• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حلالہ کی شرعی حیثیت

جب سے جسٹس شفیع محمدی کا روزنامہ جنگ۴جنوری۱۹۹۶ء و دیگر اخبارات میں حلالہ شکن فیصلہ شائع ہوا ہے، ملک کے طول و عرض میں حلالہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ہر خاص و عام حلالہ کی شرعی حیثیت معلوم کرنے کے لئے محو جستجو ہے۔کئی ایک جرائد و رسائل نے اس کی موافقت و مخالفت میں قلم اٹھایا ہے۔ اس مضمون کے بعد ہمارے چند قارئین نے کچھ سوالات بھیجے جن کا جواب زیر نظر مضمون میں تحریر کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ جنگ اخبار میں حنفی مولوی محمد صدیق ہزاروی نے اپنے مضمون میں حلالہ کے حق میں قرآن و سنت سے ہٹ کر جو عجیب و غریب دلائل اختیار کئے ، ان کا تفصیلی جواب بھی اس میں شامل ہے۔
مسنون طریقہ طلاق
اس سے قبل کہ سائل کے سوالات کا مفسل جواب تحریر کیا جائے ہم دوبارہ طلاق کا صحیح طریقہ ایک بار پھر بیان کرتے ہیں:
اسلام کے طریقہ طلاق میں مسلم مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ تین طلاقیں تین مرتبہ اس طریقے سے دے کہ حالتِ طہر جس میں اس نے مجامعت نہیں کی، میں ایک طلاق دے اور بیوی کو اسی حالت میں چھوڑ دے اور یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے۔ اگر خاوند دورانِ عدت اسے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے لیکن اگر وہ رجوع نہ کرے اور عدت ختم ہو جائے تو پھر وہ نئے نکاح کے ساتھ اس کو واپس لا سکتا ہے اور اگر شوہر ضرورت نہ سمجھے تو عورت کسی اور مرد کے ساتھ نکاح کرنے کی مجاز ہے اور اگر پہلی طلاق کے بعد شوہر نے اسے دوبارہ اپنی زوجیت میں لے لیا اور پھر دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے اور صلح صفائی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی تو وہ بعد عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق ہے اور عدت گزر جانے کے بعد اگر رکھنا چاہے تو تجدید نکاح ہو گا۔ لیکن اگر تیسری طلاق بھی دے دی تو پھر یہ عورت قطعی طور پر اس خاوند کے لئے حرام ہو جائے گی۔ اب رجوع کا حق ختم ہے۔ عورت عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کر سکتی ہے اور یہ نکاح صحیح شرعی طریقے کے مطابق مستقل بسنے کی نیت سے ہو گا نہ کہ شوہر اوّل کے لئے حلال ہونے کی غرض سے۔۔۔اب اگر اس کا یہ خاوند بھی فوت ہو گیا یا اس نے گھریلو ناچاقی کی بنا پر اسے طلاق دے دی تو یہ عورت اگر دوبارہ شوہر اوّل کی طرف لوٹنا چاہے تو عدت کے بعد اس کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے اور ایسا واقعہ ہزاروں میں سے شاید کوئی ایک آدھ ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کا ذکر سورة البقرة میں فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''طلاق (جس کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے) دوبار ہے۔ پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے۔''

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھااور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات کے بموجب ابتداء ہجرت میں جاہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کے اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہوتا تھااس صورتحال کو روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق (جس میں رجوع کی گنجائش ہو) زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے۔ اس کے بعد (امساک بمعروف)یعنی یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا (تسریح یا حسان)یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مرفوعاً مروی ہے اور ابنِ جریر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے تو (او تسریح یا حسان)سے مراد لی ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتیٰ کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت کو بخود اس سے الگ ہو جائے۔ (ابنِ جریر ، ابنِ کثیر)
سائل مذکور لکھتا ہے کہ:
''یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب پہلی طلاق کے بعد تین حیض کی مدت ختم ہو جائے گی تو اب عورت آزاد ہو گی۔ وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ مرد کو رجوع کا حق اب ختم ہو گیا۔ ہاں البتہ دونوں عدت کے ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے پھر ملنا چاہیں تو نیانکاح کر کے مل سکتے ہیں لیکن اب دونوں فریقوں کی رضامندی ضروری ہے۔ صرف خاوند کی رضا مندی سے نیا نکاح نہ ہو سکے گا۔''

اوپر والے پیراگراف کے حق میں آپ نے دلیل کے طور پر نہ کوئی قرآن کی آیت لکھی ہے اور نہ ہی کوئی حدیث مبارکہ اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کا کوئی واقعہ درج کیا ہے؟
ج: اس سوال کا جواب قرآن مجید میں سورة البقرة کے اندر موجود ہے۔ ملاحظہ کیجئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو (اگلے) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔ اگر دستور کے موافق آپس میں رضا مندی ہو جائے۔''(البقرۃ ۲۹۹)
اس آیت کریمہ سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ طلاق رجعی جو دو مرتبہ ہے، اس پیریڈ میں اگر عورت کی عدت مکمل ہو چکی ہو اور وہ مرد و عورت دوبارہ آپس میں رضا مندی کے ساتھ بسنا چاہیں تو انہیں نکاح کرنے سے منع نہیں کرنا چاہیے۔ اب اس آیت کریمہ کا شان نزول بھی ملاحظہ فرما لیں تا کہ آپ کی مزید تشفی ہو جائے:
''سیدنا حسن بصری سے مروی ہے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کا نکاح ایک آدمی کے ساتھ کیا ۔ اس نے اسے ایک طلاق دے دی (عدت گزر گئی) تو معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن اس سے علیحدہ ہو گئی۔ پھر وہ پیغام نکاح لے کر آیا تو معقل نے انکار کیا اور کہا میں نے اپنی معزز بہن کا نکاح تجھے دیا تھا۔ تو نے اسے طلاق دے دی اب تو پھر پیغام نکاح لے کر آ گیا ہے۔ اللہ کی قسم اب میں تجھے نکاح کر کے نہیں دوں گا اور معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن لوٹنا چاہتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی یہ آیت اتار دی: ''جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو ان کو اپنے (پہلے ) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔'' اس کے بعد معقل رضی اللہ عنہ نے کہا، ہا ں تجھے نکاح کر دیتا ہوں۔'' (بخاری۵۱۳۱، بیھقی ۱۳۸/۷، المعجم الکبیر للطبرانی۴۶۷/۲۰،الجزء الثالث والعشرین من حدیث ابی الطاسر القاضی محمد بن احمد الزسلی ص۲۹، رقم الحدیث۶۵واللفظ لہ)
مذکورہ بالا حدیث صحیح کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ جب عورت کو اس کا شوہر ایک طلاق دے دیتا ہے اور خاوند عدت کے اندررجوع نہیں کرتا تو اختتام عدت کے بعد اگر وہ مرد اور عورت باہم رضامندی سے رہنا چاہتے ہوں تو تجدید نکاح سے دوبارہ اپنا گھر آباد کر سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسری مرتبہ کبھی زندگی میں تعلقات کی کشیدگی ہو گئی اور مرد نے اپنی منکوحہ کو طلاق دے دی تو پھر اسی طرح عدت کے اندر رجوع کا حق ہے اور اختتام عدت کے بعد نئے نکاح سے جمع ہو سکرتفگطبتے ہیں۔ یہ دو حق رجعی اللہ تعالیٰ نے (الطّلاق مرّتٰن)میں ذکر کئے ہیں پھر (فان طللّقھا فلا تجل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجا غیرہ)میں تیسری مرتبہ طلاق کے بعد یہ حق ختم کر دیا گیا ہے۔ مفسرین نے اس سے اس بات کی توضیح کی کہ اکھٹی تین طلاقیں دینے سے تینوں واقعی نہیں ہوتیں بلکہ ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔ حنفی حضرات جو اکھٹی تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کرتے ہیں اور پھر اگلی صورت میں جو حلالہ والی بتاتے ہیں ، یہ قابل غور ہے اور مطلوب ہے۔
تین طلاقوں کے بعد۔۔۔۔
قرآن مجید نے تین طلاقیں (وقفہ بعد وقدہ)واقع ہونے کے بعد جو بتایا ہے کہ اب وہ عورت کسی دوسرے مرد سے جب تک نکاح نہ کر لے ، وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوتی۔ اس کی تفسیر تمام مفسرین نے یہی لکھا ہے کہ جس طرح پہلے خاوند کے ساتھ مقصد نکاح کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقل بسنے اور گھر کی آبادی کی نیت سے نکاح کیا تھا، اسی طرح دوسرے مرد سے بھی مستقل بسنے کی نیت سے نکاح ہو نہ کہ نکاح سے پہلے ہی یہ طے کر لیا جائے کہ ایک دو راتوں بعد اس خاوند نے مجھے طلاق دے دینی ہے۔
ہاں پھر وہ بھی اگر اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہو تو کر سکتی ہے۔ اس صورت کو حلالہ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اسی طرح نکاح صحیح کہلائے گا جس طرح پہلے خاوند کے ساتھ نکاح تھا۔ موجودہ حنفی حضرات آج کل اپنے دوسرے طریقے سے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے حلالہ قرار دے رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر اللہ کی لعنت ہو''۔
(مسند احمد۲/۳۲۳، بیہقی۷/۲۰۸، نسائی۶/۱۴۹، ترمذی۱۱۲۰،دارمی۲/۱۹۸، ابودائود۲۰۷۶٠٧٦)
اسی طرح فرمایا حلالہ کرنے والا اُدھار مانگے ہوئے سانڈھ کی طرح ہے۔ (ابنِ ماجہ۱۹۳۶، مستدرک حاکم۲/۱۹۸، بیہقی۷/۲۰۸)

اس مُحلّل (حلالہ کرنے والے )کی تشریح ائمہ لغت اور شارحین حدیث رحمۃ اللہ علیہم کے حوالے سے ملاحظہ کیجئے اور اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ حلالہ کس آفت و مصیبت کا نام ہے۔ حدیث کی لغت کی معروف کتاب الھایہ فی غریب الحدیث والاثر ۱/۴۳۱ پر مرقوم ہے:
''حلالہ یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے۔ پھر دوسرا آدمی اس عورت کے ساتھ اس شرط پر نکاح کرے کہ وہ اس کے ساتھ وطی کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے تا کہ پہلے کے لئے حلال ہو جائے۔''

احناف کی فقہی اصطلاحات پر شائع شدہ کتاب القاموس الفقھی ص۱۰۰٠مطبوعہ ادارہ القرآن کراچی میں مُحلّل کی تعریف یہ لکھی ہے کہ:
مُحلّل سے مراد حلالہ کرنے والا وہ شخص ہے جو مطلقہ ثلاثہ کے ساتھ اس لئے نکاح کرے تا کہ وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے اور حدیث شریف میں وارد ہے حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے ان دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔''
یہی معنی لغت کی مشہور کتب القامو س المحیط٣٧١٣ اور ا لمعجم الوسیط ص١٩٤ پر بھی موجود ہے۔

حلالہ کی تشریح احناف کے مشہور امام اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد محمد بن حسن الشیبانی کی زبانی ملاحظہ کیجئے۔ محمد بن حسن شیبانی اپنی کتاب الاثار رقم ٨٧٨ پر مُحلّل اورمُحلّل لہکی توضیح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
''مُحلّل (حلالہ کرنے والا) اور مُحلّل لہ(جس کے لئے حلالہ کیا جائے) کا بیان یہ ہے کہ ایک مرد اپنی عورت کو تین طلاقیں دے ۔ پھر چاہے کہ اس کا کسی دوسرے مرد سے نکاح کر دے تا کہ وہ اس کو اس کے لئے حلال کر دے۔'' (ص۳۷۹،مترجم ابو الفتح عزیزی، مطبوعہ سعید اینڈ کمپنی کراچی)
یہی معنی اور مفہوم شارح حدیث امام بغوی شرح السنہ ۱۰۱/۹، حافظ ابنِ حجر عسقلانی التلخیص الحبیر ۳/۱۷۱٣، امام ابنِ حزم المحلی، امام عبدالرحمن مبارکپوری تحفہ الاحوذی ۲/۱۸۵ اور علامہ معلّی یمانی سبل السلام میں تحریر فرماتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے عبارات درج نہیں کر رہے۔ یہ ہے وہ حلالہ جسے فقہ حنفی میں مختلف حیلوں اور بہانوں سے روا رکھا گیا۔
کیا پہلے سے طلاق لینے کی فاسد شرط کے ساتھ نکاح جائز ہو سکتا ہے؟
حلالہ کے متعلق۱۴ جنوری۱۹۹۶ء کے جنگ اخبار میں ایک حنفی مولوی محمد صدیق ہزاروی کا مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے امام ابو حنیفہ کا موقف یہ لکھا ہے کہ:
''اختلاف کی صورت میں یہ ہے کہ اگر اس شرط پر نکاح کیا جائے کہ دوسرا خاوند اسے طلاق دے دے گا تو کیا یہ نکاح ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ شرط بے کار ہو گی یا نکاح ہی نہیں ہو گا۔ اب اگر یہ نکاح صحیح قرار پائے تو طلاق کے بعد عورت کا پہلے خاوند سے نکاح جائز ہوگا اور اگر یہ نکاح صحیح قرار نہیں پاتا تو عورت پہلے خاوند کے لئے بدستور حرام رہے گی۔ سیدنا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہو گا کیونکہ فاسد شرائط سے نکاح کے انعقاد میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔''
یہ عبارت من و عن ہم نے نقل کر دی ہے ۔ اب اس کی وضاحت ملاحظہ کیجئے۔ مولوی صدیق ہزاروی نے اس عبارت میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک حلت (عورت کو حلال کروانے ) کی شرط پر نکاح صحیح ہو گا اور یہی بات فقہ حنفی کی معتبر کتب کنزالدقائق ص۱۲۶، مع فتح القدیر ۴/۳۴'۳۵ اور دیگر کتب فقہ میں موجود ہے۔ یہ تو آپ نے پیچھے پڑھ لیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرما ن کے مطابق حلالہ کرنے والا اور کروانے والا ملعون ہیں اور حلالہ کرنے والا اُدھار سانڈ کی مانند ہے۔ یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نکاح حلالہ صحیح نہیں بلکہ نکاح فاسد ہے۔ صاحب سبل السلام راقم ہیں:
مذکورہ حدیث حلالہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ لعنت کا اطلاق فعل حرام کے مرتکب پر ہی ہوتا ہے اور ہر حرام چیز پر شریعت میں نہی وارد ہے اور نہی فساد کا تقاضا ہے۔''
لہٰذا جب حلالہ حرام اور منہی عنہ ہے ، اس لئے یہ نکاح فاسد قرار پاتا ہے ۔ یہی مفہوم دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح حلالہ نکاح فاسد ہے ، زنا اور بدکاری ہے، نکاح صحیح نہیں ہے۔

سیرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے
''ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔پھر اس (طلاق دینے والے آدمی) کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس سے اس لئے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس عورت کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدکاری (زنا ) شمار کرتے تھے۔''(مستدرک حاکم ۲۸۰۶،۲/۲۱۷ط، قدیم،۲/۱۹۹، بیہقی۷/۲۰۸، التلخیص الحبیر باب موانع النکاح۱۰۳۹،۳/۱۷۱۔ تحفہ الاحوذی۲/۱۷۵، امام حاکم نے فرمایا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے اور امام ذہبی نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کی موافقت کی ہے)۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
''اللہ کی قسم میرے پاس حلالہ کرنے والا اور کروانے والا لایا گیا تو میں دونوں کو سنگسار کر دوں گا۔''

(مصنف عبدالرزاق ۲/۲۶۵، سن سعید بن منصور ۲/۴۹'۵۰ بیہقی۷/۲۰۸) فتوے سے بھی ہوتی ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے حلالے کی غرض سے نکاح کیا تھا تو انہوں نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور فرمایا ''یہ عورت حلالہ کے ذریعے پہلے خاوند کی طرف نہیں لوٹ سکتی بلکہ ایسے نکاح کے ذریعے لوٹ سکتی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو اور دھوکہ دہی کے علاوہ ہو۔'' (بیہقی۷/۲۰۸،۲۰۹)
اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ:
''کہ حلالہ کرنے والا مرد و عورت اگرچہ بیس سال اکھٹے رہیں ، وہ زناہی کرتے رہیں گے۔'' (مغنی ابنِ قدامہ۱۰/۵۱)

مذکورہ بالا احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ نکاح حلالہ صحیح نہیں بلکہ نکاح فاسد ، زنا اور بدکاری ہے ۔ امام ابو حنیفہ سے منسوب یہ موقف کہ ''شرط فاسد ہے لیکن نکاح صحیح ہے اور زوجِ اوّل کے لئے حلال ہو سکتی ہے'' حدیث کے خلاف ، غلط اور باطل ہے۔ اس کے لئے کوئی بھی شرعی دلیل موجود نہیں۔ امام ابو حنیفہ کے دونوں شاگردوں کا موقف بھی امام ابو حنیفہ کے خلاف ہے۔ صاحبین کے نزدیک حلالے والی عورت پہلے خاوند کی طرف نہیں لوٹ سکتی۔ مولوی صدیق ہزاروی نے امام ابو حنیفہ کا موقف صحیح ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل پیش کی ہے کہ:
''آیت کریمہ میں دوسرے کو مُحلّل قراردیا گیا ہے۔ اب اگر اس کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور پھر طلاق کی صورت میں عورت پہلے خاوند کے لئے حلال قرار نہ پائے تو اس کو مُحلّل کہنے کا کوئی مقصد نہیں رہتا۔ یہ نکاح صحیح ہو گا، البتہ یہ لوگ گنہگار ہوں گے۔''
حقیقت یہ ہے کہ اندھی تقلید کی وجہ سے حنفی علماء جب حیلوں اور بہانوں کے دروازے کھولنے پر آتے ہیں تو پھر قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کا حلیہ بگاڑتے ہوئے خوف خدا کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی جس آیت کریمہ کی طرف مولوی صدیق ہزاروی نے یہ بات منسوب کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں دوسرے آدمی کو مُحلّلکہاہے۔ اگر اس پر غور کرین تو اس صورت کا زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں اورا پنے مضمون میں کئی مفسرین کی تفسیروں کے حوالے سے یہ بات درج کی ہے، وہ اس صورت میں قطعاً مختلف ہے ۔ قرآن مجید کی آیت میں اگر ان کے بقول بشرط تحلیل نکاح کو جائز رکھا گیا ہے تو میرے بھائیو کیا جائز کام کرنے پر لعنت مرتب ہوتی ہے اور انسان گنہگار ہوتا ہے جبکہ مولوی صاحب اقراری ہیں کہ نکاح صحیح ہے البتہ لوگ گنہگار ہوں گے۔

رہا حدیث میں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دوسرے شخص کو مُحلّل قراردیا تو یہ اس وجہ سے نہیں کہ اس کے س غلط فعل کرنے سے وہ عوت کو پہلے خاوند کے لئے حلال کر سکتاہے بلکہ اس لئے مُحلّل کہاہے کہ اس نے عورت کو پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کا قصد کیا ہے اور یہی وجہ ہے اسے مُحلّل کہنے کی۔یہی معنی اوپر سیدنا عبداللہ بن عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ احادیث میں ہے۔ اس بات کو سمجھانے کے لئے میں قرآن کریم پیش کرتا ہوں۔ غور کیجئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''مہینے کا آگے پیچھے کرنا کفر میں زیادتی ہے۔ کافر اس وجہ سے گمراہ ہوتے ہیں ایک سال تو اس مہینہ میں لڑنا حلال کر لیتے ہیں اور ایک سال اس میں لڑنا حرام کرتے ہیں۔''(توبہ : ۳۷)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو (محلّون)اور(محرّمون)قرار دیا ہے تو کیا کفار کے یہ فعل کرنے سے واقعی حلت و حرمت ثابت ہو جاتی تھی یا کہ ان کے زعم باطل میں یہ حلال و حرام سمجھے جاتے تھے۔ جس طرح کفار کو حلال کرنے والے اور حرام کرنے والے کہنے سے کسی چیز کی حلت و حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ کفر کا غلط مقصد و ارادہ ہی مراد ہوتا ہے، اسی طرح حلالہ کرنے والے کو مُحلّل کہہ دینے سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوتی بلکہ اس بان پر اسے مُحلّل کہا کہ اس نے اسے حلال کرنے کا ارادہ قصد کیا ہے۔ یہی مفہوم ائمہ لغت اور شارحین حدیث نے بیان کیا ہے۔ النہایہ فی غریب الحدیث والاثر ص٤٣١١ پر ہے کہ :
''اس کو مُحلّل اس لئے کہا گیا کہ اس نے حلال کرنے کا قصد کیا ہے جیسا کہ سودا خریدنے والے کا ارادہ کرنے والے کو مشتری کہا جا تا ہے۔''

یہی معنی امام بغوی نے شرح السنہ۹/۱۰۱ پر لکھا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس شخص نے قرآن مجید کی حرام کردہ اشیاء کو حلال گردانا، وہ قرآن پر ایمان نہیں لایا۔'' (ترمذی باب فضائل قرآن)

اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کرنے والے کے لئے استحلّ کا لفظ استعمال کیا تو کیا اس کو مستحلّ کہہ دینے سے واقعی قرآن مجید کی حرام کردہ اشیاء حلال قرار پائیں گی۔
مندرجہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ کا بیان کیا گیا استدلال لفظ مُحلّل سے باطل ہے۔ حنفی حضرات نے حلالہ کو جائز رکھنے کے لئے طرح طرح کے حیلے اور بہانے بنا رکھے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے فقہ حنفی کی کتاب کبیر اور الکفایہ میں ہے:
''تین طلاقوں کے بعد جب حلالہ کے لئے عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے کر دیا جائے اور عورت کو یہ ڈر ہو کہ دوسرا خاوند اسے طلاق نہیں دے گا تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ عورت کہے میں نے اپنے آپ کو تیرے نکاح میں اس شرط پر دیا کہ طلاق کا معاملہ میرے ہاتھ میں ہو گا، جب بھی میں چاہوں گی تو مدر اس بات کو قبول کر لے تو جائز ہے اور معاملہ عورت کے ہاتھ میں ہوگا۔''

مذکورہ بالا فقہی نکتہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حنفی حضرات کے ہاں جو مروجہ حلالہ ہے اسے یہ بالکل جائز سمجھتے ہیں اور اس بدکاری کو جاری رکھنے کے لئے طرح طرح کی تاویلیں ان کے ہاں فقہ حنفیہ میں موجود ہیں۔ حنفی حضرات کے ہاں تو حلالہ اگر اس غرض سے کیا جائے کہ حلالہ کرنے والا یہ قصد کر لے کہ یہ عورت میرے پہلے بھائی کے لئے حلال ہو جائے تو اس کی اس نیت پر اسے اجر ملے گا۔ ملاحظہ کیجئے فتح القدیر شرح ہدایہ۴/۳۴، البحر الرائق شرح کنز الدقائق۴/۵۸، فتاویٰ شامی۲/۵۴۰، چلپی حاشیہ شرح وقایہ۲/۵۴۰ اردو دان حضرات ملاحظہ کریں نور الہدایہ ترجمہ شرح وقایہ۲/۴۹ اور تقریری ترمذی اردو محمد تقی عثمانی۳/۳۹۹۔

حنفیوں کا حلالہ اور شیعوں کا متعہ
حلالہ اور متعہ تقریباً دونوں ایک ہی ہیں جیسا کہ امام بغوی نے شرح السنہ ١٠١٩ پر لکھا ہے اور قاضی ابو یوسف جو فقہ حنفیہ کے سرتاج ہیں ان کے نزدیک حلالہ وقتی نکاح ہے اور فاسد ہے ملاحظہ کیجئے الجو ہرة النیرہ شرح قدوری ١٢٩٢، فتح القدیر ٣٤٤، فتاویٰ شامی ٥٤٠٢ وغیرہ۔ فقہ جعفریہ کے نزدیک متعہ بڑی با برکت چیز ہے اور اس کے بہت سے فضائل ہیں جیسا کہ شیعہ کی تفسیر منہج الصادقین اور برہان المتعہ میں مرقوم ہے کہ ایک بار متعہ کرنے والا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے درجہ پر ، دوبار کرنے والا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے درجہ پر ، تین بار متعہ کرنے والا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درجہ پر اور چار بار متعہ کرنے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے اور حنفیہ کے نزدیک پہلے بھائی کے لئے حلال کرنے کی غرض سے یہ کام کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر پائے گا۔ متعہ اور حلالہ دونوں صورتوں مین طے شدہ مدت کے لئے نام نہاد نکاح کیا جاتا ہے اور دونوں صورتوں میں بدکاری کو خوب فروغ ملتا ہے۔
''لعنت سے مراد رحمت ہے''
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک اور جھوٹی تاویل
ان حضرات کے حیلے اور بہانوں کے لئے حلالہ کی تاویل فاسد پر مبنی یہ حوالہ بھی مد نظر رکھئے۔ حنفی فقہ کی مشہور کتاب کنزالدقائق کی شرح مستخلص الحقائق صفحہ ١٢٦ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث ''حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہو''کی تاویل یہ لکھی ہے کہ اگر یہ حدیث بشرط تحلیل کے متعلق ہے تو اس میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کا لفظ بول کر رحمت مراد لی ہو۔ حنفی حضرات کی اس دیدہ دلیری پر غور کیجئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کو رحمت میں بدل دیا یعنی حلالہ کرنے والا اور کروانے والا دونوں رحمت کے مستحق ہیں۔ اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر اور بھی بہت سے چور دروازے کھل سکتے ہیں۔ مثلاً حدیث میں آتا ہے:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، سود کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کے گواہ بننے والوں پر لعنت کی ہے اور فرمایا یہ سارے برابر ہیں۔''
سود خور حضرات کہہ سکتے ہیں کہ فقہ حنفی ہمیں سود کھانے کی اجازت دیتی ہے۔ ممکن ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لعنت کا استعمال کیا ہو اور مراد رحمت لی ہو۔ اسی طرح ایک حدیث میں وارد ہے:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے بارے مٰں دس افراد پر لعنت کی ہے نچوڑنے والا، نچڑوانے والا، پینے والال، اس کو اٹھانے والا، جس کی طرف اسے اٹھایا جائے، شراب پلانے والا، بیچنے والا، اس کو خریدنے والاجس کے لئے اس کو خریدا جائے۔'' (ترمذی)
شرابی حضرات کے لئے نادر موقع ہے کہ کہہ دیں ، ممکن ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لعنت ہی استعمال کیا ہو۔ مراد رحمت لی ہو اسی طرح دیگر امپور ملعونہ کے بارے میں بھی اس طرح کے احتمالات پیدا کرکے جواز کی گنجائش نکالنے والے نکال سکتے ہیں۔ فقہ حنفیہ میں اس طرح کے بے شمار حیلے موجود ہیں جو مختلف امور محرمہ سر انجام دینے کے لئے بڑے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ انکے متعلق کسی دوسرے موقع پر گفتگو کریں گے انشاء اللہ ۔
آخر میں صرف اتنی عرض ہے کہ حنفی علماء کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہ ہونے کے باوجود صرف اس لئے ایک حرام چیز کو بھی تاویلیں کر کے حلال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کی اندھی تقلید کا تقاضا ہے۔ مقلدوں نے اپنے اپنے اماموں کے ناموں پر فرقے کھڑے کر دیئے اور پھر اپنے امام کی ہر بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے کہ ان کی ہر بات کو صحیح سمجھا جائے۔ یہ مقام امتیوں کو دینے کا نتیجہ ہے کہ آج ہم خرافات میں ڈوب گئے ہیں اور انہی خرافات کی وجہ سے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر طعن کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سڑف کتاب و سنت کے راستے پر چلائے۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حلالہ کے بارے میں

س: وضاحت کریں کہ حلالہ کیا ہوتا ہے کچھ دنوں پہلے سنا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے جب کہ دیوبندی حضرات اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔

ج: خاوند جب اپنی بیوی کو تیسری طلاق دے دے تو وہ عورت اس پر حرام ہو جاتی ہے جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کر کے اس سے مجامعت نہ کرلے اور وہ خاوند اسے خود بخود طلاق دے تو پھر یہ عورت اگر پہلے خاوند سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے کہ:
''اب اگر پھر تیسری بار اس کو طلاق دے دے تو وہ عورت اس پر حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے۔ اب اگر دوسرا خاوند اس کو طلاق دے دے تو پہلا خاوند اور یہ بیوی آپس میں ملاپ کر سکتے ہیں (یعنی نیا نکاح پڑھا کر) اگر دونوں یہ سمجھیں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے۔''(البقرہ : ۲۳۰)
اس کے برعکس جو لوگوں نے یہ طریقہ ایجاد کر رکھا ہے کہ دوسرے خاوند سے اس غرض سے نکاح کیاجائے کہ وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے اور یہ دوسرا خاوند اس کے ساتھ ایک رات یا اس سے کم وبیش حصہ گزار کر طلاق دے دے تو یہ حلالہ ہے ۔ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
''بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔'' (ترمذی۳/۴۲۸ (۱۱۹)، ابو دائود۲/۵۶۳ (۲۰۵۶)، ابنِ ماجہ۱/۶۲۲)

یہی حدیث ابنِ مسعود ، ابنِ عباس اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے بلکہ عقبہ بن عامر کی روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''کیا میں تمہیں مستعار سانڈھ کی خبر نہ دوں ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلالہ کرنے والا اُدھار لئے ہوئے سانڈھ کی طرح ہے اللہ تعالیٰ حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت کرے۔'' (ابنِ ماجہ۱/۶۲۳)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حلالہ کرنا اور کرانا حرام ہے۔ اور جو لوگ اسے جائز سمجھتے ہیں ان کا نظریہ ان صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
طلاقِ ثلاثہ کا شرعی حکم

س: مسمی محمد نواز بن اسماعیل مہاجر نے گھریلو ناچاقی کی بنا پر اپنی بیوی بشریٰ کو تین دفعہ یہ الفاظ کہے: میں نے تمہیں طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی۔ پھر اس عمل پر ندامت کے باعث اگلی ہی رات اپنی بیوی سے رجوع کر لیا اور اس واقعہ سے ڈیڑھ ماہ بعد مولوی عطاء اللہ حنفی نے محمد نواز کے چھوٹے بھائی محمد یار سے جو کہ نابا لغ تھا نکاح کر دیا جبکہ بیوی محمد نواز کے پاس ہی رہی۔۵ دن بعد مولوی صاحب نے خاوند کی والدہ کی موجودگی میں اس نا بالغ خاوند سے تینوں طلاقیں اکھٹی واپس لے لیں۔ نیز مولوی صاحب نے ہدایت کی کہ حلالہ کے دوران بیوی اپنے پہلے خاوند محمد نواز ہی کے پاس رہے گی۔ کتاب و سنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں۔

ج: اللہ تعالیٰ نے شریعت اسلامیہ میں مرد و زن کے درمیان ناچاقی کی بناء پر جو تفریق ہو جاتی ہے اس کا حل بڑے ہی احسن انداز میں فرمایا ہے۔ جب ایک خاوند اور بیوی کے درمیان تنازع اور اختلاف جنم لیتا ہے اور ان میں مودت و محبت ختم ہو جاتی ہے اور مرد اپنی منکوحہ کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتا تو اسے شریعت کی رو سے حق حاصل ہے کہ وہ اسے طلاق دے کر فارغ کر دے۔ طلاق کا صحیح طریق کار یہ ہے کہ مرد اپنی زوجہ کو اس طہر میں جس میں اس نے مجامعت نہیں کی ایک طلاق دے دے اور بیوی کو اسی حال میں چھوڑ دے یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے ۔ اختتامِ عدت پر بیوی کو ایک طلاق بائن پڑ جاتی ہے۔ دورانِ عدت اگر خاوند کو ندامت وغیرہ ہو اور وہ اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو اسے رکھ سکتا ہے اور اگر عدت گزرنے کے بعد دونوں میں صلح ہو جائے تو نکاح جدید کے ساتھ دوبارہ اپنا گھر آباد کر سکتے ہیں اور اگر شوہر عدت کے بعد بیوی کو بسانا نہ چاہے تو عورت آزاد ہے وہ کہیں اور اپنا عقد کرواسکتی ہے۔ اگر پہلی طلاق کے بعد شوہر اپنی مطلقہ کو زوجیت میں لے لیتا ہے اور اس کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لیتا ہے اور پھر کسی وقت دونوں میں شیطانی وساوس و خطرات کی بنا پر حالات کشیدہ ہو گئے اور صلح و صفائی نہ ہو سکی تو دوسری طلاق دے سکتا ہے جیسا کہ اوپر مذکورہ ہوا۔ اور دوسری طلاق کے بعد عدت کے دوران مرد کو رجوع کا حق ہے اور عدت کے بعد نکاح جدید سے دوبارہ خانہ آبادی ہو سکتی ہے اس کے بعد پھر کبھی تیسری طلاق دے ذالی تو عورت قطعی طور پر حرام ہو جائے گی اور رجوع کا حق ختم ہو جائے گا۔ عورت عدت گزر کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرواسکتی ہے اور یہ نکاح شرعی طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی نیت سے ہو نہ کہ شوہر اوّل کے لئے حلال ہونے کی غرض سے۔۔۔ اب اگر زوجِ ثانی فوت ہو گیا یا زندگی میں کبھی اس نے طلاق دے دی اور یہ عورت دوبارہ اگر شوہراوّل کی طرف لوٹنا چاہے تو عدت کے بعد اس کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے اور ایسا واقعہ ہزاروں میں سے شاید کوئی ایک آدھ ہوا ہو۔
زمانۂ جاہلیت میں لوگ اپنی بیویوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کے اندر رجوع کرتے رہتے تھے نہ عورت کو صحیح بساتے اور نہ ہی آزاد کرتے۔ مقصد زوجہ کو تنگ کرنا ہوتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اس دستور کو ختم کر کے دوبار رجوع کا حق دے دیا اور تیسری بار بالکل ان کا رشتہ ختم کر ڈالا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''طلاق (جس کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے) دوبار ہے پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے۔''(البقرہ : ۲۲۹)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے (الطّلاق مرّتٰن)فرمایا ہے اور مرّتان مرّة کا تثنیہ ہے جس کا مطلب صاف ہے کہ طلاق دو مرتبہ وقفہ بعد وقفہ ہے نہ کہ اکھٹی دو طلاقیں اور اس کی کئی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ایک مقام پر فرمایا:
''اے ایمان والوں تم سے تین مرتبہ تمہارے غلام اور نابالغ بچے بھی اذن طلب کیا کریں نماز فجر سے پہلے اور جب تم دوپہر کو اپنے کپڑتے اتارتے ہو۔ اور عشاء کی نماز کے بعد اور یہ تین اوقات تمہارے لئے پردے کے ہیں۔''(نور : ۵۸)
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ثلاث مرّات کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ مرة کی جمع ہے اور ساتھ ہی اس کی وضاحت بھی کر دی کہ یہ تین اوقات وقفہ بعد وقفہ ہیں جس سے معلوم ہوا کہ مرة میں دفعہ کا مفہوم شامل ہے۔ لہٰذا (الطّلاق مرّتٰن)کا معنی یہ ہوا کہ دو مرتبہ وقفہ بعد وقفہ طلاق ہے جس میں مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ اگر بیک وقت ان طلاقوں کا نفاذ کر دیا جائے تو مرد کو اللہ نے جو سوچ بچار کا وقفہ فراہم کیا تھا وہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے شریعت اسلامیہ میں بیک وقت اکھٹی تین طلاقیں دینے کو شرع سے مذاق قرار دیا گیا ہے جیسا کہ سنن نسائی کتاب الطلاق میں حدیث ہے کہ ایک آدمی نے عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں تین اکھٹی طلاقیں دے دیں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا:
''کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔''
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اکھٹی تین طلاقیں دے دینا شریعت کے ساتھ مذاق ہے اور حرام و ناجائز ہے۔

(الطّلاق مرّتٰن) کے بعد پھر آگے ارشاد فرمایا :
''پھر اگر وہ اس کو طلاق دے دے (یعنی تیسری طلاق)تو اب وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے پھر اگر وہ (شوہر ثانی ) اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ آپس میں رجوع کر لیں اگر انہیں یقین ہے کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے۔''(البقرہ : ۲۳۰)

یعنی اس طرح وقفہ بعد وقفہ تیسری طلاق واقع ہو جائے تو عورت مرد کے لئے قطعی طور پر حرام ہو جائے گی تاوقتیکہ عورت کا خانہ آبادی کی خاطر کسی دوسرے مرد سے نکاح ہو اور حسب دستور زندگی گزاریں اور پھر کبھی نا چاقی ہو تو زوج ثانی طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو پھر شوہر اوّل کی طرف بیوی لوٹ سکتی ہے۔ بیک وقت اکھٹی تین طلاقیں دے دینے سے صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے شریعت اسلامیہ کا یہی فتویٰ ہے اور عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہی طریق کار تھا جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
''رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالوں میں اکھٹی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھی۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس کام میں لوگوں کے لئے سوچ و بچار کی مہلت دی گئی تھی اس میں انہوںنے جلد ی کی۔ اگر ہم ان تینوں پر لازم کردیں۔۔۔ تو انہوں نے اس فیصلے کو ان پر لازم کر دیا۔'' (صحیح مسلم۱/۴۷۷، مسند احمد۱/۳۱۴)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور عہدِ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں اکھٹی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھی اور عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ شرعی فیصلہ تھا کیونکہ دین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص پر وحی نازل نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ کیا وہ تہدید اً اور بطورِ سزا کے تھا نہ کہ شرعاً اس طرح درست تھا۔
اور یہ فیصلہ اگر شرعی تھا سیاسی و تعزیری نہ تھا تو عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ، عہدِ ابی بکر اور خود ان کے ابتدائی دو سالوں میں جو فیصلہ تھا پھر اس کی کیا حیثیت بنتی ہے یہی بات ہے کہ حنفی علماء نے بھی اس کو تعزیری اور سیاسی فیصلہ ہی تسلیم کیا ہے جو کہ ایک حاکم وقت بعض اوقات جاری کر دیتا ہے اس بات کی تفصیل فقہ حنفی کی معروف کتاب جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی ١١٥٢ پر موجود ہے۔

لہٰذا سال مذکور نے جو اپنی زوجہ کو تین اکھٹی طلاقیں دے دیں وہ شرعاً ایک طلا ق رجعی واقع ہوئی ہے اور سائل نے ایک دن بعد جو اپنی زوجہ سے رجوع کر لیا یہ اس کا شرعی ھق ہے جو اللہ تعالیٰ نے (الطّلاق مرّتٰن) میں عنایت فرمایا اور اس کے بعد حنفی مولوی کا سائل کی بیوی کو حلالہ کے لئے اس کے بھائی سے نکاح پڑھنا شرعاً فعل حرام ہے اور مولوی مذکور کی جہالت ، نادانی، بے وقوفی اور حماقت ہے ۔ ایسے ہی جاہل مولوی لوگوں کی گمراہی کا باعث بنتے ہیں۔ سائل کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی مذکور اپنے مذہب سے بھی بے خبر اور جاہل ہے۔ دوران عدت نکاح پڑھنا کسی بھی مکتب فکر کے نزدیک جائز نہیں فقہ حنفی کی رو سے جو طلاقِ ثلاثہ کا وقوع ہونا ہے اس کی اجازت نہیں کہ عدت کے دوران ہی نکاح حلالہ کیا جائے اور عورت کو پہلے خاوند کے پاس ہی رہنے دیا جائے اور نکاھ دوسرے شہور سے پڑھ دیا جائے۔ یہ ایک لطیفہ سے کم نہیں۔ بہر کیف حلالہ کروانا شرعاً ناجائز و حرام ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل پر لعنت ذکر کی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے زنا سمجھتے تھے:
''سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ حلالہ کرنے والے اور کروانے والے پر لعنت کرے۔'' (مسند احمد۲/۲۲۳، بیہقی۷/۲۷)

علاوہ ازیں یہی حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نسائی ، ابنِ ابی شیبہ، جامع ترمذی اور سنن دارمی میں موجود ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح اور امام ابنِ قطان نے بخاری کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ کیجئے التلخیص الحبیر لا بن حجر عسقلانی علاوہ ازیں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''کیا میں تمہیں ادھار سانڈھ کی خبر نہ دوں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ۖ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حلالہ کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت کرے۔ ''
(ابنِ ماجہ۱۹۳۲، مستدرک حاکم۲/۱۹۸، بیہقی۷/۲۰۸)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
''اللہ کی قسم میرے پاس حلالہ کرنے والا اور کروانے والا لایا گیا تو میں دونوں کو سنگسار کر دوں گا۔''
(مصنف عبدالرازق۲/۲۶۵، سنن سعید بن منصور۲/۴۹،۵۰ ، بیہقی۷/۲۰۸)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:
''حلالہ کرنے والا مرد و عورت اگرچہ بیس سال اکھٹے رہیں، وہ زنا ہی کرتے رہیں گے۔'' (المغنی ابنِ قدامہ ۱۰/۵۱)

''ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر طلاق دہندہ کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس عورت سے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نکاح شرعی کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے (یعنی حلالہ) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدکاری (زنا) شمار کرتے تھے۔'' (ملاحظہ ہو: مستدرک حاکم۲۸۶،۲/۲۱۷، بیہقی۷/۲۰۸ التلخیص الحبیر۳/۱۷۱۔ تحفة الاحوذی ١٧٥٢، امام حاکم نے اس روایت کو بخاری مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی اس پر موافقت کی ہے)

مذکور بالا احادیث و آثار صحیحہ سے معلوم ہوا کہ حلالہ کرنا زنا ہے اور فعل حرام حلالہ کرنے اور کروانے والا لعنتی ہے۔ لہٰذا مولوی مذکور کا سائل کی زوجہ کا حلالہ کے لئے دعوت دینا بلکہ نکاح حلالہ پڑھنا فعل حرام کا ارتکاب ہے اور شریعت اسلامی کی رو سے بدکاری و فحاشی کو پھیلانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لعنتی عمل سے محفوظ رکھے مذکورہ بالا دلائل کی رو سے سائل مذکور نے جواپنی زوجہ کو تین طلاقیں اکھٹی دے ڈالیں وہ شرعاً ایک طلاق رجعی ہے جس میں اسے رجوع کا حق حاصل ہے اور سائل نے اپنے اس حق کو استعمال کر کے اپنی زوجہ سے رجوع کر لیا اور دوبارہ خانہ آبادی کر لی ہے۔ اب یہ بلا تردد و شبہ اپنا گھر آباد رکھیں رجوع کے بعد حنفی مولوی کا نکاح حلالہ پڑھنا پھر تین طلاقیں دلوانا سارا کام عبث ، ناجائز و حرام ہے اور یہ نکاح باطل ہے جس کی تنفیذ نہیں ہو سکتی۔
نوٹ : بریلوی علماء میں سے چیف جسٹس پیر کرم شاہ بھیروی کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ تفصیل کے لئے ان کی تفسیر ضیاء القرآن سورة البقرة ملاحظہ کریں اس طرح کئی حنفی علماء کے فتاویٰ اس موقف کی تائید میں ''مجموعہ مقالاتِ علمیہ، ایک مجلس کی تین طلاق'' کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حالتِ حمل میں دی ہوئی طلاق کا حکم

س: میرے ایک دوست محمد سلیم ولد شہاب الدین نے اپنی بیوی کو اس کی والدہ اور بھائی کے روبرو تین مرتبہ یہ کہہ کر کہ ''میں تجھے طلاق دیتا ہوں'' چلاگیا جبکہ اس کی بیوی سات آٹھ ماہ سے حاملہ بھی ہے اس کے بارے میں فتویٰ صادر فرمائیں کہ آیا صلح صفائی کی کوئی صورت ہو سکتی ہے یا کہ طلاق کامل ہو چکی ہے؟ (خواجہ رشید ، لاہور)

ج: حالتِ حمل میں ہونے والی طلاق کو طلاق سنی کہا جاتا ہے ۔ اس طلاق میں عدت کے اندر رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہ والی روایت صحیح مسلم (۲/۱۰۴۵ (۱۴۷۱) میں ہے جس میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ سیدنا ابنِ عمر نے الت حیض میں طلاق دی تو سیدنا عمر کو رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ اسے حکم دیں کہ وہ رجوع کرے پھر حالت طہر یا حمل میں طلاق دے۔ معلوم ہوا کہ حالت حمل میں دی ہوئی طلاق کا وقوع ہو جاتا ہے اور مرد کو رجوع کا حق ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''یعنی ان کے خاوند اگر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔''(البقرہ : ۲۲۸)

صورتِ مسئولہ میں عدت چونکہ وضع حمل ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ جننے) تک ہے۔''

تین بار اکھٹی طلاق دینے سے ایک ہی طلاق رجعی واقع ہوتی ہے اور قرآن و سنت سے یہی ثابت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''رجعی طلاقیں وہ ہیں اس کے بعد یا تو بیوی کو آباد رکھنا ہے یا پھر شائستگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔''
اس آیت میں لفظ مرّتان کا مطلب مرّة بعد مرّة یعنی ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ طلاق دینا، نہ کہ محض لفظی تکرار اگر دو طلاقیں ہوتا تو آیت یوں ہوتی الطلاق طلقتان جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے اس کی مثالیں قرآن مجید میں مذکور ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔''(توبہ : ۱۲۶)

اور دوسری جگہ فرمایا:
''اے ایمان والوں تمہارے مملوک اور تمہارے نابالغ بچے تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں۔''(نور : ۵۸)
اس آیت کے بعد ان تین اوقات کی تفصیل بیان کر دی۔ ظاہر ہے یہاں ثلاث کا مطلب الگ الگ تین اوقات ہیں نہ کہ ایک ہی زمانہ میں تین اوقات کا اجتماع۔ اس سے واضح ہوا کہ مرّتان کا مطلب ہے کہ طلاق رجعی دو دفعہ ہے نہ کہ دو طلاقیں اکھٹی۔
اب چند ایک صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں:
''سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دو سال تک تین طلاقیں (اکھٹی ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔'' (مسلم۲/۱۰۹۹)
اب اس کے بعد ایک صحیح اور سچا واقعہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ملاحظہ کریں:
''رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور اس پر بہت رنجور اور غمگین ہوا۔ تو اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو نے کیسے طلاق دی اُس نے کہا میں نے اکھٹی تین طلاقیں دے دی ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ایک ہی مجلس میں اُس نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ ایک ہی واقع ہوئی ہے اگر تو چاہتا ہے تو رجوع کر لے تو اُس نے رجوع کر لیا۔'' (مسند احمد۱/۲۶۵، مسند ابی یعلیٰ(۲۴۹۵)۲۵/۳، بیہقی۷/۳۳۹، فتح الباری۹/۳۲۳، اغاثہ اللفہان۱/۳۰۵)۔
تین اکھٹی طلاقوں میں یہی مسلک طائوس ، ابنِ اسحاق، حجاج بن ارطاة ، محمد بن مقاتل تلمیذ امام ابو حنیفہ اور ظاہریہ کا ہے۔ علامہ عینی حنفی نے عمدة القاری ٥٣٧٩ پر ایسے ہی درج کیا ہے۔
قاضی شوکانی نے نیل الاوطار۶/۲۴۵ پر لکھا ہے کہ اہل علم کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ طلاق، طلاق کے پیچھے واقع نہیں ہوتی اور ایسی صورت میں صرف ایک ہی طلاق پڑتی ہے۔ صاحب بحر نے اس کو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اور ایک روایت سیدنا علی اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہم سے طائوس ، عطاء بن جابر بن یزید ، ہادی قاسم، ناصر احمد بن عیسیٰ و عبداللہ بن موسیٰ بن عبداللہ اور زید بن علی اور متاخرین ائمہ فقہا ء محدثین میں سے امام ابنِ قیم رحمة اللہ علیہما وغیرہ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے۔ مشائخ قرطبہ میں محمد بن بقی، محمد بن عبدالسلام وغیرہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
لہٰذا مذکورہ بالا صورت میں محمد سلیم ولد شہاب الدین اپنی بیوی سے وضع حمل سے قبل رجوع کر سکتا ہے۔ ایک ہی طلاق رجعی واقع ہوئی ہے حلالہ جیسے ملعون فعل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ایک محفل میں غلطی سے تین دفعہ طلاق کہنے کے بعد کیا کرے؟
س: کسی نے ایک محفل میںاپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق کہہ دیا پھر اس کو غلطی کا احساس ہوا۔ اب وہ دونوں اکھٹے رہنا چاہتے ہیں کیا یہ طلاق ہو گی یا نہیں؟ اگر طلاق ہو گئی ہے تو واپس میاں بیوی کے ملنے کا طریقہ کیا ہے؟ اگر طلاق نہیں ہوئی تو طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔

ج: مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی ہے لیکن یہ ایک ہی طلاق ہو گی۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
''رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ، ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دو سالوں تک تین مرتبہ طلاق کہنے سے ایک طلاق واقع ہوتی تھی۔''(صحیح مسلم ۱/۴۲۲)
اب اگر اس مطلقہ عورت کی عدت گزر چکی ہے تو نیا نکاح کر سکتا ہے۔ ورنہ عدت کے اندر بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے۔ ( والمطلّقات یتربّصن بانفسھنّ ثلاثة قروئٍ)آگے ہے (وبعولتھن احقّ بردّھن فی ذٰلک ان ارادو ا اصلاحا) (بقرہ: ۲۲۸) کہ طلاق دی گئی عورتیں تین حیض انتظار کریں اور اس مدت کے اندر ان کے خاوند ان کو لوٹنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ دوسری آیت میں ہے:
''کہ جب تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی ، پھر وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔''(البقرہ : ۲۳۲)
باقی شریعت میں صحیح طلاق کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی منکوحہ، مدخولہ کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اُس نے مجامعت نہ کی ہو یا حمل کی حالت میں اور ایک مرتبہ طلاق کا لفظ منہ سے نکالے۔ یہ طلاق سنی کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ جتنی صورتیں ہیں وہ طلاق بدعی میں داخل ہیں اور اگر غیر مدخول بہا ہے (یعنی ابھی تک بیوی کا حق زوجیت ادا نہیں کیا) تو جب چاہے حیض میں طہر میں طلاق دے سکتا ہے کیونکہ اس کی عدت نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
الگ الگ تین طلاقوں کے بعد؟
س: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص زید اور اس کی بیوی کے درمیان ساڑھے پانچ سال سے تنازعہ چل رہا تھا جس کی بنا پر زید نے عرصہ چار سال ہوئے اپنی بیوی کو ایک طلاق زبانی دی۔ پھر لوگوں نے صلح کرادی اور شوہر نے بیوی سے رجوع کر لیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد زید نے دوسری مرتبہ ایک طلاق زبانی دے دی لیکن اہل محلہ کی مداخلت پر پھر صلح ہو گئی اور زید نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ اب مورخہ ۵/۵/۹۶ کو پھر تین طلاق یکدم تحریر کر کے بذریعہ رجسٹری ڈاک زید نے اپنی بیوی کو ارسال کر دی ہیں۔ بیوی اپنے ذاتی مکان میں رہتی ہے۔ شوہر بھی اس کے ہمراہ رہتا ہے۔ اب ایسی صورت میں کیا بیوی کو تین طلاقیں واقع ہو گئیں یا پھر کوئی صلح کی گنجائش باقی ہے؟ اور اس صورت میں شوہر بیوی کے ہمراہ رہ سکتا ہے یا نہیں؟ جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائیں۔

ج: زمانۂ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ خاوند جتنی چاہتا اپنی بیوی کو طلاقیں دے دیتا اور عدت کے اندر رجوع کر لیتا۔ اس سے مقصود عورتوں کو تنگ کرنا ہوتا تھا۔ عورتوں کی جان غضب میں تھی کہ خاوند نے طلاق دی اور عدت گزرنے کے قریب آئی تورجوع کر لیا پھر طلاق دے دی پھر عدت کے اندر رجوع کر لیا۔ اسی طرح ساری زندگی بیوی کو ظلم و ستم کی چکی میں پیستے رہنا ان کی عادت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کار کو ختم کر کے طلاق کی تعداد کی حد بندی کر دی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں:
''کہ مرد اپنی منکوحہ کو جتنی چاہتا طلاقیں دے دیتا اور دوران عدت وہ جب بھی اس سے رجوع کر لیتا، وہ اس کی بیوی ہی رہتی خواہ اسے سو یا اس سے زائد طلاقیں دے دیتا یہاں تک کہ ایک وہر نے اپنی بیوی سے کہا اللہ کی قسم نہ میں تمہیں ایسی طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو جائے اور نہ ہی تجھ کو اپنے پاس رکھوں گا۔ اس نے کہا وہ کیسے؟ خاوند نے کہا جب تیری عدت ختم ہونے لگے گی ، میں تجھ سے رجوع کر لوں گا۔ وہ عورت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئی اور ان کو اس واقعہ کی خبر دی۔ وہ خاموش ہو گئیں۔ یہاں تک کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے اس بات کی اطلاع انہیں دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا: ''طلاق دو مرتبہ ہے (وقفہ بعد وقفہ) معروف طریقے پر رجوع کرنا ہو گا یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہوگا۔'' (ترمذی۱/۲۲۴، مستدرک حاکم۲/۲۷۹)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ لوگوں نے مستقبل میں اس طریقہ طلاق کو جاری کر دیا جس نے پہلے طلاق دی تھی یا نہیں دی تھی۔ (الطّلاق مرّتٰن)کے شانِ نزول سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمانہ ٔ جاہلیت کے طریقہ طلاق جس میں مرد کئی بار طلاق دیتا اور رجوع کرتا تھا کو محدود کر کے دو مرتبہ طلاق تک رجوع کا حکم رکھا۔ یعنی مرد اپنی بیوی کو وقفہ بعد وقفہ دو طلاقیں دے سکتا ہے اور ان کے دوران مرد کو اپنی بیوی سے تعلقات بحال رکھنے کی اجازت ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ دورانِ عدت رجوع کر لے یا عدت کے گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کر لے اور اگر دوبارہ طلاق دے کر پھر دوبارہ تعلقات بحال کر لینے کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دے تو یہ عورت اس مرد پر قطعی طور پر حرام ہو جائے گی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اگر اس نے (تیسری ) طلاق دے دی تو وہ اس کے لئے اتنی دیر تک حلال نہیں جب تک وہ کسی دوسرے آدمی سے نکاح نہ کر لے۔''(البقرہ)
یعنی وہ عورت نکاح کے مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے نکاح کر لے اور وہ مرد فوت ہو جائے یا اپنی مرضی سے طلاق دے دی تو یہ عورت اور پہلا خاوند اگر دونوں رضامند ہو جائیں اور یقین ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم رکھ سکیں گے تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''یعنی دوسرا خاوند عورت میں رغبت رکھنے والا اور اس کے ساتھ ہمیشہ زندگی گزارنے کا ارادہ رکھنے والا ہو جیسا کہ مقاصد نکاح میں یہ افعال جائز رکھے گئے ہیں۔''(تفسیر ابنِ کثیر ۱/۲۹۹)
آگے فرماتے ہیں:
''اگر دوسرے خاوند نے اس عورت کو پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کے غرض سے نکاح کیا تو یہ شخص محلل (حلالہ کرنے والا) ہے جس کی مزمت اور لعنت کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہیں" (ابن کثیر ۱/۲۹۹)
دوسرے خاوند کے ساتھ جب زندگی گزارنے کی غرض سے نکاح کیا تو اس میں یہ شرط ہے کہ اس خاوند نے طلاق دینے سے قبل اس عورت کے ساتھ جماع کیا ہو وگر نہ یہ عورت پہلے خاوند کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ رفاعہ قرظی نے جب اپنی بیوی تمیمہ بنت وہب کو آخری (تیسری) طلاق بھیجی تو اس کا نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے ہو گیا۔ وہ عوت رسول ِ مکرم ۖکے پاس شکایت لے کر آئی کہ عبدالرحمن اس کے مطلب کا آدمی نہیں۔ میں تو اپنے پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا جب تک وہ تم سے اور تم اس سے بذریعہ مجامعت لطف اندوز نہ ہو جائو۔ یہ حدیث مسند احمد اور ابنِ ماجہ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔
مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ تین طلاقیں وقفہ بعد قفہ ہو جانے کے بعد عورت پہلے خاوند پر قطعی حرام ہو جاتی ہے۔ اب ان دونوں کے دوبارہ تعلقات بحال ہونے کی ایک ہی شکل ہے کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے آدمی سے مقاصد نکاح یعنی عفت و پاکدامنی ، خانہ آبادی وغیرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جائے اور وہ مرد اس کے حقوق زوجیت ادا کرے ۔ پھر کبھی ان میں ناچاقی ہو جائے جس کی بنا پر وہ طلاق دے دے یا فوت ہو جائے اور عدت کے اختتام کے بعد اگر یہ عورت اور پہلا خاوند آپس میں رضا مند ہو جائیں اور یقین ہو کہ اب وہ مل کر حدود اللہ کو قائم رکھ سکیں گے تو دوبارہ آپس میں نکاح کر سکتے ہیں۔ اور اگر دوسرے خاوند کے ساتھ پہلے کے لئے حلال ہونے کی غرض سے نکاح کیا تو یہ فعل حرام ہو گا اور لعنت کے مستحق ٹھہریں گے اور عورت پہلے خاوند کی طرف دوبارہ واپس نہیں لوٹ سکتی۔
صورت مسئولہ میں زید اپنی بیوی کو وقفہ بعد وقفہ تین طلاقیں پوری دے چکا ہے جو کہ تینوں لاگو ہو چکی ہیں۔ اب اس کے بعد زید کو اس عورت کے ساتھ رہنے کا شرعاً کوئی حق نہیں رہا۔ یاد رہے کہ مرد اپنی عورت کو اکھٹی تین طلاقیں ایک مجلس میں اگر دے تو از روئے شریعت ایک ہی سمجھی جائے گی جس میںرجوع ممکن ہے۔ صورت مسئولہ میں زید چونکہ پہلے دو طلاقیں الگ الگ دے چکا ہے ، اب وہ آخری طلاق ایک مجلس میں چاہے ایک مرتبہ چاہے اکھٹی تین یا تین سے زائد مرتبہ دے، وہ ایک ہی ہوگی۔ لیکن پہلی دو طلاقوں کے ساتھ یہ طلاق شامل ہونے کی وجہ سے اب تینوں طلاقیں پوری ہو گئیں۔ اب عورت مرد پر یقینی طور پر حرام ہے اور مرد اب اس عورت سے کسی صورت رجوع نہیں کر سکتا۔ سوائے اس صورت کے کہ جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ وہ عورت نئے خاوند کے ساتھ نکاح کرے ۔ یہ نکاح عارضی طور پر پہلے خاوند کے لئے حلال ہونے کی غرض سے نہ کیا جائے کیونکہ یہ حلالہ ہے اور حلالہ پر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے البتہ نیا خاوند اگر اتفاقاً اسے طلاق دے دے یا وہ فوت ہو جائے تو تب وہ عورت پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سابقہ دی ہوئی طلاقیں رجوع کے بعد مستقل میں شمار ہونگی؟
س: ایک آدمی اپنی بیوی کو دو طلاقیں بیک وقت دیتا ہے اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کرتا ہے کیا یہ طلاق رجوع کے بعد آئندہ زندگی میں شمار ہو گی یا نہیں؟ اس کے بعد وہ پھر طلاق دے دیتا ہے تو کیا یہ تیسری طلاق ہو گی یا پہلی؟ یعنی پہلی وہ ختم ہو جائیں گی یا برقرار رہیں گی؟ اس تیسری طلاق کا کئی لوگوں کے سامنے اقرار کرنے کے بعد باپ کی لعن طعن سے وہ بیوی کو گھر لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے تیسری طلاق نہیں دی۔ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ یہ بیوی اس کے لئے حلا ل ہے یا نہیں؟

ج: طلاق دینے کا شرعی طریقہ پہلے وسال میں گزر چکا ہے۔ بغیر رجوع کے ایک مجلس میں ایک سے زیادہ دی گئی طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی ، کیونکہ جب اُ سنے ایک مرتبہ طلاق کا کلمہ کہہ دیا عورت کو طلاق ہو گئی ۔ عدت ختم ہونے وہ دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے ۔ اب دوسری مرتبہ جب بغیر رجوع کے طلاق کا لفظ کہتا ہے تو یہ مطلقہ عورت کو طلاق دے رہا ہے اور یہ بالکل لغو بات ہے۔ مذکورہ صورت میں پہلے دو طلاقیں ایک ہی شمار ہو ں گی اور رجوع کے بعد آئندہ زندگی کیلئے بھی رہیں گی۔ اب اگر رجوع کے بعد دوبارہ طلاق دیتا ہے تو یہ دوسری شمار ہو گی۔ عدت کے اندر اس کو رجوع کا حق ہے اور عدت کے بعد نیا نکاح بھی کر سکتاہے ۔ اب رجوع یا نکاح جدید کے بعد یہ شخص پھر سے طلاق دے گا تو یہ تیسری شمار ہو گی۔ جس کے بعد اس کے لے رجوع کا حق ختم ہو جاتاہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
زبردستی خلع
س: میرے بھائیوں نے میرے خاوند سے اپنی ذاتی رنجش کی بنا پر مجھے اس سے الگ کرنے کے لئے خلع نامہ لکھ کر مجھ سے زبردستی دستخط کروالئے اور ساتھ تین مرتبہ طلاق کا لفظ بھی لکھا ۔ جسے پڑھ کر اُس نے مجھے طلاق دے دی۔ میں نے طلاق کے ایک ماہ بعد رابطہ کی کوشش کی لیکن نہ ہو سکا۔ اب تقریباً۵ ماہ بعد ہم ملے اکھٹے رہنا چاہا تو معلوم ہوا کہ طلاق ہو گئی ہے۔ اب میرے سسر ہمارے درمیان رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جبکہ میرا خاوند بھی ان کی بات مانتا ہے۔ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا حل بتائیں کہ جس سے ہمارے سابقہ رشتے جڑ جائیں ساتھ یہ بھی وضاحت کردیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے ملتے ہیں باہر اکھٹے گھومتے پھرتے بھی ہیں کیا یہ ٹھیک ہے؟

ج: صورتِ مسئولہ میں عورت کو طلاق رجعی ہوئی ہے جس میں خاوند کو عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرنے کا حق تھا لیکن رجوع نہ کر سکا۔ اب خاوند کو نیا نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ اور وہ نیا نکاح کر کے اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے گھر بسا سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
''اور مطلقہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں اور اللہ نے جو کچھ ان کے پیٹوں میں پیدا کر رکھا ہے۔ اس کو نہ چھپا دیں اگر وہ اللہ اور قیامت کے دن ایمان رکھتی ہیں اور ان کے خاوندوں کو اس مدت کے اندر لوٹانے کا حق ہے۔''(البقرہ : ۲۲۸)
دوسری آیت کریمہ میں ہے:
''کہ جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو پس وہ اپنی عدت پوری کر چکی ہیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکا کرو جب وہ دستور کے مطابق آپس میں راضی ہو جائیں۔ ا س معاملہ کی تم میں سے اس کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ حکم تمہارے لئے بڑا ستھرا اور بڑا ہی پاکیزہ ہے ۔اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔''(البقرہ : ۲۳۲)
اس آیت کریمہ میں عورتوں کے ولیوں کو خطاب ہے کہ ان کا اپنی عورتوں کو دوبارہ اپنے خاوندوں کے نکاح میں جانے سے نہ روکنا بہت ہی زیادہ مفید ہے۔ اگرچہ یہ خطاب عورتوں کے اولیاء کو ہے مگر اللہ تعالیٰ کا س مسئلہ میں اندازِ بیان اس چیز پر دلالت کرتا ہے کہ میاں بیوی اگر شرعی حدود کے اندر اکھٹا رہنے کے لئے دوبارہ اس سابقہ تعلق کو دوبارہ استوار کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ معقول بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن کو طلاق ہو گئی۔ عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کے پیغامات آنا شروع ہوئے تو پہلے خاوند نے پھر نکاح کا پیغام بھیج دیا۔ لیکن معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کا دوبارہ نکاح اسی شخص کے ساتھ نکاح کرنے سے انکار کر دیا اور قسم اٹھائی کہ اس سے نکاح نہیں کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا آیات نازل فرما دی۔ انہوں نے جب یہ آیت سنی تو دوبارہ اسی کے ساتھ نکاح پر آمادہ ہو گئے اور اپنی قسم کا کفارہ دیا۔ یہ ہے اطاعت کا جذبہ اور مومن ہونے کی علامت جسے اس صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا۔ قطعاً اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ اس لئے طرفین کو چاہیے کہ اگر خاوند بیوی دوبارہ نکاح پر متفق ہو گئے ہیں تو اپنی انا کا مسئلہ بنانے اور دوبارہ اکھٹا ہونے میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے ان سے تعاون کیاجائے۔
باقی عورت کا طلاق اور عدت کے بھی گزر جانے کے بعد نیا نکاح کرنے سے پہلے اپنے خاوند (مرد) کے ساتھ گھومنا پھرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ کیونکہ پہلے اگرچہ وہ میاں بیوی تھے، اب ان کا وہ تعلق ختم ہے اور نیا نکاح ہونے تک دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ خلوت اختیار کرنا حرام ہے۔ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کوئی مرد کسی اجنبی عورت سے علیحدگی میں نہ ملے کیونکہ ان کے ساتھ اس وقت تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ '' واللہ تعالیٰ اعلم۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
خلع اور مبارات طلاق ہے کہ فسخ نکاح؟
س: خلع اور مبارات طلاق ہے کہ فسخ نکاح؟

ج: فقہائے اسلام کے ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے، بعض اسے فسخ شمار کرتے ہیں اور بعض طلاق اور بعض کہتے ہیں اگر طلاق کے لفظ سے ہو تو طلاق ہے اور اگر اس کے علاوہ کسی اور لفظ سے ہو گا تو فسخ ہے لیکن صحیح شرعی دلائل جس بات کے موید ہیں وہ یہی ہے کہ خلع فسخ ہے طلاق نہیں کیونکہ:
۱) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے سوال کیا کہ کسی نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں پھر ُس نے خلع کروالیا۔ کیا وہ اس سے نکاح کر سکتاہے؟ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہاں نکاح ہو سکتا ہے کیونکہ خلع طلاق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے (الطّلاق مرّتٰن) (البقرہ) کو آیت کے شروع میں خلع کو درمیاں میں کہ (فان خفتم الاّ یقیما حدو اللہ فلا جناح علیھما فی ما افتدت بہٰ) اور تیسری طلاق کو بعد میں ذکر کیا اگر اس خلع کو بھی طلاق شمار کیا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان (فان طللّقھا فلا تحلّ لہ')چوتھی طلاق بن جائے گی۔
۲) خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کی بیوی کو ایک حیض مدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔ حدیث میں ہے:
''ثابت بن قیس کی بیوی نے خلع کروایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک حیض مقرر کی۔''(سنن ابودائود کتاب الطلاق باب الخلع حدیث۲۲۲۹)

امام خطابی فرماتے ہیں:
''یہ قومی دلیل ہے کہ بے شک خلع فسخ ہے طلاق نہیں۔''(معالم السنن مع سنن ابی دائود)
امام محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی فرماتے ہیں:
''اگر خلع طلاق ہوتی تو ایک حیض عدت پر اکتفا نہ ہوتا بلکہ اسے تین حیض عدت گزارنا پڑتی۔ '' (سبل السلام)
۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ صحیح شرعی اور سنی طلاق وہ ہوتی ہے جو ایسے طہر میں دی جائے جس طہر میں عورت سے جماع نہ کیا گیا ہو خلع کا مطالبہ کرنے والی ثابت بن قیس کی بیوی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ حائضہ ہے یا طہر کی حالت میں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سے یہ چیز نہ پوچھنا واضح دلیل ہے کہ خلع حیض اور جس طہر میںجماع ہوا دونوں میں واقع ہو سکتاہے جبکہ طلاق صرف خاص طہر میں واقع ہوتی ہے تو ثابت ہوا کہ خلع طلاق نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
جی پی فنڈ کا مسئلہ
س: ایک آدمی گورنمنٹ کی ملازمت کرتا ہے اس کو گورنمنٹ جو تنخواہ دیتی ہے اس میں کچھ حصہ کٹوتی کرتی ہے جس کو جی پی فنڈ کہتے ہیں۔ یہ فنڈ ریٹائر ہونے پر ملتاہے اس کی مقدار تقریباً دو تین لاکھ روپے ہوتی ہے جبکہ کٹوتی سو روپے سے لے کر تین چار سو تک ہوتی ہے لیکن فنڈ جو ملتا ہے اس حساب سے زیادہ ہوتا ہے کیا یہ فنڈ جس کو جی پی فنڈ کہتے ہیں لینا جائز ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ (محمد عباس، مرکز صالحوال اوکاڑہ)

ج: سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے حکومت جو ہر ماہ مخصوص حصہ کاٹتی ہے اسے جی پی فنڈ کہتے ہیں پھر بینک کاری کے طریقہ کے مطابق اس فنڈ پر سالانہ منافع یا سود جمع ہوتا رہتا ہے ۔ یہ رقم سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ کے موقع پر اصل رقم مع سود دی جاتی ہے تو اس میں قابل غور چند باتیں ہیں:
۱) تنخواہ سے کاٹی گئی رقم سے زائد رقم وصول کرنا جائز ہے یا ناجائز؟
۲) اگر ناجائز ہے تو اس کو وصول کرے یا نہ کرے؟
۳) اگر وصولی نہیں کرنی تو کیا متعلقہ محکمہ کے افسران وہ رقم کھا جائیں گے؟
۴) اگر وصول کر چکا ہے تو کہاں خرچ کرے؟
قرآن و سنت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل رقم سے زائد رقم وصول کرنا سود ہے اور اللہ تعالیٰ نے سود کھانے سے منع فرمایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اے ایمان والوں اللہ دے ڈرو اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے ، چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو بس اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑائی کے لئے تیار ہو جائو اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیاجائے۔''(البقرہ ۲۷۸: ۲۷۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنی اصل رقم لینے کا حکم دیا اور زائد رقم کی وصولی سے منع فرما دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ سودی رقم کا حاصل کرنا ایمان کے منافی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ سود کھانے والے اور کھلانے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث ملاحظہ فرمائی:
''سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے ولاے کھلانے والے اس کے لکھنے اور گواہی دینے والے پر اور فرمایا کہ یہ سب برابر کے لعنتی ہیں۔'' (مسلم)
''عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک درہم سود اگر کوئی آدمی جان بوجھ کر کھائے تو وہ چھتیس دفعہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔'' (مجمع الزوائد۱۱۷/۴، دار قطنی۱۶/۳، مسند احمد بیہقی فی شعب الایمان)
''سیدنا ابو ہریرہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود کے ستر (۷۰) حصے ہیں سب سے چھوٹا حصہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے۔'' (صحیح ابنِ ماجہ ۲۷/۲ التعلیق الرغیب۳/۵۱۔۸۰)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سود مطلقاً حرام ہے۔ سود لینے والا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہے ۔ یہ ایمان کے منافی جہنمی اور ملعون بننے کا سبب ہے۔ اس کا ایک ایک درہم چھتیس چھتیس زنا کے برابر ہے اور سب سے کم گناہ ماں کے ساتھ نکاح کرنا ہے۔ ایک آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے:
''جو پھر سود لے تو یہ لوگ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔''(البقرہ : ۲۷۸)
جی پی فنڈ جو ایک ملازم آدمی وصول کرتا ہے اس میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ملازم کو جو سودی رقم ملتی ہے اس کا مالک کون ہے ۔ کیونکہ ملازم کی تنخواہ سے جو رقم کاٹی جاتی ہے وہ اسی کا ہی مالک ہے ، اس سے زائد کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ''تم صرف اصل مال کے مالک ہو۔ لہٰذا جب ملازم سودی رقم کا ملک ہی نہیں ہوتا تو اس کو حاصل کرنااس کے لئے جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس زائد رقم کو چھوڑ دینے کا حکم دے رہا ہے : ''جو سود باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔''
جو ملازم اس سود سے بچنا چاہتا ہے تو اس کے لئے طریقہ موجود ہے۔ حکومت جب کسی ملازم کے پراویڈنٹ فنڈ کی کٹوتی کرتی ہے تو اس ملازم سے ایک فارم پر کرایا جاتا ہے۔ پوچھا جاتا ہے کہ درخواست دہندہ جمع شدہ رقم چاہتا ہے یا نہیں۔ گورنمنٹ اکائونٹ سے جو فارم ملتا ہے ، اس سے خانہ نمبر ١۱۴میں یہ عبارت درج ہے:
"Whether the applicant desires interest on his accumulation or not."
''کیا ملازم اپنی جمع شدہ رقم پر سود کا خواہش مند ہے یا نہیں؟'' اگر ملازم لکھ دے کہ میں سود نہیں لیتا تو اس کی جمع شدہ رقم پر سود نہیں لگایا جاتا اور ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے درخواست دے کر اپنی جمع شدہ رقم پر سودی اضافہ ختم کرا دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جی پی فنڈ کی صورت میں جمع شدہ رقم پر جو سود لگایا جاتا ہے اگر محکمہ کے افسران زائد رقم کھاتے ہیں تو اس کا گناہ ان کے ذمہ ہے۔ بعض علماء کا یہ موقف ہے کہ زائد رقم وصول کر کے وہاں صرف کر دینی چاہیے جہاں گورنمنٹ کسی پر زیادتی کرتی ہے۔ رشوت کے بغیر چھوڑتی نہیں وغیرہ۔ خود استعمال نہ کرے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ایسی رقم کی وصولی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (فلکم رؤس اموالکم)کہہ کر اصل مال لینے کا حکم دیا ہے اور (وذرو اما بقی من الرّبٰوا)کہہ کر باقی سود چھوڑنے کا حکم فرمایا ہے۔
 
Top