جزاک اللہ خیرا ، شکر ہے کوئی موضوع سے متعلق تو جواب آیا ورنہ
Muhammad Aamir Younus نے غالبا اپنے اکابر سے یہی سیکھا ہے کہ کسی کو تکفیر کرو اگر مخاطب قرآن و حدیث سے جواب دے موضوع سے ہٹ بس الزامات لگاتے جائو اور کوئی جواب نہ دو ، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تکنیک کہاں مستعمل ہوتی ہے
جب یہ تھریڈ شروع ہوا تو صاجب مضمون نے فضائل اعمال سے دو واقعات نقل کیے
اول ۔ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا
دوم ایک نوجوان کا امور غیبی میں سے کچھ بیان کرنا
ان واقعات کو رد کچھ طرح سے کیا گيا
اول ۔ چوں کہ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا ممکن نظر نہیں آتا تو یہ واقعہ جھوٹا ہوا
کسی بھی واقعہ کو رد کرنے کا یہ معیار نہیں اگر ایک واقعہ ہماری عقل کے معیار پر پورا نہ اترے تو ہم رد کردیں ، اس طرح تو احادیث میں بیان کردہ کئی واقعات رد کرنے پڑیں گے جو ہماری عقل پر پورا نہیں اترتے جیسا کہ میں نے جریج والا قصہ حدیث کے حوالہ سے نقل کیا اور دودھ پیتے بچے نے ایک عورت سے متعلق گواہی دی کہ وہ عورت زانیہ نہیں اور بات ہماری عقل میں نہیں آتی کہ ایک دودھ پیتا بچہ کس طرح ایک عورت کی پاکدامنی بیان کرسکتا ہے تو کیا ہم حدیث میں مزکور قصہ کا بھی انکار کردیں
دوم
دوسرا طریق ان واقعات کو رد کرنے کا یہ اختیار کیا گيا کہ چوں کہ قرطبی والے واقعے میں نوجوان امور غیب پر مطلع ہوا تو صاحب مضمون نے اس یہ نتیجہ اخذ کیا اس سے یہ نوجوان عالم الغیب ثابت ہوتا ہے تو اس واقعہ کو رد کیا ۔ میں نے اسی لئیے یہ جریج والا واقعہ نقل کیا تاکہ یہ بتاسکوں اس واقعہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ایک دودھ پیتا بچہ بھی امور غیب پر مطلع ہوا تو کیا اس بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو معاذ اللہ رد کیا جائے
سوم
اس واقعہ سے یہ عقیدہ کشید کیا گيا کہ تبلیغی جماعت والے علم الغیب کی صفت میں اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے ہیں تو وہ دودھ پیتا بچہ بھی غیب پر مطلع ہوا تو کیا وہ بھی عالم الغیب ہوا اگر وہ علم الغیب پر مطلع ہونے کی باوجود عالم الغیب نہیں ہوا تو قرطبی والے واقعہ میں نوجوان کیسے عالم الغیب ہو گيا
یہ تو ہوا ماقبل بحث کا خلاصہ
آپ کی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے نذدیک یہ اعتراضات درست نہیں ، اس لئیے آپ نے ایک نیا اعتراض وارد کیا ہے ، چوں کہ اس واقعہ کی سند مذکور نہیں اس لئیے یہ واقعہ من گھڑت ہے ۔
محترم ایک کوئی شخص ایک واقعہ بیان کرتا ہے اور اس کی سند نہیں تو اگر کوئی شخص یہ کہے چوں کہ اس کی سند نہیں اس لئیے میں اس کی سچائی پر یقین نہیں رکھتا تو بات سمجھ آتی ہے لیکن اگر اس واقعہ کو من گھڑت کہا جائے تو اس کا مطلب ہے جس نے یہ واقعہ تحریر کیا ہے وہ واقعات گھڑتا ہے اور ایک نمبر کا جھوٹا شخص ہے ۔
آپ کی بات سے تو یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ بے سند واقعات کو من گھڑت کہتے ہیں اور من گھڑت واقعات تحریر کرنے والا جھوٹا ہوتا ہے ۔ اگر یہی آپ کا نظریہ ہے تو آپ تصدیق کردیں پھر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کے نظریہ کے مطابق اس امت میں کون کون جھوٹا شخص گذرا ہے