• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باپ کی موجودگی میں چچا کی ولایت

س: لڑکی چچازاد کے ساتھ شادی شدہ ہے۔ اس کے خاوند نے نئی شادی کر لی اور اپنی اس پہلی بیوی کو طلاق دے دی۔ یہ مطلقہ اپنے چچا یعنی سسر کے پاس رہ رہی ہے۔ اب اس مطلقہ کے سسرال اس کے طلاق دینے والے خاوند کے چھوٹے بھائی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ لڑکی کے والدین اس پر رضامند نہیں ہیں۔ کیا یہ نکاح صحیح ہو سکتا ہے؟

ج: یہ نکاح درست نہیں ہے اس لئے کہ عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی اور قریبی ولی کی موجودگی میں دور والا عزیز ولی نہیں بن سکتا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
''جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقے سے باہم نکاح پر راضٰ ہوں''۔(بقرہ : ۲۳۲)
اس آیت میں اولیاء کو خطاب ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو منع کر دیا ہے کہ وہ عورتوں کو ان کی مدت ختم ہونے کے بعد شادی سے روکیں۔ اگر عورت پر اولیاء کا اختیار نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کو روکنے کی کیا ضرورت تھی۔ امام شافعی فرماتے ہیں:
''یہ آیت عورت کے نکاح میں ولی کی شرط لگانے کے لئے واضح ترین دلیل ہے''
ورنہ (لا تعضلوھن)بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے ۔ امام ابنِ کثیر ، ابنِ العربی اور امام قرطبی سے بھی اس طرح کا قول مذکور ہے۔ حدیث میں ہے جو کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں:
''ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہے''

ابو دائود ، ترمذی ، نسائی، ابنِ ماجہ ، ابنِ حبان اور امام حاکم کے علاوہ ابنِ القیم نے بھی تہذیب السنن میں اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی بھی اس کے صحیح ہونے کے قائل ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے جو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے فرماتی ہیں:
''کہ جو نسی عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے، باطل ہے''۔ (صحیح الجامع الصغیر ، مستدرک حاکم و سنن الترمذی وقال حسن)
علامہ ناصر الدین البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مسئلہ مسئولہ میں اگرچہ لڑکی کا چچا بھی س کے اولیاء میں شامل ہے لیکن والد کی موجودگی میں وہ ولی نہیں کیونکہ جب قریبی ولی موجود ہو تو دور ولے عزیز کی ولایت کا اعتبار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی ولایت جائز ہے جیسا کہ امام ابنِ قدامہ فرماتے ہیں:
''اگر عورت کا دور والا ولی قریبی ولد کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح کر دیتا ہے تو یہ نکاح فاسد ہے خواہ عورت اس کو قبول ہی کر لے '' (المغنی لا بن قدامہ ج ۷، ص۳۶۴ ، معجم الفقہ الحنبلی ج۲،ص۹۸۴)
کیونکہ ولی ہونا تعصیب سے ہے جس طرح قریبی عصبہ کے ہوتے ہوئے دور والے عصبات محروم ہوتے ہیںاسی طرح قریبی ولی کی موجودگی میں دور والے کو اس کا اختیار نہیں ہے اور میراث میں یہ ترتیب صحیح حدیث سے ثابت ہے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ قریبی ولی دوسرے اولیاء سے عورت کی مصلحت پر زیادہ حریص ہوتا ہے اور اس پر شفقت اور رحم کے لحاظ سے بھی دوسروں سے زیادہ قریب ہے۔ اس لئے یہ حق صرف اسی کو ہونا چاہیے ہاں اگر یہ خود کسی دوسرے کو اجازت دے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بغیر ولی کے نکاح

س: کیا کسی عورت کا نکاح بغیر ولی کے ہو سکتا ہے ایک دورت کی ولیہ اس کی ماں ہے لیکن وہ نکاح کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی تو کیا اس کی ولایت بہن کر سکتی ہے قرآن و سنت سے وضاحت کریں۔ (سہیل ، مری)

ج: عورت کے نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں اگر عورتوں کے درمیان مردوں کا واسطہ نہ ہو تو یہ بات عیان ہے کہ ہر کام میں بے راہ روی اور عریانی و فحاشی کا خطرہ ہے۔ مغرب زدہ افراد کی حالت یہ ہے کہ ان کے ہاں مرد و زند کا اختلاط ، کھلے عام ملاقاتیں اور دیگر کئی برائیاں پائی جاتی ہیں اور اسی اختلاط وغیرہ کے باعث لڑکی اور لڑکا گھر سے فرار اختیار کر جاتے ہیں جبکہ لڑکی والوں کے گھر خبر بھی نہیں ہوتی اور وہ عدالت کی طرف رجوع کر کے نکاح کر لیتے ہیں اور جو عورت اس طرح کھلے عام اپنا نکاھ خود جا کر کرتی ہے اور اس میں ولی کی اجازت شامل نہیں ہوتی تو اس کا نکاح درست نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے زانیہ ہونے کی علامت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو تم ان کو اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو، جب وہ آپس میں اچھی طرح راضی ہوں۔''(بقرہ : ۲۳۲)

اسی آیت کا شان نزول ہے کہ سیدنا معقل بن یسار کی بہن کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی حتیٰ کہ عدت گزرنے گئی رجوع کا موقع نہ رہا اور وہ عدت کے گزرنے کے بعد آپس میں راضی ہو گئے اور دوبارہ نکاح کرنا چاہتے تھے تو معقل بن یسار جو اپنی بہن کے ولی تھے انہوں نے نکاح کرنے سے انکار کر دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ تم ان کو نکاح سے نہ روکو۔ بخاری۱۱/۱۹،۹۰۸، ترمذی۴/۷۶، ابو دائود۲/۱۹۲، طیالسی۱/۳۵ ، دار قطنی۳/۲۲۳، حاکم۲/۱۷۴، ابنِ جریر۲/۴۴۸۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت کا نکاح ولی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس لئے فرمایا (فلا تعضلوھن) امام ابوبکر ابنِ العربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے ولیوں کو اس بات سے روکا ہے کہ جس کے ساتھ وہ برضا و رغبت نکاح کرنا چاہتی ہیں ، انہیں منع نہ کرو، یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ عورت کے کھلے بندوں نکاح کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ حق صرف ولی کا ہے امام ابو حنیفہ کا مذہب اس کے خلاف ہے اگر یہ حق ولی کا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ انہیں منع کر نے سے نہ روکتا۔'' (احکام القرآن۱/۲۰۱)
''اور اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں''

مولانا عبدالماجد دریا بادی رحمة اللہ علیہ تفسیر ماجدی ص۸۹ حاشیہ۸۱۸ پر رقمطراز ہیں: (لا تنکحو) خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو۔ حکم خود عورتوں کو براہِ راست نہیں مل رہا کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جائو۔ یہ طرزِ خطاب بہت پُر معنی ہے ۔ صاف اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورتوں کا نکاح مردوں کے واسطہ سے ہونا چاہیے۔
امام ابو بکر ابنِ العربی (احکام القرآن۱/۱۵۸) پر رقمطراز ہیں:
''امام محمد بن علی بن حسین نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب کی رو سے نکاح بذریعہ ولی ہے پھر (ولا تنکحو المشرکین)والی آیت تلاوت کی''۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح نہیں ''۔
(ابو دائود مع عون۲/۱۰۱، ترمذی۴/۲۲۶، ابنِ ماجہ۱/۵۸۰، دارمی۲/۶۱، احمد۴/۳۹۴،۴۱۳ ، دار قطنی۲۱۸/۳، بیھقی۷/۱۰۷ ، شرح السنة المنتقٰی لا بن جارود (۷۰۱،۷۰۲،۷۰۳،۷۰۴)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے ، اگر اس مرد نے اس عورت کے ساتھ دخول کیا تو اس عورت کے لئے حق مہر ہے، اس وجہ سے جو اس مرد نے اس کی فرج کو حلال سمجھا اور اگر عورت کی ولایت میں اختلاف کریں تو حاکم اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں''۔
یہ حدیث المنتقٰی لابن جارود (۷۰۰)۱/۳۸، ابو دائو مع عون۶/۹۸ ، ترمذی۴/۹۸، ابنِ ماجہ ۱/۵۸۰،۲/۲۶، مسند احمد۲/۲۶،۱۶۵، حمیدی۱/۱۲،۱۱۳، ابنِ حبان (۱۲۴۸) دار قطنی۳/۲۲۱، حاکم۲/۱۶۸، بیہقی۷/۱۰۵، شرح السنہ۲/۳۹، شافعی۲/۱۱، طیالسی (۱۴۶۳) میں موجود ہے۔

علاوہ ازیں یہ روایت اور اس کی ہم معنی روایات بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں جن کی تعداد تیس (۳۰) تک پہنچ گئی ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی تلخیص الحبیرص ۲۹۵ اور امام شو کانی نیل الاوطار ۳۶ پر رقمطراز ہیں:
''امام حاکم فرماتے ہیں ازواجِ مطہرات سیدہ عائشہ ، سیدہ اُم سلیم ، سیدہ زینب رضٰ اللہ عنہن سے روایت صحیح ثابت ہے یہاں تک کہ۳۰ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام ذکر کئے اور متاخرین میں سے امام دمیاطی نے اس حدیث کے تمام طرق ذکر کئے ہیں۔
امام قاضی شوکانی ایک اور مقام پر رقمطراز ہیں کہ سیدنا علی ، سیدنا عمر، سیدنا ابنِ عباس، سیدنا عبداللہ بن عمر ، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا ، حسن بصری، سعید بن مسیب ، ابن شبرمہ، ابن ابی لیلیٰ، امام احمد، امام اسحق بن راہویہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم اور جمہور اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں۔
امام ابنِ منذر نے فرمایا کسی صحابہ سے اس کا خلاف ثابت نہیں(نیل الاوطار ١٣٦٦)۔ ان دلائل سے معلوم ہوا کہ عورت کے نکاح کے لئے ولی کا ہونا لازمی ہے اور ولایت کا حق صرف مردوں کو ہے۔
مذکورہ سوال میں ماں کے علاوہ ولی بنانے کے لئے بہن کا ذکر کیا گیا ہے وہ اخراجات برداشت کر سکتی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ بہن بھی عورت ہے اس لئے ولایت کا حق وہ بھی نہیں رکھتی۔ رہا اخراجات کا معاملہ تو یہ دور حاضر کی رسومات ہیں وگرنہ اسلام کے اندر جہیز وغیرہ کے لئے لڑکی والوں پر کوئی پابندی نہیں، اسلامی طریقہ کی رو سے نکاھ کے لئے اخراجات مرد کے ذمہ آتے ہیں جیسا کہ حق مہر اور ولیمہ وغیرہ کے اخراجات اور نکاح کے بعد عورت کے اخراجات کی ذمہ داری اس مر د پر ہوتی ہے جس کے ساتھ اس کا نکاح کر دیا جاتا ہے۔ والدین کو اس معاملہ میں کسی مالی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس لئے دورِ حاضر کی رسومات اور ہندو وانہ طرزِ عمل سے ہٹ کر اگر اسلامی طریقہ کے مطابق نکاح کریں تو کسی مالی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ بہر صورت عورت کا نکاح ولی کے بغیر جائز نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ولی کے بغیر نکاح کی شرعی حیثیت

شریعت اسلامیہ میں مردو زن کو بدکاری فحاشی ، عریانی اور بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کی انتہائی اہمیت وارد ہوئی ہے ۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے اسے راہ راست سے ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ موجودہ معاشرے میں بھی امت مسلمہ میں بدکاری و فحاشی کو عروج دینے کے لئے مختلف یہودی ادارے اور ان کے متبعین دن رات مصروف عمل ہیںجنہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور آزادی نسواں کے نام پر کئی ادارے اور سوسائٹیز بنا کر مسلمان ممالک میں فحاشی اور بے حیائی کے پنجے تیز کئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ یوب کی طرح ہمارے مسلمان معاشرے کو بھی آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قباحیت سے بچانے کے لئے آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے مسلم مرد و زن کے لئے نکاح کی بڑی اہمیت بیان کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا اللہ بڑی وسعت والا اور علم والا ہے۔''(النور : ۳۲)

آگے فرمایا:
''اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مابی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے ''۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا امر بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا کہ جنہیں نکاح کی استطاعت نہ ہو وہ اپنے آپ کو پاک و صاف رکھیں اور بدکاری و زنا سے بچے رہیں۔ اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شخص اسبابِ نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھتا ہے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے کیونکہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کر دیتے ہیں''۔ (بخاری و مسلم)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا:
''نکاح کرنا میری سنت ہے جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں''(ابنِ ماجہ : ۱۸۴۶)

اسی طرح قرآن مجید میں نکاح کو سکون اور محبت و رحمت کا باعث قرار دیا گیا ہے اور کہیں (محصنین غیر مصافحین)کہہ کر بدکاری سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا بد کاری اور زناکاری سے بچنے کے لے ہمیں نکاح جیسے اہم کام کو سر انجام دینا چاہیے اور اس کے لئے طریقہ کار رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکامات سے لینا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے جو اصول و ضوابط ذکر فرمائے ان میں سے ایک یہ ہے کہ لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے اگر لڑکی اپنی مرضی گھر سے فرار اختیار کر کے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتی ہے تو اس کا نکاح باطل قرار پاتا ہے ۔ عورت کے لئے اولیاء کی اجازت کے مسئلہ میں کتاب وسنت سے دلائل درج ذیل ہیں:
۱) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
''اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام، مشرک سے بہتر ہے۔ اگر چہ تمہیں بہت پسند ہو''۔(البقرہ : ۲۲۱)

امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی ارقام فرماتے ہیں:
''یہ آیت کریمہ اس بات پر بطور نص کے دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا امام محمد باقر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ نکاح کا بذریعہ ولی منعقد ہونا اللہ کی کتاب میں موجود ہے پھر انہوں نے (ولا تنکحو المشرکین)آیت کریمہ پڑھی۔ (الجامع الاحکام القرآن۳/۴۹)
مولانا عبدالماجد دریابادی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: (ولا تنکحوا) خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو۔ حکم خود عورتوں کو براہ ِ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جائو۔ یہ طرزِ خطاب بہت پُر معنی ہے۔ صاف اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورتوں کا نکاح مردوں کے واسطہ سے ہونا چاہیے۔ (تفسیر ماجدی ص۸۹)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی طراز ہیں:
''یہ خطاب یا ت (عورتوں ) کے ولیوں کو ہے یا حکام کو ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مشرک مردوں سے نکاح نہ کرنے دو''۔ (تفسیر مظہری۱/۴۵۸)
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کی توضیح فرما دی ہے کہ مسلمان عورت کے نکاح کا انعقاد اس کے ولی کے ذریعے ہونا چاہیے اس لئے فرمایا: (ولا تنکحو)کہ تم اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکاھ مٰں نہ دو اگر ولی کا نکاح میں ہونا لازم نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس انداز سے خطاب نہ فرماتا بلکہ عورتوں کو حکم دیتا کہ تم ان کے ساتھ نکاح نہ کرو۔ حالانکہ ایسے نہیں فرمایا۔ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پورا کر لیں تو انہیں اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھی طرح راضی ہو جائیں۔''(بقرہ : ۲۳۲)
حافظ ابنِ حجر عسقلانی الباری شرح صحیح بخاری۹/۹۴ رقمطراز ہیں:
''یہ آیت ولی کے معتبر ہونے کی سب سے واضح دلیل ہے اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہو تا تو اس کو روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔ اگر معقل کی بہن کے لئے اپنا نکاح خود کرنا جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی اور اختیار جس کے ہاتھ میں ہو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی نے اس کو روک دیا۔''
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
''اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں اس لئے کہ معقل بن یسار کی بہن طلاق یافتہ تھیں اور اگر ولی کے بغیر معاملہ اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ اپنا نکاح خود کر لیتی اور اپنے ولی معقل کی محتاج نہ ہوتی اور اس آیت کریمہ میں (فلا تعضلو ھن)میں خطاب اولیاء کو ہے نکاح میں عورت کی رضا مدنی کے باوجودمعاملہ مردوں پر موقوف ہے۔ ''

مذکورہ بالا آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ معقل بن یسار کی بہن کو ان کے خاوند نے طلاق دے دی پھر عدت کے پورا ہوجانے کے بعد وہ دونوں آپس میں دوبارہ نکاح کرنے پر راضی ہو گئے تو معقل بن یسار نے اپنی بہن کا نکاح دینے سے انکار کر دیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مسئلہ سمجھا دیا کہ عورت کے ولی کا حق اس کے نکاح کے انعقاد میں موجود ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ مردوں کو منع نہ کرتا۔ مردوں کو خطاب کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حق ولایت اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لئے رکھا ہے اور یہی بات امام بغوی نے اپنی تفسیر معالم التنزیل۲/۱۱۲ امام ابنِ قدامہ نے المغنی۷/۳۳۸ اور امام ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر۱/۳۰۲١ میں لکھی ہے اور اسی بات کو امام طبری نے اپنی تفسیر طبری ۲/۴۸۸ میں صحیح قرار دیا ہے۔ فح الباری کتاب النکاح ٩٠٩۔
اگر نکاح کا معاملہ عورت کے ہاتھ میں ہوتا تو اللہ تعالیٰ عورتوں کو خطاب کرتے مردوں کو خطاب نہ کرتے ۔ ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی۳/۴۹۔ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کئی ایک احادیث صحیحہ سے بھی ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
دورِ جاہلیت میں ولی کی اجازت کے ساتھ نکاح کے علاوہ بھی نکاح کی کئی صورتیں رائج تھیں جن کی تفصیل صحیح بخاری میں اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے فرماتی ہیں:
''ان میں سے ایک نکاح جو آج کل لوگوں میں رائج ہے کہ آدمی دوسرے آدمی کے پاس اس کی زیر ولایت لڑکی یا اس کی بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام بھیجتا ۔ اسے مہر دیتا پھر اس سے نکاح کر لیتا۔''
پھر نکاح کی کچھ دوسری صورتیں ذکر کیں جو کہ ولی کی اجازت کے بغیر رائج تھیں آخر میں فرمایا:
''جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاح منہدم کر دیئے سوائے اس نکاح کے جو آج کل رائج ہے''۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں نکاح کی صرف ایک صورت باقی رکھی جو کہ ولی کی اجازت پر مبنی ہے اور ولی کی اجازت کے علاوہ نکاح کی تمام صورتوں کو منہدم کر دیا۔ لہٰذا جو نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کیا جائے وہ جاہلیت کے نکاح کی صورت ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ایک احادیث صحیحہ مرفوعہ ملاحظہ فرمائیں:
''سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے''۔ (ابو دائود مع عون۲/۱۰۱،۱۰۲۔ ترمذی۴/۲۲۶، ابنِ ماجہ۱/۵۸۰، دارمی۲/۲۱، ابنِ حبان (۱۲۴۳)، طحاوی۴/۸،۹،۴/۳۶۴، احمد۴/۴۱۳،۴۹۴، طیالسی (۵۲۳)، دار قطنی۳/۲۱۸۔۲۱۹،حاکم۲/۱۷۰، بیہقی۷/۱۷۰، المھلی۹/۴۵۲، شرح السنہ۹/۳۸، عقود الجواہر المنیفہ۲/۱۴۶)

امام حاکم فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں سیدنا علی ، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا معاذبن جبل ، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا ابو ذر غفاری، سیدنا مقداد بن اسود، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا جابر بن عبداللہ ، سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا عمران بن حصین، سیدنا عبداللہ بن عمرو، سیدنا مسور بن محزمہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں اور اکثر صحیح ہیں اور اسی طرح اس مسئلہ میں ازواج النبی سیدہ عائشہ ، سیدہ اُم سلمہ اور سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہن سے روایت مروی ہیں۔ (مستدرک حاکم۲/۱۷۲)
یعنی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے علاوہ تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس حدیث کے راوی ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عالی شان اس بات پر نص قطعی کا حکم رکھتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ فرمائی اگر اس مرد نے اس کے ساتھ صحبت کر لی تو عورت کو مہر دینا ہے اس وجہ سے کہ جو اُس نے اس کی شرمگاہ کو حلال سمجھا۔ اگر وہ (اولیا) جھگڑا کریں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو حاکم اس کا ولی ہے''۔ (شرح السنہ ۲/۳۹، ابو داؤد۶/۹۸، ترمذی۴/۲۲۷، ابن ماجہ۱/۵۸، دارمی۲/۲۶، شافعی۲/۱۱، احمد۶/۴۷،۱۶۵، طیالسی (۱۴۶۳)، حمیدی۱۱۲/۱،۱۱۳، ابنِ حبان (۱۲۴۱)طحاوی۳/۷٧، دارقطنی۳/۲۲۱، حاکم۲/۱۶۸، بیہقی۷/۱۰۵)

اس حدیث کی شرح میں محدث عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
''یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں''۔
آگے مزید فرماتے ہیں:
''حق یہی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح باطل ہے جیسا کہ اس پر باب کی احادیث دلالت کرتی ہی۔'' (عون المعبود ۲/۱۹۱، طبع ملتانی)
علاوہ ازیں حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا میں ''ایّما''کلمہ عموم ہے جس میں باکرہ 'ثیبہ چھوٹی بڑی ہر طرح کی عورت داخل ہے کہ جو بھی عورت ولی کے بغیر اپنا نکاح از خود کرے اس کا نکاح باطل ہے ۔ رسول مکرم ۖکی یہ حدیث اس بات پر نص و قطعی ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے ۔ امام ترمذی فرماتے ہی:
''اس مسئلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کہ ''ولی کے بغیر نکاح نہیں '' پر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب ، عبداللہ بن عباس ، اور ابو ہریرہ کا عمل ہے اور اسی طرح تابعین فقہا میں سے سعید بن مسیب ، حسن بصری ، شریح، ابراہیم النخعی اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ اور امام ثوری ، امام اوزاعی، امام عبداللہ بن مبارک ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحق بن راہو رحمة اللہ علیہم کا بھی یہی موقف ہے''۔ (ترمذی۳/۴۱۰،۴۱۱)
اب ائمہ محدثین کے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ: صاحب بدایۃ المجتحد۲/۷ لکھتے ہیں:
''امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مذہب ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے اور یہ ولایت نکاح کی صحت میں شرط ہے یعنی اگر ولایت مفقود ہوئی تو نکاح درست نہیں ہوگا۔''

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ: فقہ حنبلی میں بھی نکاح کے لئے ولی ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ امام ابنِ قدامہ حنبلی رقمطراز ہیں:
''یقینا ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں اور عورت اپنے اور اپنے علاوہ کسی دوسرے کے نکاح کی مختار نہیں اور نہ ہی اپنا نکاح کرانے کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو ولی بنانے کی مختار ہے اگر اُس نے ایسا کیا تو نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ یہ بات صیدنا عمر، سیدنا علی ، سیدنا ابنِ مسعود، سیدنا ابنِ عباس، سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور اس کی طرف امام سعید بن المسیب ، امام حسن بصری، امام عمر بن عبدالعزیز، امام جابر بن زید، امام سفیان ثوری، امام ابنِ ابی لیلی، امام ابنِ شبرمہ، امام ابن مبارک، امام عبید اللہ العنبری ، امام شافعی، امام اسحاق بن راہویہ اور امام بو عبیدہ گئے ہیں اور یہی بات امام ابن سیرین، امام قاسم بن محمد اور امام حسن بن صالح سے بھی راویت کی گئی ہے ۔'' (المغنی لابن قدامہ۹/۳۴۵)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ: اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
''یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس بات پر دلالت کے اعتبار سے واضح ترین ہے کہ عورت کو بغیر ولی کے نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔''
اور آگے مزید فرماتے ہیں:
''ولی کے بغیر عقد قائم کرنا باطل ہے''۔
فرماتے ہیں:
امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ:
''ولی کے بغیر نکاح نہیں اور اسی بنا پر عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنا نکاح خود کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ اپنے نکاح کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو متعین کرے اور جب اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنا نکاح خود کر سکے تو اس کے لئے کسی دوسری عورت کا نکاح کرنا بالا ولیٰ جائز نہیں۔''(موسوعۃ فقہ سفیان ثوری ص ۷۹۳)
فرماتے ہیں:
امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ:
''ولی کے بغیر نکاح نہیں اور (الّذی بیدہ عقدة النّکاح)سے مراد ولی ہے اگر عورت نے اپنا نکاح ولی کے بغیر خود کر لیا یا نکاح کرنے میں اپنے ولی کے علاوہ کسی دوسرے کو ولی بنا لیا تو یہ نکاح باطل ہے اور ان دونوں کے درمیان صحبت کرنے سے پہلے اور بعد جدائی کرادی جائے گی۔'' (موسوعہ فقہ الحسن بصری۸۹۷)
امام ابراہیم النخعی رحمۃ اللہ علیہ: یہ امام ابو حنیفہ کے استاد الاستاد ہیں اور ان کے اقوال پر فقہ حنفی کا دارومدار ہے جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے فرماتے ہیں:
''عقد قائم کرنا عورتوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ مردوں کے ہاتھ میں ہے''۔ (ابنِ ابی شیبہ۱/۲۰۸، موسوعہ فقہ ابراہیم النخعی۱/۶۷۷)
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ کتاب و سنت اور جمہور ائمہ محدثین کے نزدیک عورت کا نکاح ولی کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا ۔ جو عورت اپنا نکاح خود کر لیتی ہے ایسا نکاح باطل ہے اور ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی تا کہ وہ ناجائز فعل کے مرتکب نہ ہوں۔
موجودہ دور میں کئی ایک ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ لڑکیاں گھروں سے فرار اختیار کر کے اپنے عاشقوں کے ساتھ عدالت میں جا کر نکاح کر الیتی ہیں اور مسلم معاشرے کے لئے بالعموم اور ان کے والدین کے لئے بالخصوص ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہیں۔ صائمہ کیس کا فیصلہ جو کہ دس مارچ ٩٧ء کو لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے کیا وہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور صریح قرآن و سنت کے خلاف ہے ۔ ہمارے ملک کے جن دو ججوں نے اس پر جو ریمارکس (Remarks)لکھے وہ یہودیت کی حقوقِ نسواں کے نام سے پھیلائی ہوئی تحریکوں سے مرعوبیت کا شاخسانہ ہے جیسا کہ ایک جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ''میں اپنی کوشش کے باوجود ایسا اصول نہین ڈھونڈ سکا جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہو کہ بالغ مسلم لڑکی کا اپنے ولی کی مرضی کے بغیر نکاح ناجائز ہے۔ ''
مندرجہ بالا صریح دلائل کی روشنی میں مذکورہ جسٹس کا یہ بیان انتہائی غلط اور قرآن و سنت کے دلائل سے لا علمی و ناواقفیت پر مبنی ہے اور انتہائی قابل افسوس ہے مسلمانوں کا قانون کتاب و سنت ہے جس میں ایسے دلائل اور اصول تواتر کے ساتھ موجود ہیں کہ مسلم لڑکی بالغ ہو یا مطلقہ یا کنواری کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا جیسا کہ اوپر دلائل ذکر کر دیئے ہیں۔ ہمارے ملک میں چونکہ انگریزی قانون رائج ہے جس کی بنا پر اکثر فیصلے کئے جاتے ہیں اور قرآن و سنت کو عملاً قانون سمجھا ہی نہیں جاتا اور یہ چیز کسی بھی مسلم کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ تمام مسلمانوں کو اپنے ہر قسم کے فیصلے طاغوتی عدالتوں کی بجائے قرآن و سنت کے ذریعے کروانے چاہئیں تا کہ عند اللہ ماجور ہو سکیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شادی سے قبل زنا کے مرتکب افراد کا نکاح

س: کچھ عرصہ قبل کسی آدمی کی منگنی ہوئی پھر نکاح ہو گیا۔ اب جبکہ نکاح کو دو سال ہو چکے سائل کے بتانے پر پتہ چلا ہے کہ نکاح سے قبل اس کے لڑکی سے مراسم تھے جس سے وہ گناہ کے مرتکب ہو گئے اور نکاح سے قبل لڑکی حاملہ ہو گئی جس سے ان کا نکاح فاسد ہے لڑکا اور لڑکی دونوں صاحبِ علم ہیں اور اپنے اس فعل سے انتہائی شرمندہ ہیں، حمل بھی ضائع کروا کر خدا کے مجرم بنے اور دو سال گزر جانے کے بعد بقول ان کے انہوں نے خوف خدا کے تحت جماع نہیں کیا، پوچھنا یہ چاہتے ہیں کہ کیا ان کا نکاح دوبارہ ہو سکتا ہے؟ جبکہ ایک صاحب نے ان کو کہا ہے کہ آپ نے نکاح سے قبل جماع کیا ہے آپ زنا کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لہٰذا جب تک آپ پر شرعی حد نہ لگے آپ کا نکاح دوبارہ نہیں ہو سکتا۔ انتہائی پریشان کن مراحل کا سامنا ہے کہ دو سال سے ایک گھر میں زندگی گزار رہے ہیں یہ بات بھی پردہ میں ہے گھر والے بھی پریشان ہیں کہ دو سال تک ناامیدی کیوں ہے۔ لہٰذا آپ سے التماس ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا بہترین حل نکال کر بتائیں کہ کیا واقعی ان کا نکاح دوبارہ ہو سکتا اور کیا لازمی ان پر حد آتی ہے؟ جواب دے کر پریشانی کا ازالہ کیجئے اور شکریہ کا موقع دیجئے۔

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ زنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے کسی انسان سے اگر یہ گناہ سر زد ہو جائے تو وہ اس پر شرمندہ ہو کر اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لیتا ہے تو قرآن میں اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں:
''اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جس کے قتل سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرتا ہے وہ اپنے کئے کی سزا بھگتے گا۔ قیامت کے دن اس کے لئے عذاب دوگنا کیا جائے گا اور وہ اس میں ذلیل ہو کر رہے گا مگر جن لوگوں نے ایسے گناہوں سے توبہ کر لی اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کئے اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دے گا اور اللہ بخشنے والا بڑا مہربان ہے''۔(الفرقان : ۶۸ ۔۷۰)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ آدمی اگر زنا سے توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتے ہیں اور جب اس نے توبہ کر لی اور اس کا معاملہ حاکم تک نہ پہنچا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈال دیا تو پھر اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے دنیا میں اس پر حد لازم نہیں ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث ہے عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ سے بعض محرمات سے اجتناب کے لئے بیعت لی۔ ان میں ایک زنا بھی تھا۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس نے بیعت پوری کی اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو ان میں سے کسی چیز میں مبتلا ہو گیا اور اسے اس کی سزا دی گئی تو وہ اس کے لئے کفارہ بن جائے گی اور اگر وہ کسی گناہ کو پہنچا تو اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا پس وہ اللہ کی طرف ہے۔ اگر چاہے اسے عذاب دے دے اور اگر چاہے تو اسے بخش دے'' (بخاری مع الفتح ۷/۲۶۰،۱۲/۷۵ یہ حدیث ترمذی ، نسائی اور دارمی میں بھی موجود ہے)

اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی سے زنا وغیرہ سرزد ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اس کے اقرار اور اصرار کے بغیر دنیا میں اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی ۔ اس سے بڑھ کر اگر کسی کو کسی دوسرے مسلمان کے بارے میں کوئی ایسی چیز معلوم ہوتی ہے جس سے اس پر حد لازم آتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آپس میں معاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
''آپس میںحدود معاف کرو جو مجھ تک پہنچ گئی وہ واجب ہو گئی'' (صحیح سنن ابی دائود البانی ج۳٣، ص۸۲۸، صحیح سنن نسائی ج۳،ص۸۷۷۸)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ امام، حاکم یا قاضی تک نہیں تو واجب نہیں ہوئی اس لئے صورت مسئولہ میں شرعی حد سائل پر واجب نہیں ہے جب تک وہ حاکم تک نہیں پہنچتی اس کا معاملہ اس کے ساتھ ہے اور زانی کا ھد لگنے کے بغیر زانیہ سے نکاح ہو سکتا ہے جب دونوں توبہ صادقہ کر لیں۔ تفسیر ابنِ کثیر میں عبداللہ بن عباس سے صحیح سند سے مروی ہے۔ کسی نے پوچھا :
''ابن عباس سے کسی نے پوچھا میں ایک عورت سے حرام کا ارتکاب کرتارہاہوں مجھے اللہ نے اس فعل سے توبہ کی توفیق دی۔ میں نے توبہ کر لی میں نے اس عورت سے شادی کا ارادہ کر لیا تو لوگوں نے کہا زانی مرد صرف زانیہ عورت اور مشرقہ عورت سے نکاح کر سکتاہے۔ ابنِ عباس نے کہا یہ اس بارے میں نہیں ہے تو اس سے نکاح کر لے اگر اس کا گناہ ہوا تو وہ مجھ پر ہے۔''(تفسیر ابن کثیر عربی،ج ۳' ص۲۲۴)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے بدکاری کا فعل کیا ہے اگر توبہ کر لیتے ہیں تو بغیر شرعی حد کے ان کا نکاح ہو سکتاہے کیونکہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے نہیں کہا کہ پہلے حد لگوائو پھر نکاح کرو۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ حم کے وقت جو ان دونوں کا نکاح ہوا تو اوہ نکاح صحیح نہیں ہو گا کیونکہ اس نے عدت میں نکاح کیا اور عدت میں نکاح صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
''حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے''(الطلاق)

دوسری جگہ فرمایا:
''اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک عدت ختم نہیں ہو جاتی۔''(بقرہ : ۲۳۵)
حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ
''کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ عدت کے اندر نکاح صحیح نہیں ہے''
اس لئے سائل نکاح جدید کروائے۔ کوئی حرج نہیں یہ نکاح ہو جائے گا ۔ جیسا کہ دلائل سے واضح ہو چکا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نکاح میں ذات پات کی کوئی قید نہیں

س: کیا کوئی سید اپنی بیٹی کی شادی غیر سید سے کر سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا واقعہ ہے؟ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر جس طرح ہندوؤں میں ذات پات کا تصور ہے تو ہم میں اور ان میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

ج: سیدہ ہاشمیہ لڑکی کا نکاح کسی بھی مسلمان سے بلا شک و شبہ درست ہے کیونکہ ترجیح اور برتری کی بنیاد نسلی امتیازات اور خاندانی حسب و نسب ، جاہ وجلال ، مال و زر ، ذات و براردری وغیرہ کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ یہ تقویٰ ، پرہیزگاری، خوف خدا وغیرہ جیسی صفات عالیہ پر موقوف ہے، جیسا کہ آپ ۖنے حجة الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اس بات کی وضاحت اچھی طرح فرما دی تھی۔ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو کسی گورے پر، سفید کو سیاہ پر کوئی برتری نہیں۔ ہر مسلمان کی حرمت برابر و مقدس ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اے لوگوں ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تم سب کو مختلف قومیں اور قبیلے اس لئے بنایا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان لیا کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے، بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا خبردار ہے''(الحجرات : ۱۲)
یعنی ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کی بنا پر تم سب برابر ہو لہٰذا کسی بھی فرد کا اپنے حسب و نسب پر فخر کرنا اور دوسرے کو حقیر و ذلیل سمجھنا جہالت و بے وقوفی اور نادانی ہے۔ اگرچہ باعتبار اصل تم سب ایک اور یکساں ہو لیکن تمہارا مختلف خاندانوں ، قبیلوں اور قوموں میں منقسم ہونا ایک فطری امر تھا۔ اس لئے ہم نے تمہاری تقسیم کر دی مگر اس تقسیم کا مقصد برتری اور کمتری نہیں۔ عزت اور ذلت کا معیار قائم کرنا نہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کی پہنچان اور معرفت ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی ایک و دوسرے پر خاندانی حسب و نسب اور نسلی امتیازات کی وجہ سے کوئی ترجیح نہیں بلکہ یہ ترجیح ، تقویٰ، پرہیز گاری پر موقوف ہے لہٰذا سید اور غیر سید یکساں اور اولاد آدم سے ہی ہیں۔
(۲) ایک اور مقام پر فرمایا کہ:
''مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں''(حجرات : ۱۰)
(۳) سورۂ نسا ء میں فرمایا:
''پس جو عورتیں تم کو اچھی لگیں ان سے نکاح کر لو''(الایہ)
(۴) اللہ تعالیٰ نے حرام عورتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا:
''ان مذکورہ حرام رشتوں کے علاوہ اور عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں''(الایہ)
یہ چاروں آیاتِ مقدسہ اس بات کی دلیل ہیںکہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور مسلم معاشرے کے یکساں فرد اور معزز ارکان ہیں۔ یعنی سید اور غیر سید سب برابر ہیں اور ایک دوسرے کا کفو ہیں پس ایک سیدہ لڑکی کا نکاح غیر سید مسلم شخص کے ساتھ جائز ہے اس کی متعدد مثالیں تاریخ اسلام میں موجودہیں:
۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی زینب بنت حجش کا نکاح زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا تھا جو کا ذکر سورۂ احزاب میں موجودہے حالانکہ زید غلام تھے اور بی بی زینب قریشی کاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
۲) اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا نکاح فاطمہ بنت قیس القرشیہ سے ہوا۔
۳) سید بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی بہن سے ہوا۔ سیدنا بلال حبشی غلام تھے جن کو سیدنا ابو بکر صدیق نے آزاد کیا تھا اور عبدالرحمٰن بن عوف قبیلہ قریش کے سربر آوردہ اور مشہور و معروف تاجر اور رئیس اور عشرہ مبشرہ کے رکن رکین تھے۔
۴) نبی کریم ۖنے قبیلہ بنو بیاضہ کو ابو ہند کے ساتھ مناکحت (رشتہ لینا دینا) کا حکم دیا تھا اور ابو ہند حجام تھا۔
۵) ابو حذیفہ بن عتبہ ربیعہ بدری نے اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربعیہ کا نکاح ، سیدنا سالم رضی اللہ عنہ جو ایک انصاری عورت کے آزاد کردہ غلام تھے، کے ساتھ کر دیا۔ (الروضہ الندیہ ٧٢)
۶) سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی اُمِ کلثوم بنت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔ اس نکاح کا ذکر شیعہ سنی ہر دو کی معتبر کتب میں موجود ہے۔
۷) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں بیٹیوں سیدہ رقیہ ، سیدہ اُم کلثوم کا نکاح یکے بعد دیگرے سیدنا عثمان سے کیا تھا جبکہ آپ ہاشمی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اموی تھے۔
۸) سیدنا علی بن حسین جو زین العابدین کے نام سے معروف ہیں کا نکاح شہر بانو بنت یزد جرد بن شہریار سے ہوا۔ (الروضہ الندیہ۲/۹)
اس کے علاوہ بے شمار عملی ثبوت موجود ہیں کہ امویوں کے رشتے ہاشمیوں سے ہاشمیوں کے اُمویوں سے ہوئے۔ قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ:
قد جزم بان اعتبار الکفاء ۃ مختص بالدین مالک و نقل عن عمرو ابن مسعود و من التابعین عن محمد بن سیرن و عمر بن عبدالعزیز و یدل علیہ قولہ تعالی (ان اکرمکم عند اللہ اتقکم) (نیل الاوطار ۲/۱۴۶)
''امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کفو کا اعتبار دین کے ساتھ خاص ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیند نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے اور تابعین میں سے محمد بن سیر ین اور عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان: بی اس پر دلالت کرتا ہے۔ امام ابنِ قیم رحمة اللہ علیہ نے بھی اسے ہی ترجیح دی ہے''(فقہ السنہ ۲/۱۲۸)
لہٰذا کتاب و سنت کی رو سے نکاح میں کفو کے لئے صرف دین کی شرط ہے اور دین کے باقی چیزوں کی حیثیت ثانوی ہے ۔ ہمارے ملک میں جو یہ بات رائج اور معروف ہے کہ اپنی برادری کے علاوہ کسی دوسری برادری میں رشتہ نہیں کرنا چاہیے سراسر غلط اور جہالت پر مبنی ہے اور ذات پات کی یہ قیود اور حد بندیاں ہندوؤں سے اخذ کی ہوئی ہیں جس کی کوئی حیثیت نہیں یہ ساری باتیں قرّن و سنت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بے نمازی کا رشتہ

س: کیا کوئی آدمی بے نماز ی کو اپنی لڑکی کا رشتہ دے سکتاہے؟

ج: نہیں دے سکتا بشرطیکہ لڑکی صوم و صلوة کی پابند ہو ۔ قرآن مجید میں ہے:
''کیا ایک مومن کسی فاسق کی طرح (برابر) ہو سکتاہے؟ کبھی برابر نہیں ہو سکتے''(السجدۃ : ۸)
چونکہ بے نماز فاسق ہے اور فاسق مرد صوم و صلوة کی پابند عورت کا کفو نہیں ہو سکتا ۔ ہاں اگر لڑکی بھی بے نماز ہے تو دوسری بات ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
جہیز کا شرعی حکم

س: جہیز کا اسلامی شریعت میں کیا تصور ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

ج: شادی سے قبل رشتہ کی بات چیت کے وقت لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے سرپرستوں سے کسی بھی چیز کا مطالبہ کرنا خواہ وہ جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ کی صورت میں ہو یا نقدی اور مختلف سامان کی صورت می ہو اور رشتہ کی منظوری کو اس پر معلق و موقوف کرنا شرعاً ناجائز ہے اسی طرح لڑکی والوں کی طرف سے پیش قدمی کرتے ہوئے لڑکے والوں سے یہ کہان کہ اگر آپ یہ رشتہ منظور کر لیں تو ہم جہیز میں نقد اور فلاں فلاں اشیاء دیں گے سراسر غلط اور شریعت کے خلاف ہے ۔ اس لین دین کی رسم کا نام چاہے جو بھی رکھا جائے یہ شرعاً ناجائز اور واجب الترک ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں:
۱) ہر ایک مسلمان کے لئے رسول اللہ کی حیات طیبہ پر عمل کرنا اور زندگی کے تمام معاملات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر پرکھنا ضروری ہے کیونکہ ارشاد باری تعالٰی ہے :
''تم میں سے جو کوئی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کی یاد کرتا ہے اس کے لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے''۔(الاحزب : ۲۱)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ ۖکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسوۂ ھسنہ عملی نمونہ ہے جس کی پیروی اور اتباع و اقتداء سب کے لئے ضروری ہے ۔ پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کے تمام افعال ، ختنہ ، عقیقہ ، منگنی اور شادی وغیرہ کی تقریبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ۖکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انجام دیا ہے لیکن ان کے ایام ہائے زندگی میں یہ رسومات اور مطالبات ہمیں نہیں ملتے۔ غرضیکہ شرع میں اس کا وجود تک نہیں ہے۔

٢) ہر مسلمان کے لئے شریعت مطہرہ میں شادی کے موقع پر یا رشتہ طے کرتے وقت یا شادی کے بعد لڑکی والوں پر کسی قسم کا خرچ اور بوجھ نہیں رکھا گیا۔ بلکہ یہ سارا بوجھ لڑکی کا لڑکے پر رکھا گیا ہے کہ یہ اس کو ضروریات زندگی کے اسباب مہیا کرے اس لئے شوہر کو قرآن میں قوام کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس واسطے اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی اور اس واسطے کہ خرچ کئے انہوں نے اپنے مال۔"
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نان و نفقہ مہر وغیرہ تمام اخراجات بذمہ مرد ہیں بس لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے سرپرستوں سے کسی مال و متاع کا مطالبہ شریعت کی منشاء کے خلاف ہے۔

٣) ہندو مذہب میں لڑکی کو والدین سے وراثت نہیں ملتی س لئے لڑکے والے چاہتے ہیں کہ جیسے بھی ہو اور جس شکل میں ہو لڑکی والوں سے زیادہ سے زیادہ مال و متاع حاصل کر لیا جائے اس لئے وہ شادی کے موقع پر مذکورہ مطالبہ کرتے ہیں اور لڑکی والے ان کے مطالبہ کو پورا کرتے ہیں ان ہی کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اپنی بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرتے ہیں حالانکہ وراثت کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور قرآن نے انہیں حدود اللہ کہا ہے اور اس کے ادا کرنے پر فوز عظیم کی خوشخبری سنائی ہے اور وراثت سے محروم کرنے پر ہمیشہ جہنم میں رہنے کی وعید فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''یہ اللہ کی حدیں ہیں جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا اس کو وہ جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدود سے تجاوز کرے گا وہ اس کو جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہو گا۔''(نساء : ۱۳'۱۴)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ وراثت کو ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ہے اور جو لوگ اس کی ادائیگی نہیں کرتے وہ اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے ابدی جہنم کی وعید ہے اور جہیز در حقیقت وراثت کی نفی ہے۔

۴) ان وجوہات کے علاوہ جہیز کے نقصانات اس قدر ہیں کہ عام طور پر غریب لوگوں کی بیٹیوں کا نکاح جہیز کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے منعقد ہی نہیں ہوتا اور نوجوان لڑکیاں اسی طرح گھر میں بیٹھ کر اپنی عمر برباد کر دیتی ہیں اور کئی لڑکیاں نکاح نہ ہونے کے باعث مختلف جرائم کا شکار ہو جاتی ہیں جس کے معاشرے پربہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں خلاف شرع کاموں سے محفوظ فرمائے اور جہیز جیسی لعنت سے بچنے کی توفیق بخشے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
غیر شعوری عمر کا نکاح

س: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس فیصلہ کے بارے میں کہ میرے والد نے میری بہن کا نکاح اپنے کسی عزیز سے کردیا تھا جبکہ میری بہن اتنی کمسن تھی کہ اس کو اپنے نکاح کا ہونا بالکل یاد نہیں۔ تقریباً دو ماہ کی عمر تھی۔ بالغ ہونے کے بعد میری بہن کو جب معلوم ہوا کہ اس کا نکاح اس کے والد نے فلاں آدمی سے کیا ہوا ہے تو اس نے نکاح کو قائم رکھنے سے انکار کر دیا اب وہ اس آدمی سے نکاح نہیں رکھنا چاہتی لہٰذا کتاب و سنت کی رو سے وضاحت فرماے۔

ج: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''بیوہ کا نکاح اس کا امر حاصل کئے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کا اذن(اجازت) حاصل کئے بغیر نہ کیا جائے۔ کہا گیا اس کا اِذن کیا ہے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چپ رہنا اس کا اذن ہے (کیونکہ وہ شرم کے مارے بول بولتی نہیں)''۔(المنتقٰی لابن جارود۷۰۷، واللفظ لہ بخاری مع فتح۹/۱۹۱،۱۲/۳۳۹،۲۴۰،مسلم مع نووی۹/۲۰۲، ابو دائود۱۰۹۲، نسائی۲/۸۵، ترمذی مع تحفہ۴/۲۴۰،ابنِ ماجہ (۱۸۷۱)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالغہ لڑکی سے اس کے نکاح کی اجازت لی جاتی ہے اور جب وہ نا بالغہ ہوتی ہے تو بچپن میں اس سے اجازت نہیں لی جاتی۔ اس کا ولی نکاح کر سکتا ہے بعد از بلوغت اس لڑکی کو اختیار ہوتا ہے کیونکہ اس کا حق ہے وہ اپنا نکاح اگر منسوخ کرانا چاہے تو کراسکتی ہے:
''سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور بیان کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کیا ہے اور وہ نا پسند کرتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔'' (ابو دائود(۲۹۰۶)احمد۱/۲۷۳۔۲۴۶۵۔،ابنِ ماجہ۱۸۷۵۔۲/۲۰۳)

علامہ احمد حسن دہلوی راقم ہیں:
''یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ باپ کے لئے حرام ہے کہ وہ اپنی کنواری بیٹی کو نکاح پر مجبور کرے تو باپ کے علاوہ لڑکی کے اولیاء (دیگر رشتہ داروں) کے بالا ولی جبر کی ممانعت ہے''۔(تنقیح الرواة۳/۱۰)
مذکورہ بالا حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ لڑکی کو بالغ ہوجانے کے بعد اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا بچپن کا کیا ہوا نکاح فسخ کراسکتی ہے ۔ فسخ کے لئے چاہیں تو ثالثی شرعی عدالت کی طرف رجوع کر لیں تا کہ مزاحمت وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شادی میں گانا بجانا

س: جس شادی میں ڈھولک گانا بجانا اور بدعات وغیرہ ہوں اس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟

ج: جس شادی میں ڈھولک ، رسومات و بدعات، خرافات گانا بجانا وغیرہ ہو۔ اس میں شرکت ناجائز ہے کیونکہ یہ گناہ ہیں اور ان میں شرکت گناہ پر تعاون ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو۔ زیادتی اور گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرو''(المائدہ : ۲)
سورۂ بنی اسرائیل۶۳ میں اللہ تعالیٰ نے شیطان سے کہا:
ان میں سے جس کو تو اپنی آواز سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے۔ (بِصَوْتِکَ)کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد گانا بجانا، مزا میرا ور ہر وہ پکار جس میں اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی ہو۔ چونکہ گانا بجانا ڈھولک وغیرہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی ہے اس لئے یہ دعوت قبول کرنا درست نہیں۔ (قرطبی ، جلالین)
اگر دعوت قبول کرنا مستحب ہے تو دوسری طرف حصولِ منکر اس سے مانع ہے۔ مانع اور مقتضی میں جب تعارض ہو تو حکم مانع کا ہوگا۔ لہٰذا ایسی شادی جس میں مندرجہ بالا خرافات ہوں شرکت ناجائز و ممنوع ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص تبلیغ کی نیت سے وہاں جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اگر تبلیغ نہیں کر سکتا تو بالکل نہ جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
متعہ کیا چیز ہے؟

س: متعہ کیا چیز ہے؟ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا کوئی صحابی اس کا قائل تھا۔ شیعہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا ثبوت پیش کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں متعہ کا حکم واضح فرمائیں۔

ج: متعہ کا لغوی معنی فائدہ حاصل کرنا ہے جیسا کہ امام ابو بکر جصاص نے احکام القرآن ۲/۱۴۲ میں لکھا ہے ''الا ستمتاع ھو الانتفاع''اوراصطلاح میں معتہ کا معنی یہ ہے کہ خاص مدت کے لئے کسی قدر معاوضہ پر نکاح کیا جائے۔ لیکن فقہ جعفریہ کی اصطلاح میں جب کوئی مرد کسی عورت کو وقت مقررہ اور اجرت مقررہ کے عوض مجامعت کی خاطر ٹھیکہ پر حاصل کرے تو اس فعل کو متعہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ شیعہ کی کتاب فروع کافی۲/۱۹۱ پر لکھا ہے کہ:
''ممنوعہ عورت ٹھیکہ کی چیز ہوتی ہے''
ابتدائے اسلام میں متعہ حلال تھا جسے بعد میں قطعی طور پر حرام قرار دے دیا گیا شروع اسلام میں جتنی مرتبہ بھی متعہ حلال ہوا وہ صرف ضرورت شدید ہ اور غزوات وغیرہ میں حالتِ سفر میں ہوا ہے کسی موقعہ پر بھی اس کی حلت حضر میں نہیں ہوئی۔ چنانچہ امام ابو بکر محمد بن موسیٰ حازمی رحمۃ اللہ علیہ کتاب الاعتبار ۳۳۱١ پر راقم طراز ہیں:
''متعہ کی حلت سفروں میں ہوئی اور ہمیں کوئی حدیث نہیں ملی جس میں یہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے حالتِ حضر میں متعہ کی اجازت دی ہو''۔

سیدنا ابو ذر فرماتے ہیں جیسا کہ السنن الکبری۷/۲۰۷ میں ہے کہ :
''حالت خوف اور غزوات کی وجہ سے متعہ حلال ہوا تھا''

ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ متعہ صرف اضطرار اورضرورت شدیدہ کے وقت مباح تھا عام حالات میں نہیں جیسا کہ شیعہ حضرات سمجھتے ہیں۔ قرآنی نصوص اور احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ متعہ قطعی طور پر حرام ہو چکا ہے اور اسلام نے نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے وہ ہی طریقے روا رکھے ہیں چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
''وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین (لونڈیاں) ہوں وہ قابل ملامت نہیں البتہ جو ان کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔''(المومنون : ۵۷۔۲۳' المعارج : ۳۱۔۲۹'۷۰)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن نے حلت جماع کو دو چیزوں (زوجیت و ملک یمین) میں منحصر کر دیا ہے زن متعہ ان دو صورتوں میں سے کسی بھی میں بھی داخل نہیں۔ زوجہ اس لئے نہیں کہ لوازم زوجیت، میراث ، طلاق ، عدت ، نفقہ، ایلاء و ظہار، لعان وغیرہ کی یہاں مستحق نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ مملوکہ بھی نہیں کیونکہ اس کی بیع، ہبہ اور اعتاق وغیرہ بھی جائز نہیں۔

علماء شیعہ بھی اس بات کے معترف ہیں کہ زن متعہ زوجیت میں داخل نہیں چنانچہ کتاب اعتقادات ابنِ بابویہ میں تصریح ہے کہ:
''ہمارے ہاں عورت کی حلت کے چار اسباب ہیں(۱) نکاح(۲) ملک یمین(۳) متعہ(۴) حلالہ اور ابو بصیر نے صحیح میں امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ کیا متعہ چار سے ہے تو فرمایا نہیں''۔
امام قرطبی اپنی تفسیر الجامع لا حکام القرآن۱۲/۷۲ پر رقمطراز ہیں:
''یہ آیت حرمت متعہ پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ممتوعہ عورت زوجات کے حکم میں نہیں ہے۔ ممتوعہ عورت نہ خود کسی کی وارث ہوتی ہے اور نہ اس کا کوئی وارث ہوتا ہے اور نہ بچے کا الحاق متعہ کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے اور نہ ہی طلاق کے ساتھ اس سے جدا ہوتی ہے بلکہ طے شدہ مدت کے ختم ہوتے ہی خود بخود اس سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ بیوی کے حکم میں نہیں بلکہ یہ اجرت پر حاصل شدہ چیز ہے۔''
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین اور چار چار سے نکاح کرو لیکن اگر تمہیں ان کے ساتھ انصاف نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لائو جو تمہارے قبضہ میں ہیں۔''(النساء : ۳)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نکاح چار تک محدود ہے اور متعہ میں کوئی عدد مقرر نہیں ہوتا جیسا کہ شیعہ کی معتبر کتاب تہذیب الاحکام کتاب النکاح میں ہے:
''چاہے ہزار سے متعہ کرے کیونکہ وہ ٹھیکہ کی چیز ہے''

اس آیت سے دوسرا مقصود ایسی صورتوں کا بیان کرنا ہے جس میں حق تلفی کا کوف نہ ہو اور یہ معنی متعہ و حلالہ میں بہ نسبت منکوحہ و مملوکہ کے زیادہ ہے کیونکہ مملوکہ کے کچھ ایسے حقوق ہیں جن کو ادا نہ کرنا ظلم ہے بخلاف زن متعہ کے کہ اس کا سوائے اُجرت مقررہ کے اور کوئی حق نہیں اور حلالہ میں تو یہ بھی نہیں ہے مفت کا سودا ہے پس اگر متعہ و حلالہ مباح ہوتے تو اس موقع پر ان کا ذکر ضرور ہوتا کیونکہ ان میں حق تلفی کا کوئی خوف نہیں۔ حرمت متعہ کے متعلق قرآنی دو آیات کے بعد اب چند ایک صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں:
''سبرۃ جہنی سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگوں میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت کے دن تک کے لئے حرام کر دیا ہے سو جن کے پاس ان میں کوئی ہوتو چاہیے کہ اس کو چھوڑ دے اور جو چیز تم ان کو دے چکے ہو وہ واپس نہ لو۔'' (ابو دائود۲۹۰، مسلم۱/۴۵۱، نیل الاوطار ۴/۱۳۴)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیبر کے دن متعہ سے منع فرما دیا اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے۔'' (مسلم۱۴۰۷،۱۰۲۷)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''طلاق ، عدت اور میراث نے متعہ کو حرام کر دیا ہے۔''

امامیہ شیعہ کی معتبر کتاب فروع کافی اور تہذیب الاحکام میں بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
''سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کا گوشت اور متعہ حرام کر دیا۔'' (تہذیب الاحکام۲/۱۸۶، استبصار۳/۱۴۲، فروع کافی۲/۱۹۲)
سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق جو کہا جاتا ہے کہ وہ متعہ کو حلال سمجھتے تھے اس کی حقیقت یہ ہے کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ تک متعہ کو اضطرار اور شدید ضرورت میں جائز سمجھتے رہے پھر بعد میں انہین اس کے نسخ و حرمت کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے اس سے بھی رجوع کر لیا تھا او ر اس کے بعد ہمیشہ متعہ کو حرام ہی سمجھتے رہے۔ امام ترمذی نے ترمذی شریف میں باب ما جاء فی نکاح المتعۃ کا باب قائم کر کے دو حدیثیں نقل کی ہیں پہلی حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جو اوپر ذکر کر دی گئی ہے اور دوسری حدیث یہ ہے:
''سیدنا ابِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ متعہ اوّل اسلام میں جائز تھا یہاں تک کہ آیت (الّا علیٰ ازواجھم اوماملکت ایمانھم)نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہو گیا اس کے بعد ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زوجہ اور مملوکہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔'' (ترمذی۱/۱۳۳)
امام ابو بکر جصاص ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے رجوع کے متعلق فرماتے ہیں:
''تمام صحابہ رضی اللہ عنہ میں سوائے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے کوئی بھی حلت متعہ کا قائل نہیں اور انہوں نے بھی متعہ کے جواز سے اس وقت رجوع کر لیا تھا جب تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے متعہ کی حرمت ان کے ہاں تواتر کے ساتھ ثابت ہو گئی۔'' (احکام القرآن۲/۱۵۶)
مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ متعہ النساء قیامت تک حرام ہے۔
 
Top