Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
وراثت کا مسئلہ
س: زید اور بکر ایک ماں سے جبکہ عمر اور اس کی ایک بہن دوسری ماں سے ہیں۔ باپ ان سب کا ایک ہے۔ باپ پاکستان بننے سے پہلے فوت ہو گیا تھا۔ انگریزی قانون کے مطابق رقبہ تینوں بیٹوں میں برابر تقسیم ہو گیا۔ بہن کو کچھ نہ ملا۔ ۱۹۴۷ء میں بکر، لاولد فوت ہو گیا۔ بکر کا رقبہ زید اور عمر میں تقسیم ہو گیا۔ اس وقت بھی بہن کو کچھ نہ ملا۔ اب بہن نے زید سے اپنے مرنے والے بھائی کی وراثت کا مطالبہ کیا مگر انگریزی قانون نے فیصلہ زید کے حق میں دے دیا کہ بہن حقدار نہیں۔ اب زید دریافت کرتا ہے آیا شرعاً مرنے والے بھائی کی وراثت سے بہن کا حصہ بنتا ہے یا نہیں اور کیا بھائیوں کا شرعی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی وراثت ، جو کہ بچپن میں انگریزی قانون کے مطابق ان کو ملی تھی ، اس میں سے بہن کا حصہ ادا کریں یا نہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دے کر مطلع فرما دیں۔
ج: زمانۂ جاہلیت میں لوگ مرنے والے کی وراثت سے اپنی عورتوں اور بچوں کو محروم کر دیتے تھے۔ اسلام نے ایسے ظالم قانون کو ختم کر کے عدل و انصاف پر مبنی قانون مسلمانوں کو دیا اور عورتوں بچوں سمیت ہر شرعی حقدار کا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں بیٹی کو باپ کی وراثت سے (لڑکے کا حصہ لڑکی سے دوگنا ہے) کے مطابق ساتواں حصہ ملے گا۔ (مگر شرط یہ ہے کہ اس مرنے والے کی دونوں بیویاں اس کی موت سے پہلے فوت ہو چکی ہوں ۔ اور اگر وہ اس وقت زندہ تھیں تو پھر تقسیم یوں ہو گی: دونوں بیویوں کا پوری وراثت سے آٹھواں حصہ ۔۔۔۔ جبکہ کل آٹھ حصے ہی بنیں گے ۔۔۔۔ باقی سات حصوں میں بیٹی کا ایک حصہ اور ہر بیٹے کے دو دو حصے ۔ یہ تقسیم میت کا قرضہ ادا کرنے کے بعد اور اس وصیت کے پورا کرنے کے بعد ہو گی جو اس نے (اگر) اپنی زندگی میں کی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (سورة نساء :۱۲) ''اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہارے ترکہ سے تمہاری بیویوں کے لئے آٹھواں حصہ ہے اور وہ بھی اس قرض کے بعد جو تم نے دینا ہے اور اس وصیت کے بعد جو تم نے کی تھی)۔ اس طرح مرنے والے بھائی بکر کی وراثت سے بھی اس کا حصہ بنتا ہے کیونکہ یہ اس کی علاتی بہن ہے جبکہ بکر کا ایک عینی بھائی بھی موجود ہے اور یہ بہن اپنے بھائی عمر کے ساتھ مل کر عصبہ بنتی ہے۔ اب جبکہ عصبہ کا ازدحام ہو تو جو قوت درجہ اور جہت میں اولیٰ ہوتا ہے اس کو وراثت ملتی ہے اور باقی محروم ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ مسئولہ میں میت کا عینی بھائی جو کہ زید ہے یہ جہت اور درجہ میں عمر اور اسکی بہن کے ساتھ یکساں ہے جبکہ قوت کے لحاظ سے میت کے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ زید کا رشتہ ماں باپ دونوں کی طرف سے ہے اور عمر اور اس کی بہن کا رشتہ صرف باپ کی طرف سے ہے۔ واللہ اعلم۔
اب شریعت کے مطابق بھائیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی بہن کا حصہ ادا کریں اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی اور دوسرے کا مال ناحق غصب کرنے کے الزام سے بچ جائیں ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ مسلمان ملک میں انگریز کے رواج دیئے ہوئے جاہلی اور ظالم قوانین بنائے گئے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں نے (اپنی حکومتیں بچانے کے لئے) دین حنیف کے سراپا عدل و انصاف پر مبنی نظام کو دائو پر لگا کر مسلمانوں پر مسلط کیا ہوا ہے۔
س: زید اور بکر ایک ماں سے جبکہ عمر اور اس کی ایک بہن دوسری ماں سے ہیں۔ باپ ان سب کا ایک ہے۔ باپ پاکستان بننے سے پہلے فوت ہو گیا تھا۔ انگریزی قانون کے مطابق رقبہ تینوں بیٹوں میں برابر تقسیم ہو گیا۔ بہن کو کچھ نہ ملا۔ ۱۹۴۷ء میں بکر، لاولد فوت ہو گیا۔ بکر کا رقبہ زید اور عمر میں تقسیم ہو گیا۔ اس وقت بھی بہن کو کچھ نہ ملا۔ اب بہن نے زید سے اپنے مرنے والے بھائی کی وراثت کا مطالبہ کیا مگر انگریزی قانون نے فیصلہ زید کے حق میں دے دیا کہ بہن حقدار نہیں۔ اب زید دریافت کرتا ہے آیا شرعاً مرنے والے بھائی کی وراثت سے بہن کا حصہ بنتا ہے یا نہیں اور کیا بھائیوں کا شرعی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی وراثت ، جو کہ بچپن میں انگریزی قانون کے مطابق ان کو ملی تھی ، اس میں سے بہن کا حصہ ادا کریں یا نہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دے کر مطلع فرما دیں۔
ج: زمانۂ جاہلیت میں لوگ مرنے والے کی وراثت سے اپنی عورتوں اور بچوں کو محروم کر دیتے تھے۔ اسلام نے ایسے ظالم قانون کو ختم کر کے عدل و انصاف پر مبنی قانون مسلمانوں کو دیا اور عورتوں بچوں سمیت ہر شرعی حقدار کا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں بیٹی کو باپ کی وراثت سے (لڑکے کا حصہ لڑکی سے دوگنا ہے) کے مطابق ساتواں حصہ ملے گا۔ (مگر شرط یہ ہے کہ اس مرنے والے کی دونوں بیویاں اس کی موت سے پہلے فوت ہو چکی ہوں ۔ اور اگر وہ اس وقت زندہ تھیں تو پھر تقسیم یوں ہو گی: دونوں بیویوں کا پوری وراثت سے آٹھواں حصہ ۔۔۔۔ جبکہ کل آٹھ حصے ہی بنیں گے ۔۔۔۔ باقی سات حصوں میں بیٹی کا ایک حصہ اور ہر بیٹے کے دو دو حصے ۔ یہ تقسیم میت کا قرضہ ادا کرنے کے بعد اور اس وصیت کے پورا کرنے کے بعد ہو گی جو اس نے (اگر) اپنی زندگی میں کی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (سورة نساء :۱۲) ''اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہارے ترکہ سے تمہاری بیویوں کے لئے آٹھواں حصہ ہے اور وہ بھی اس قرض کے بعد جو تم نے دینا ہے اور اس وصیت کے بعد جو تم نے کی تھی)۔ اس طرح مرنے والے بھائی بکر کی وراثت سے بھی اس کا حصہ بنتا ہے کیونکہ یہ اس کی علاتی بہن ہے جبکہ بکر کا ایک عینی بھائی بھی موجود ہے اور یہ بہن اپنے بھائی عمر کے ساتھ مل کر عصبہ بنتی ہے۔ اب جبکہ عصبہ کا ازدحام ہو تو جو قوت درجہ اور جہت میں اولیٰ ہوتا ہے اس کو وراثت ملتی ہے اور باقی محروم ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ مسئولہ میں میت کا عینی بھائی جو کہ زید ہے یہ جہت اور درجہ میں عمر اور اسکی بہن کے ساتھ یکساں ہے جبکہ قوت کے لحاظ سے میت کے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ زید کا رشتہ ماں باپ دونوں کی طرف سے ہے اور عمر اور اس کی بہن کا رشتہ صرف باپ کی طرف سے ہے۔ واللہ اعلم۔
اب شریعت کے مطابق بھائیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی بہن کا حصہ ادا کریں اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی اور دوسرے کا مال ناحق غصب کرنے کے الزام سے بچ جائیں ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ مسلمان ملک میں انگریز کے رواج دیئے ہوئے جاہلی اور ظالم قوانین بنائے گئے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں نے (اپنی حکومتیں بچانے کے لئے) دین حنیف کے سراپا عدل و انصاف پر مبنی نظام کو دائو پر لگا کر مسلمانوں پر مسلط کیا ہوا ہے۔