• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احتجاج اور اسلام

شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْکُو جَارَهُ فَقَالَ اذْهَبْ فَاصْبِرْ فَأَتَاهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَقَالَ اذْهَبْ فَاطْرَحْ مَتَاعَکَ فِي الطَّرِيقِ فَطَرَحَ مَتَاعَهُ فِي الطَّرِيقِ فَجَعَلَ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ فَيُخْبِرُهُمْ خَبَرَهُ فَجَعَلَ النَّاسُ يَلْعَنُونَهُ فَعَلَ اللَّهُ بِهِ وَفَعَلَ وَفَعَلَ فَجَائَ إِلَيْهِ جَارُهُ فَقَالَ لَهُ ارْجِعْ لَا تَرَی مِنِّي شَيْئًا تَکْرَهُهُ
سنن ابی داود حدیث نمبر۴۴۸۶ وقال الشیخ البانی حسن صحیح۔ فی صحیح و ضعیف سنن ابی داود ۵۱۵۳

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اپنے پڑوسی کی شکایت کرتا ہوا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور صبر کرو وہ دو یا تین مرتبہ آیا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اپنا سامان گھر سے نکال کر راستہ میں پھینک دو۔ اس نے اپنا سامان راستہ میں پھینک دیا لوگوں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے ہمسائے کی تکلیف سے انہیں باخبر کردیا تو لوگ اس ہمسائے کو لعنت ملامت کرنے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ویسا کرے اس کا پڑوسی اس کے پاس آیا کہ تو سامان لے کر گھر لوٹ جا آئندہ مجھ سے ناگواری کوئی بات نہیں دیکھے گا۔

سامان گھر سے باہر نکال کر رکھنا ایک پر امن احتجاج تھا جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی۔

انتباہ : تدوین بوجہ تکرار ۔ انتظامیہ
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463

عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْکُو جَارَهُ فَقَالَ اذْهَبْ فَاصْبِرْ فَأَتَاهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَقَالَ اذْهَبْ فَاطْرَحْ مَتَاعَکَ فِي الطَّرِيقِ فَطَرَحَ مَتَاعَهُ فِي الطَّرِيقِ فَجَعَلَ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ فَيُخْبِرُهُمْ خَبَرَهُ فَجَعَلَ النَّاسُ يَلْعَنُونَهُ فَعَلَ اللَّهُ بِهِ وَفَعَلَ وَفَعَلَ فَجَائَ إِلَيْهِ جَارُهُ فَقَالَ لَهُ ارْجِعْ لَا تَرَی مِنِّي شَيْئًا تَکْرَهُهُ
سنن ابی داود حدیث نمبر۴۴۸۶ وقال الشیخ البانی حسن صحیح۔ فی صحیح و ضعیف سنن ابی داود ۵۱۵۳


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اپنے پڑوسی کی شکایت کرتا ہوا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور صبر کرو وہ دو یا تین مرتبہ آیا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اپنا سامان گھر سے نکال کر راستہ میں پھینک دو۔ اس نے اپنا سامان راستہ میں پھینک دیا لوگوں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے ہمسائے کی تکلیف سے انہیں باخبر کردیا تو لوگ اس ہمسائے کو لعنت ملامت کرنے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ویسا کرے اس کا پڑوسی اس کے پاس آیا کہ تو سامان لے کر گھر لوٹ جا آئندہ مجھ سے ناگواری کوئی بات نہیں دیکھے گا۔
سامان گھر سے باہر نکال کر رکھنا ایک پر امن احتجاج تھا جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی۔
یہ ایک پر امن احتجاج تھا جسکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی۔
السلام علیکم ،
کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟ کفایت اللہ جواب مطلوب ہے۔جزاک اللہ خیرا
بھائی ایک پوسٹ صرف ایک ہی دفعہ کریں، اور الگ سے ٹیب اوپن کر کے دیکھیں۔اس طرح آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
سب سے پہلے تو یہ بات نوٹ کرلیجئے کہ ”احتجاج“ کا تعلق ”امور دنیوی معاملات“ میں سے ہے۔ امور دنیوی کے بارے میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ سب کچھ جائز ہے الا یہ کہ (الف) کسی مخصوص امر کو قرآن و حدیث میں منع فرمایا گیا ہو (ب) یا کوئی دنیوی امر کسی اسلامی تعلیم سے متصادم ہو۔ لہٰذا سوال یہ نہیں بنتا کہ ”اسلامی تعلیمات میں احتجاج کا ذکر کہاں ہے؟“ بلکہ سوال یہ بنتا ہے کہ "اسلامی تعلیمات میں احتجاج کرنا اگر (کسی کے نزدیک) منع ہے تو اس کا ذکر کہاں ہے؟"

دوسری بات: ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم کوئی غلط بات دیکھو تو اُسے طاقت سے روکو۔ اگر طاقت سے نہ روک سکو تو زبان سے اسے بُرا کہو۔ اگر زبان سے بھی بُرا نہ کہہ سکو تو اسے دل میں ہی بُرا جانو۔ لیکن یہ ایمان کی سب سے کم تر حالت ہے۔

کسی ظلم یا اینٹی اسلامک بات یا واقعہ کے خلاف زبان و قلم سے کچھ کہنا ”احتجاج“ ہی تو ہے۔ چونکہ ہر فرد بولنے، تقریر کرنے یا لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لئے ایک بولنے والے مقرر کی تائید میں ہزاروں لوگ اس کے پیچھے بنفس نفیس (بصورت جلسہ ، جلوس یا مظاہرہ وغیرہ) موجود ہوتے ہیں۔ ”جلسہ کی روایت“ تو اسلام میں ابتدا سے موجود ہے۔ مسلمان نماز جمعہ اور نماز عیدین میں بڑے سے بڑا ”جلسہ“ منعقد کرتے ہیں۔ اس جلسہ میں اللہ کی عبادت سے قبل امام اور خطیب حالات حاضرہ پر مسلمانوں اور اسلام کا موقف پیش کرتے ہیں اور گرد و پیش میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز احتجاج بھی بلند کرتے ہیں۔ جلوس اور مظاہرہ البتہ ”اجتماعی اظہار رائے“ کا قدرے جدید طریقہ ہے۔ اور اگر جلوس کے دوران کوئی ”غیر اسلامی عمل“ نہ کیا جائے تو اسے بھی ”ممنوع“ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔عمدہ و ضاحت کر دی بھائی۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اسلام ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جو حقوق کی بجائے فرائض پر قائم ہو جس میں ہر فرد حصول حقوق کے لئے نہیں بلکہ ادئیگیء فرائض کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی صورتحال ایسی نہیں ہوتی جس میں اگر ایک طاقتور کوئی ظلم کررہا ہے تو دوسرے سب ہی اس کی حمایت میں کھڑے ہیں۔تیسری بات یہ ہے کہ اگر پھر بھی حکمران یا کسی دوسرے طاقتور گروہ کی طرف سے کوئی ناروا سلوک اپنایا جاتا ہے تو اس پر حتی الوسع صبر کی تلقین ہے بصورت دیگر مقررہ شروط کے ساتھ خروج کیا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ اسلامی طرز معاشرت یا طرز سیاست موجودہ سیاست و معاشرت سے بالکل ہی جداگانہ ہے۔البتہ مجبوری کی حالت میں ایڈجسٹ منٹ کرنے پر مسلمان کے سامنے تو کیا کسی بھی فرد کے سامنے کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
بہت خوب۔۔۔۔۔جزاک اللہ خیرا
متفق
مگر اسلام نے ہمیں تمام مسائل سے نبٹنے کا حل فراہم کیا ہے۔بات صرف غور و فکر کی ہے۔
جی ہاں صبر بہترین ہتھیار ہے۔اللہ تعالی امت مسلماں کو استقامت دے ۔آمین
 

محمد بن محمد

مشہور رکن
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
224
پوائنٹ
114
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ماشاءاللہ اچھا سلسلہ ہے اور اس پر رسپانس بھی اچھا ہے حقیقت یہی ہے کہ اسلام ایسا معاشرہ پروان چڑھاتا ہے جس میں ہر فرد اپنے فرائض کی کما حقہ ادائیگی کرے تاکہ دوسروں کو ان کے حقوق مل سکیںاور احتجاج کی نوبت ہی نہ آئے لیکن ہم تو ہر چیز میں اہل مغرب کی نقالی کرتے ہیں یہاں بھی یہی صورتحال ہے بلکہ ہم تو شکاگو کے احتجاج پر مارے جانے والے مزدوروں کو شہادت جیسے مقدس القاب بھی عطا کردیتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تکلیف پر صبر کرنا اور بدلہ نہ لینا بہت اعلیٰ عمل ہے لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ بات اسی صورت میں ہے جب اس کا تعلق کسی کی ذات کے ساتھ ہو اگر کوئی اسلامی شعائر کا مذاق اڑائے تو اس صورت میں یہ حکم نہیں ہے بلکہ ایسے شر پسندکے ہاتھ کو روکنا اور اسے عبرتناک سزا دینا ضروری ہے تاکہ وہ یاکوئی اور آئندہ ایسی جسارت نہ کر سکے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کاتہ،
اب سوال یہ ہے کہ
اسلام میں احتجاج کا تصور کیا ہے؟؟؟ کیا نبی کریم ﷺ نے احتجاج کیا تھا؟؟؟
امت مسلماں میں احتجاج کی یہ روش کہاں سے آئی؟ کیا احتجاج کا یہ فعل ہمیں عملاَ کمزور نہیں کر دیتا؟؟؟
ظلم، برائی، باطل ،غیر شرعی معاملات کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل ،جوابی کاروائی کی اسلام میں کیا صورت ہے ؟؟؟
میرے نزدیک احتجاج کی موجود روش سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ کفریہ جمہوریت کی کوکھ سے پیدا ہونے والی چیز ہے۔ جمہوریت میں حکمران ایک فیصلہ کرتے ہیں اگر عوام کو وہ پسند نہ آئے تو حکمرانوں تک اپنی آواز اور رائے پہنچانے کے لئے احتجاج کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یعنی جہاں کافر ماں جمہوریت وہاں اسکی اولاد احتجاج

مسلم معاشرے میں چونکہ حکمران اپنی خواہش و مرضی سے قانون نہیں بناتے بلکہ قرآن وحدیث پر عمل کے پابند ہوتے ہیں اسلئے عوام کی ناپسندیدگی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی احتجاج کی کوئی ضرورت۔ یہی وجہ ہے کہ مروجہ احتجاجات ہمیں مسلم معاشروں میں نظر نہیں آتے اور نہ ہی ان کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔

جس طرح ایک بھائی نے حدیث سے احتجاج کی مثال پیش کی ہے یہ انفرادی احتجاج ہے جوکہ اکثر وبیشتر انسان کسی نے کسی کے سامنے کررہا ہوتا ہے جیسے اپنا کوئی مطالبہ منوانے کے لئے یا کسی جانب توجہ مبذول کروانے کے لئے کبھی کبھی اولاد زبان سے کچھ کہنے کے بجائے اپنے والدین کے سامنے اپنے کسی خاص عمل کے ذریعے جیسے بات نہ کرنا یا کھانا پینا چھوڑ دینا وغیرہ سے کرتی ہے۔ اسے بہرحال جمہوری طریقہ احتجاج کے لئے دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ واللہ اعلم
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
السلام علیکم ،
کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟ کفایت اللہ جواب مطلوب ہے۔جزاک اللہ خیرا
بھائی ایک پوسٹ صرف ایک ہی دفعہ کریں، اور الگ سے ٹیب اوپن کر کے دیکھیں۔اس طرح آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔

یہ حدیث حسن ہے۔۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کاتہ،
اسلام میں احتجاج کا تصور کیا ہے؟؟؟ کیا نبی کریم ﷺ نے احتجاج کیا تھا؟؟؟
امت مسلماں میں احتجاج کی یہ روش کہاں سے آئی؟ کیا احتجاج کا یہ فعل ہمیں عملاََ کمزور نہیں کر دیتا؟؟؟
ظلم، برائی، باطل ،غیر شرعی معاملات کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل ،جوابی کاروائی کی اسلام میں کیا صورت ہے ؟؟؟
اگر میں یہ کہوں کہ نجاشی بادشاہ کے دربار مین مسلمانوں احتجاج کیا تھا اور اس کو یہ بتایا تھا کہ یہ لوگ ہم پر ظلم کرتے ہیں ہمیں ان کے حوالے نہ کیا جاے ، کیا اس سے احتجاج کا جواز اخذ نہیں کیا جا سکتا ؟کیوں کہ نجاشی اس وقت عیسائی تھا اور مسلمان اس کے ملک میں ٹھہرے تھے تا کہ ان کو ظلم سے نجات ملے ، آج بھی اگر کوئی اچھے اور انصاف پسند کے سامنے احتجاجا کوئی معاملہ رکھے تو یہ درست ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ، واللہ اعلم بالصواب
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
اسلامی تعلیمات تو یہی ہیں کہ جب کوئی برائی یا غلط کام کیا جا رہا ہو تو اسے (ہاتھ،زبان یا دل سے)اپنی استطاعت کے مطابق روکنا یا ختم کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔
حدیث نبوی ہے:
«مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ»(مسلم:49)
تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے اسے چاہئے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے،اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے روکے ،اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو اسے اپنے دل میں برا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔
اس حدیث مبارکہ کے مطابق کسی کو زبان کے ذریعے برائی سے روکنا ثابت ہوتا ہے ،اور اگر زبان کے ذریعے روکنے والے عمل کو زیادہ طاقت سے پیش کرنا ہو تو باقاعدہ جلسے اور جلوس کی شکل بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔بشرطیکہ وہ جلسہ یا جلوس دیگر قباحتوں سے پاک ہو ،جن کی پہلے بھائیوں نے وضاحت کر دی ہے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
سب سے پہلے تو یہ بات نوٹ کرلیجئے کہ ”احتجاج“ کا تعلق ”امور دنیوی معاملات“ میں سے ہے۔ امور دنیوی کے بارے میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ سب کچھ جائز ہے الا یہ کہ (الف) کسی مخصوص امر کو قرآن و حدیث میں منع فرمایا گیا ہو (ب) یا کوئی دنیوی امر کسی اسلامی تعلیم سے متصادم ہو۔ لہٰذا سوال یہ نہیں بنتا کہ ”اسلامی تعلیمات میں احتجاج کا ذکر کہاں ہے؟“ بلکہ سوال یہ بنتا ہے کہ "اسلامی تعلیمات میں احتجاج کرنا اگر (کسی کے نزدیک) منع ہے تو اس کا ذکر کہاں ہے؟"

دوسری بات: ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم کوئی غلط بات دیکھو تو اُسے طاقت سے روکو۔ اگر طاقت سے نہ روک سکو تو زبان سے اسے بُرا کہو۔ اگر زبان سے بھی بُرا نہ کہہ سکو تو اسے دل میں ہی بُرا جانو۔ لیکن یہ ایمان کی سب سے کم تر حالت ہے۔

کسی ظلم یا اینٹی اسلامک بات یا واقعہ کے خلاف زبان و قلم سے کچھ کہنا ”احتجاج“ ہی تو ہے۔ چونکہ ہر فرد بولنے، تقریر کرنے یا لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لئے ایک بولنے والے مقرر کی تائید میں ہزاروں لوگ اس کے پیچھے بنفس نفیس (بصورت جلسہ ، جلوس یا مظاہرہ وغیرہ) موجود ہوتے ہیں۔ ”جلسہ کی روایت“ تو اسلام میں ابتدا سے موجود ہے۔ مسلمان نماز جمعہ اور نماز عیدین میں بڑے سے بڑا ”جلسہ“ منعقد کرتے ہیں۔ اس جلسہ میں اللہ کی عبادت سے قبل امام اور خطیب حالات حاضرہ پر مسلمانوں اور اسلام کا موقف پیش کرتے ہیں اور گرد و پیش میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز احتجاج بھی بلند کرتے ہیں۔ جلوس اور مظاہرہ البتہ ”اجتماعی اظہار رائے“ کا قدرے جدید طریقہ ہے۔ اور اگر جلوس کے دوران کوئی ”غیر اسلامی عمل“ نہ کیا جائے تو اسے بھی ”ممنوع“ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
ایک جانب آپ احتجاج کو دنیاوی امور میں شمار فرمارہے ہیں لیکن دوسری طرف آپ یہ فرمارہے ہیں کہ
اسلامی تعلیمات یہی ہیں کہ جب بھی اور جہان کہیں بھی "احتجاج" کی ضرورت محسوس ہو، ضرور کیا جائے تاکہ اپنے جذبہ ایمانی کا اعلان ہوسکے اور کل روز قیامت ہم یہ کہہ سکیں کہ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی اسلام یا اسلامی اقدار کے خلاف کوئی عمل ہوا، ہم نے مقدور بھر اس کے خلاف آواز بلند کی
اور اس احتجاج پر حدیث کی دلیل بھی عنایت فرمارہے ہیں کہ " جب تم کوئی غلط بات دیکھو تو اُسے طاقت سے روکو۔ اگر طاقت سے نہ روک سکو تو زبان سے اسے بُرا کہو۔"
احتجاج عموما غلط بات پرہی کیا جاتا ہے اور اس حدیث کے مطابق تو یہ احتجاج عین دینی کام ہوا اور اس پر یہ کہ جلوس کو بھی آپ مشروط طور سے جائز بتارہے ہیں تو کیا میلاد البنیﷺ کے جلوس خوشی کا اظہارکرنے کے لئے ان شرائط کے ساتھ نکالے جاسکتے ہیں ؟؟؟
 
Top