• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
روزہ میں حقوق زوجیت کی ادائیگی

س: شادی کے دو تین ماہ بعد رمضان کا مہینہ آ گیا۔ میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لئے۔ ایسا مجھ سے دو مرتبہ ہوا ہے جبکہ مجھے اس بارے میں بالکل نہیں معلوم کہ اس طرح گناہ ہو گا، برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کا حل مجھے بتائیں۔

ج: صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا ، یا رسول اللہ میں ہلا ک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہوگیا؟ کہنے لگا! میں روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پا س کوئی گردن (غلام یا لونڈی) ہے جسے آزاد کرو؟ اُس نے کہا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اُس نے کہا: نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کچھ دیر) ٹھہر گئے۔ اسی دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسئلہ پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا ، میں حاضر ہوں۔ فرمایا: یہ لے لو اور صدقہ کر دو۔ (صحیح بخاری، ج١۱، ص۲۵۹)

اس حدیث میں روزہ کی حالت میں جماع کرنے کا کفارہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک گردن آزاد کرے۔ یہ طاقت نہ ہو تو پے در پے دو ماہ کے روزے رکھے۔ یہ بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ سوال میں کہا گیا ہے کہ مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرنے سے گناہ ہو گا۔ اگر واقعی سائل کو یہ بات معلوم نہیں تھی تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ۔ اسے چاہیے آئندہ احتیاط کرے۔ قیامت کے دن مواخذہ علم پر ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ابنِ آدم کے قدم اپنے رب کے پاس سے نہیں ہلیں گے جب تک پانچ چیزوں کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا۔ اس کی عمر کے متعلق کہ اسے کس چیز میں فنا کیا، جوانی کے متعلق کہ کہاں گزاری اور اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور جو جانتا تھا اس پر کتنا عمل کیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (ترمذی ابواب صفة القیامہ، صحیح الترمذی شیخ ناصر الدین البانی حدیث۱۹۱۹)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اعتکاف کے مسائل

اعتکاف عکوف سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی کسی جگہ بیٹھ جا نا ہے۔ لیکن اصطلاحِ شرع میں کسی شخص کا ایک خاص مدت کے لئے مخصوص صفت کے ساتھ مسجد کے ایک گوشہ میں اقامت گزین ہونا اور خلوت و تنہائی میں اللہ کی عبادت یعنی نوافل، تلاوتِ قرآن و حدیث، ذکر و اذکار کے لئے وقف ہو جانا ہے۔ ملاحظہ کیجئے طرح التثریب ۴/۱۶۶ مفر دات القرآن ص ۳۴۳، شرح مسلم للنووی۷/۶۶۔یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت مؤکدہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدنی زندگی میں ہر سال اعتکاف کرتے تھے۔ ایک سال کسی سفر کی بنا پر اعتکاف چھوٹ گیا تو دوسرے سال بیس دن اعتکاف کر لیا۔ حدیث میں آتا ہے:
''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کے آخری دس دن اعتکاف میں بیٹھتے تھے۔'' (بخاری۱۲۷۱)

''سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے، ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا ، اعتکاف نہ کیا تو آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔'' (نسائی، ابو دائود، ابن حبان، فتح الباری۱/۳۳۲)

مسنون اعتکاف یہ ہے کہ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا جائے البتہ اس سے کم وقت یعنی ایک دن یا رات وغیرہ کے لئے اعتکاف ہو سکتا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروہی ہے:
''سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنی نذر پوری کر۔ ''(بخاری۱/۲۷۲)

یہی حدیث امام ابنِ ماجہ رحمة اللہ علیہ اپنی سنن میں باب فی اعتکاف یوم اولیلة (یعنی ایک دن یا رات کا اعتکاف کرنا ) میں لائے ہیں۔ (۱/۵۲۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دن رات یا کچھ حصے کی نذر مان لیتا ہے کہ میں اتنا وقت اعتکاف کروں گا تو اسے نذر پوری کرنی چاہیے۔
علاوہ ازیں رمضان کے مہینے کے علاوہ بھی دیگر مہینوں میں اعتکاف ہو سکتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں اعتکاف کیا۔ (بخاری۴/۲۲۶، مسلم۱۱۳۷)

شرائط: اعتکاف مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ مشروع و جائز نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :
''اور تم ان سے مباشرت نہ کرو، اس حال میں کہ تم مساجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہو۔''

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں یہی بات شامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ: ١
''سنت یہ ہے کہ اعتکاف روزہ کی ساتھ ہی ہوتا ہے اور جامع مسجد میں ہوتا ہے''۔ (ابو دائود ۱/۳۳۵)

عورت اگر اعتکاف میں بیٹھنا چاہے تو وہ بھی مسجد میں ہی اعتکاف کر سکتی ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا بھی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضٰ اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ فضربت فیہ قبۃانہوں نے مسجد میں خیمہ لگایا۔ (بخاری۱/۷۲۳)

سیدہ عائشہ رضٰ اللہ عنھا کا فرمان اوپر گزر چکا ہے کہ اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوتا ہے اس لئے اگر عورت اعتکاف کرنا چاہے تو مسجد میں ہی اس کا انتظام کرنا پڑے گا البتہ علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی اس حدیث:
''کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا نے اعتکاف کیا '' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''اس حدیث میں عورتوں کے اعتکاف پر جواز کی دلیل ہے اور بلا شبہ یہ بات عورتوں کے ولیوں کی اجازت، فتنہ اور مردوں کے ساتھ خلوت سے بچائو کے ساتھ مقید (مشروط) ہے۔''یعنی فسادات اور فتنہ کا اگر خدشہ ہو تو پھر ان سے اجتناب کرنا اوربچنا یہ مصلحتوں کے حاصل کرنے سے زیادہ ضروری اور مقدم ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اعتکاف کا طریقہ

اعتکاف کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث تو اوپر گزر چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔ دوسری حدیث یہ ہے:
''سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر جاتے اعتکاف میں داخل ہو جاتے ۔'' (صحیح مسلم، ابو دائود۳۳۴)

ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عام اہل علم یہ بات لکھتے ہیں کہ آخری عشرہ کا آغاز بیس رمضان کا سورج غروب ہوتے ہی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا معتکف کو چاہیے کہ اکیسویں رات شروع ہوتے ہی مسجد میں آجائے۔ رات بھر تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی ، تسبیح و تہلیل اور نوافل میں مصروف رہے اور صبح نماز فجر ادا کر کے اپنے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔
جبکہ دوسرا موقف جو ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف بیٹھتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اعتکاف کا آغاز نماز صبح کے بعد کرتے اکیس یا بیس کی صبح کو اس کا تعین واضح نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ معتکف بیس رمضان کی فجر کی نماز پڑھ کر اعتکاف کا آغاز کرے تا کہ اکیس کی رات معتکف میں آئے کیونکہ اعتکاف لیلۃ القدر کی تلاش کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر میں دو عشرے اعتکاف کیا۔ نہ ملی تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے اور آخری عشرے کا اعتکاف کیا۔ تسلسل بھی جاری رکھا حتیٰ کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کر رہے تھے ۔ ان میں سے بعض بیسویں کی صبح اپنا بوریا بستر اٹھا کر گھر میں بھی پہنچا چکے تھے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جو میرے ساتھ اعتکاف کر رہا ہے وہ اپنے اعتکاف کو جاری رکھے۔ بیسویں رمضان تھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر سے آخری عشرے کا آغاز کر دیا۔ (بخاری)

ذرا غور فرمائیں کہ آخری عشرے کا اعتکاف اکیسویں رات بعد از غروبِ آفتاب شروع ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اکیسویں رات کو ہی بلا لیتے اور کہہ دیتے کہ تم نے معتکف تو توڑ پھوڑ دیا ہے ۔اب رات مسجد میں گزارو اور کل صبح یعنی اکیسویں کی صبح کی نماز کے بعد دوبارہ معتکف میں داخل ہو جا نا تا کہ تمہارا آخری عشرے کا اعتکاف پورا ہو جائے۔ ملاحظہ ہو مولانا عبدالسلام بستوی کے ''اسلامی خطبات''۔ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اگر ٢٠ کی صبح کو مسجد میں آجائے تو ذہنی طور پر لیلۃ القدر کی تلاش کے لئے اکیسویں کو پورا تیار ہو جاتا ہے جبکہ دوسرے موقف کے لحاظ سے اکیسویں رات جائے اعتکاف سے باہر گزاری اور اعتکاف کے ارادے سے اکیس کی صبح کو معتکف میں داخل ہوا تو آخری عشرے سے ایک رات خارج ہو جائے گی جو ایک نقص بھی ہے لہٰذا زیادہ مناسب اور موزوں یہ ہے کہ بیسویں کی صبح کو مسجد میں آجائے اور نماز کی ادائیگی اپنے معتکف میں تیار ہو کر بیٹھ جائے۔ اس صورت میں دونوں احادیث پر بہتر عمل ہو جائے گا۔ صر ف آخری عشرہ سے١٢گھنٹوں کا اضافہ ہو گا اور اس اضافے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمة اللہ علیہ بھی اسی موقف کے قائل تھے اور یہ موقف مبنی بر احتیاط ہے۔ واللہ اعلم
جائز امور: معتکف کے لئے حالتِ اعتکاف میں نہانا، سر میں کنگھی کرنا، تیل لگانا اور حاجاتِ ضروریہ مثلاً پیشاب ، پاخانہ ، فرض غسل وغیرہ کے لئے جانا درست ہے۔ (بخاری۱/۲۷۲)
اعتکاف بیٹھنے والے کو بلا عذر شرعی اپنے معتکف سے باہر نہیں جانا چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شوال کے چھ روزے

س: شوال کے روزوں کی کیا فضیلت ہے؟کیا یہ مسلسل رکھنے پڑتے ہیں؟

ج: رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد ماہ شوال کے چھ روزے رکھنے کا اجر و ثواب سال بھر کے روزے رکھنے کے برابر ہے ۔ حدیث میں وارد ہے:
''سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے رمضان المبارک کے روزے رکھے، پھر اسکے پیچھے شوال کے چھ روزے رکھے تو اس کو سال بھر کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔''(مسلم ۱/۳۶۹)
محدثین نے اس کی یوں توضیح کی ہے کہ ہر نیکی کا اجر کم از کم دس گنا ملتا ہے تو رمضان کے ٣٠ روزوں میں ٦ روزے شوال کے جمع کریں تو کل ٣٦ روزے بنتے ہیں۔ اب ان کو دس کے ساتھ ضرب دیں تو یہ ٣٦٠ ہوئے۔ گویا سال بھر کے روزوں کا ثواب اللہ تعالیٰ اسے عطا کر دیتا ہے۔ شوال کے چھ روزے عید کے بعد مسلسل بھی رکھے جا سکتے ہیں اور اس مہینہ میں وقفہ بعد وقفہ بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
لیلۃ القدر کی فضیلت اور علامات

س: لیلۃ القدر کی کیا فضیلت ہے اور اس کو پہنچاننے کے لئے کیا علامات ہیں؟

ج: لیلۃ القدر کی کچھ علامات احادیث میں اس طرح آئی ہیں ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''لیلۃ القدر کی صبح کو سورج کے بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی۔ وہ ایسے ہوتا ہے جیسا کہ تھالی (پلیٹ)''(مسلم۷۲۶)
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ۖنے فرمایا:
''تم میں سے کون اسے یاد رکھتا ہے(اس رات) جب چاند نکلتا ہے تو ایسے ہوتا ہے جیسے بڑے تھال کا کنارہ''(مسلم۱۱۷۰)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''لیلۃ القدر آسان و معتدل رات ہے جس میں نہ گرمی ہوتی ہے اور نہ ہی سردی۔ اس کی صبح کو سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدھم ہوتی ہے ۔ '' (مسند بزارا۱/۴۸۶، مسند طیالسی۳۴۹، ابنِ خزیمہ۳/۲۳۱''
شیخ سلیم الھلالی اور شیخ علی حسن عبدالحمید نے صفة صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحہ ٩٠ پر اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مسنون تراویح

س: نمازِ تراویح کتنی رکعت ہے؟ کیا تہجد اور تراویح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیحدہ علیحدہ پڑھی تھیں؟

ج: نمازِ تراویح جسے ہم رمضان المبارک کی راتوں میں ادا کرتے ہیں، احادیث میں اسے قیامِ رمضان ، قیام اللیل اور صلوة الوتر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز رمضان المبارک میں اور اس کے علاوہ باقی مہینوں میں گیارہ رکعات ادا فرمایا کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں تین رات اس کی جماعت کروائی تھی۔ پھر فرضیت کے خوف سے اس کو ترک کر دیا اور یہ بھی احادیث میں وارد ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جماعت کی فضیلت ذکر کی ہے جیسا کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آخری ہفتہ میں تین طاق راتوں میں اس طرح نماز پڑھائی کہ پہلی رات کو اوّل وقت میں اور دوسری رات کو نصف شب میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ اس رات کا قیام بڑھا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''یقینا جب آدمی امام کے ساتھ نماز ادا کرے اس کے پھرنے یعنی امام کے نماز کو ختم کرنے تک ، تو اس کے لئے پوری رات کا قیام شمار کیا جائے گا''۔
پھر تیسری رات کو آخر شب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال اور دیگر لوگوں کو جمع کیا، نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں فلاح یعنی سحری کے فوت ہونے کا ڈر لگا۔ (ابنِ ماجہ ، ابو دائود وغیرہ)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں رات کے وقت امام کے ساتھ قیام کرنا مشروع اور باعث فضیلت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف فرضیت کی بنا پر اس کو ترک فرمایا تھا اور نماز کی فرضیت کا تعلق آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کو کوئی فرض قرار نہیں دے سکتا۔ لہٰذا اب یہ قیام مع الامام جائز اور باعث ثواب ہے۔
نمازِ تراویح کی تعداد صحیح احادیث میں جو مذکور ہوئی ہیں ، وہ گیارہ رکعات ہیں جیسا کہ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ:
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ عشاء کی نماز کو لوگ ''عتمہ''بھی کہتے ہیں''۔(صحیح مسلم۱/۲۵۴)
اسی طرح صحیح بخاری ٢٦٩١ باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے سوال کیا:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسی ہوتی تھی تو انہوں نے فرمایا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے''۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سائل نے رمضان المبارک کی راتوں کو ادا کی جانے والی نماز کے بارے مٰں وال کی اتت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے انہیں رمضان المبارک کے متعلق بھی جواب دیا اور ساتھ افادہ زائدہ کے طور پر غیر رمضان کے متعلق بھی بتایا کہ غیر رمضان میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے جو نماز عشاء کے بعد سے لے کر نماز فجر تک ادا کرتے ۔
نوٹ: بریلوی حضرات کے چند علماء مثلاً مولوی امجد علی ، احمد علی وغیرہ نے مل کر بخاری شریف کا جو ترجمہ اور حواشی لکھے ہیں انہوں نے اس حدیث میں تحریف کی ہے اور فی رمضان کے الفاظ عربی متن سے بھی اور اردو ترجمہ سے بھی خارج کر دیئے ہیں کیونکہ فی رمضان کے الفاظ اس بات کو متعین کر تے ہیں کہ سائل کا سوال نمازِ تراویح کے متعلق تھا۔ اُن کی اس خیانت کو ہمیشہ مد نظر رکھیںَ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کیا تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ ہیں؟

بعض لوگ مذکورہ حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا تعلق نماز تہجد کے ساتھ ہے تراویح کے ساتھ نہیں۔ آپ ۖنے تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہیں اور یہ بات بڑے بڑے حنفی علماء بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تہجد اور تراویح کے علیحدہ علیحدہ پڑھنے پر کوئی دلیل موجود نہیں جیسا کہ مولانا انور شاہ کاشمیری دیوبندی رقمطراز ہیں:
''یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھیں اور کسی روایت سے ثابت نہیں کہ آپ نے تراویح اور تہجد کو رمضان میں علیحدہ علیحدہ پڑھا ہو''۔
یعنی اگر تراویح اور تہجد الگ الگ نماز یں ہوتیں تو رمضان میں ان کے الگ الگ پڑھنے کا آپ سے کوئی ثبوت ملنا چاہیے تھا۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو گیارہ رکعات عام دنوں میں تہجد کے طور پر پڑھتے تھے، وہی گیارہ رکعت رمضان میں ادا کرتے تھے فرق صرف ان کے اوقات اور قیام میں طوالت کا تھا۔ ابو دائود وغیرہ کے حوالے سے مذکورہ روایت جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین راتوں میں جماعت کرانے کا تذکرہ ہے، اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نمازِ تراویح کورات کے تین حصوں میں پڑھا اور تراویح کا وقت عشاء کے بعد سے اخیر رات تک اپنے عمل سے بتادیا جس میں تہجد کا وقت آگیا پس فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ عشاء کے بعد طلوع فجر تک ایک ہی نماز ہے ۔ یہی بات مولوی عبدالحی لکھنوی حنفی نے اپنے فتاویٰ اُردو۱/۴۲۹ پر لکھی ہے۔
علاوہ ازیں ائمہ محدثین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا والی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں کتاب صلوة التراویح باب فضل من قام رمضان کے تحت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے یہ حدیث ذکر کر کے بتادیا کہ اس کا تعلق نمازِ تراویح کے ساتھ ہے۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں۲/۴۹۵،۴۹۶ پر باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان اورامام محمد بن حسن شیبانی شاگرد امام ابو حنیفہ نے اپنی موطا میں ص۱۴۱ پر باب قیام شھر رمضانوما فیہ من الفضل قائم کیا ہے یعنی اس حدیث کا تعلق قیام رمضان کے ساتھ ہے۔ ا کے علاوہ متعددائمہ نے اس حدیث کو ٢٠ ۲۰رکعت والی موجوع و منکر روایت کے مقابلہ میں بطورِ معارضہ پیش کیا ہے جیسا کہ علامہ زیلعی حنفی نے نصب الرایہ۲/۱۸۳، علامہ ابن ِ حجر عسقلانی نے الدریہ۱/۲۰۳، علامہ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر ۱/۴۶۷، علامہ عینی نے عمدة القاری۱۱/۱۲۸ میں اور امام سیوطی نے الحادی للفتاوی۱/۳۴۸ پر ذکر کیا ہے۔

سیدنا جابر انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
''ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھائے۔ (صحیح ابنِ خزیمہ۲/۱۳۸ ، ابنِ حبان۴/۲۶،۶۴)
امام ذہبی میزان میں فرماتے اور اس حدیث کی سند وسط (حسن) ہے۔ اسی طرح ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ آج رات میرے ساتھ ایک بات ہو گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ، اے ابی وہ کیا بات ہے ؟ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا ہم قرآن نہیں پڑھتیں، اس لئے تمہاری اقتداء میں نماز ادا کریں گی۔
مسند ابی یعلی۳/۲۳۶) امام ہیثمی نے اس سند کو حسن کہا ہے۔ (مجمع الزوائد) ''میں نے انہیں آٹھ رکعات پڑھائیں۔ پھر وتر ادا کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ کہا گویا اس پر رضا مندی ظاہر کی۔ '' ان احادیث سے بھی معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نمازِ تراویح میں آٹھ رکعات ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شبینہ کی شرعی حیثیت

س: علمائے کرام اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عشاء کی نماز کے بعد تراویح کے علاوہ جو شبینہ پڑھایا جاتا ہے جس میں قاری حضرات دو رکعت میں ایک پارہ قرأت کرتے ہیں اور مقتدی پیچھے کھڑے ہو کر سنتے ہیں اور اسی طرح رات ایک بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور کئی کئی پارے اور کئی رکعات نفل ادا کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہ اللہ علیہم سے ثابت ہے۔ اگر نہیں تو کیا یہ عمل باعث ثواب ہے یا بدعت کی بنا پر گمراہی ہے اور گناہ کا باعث ہے؟

ج: مذکورہ صورت میں دو تین باتیں قابل غور ہیں اولاً نماز نفل باجماعت ادا کرنا، ثانیاً نماز نفل کا اپنی طرف سے مقررہ اہتمام اور اس پر دوام و اصرار کرنا۔ یعنی خاص وقت یا معین مہینہ میں اس کا خصوصی اہتمام کرنا۔ اوّل الذکر بات تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ صحیح بخاری باب اذا ینو الامام ان یوم ثم جاء قوم فامھم میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک رات اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنھا کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد میں مشغول ہوئے تو میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ ان کی اقتداء میں نماز تہجد پڑھنے لگا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری امامت کی نیت نہیں کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر سے پکر کر مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ (صحیح بخاری۱/۹۷)

اور اسی طرح صحیح بخاری باب صلوة النوافل جماعۃ میں محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے سید نا عتبان بن مالک کا واقعہ منقول ہے کہ رسول اکرم ۖسیدنا عتبان کی فرمائش پر ان کے گھر تشریف لائے اور دو رکعت نماز با جماعت ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری)

ان ہر دو احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ نماز نفل کی جماعت بلاشک و شبہ جائز ہے۔ لیکن اس کا اعلان کرنا مردوں اور عورتوں کو بذریعہ اشتہارات جمع کرنا، نوافل با جماعت، بالدوام ادا کرنا اور رات کو چراغ گل کر کے دعائیں ناجائز اور بدعت معلوم ہوتا ہے کیونکہ مطلقاً نماز نفل با جماعت ادا کرنا تو صحیح ہے لیکن یہ قیود مع اہتمام اس مطلق جواز کو بدعت میں بدل دیتے ہیں جیسا کہ نماز چاشت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اور ام ہانی رضی اللہ عنھا سے یہ نماز مروی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی بپابندی کی وصیت بھی فرمائی (صحیح بخاری۱/۱۰۸) مگر اس وصیت کے باوصف سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کو بدعت کہتے ہیں اس کی وجہ ذیل میں آرہی ہے )جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ مجاہد کہتے ہیں: میں اور عروة دونوں مسجد میں داخل ہوئے: (صحیح بخاری باب کم اعتمر النبی۱/۲۳۷، صحیح مسلم۱/۴۰۹)
''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے حجرہ کے پاس بیٹھے تھے اور اس وقت کچھ لوگ مسجد میں نماز چاشت پڑھ رہے تھے ۔ ہم نے ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے ان کی اس نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا یہ بدعت ہے۔''
جبکہ یہ نماز متعدد سانید صحیحہ سے مروی ہے جیسا کہ اوپر صحیح بخاری کے حوالے سے گزر چکا ہے۔ مقامِ غور ہے کہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہا نے اسے بدعت کیوں کہا؟اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود میں اس نماز کو با جماعت ادا کرنے کا دستور نہیں تھا۔ چنانچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے:
''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مُراد یہ تھی کہ نماز چاشت کو مسجد میں ظاہر کر کے پڑھنا اور اس کے لئے اجتماع و اہتمام کرنا بدعت ہے نہ کہ نماز چاشت بدعت ہے''۔

امام ابو بکر محمد بن ولید الطرطوشی لکھتے ہیں:
''ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کی اس نماز کو تو اس لئے بدعت قرار دیا کہ وہ اسے با جماعت پڑھ رہے تھے یا س لئے کہ اکیلے اکیلے اس طرح پڑھ رہے تھے جیسے فرائض کے بعد ایک ہی وقت میں تمام نمازی سنن رواتب پڑھا کرتے ہیں۔(کتاب الحوادث و البد ۴۰)
اس کی دوسری مثال یہ لے لیں کہ سبحان اللہ ، اللہ اکبر، لا الہٰ الاّ اللہ کا وظیفہ اپنے اپنے اندر بڑے فضائل رکھتا ہے۔ اور مفسرین نے اس کو باقیات صالحات میں شمار کیا ہے یہ بلندی درجات اور نجات اخروی کا بہترین ذریعہ ہے مگر اس کے باوجود جب اسے خاص قیود اور غیر ثابت تکلفات و التزامات کے ساتھ پڑھا جائے گا تو یہی وظیفہ ہلاکت اور خسارے کا باعث بن جائے گا۔ جیسا کہ سنن دارمی میں بسند صحیح سیدنا عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے آتا ہے کہ کچھ لوگ کوفہ شہر کی مسجد میں حلقہ باندھے کنکریوں پر سبحان اللہ ، اللہ اکبر، لا الٰہ اللہ سو سو دفعہ پڑھ رہے تھے تو ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے کہا:
''تم اپنے گناہوں کو شمار کرو میں ضمانت دیتا ہوں تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ اے امت محمد ۖتم پر افسوس ہے کہ تم کتنی جلدی ہلاکت میں مبتلا ہو گئے ہو ابھی تم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بکثرت موجود ہیں۔ ابھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے اور آپ کے استعمال میں آنے والے برتن بھی نہیں ٹوٹے۔ تم ایسا کر کے گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو۔''(سنن دارمی ۶۱)

اس روایت سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت اور اطاعت جس طرح شریعت میں منقول ہو، اس کو اسی انداز میں ادا کرنا چاہیے یعنی جس ہیئت و صورت میں وہ عبادت ہوئی ہے ، اس کو اسی طرز سے اپنانا چاہیے۔ اپنی طرف سے اس میں پابندیاں عائد کرنا، بغیر دلیل کے مطلق کو مقید کرنا،غیر مؤقت کو مؤقت کرنا یعنی کسی وقت کے ساتھ خاص کر لینا، غیر معین کو معین بنانا، بدعت بن جائے گا جس سے اجتناب ضروری ہے۔ وگرنہ ہلاکت میں پڑ نے کا اندیشہ ہے ۔ چنانچہ یہی وہ نکتہ ہے جس کے پیش نظر ابنِ عمر رضٰ اللہ عنہما نے چاشت کو بدعت کہا اور ابنِ مسعودرضی اللہ عنہ نے حلقہ باندھ کر اللہ اکبر لا الہٰ الااللہ وغیرہ کا ذکر کرنے کو بدعت اور ہلاکت قرار دیا۔ امام ابو اسحاق شاطبی رقم طراز ہیں کہ:
یہ بھی بدعات سے ہے کہ کسی نیک عمل کی ادائیگی کے لئے اجتماع کی صورت میں ایک ہی آواز کے ساتھ ذکر کا التزام کرنا، عید میلاد النبی منانا اور اس کی مثل دیگر امور اور ان بدعات میں سے یہ بھی ہے کہ عبادات کو معین کرنا، معین اوقات کے ساتھ جن کی تعین شریعت نہیں پائی جاتی۔ جیسا کہ ۱۵شعبان اور اس کی رات کو پابندی کے ساتھ عبادت بجا لانے کا کوئی ثبوت شریعت میں نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام شاطبی اور دیگر محدثین کی تصریح سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شریعت نے جن عبادات و اطاعات کو مطلق چھوڑا ہے ، ان میں اپنی طرف سے پابندیاں عائد کرنا ان کی ہیئت و کیفیت کو بدلنا ہے۔ ان کو اوقات کے ساتھ معین کرنا گو یا دین کوبدلنا ہے اس کا نام تحریف ہے اور یہ گمراہی ہے۔
لہٰذا لوگوں کا نوافل کے لئے اہتمام ، خصوصی شبینہ کرنا، اس کے لئے لوگوں کو تیار کرنا، اس پر اصرار کرنا سراسر سنت اور سبیل المؤمنین کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، فقہاء ، محدثین رحمة اللہ علیہم نے اس تکلف اور اہتمام کو پسند نہیں کیا۔ لہٰذا اس بدعت سے اجتناب کرنا چاہیے اور عبادت کا جو طریقہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حج پر عورتوں کا بال کٹوانا

س: سنا ہے کہ جب حج کر کے عید کی نماز پڑھ کر حجامت کرواتے ہیں تو عورتیں بھی اپنے بال کاٹ لیتی ہیں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

ج: حج اور عمرہ کے موقع پر عورت اپنے سر کے بال کتر وا سکتی ہے۔ اس کی مشروعیت شریعت میں مذکور ہے۔ سنن ابو دائود اور دار قطنی میں حدیث ہے:
''عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں پر سر منڈانا نہیں بلکہ بال کترنا ہے'' (ابو دائود مع عون۲/۱۵۰، نیل الاوطار۵/۸۰)
امام قاضی شو کانی رحمہ اللہ علیہ نے نیل الاوطار ٨٠٥ پر لکھا ہے:
''یہ حدیث عورتوں کے بال کترانے کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے۔ اور حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے اس مسئلہ پر ائمہ کا اجماع نقل کیا ہے۔
اس حدیث کی تائید سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے سر مُنڈانے سے منع کیا ہے۔ یعنی عورتوں کے ذمہ صرف بال کترانا ہے ، مَردوں کی طرح مُنڈانا نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عورت کا حقیقی ولی کے بغیر نکاح کرنا

س: کیا عورت اپنے حقیقی ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کسی عارضٰ ولی کے ذریعے کر سکتی ہے؟

ج: ''سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کر لیا پس اس کا نکاح باطل ہے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی اور اگر مرد نے اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر لئے ہیں تو اس عورت کو مہر ادا کیا جائے کیونکہ مرد نے اس کی فرج کو حلال کیا ہے (اور جدائی ڈلوا دی جائے گی ) اور اگر عورت کے حقیقی ولی باپ کے علاوہ ولی ہوں اور وہ آپس میں جھگڑا کریں تو اس وقت حاکم ہی اس عورت کا ولی ہو گا جس کا کوئی ولی نہ ہو''۔(احمد و الترمزی)
اس حدیث سے صاف واضح ہے کہ حقیقی ولی کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوگا۔ عورت کی رضامندی اور ولی کی اجازت دونوں ضروری ہیں۔ امام حاکم نے نکاح میں ولی کی قید کئی صحابہ و صحابیات سے ثابت کی ہے ۔ اس کے خلاف اگر عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کی اجازت دی جائے تو معاشرہ میں بہت بگاڑ اور فساد پیدا ہو گا اور عصمتیں برباد ہوں گی اور عصمتوں کا تحفظ ختم ہو جائے گا۔
 
Top