- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
سیکولر ازم کا فروغ
اسی الحاد کی بنیاد پر سیکولر ازم کا نظریہ وجود پذیر ہوا جو مذہب اور الحاد کے درمیان تطبیق (Reconciliation) کی حیثیت رکھتا تھا۔ فلسفیانہ اور ملحدانہ نظریات نے اہل یورپ کی اشرافیہ کو بری طرح متاثر کردیا تھا۔ ان کے ہاں تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ہی ملحد اور لادین ہونا تھا۔ دوسری طرف عوام الناس میں اہل مذہب کا اثر ورسوخ خاصی حد تک باقی تھا۔ اہل مذہب کا ایک اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ بہت سے فرقوں میں منقسم تھے اور ایک فرقے کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ دوسرے کی بالادستی قبول کرسکے۔ ان حالات میں انہوں نے یہ طے کر لیا کہ ہر فرد کو اپنی ذات میں تو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی دی جائے لیکن اجتماعی اور ریاستی سطح پر مذہب سے بالکل لاتعلق ہو کر خالص عقل و دانش اور جمہوریت کی بنیادوں پر نظام حیات کو مرتب کر لیا جائے۔ اگر حکومت کا کوئی سرکاری مذہب ہو بھی تو اس کی حیثیت محض نمائشی ہو، اسے معاملات زندگی سے کوئی سروکار نہ ہو۔سیکولر ازم کے اس نظریے کا فروغ دراصل مذہب کی بہت بڑی شکست اور الحاد کی بہت بڑی فتح تھی۔ اہل مغرب نے اپنے سیاسی، عمرانی اور معاشی نظاموں کو مذہب کی روشنی سے دور ہوکر خالصتاً ملحدانہ بنیادوں پر استوار کیا۔ مذہب کو چرچ تک محدود کر دیا گیا۔ تمام قوانین جمہوری بنیادوں پر بنائے جانے لگے۔ عیسائیت میں بھی فری سیکس گناہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جمہوری اصولوں کے مطابق اکثریت کی خواہش پر اسے جائز قرار دیا گیا، حتیٰ کہ ہم جنس پرستی کو بھی قانونی مقام دیا گیا اور ایک ہی جنس میں شادی کو بھی قانونی ٹھہرا لیا گیا۔ سود ہمیشہ سے آسمانی مذاہب میں ممنوع رہا ہے، لیکن معیشت کا پورا نظام سود پر قائم کیا گیا۔
سیکولر ازم کے نتیجے میں الحاد اہل مغرب کے نظام حیات میں غالب قوت بن گیا ۔ان کی اکثریت اگرچہ اب بھی خدا کی منکر نہیں ہے لیکن عملی اعتبار سے وہ خدا، نبوت و رسالت اور آخرت کا انکار کر چکی ہے۔ اگر کوئی مذہب کو حق مانتا ہے تو پھر یہ لازم ہے کہ وہ اسے اپنی پرائیویٹ لائف کے ساتھ ساتھ پبلک لائف میں بھی اپنائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا کو ماننے کے باوجود وہ عملاً خدا ، نبوت اور آخرت کا انکار کرکے الحاد کو اختیار کرہی چکا ہے۔ اب اس کے بعد صرف انسانی اخلاقیات یا دین فطرت ہی باقی رہ جاتا ہے جسے ملحدین بھی مانتے ہیں۔ اہل مغرب اگرچہ ان میں سے بہت سے اصولوں کو چھوڑ چکے ہیں لیکن اب بھی وہ ان اخلاقی اصولوں کے بڑے حصے کو اپنائے ہوئے ہیں۔