• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
جی پی فنڈ کی شرعی حیثیت
س: ایک آدمی گورنمنٹ کا ملازم ہے اس کی تنخواہ سے گورنمنٹ ہر ماں کٹوتی کرتی ہے جسے جی پی فنڈ کہتے ہیں۔ پھر ریٹائرمنٹ پر اصل رقم جو اس کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے اس سے کافی زائد رقم ملازم کو دی جاتی ہے کیا یہ رقم لینا جائز ہے؟

ج: سرکاری ملازمین کی ہر ماہ تنخواہ سے جو رقم کاٹ لی جاتی ہے اور پھر اس کی ریٹائر منٹ (Retirement)پر بمع اضافہ اس کو رقم دی جاتی ہے اسے جی پی فنڈ کہا جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی رُو سے زائد وصول شدہ رقم سود ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اے ایمان والوں! اللہ تعالیٰ سے ڈر جائو اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے ، چھوڑ دو اگر تم ایماندار ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو بس اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہو جائو اگر تم نے توبہ کر لی تو تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔''(البقرہ : ۲۷۸'۲۷۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اصل مال لینے کا حیم فرمایا ہے اور زائد رقم کی وصولی سے روک دیا ہے اور یہ بھی بتایاہے کہ سودی رقم لینا ایمان کے منافی ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے۔ اس طرح احادیث میں سود لینے والوں پر لعنت مذکور ہوئی ہے۔ لہٰذا ملازم آدمی صرف اپنی اصل رقم جو اس کی کاتی جاتی ہے وہی وصول کر سکتاہے ۔ زائد رقم اگر لیتا ہے تو وہ اس کا مالک نہیں۔ وہ یقینا سود کھا کر لعنت کا مستحق بنتاہے اور یہ بات ھکومتی طبقہ جانتا ہے کہ جی پی فنڈ میں جو زائد رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے جیسا کہ گورنمنٹ اکائونٹ میں جو فارم ملتا ہے اُ س کے خانہ نمبر١٤میں یہ بات درج ہے کہ ''کیا ملازم اپنی جمع شدہ رقم پر سود کا خواہش مند ہے یا نہیں؟ '' اگر ملازم لکھدے کہ میں سود وصول نہیں کروں گا تو اس کی جمع شدہ رقم کو سود کی آلائش و آمیزش سے صاف رکھا جاتا ہے اس لئے تمام ملازمین کو اس رقم کی وصولی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بیمہ زندگی کی شرعی حیثیت
قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں کہ انشورنس (بیمہ زندگی) وغیرہ کا اسلام میں کیا حکم ہے؟ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے نمائندے گھر گھر پھرتے ہیں۔ دلائل دیتے ہیں اور بہت سے علماء کے فتاویٰ بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ ان کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ مستقبل کے لئے ایک احتیاطی تدبیر ہے، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی مرتے وقت اپنے ورثاء کو غنی چھوڑ جائے ، وہ بہتر ہے اس سے جو ان کو محتاج اور فقیر چھوڑ کرجائے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسٹیٹ لائف کا کاروبار بالکل سود سے پاک ہے اور اس کا شراکت دار اس کے نفع اور نقصان میں شریک ہوتا ہے۔

ج: بیمہ مطلقاً ناجائز اور حرام ہے خواہ زندگی کا ہو یا مکان اور گاڑیوں وغیرہ کا کیونکہ جوئے اور سود کا مرکب ہے۔
۱) یہ اپنی اصل وضع میںجوئے اور سود کا مرکب ہے اور اسلام میں سود اور جوادونوں حرام ہیں۔ اگر مدت مقررہ سے پہلے بیمہ دار کی موت یا املاک کا نقصان ہو جائے تو کمپنی کو نقصان ہوتا ہے اگر وہ پوری قسطیں جمع کرا دے تو کمپنی کو فائدہ ہوتا ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ قسطیں پوری ادا ہو سکیں گی یا نہیں؟ اور سود اس لئے ہے کہ بیمہ دار اگر پوری قسطیں جمع کروائے تو اس کو اس رقم کے ساتھ سود دیا جاتا ہے۔

۲) بیمہ سے وراثت کا شرعی نظام ختم ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ بیمہ کی رقم بیمہ دار کے مرنے کے بعد اس کے نامزد کردہ شخص کو دی جاتی ہے ، جبکہ ہر شرعی وارث ترکہ کا مستحق ہوتا ہے، جو چیز قرآن و سنت کے نظام کو درہم برہم کرنے والی ہو، وہ کیسے جائز ہو سکتی ہے؟

۳) عقیدۂ تقدی پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جائز اور شرعی اسباب بروئے کار لانے کے بعد مستقبل میں پیش آنے والے حوادث اللہ تعالیٰ کے سپر کر دیئے جائیں اور بیمہ اس سے فرار ہے، کیونکہ وہ پہلے سے حوادث کی پیش بندیاں ناجائز طریقوں سے کر رہے ہوتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمة اللہ علیہم بھی تو دنیا میں رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بھی آل اولاد چھوڑی تھی۔ جب انہوں نے ایسے ناجائز تحفظات کا انتظام نہیں کیا تو آج کے مسلمانوں کو کیوں ضرورت محسوس ہو رہی ہے؟
باقی جس حدیث کا آپ نے سوال میں حوالہ دیا ہے وہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیحین میں موجود ہے۔ اس فرمان رسول کو غور سے پڑھ لیں تو بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مستقبل کی احتیاطی تدبیر کے متعلق نہیں، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ جائز موجود جائیداد کو بلاوجہ خرچ کر ڈالنا مناسب نہیں بعد میں وارثوں کے کام آئے گی۔ باقی اسٹیٹ لائف والوں کا یہ کہنا کہ ہمارا شراکت دار نفع و نقصان میں شریک ہوتا ہے۔ یہ جھوٹ و دروغ گوئی اور سادہ لوح انسانوں کو اپنے شکنجے میں پھنسانے کا ایک حیلہ ہے۔ کیونکہ بیمہ کمپنی اگرچہ اس رقم سے تجارت بھی کرتی ہو لیکن اس کے منافع میں سے ایک معین اور طے شدہ حصہ بیمہ دار کے کھاتے میں جمع کرتی ہے اور یہ بلاشبہ سود ہے۔ کیونکہ اصل رقم کے علاوہ معین اور طے شدہ منافع کے ادا کرنے کا ہی نام سود ہے۔ اگر یہ نفع اور نقصان کی بنیاد پر ہی قائم ہو تو پھر بھی بیمہ کرانے والوں کو ایک طے شدہ معینہ رقم نہیں ملنی چاہیے بلکہ کمی و بیشی کے ساتھ نفع اور نقصان دونوں میں شریک رہنا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے بلکہ بیمہ کمپنیاں عام طور پر اصل رقم سے زائد جو کچھ بھی دیتی ہیں۔ اس کی شرح اور مقدار پہلے ہی سے متعین کر دیتی ہیں۔ اگر کوئی کمپنی اس کو معین نہ بھی کرتی ہو بلکہ زائد رقم کو سالانہ منافع اور نقصان کا لحاظ کر کے فیصد پر رکھتی ہو، تب بھی یہ طریقہ بیمہ کے جائز ہونے کی وجہ نہیں بن سکتا کیونکہ اس کاروبار میں نقصان کا سوال ہی نہیں آنے دیا جاتا۔ پھر یہ بات بالکل واضح ہے کہ بیمہ کمپنیاں تمام حاصل شدہ سرمایہ سود پر آگے دے دیتی ہیں اور سودی معاملہ میں واقع نقصان کی ذمہ دار ی قبول نہیں کی جاتی۔ پھر ان کمپنیوں کے متفقہ اصولوں میں سے بعض ایسے اصول بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ سارا کاروبار اور ڈھانچہ ہی شرعاً ناجائز بن جاتا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ نظام یہودیوں کا ایجاد کردہ ہے جن کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تا کہ مسلمانوں کو اسلام نے جو سرمایہ محفوظ رکھنے اور مال میں اضافہ کرنے ، حوادث کی صورت میں مالی معاونت اور پسماندگان کی مالی امداد کے بارے میں جو زبانی ہدایات دی ہیں ان سب چیزوں سے محروم کر کے اسلام سے دور کر دیا جائے۔
ایسے تعلیم یافتہ اور نام نہاد علماء جنہوں نے یہودیوں کے غزو فکری سے شکست خوردہ ہو کر یورپ کے موجودہ اقتصادی نظام کی چند خوبیاں اور خوشنما پہلوؤں کو دیکھ کر بیمہ کی حلت اور جواز کا فتویٰ دیا ہے جو سراسر جوا اور سود ہے ، ایسے لوگوں کا کردار انتہائی قابل مذمت ہے اور بعض تو اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ یورپ کی ذہنی غلامی نے ان کے دماغوں پر یہ عقیدہ مسلط کر دیا ہے کہ سود کے بغیر معاشی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ ایسے علماء کو ایسا فتویٰ دینے سے پہلے اس آیت کریمہ کو اچھی طرح پڑھ لینا چاہیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
''اوراپنی زبانوں کے جھوٹ بنا لینے سے یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تا کہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو۔ یقینا اللہ پر جھوٹ باندھنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔'' (النحل : ۱۱۶) واللہ تعالیٰ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
انعامی بانڈز اور ان کے نمبروں کی فوٹو کاپیوں کا کاروبار
س: اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے پرائز بانڈ جاری کئے جاتے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟ علاوہ ازیں موجودہ دور میں ان بانڈز کے صرف نمبرز کی فوٹو کاپیاں بازار سے ملتی ہیں۔ ان پر بھی انعامات نکلتے ہیں اور انعام نہ نکلنے کی صورت میں خریدنے والے کے پیسے ضائع ہو جاتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کریں کہ بانڈز بیچنے اور بانڈز خریدنے والے شخص کے متعلق کیا حکم ہے؟ قرعہ اندازی کے نتیجہ میں ملنے والے پیسوں سے تیار ہونے والے کھانے اور برپا ہونے والی تقاریب کا کیا حکم ہے؟

ج: انعامی بانڈز جو حکومت کی طرف سے جاری کئے جاتے ہیں سود ہی کی ایک صورت ہے جس کے ساتھ جوئے کی آمیزش کی گئی ہے۔ حکومت انعامی بانڈز فروخت کر کے بہت سے لوگوں سے رقم جمع کرتی ہے اور ان کو گارنٹی دیتی ہے کہ آپ کی اصل رقم محفوظ ہے۔ اگر آپ کا نمبر نکل آیا تو انعام دیا جائے گا یہ انعام اس ساری جمع شدہ رقم کا سود ہے جو حرام ہے اور اگر جائز بھی ہو تو ان تمام لوگوں کا حق ہے جنہوں نے رقم جمع کروائی ہے مگر وہ ان سب کا حق صرف اتفاق سے نکل آنے والے نمبروں کو دیتے ہیں جس کی بنیاد کسی استحقاق یا قاعدے پر نہیں، صرف بخت و اتفاق ہے اور اسی کا نام جوا ہے۔ اس لئے انعامی بانڈز خریدنا حرام ہے۔ بانڈز کی دوسری صورت جس میں انعام نہ نکلنے کی صورت میں خریدنے والے کے پیسے ضائع ہو جاتے ہیں۔ صاف جوا اور حرام ہے جس طرح قسمت کی پڑیا، لاٹری کی تمام صورتیں، اخبارات کے پزل (معمے) مختلف قسم کے ریفل ٹکٹ، سب جوئے کی صورتیں ہیں اورحرام ہیں ۔ ایسے انعامات سے تیار ہونے والے کھانے اور برپا کی جانے والی تقریبات حرام ہیں اور اس میں شرکت بالکل ناجائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شیو کی کمائی کا حکم
س: کیا شیو کی کمائی حلال ہے؟ یعنی ڈاڑھی مونڈ کر جو شخص رقم وصول کرتا ہے، اس کی کمائی کا شرعاً کیا حکم ہے؟ (ابو اسد اللہ ، سیالکوٹ)

ج: اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بہترین سانچے میں کی ہے اور مرد و عورت میں جو امتیازات رکھے ہین ، ان میں سے ایک امتیاز اور فرق ڈاڑھی ہے۔ ڈاڑھی مرد کی زینت ہے اور یہ ایسی زینت ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاء و رُسل علیھم السلام کو مزین فرمایا ہے۔ اگر یہ بد صورتی اور قبح کا باعث ہوتی تو یہ کسی نبی اور رسول کو اللہ تعالیٰ عطا نہ کرتا۔ ڈاڑھی فطرتِ اسلام میں داخل ہے جیسا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے :
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس خصلتیں فطرت سے ہیں ۔ ان میں سے مونچھیں تراشنا اور ڈاڑھی بڑھانا ہے۔'' (صحیح مسلم۱/۲۲۳، کتاب الایمان)
اعفاء اللحیہ کا معنی ہے کہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دے اس میں کانٹ چھانٹ نہ کرے۔
امام نووی شرح مسلم ۱/۱۲۹ پر پانچ طرح کے الفاظ نقل کر کے فرماتے ہیں ، ان سب کا معنی ''ترکھا علیٰ حالھا'' یعنی ڈاڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دینا ہے۔ قاضی امام شوکانی ایک مقام پر رقمطراز ہیں:
''ان اشیاء پر جب عمل کیا گیا تو ان کا عامل اس فطرت سے موصوف ہوا جس پر اللہ تعالیٰ نے بندوں کو پیدا کیا اور ان کو اس پر رغبت دلائی اور ان کے لئے پسند فرمایا تا کہ وہ صورت کے لحاظ سے کامل ترین اور اعلیٰ صفات کے مالک بن جائیں۔'' (نیلالاوطار ۱/۱۳۰)

اس کے بعد مزید فرماتے ہیں:
''یہ سنت قدیمہ ہے جس کو تمام انبیاء علیہم السلام نے اختیار کیا اور تمام شریعتیں اس پر متفق ہیں کیونکہ یہ پیدائشی اور طبعی چیز ہے جس پر سب اکھٹے ہیں۔''(نیل الاوطار۱/۱۳۰)
صحیح مسلم کی اس حدیث سے واضح ہوا کہ ڈاڑھی بڑھانا فطری اور جبلی امر ہے۔ اس کو منڈوانا یا کتروانا فطرت کو بدلنا ہے اور شیطانی عمل ہے کیونکہ جب شیطان کو باری تعالیٰ نے دھتکار ا اور ملعون قرار دیا تواُس نے انسان کو گمراہ کرنے کے جو راستے اور طرق ذکر کئے ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ اُس نے کہا:
''اور میں انہیں بالضرور حکم دوں گا، وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی (صورت) کو بدل ڈالیں گے۔''(النساء :۱۱۹)

علاوہ ازیں مرد کا ڈاڑھی کو مونڈنا، یہ عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں سے مشابہت اختیار کر تے ہیں۔ اور جس فعل پر شریعت میں لعنت ہوئی ہے، وہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے، اسی لئے علامہ ابنِ حجر ہیثمی نے اپنی کتاب ''الزّواجر عن اقتراف الکبائر'' ١٥٥١ پر اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث میں ڈاڑھی کے بڑھانے کا حکم موجود ہے اور ڈاڑھی کٹانا یا مونڈنا اہل کتاب کی علامت ہے جیسا کہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکوں کی مخالفت کرو۔ ڈاڑھی کو بڑھائو اور مونچھوں کو پست کرو۔'' (متفق علیہ، مشکوة)
اسی طرح مسند احمد۵/۲۶۴ میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اہل کتاب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
''ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب داڑھیوں کو کاٹتے ہیں اور مونچھوں کو چھوڑتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مونچھوں کا کاٹو اور داڑھیاں بڑھائو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔''
حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری ۱۰/ ۳۵۴ پر اور علامہ عینی نے عمدة القاری ٥٠٢٢ پر اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ نیل الاوطار۱/۱۳۲ پر ہے۔
''داڑھی تراشنا فارسیوں کی عادت سے ہے۔''
ان احادیث میں ڈاڑھی کو بڑھانے کا حکم کیا گیا ہے اور شرعی قاعدہ ہے الامر للوجوب لہٰذا ڈاڑھی بڑھانا واجب ہے اور اس کو تراشنا یا منڈوانا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کی مخالفت ہے۔ آپ کے امر کی مخالفت عذابِ الہٰی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

''پس جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کو اس بات سے ڈر نا چاہیے کہ ان پر کوئی آفت آن پڑے یا ان پر کوئی درد ناک عذاب اترے۔''
اس بات پر تمام اہل اسلام فقہاء و محدثین کا اتفاق ہے کہ داڑھی مونڈنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی ڈاڑھی مونڈتا ہے تو وہ اس کے ساتھ گناہ پر تعاون کرتا ہے جو شرعاً بالکل منع ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو۔ گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو یقینا اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔''
جب ڈاڑھی مونڈنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے تو اس پر تعاون کرنا گناہ پر تعاون ہے اور شرعاً حرام ہے۔ شریعت اسلامیہ نے جس فعل کو حرام قرار دیا اس فعل پر اُجرت لینا بھی حرام ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''زنا کے قریب نہ جائو اس لئے کہ یہ بہت بڑا گناہ اور برا راستہ ہے۔''
حدیث میں ہے:
''ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ، نجومی کی کمائی اور زانیہ عورت کی اُجرت کو منع فرمایا ہے۔''
(بخاری۸۰۵/۲۔۳۰۵/۱،ابودائود۲۶۷/۳،۲۳۵ احمد۱۴۷/۱،۲۹۹/۲،۵۰۰/۲،۱۱۸/۴،۱۲۰)
ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''زانیہ عورت کی اُجرت پلید ہے۔''(مسلم۱۱۹۹/۳،ترمذی۵۷۴/۳،(۱۲۷۰)
اس آیت کریمہ اور حدیث سے معلوم ہوا زنا حرام ہے اور اس کی اُجرت بھی حرام ہے۔ دوسری مثال یہ سمجھ لیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''اے ایمان والوں! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور فالنامے یہ سب پلید ہیں۔ شیطانی کام ہیں ۔ ان (سب)سے اجتناب کرو تا کہ تم کامیاب ہو جائو۔'' (المائدہ : ۹)
حدیث میں ہے:
''سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ جب سورة بقرة کی آخری آیات سود کے متعلق ناز ل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی تجارت حرام قرار دے دی۔'' (ابنِ ماجہ۱۲۲۲/۲ (۳۳۸۲)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے متعلق دس آدمیوں پر لعنت کی ہے شراب بنانے والا ، نچوڑنے والا، پینے والا، اس کو اٹھانے والا، جس کی طرف اس کو اٹھایا جائے، پلانے والا، بیچنے والا ، اس کی قیمت کھانے والا، خریدنے والا جس کے لئے خریدی جائے۔''(ترمذی۵۸۷/۳ (۱۲۹۵)، ابنِ ماجہ۱۲۲۲/۲(۳۳۸۱)، مسند احمد۷۱/۲،۹۷)
ان دونوں مثالوں سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ جس کام کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اس کی اُجرت اور کمائی بھی حرام ہے بعینہ ڈاڑھی مونڈنا، پھر اس پر اجرت لینا حرام ہے ۔ اسی طرح ڈاڑھی مونڈنے والے کو دکان کرایہ پر دینا اس کے ساتھ فعل حرام پر تعاون ہے، یہ بھی حرام ہے ۔ لہٰذا میرے وہ بھائی جو ڈاڑھیاں مونڈنتے اور اس پر اجرت لیتے ہیں انہیں اس فعل حرام سے باز آ جانا چاہیے اور فعل حرام کو ترک کر کے حلال رزق کمانا چاہیے۔ بعض علاقوں میں مساجد کی دُکانوں میں یہ فعل حرام کیا جاتا ہے ائمہ مساجد اور مساجد کی کمیٹی پر مبنی افراد کو خصوصاً اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ مسجد عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے اور اس کے متعلقات کو بھی ایسے کاموں کے لئے استعمال کریں جو شریعت کے مطابق ہوں نہ کہ مساجدجو اسلام کے قلعے ہیں، ان کی دُکانوں اور متعلقات میں فعل حرام کا ارتکاب کیا جائے۔ لہٰذا اس فعل حرام سے اجتناب اختیار کرتے ہوئے صحیح سنت پر عمل کی طرف توجہ دی جائے۔ کہیں اس فعل حرام کے ارتکاب کی وجہ سے اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن نہ بنالیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
گندم کا اسٹاک (STOCK)کرنا
س: اگر غلّہ منڈی میں گندم وافر مقدار میں موجود ہو تو کیا اس کا اسٹاک کیا جا سکتاہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل جواب دیں مہربانی ہو گی۔

ج: ذخیرہ اندوزی بہت بڑا گناہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا مگر نا فرمان۔''(صحیح مسلم کتاب البیوع)
ذخیرہ اندوزی کا مطلب مہنگا کرنے کے لئے کسی چیز کا ذخیرہ کرنا ہے۔ جس طرح آج کل کئی لوگ بازار سے کوئی جنس خرید کر اس کی قلت پیدا کر دیتے ہیں اور جب وہ چیز لوگوں کو نہیں ملتی تو قیمت بڑھا کر بازار میں لے آتے ہیں۔ اگر کوئی چیز بازار میں نایاب ہو یا کم ملتی ہو تو اسے ذخیرہ بنانا حرام ہے۔ اگر کوئی جنس بازار میں وافر مقدار میں موجود ہے اور ذخیرہ کرنے سے لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں تو ذخیرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو نضیر کی کھجوروں میں سے اپنے اہل و عیال کے لئے ایک سال کا خرچ رکھ لیتے ۔ باقی فروخت کر دیتے۔ (صحیح بخاری، باب النفقات)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قرآن پاک کی تعلیم پر معاوضہ لینا
س: قرآن کی تعلیم دینے پر اس کا معاوضہ ادا کرنا درست ہے یا نہیں ؟ کوئی اپنی خوشی سے تحفہ یا مٹھائی وغیرہ دے سکتا ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ان کے ایک شاگرد نے ان کو ایک کمان تحفہ دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آگ کا طوق ہے ، اگر پہننے کی طاقت ہے تو قبول کر لو؟ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اس کے علاوہ جمعہ اور امامت پر تنخواہ لینا کیسا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کریں؟ (محمد صدیق خان گلشن پارک لاہور، محمد ارشد سیالکوٹ ، مولوی محمد یاسین ، ڈاکٹر عبدالوہاب خان، حاجی محمد ابراہیم سرگودھا)

ج: قرآن مجید کی تعلیم ، خطبہ جمعہ ، امامت وغیرہ پر اُجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کی ممانعت کے بارے میں قرآن و سنت کے اندر کوئی صریح نص موجود نہیں ہے۔ جبکہ اس کے جواز کے دلائل موجود ہیں۔ان میں سے ایک دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے۔ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا ایک بستی سے گزر ہوا بستی والوں نے مانگنے پر بھی ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اچانک ان کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا۔ ان کے افراد صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور پوچھا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے اُجرت لے کر دَم کی حامی بھری۔ تو انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ کا وعدہ کر لیا۔ سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس پر دَم کیا اور متاثرہ جگہ پر اپنا لعاب لگایا تو وہ آدمی بالکل تندرست ہو گیا۔ وہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ بکریاں لے کر واپس آیا تو دوسرے ساتھیوں نے کہا تو نے تو کتاب اللہ پر اُجرت لی ہے۔ گویا اس چیز کو انہوں نے نا پسند کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بھی یہی کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اخذ علیٰ کتاب اللّٰہ اجرًا)تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سب سے زیادہ جس چیز پر تم اُجرت لینے کا حق رکھتے ہو، وہ اللہ کی کتاب ہے۔'' (صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب الشروط فی الرقبہ)

بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: (واضربو الی بسھمٍ)کہ میرے لئے بھی حصہ نکالو۔ بخاری شریف کی اس صحیح حدیث سے ثابت ہو گیا کہ قرآن پر اُجرت لی جا سکتی ہے۔ اس میں قرآن کی تعلیم ، امامت اور خطبہ جمعہ بھی داخل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں اور ان میں وہ شامل ہیں۔ اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ کہتے کہ میرا بھی حصہ نکالو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ حلال اور پاکیزہ چیز ہی استعمال کرتے تھے۔
دوسری دلیل نکاح میں خاوند پر بیوی کے لئے حق مہر دینا ضروری ہے ، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا نکاح قرآن مجید کی تعلیم کو حق مہر ٹھہرا کر کر دیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اذھب فقد انکحتکھا بما معک من القراٰن) (بخاری کتاب النکاح باب التزویج علی القرآن)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن مجید کی تعلیم کی اُجرت دلوائی ہے۔ اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی قرآن کی تعلیم کو حق مہر مقرر نہ کرتے۔ امام مالک نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے:
''کہ اس سے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینا جائز ہو گیا۔'' (فتح الباری ج۹،ص۱۲۱)
اس کے علاوہ محمد بن سیرین کبار تابعین سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک تعلیم دینے والا تھا ، اس کے پاس بڑے بڑے لوگوں کے بیٹے پڑھتے تھے اور وہ اس معلم کا حق ادا کرتے تھے۔ (محلّی ابنِ حزم)
محمد بن سیرین نے ابی بن کعب اور ابو قتادہ جیسے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ پایا ہے اور ان سے روایات بھی لی ہیں۔ اگر قرآن کی تعلیم پر اُجرت جائز نہ ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم کرام ضرور ایسے شخص کو روک دیتے۔ اس طرح پہلے احناف کا یہ مذہب تھا:
''کہ اذان، حج، قرآنی تعلیم اور امامت پر اُجرت لینا جائز نہیں۔'' (ہدایہ اخریہ ص۳۰۳)

مگر احناف اپنے ائمہ کی اس بات پر قائم نہیں رہ سکے۔ اس وقت امام ابو حنیفہ کی تقلید کو نظر انداز کر کے دارالعلوم دیو بند سمیت تمام مدارس میں اساتذہ تنخواہ وصول کرتے ہیں چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ اس دور میں ہمارے بعض مشائخ نے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینے کو اچھا سمجھا ہے کیونکہ دینی امور پر عمل میں سستی ظاہر ہو چکی ہے۔ اُجرت کے جائز نہ رکھنے میں قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے اور اسی پر آج فتویٰ ہے (یعنی اُجرت لینا جائز ہے)۔
باقی استاد کو تحفہ نہ دینے کے بارے میں جو روایت آپ نے ابودائود کے حوالہ سے ذکر کی ہے وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہے۔ ابنِ المدینی کہتے ہیں: ']کہ ہم اس کے لئے اس کے سوا کوئی حدیث نہیں جانتے۔'' تقریب میں ہے (مجھول من الثّالثۃ)میزان الاعتدال میں ہے(لا یعرف) غیر معروف آدمی ہے۔ اس کی متابعت میں جو سند پیش کی جاتی ہے، وہ بھی صحیح نہیں۔ اس کے بارے میں امام بیہقی فرماتے ہیں (ھذا حدیث مختلف فیہ علیٰ عبادة بن نسیٍ کما ترٰی)کہ عبادہ بن نسی پر اس حدیث میں اختلاف ہے۔ ایک شخص اس کے استاد کا نام اسود بن ثعلبہ بتاتا ہے اور دوسرا جنادہ بن ابی امیہ بتاتا ہے۔ پھر ابنِ حرم کہتے ہیں اس میں بقیہ راوی ہے اور وہ بھی ضعیف ہے ۔ اس بنا پر حدیث قابل اعتبار نہیں بلکہ ابنِ حزم نے تو یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جن احادیث سے قرآنی تعلیم کی ممانعت پر استدلال کرتے ہیں، ان میں سے کوئی روایت بھی صحیح نہیں ہے۔ باقی علامہ ناصرا لدین البانی کا اس حدیث کو اس سند کے لحاظ سے صحیح قرار دینا اس بنا پر ہے کہ ممکن ہے ابنِ نسی کے دو استاد ہوں اسود بن ثعلبہ بھی اور جنادہ بن امیہ بھی دونوں استاد ہیں۔ لیکن اس احتمال کی مجھے کوئی دلیل نہیں ملی ہے اور نہ ہی البانی صاحب نے کوئی دلیل اس احتمال کو ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہے۔ لہٰذا صرف احتمال سے اس حدیث کو صحیح قرار دینا نظر سے خالی نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کام کی اُجرت مقرر کرنا
س: کسی کام کی اُجرت یا محنت کس حد تک وصول کی جا سکتی ہے؟

ج: شریعت نے کسی کاریگر یا مستری کی مزدوری اور محنت مقرر نہیں کی بلکہ فریقین کے باہمی اتفاق سے ہی مقرر کی جا سکتی ہے البتہ مستری اور کاریگر کو اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنی مناسب اُجرت وصو ل کرنا چاہیے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ظلم کے سپرد کر سکتاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مسئلہ وراثت
س: ہمارے والد ماجد ڈیڑھ لاکھ کی جائیداد چھوڑ کر اس دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں اور ان کے ذمہ بیس ہزار قرض تھا اور ورثاء میں سے ایک بیوی ٤ بیٹے اور ٦ بیٹیاں ہیں۔ کتاب و سنت کی روشنی میں ہر ایک وارث کا حصہ کیا ہو گا وضاحت فرمائیں؟

ج: صورت مذکور میں ڈیڑھ لاکھ روپے کی جائیداد سے پہلے بیس ہزار روپے قرض ادا کیا جائے۔ پھر باقی رقم ایک لاکھ تیس ہزار روپے میں سے بیوی کو آٹھواں حصہ دیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (نساء :۱۲) ''اگر تمہاری اولاد ہو تو ان (بیویوں)کے لئے آٹھواں حصہ ہے اس میں سے جو تم نے ترکہ چھوڑا وصیت کو پورا کرنے کے بعد جو تم کر جائو یا قرض کے بعد '' لہٰذا بیوی کو قرض کی ادائیگی کے بعد جائیداد کا آٹھواں سولہ ہزار دو سو پچاس روپے دیا جائے گا۔ اس کے بعد اولاد کو اس طرح دیا جائے گا کہ ہر بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر حصہ ملے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے لہٰذا باقی جائیداد سے ہر لڑکے کو سولہ ہزار دو سو پچاس روپے اور ہر لڑکی کو آٹھ ہزار ایک سو پچاس روپے ادا کئے جائیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
علاتی بھائی کا وراثت سے حصہ
س: حافظ نور محمد گزشتہ دنوں وفات پا گئے۔ باپ نہ ماں، بیوی نہ بچے ، دو بھائی تھے جو عرصہ ہوا ان کی زندگی میں ہی وفات پا گئے۔ سلیمان اور عبدالرحمن دونوں علاتی بھائی تھے۔ عبدالرحمن کی ایک بچی تھی وفات پا گئی تھی اور وہ دو بچیاں چھوڑ گئی جو زندہ ہیں۔ سلیمان مرحوم کے تین بچے تھے۔ ایک لڑکی صفیہ موجود ایک لڑکا محمد افضل موجود ایک لڑکا فوت ہو گیا عزیز نامی اور اولاد چھوڑ گیا دو لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ بڑا پیچیدہ وراثت کا مسئلہ ہے حل فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

ج: وراثت کی شروط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ میت کی وراثت اس کے مرنے کے بعد صرف اس کے ان ورثاء میں تقسیم ہو گی جو اس کی موت کے وقت زندہ تھے اور جو اس کی زندگی میں ہی وفات پا گئے وراثت کے مستحق نہیں ہوں گے۔ مسئلہ مسئولہ میں نور محمد کی موت کے وقت اس کے عزیزوں میں سے صرف ایک بھتیجا محمد افضل اور ایک بھتیجی صفیہ بیگم اور ایک دوسرے بھتیجے عبدالرحمن کی دوھتیاں اور تیسرے بھتیجے عزیز کا ایک بیٹا اور دوبیٹیاں زندہ ہیں۔ ان سب ورثاء میں سے ایک بھتیجا محمد افضل اور تیسرے بھتیجے کا لڑکا عصبہ ہیں۔ ان کے علاوہ بھتیجی صفیہ ، عبدالرحمن کی دو دوھتیاں اور عزیز کی دو بیٹیاں ذوی الارحام سے ہیں (ذوی الارحام ان قریبی عزیزوں کو کہتے ہیں جو نہ اصحاب الفروض سے اور نہ عصبات میں سے ہوں) اصحاب الفروض اور عصبات کی موجودگی میں یہ میراث سے محروم ہوتے ہیں۔ (التحقیقات المرضیہ فی المباحث الفرضیہ ص۲۶۰)
مذکورہ صورت میں ذوی الارحام کے علاوہ صرف عصبہ کے دو افراد موجود ہیں جو کہ درجہ میں مختلف ہیں۔ ۱) بھتیجا اور(۲)بھتیجے کا لڑکا ہے۔ تو وراثت صرف اسے ملے گی جو درجہ میں میت کے زیادہ قریب ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
''میراث کے مقررہ حصے انہیں دو، جن کے وہ حصے ہیں جو باقی رہ جاتے ہیں وہ سب سے قریبی مرد کے لئے ہے۔'' (صحیح بخاری مع ۱ الفتح ، ص۱۲، ج۱۲)
لہٰذا وراثت کا مستحق صرف محمد افضل ہو گا باقی سب محروم رہیں گے۔ ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ اشکال آ سکتا ہے کہ بہن اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ مع الغیر بن جاتی ہے اور بھائی کے حصہ میں سے نصف کی مستحق ٹھہرے گی اور صورت مسئولہ میں صفیہ محمد افضل کی بہن ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ بھائی اپنی بہن کو عصبہ بنا دیتا ہے۔ لیکن یہ صرف وہ بھائی جو میت کا عینی یا علاتی بھائی ہے اور صورتِ مذکورہ میں صفیہ اور محمد افضل میت کے بھتیجا اور بھتیجی ہیں۔ جیسا کہ اس قاعدہ کی تصریح ابو عبداللہ محمد بن علی الرحبی نے کی ہے فرماتے ہیں:
''کہ بھائی کا بیٹا اپنی ہم درجہ اور اوپر والی مؤنث کو عصبہ نہیں بناتا۔'' (شرح الرحبیہ :۹۳)
حافظ ابنِ حجر اور شوکانی نے فھو لا ولیٰ رجلٍ کی تفسیر میں ابن التین کا قول نقل کیا ہے کہ اولی رجلٍ سے مراد کون ہے؟ فرماتے ہیں:
''کہ چچا اور بھتیجا کا بیٹا یہ سب اپنی بہنوں کو عصبہ نہیں بناتا بلکہ ان کی بہنیں ذوی الارحام میں داخل ہیں لہٰذا وارث نہیں بنیں گی۔''
(فتح الباری۱۲/۱۳، نیل الاوطا۵۸/۶)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
پوتا چچا کی موجودگی میں دادا کی وراثت کا حقدار بن سکتا ہے؟
س: کیا دادا کی وراثت کا پوتا چچا کی موجودگی میں وارث بن سکتاہے؟ صورت اس طرح ہے کہ حاجی عبدالعزیز کی (گھلاوٹواں) میں زمین تھی۔ وہ سیم ہو گئی تو گورنمنٹ نے انعامی اسکیم نکالی اور حاجی عبدالعزیز کے لڑکے (حافظ محمد اسحٰق) نے تین درخواستیں دیں نمبر۱، اپنے باپ (حاجی عبدالعزیز) کی نمبر۲، اپنے بھتیجے (محمد زبیر ) کی نمبر۳ اپنی۔ اور جو درخواست منظور ہوئی وہ حاجی (عبدالعزیز) کی تھی تو حاجی صاحب کو لیہ میں زمین مل گئی ۔ وہ اس وقت زندہ تھے اور بعد میں فوت ہوئے۔ کیا س لیہ والی زمین جو کہ گورنمنٹ کی طرف سے انعامی اسکیم کے تحت ملی تھی ۔ اس کا حاجی صاحب کا پوتا محمد زبیراپنے چچا (حافظ محمد اسحاق) کی موجودگی میں وارث بن سکتاہے؟

ج: چچا کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں بن سکتا ۔ اس کی دلیل جاننے سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ شریعت اسلامیہ نے جن رشتہ داروں کو اپنے میں سے کسی مرنے والے کا وارث ٹھہرایا ہے ، ان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ رشتہ دار ہیں جن کا حصہ قرآن و سنت میں معین کر دیا گیا ہے ۔ ان کو علم میراث کی اصطلاح میں اصحاب الفروض کہتے ہیں۔
دوسرے وہ ورثاء جن کے حصوں کی تعین قرآن و سنت میں نہیں یعنی جو اصحاب الروض کی عدم موجودگی میں سارا مال لے لیتے ہیں۔ وہ اصحاب الفروض کی موجودگی میں ان سے بچا ہوا مال لیتے ہیں ان کو عصبات کہتے ہیں۔ بھائی اور پوتا بھی میت کے ان ورثاء میں سے ہیں جن کا حصہ معین نہیں ہے۔ تو عصبات میں مال کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ ان اصحاب الفروض کو ان کے مقرر کردہ حصہ دے دینے کے بعد اگر ترکہ میں کچھ باقی ہے تو وہ عصبات کے ان مردوں کو دیا جائے گا جو میت کے زیادہ قریب ہوں اور دور کے تعلق رکھنے والے محروم رہیں گے۔ اس کی دلیل صحیحین کی حدیث ہے جو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں:
''کہ مقرر کردہ ان کے مستحقین کو دو اور جو باقی بچ جائے ، پس وہ اس آدمی کے لئے ہے جو میت کا زیادہ قریبی ہے۔'' (بخاری شریف مع فتح الباری ج۱۲، ص۱۲۔۱۷، صحیح مسلم شریف مع نووی ج۱۱، ص۵۳)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان واضح کرتا ہے کہ اصحاب الفروض کے مقررہ حصے پورے کر دینے کے بعد جو باقی بچے وہ مرد عصبات میں سے سب سے قریبی کے لئے ہے کوئی دور والا اس کے ساتھ شریک نہیں ہوگا۔ امام نووی نے اس پر اجماع نقل کیاہے:
''مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو اصحاب و الفروض کو دینے کے بعد بچ جائے، وہ عصبات کے لئے ہے زیادہ قریبی کو مقدم کیا جائے گا، دور کا عصبہ رشتہ دار قریبی عصبہ کی موجودگی میں وارث نہیں بن سکتا۔'' (شرح نووی ، ج۱۱، ص۵۳)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں با ب قائم کیا ہے باب میراث ابن الابن اذا لم یکن ابن آخر میں فرماتے ہیں:
''کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے بیٹے کی اولاد وارث نہیں بن سکتی (وہ اولاد میت کے کسی بھی زندہ یا فوت شدہ بیٹے کی ہو)۔'' (صحیح بخاری مع فتح الباری۱۲۔۱۷)

مسئولہ صورت میں محمد زبیر کی نسبت حافظ محمد اسحاق میت سے زیادہ قریبی عزیز ہے ۔ اس لئے محمد اسحاق کے ہوتے ہوئے محمد زبیر کو اپنے دادا سے کچھ نہیں ملے گا۔ علم وراثت کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ جب زیادہ عصبات جمع ہو جائیں اور وہ جس جہت سے میت کے وارث بن رہے ہوں، وہ جہت بھی ایک ہو اور درجہ میں اوپر نیچے ہوں جیسے میت کا پوتا اور بیٹا جمع ہو جائیں دونوں کی جہت ایک ہے کیونکہ پوتا کسی بھی بیٹے کی عدم موجودگی میں بیٹے کے حکم میں ہوتا ہے (یعنی جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو تو پوتا بیٹے کے حکم میں ہوتا ہے تو اس صورت میں قریبی درجہ والے کو مقدم کیا جائے گا میت کا بیٹا درجہ میں پوتے سے زیادہ قریب ہے تو مال بیٹے کو ملے گا اور پوتا محروم ہو جائے گا)۔
یاد رہے کہ وراثت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو مال کی صورت میں یا زمین کی صورت میں یا دیت وغیرہ کی صورت میں کوئی چھوڑ جاتا ہے ۔ وہ جائیداد میت کو کسی بھی طریقہ سے حاصل ہو۔ خواہ اپنے بڑوں سے وراثت پا کر وارث بنا ہو یا خود خرید کے مالک بنا ہو یا کہیں گورنمنٹ کی انعامی اسکیم حاصل کرکے مالک بنے۔
 
Top