائیں گے ۔)
یاد دہانی۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
اسی تھریڈ میں پوسٹ نمبر ٦ اور ٨ پڑھ لیں۔


آپ سے سیدھا اور سادہ سوال ہے کہ قرآن بلاواسطہ آپ پر نازل ہوا ہے یا کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہے ؟
اگر کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہےتو اس واسطے پر اعتماد آپ کس کے کہنے پر کرتے ہیں ؟ ( امید ہے وضاحت کریں گے کہ یہ واسطہ ہے اور اس پر اعتماد کرنے کی یہ قرآنی آیت دلیل ہے )

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿٧٥-١٩﴾

آپ قرآن پراپنی زبان نہ ہلایا کیجیئے تاکہ آپ اسے جلدی جلدی لیں (16) بیشک اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، (17) تو جب ہم اسے پڑھ چکیں اس وقت اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو (18) پھر بیشک اس کی باریکیوں کا تم پر ظاہر فرمانا ہمارے ذمہ ہے، (19)

الرَّحْمَـٰنُ ﴿١﴾ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ﴿٢﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ ﴿٣﴾ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴿٥٥-٤﴾

رحمٰن نے (1) اِس قرآن کی تعلیم دی ہے (2) اُسی نے انسان کو پیدا کیا (3) بیان کا علم دیا (4)


آپ کی بات سے متعلق ایک سوال ہے کہ
اگر کوئی شخص قرآن میں کمی یا زیادتی کردے تو آپ اس کارد کس طرح کریں گے ؟ قرآن کی کونسی آیت پیش فرمائیں گے ؟( امید ہے جوابا تاریخ کی بجائے کوئی قرآنی نص پیش فرمائیں گے ۔)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ﴿٤١﴾ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴿٤١-٤٢﴾

یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے کلام نصیحت آیا تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے (41) باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے (42)

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢-٢﴾

وہ الکتاب جس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ھے متّقین کے لیئے۔

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿١٧-٨٨﴾

کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں (88)

وَمَا كَانَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٠-٣٧﴾

اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے (37)


مومن کےلیئے یہ دلائل بہت کافی ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم محترم

بھئی خود تو سوال کا جواب قرآن سے اسی الفاظ میں مانگتے ہو جیسا اپنی عبارت پر لکھتے ہو اور دوسروں کو جواب پر اتنا ظلم، سوال کیا اور جواب کیا اور اپنی عبات میں "مومن کے لئے یہ دلائل کافی ہیں" طالب علم والے سب ایسے ہی کرتے ہیں۔


آپ سے سیدھا اور سادہ سوال ہے کہ قرآن بلاواسطہ آپ پر نازل ہوا ہے یا کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہے ؟
اگر کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہےتو اس واسطے پر اعتماد آپ کس کے کہنے پر کرتے ہیں ؟

( امید ہے وضاحت کریں گے کہ یہ واسطہ ہے اور اس پر اعتماد کرنے کی یہ قرآنی آیت دلیل ہے )

اسی تھریڈ میں پوسٹ نمبر ٦ اور ٨ پڑھ لیں۔

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿٧٥-١٩﴾

آپ قرآن پراپنی زبان نہ ہلایا کیجیئے تاکہ آپ اسے جلدی جلدی لیں (16) بیشک اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، (17) تو جب ہم اسے پڑھ چکیں اس وقت اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو (18) پھر بیشک اس کی باریکیوں کا تم پر ظاہر فرمانا ہمارے ذمہ ہے، (19)

الرَّحْمَـٰنُ ﴿١﴾ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ﴿٢﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ ﴿٣﴾ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴿٥٥-٤﴾

رحمٰن نے (1) اِس قرآن کی تعلیم دی ہے (2) اُسی نے انسان کو پیدا کیا (3) بیان کا علم دیا (4)

مومن کےلیئے یہ دلائل بہت کافی ہیں۔
مسلم صاحب پوچھے گئے سوال سے زیادہ قریب یہ آیات ہیں، نمبر درج ہیں ترجمہ اپنے پسندیدہ قاری سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہو سکے تو سامنے والے بھائی کو دوبارہ تحریری جواب پیش کریں۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللّهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ
آپ فرما دیں: جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کر رہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے اور مؤمنوں کے لئے (سراسر) ہدایت اور خوشخبری ہے
٢:٩٧

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ
فرما دیجئے: اس (قرآن) کو روحُ القدس (جبرئیل علیہ السلام) نے آپ کے رب کی طرف سے سچائی کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے اور (یہ) مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے
١٦:١٠٢

والسلام
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
السلام علیکم محترم

بھئی خود تو سوال کا جواب قرآن سے اسی الفاظ میں مانگتے ہو جیسا اپنی عبارت پر لکھتے ہو اور دوسروں کو جواب پر اتنا ظلم، سوال کیا اور جواب کیا اور اپنی عبات میں "مومن کے لئے یہ دلائل کافی ہیں" طالب علم والے سب ایسے ہی کرتے ہیں۔




مسلم صاحب پوچھے گئے سوال سے زیادہ قریب یہ آیات ہیں، نمبر درج ہیں ترجمہ اپنے پسندیدہ قاری سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہو سکے تو سامنے والے بھائی کو دوبارہ تحریری جواب پیش کریں۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللّهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ
آپ فرما دیں: جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کر رہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے۔ تصدیق کرنے والا اسکی جو دونوں ہاتھوں کے بیچ میں ھے (یا سامنے ھے) ہے اور مؤمنوں کے لئے (سراسر) ہدایت اور خوشخبری ہے
٢:٩٧

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ
فرما دیجئے: اس (قرآن) کو روحُ القدس (جبرئیل علیہ السلام) نے آپ کے رب کی طرف سے سچائی کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے اور (یہ) مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے
١٦:١٠٢

والسلام
سبحان اللہ۔
جزاک اللہ۔
سلام" علیک۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
محترم بھائی !
میری مشارکت یہ ہے :
اصل پیغام ارسال کردہ از: خضر حیات
ا
صل پیغام ارسال کردہ از: muslim


مجھے آپ کی تحریر سے یہ لگ رہا ھے کہ شاید، اللہ کی آیات سے زیادہ معتبر آپ کے نزدیک تاریخی باتیں ہیں، شاید آپ ان تاریخی
باتوں کی وجہ سے ہی قران کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ شاید ایسا نہ ہو۔ وضاحت کردیں، کہ کیا اللہ کی آیات سے
زیادہ معتبر اور حق بات آپ کو کہیں اور سے مل سکتی ھے؟۔
اللہ کی بات سے زیادہ حق اور معتبر بات کہین بھی نہیں مل سکتی ۔
لیکن کیا آپ کا اللہ تعالی سے براہ راست بلاواسطہ رابطہ ہے ؟
وحی کا نازل ہونے کا گمان بھی آپ کے بارے میں نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں بھی فرشتہ واسطہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس طرح تو آپ فرشتہ کا کہنا مانتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں ۔ ؟
آپ سے سیدھا اور سادہ سوال ہے کہ قرآن بلاواسطہ آپ پر نازل ہوا ہے یا کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہے ؟
اگر کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہےتو اس واسطے پر اعتماد آپ کس کے کہنے پر کرتے ہیں ؟ ( امید ہے وضاحت کریں گے کہ یہ واسطہ ہے اور اس پر اعتماد کرنے کی یہ قرآنی آیت دلیل ہے )

آپ کی بات سے متعلق ایک سوال ہے کہ
اگر کوئی شخص قرآن میں کمی یا زیادتی کردے تو آپ اس کارد کس طرح کریں گے ؟ قرآن کی کونسی آیت پیش فرمائیں گے ؟( امید ہے جوابا تاریخ کی بجائے کوئی قرآنی نص پیش فرمائیں گے ۔)
اس عبارت میں آپ سے دو بنیادی سوال کیے تھے ۔
پہلےکے جواب میں
آپ نے چند قرآنی آیات لکھ دیں ہیں ۔ آپ نے اپنے موقف کی وضاحت نہیں کی کہ میرا موقف یہ ہے جس پر یہ آیات دلالت کرتی ہیں ۔
اگر آپ کا موقف یہ ہے کہ قرآن آپ نے بلاواسطہ اللہ تعالی سے حاصل کیا ہے ۔ تو اس کی مذکورہ آیات میں کہاں وضاحت ہے ؟
اگر آپ کا موقف ہے کہ آپ نے کسی واسطہ سے قرآن حاصل کیا ہے تو مذکورہ آیات میں کہاں وضاحت ہے ؟ اللہ نے آپ کو کہاں مخاطب کر کرکے کہا ہے کہ فلاں آدمی کے پاس میری کتاب قرآن ہے اس سے جا کر لے لو ۔
دوسرا سوال یہ تھا :
اگر کوئی شخص قرآن میں کمی یا زیادتی کردے تو آپ اس کارد کس طرح کریں گے ؟ قرآن کی کونسی آیت پیش فرمائیں گے ؟( امید ہے جوابا تاریخ کی بجائے کوئی قرآنی نص پیش فرمائیں گے ۔)
تو آپ نے یوں لکھا :
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ﴿٤١﴾ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴿٤١-٤٢﴾

یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے کلام نصیحت آیا تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے (41) باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے (42)

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢-٢﴾

وہ الکتاب جس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ھے متّقین کے لیئے۔

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿١٧-٨٨﴾

کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں (88)

وَمَا كَانَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٠-٣٧﴾

اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے (37)
آپ کے اس جواب سےمجھے اندازہ ہوا کہ میں آپ کو سوال صحیح طرح واضح نہیں کرپایا ۔ اسی وجہ سے آپ جواب بھی صحیح نہیں لکھ سکے ۔
میں پھر وضاحت سے عرض کرتا ہوں ۔ کہ اگر کوئی شخص کہہ دے کہ قرآن صرف سورۃ فاتحہ کا نام ہے ۔ یاکہے کہ اصل قرآن تو صرف پہلے دس پارے ہیں ۔ یا یوں کہے کہ مکمل قرآن تو چالیس پارے تھے اور موجودہ تیس پارے نامکمل قرآن ہے ۔ تو آپ قرآن کی کس آیت سے یہ ثابت کریں گے کہ نہیں جناب قرآن سورۃ الفاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک ١١٤ سورتوں اور ٣٠ پاروں پر مشتمل کتاب کا نام ہے ۔
آپ کی بیان کردہ آیات میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے ۔ صرف لفظ ’’ کتاب ‘‘ ، ’’ قرآن ‘‘ وغیرہ کا ذکر ہونے سے کوئی وضاحت نہیں ہوتی ۔ کیونکہ جس کے نزدیک چالیس پارے ہیں وہ بھی اس کو ’’ کتاب ‘‘ یا ’’ قرآن ‘‘ ہی کہتے ہیں ۔
ایک اور مثال لیں ۔ الزانية والزاني إذا زنيا فارجموها البتة نكالا من الله ۔۔ یہ قرآن کی آیت ہے یا نہیں اور اس کی قرآن سے کوئی دلیل دیں ۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
اگر آپ کا موقف یہ ہے کہ قرآن آپ نے بلاواسطہ اللہ تعالی سے حاصل کیا ہے ۔ تو اس کی مذکورہ آیات میں کہاں وضاحت ہے ؟
اگر آپ کا موقف ہے کہ آپ نے کسی واسطہ سے قرآن حاصل کیا ہے تو مذکورہ آیات میں کہاں وضاحت ہے ؟ اللہ نے آپ کو کہاں مخاطب کر کرکے کہا ہے کہ فلاں آدمی کے پاس میری کتاب قرآن ہے اس سے جا کر لے لو ۔

السلام علیکم۔

سمجھنے کے لیئے آپ اپنی مثال سامنے رکھ لیں۔ آپ کو اللہ کی کتاب کس نے دی؟
جواب میں دیتا ہوں کہ اللہ نے دی۔ جیسے کہ وہ آپ کو رزق دے رہا ھے۔
اللہ کی کتاب انسانوں کے لیئے ہدایت ھے، اس لیئے انسان ہی کتاب کو اگلی نسل تک منتقل کررہا ھے۔ انسان اللہ کی کتاب کا نگہبان یا
حفاظت کرنے والا نہیں ھے۔ اور نہ ہی کوئی انسان یہ طاقت رکھتا ھے کہ اللہ کی کتاب کو بدل ڈالے یا اس میں کمی بیشی کر سکے۔
ایک اور آیت پیش کرتا ہوں کہ کتاب کس نے دی ھے۔

وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ﴿٣-١٨٧﴾

اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ لیا جنہیں کتاب عطا کی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے صاف صاف بیان کرو گے اور (جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے) اسے نہیں چھپاؤ گے تو انہوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت وصول کر لی، سو یہ ان کی بہت ہی بُری خریداری ہے،

اللہ اپنے جن بندوں کو چاہتا ھے ، اپنی کتاب کا وارث بناتا ھے۔


اگر کوئی شخص قرآن میں کمی یا زیادتی کردے تو آپ اس کارد کس طرح کریں گے ؟ قرآن کی کونسی آیت پیش فرمائیں گے ؟( امید ہے جوابا تاریخ کی بجائے کوئی قرآنی نص پیش فرمائیں گے ۔)
قران میں کمی یا زیادتی ممکن ہی نہیں ھے۔ اگر کسی کو شک ھے تو کر کے دیکھ لے۔
بسم اللہ سے والنّاس تک قران بالکل محفوظ اور شک سے بالا تر ھے۔
ہر رمضان میں مسجدالاحرام اور دنیا کی بے شمار مساجد میں مکمل قرآن کی تلاوت، صلاۃ تراویح میں ہوتی ھے۔
کمی یا زیادتی نہ ہونے کا ثبوت اس آیت میں بھی موجود ھے۔

لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴿٤١-٤٢﴾
باطل اِس (قرآن) کے پاس نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے، (یہ) بڑی حکمت والے، بڑی حمد والے (رب) کی طرف سے اتارا ہوا ہے،


میں پھر وضاحت سے عرض کرتا ہوں ۔ کہ اگر کوئی شخص کہہ دے کہ قرآن صرف سورۃ فاتحہ کا نام ہے ۔ یاکہے کہ اصل قرآن تو صرف پہلے دس پارے ہیں ۔ یا یوں کہے کہ مکمل قرآن تو چالیس پارے تھے اور موجودہ تیس پارے نامکمل قرآن ہے ۔ تو آپ قرآن کی کس آیت سے یہ ثابت کریں گے کہ نہیں جناب قرآن سورۃ الفاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک ١١٤ سورتوں اور ٣٠ پاروں پر مشتمل کتاب کا نام ہے ۔
دیکھیں قرآن کو مکمل ثابت کرنے کے لیئے قرآن سے باہر کی کسی شہادت کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔
اگر کوئی کافر یہ کہتا ھے کہ صرف سورۃ الفاتحہ ہی قرآن ھے اور باقی قرآن سے انکار کرتا ھے یا کہتا ھے کہ قرآن کے
چالیس سپارے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ بھی ایسا کلام بنالے۔
خالی دعوٰی نہ کرے، قرآن کی مثل لے کر آئے۔
بسمہ اللہ سے والنّاس تک ہم اس لیئے قرآن کہتے ہیں کہ کوئی اس جیسی ایک سورۃ بھی نہیں بنا سکتا۔ اور نہ ہی کسی اور کلام کو
اللہ کا کلام ثابت کرسکتا ھے۔

وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٢-٢٣﴾
اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لئے بیشک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو،

اللہ کا یہ چیلنج ہمیشہ کے لیئے ھے، کسی میں جراءت ھے تو اس جیسا بنا کر لائے، خالی باتیں نہ کرے۔


آپ کی بیان کردہ آیات میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے ۔ صرف لفظ ’’ کتاب ‘‘ ، ’’ قرآن ‘‘ وغیرہ کا ذکر ہونے سے کوئی وضاحت نہیں ہوتی ۔ کیونکہ جس کے نزدیک چالیس پارے ہیں وہ بھی اس کو ’’ کتاب ‘‘ یا ’’ قرآن ‘‘ ہی کہتے ہیں ۔



وضاحت تو ایمان والوں پر ہوتی ھے۔ بہت سے لوگ تو اللہ ہی کے منکر ہیں، کیا آپ زبردستی کسی کو منوائیں گے؟ کسی کے نزدیک کیا ھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ کے نزدیک کیا ھے اور آپ کیا سمجھ رہے ہیں۔ یہ اہم بات ھے۔

وَمَا كَانَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٠-٣٧﴾
اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے بلکہ یہ تو جو کچھ سامنے ھے اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے



ایک اور مثال لیں ۔ الزانية والزاني إذا زنيا فارجموها البتة نكالا من الله ۔۔ یہ قرآن کی آیت ہے یا نہیں اور اس کی قرآن سے کوئی دلیل دیں ۔

یہ نہایت بے ہودہ بات ھے، یہ اللہ پر سخت جھوٹ افتراء ھے۔ یہ یہودیوں اور نصرانیوں کا عقیدہ ھے جو ان کی کتاب بائبل میں
لکھا ہوا ھے۔ اور جسے نام نہاد مسملمان مانتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔

فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ﴿٢-٧٩﴾

پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آئی ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں ان کے ہاتھوں کا لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت ھے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800

قران میں کمی یا زیادتی ممکن ہی نہیں ھے۔ اگر کسی کو شک ھے تو کر کے دیکھ لے۔

بسم اللہ سے والنّاس تک ہم اس لیئے قرآن کہتے ہیں کہ کوئی اس جیسی ایک سورۃ بھی نہیں بنا سکتا۔ اور نہ ہی کسی اور کلام کو
اللہ کا کلام ثابت کرسکتا ھے۔
کیا آپ اس قرآن کو سورۃ فاتحۃ سے سورۃ الناس تک مانتے ہیں؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
و علیکم السلام !
میں نے آپ سے سوال کیا تھا :
آپ سے سیدھا اور سادہ سوال ہے کہ قرآن بلاواسطہ آپ پر نازل ہوا ہے یا کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہے ؟
اگر کسی کے واسطے سے آپ کو پہنچا ہےتو اس واسطے پر اعتماد آپ کس کے کہنے پر کرتے ہیں ؟ ( امید ہے وضاحت کریں گے کہ یہ واسطہ ہے اور اس پر اعتماد کرنے کی یہ قرآنی آیت دلیل ہے )
آپ بجائے اس کے کہ بلاواسطہ یا بالواسطہ کے حوالے سے اپنے موقف کی وضاحت کرتے آپ نے جوابا لکھا تھا :
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿٧٥-١٩﴾

آپ قرآن پراپنی زبان نہ ہلایا کیجیئے تاکہ آپ اسے جلدی جلدی لیں (16) بیشک اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، (17) تو جب ہم اسے پڑھ چکیں اس وقت اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو (18) پھر بیشک اس کی باریکیوں کا تم پر ظاہر فرمانا ہمارے ذمہ ہے، (19)

الرَّحْمَـٰنُ ﴿١﴾ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ﴿٢﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ ﴿٣﴾ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴿٥٥-٤﴾

رحمٰن نے (1) اِس قرآن کی تعلیم دی ہے (2) اُسی نے انسان کو پیدا کیا (3) بیان کا علم دیا (4)
اگرچہ آپ نے قرآنی آیات تو لکھ دیں لیکن مطلوبہ سوال کی وضاحت نہیں کی تھی لہذا آپ سے گزارش کی گئی کہ :
آپ نے اپنے موقف کی وضاحت نہیں کی کہ میرا موقف یہ ہے جس پر یہ آیات دلالت کرتی ہیں ۔
اگر آپ کا موقف یہ ہے کہ قرآن آپ نے بلاواسطہ اللہ تعالی سے حاصل کیا ہے ۔ تو اس کی مذکورہ آیات میں کہاں وضاحت ہے ؟
اگر آپ کا موقف ہے کہ آپ نے کسی واسطہ سے قرآن حاصل کیا ہے تو مذکورہ آیات میں کہاں وضاحت ہے ؟ اللہ نے آپ کو کہاں مخاطب کر کرکے کہا ہے کہ فلاں آدمی کے پاس میری کتاب قرآن ہے اس سے جا کر لے لو ۔
جوابا آپ نے یوں فرمایا :
سمجھنے کے لیئے آپ اپنی مثال سامنے رکھ لیں۔ آپ کو اللہ کی کتاب کس نے دی؟
جواب میں دیتا ہوں کہ اللہ نے دی۔ جیسے کہ وہ آپ کو رزق دے رہا ھے۔
اللہ کی کتاب انسانوں کے لیئے ہدایت ھے، اس لیئے انسان ہی کتاب کو اگلی نسل تک منتقل کررہا ھے۔ انسان اللہ کی کتاب کا نگہبان یا
حفاظت کرنے والا نہیں ھے۔ اور نہ ہی کوئی انسان یہ طاقت رکھتا ھے کہ اللہ کی کتاب کو بدل ڈالے یا اس میں کمی بیشی کر سکے۔
ایک اور آیت پیش کرتا ہوں کہ کتاب کس نے دی ھے۔

وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ﴿٣-١٨٧﴾

اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ لیا جنہیں کتاب عطا کی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے صاف صاف بیان کرو گے اور (جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے) اسے نہیں چھپاؤ گے تو انہوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت وصول کر لی، سو یہ ان کی بہت ہی بُری خریداری ہے،

اللہ اپنے جن بندوں کو چاہتا ھے ، اپنی کتاب کا وارث بناتا ھے۔
مذکورہ عبارت میں بھی آپ نے واضح جواب نہیں دیا اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل دی ہے ۔ البتہ آپ کے سرخ رنگ کے الفاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن آپ نے کسی واسطہ سے حاصل کیا ہے ۔
بلاواسطہ حاصل نہیں کیا ۔ لیکن اس کی دلیل کوئی نہیں بیان کی ۔
ہم آپ سے باردیگر گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں وضاحت کریں کہ ہم جو آپ کی بات سے آپ کا موقف سمجھے ہیں آپ اس سے موافق ہیں کہ نہیں ؟ اور اگر متفق نہیں ہیں تو پھر اپنا موقف واضح کریں ۔ اور ہر دو صورتوں میں قرآن سے کوئی دلیل بھی پیش کریں ۔ امید ہے مایوس نہیں فرمائیں گے ۔
آپ نے فرمایا :
بسم اللہ سے والنّاس تک قران بالکل محفوظ اور شک سے بالا تر ھے۔
یہاں آپ نے دو باتیں کی ہیں ۔
قرآن کا محفوظ اور شک سے بالاتر ہونا ۔
بسم اللہ سے والناس تک ۔
حالانکہ آپ نے جتنی قرآنی آیات پیش کی ہیں ۔ ان میں محفوظ ہونا اور شک سے بالاتر ہونا کی وضاحت تو ہے ۔ لیکن ان میں یہ لفظ بالکل بھی نظر نہیں آئے کہ ’’ بسم اللہ سے والناس ‘‘ تک محفوظ اور شک سے بالا تر ہے ۔ یہ دوسری بات کی اگر اب بھی آپ کوئی دلیل بیان کر سکتے ہیں تو کریں ۔
اسی طرح آپ نے فرمایا :
ہر رمضان میں مسجدالاحرام اور دنیا کی بے شمار مساجد میں مکمل قرآن کی تلاوت، صلاۃ تراویح میں ہوتی ھے۔
اگر آپ کی مراد مکہ میں موجود وہ مسجد ہے جس میں خانہ کعبہ ہے تو اس کا نام مسجد الحرام ہے الاحرام نہیں ہے ۔
مسجد حرام میں یادیگر مساجد میں ہر سال مکمل قرآن کی تلاوت ہوتی ہے ۔ یہاں اس بات کو آپ کا ذکر کرنے کا کیا مقصد ہے ؟ کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مکمل ہے ؟
مزید لکھا :
دیکھیں قرآن کو مکمل ثابت کرنے کے لیئے قرآن سے باہر کی کسی شہادت کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔
اگر کوئی کافر یہ کہتا ھے کہ صرف سورۃ الفاتحہ ہی قرآن ھے اور باقی قرآن سے انکار کرتا ھے یا کہتا ھے کہ قرآن کے
چالیس سپارے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ بھی ایسا کلام بنالے۔
خالی دعوٰی نہ کرے، قرآن کی مثل لے کر آئے۔
یعنی یہاں آپ کی دلیل قرآن کے مکمل ہونے پر کوئی قرآنی آیت نہیں ہے ۔ بلکہ کسی کا قرآن کی مثل نہ لا سکنا ہے ۔ کیا أیسا ہی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کس خارجی شہادت کا محتاج نہیں ؟ یا پھر آپ کے نزدیک ان لوگوں کا فعل ( مثل لانے سے عاجز ہونا ) بھی آپ کے نزدیک قرآن ہی ہے ۔ وضاحت کریں ۔
دوسری بات جب آپ کسی سے کہیں گے کہ آپ قرآن کی مثل نہیں لا سکتے ۔ وہ یہ کہے گا بھائی میں قرآن کی مثل نہیں بلکہ قرآن ہی لے کر آیا ہوں ۔ کیونکہ جس کو آپ قرآن کی مثل کہہ کر نفی کر رہے ہیں وہ آپ کے فہم کی غلطی ہے وہ مثل نہیں بلکہ قرآن ہی ہے ۔ بتائیں اب آپ اس کو قرآن سے کیا دلیل دیں گے کہ قرآن کیا ہے اور کیا قرآن نہیں ۔ ( یہ بات شاید آپ کی سمجھ سےبالا ہو گی ۔ )
ایک اور انداز سے آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
آپ نے کہا :
خالی دعوی نہ کرے ،قرآن کی مثل لے کر آئے ۔
کیا آپ قرآن اور غیر قرآن میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ آپ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے سوا کسی اور پر ( بشمول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) اعتماد کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کونسا کلام اللہ کا ہے اور کونسا کلام غیر اللہ کا ہے ۔
اگر واقعتا آپ اسلوب قرآن میں مہارت اور اس کے انداز بیان اور سیاق وسباق سے شناسا اور قرآن کی فصاحت و بلاغت سے عارف ہیں تو ذرا اپنے اس ملکہ کی بنیاد پر درج ذیل عبارت پر حکم لگائیں کہ یہ قرآن کیوں نہیں ہے :
الزانية والزاني إذا زنيا فارجموها البتة نكالا من الله ۔۔
اس میں اور قرآنی آیات میں کیا فرق ہے ؟
فأجمعوا أمرکم و شرکاؤکم ۔۔۔ اور اس بات کا جواب دیں ۔
اور اگر آپ کے اندر اور آپ کے دیگر شرکاء و زملاءمیں اتنی صلاحیت نہیں ہے تو خدارا ان لوگوں سے رجوع کر لیں جو ان اشکالات کا حقیقی جواب جانتے ہیں ۔اگر پہلی بات سے آپ عاجز آجائیں اور دوسری کی آپ کوتوفیق نہ ہو تواضطراری حالت میں ایک تیسراحل بھی ہے ۔ کہ کم ازکم خاموشی ہی اختیار کر لیں ۔ اور ایسے دعاوی نہ کریں جن کا بوجھ آپ کے کندھے برداشت نہیں کر سکتے ۔

آخر میں دو بنیادی باتیں کرنا چاہتا ہوں :
١۔ ہم قرآن کے ثبوت کے منکر نہیں ہیں بلکہ الحمد للہ ہماراایمان ہے کہ قرآن کامل و مکمل ١١٤ سورتوں پر مشتمل ہے ۔ نہ کچھ اس میں کمی ہوئی نہ زیادتی کی کوئی گنجائش ہے ۔ اور اس کو ثابت کرنا بھی ہم اللہ کی توفیق سے اہل سنت والجماعت ، اہل حدیث ، سلف صالحین کے مسلمہ اصولوں کے مطابق جانتے ہیں ۔ بلکہ اگر آپ ہمیں کہیں کہ صرف قرآن سے قرآن کاثبوت دو تو اس کے لیے بھی تیار ہیں ۔ رہا آپ پر اعتراض کرنا تو یہ آپ کو سمجھانے کے لیے ہے شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ۔
٢۔ آپ نےقرآن کی جتنی آیات پیش کی ہیں کسی ایک میں بھی صراحت نہیں ہے کہ اس سے مراد (( بسم اللہ سے لیکر سورۃ الناس تک ١١٤ سورتوں پر مشتمل )) موجودہ قرآن ہے ۔ لہذایہ وضاحت کرنی آپ کے ذمہ ہے ۔ جیساکہ ہم پہلے بھی مطالبہ کر چکے ہیں ۔


اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔
 
Top