آپ کی ناقص رائے سے قطع نظرعمومی طورپر شادی سنت رسول ہے بعض حالات میں فرض ،بعض میں واجب اوربعض میں نہ کرنا بہتر ہے۔
جی بالکل جمشید صاحب اتفاق۔لیکن اکثر حالات میں سنت ہی ہے۔اور یہ فرض وواجب بھی موقع کی مناسبت سے ہے۔ایک ایسا شخص جس پر شادی کرنا واجب ہو اس کو جنگل میں ڈال دیا جائے تو پھر یہ واجب ساقظ ہوجائے گا۔بہرحال آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔
ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گاکہ حضرت ابن تیمیہ نے سنت کی مخالفت کا ارادہ کیاتھا یانہیں ؟
اس کا جواب آپ مجھ سے بہتر ہی جانتے ہیں۔بہتر ہوتا کہ آپ یہ الفاظ ہی نہ لکھتے۔کیونکہ اس کا جو جواب آپ کے پاس ہے وہی میرے پاس ہے۔اتنا بڑے امام کے بارے میں یہ گمان رکھنا بھی میں سمجھتا ہوں کہ عقل کی خرابی ہے۔
شادی کرنا واضح طورپر سنت رسول ہے؟اس کی حدیث النکاح من سنتی توان لوگوں کوبھی معلوم رہتی ہے جنہوں نے زندگی مین حدیث کی کوئی کتاب نہ پڑھی ہو۔
جی جمشید بھائی شادی کرنا سنت رسولﷺ ہے اور یہ بات ہر ذی شعور مسلم کو معلوم ہی ہے۔چاہے انہوں نے حدیث کی کتاب پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو۔پر ایک بات بتاتا چلوں مشاہدہ میں ایسے لوگ بھی آئے ہیں کہ جو شادی کو رسم ورواج کے ساتھ ساتھ جنس پرستی کی حد تک سمجھتے ہیں۔بس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھتے۔لیکن اس کےساتھ یہ بھی مشاہدہ ہوا ہے کہ بعد میں ان کا یہ نظریہ تبدیل بھی ہوجاتا ہے۔
پھرحضرت ابن تیمیہ جیسے جلیل القدر عالم دین جن کی نگاہ احادیث کے ذیرہ پر بڑی وسیع تھی ان کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ ان کو یہ حدیث نہیں پہنچی ہوگی۔ناقابل قیاس ہے۔
بالکل ضرور انہوں نے اس حدیث کو پڑھا پڑھایا اور بیان کیا ہوگا۔
اگراسی اصول پر ہم پوچھیں کہ آپ ثابت کردیں کہ امام ابوحنیفہ نے جان بوجھ کر اوردانستہ کتاب اللہ کی مخالفت کا ارادہ کرکے رضاعت کے ڈھائی سال ہونے کا فتوی دیاہے ؟توآپ کا کیاجواب ہوگا۔
ابوحنیفہ نے جان بوجھ کر اور دانستہ فتوی دیا یا کسی اور صورت میں دیا۔لیکن ابوحنیفہ تو بری ہوگئے کیونکہ انہوں نے تو کہہ دیا
’’اذا صح الحدیث فہو مذہبی‘‘ اور یہ جملہ انسان تب ہی بولتا کہ جب انسان کو یقین ہوتا ہے کہ مجھ سے کوئی غلط بات بھی صادر ہوسکتی ہے۔اور ابوحنیفہ کو بھی یقین تھا کہ مجھ سے غلط باتیں صادر ہوئی ہیں۔اور یہ بھی میرا ذاتی خیال اور گمان غالب ہے کہ غلطی واضح ہونے پر ہی انہوں نے یہ جملے بیان فرمائے ہونگے۔واللہ اعلم
کیاآپ کے پاس کوئی ایساثبوت ہے جس سے ثابت کریں کہ امام ابوحنیفہ نے جوفتویٰ دیاتھاوہ کسی تاویل کے بغیر تھا اوریہ اجتہادی خطاء نہیں بلکہ دانستہ کتاب اللہ کی مخالفت کرکے دیاگیاتھا۔
اگرایساکوئی ثبوت ہوتوپیش کریں۔
جمشید صاحب بہت خوب دلیل ہے ناں اور وہ ہے سالہاسال سے آپ لوگوں کا دفاع میں اوراق کے اوراق کالے کرنا اور انتہاء کی انتہاہی درجوں کو بھی کراس کرتے ہوئے قرآن وحدیث سے پھر اپنے من مانے مطالب ومفاہیم لے کر دفاع بھی کرنا۔اور یہ بھی نہ دیکھنا کہ قول امام کے دفاع میں قول دین حنیف پر کس طرح چھری چلتی جارہی ہے۔
چلو ہم مان لیتے ہیں کہ ابو حنیفہ نے خطاء کی ہے۔اور قرآن کےخلاف فتوی دے دیا ہے۔
تو کیا آپ اس بات کو ماننے کےلیے تیار ہیں کہ ابوحنیفہ نے غلطی کی ہے۔؟ کیا آپ کے کسی عالم نے اس فتوے کو غلط کہہ کر ابوحنیفہ کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے قرآن کے خلاف فتوی دیا تھا ؟ کیا آپ کے پاس یہ ثبوت ہے کہ ابوحنیفہ نے آخر عمر میں یہ فتوی دیا تھا اور اس کے بعد غور وفکر کرنے کا ان کو موقع ہی نہیں ملا ؟
اس کا دفاع کرتے ہوئے یہ تو بات آپ پر صادق آتی ہے کہ آپ ہمارے سامنے ایسی پختہ دلیل لائیں کہ بھائی جانو یہ دیکھو کہ امام صاحب کی یہ اجتہادی غلطی اورخطاء ہے اور رجوع اس لیے ثابت نہیں کہ بعد میں زندگی نے ان کوموقع ہی نہیں دیا۔
اور اس کے ساتھ آپ بھی اقرار کریں اور لکھیں کہ ہمارے امام نے یہ فتوی قرآن کے خلاف دیا ہے۔ہم اس کو نہیں مانتے۔
آپ دفاع میں اپنی عاقبت کیوں خرات کرتے چلے آرہے ہیں وجہ ؟؟
انسان کے سامنے رضاعت کا ایک مسئلہ آتاہے وہ اس پر اپنی رایٔے ظاہر کرتاہے۔
ٹھیک ہے اس انسان نے رائے کا اظہار کردیا اور اس کی وہ رائے غلط ثابت ہوئی تو پھر مابعد لوگوں کو یہ اتھارٹی کس نے دی کہ رائے کے غلط ہونے پر بھی غلط تسلیم نہ کرو اورتاویل در تاویل کرتے جاؤ چاہےبعید کی ہی کیوں نہ ہو۔
شادی زندگی بھر کا مسئلہ ہے۔انسان کو ہرآن احساس ہوتاہے۔
شادی زندگی بھر کا تو مسئلہ ہے لیکن ہر آن احساس ہر کسی کو نہیں بلکہ کچھ جملہ معترضہ کی طرح بھی ہوتے ہیں۔اور جملہ معترضہ کے لائق ہونے کے ساتھ بھی احساس بہرحال ہوتا ہے۔مانتا ہوں
یہ ارشاد رسول کی مخالفت ہم آپ کے اصول پرکہہ رہے ہیں۔
اچھا بھائی یعنی آپ بھائی کے اصول کے تحت ارشاد فرما ہیں کہ امام شخ الاسلام ابن تیمیہ نے مخالفت ارشاد نبویﷺ کیا۔؟ نعوذباللہ
شادی نہ کرنے کی کیا وجوہات تھیں ؟ کیا اس عمل پر بعد والے ان کو مورد الزام ٹھہراسکتے ہیں ؟ میں تو کہتا ہوں کہ شیخ کا یہ فعل جو کہ سنت بھی ہے ذاتی تھا۔اور ذاتی فعل کی وجہ سے ہم کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔چاہے جیکہ اتنے بڑے امام کے بارے میں چند لفظ سوچے جائیں۔
اور اس پر پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ سالوں بعد ایک شخص آکر اس بات کا ثبوت مانگنے بیٹھ جائے کہ انہوں نے شادی کیوں نہیں کی ؟ میرا یقین ہے کہ شیخ الاسلام شادی کو سنت سمجھتے ہونگے اور شاید آپ کے اس فرمان ذی شان کے مستحق ہوں
اوربعض میں نہ کرنا بہتر ہے۔
اگر ایک سنت جو کہ بعض حالت میں ترک کرنا بھی واجب ہوتا ہے۔کسی مصلحت کے تحت پوری نہیں کی اور ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ وہ مصلحت اس سنت پوری کرنے سے زیادہ قوی ہونگی تو اس پر کسی کو حق نہیں کہ شیخ کے بارے میں سوال وجوابات کا سلسلہ قائم کردے۔
آپ کا اس پورے تھریڈ میں طرز استدلال یہ رہاہے کہ اپنی کہے جائو کسی دوسرے کی مت سنو اورتاویل،اجتہاد ی خطاء وغیرہ کسی عذر کو تسلیم نہ کرو۔
بھائی ہم سب کچھ ماننے کو تیار ہیں پر آپ واضح غلطی کے باوجود بھی نہیں مان رہے۔سب کو معلوم ہے کہ یہ فتوی قرآن کے سراسر خلاف ہے لیکن پھر بھی کئی کئی صفحات پر مشتمل کتب لکھی جا چکی ہیں ۔اب
’’اپنی کیئے جاؤ کسی دوسرے کی مت سنو‘‘ والی بات کس میں ہے آپ لوگوں میں یا ہم میں۔؟
اسی اصول پر ہم سوال کرتے ہیں کہ حضرت ابن تیمیہ علیہ الرحمہ مخالفت رسول کے الزام سے کس طرح بری ہوں گے۔
تفصیل سے بتلا دیا ہے۔اور آپ کی اپنی بات سے ہی شیخ الاسلام رحمہ اللہ کو آپ کے سوال سے بری کردیا ہے۔الحمدللہ
آپ نے شرعی عذر کی بات کی ہے۔کیااس شرعی عذر کی تفصیل ہم جان سکتے ہیں۔
غالب گمان کہا جاسکتا ہے۔بغیر دلیل کے شرعی عذر بیان نہیں کیا جاسکتا۔اگر فاعل فعل خود وضاحت فرمادے تو بہت عمدہ
اگربات ہمارے اصول کے لحاظ سے ہو توانشاء اللہ نہ حضرت ابن تیمیہ پر کوئی الزام ہوگااورنہ ہی حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ پر
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر نہ الزام تھا نہ الزام ہے اور نہ الزام ہوگا اورنہ کوئی لگا سکتا ہے۔لیکن ابوحنیفہ پر الزام ہے ہاں جب تک آپ لوگ یہ ثابت نہیں کرتے کہ ان کا یہ فتوی آخری سانسوں کا ہے۔؟ اس کے بعد رجوع کا موقع ہی نہیں ملا۔باقی سوچ کچھ آگے بھی رکھنا کس کس فتوی و قول کےبارے میں کہوگے کہ یہ آخری سانسوں کا ہے۔؟ اور پھر الزام کی دوسری وجہ پوری مقلدیت بھی ہے کہ اس فتوی کے دفاع میں کیا کچھ نہیں کررہے۔اللہ بہتر جانتا ہے بیان کرنا تو میرے بس میں ہی نہیں۔