کِسی نے کہا تھا کہ "انسان جھوٹ اِس لئے بولتا ھے کہ وہ ڈرتا ھے۔" ھمیں کِس کا ڈر ھے کہ ھم جھوٹ پر جھوٹ بولے چلے جا رھے ھیں؟ بلاوجہ کیوں گنہگار ھورھے ھیں؟ صرف اِس لئے کہ سچائی کا سامنا نھیں کرنا چاھتے؟
اگر کِسی غیرت مند کے گھر ڈاکو گھس آئیں اور وہ مقابلے کی سکت رکھتا ھو تو کیا وہ کِسی مدد کا انتظار کرے گا؟ ھرگِز نھیں، بلکہ اُس سے جتنا بَن پڑا وہ کر گذرے گا۔ بالکل ِاِسی طرح جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو وھاں کے باسیوں نے مقابلے کا آغاز کیا۔ بغیر کِسی بیرونی حمایت اور مدد کے، اپنی مدد آپ کے تحت۔ جب پاکستان کو احساس ھوا کہ اکیلے افغان شائد روسی یلغار کا مقابلہ نہ کر سکیں تو اپنی بقاء کے لئے ِاِس نے افغان مجاھدین کی پشتبانی شروع کی۔ جب امریکہ نے یہ منظر دیکھا تو اُس کو یقین ھو گیا کہ یہ سنھری موقعہ ھے کہ روس سے ماضی کی مخاصمت کا بدلہ لیا جائے۔ اپنے سر پر خودساختہ "سُپرپاور" کا تاج سجانے کے لئے اُس نے پاکستان کی حکومت سے رابطہ کیا اور باالواسطہ افغان مجاھدین کو مدد فراھم کی۔ اِس رو سے اگر جھادِ افغانستان فساد تھا تو پاکستان کی فوجی حکومت دلّال تھی۔
جھادِ افغانستان میں دنیا بھر سے مجاھدین کو دعوت دی گئی اور پاکستان اُن کا میزبان ٹھرا۔ ذرا خود تصور کیجئے کہ جو شخص ۱۹۸۰ میں پاکستان آیا وہ ۱۹۹۰ میں روس کی واپسی کے وقت کہاں جاتا؟ پانچ سال پہلے ۱۹۸۵ میں اُس کا پاسپورٹ معیاد کو پہنچ چکا ، ۱۹۸۸ میں حکومتِ پاکستان نے جنیوا معاھدے پر دستخط کر کے اُس کو دھشت گرد قرار دِلوا دیا۔ اُس کے اپنے ملک نے اُس کی شھریت منسوخ کر دی اور کچھ نے تو مقدّمات بھی قائم کئے۔ جبکہ جوانی کے بہترین دس سال اُس نے اِس اجنبی سرزمین پہ گزارے، اُس کے دوست احباب (دوست بھی وہ جو زندگی اور موت کے ساتھی تھے) یہاں، بیوی بچے، کاروبار اور گھر یہاں تو وہ کیوں نہ اِس سرزمین کو اپنا دوسرا گھرسمجھے کہ وہ اِس سرزمین کو اسلام کا قلعہ جانتا ھے۔
قصہ مختصر، عرب کا تعدد ازدواج اُن مجاھدین کی مقامی شادیوں کا باعث بنا، نان نفقہ کی ذمہ داریاں چھوٹے موٹے کاروبار کا باعث بنیں اور گھر تعمیر کرنا تو بہرحال انسان کی بنیادی خواہش ھے۔ الغرض وہ جو حکومتِ افواج پاکستان کی دعوت پر جھاد کا جھنڈا تھامے اسلامیانِ پاکستان و افغانستان کی مدد کو آئے تھے اب وہ کسی ملک کے باعزت شھری نہ رھے تھے سو وہ یہاں ھی رھائش پذیر ھو گئے، قبائل کا سخت باپردہ ماحول، جفاکشی، آزادانہ مزاج اور یخ بستہ آب و ھوا نے اُن کے دل جیت لئے۔ اور وہ وھاں اس طرح رھائش پذیر ھوئے گویا صدیوں سے آباد ھیں۔
ایک شخص جو کسی دوسرے کا گھر بچانے اپنے گھر سے نکل کھڑا ھو، اور وہ اپنے عمل کا حق ادا کردے اور اپنے تن، من، دھن کی بازی لگائے تو کیا اُس شخص سے یہ توقع کی جا سکتی ھے کہ وہ اپنا گھر جلانے کے درپے ھوگا؟ عجیب بچگانہ سا الزام نھیں ھے یہ؟ دراصل یہ سراسر جھوٹ ھے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اِس مملکتِ خداد کو اپنا دوسرا گھر سمجھنے والے، اِس کی بقاء کی خاطر اپنے سینے پہ گولی کھانے والے، یعنی جو ذمہ داری فوج کی تھی وہ نبھانے والے، افواجِ پاکستان کو اپنا بھائی اور محافظ سمجھنے والے کیوں آج اِنہی افواج کے تعاقب میں ھیں؟ یہاں آتا ھے دوسرا جھوٹ، کہ جی امریکہ نے ڈالر دئےھیں کہ افواج پاکستان کو مارو۔ ھائے ری قسمت! کون نھیں جانتا کہ اُن کے اپنے ملک ھم سے زیادہ ترقی یافتہ ھیں؟ کس کو نھیں خبر کہ آج اگر اُن کے ھم نسل تیل کی فراھمی روک دیں تو آدھی سے زائد دنیا کا پہیّہ جام ھو جائے، تو اگر اُن کو دنیاوی عیش و آرام سے ھی مطلب تھا تو کیا پاگل تھے کہ اپنے گھر بار چھوڑ کے پہاڑوں میں بسیرا ڈالا؟ جھوٹ در جھوٹ!
سچ کہنے سے کیوں ڈرتے ھیں؟ "لاپتہ" نہ ھو جائیں کہیں؟ یا ماورائے عدالت قتل کا ڈر ھے؟ جو بھی ھے، کیا کوئی اللہ سے زیادہ زورآور ھے؟ اگر جواب نفی میں ھے تو اللہ سے کیوں نھیں ڈرتے؟ اللہ تو سچائی کا حکم دیتا ھے، نبی مھربان صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے تو واضح کردیا کہ "مومن سب کچھ ھوسکتا ھے مگر جھوٹا نہیں"۔ تو کیا خیال ھے آپ کا اپنی جھوٹی فتویٰ ساز فیکٹریوں کے بارے میں؟
موضوع کی طرف واپس آتا ھوں۔۔ سچائی اگرچہ تلخ ھے مگر چُھپ نہیں سکتی۔ جھوٹ کا پول ایک دن تو کُھلنا ھے۔ تو کون جواب دیگا جب سوال کرنے والا پوچھے گا کہ امریکی صدر کی فون کال پر اُس کی توقعات سے بڑھ کر تعاون کی یقین دھانی کروانے والا کون تھا؟ پرویز مشرف یا ملّا محمد عمر؟ مطالبہ تو دونوں سے ھُوا تھا کہ جو کہا جا رھا ھے اُس کو بلا مِن و عَن تسلیم کیا جائے۔۔ مگر کون تھا کہ انکار کی ھمّت کی؟ پرویز مشرف یا ملّا محمدعمر؟ اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے امیر نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ "کسی کو تمھارے کہنے پر گرفتار نھیں کریں گے، اگر تمھارا موقف ھے کہ اسامہ تمھارا مجرم ھے تو ثبوت ھمارے حوالے کرو ھم خود مقدمہ چلائیں گے اور سزا دیں گے۔ ورنہ کسی بھول میں نہ رھو"۔ اور یہی طالبان کا واحد جرم ٹھرا۔۔ دوسری جانب مشرف نے اپنے اور غیر کی تمیز کئے بغیر، تمام تراخلاقی حدود کو بالائے طاق رکھتے ھوئے، تمام تر انسانی حقوق کو پامال کرتے ھوئے یھاں تک کہ سفیر کو بھی نہ بخشا اور پکڑ پکڑ کر مسلمانوں کو ڈالر کے بدلے امریکہ کے حوالے کیا۔ ابھی بھی ابہام باقی ھے کہ کون امریکہ کا ایجنٹ ھے؟ تفصیلات بہت طویل ھیں، حوالے کے لئے ملاحظہ کریں "سب سے پہلے پاکستان" از حضرتِ اقدس پرویز مشرف۔
اصل سوال تو وھیں کھڑا ھے کہ اِس مملکتِ خداداد کو اپنا دوسرا گھر سمجھنے والے، اِس کی بقاء کی خاطر گولی کھانے والے، افواجِ مطہّرہ کو اپنا بھائی اور محافظ سمجھنے والے کیوں آج اِنہی افواج کے تعاقب میں ھیں؟ تو عرض ھے کہ یہ تو مکافاتِ عمل ھے۔ بھلا کیسے؟ ھُوا یوں کہ جب امریکہ بہادر آیا اماراتِ اسلامیہ افغانستان میں حکم عدولی کی سزا دینے کے لئے تو جناب بہادر کو پتہ چلا کہ کتنے بیس کے سو ھوتے ھیں۔ اور سب سے زیادہ ناک میں دَم کیا اُن مجاھدین نے جو طوفان کی طرح نمودار ھوتے اور آندھی کی طرح غائب۔ کُھرا ڈھونڈنے نکلے تو پتہ چلا کہ راستے میں وھی لکیر حائل ھے جو اُنھی کے آباء و اجداد نے خلافتِ اسلامیہ کو توڑنے کے لئے کھینچی تھی۔ تو مرحلہ آیا کہ مریدِ خاص کی وفاداری کا ثبوت مانگا جائے۔ فون گھمایا گیا، عالی مقام جناب سپہ سالارِ افواجِ مطہّرہ حضرت پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی غرض سے آقا کے فون پر "آمنّا و صدقنا" کہا تو آقا نے مریدِخاص (front line ally) کی وفاداری کا حلف نامہ اِنہی مجاھدین کے خون سے لکھنے کا حکم دیا۔ حکم عدولی پر پتھر کے دور میں پہنچا دینے کا عندیہ تو آپ کو یاد ھی ھوگا۔ چنانچہ حکم پر عمل درآمد کے لئے قبائلی علاقے میں افواج کا جانا ٹھر گیا۔ یہاں سے آغاز ھوتا ھے اس داستانِ خونچکاں کا کہ جس کا رونا آج اِس ملک کے باسی رو رھے ھیں۔
پچپن برس میں پہلی دفعہ ۔۔ جی ھاں، پچپن برس میں۔۔ پہلی دفعہ! افواجِ مطہّرہ نے ۲۰۰۱ میں قبائلی علاقوں میں قدم رکھا۔ اور یہ پیدل مارچ نھیں تھا، ٹینک اور توپیں بھی ہمراہ تھیں قبائل کی بہادری کا امتحان لینے کو۔ اور یہ ممکن بھی ھُوا تو اِس طرح کہ قبائل کو یقین دلایا گیا کہ افواجِ مطہّرہ کی آمد خطّہ میں تعلیم، ترقیّ اور روشن مستقبل کی نوید ثابت ھوگی۔ اور خدا نخواستہ اگر امریکہ حملہ کرے تو یہ افواج اُس کا 'منہ توڑ جواب' دیں۔ تعمیر اور ترقیّ کا سُن کر ظالمان نے بندوق اُٹھا لی اور جھاد کا اعلان کر دیا۔ جی ھاں یہ لطیفہ آپ کی سماعت سے اکثر گذرا ھوگا۔۔
حقیقت اِس لطیفے سے کوسوں دور ھے۔ اگر قبائلی اتنے تشدّد پسند ھوتے کہ صرف ترقی کا نام سُن کر بندوق اٹھالیتے تو یقین جانئے افواجِ مطہّرہ ابھی تک قبائلی علاقے میں داخل ھونے کے لئے لڑ رھی ھوتیں۔ اصل حقیقت تو یہ ھے کہ جب افواجِ مطہّرہ دھوکے سے قبائلی علاقے میں داخل ھو گئیں اور مذکورہ علاقے میں اپنی ضروریات کے مطابق چھاؤنیاں، زمین دوز بنکر اور محفوظ پناہ گاھیں بنا لیں اور قیاس کر لیا کہ اب ھم ھی فاتح ٹھریں گے تو اپنے دعوؤں کے برعکس اور امریکہ بہادر کے احکامات کے عین مطابق اپنے سپہ سالار کے تقاضائے حلف برداری کی روشنی میں اُس کام کا آغاز کر دیا کہ جس کی وہ تنخواہ پہلے روپے میں لیتی تھیں اور اب کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر ڈالر میں لے رھی ھیں۔ اِس عمل میں سب سے پہلے قرعہ نکلا اُنہی مجاھدین کے نام کا جو شرق و غرب سے نازل ھوئے تھے۔۔ جب اُن کے گرد شکنجہ کَسا گیا تو قبائل کو یاد دھانی کی ضرورت نہ پڑی کہ یہ وھی مجاھدین ھیں کہ جو اِن کی مدد کو آئے تھے اور اب ٹھوکروں کی زد پر ھیں، کِسی وقت صرف مددگار رھے ھونگے مگر اب تو اِن میں سے کچھ داماد بھی ھیں، کچھ ھم زلف ھیں، کچھ غمخوار بھی۔۔ یعنی اِن کے اپنے ھیں۔۔ لہٰذا گھمسان کا رَن پڑا جب قبائل نے ہاتھ کو کنگن آر سی کیا۔ جب پتہ چلا کہ قبائل اپنی زمین کی طرح سنگلاخ ھیں تو ۲۰۰۴ میں امن معاھدے کا ڈول ڈالا گیا۔۔ یہ معاھدہ نیک محمّد اور افواج مطہّرہ کے درمیان ھوا اور معاھدہ شکئی کے نام سے مشھور ھوا۔ ۔
معاھدے کیوں ناکام ھوئے؟ کیسے ھوئے؟ کس نے کئے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔ تفصیلات بہت طویل ھیں، حوالے کے لئے ایک کتاب ملاحظہ کریں۔ "یہ خاموشی کہاں تک" از جنرل شاھد عزیز
ایک اور جھوٹ، کہ معصومینِ پاکستان اور اِن کا بلا وجہ قتلِ عام۔۔ اِس کے بارے میں دو آراء ھیں، ایک جھوٹی اور ایک سچی۔ جھوٹی رائے تو یہ ھے کہ چونکہ معصومینِ پاکستان اپنے جذباتی لگاوْ کی وجہ سے افواجِ مطہّرہ کی حمایت کرتے ھیں اور افواجِ مطّہرہ بقول طالبان امریکہ کی آلہِ کار بنی ھوئی ھیں اور قبائلی مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث ھیں لھٰذا یہ معصومین نہیں ھیں اور گناہگار ھیں، لھٰذا قابلِ تعزیر ھیں۔ حالانکہ سچائی یہ ھے کہ طالبان رہنما اور القائدہ کے ذمّہ داران بارھا اِس رائے کو جُھٹلا چکے ھیں۔ اور وہ خوش گمانی کا مظاھرہ کرتے ھوئے اپنی ھر تقریر میں معصومینِ پاکستان کو سچائی کی طرف مائل کرنے میں کوشاں رھتے ھیں، کیوںکہ وہ جانتے ھیں کہ اِنہی معصومین کی جانب علّامہ اقبال نے اشارہ فرماتے ھوئے کہا تھا "ذرا نَم ھو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی"۔ اسی سلسلہِ کذب کا دوسرا جھوٹ کہ اِس قتلِ عام کی ذمہ داری طالبان قبول کرتے ھیں۔ میں حیران ھوتا ھوں کہ انٹرنیٹ بھرا پڑا ھے طالبان کے بیانات سے جو اِس بات کی نفی کرتے ھیں کہ ایسی کوئی کاروائی یا ایسی کسی کاروائی کی ذمہ داری اُنھوں نے قبول کی ھے۔ اب ذرائع ابلاغ آپ کو نھیں دکھاتے تو موردِ الزام طالبان کیوں؟ اِس کا ثبوت بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ھے کہ جس میں افواجِ مطہّرہ کا ایک زخمی شیر جوان سچائی بیان کرتا ھے تو موقع پر موجود افسرِخاص ذرائع ابلاغ کی نمائندہ کو ھدایت کرتا ھے کہ کونسی بات نشر کرنی ھے اور کونسی نھیں۔۔ ذرائع ابلاغ کی اس دو رُخی کی تفصیلات بہت طویل ھیں، اس کے حوالے کے لئے بھی "یہ خاموشی کہاں تک" ملاحظہ کریں۔
بھلائی کی طرف اشارہ کرنا اور سچائی کی طرف دعوت دینا میرا کام تھا، سو کر دیا۔ اس سے زیادہ کی مجھے پوچھ نہ ھوگی، آپ خود تحقیق کر لیں کہ سچ کیا ھے اور جھوٹ کیا۔ اگر میں نے غلط بیانی کی ھے تو اصلاح کر دیں، اور اگر حقیقت واضح ھو جائے تو میری طرح آپ بھی رجوع کر لیں اور حقیقت کو تسلیم کرلیں (اور سچائی کو واضح بیان کرنے کا حق ادا کریں) کہ
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کو آپس میں لڑوایا گیا لیکن اِس سازش میں آلہِ کار وہ شخص یا اشخاص ھیں جنھوں نے مریدِ خاص ھونے کا حلف اُٹھایا، جنھوں نے اس جنگ کا آغاز کیا، جنھوں نے مسلمانوں کو مارنے کے لئے امریکہ کا ساتھ دیا، نہ کہ وہ جو اپنی عصمت و آبرو کے دفاع میں برسرِ پیکار ھیں۔ اللہ آپ کی، میری، امتِ مسلمہ کی جان، مال، عزّت و آبرو کی حفاظت فرمائے اور فتنوں سے دور رکھے۔ اے اللہ اھلِ حق کی نصرت فرما اور ظالموں کو ذلیل و رسوا فرما، حق و باطل کے فرق کو مزید واضح فرما تا کہ تیرے حبیب صَلیٰ اللہُ عَلَیہِ وَسَلّم کی امت حق کا ساتھ دے سکے۔ آمین ثم آمین۔
دو کتابوں کا مطالعہ تجویز کیا گیا ھے، مگر کتابوں کے مطالعے کا شوق نہ رکھنے والے حضرات مشہورِزمانہ ڈاکٹر "وِکی پیڈیا" سے رجوع کریں۔ تلاشنے کے لئے، طالبان، تحریکِ طالبان پاکستان یا وار اِن نارتھ ویسٹ پاکستان لکھئے۔ سب کچھ واضح لکھا ھے، اب اگر اِس کی زد میں کسی کی مقدّس گائے آتی ھے تو یقین جانئے اِن کتابوں اور وِکی پیڈیا پر مہیّا کردہ معلومات کو لکھنے کی زمہ داری طالبان نے ابھی تک قبول نھیں کی۔