Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
جی پی فنڈ کی شرعی حیثیت
س: ایک آدمی گورنمنٹ کا ملازم ہے اس کی تنخواہ سے گورنمنٹ ہر ماں کٹوتی کرتی ہے جسے جی پی فنڈ کہتے ہیں۔ پھر ریٹائرمنٹ پر اصل رقم جو اس کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے اس سے کافی زائد رقم ملازم کو دی جاتی ہے کیا یہ رقم لینا جائز ہے؟
ج: سرکاری ملازمین کی ہر ماہ تنخواہ سے جو رقم کاٹ لی جاتی ہے اور پھر اس کی ریٹائر منٹ (Retirement)پر بمع اضافہ اس کو رقم دی جاتی ہے اسے جی پی فنڈ کہا جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی رُو سے زائد وصول شدہ رقم سود ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اے ایمان والوں! اللہ تعالیٰ سے ڈر جائو اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے ، چھوڑ دو اگر تم ایماندار ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو بس اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہو جائو اگر تم نے توبہ کر لی تو تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔''(البقرہ : ۲۷۸'۲۷۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اصل مال لینے کا حیم فرمایا ہے اور زائد رقم کی وصولی سے روک دیا ہے اور یہ بھی بتایاہے کہ سودی رقم لینا ایمان کے منافی ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے۔ اس طرح احادیث میں سود لینے والوں پر لعنت مذکور ہوئی ہے۔ لہٰذا ملازم آدمی صرف اپنی اصل رقم جو اس کی کاتی جاتی ہے وہی وصول کر سکتاہے ۔ زائد رقم اگر لیتا ہے تو وہ اس کا مالک نہیں۔ وہ یقینا سود کھا کر لعنت کا مستحق بنتاہے اور یہ بات ھکومتی طبقہ جانتا ہے کہ جی پی فنڈ میں جو زائد رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے جیسا کہ گورنمنٹ اکائونٹ میں جو فارم ملتا ہے اُ س کے خانہ نمبر١٤میں یہ بات درج ہے کہ ''کیا ملازم اپنی جمع شدہ رقم پر سود کا خواہش مند ہے یا نہیں؟ '' اگر ملازم لکھدے کہ میں سود وصول نہیں کروں گا تو اس کی جمع شدہ رقم کو سود کی آلائش و آمیزش سے صاف رکھا جاتا ہے اس لئے تمام ملازمین کو اس رقم کی وصولی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
س: ایک آدمی گورنمنٹ کا ملازم ہے اس کی تنخواہ سے گورنمنٹ ہر ماں کٹوتی کرتی ہے جسے جی پی فنڈ کہتے ہیں۔ پھر ریٹائرمنٹ پر اصل رقم جو اس کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے اس سے کافی زائد رقم ملازم کو دی جاتی ہے کیا یہ رقم لینا جائز ہے؟
ج: سرکاری ملازمین کی ہر ماہ تنخواہ سے جو رقم کاٹ لی جاتی ہے اور پھر اس کی ریٹائر منٹ (Retirement)پر بمع اضافہ اس کو رقم دی جاتی ہے اسے جی پی فنڈ کہا جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی رُو سے زائد وصول شدہ رقم سود ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اے ایمان والوں! اللہ تعالیٰ سے ڈر جائو اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے ، چھوڑ دو اگر تم ایماندار ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو بس اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہو جائو اگر تم نے توبہ کر لی تو تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔''(البقرہ : ۲۷۸'۲۷۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اصل مال لینے کا حیم فرمایا ہے اور زائد رقم کی وصولی سے روک دیا ہے اور یہ بھی بتایاہے کہ سودی رقم لینا ایمان کے منافی ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے۔ اس طرح احادیث میں سود لینے والوں پر لعنت مذکور ہوئی ہے۔ لہٰذا ملازم آدمی صرف اپنی اصل رقم جو اس کی کاتی جاتی ہے وہی وصول کر سکتاہے ۔ زائد رقم اگر لیتا ہے تو وہ اس کا مالک نہیں۔ وہ یقینا سود کھا کر لعنت کا مستحق بنتاہے اور یہ بات ھکومتی طبقہ جانتا ہے کہ جی پی فنڈ میں جو زائد رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے جیسا کہ گورنمنٹ اکائونٹ میں جو فارم ملتا ہے اُ س کے خانہ نمبر١٤میں یہ بات درج ہے کہ ''کیا ملازم اپنی جمع شدہ رقم پر سود کا خواہش مند ہے یا نہیں؟ '' اگر ملازم لکھدے کہ میں سود وصول نہیں کروں گا تو اس کی جمع شدہ رقم کو سود کی آلائش و آمیزش سے صاف رکھا جاتا ہے اس لئے تمام ملازمین کو اس رقم کی وصولی سے اجتناب کرنا چاہیے۔