• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اہل علم کی ایک جماعت اس کی قائل ہے۔لیکن جس موقف کو ہم راجح سمجھتے ہیں وہ بھی اہل علم کی ایک جماعت کا موقف ہے ۔
جی اس جماعت کو سامنے لائیں اور ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ وہ کون سی جماعت ہے جس نے یک مشت سے زائد داڑی کاٹنے کے جواز کو حرام لکھا ہے،سب سے پہلے صحابہ اور تابعین میں سے اس جماعت کا ذکر کریں اس کے بعد ائمہ اربعہ کی بات کریں اور پھر دیگر علما کی ایسی جماعت سامنے لائیں جو اس کے جواز کو حرام قرار دیتی ہو؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جس شاذ حالت کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی مثال اس شخص کے جیسی ہے جس کی ناک کی ہڈی بہت زیادہ بڑھ جائے اوراس کے سبب نزلہ زکام کا وہ کثرت سے شکار رہتاہو ایسے شخص کے لئے ہم جائز سمجھتے ہیں کہ وہ ناک کی ہڈی کٹوا سکتاہے ۔ لیکن اس طرح کی شاذ مثالوں کی بنیاد پر ایک عمومی بات تو نہیں کہہ سکتے کہ ہر مرد یا عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی ناک کا آپریشن کروا کے اس میں من مانی تبدیلی کراوئے ۔
کفایت اللہ بھائی!
در اصل تشبیہ اور تمثیل کے اندر ممثل لہ اور ممثل بہ میں مناسبت اور مطابقت ہونی چاہیے جو کہ یہاں موجود نہیں ہے،کیوں کہ ناک کی ہڈی سب کی ایک جیسی ہوتی ہے لیکن ڈاڑی ایسی چیزہے جو کسی کے پاس ہوتی ہے اور کسی کے پاس ہوتی ہی نہیں،کسی کی بالکل معمولی ہوتی کسی کی یک مشت اور کسی کی بہت لمبی ہوتی ہے،اور اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے ایک مشت سے زائد داڑی تنگ کرتی ہے ،مسائل پیدا ہوتے ہیں تو کیا اسکے لیے بھی یہ جواز موجود ہے،کیوں کہ جس کے لیے یہ استثنائی جواز پیدا کیا گیا ہے اس کے لیے کوئی حد تو مقرر کریں گے ہی تو اس کے لیے داڑی کٹانے کی حد کیا ہوگی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جی اس جماعت کو سامنے لائیں اور ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ وہ کون سی جماعت ہے جس نے یک مشت سے زائد داڑی کاٹنے کے جواز کو حرام لکھا ہے،سب سے پہلے صحابہ اور تابعین میں سے اس جماعت کا ذکر کریں اس کے بعد ائمہ اربعہ کی بات کریں اور پھر دیگر علما کی ایسی جماعت سامنے لائیں جو اس کے جواز کو حرام قرار دیتی ہو؟
حرمت کا یہ انداز تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مطلقا داڑھی یعنی ایک مشت سے کم کے لیے بھی ثابت نہیں ۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
علمی بحث پڑھنے کا موقع ملا ۔
ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ داڑھی کو کٹوانا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے
مونچھوں کو کٹوانے کی دلائل احادیث میں ہیں والحمدللہ لیکن داڑھی کو کٹوانے کی دلیل نہیں ہے ۔
مزید تفصیل راقم کی کتاب بالوں کا معاملہ میں موجود ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ایک بھائی نے اس دھاگے میں مجھے ٹیگ کیا ہے اور ذاتی میسج میں یہاں کا لنک بھی باربار دے رہے شاید میرا موقف جاننا چاہتے ۔
بھائی اس سلسلے مجھے راجح یہی لگتا ہے داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے ۔
جزاک اللہ - شیخ محترم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حرمت کا یہ انداز تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مطلقا داڑھی یعنی ایک مشت سے کم کے لیے بھی ثابت نہیں ۔
شیخ میرا مقصد تو صرف یہی تھا کہ کیا کوئی ایسی جماعت موجود ہے جس کا یہ موقف ہے،یعنی میرے خیال میں یہ ایک غلط بات شہرت پکڑ گئی ہے جسے ہم لوگ نقل کرتے آ رہے رہیں،میرا مقصد اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے،پھر بھی اگر کوئی ایسی جماعت ہے جو اس جواز کو حرام سمجھتی ہے تو اسے سامنے لے ائیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
علمی بحث پڑھنے کا موقع ملا ۔
ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ داڑھی کو کٹوانا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے
مونچھوں کو کٹوانے کی دلائل احادیث میں ہیں والحمدللہ لیکن داڑھی کو کٹوانے کی دلیل نہیں ہے ۔
مزید تفصیل راقم کی کتاب بالوں کا معاملہ میں موجود ہے ۔
ایک بات مسلم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کام کی ضرورت ہی پیش نہ آئی کیوں کہ ان کی داڑی لمبی نہیں تھی،اور جن احادیث میں داڑی کو بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے ان میں جو الفاظ (توفیر،ایفا،ارخااور اعفا) موجود ہیں،ان کے معنی صحابہ وتابعین کے ہاں ایک مشت ہے جیسا کہ وہ حج و عمرہ کے موقع پر سر عام کیا کرتے تھے،دور صحابہ سے لے کر آج تک کے سلفی علما میں اس موقف کو تلقی بالقبول چلا آ رہا ہے،لیکن پندرویں صدی کے بعض علما نے اس مسئلے میں شدت اختیار کی ہے جو خود کو اس مسئلے میں صحابہ سے بھی بڑا عالم خیال کرتے ہیں،ان کی باتوں سے ایسے محسوس ہوتا کہ گویا صحابہ کو تو اللہ کے رسول کے اس داڑی والے حکم کی سمجھ ہی نہ آئی اور صحابہ بھی اس معاملے میں غلطی پر تھے۔نہ تو ان کی تفث کی وہ تفسیر نظر آتی ہے جو ابن عباس سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے،نہ ان تمام صحابہ کا عمل نظر آتا ہے جو حج و عمرہ کے موقع پر کیا کرتے تھے،
کیا صحابہ کرام(داڑی کی روایت کے راوی) دوران حج و عمرہ مجوس اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرتے تھے،کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کوئی عبد اللہ بن عمر جیسا متبع سنت صحابی اور دیگر اصحاب رسول مشت سے زائد ڈاڑھی کٹوا کر مجوس اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرکے حج وعمرہ کے دوران اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اب جماعت اسلامی کے دلائل پر مطالعہ شروع کردیں مشت بھر سے بھی جان چھوٹ جائے گی.
میں حیران ہوں کہ آپ جیسے پڈھے لکھے لوگ اس طرح کی طنزیہ باتیں کر رہے ہیں،الحمد للہ میں تو جماعت صحابہ کے دلائل پر مطالعہ کر رہا ہوں،آپ کے لیے جماعتیں اورمجھے فہم سلف مبارک ہو،ویسے میں نے انڈیا جانے سے پہلے کسی مجبوری کی بنا پر داڑی منڈوائی تھی،جیسا کہ میں نے اس کی وضاحت کردی ہے۔
 
Top