• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اف ! یہ خواہشات

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
كيا خوب كہا ہے کسی حکیم نے مکھی ہمیشہ غلاظت پر ہی بیٹھتی ہے
یہ حنفیوں، دیوبندیوں اور بریلویوں کی خاص ادا ہے کہ اپنے مذہب پر سے الزام ہٹانے کے لئے بغیر سوچے سمجھے ایسی باتیں کرتے ہیں جس کی زد دور دور تک پڑتی ہے۔ ہمارے سلف جو شروع سے گمراہوں فرقوں پر تنقید کرتے رہے انکی غلط باتوں کو منظر عام پر لاتے رہے کیا وہ نعوذ باللہ غلاظت پر بیٹھنے والی مکھیوں کی طرح تھے؟؟؟ پھر آپ سلف کے تنقیدی کام کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟؟؟

آپ حکیم صاحب کی مثال کو صحیح طور سمجھ نہیں پائے کیونکہ مکھی جب گندگی پر بیٹھتی ہے تو اپنے لئے کچھ لے کر اٹھتی ہے لہٰذا اس مثال کا صحیح مطلب یہ ہے کہ گندگی کا ڈھیر اصل میں فقہ حنفی ہے اور اس پر بیٹھنے والی مکھیاں حنفی۔ اس لئے یہ حنفی مکھیاں قرآن و حدیث جیسی پاکیزہ چیزوں کو چھوڑ کر تمام زندگی فقہ حنفی کی غلاظت پر بیٹھی رہتی ہیں۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
امت مسلمہ اس وقت جن حالت سےدوچار ہے ان کاتقاضایہی ہےکہ ہم اس طرح اپس کے ان داخلی وفروعی اختلافات سے صرف نظر کرکے اصل مسائل پر توجہ دیں۔ویسے بھی ہر مسلک میں کچھ شاذ آراہواہی کرتی ہیں اگرآپ حقیقت بینی کا ثبوت دیں تو اہل دیوبند کی نمایاں دینی خدمات کو فراموش نہی کیاجاسکتا۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ویسے بھی ہر مسلک میں کچھ شاذ آراہواہی کرتی ہیں اگرآپ حقیقت بینی کا ثبوت دیں تو اہل دیوبند کی نمایاں دینی خدمات کو فراموش نہی کیاجاسکتا۔
پیش کی گئی شاذ آرا نہیں ہے بلکہ حنفی مذہب میں اسکی جابجا ترغیب موجود ہے اور اسی مذہبی ترغیب کا اثر ہے کہ اکابرین دیوبند ایسے شوق کے حامل رہے ہیں تفصیل کے لئے اکابرین دیوبندی کی ہم جنس پرستی
نیز دیوبند کی نامعلوم دینی خدمات کی بنیاد پر اس گند کو تو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا جسے یہ لوگ دین کے نام پر پیش کررہے ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
گندی مکھیوں سے منہ لگا نہیں کرتے کیونکہ انہیں جواب دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا انسان جیسی عینک پہنتا ہے اسے ویسا ہی نظارہ نظر آتا ہے تعصب کی آگ میں جلے ہوئے چند حضرات جسکا نشانہ بنتے نظر آرہے ہیں اللہ تعالی سب کو سچ اور حق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
گندی مکھیوں سے منہ لگا نہیں کرتے کیونکہ انہیں جواب دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا انسان جیسی عینک پہنتا ہے اسے ویسا ہی نظارہ نظر آتا ہے تعصب کی آگ میں جلے ہوئے چند حضرات جسکا نشانہ بنتے نظر آرہے ہیں اللہ تعالی سب کو سچ اور حق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
جناب ذاتی طور پر ہم نہ گندی مکھیوں کے منہ لگتے ہیں اور نہ ہمیں گندی مکھیوں کے منہ لگنے کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ ان گندی مکھیوں کے منہ لگنے کی اصل وجہ اسلام کے نام پر گند پھیلانے والے ان گندے کیڑوں کو روکنے کے ساتھ ان کی اصل حقیقت سے سادہ لوح عوام کو مطلع کرنا ہے۔
تاکہ گند نما ڈھیر میں جو پڑ چکے ہیں ان کو گند کے ڈھیر کے نقصانات سے آگاہ کرسکیں،(یہ بھی عین الیقین ہے کہ اس گند کے ڈھیر سے گند پھیلانے والے خود بھی اچھی طرح واقف ہیں۔تبھی تو وفات کے وقت افسوس کرتے نظر آتے ہیں۔ پر پھر بھی محبوب مشغلہ اسی کو ہی بنایا ہوا ہے) اور جو اس گندگی کے ڈھیر میں پڑنے پر تلے بیٹھے ہیں یا جن معصوم جانوں کو اس گند میں شامل کرنے کےلیے تیار کیا جاچکا ہے۔ وہ اس گندگی سے بچ جائیں۔۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اگر کوئی شادی شدہ ھے تو وہ اپنی اہلیہ سے یہ سیکھ سکتا ھے کہ وہ اس کی اولاد کو جب پال پوس رہی ھوتی ھے تو اسے اس کی غلاظت صاف کرنے میں کبھی چہرہ پر بل آیا یا کبھی بدبو آئی۔ اور اگر کوئی طالب علم کنوارہ ھے تو وہ اپنی والدہ سے پوچھ سکتا ھے کہ اس کی پیدائش کے بعد جب اسی کی والدہ اس کی غلاظتیں اٹھاتی تھی تو کیا اسے اس سے کریت آتی تھی، وہ بڑے خوش نصیب ہیں جو اپنی والدہ یا دادی کے بڑھاپا میں ان کی خدمت کرتے اور جب وہ عمر کے اس حصہ میں پہنچ جائیں کہ جب اعضاء کام کرنا چھوڑ جائیں تو اس وقت ان کی اہلیہ جو بیٹی بن کر اس کی والدہ یا دادی کی خدمت کریں ایسی صورت میں انہیں بھی کبھی بدبو نہیں آتی اور اس کا اجرء اللہ کے پاس ھے جو انہیں زندگی میں بھی ملتا ھے اور آخرت میں بھی ملے گا۔ جس طرح دادی اور ماں کو اس کی پرورش کے دوران اس کی غلاظتیں اٹھانے میں خوشبو آتی ھے اسی طرح فرمانبردار اولاد ہو ان کے بڑھاپے میں ان کی خدمت کرتے وقت ان سے خوشبوئیں آتی ہیں۔

والسلام
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
السلام علیکم

اگر کوئی شادی شدہ ھے تو وہ اپنی اہلیہ سے یہ سیکھ سکتا ھے کہ وہ اس کی اولاد کو جب پال پوس رہی ھوتی ھے تو اسے اس کی غلاظت صاف کرنے میں کبھی چہرہ پر بل آیا یا کبھی بدبو آئی۔ اور اگر کوئی طالب علم کنوارہ ھے تو وہ اپنی والدہ سے پوچھ سکتا ھے کہ اس کی پیدائش کے بعد جب اسی کی والدہ اس کی غلاظتیں اٹھاتی تھی تو کیا اسے اس سے کریت آتی تھی، وہ بڑے خوش نصیب ہیں جو اپنی والدہ یا دادی کے بڑھاپا میں ان کی خدمت کرتے اور جب وہ عمر کے اس حصہ میں پہنچ جائیں کہ جب اعضاء کام کرنا چھوڑ جائیں تو اس وقت ان کی اہلیہ جو بیٹی بن کر اس کی والدہ یا دادی کی خدمت کریں ایسی صورت میں انہیں بھی کبھی بدبو نہیں آتی اور اس کا اجرء اللہ کے پاس ھے جو انہیں زندگی میں بھی ملتا ھے اور آخرت میں بھی ملے گا۔ جس طرح دادی اور ماں کو اس کی پرورش کے دوران اس کی غلاظتیں اٹھانے میں خوشبو آتی ھے اسی طرح فرمانبردار اولاد ہو ان کے بڑھاپے میں ان کی خدمت کرتے وقت ان سے خوشبوئیں آتی ہیں۔

والسلام
دور کی کڑیوں پر بلا تبصرہ ............. ابتسامہ
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
یعقوب صاحب

آپ کو تو غلاظت سے محبت ہے ۔
مثال کے طور پر تذکرۃ الخلیل میں مولانا الیاس تبلیغی صاحب کی دادی کے ڈائیریا والے کپڑوں سے خوشبو آتی تھی ۔



اگر کوئی شادی شدہ ھے تو وہ اپنی اہلیہ سے یہ سیکھ سکتا ھے کہ وہ اس کی اولاد کو جب پال پوس رہی ھوتی ھے تو اسے اس کی غلاظت صاف کرنے میں کبھی چہرہ پر بل آیا یا کبھی بدبو آئی۔ اور اگر کوئی طالب علم کنوارہ ھے تو وہ اپنی والدہ سے پوچھ سکتا ھے کہ اس کی پیدائش کے بعد جب اسی کی والدہ اس کی غلاظتیں اٹھاتی تھی تو کیا اسے اس سے کریت آتی تھی، وہ بڑے خوش نصیب ہیں جو اپنی والدہ یا دادی کے بڑھاپا میں ان کی خدمت کرتے اور جب وہ عمر کے اس حصہ میں پہنچ جائیں کہ جب اعضاء کام کرنا چھوڑ جائیں تو اس وقت ان کی اہلیہ جو بیٹی بن کر اس کی والدہ یا دادی کی خدمت کریں ایسی صورت میں انہیں بھی کبھی بدبو نہیں آتی اور اس کا اجرء اللہ کے پاس ھے جو انہیں زندگی میں بھی ملتا ھے اور آخرت میں بھی ملے گا۔ جس طرح دادی اور ماں کو اس کی پرورش کے دوران اس کی غلاظتیں اٹھانے میں خوشبو آتی ھے اسی طرح فرمانبردار اولاد ہو ان کے بڑھاپے میں ان کی خدمت کرتے وقت ان سے خوشبوئیں آتی ہیں۔

دور کی کڑیوں پر بلا تبصرہ ............. ابتسامہ
السلام علیکم

جن کو زندگی عطا ہو گی ان کے والدین اور ان سب نے بوڑھے ہونا ھے، وہ والدین خوش نصیب ہیں جن کی اولاد فرمانبرار ھے اس پر تمسخر نہیں اڑاؤ بلکہ سبق سیکھو۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ
٢:٢

قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلاً
١٨:٣٧

وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
٣١:١٤
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں [SUP](نیکی کا)[/SUP] تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں [SUP](اپنے پیٹ میں)[/SUP] برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے [SUP](اسے یہ حکم دیا)[/SUP] کہ تو میرا [SUP](بھی)[/SUP] شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ [SUP](تجھے)[/SUP] میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے

وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
٤٦:١٥
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے [SUP](پیٹ میں)[/SUP] اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا [SUP](پیٹ میں)[/SUP] اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا [SUP](یعنی زمانۂ حمل و رضاعت)[/SUP] تیس ماہ [SUP](پر مشتمل)[/SUP] ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور [SUP](پھر)[/SUP] چالیس سال [SUP](کی پختہ عمر)[/SUP] کو پہنچتا ہے، تو کہتا ہے: اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا
١٧:٢٣
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم ﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
کنعان صاحب
السلام علیکم

جن کو زندگی عطا ہو گی ان کے والدین اور ان سب نے بوڑھے ہونا ھے، وہ والدین خوش نصیب ہیں جن کی اولاد فرمانبرار ھے اس پر تمسخر نہیں اڑاؤ بلکہ سبق سیکھو۔

جناب مجھے آپ کے دلائل عجیب لگے ہیں کون ان چیزوں کا انکار کرتا ہے ۔لیکن جناب وہاں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ جو کپڑے ان کے بستر پر راکھے جاتے تھے ان سے عجیب خوشبو آتی تھی اور تمام مرد و زن سونگھتے تھے اور ان کو تبرک سمجھ کر رکھ لیا گیا ۔خدارا انصاف کا دامن مت چھوڑیں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top