• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' میرے تبلیغی جماعت کے بھا ئیوں تم خود کوشش کیوں نہیں ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
تلمیذ بھا ئی میں نے تو آپ لوگوں کا عقیدہ بیان کیا ہے کیوں آپ لوگ امت کو گمراہ کرتے ہو جب ھمارے پاس قرآن اورصحیح موجود یے تو ان کتابوں کی کیا حیثیت ہیں-


بسم اللہ الرحمن الرحیم
"سنت صحیحہ سے لا علمی بدعت کا ایک سبب"
رسول اکرم ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا چونکہ ہر مسلمان کا فرض ہے اس لئے بیشتر لوگ رسول اکرم ﷺ کے نام سے منسوب کی گئی ہر بات کو سنت سمجھ کر اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں ،بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس بات کی تحقیق کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے نام سے منسوب کی گئی بات آپ ﷺ ہی کی ہے یا آپ ﷺ کے نام سے غلط طور پر منسوب کی گئی ہے ؟عوام الناس کی اس کمزوری یا لاعلمی کے باعث بہت سی بدعات اور رسومات رائج ہو گئی ہیں جنہیں بعض لوگ نیک نیتی سے دین سمجھ کر کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ہمارے علم میں بہت سے ایسے افراد ہیں جنہوں نے صحیح اور ضعیف احادیث کا فرق واضح ہو جانے کے بعد غیر مسنون افعال کو ترک کرنے اور مسنون افعال پر عمل کرنے میں لمحہ بھر تامل نہیں کیا۔صحیح اور ضعیف احادیث کا شعور رکھنے والے حضرات پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو اس فرق سے آگاہ کریں اور انہیں بدعات کی اس دلدل سے نکالنے کے لئے بھر پور جدوجہد کریں۔یہاں ہم اپنے ان بھائیوں کو بھی احساس ذمہ داری دلانا چاہتے ہیں جو دعوت دین کا فریضہ بڑی محنت اور خلوص سے سر انجام دے ررہے ہیں ،لیکن صحیح تحقیق نہ ہونے کے باوجود اپنی گفتگو میں "حدیث میں آیا ہے " یا " رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے " جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں ۔یاد رکھئے ! رسول اکرم ﷺ کی طرف کوئی قول منسوب کرنا بہت بڑی ذمہ داری کی بات ہے۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے
جس نے جان بوجھ کر میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے ۔(بحوالہ صحیح مسلم)
پس عوام کی رہنمائی کرنے والوں کا فرض یہ ہے کہ وہ رسول اکرم ﷺ کے نام سے منسوب کردہ ہر بات کو سنت سمجھ کر اس وقت تک نہ اپنائیں جب تک اس بات کا مکمل اطمینان نہ کر لیں کہ آپ ﷺ کے نام سے منسوب کردہ بات فی الواقع آپ ﷺ ہی کا فرمان ہے۔
(اتباع سنت کے مسائل از محمد اقبال کیلانی ،صفحہ نمبر 26،27)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
تلمیذ بھا ئی اس کو بھی پڑھ لے -

رسول اکرم ﷺ کی طرف کوئی قول منسوب کرنا بہت بڑی ذمہ داری کی بات ہے۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے
جس نے جان بوجھ کر میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے ۔(بحوالہ صحیح مسلم)


روٹی کی کہانی فضائل اعمال کی زبانی:
شیخ ابو الخیر اقطع فرماتے ہیں میں مدینہ منورہ میں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔5 دن وہاں قیام کیا۔ کچھ مجھ کو ذوق و لطف حاصل نہ ہوا۔ میں قبر شریف کے پاس حاضر ہوا اور جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رض کو سلام کیا اور عرض کیا اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج میں آپ کا مہمان ہوں پھر وہاں سے ہٹ کر منبر کے پیچھے سوگیا- خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا- سیدنا ابوبکر رض آپ کے داہنی حانب اور سیدنا عمر رض آپ کے بائيں جانب تھے اور سیدنا علی رض اپ کے آگے تھے۔ سیدنا علی رض نے مجھ کو ہلایا اور فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں- میں اٹھا اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان چوما حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک روٹی عنایت فرمائی- میں نے آدھی کھالی اور جاگا تو آدھی میرے ہاتھ میں تھی۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
روٹی لے کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آسمان سے اتری:
1/ شاھ ولی اللہ اپنے یا اپنے والد کے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک روز مجھے بہت ہی بھک لگی (نا معلوم کتنے روز کا فاقہ تھا) میں نے اللہ جل شانہ سے دعا کی تو میں دیکھا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آسمان سے اتری اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک روٹی تھی گویا اللہ تعالی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا تھا کہ یہ روٹی مجھے مرحمت فرمائيں۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
2/ ایک بھوکے کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کا پیالہ بھیجا۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
3/ اور اور قصے مین لکھا ہے کہ شاھ جی کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں روٹی دی جاگنے پر زعفران کی خوشبو آرہی تھی۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 799، قدیمی: 836)
4/ ایک قصہ اس طرح لکھا ہوا ہے کہ شاھ جی بیمار ہوگئے خواب میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بیٹے کیسی طبیعت ہے اس کے بعد شفا کی بشارت فرمائی اور اپنی داڑھی مبارک میں سے دو بال مجھے عطا فرمائے میری اس وقت صحت ٹھیک ہوگئی اور جب میری آنکھ کھلی تو دونوں بال میرے ہاتھ میں تھے۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 798، قدیمی:835)
5/ ان واقعات کو لکھ کر مولانا ذکریا مزید کہتے ہیں کہ جب اکابر صوفیا کی توجہات معروف و متواتر ہیں تو سید الاولین و الآخرین کی توجہ کا کیا پوچھنا۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی: 834)
قارئین توجہ فرمائيں:
ان واقعات میں قبر والوں سے سوال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سماء موتی کے عقیدے کی دعوت پیش کی گئی ہے۔
سماع موتی کا عقیدہ شرک کی طرف کھلنے والا چور دروازہ ہے- جسے تبلیغی بورگوں نے فضائل اعمال کے ذریعے کھولا ہوا ہے- یہ لوگ کہتے ہیں:
" اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیروں سے کچھ نہ ہونے کا یقین"-
مگر یہاں اس دعوی کی حقیقت کھل کے سامنے آگئی ہے ان کے عقیدے کے مطابق:
1/ نبی ۖاپنی قبر پر آنے والے ضرورتمندوں کی ضرورت کو جانتے اور ضرورتیں پوری بھی کرتے ہیں۔
2/ (اگر قبر مبارک میں راشن کی کمی ہوجائے تو) روح مبارک آسمان جگر لگا کر سائل کی ضرورت کا سامان خوراک پہنچاتی ہے اور سائل جاگتے جاگتے یہ سب منطر دیکھ رہا ہوتا ہے۔
3/ خواب میں داڑھی مبارک کے بال دیے تو جاگنے پر ہاتھ میں موجود تھے۔
4/خواب میں روٹی دی تو جاگنے پر وہ بھی ہاتھ میں تھی۔
روزی دینے والا صرف اللہ تعالی ہے:
1/ اللہ تعالی کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہین روزی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ رزق اللہ تعالی کے پاس تلاش کرو اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو، کیونکہ پلٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔
(العنکبوت: 29/17)
بھوک میں صرف اللہ تعالی کھلاتا پلاتا ہے:
1/ (ابراھیم علیہ السلام نے کہا) اور وہی اللہ تعالی مجھے کھالاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں شفا بھی وہی عطا کرتا ہے۔
(الشعرا= 26/ 79-80)
2/ اگر اللہ تعالی رزق روک لے تو کوئی ہے جو تم کو روزی دے سکے۔
( ملک: 67/21)

قارئین! یہ ہے اسلامی عقیدہ جس سے صاف پتہ چلتا ہے ہے کہ پکارنے والے کی پکار، ضرورتمندوں کی ضرورتیں، بھوکوں کو رزق، بیماروں کو شفاء صرف اللہ تعالی عطا کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی نبی، ولی، قبر والے کی پکار نہیں سن سکتے- اگر بالفرض سن بھی لیں تو مدد نہیں کرسکتے۔ لہذا اپنی ضرورتین لے کر اللہ تعالی کے سامنے پیش کرنا چاہیے نہ کہ بے اختیار قبر والوں کے پاس۔ (قبر کسی نبی کی ہو یا کسی ولی کی)
بھائیو! فضائل اعمال میں اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں۔ یہاں میں نے صرف چند کو مثال کے طور پر بیان کیا ہے اللہ ایسے مشرکانہ عقیدے سے بچائے اور ہمیں اللہ تعالی کے حکموں اور نبی ۖ کے طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
اول ۔ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا
ایک سانس والی بات میں 100٪ اتفاق کرتا ہوں۔ کیونکہ میں ایسے صاحب کو جانتا ہوں بوجہ مجبوری انکا نام نہیں لے سکتا، اس کے لیے معذرت وہ ایک سانس میں سورۃ المزمل پڑھ لیتے ہیں۔ ایک بار نہیں بلکہ ایک سے زائد بار
اگر بندہ سورۃ المزمل پڑھ سکتا ہے ایک سانس میں تو دو سومرتبہ لا الہ الا اللہ بھی پڑھ سکتا ہے۔
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
جزاک اللہ خیرا ، شکر ہے کوئی موضوع سے متعلق تو جواب آیا ورنہ Muhammad Aamir Younus نے غالبا اپنے اکابر سے یہی سیکھا ہے کہ کسی کو تکفیر کرو اگر مخاطب قرآن و حدیث سے جواب دے موضوع سے ہٹ بس الزامات لگاتے جائو اور کوئی جواب نہ دو ، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تکنیک کہاں مستعمل ہوتی ہے
جب یہ تھریڈ شروع ہوا تو صاجب مضمون نے فضائل اعمال سے دو واقعات نقل کیے
اول ۔ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا
دوم ایک نوجوان کا امور غیبی میں سے کچھ بیان کرنا
ان واقعات کو رد کچھ طرح سے کیا گيا
اول ۔ چوں کہ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا ممکن نظر نہیں آتا تو یہ واقعہ جھوٹا ہوا
کسی بھی واقعہ کو رد کرنے کا یہ معیار نہیں اگر ایک واقعہ ہماری عقل کے معیار پر پورا نہ اترے تو ہم رد کردیں ، اس طرح تو احادیث میں بیان کردہ کئی واقعات رد کرنے پڑیں گے جو ہماری عقل پر پورا نہیں اترتے جیسا کہ میں نے جریج والا قصہ حدیث کے حوالہ سے نقل کیا اور دودھ پیتے بچے نے ایک عورت سے متعلق گواہی دی کہ وہ عورت زانیہ نہیں اور بات ہماری عقل میں نہیں آتی کہ ایک دودھ پیتا بچہ کس طرح ایک عورت کی پاکدامنی بیان کرسکتا ہے تو کیا ہم حدیث میں مزکور قصہ کا بھی انکار کردیں

دوم
دوسرا طریق ان واقعات کو رد کرنے کا یہ اختیار کیا گيا کہ چوں کہ قرطبی والے واقعے میں نوجوان امور غیب پر مطلع ہوا تو صاحب مضمون نے اس یہ نتیجہ اخذ کیا اس سے یہ نوجوان عالم الغیب ثابت ہوتا ہے تو اس واقعہ کو رد کیا ۔ میں نے اسی لئیے یہ جریج والا واقعہ نقل کیا تاکہ یہ بتاسکوں اس واقعہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ایک دودھ پیتا بچہ بھی امور غیب پر مطلع ہوا تو کیا اس بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو معاذ اللہ رد کیا جائے
سوم
اس واقعہ سے یہ عقیدہ کشید کیا گيا کہ تبلیغی جماعت والے علم الغیب کی صفت میں اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے ہیں تو وہ دودھ پیتا بچہ بھی غیب پر مطلع ہوا تو کیا وہ بھی عالم الغیب ہوا اگر وہ علم الغیب پر مطلع ہونے کی باوجود عالم الغیب نہیں ہوا تو قرطبی والے واقعہ میں نوجوان کیسے عالم الغیب ہو گيا
یہ تو ہوا ماقبل بحث کا خلاصہ

آپ کی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے نذدیک یہ اعتراضات درست نہیں ، اس لئیے آپ نے ایک نیا اعتراض وارد کیا ہے ، چوں کہ اس واقعہ کی سند مذکور نہیں اس لئیے یہ واقعہ من گھڑت ہے ۔
محترم ایک کوئی شخص ایک واقعہ بیان کرتا ہے اور اس کی سند نہیں تو اگر کوئی شخص یہ کہے چوں کہ اس کی سند نہیں اس لئیے میں اس کی سچائی پر یقین نہیں رکھتا تو بات سمجھ آتی ہے لیکن اگر اس واقعہ کو من گھڑت کہا جائے تو اس کا مطلب ہے جس نے یہ واقعہ تحریر کیا ہے وہ واقعات گھڑتا ہے اور ایک نمبر کا جھوٹا شخص ہے ۔
آپ کی بات سے تو یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ بے سند واقعات کو من گھڑت کہتے ہیں اور من گھڑت واقعات تحریر کرنے والا جھوٹا ہوتا ہے ۔ اگر یہی آپ کا نظریہ ہے تو آپ تصدیق کردیں پھر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کے نظریہ کے مطابق اس امت میں کون کون جھوٹا شخص گذرا ہے
جزاک اللہ آپ نے ایک نہایت اچھا جوب دیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ من گھڑت واقعات تحریر کرنے والا لازمی طور پر جھوٹا ہوتا ہے ممکن ہے تحریر کرنے والا محض ایک ناقل ہو اور خود بھی اس واقعے کو صحیح نہ مانتا ہو۔ سوال اس کے بارے میں اٹھتا ہے جو ایسے واقعات کو صحیح مانتا ہو حالانکہ اس کے پاس اس کو صحیح کہنے کی کوئی دلیل نہ ہو۔

یقینا آپ بھی یہ مانتے ہوں گے کہ کرامت کا ظہور اختیاری نہیں ہوتا بلکہ منجانب اللہ ہی ہوتا ہے تو اگر کوئی شخص دعوے کے ساتھ کرامت کا ظہور کرے تو وہ کرامت نہیں بلکہ استدراج یا شیطان کا بہکاوا ہے۔ جہاں تک فضائل اعمال کے واقعے کا تعلق ہے تو اس کو صحیح ماننے سے میں اس لئے عاجز ہوں کہ میرے پاس اس کو صحیح ماننے کی کوئی دلیل نہیں۔
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
تلمیذ
جہاں تک تعلق ہے ایک سانس میں 200 بار لا الہ الا اللہ کہنے کا تو یہ بات نا ممکن ہرگز نہیں ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ مسلسل 5 منٹ تک بھی سانس روک لیتے ہیں۔ تو 200 بار یہ ورد کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے کی کوئی خاص فضیلت بھی ہے (میرے خیال میں نہیں ہے)۔ اگر نہیں ہے تو ایسا عمل کرنے کا کیا فائدہ جس پہ نبی کی سنت سے کچھ ثابت نہ ہو۔ اب کوئی ایک سانس میں اتنا ورد کرے یا رک رک کے کرے ثواب دونوں کو برابر ہی ملے گا۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
کیا آپ ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد کر سکتے ہیں؟

السلام علیکم

محترم برادر، آپ نے خود اس پر کوشش کی ہو گی اور ایک سانس میں 20 مرتبہ تک ہی شائد کر پائے ہوں۔ اس لئے آپ نے اندازہ باندھ لیا کہ ایک سانس میں 200 مرتبہ نہیں ہو سکتا، اگر آپ روزانہ کوشش کریں تو شائد تعداد بڑھنی شروع ہو جائے مگر 100 کے قریب ہی رہے گی۔

میرا تبلیغی جماعت سے کوئی تعلق نہیں مگر میں ایک سانس میں 5000 مرتبہ نفی اثبات کا ذکر کر لیتا ہوں ہو سکتا ھے آپکا اگلا سوال یہ ہو کہ 5000 کی گنتی کیسے تو اس پر ایک ہزار دانہ کی تسبی استعمال میں لائی جاتی ھے۔ باقی آپ دوسرے بھائیوں سے اپنی گفتگو جاری رکھیں۔ ابتسامہ!

والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
تلمیذ بھا ئی اس کو بھی پڑھ لے -

قرآن و حدیث میں غلط بات پر اڑے رہنے کی مذمت بیان ہوئی ہے ۔
محدثین کے اقوال اس کی بہت زیادہ اہمیت ملتی ہے
۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :الرجوع الی الحق خیر من التمادی فی الباطل ''حق بات کی طرف رجوع کرنا غلط اور باطل بات پر اڑے رہنے سے بہتر ہے (فقہ الکتاب والسنۃ و رفع الحرج عن الامۃ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ :ص۷۳)

اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی مشہور کتاب (حجۃ اللہ البالغۃ ص:۱۰)میں فرماتے ہیں :''لوگو میں ہر اس بات سے بری ہوں جو مجھ سے کتاب و سنت کے خلاف کہی یا لکھی گئی ہو ،اللہ اس شخص پر رحم کرے جو میری ایسی بات پر مجھے تنبیہ کرے ۔'
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
تلمیذ
جہاں تک تعلق ہے ایک سانس میں 200 بار لا الہ الا اللہ کہنے کا تو یہ بات نا ممکن ہرگز نہیں ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ مسلسل 5 منٹ تک بھی سانس روک لیتے ہیں۔ تو 200 بار یہ ورد کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے کی کوئی خاص فضیلت بھی ہے (میرے خیال میں نہیں ہے)۔ اگر نہیں ہے تو ایسا عمل کرنے کا کیا فائدہ جس پہ نبی کی سنت سے کچھ ثابت نہ ہو۔ اب کوئی ایک سانس میں اتنا ورد کرے یا رک رک کے کرے ثواب دونوں کو برابر ہی ملے گا۔


قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ١٠٣ -الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ١٠٤ سوره الکھف
کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں کہ کون اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں - وہ کہ جن کی ساری کوششیں اس دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئیں اور وہ یہ خیال کرتے رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم

محترم برادر، آپ نے خود اس پر کوشش کی ہو گی اور ایک سانس میں 20 مرتبہ تک ہی شائد کر پائے ہوں۔ اس لئے آپ نے اندازہ باندھ لیا کہ ایک سانس میں 200 مرتبہ نہیں ہو سکتا، اگر آپ روزانہ کوشش کریں تو شائد تعداد بڑھنی شروع ہو جائے مگر 100 کے قریب ہی رہے گی۔

میرا تبلیغی جماعت سے کوئی تعلق نہیں مگر میں ایک سانس میں 5000 مرتبہ نفی اثبات کا ذکر کر لیتا ہوں ہو سکتا ھے آپکا اگلا سوال یہ ہو کہ 5000 کی گنتی کیسے تو اس پر ایک ہزار دانہ کی تسبی استعمال میں لائی جاتی ھے۔ باقی آپ دوسرے بھائیوں سے اپنی گفتگو جاری رکھیں۔ ابتسامہ!

والسلام


قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ١٠٣ -الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ١٠٤ سوره الکھف
کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں کہ کون اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں - وہ کہ جن کی ساری کوششیں اس دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئیں اور وہ یہ خیال کرتے رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں-

 
Top