• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بابرکت و باسعادت بڑھاپا

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
سفید بالوں کو چننا یا خضاب لگانا

سفید بالوں کو چننا مکروہ ہے جبکہ سفید بال پر خضاب لگانا جائز ہے۔ عبداللہ بن عمر ﷠کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: بڑھاپے (بال کی سفیدی) کا رنگ بدلو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ (سنن نسائي: 5076)
اور آپ ﷺ نے یہ حکم فرمایا: دونوں (‏‏‏‏داڑھی اور سر) کے بالوں کا رنگ بدل دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 496)
لہذا سیاہ رنگ سے اجتناب کرتے ہوئے داڑھی اور سر کے بالوں کا رنگ بدلنے کے لیے مہندی اور کتم بہتر ہے۔ جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ: سب سے بہتر چیز جس سے تم بڑھاپے کا رنگ بدلو مہندی اور کتم (نیل) سے۔ (سنن ابي داود: 4205)
‏‏‏‏ سیدنا ثابت ﷛ سے روایت ہے، حضرت انس ﷛ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خضاب کیا تھا؟ انہوں نے کہا: اگر میں چاہتا تو آپ ﷺ کے سر کے سفید بال گن لیتا، آپ ﷺ نے خضاب نہیں کیا، البتہ ابوبکر ﷛ نے خضاب کیا مہندی اور نیل سے، اور عمر ﷛ نے خضاب کیا صرف مہندی سے۔ (صحيح مسلم: 2341)
سیدنا عبداللہ بن عمر ﷟ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سفید ہونے والے بال تقریباً بیس تھے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 2096)
اگرچہ نبی کریم ﷺ کو بالوں کو رنگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ آپ ﷺ کے بہت کم (تقریباً بیس) بال سفید ہوئے تھے لیکن آپ ﷺ نے داڑھی اور سر کے بال اگر سفید ہو جائیں تو ان کو رنگنے کا حکم دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس پر عمل بھی کروایا تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یہود خضاب کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا ان کی مخالفت میں اسے استعمال کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سلف میں اس کا استعمال کثرت سے پایا گیا۔ چنانچہ اسلاف کی سوانح لکھنے والوں میں سے بعض سوانح نگاروں نے اس کی بھی تصریح کی ہے کہ فلاں خضاب کا استعمال کرتے تھے اور فلاں نہیں کرتے تھے، فلاں مہندی سے کرتے تھے تو فلاں کتم سے کرتے تھے۔
فی زمانہ (سیاہ رنگ کے علاوہ) جو بھی جدید ہیئر کلر یا خضاب دستیاب ہے عمر کے اعتبار سے جو مناسب ہو اس کا استعمال کرنا جائز ہے لیکن خضاب کرکے کسی کو دھوکہ دینا مقصود نہ ہو، مثلاً بعض مردوں کا سیاہ خضاب کرکے عمر چھپا کر شادی کرنا وغیرہ۔
سیاہ خضاب کرنا یوں بھی جائز نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: ’’آخر زمانے میں ایسے لوگ آئیں گے جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح سیاہ خضاب لگائیں گے وہ جنت کی بو تک نہ پائیں گے‘‘۔ ( النسائی : 5078)
خلاصہ کلام یہ کہ ’’سفید بال مسلمان کے چہرے کا نور ہے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ، ترقیم البانی: 1244)
لہذا کوئی نادان ہی اس نور کو ضائع کرنے یعنی اکھاڑ پھینکنے کا سوچے گا یا اس نور پر کالا سیاہ خضاب لگا کر اس کی روشنی کو ختم کرے گا یا اس نور کے چہرے پر ہوتے ہوئے گناہوں میں ملوث ہوگا۔ لیکن افسوس کہ آج کتنے بدنصیب بوڑھے ہیں جو سر اور چہرے پر سفید بالوں کے ہوتے ہوئے بھی انتہائی گھناؤنی برائیوں میں ملوث ہیں۔ کاش! ایسے لوگ جانتے کہ بڑھاپے میں گناہ کرنا جوانی کے گناہ سے زیادہ مہلک ہے کیونکہ بڑھاپے کی طویل عمر کے مشاہدات و تجربات کی بنا پر انسان اچھائی و برائی کو مکمل طور پر سمجھ جاتا ہے اور اس عمر میں گناہوں پر ابھارنے والے جذبات بھی سرد پڑجاتے ہیں، پھر بھی اگر کوئی گناہوں میں ملوث ہو تو ان گناہوں پر عذاب کی شدت بھی زیادہ ہوگی۔ جیسا کہ ’’ بوڑھا ہونے کے باوجود اگر کوئی زنا کرے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ اس سے بات کریں گے اور نہ ہی اس کو گناہوں سے پاک کریں گے نہ ہی اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے اور اس کو درد ناک عذاب ہوگا‘‘۔ (مختصر صحيح مسلم: 1787)
بعض لوگ ایک موضوع اور من گھڑت قول کہ «اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سفید داڑھی والوں کو عذاب دیتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے» کو حدیث سمجھتے ہیں اور اکثر اپنی تحریر وں اور تقریروں میں اس من گھڑت قول کو پیش کرکے سفید ریش بوڑھوں کو خوش کرتے ہیں، تو واضح ہو کہ اس طرح کے اقوال کا محدثین نے انکار کیا ہے اور ان کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔ لہذا اس طرح کی من گھڑت باتوں سے خوش ہونے کی بجائے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے گناہ و معصیت پر نظر رکھیں، اپنے رب سے مغفرت اور بخشش طلب کرتے رہیں اور زندگی کے جو ایام باقی بچے ہیں اس میں ہر طرح کے گناہ و فسق اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں بقیہ زندگی بسر کریں، زیادہ سے زیادہ عبادات کرکے اپنے رب کو راضی کریں اور اپنے بڑھاپے کے نور کو بچانے اور بڑھانے کی فکر کریں تب ہی یہ بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہوگا اور آخرت میں ’’ اُن کا (یہ) نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا‘‘۔ (12) سورة الحديد
(ان شاء اللہ)
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب مؤلف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
لمبی عمر، اچھے اخلاق اور نیک اعمال

يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ (٦) سورة الإنشقاق
’’اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اُس سے ملنے والا ہے ‘‘۔

پیدا ہوتے ہی انسان کا اس کے رب کی طرف واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے لیکن انسان مرتے دم تک لمبی عمر کی آس لگائے زندہ رہتا ہے۔ لہذا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو خواہشیں جوان رہتی ہیں: ایک مال کی ہوس دوسری لمبی عمر کی تمنا‘‘۔ (سنن ترمذي:2455)

زیادہ جینے کی تمنا ہر انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ لمبی عمر جہاں کافر و مشرک کے عذاب میں اضافہ کرتی ہے وہیں مومن کو گناہوں سے پاک صاف ہونے اور جہنم کے عذاب سے بچنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس لیے بندۂ مومن کے لیے لمبی عمر کی امید رکھنا کوئی بری بات نہیں کیونکہ ایک مسلمان کا دنیا میں راس المال اور سب سے قیمتی سرمایہ اس کا وقت ہی ہے جس کی بنیاد پر وہ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرسکتا ہے اور امت کے بہترین لوگوں میں شامل ہو سکتا ہے۔

جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا میں تمہیں تمہارے بہترین لوگوں کی خبر نہ دوں؟ تم میں افضل لوگ وہ ہیں جن کی عمریں سب سے زیادہ لمبی اور اعمال انتہائی نیک ہوں‘‘۔(سلسلہ احادیث صحیحہ، ترقيم الباني: 1298)

اسی طرح ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں بہترین لوگ کون ہیں؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ہاں ضرور بتائیں، فرمایا: ’’ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو لمبی عمر والے ہیں اور جن کے اخلاق اچھے ہیں‘‘۔ (مسنداحمد:٩٢٣٥)

اَخلاق جمع ہے خلق کی جس کا معنی ہے رویہ، برتاؤ، عادت، خصلت، طور طریقے وغیرہ۔ یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حسن اَخلاق کہا جاتا ہے۔
حقیقت میں حسن اَخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں متعدد نیک اعمال شامل ہیں۔ چند اعمال یہ ہیں:

حرام سے بچنا، حلال حاصل کرنا، اہل وعیال پر خرچ میں کشادگی کرنا، بھلائی کے کام کرنا، بھلائی کا حکم دینا، برائی سے بچنا، برائی کو روکنا، جاہلوں سے اعراض کرنا، حقوق العباد کی ادائیگی کرنا، قطع تعلق کرنے والے سے صلہ رحمی کرنا، محروم کرنے والے کو عطا کرنا، کسی کو تکلیف نہ دینا، نرم مزاجی، بردباری، غصے کے وقت خود پر قابو پالینا، غصہ پی جانا، عفو و درگزر سے کام لینا، لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملنا، مسلمان بھائی کے لیے مسکرانا، مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا، مسلمانوں کو کھانا کھلانا، مسلمانوں کو لباس پہنانا، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا، مشقتوں کو برداشت کرنا، لوگوں میں صلح کروانا، مظلوم کی مدد کرنا، ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا، مسلمانوں کے لیے دعائے مغفرت کرنا، کسی کی پریشانی دور کرنا، کمزوروں کی کفالت کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، بڑوں کا احترام کرنا، علماء کا ادب کرنا، وغیرہ وغیرہ۔اور یہ بات عیاں ہے کہ یہ سارے نیک اعمال بڑھاپے میں پہنچ کر یک دم نہیں ہو سکتے، ان کے لیے بچپن کی تربیت اور جوانی کے عمل و ریاضت اور نیک صحبت ضروری ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا فارسی میں ایک قول بہت مشہور ہے:«صحبت صالح ترا صالح کند، صحبت طالح ترا طالح کند» ’’یعنی انسان نیک انسانوں کی صحبت میں نیکی سیکھتا ہے اور برے لوگوں کی صحبت میں بُرائی سیکھتا ہے‘‘۔

جوانی سے ان اعمال کو احسن طریقے سے انجام دینے والے ہی بڑھاپے میں پہنچ کر اپنے حسن اخلاق کا ثبوت دے سکتے ہیں۔

«جس کی جوانی جہالت میں گزری ہو، بڑھاپا اسے اُس جہالت سے نکال نہیں پاتا اور نہ ہی اسے بڑھاپے کی خیر و برکت حاصل ہوتی ہے»، اِلَّا مَنْ رَّحِمَ اللّٰہُ

اس لیے اگر جوانی سے ہی نیک اعمال کے ذریعے اپنے اخلاق و کردار کو درست نہ رکھا گیا ہو تو بڑھاپے میں پہنچ کر حسن اخلاق کا ثبوت دینا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی امت کے بہترین لوگوں میں شامل ہونا ممکن ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بڑھاپے میں اکثر لوگ جب سٹھیا جاتے ہیں تو ان کا خود پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا، وہ چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کا مزاج بگڑ جاتا ہے جس میں شائستگی کی جگہ بد مزاجی و بد خلقی سرایت کرجاتی ہے جس کی وجہ سے بات بے بات گھر والوں کے ساتھ سختی اور بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں، پھر گھر کے باہر بھی یہی رویہ رہتا ہے۔ جبکہ مومن کا یہ شیوہ نہیں، مومن تو اپنے اچھے اخلاق کی بنیاد پر اپنے نیکیوں کا پلہ بھاری کرنے کی فکر میں رہتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’میزان میں رکھی جانے والی چیزوں میں سے اخلاق حسنہ سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں ہے، اور اخلاق حسنہ کا حامل اس کی بدولت روزہ دار اور نمازی کے درجہ تک پہنچ جائے گا‘‘۔ (سنن ترمذي: 2003)

لہذا بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت اور خوشگوار بنانے کے لیے کسی سے الجھنے کی بجائے اپنا اخلاق درست رکھیے، کثرت سے نیک اعمال کیجیے اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہیے:
اللَّهُمَّ كَمَا أَحْسَنْتَ خَلْقِي، فَحَسِّنْ خُلُقِي ۔۔۔ ’’اے اللہ! جیسے تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے ویسے ہی میرے اخلاق کو بھی اچھا کر دے‘‘۔(مسند احمد: ٢٤٣٩٢)

(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جو مؤلف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
لمبی عمر، بہترین لوگ

یہ دنیا فانی ہے۔ یہاں جو پیدا ہوا ہے اسے ایک نہ ایک دن مرنا ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ پھر بھی یہاں ہر شخص لمبی عمر کا خواہاں ہے۔ لیکن لمبی عمر کی تمنا رکھنے والوں کے مقاصد الگ الگ ہوتے ہیں۔ آخرت کا انکار کرنے والے یا اس سے غافل رہنے والے دنیا کی ساری لذتوں سے لطف اندوزی اور تادیر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لیے لمبی عمر کے متمنی ہوتے ہیں جبکہ آخرت کے جملہ امور پر ایمان لانے والے لمبی عمر کی خواہش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ دنیاوی زندگی میں قیمتی وقت اور موقع پاکر زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرکے اپنے معبود برحق اللہ وحدہ لاشریک لہ کو راضی کرلیں اور اس کے احسانا ت کا حتی الامکان شکر بجا لائیں۔ ایسے لوگ مسلم معاشرے کے بہترین لوگ ہوتے ہیں۔

ایک موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ کیا میں تم لوگوں کے لیے تمہارے بہترین افراد کی نشاندھی نہ کر دوں؟ تم میں سے بہترین افراد وہ ہیں جن کی عمریں لمبی ہوں، بشرطیکہ وہ راہ راست پر چلتے رہیں‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ، ترقيم الباني: 2498)

عمر کا طویل ہونا مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اس لمبی عمر کو یوں ہی ضائع نہ کر دیا جائے بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت، دین کی خدمت اور اچھے کاموں میں صرف کیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو راہ راست پر چلنے کے طریقے سکھائے اور ساتھ ہی اس پر استقامت کے لیے دعا بھی سکھلا دی،جسے ہر مسلمان اپنی نماز میں مانگتاہے :

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎﴿٦﴾‏ سورة الفاتحة
’’(اے اللہ!) ہمیں صراط مستقیم دکھا دیجیے‘‘

جو شخص راہ راست پر چلتا ہو اور اپنی ہر نماز میں راہ راست پر چلنے کی دعا مانگتا ہو، بے شک اللہ تعالیٰ اسے راہ راست پر استقامت عطا فرماتے ہیں۔ لہذا ایسے شخص کی عمر جس قدر زیادہ ہوگی اسی قدر اس کے اعمال صالحہ بھی زیادہ ہوں گے اور اعمال صالحہ جتنے زیادہ ہوں گے اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب بھی حاصل ہوگا، جس کی وجہ سے اسے جنت میں داخلے کا پروانہ بھی جلد ملے گا، جیسا کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے ہاں اس مومن سے افضل کوئی شخص نہیں جسے اسلام میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر اور تہلیل «لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ» کہنے کے لیے طویل عمر دی جائے‘‘ ۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 654)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایسے افضل بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین۔

(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جوہدیتاً حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
لمبی عمر، بدترین لوگ


حضرت ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول ﷺ! لوگوں میں سب سے بدتر شخص کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو ‘‘ ۔ (سنن ترمذي: 2330)

یعنی جو شخص لمبی عمر ملنے کے باوجود نیک اعمال نہیں کرتا بلکہ اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری کے بجائے نافرمانی و سرکشی میں زندگی گزار دیتا ہے یعنی جس کا عمل برا ہوتا ہے وہ لوگوں میں سب سے بدتر شخص ہے۔ ایسے لوگوں کی لمبی عمر میں کوئی خیر نہیں ہوتی بلکہ یہ ان کی گناہوں اوران کے عذاب میں اضافے کا باعث بنتی ہے، جیسا کہ کوفروں کے بارے میں فرمایا گیا:

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ‎(١٧٨) سورة آل عمران
’’اور کافر یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں (یہ) ان کی جانوں کے لیے بہتر ہے، ہم تو (یہ) مہلت انہیں صرف اس لیے دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں اور بڑھ جائیں، اور ان کے لیے (بالآخر) ذلّت انگیز عذاب ہے‘‘

اور یہودیوں کے بارے میں فرمایا:

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ ‎(٩٦) سورة البقرة
’اور (اے نبی ﷺ) آپ انہیں (یہودیوں کو) یقیناً سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس میں مبتلا پائیں گے اور مشرکوں سے بھی زیادہ، ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار برس کی عمر مل جائے، گو یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں بچا سکتی ، اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے‘‘۔

افسوس کہ آج کے بعض مسلمان بھی یہود کی طرح لمبی عمر کی تمنا تو کرتے ہیں لیکن نہ ہی اللہ و رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارتے ہیں، نہ ہی نیک اعمال کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے اخلاق درست کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ان کی لمبی عمر کل قیامت کے دن باعث یاس و حسرت ہوگی۔ کاش! لوگ سمجھتے اور اپنی لمبی عمر کو اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارتے اور نیک اعمال کرتے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اورنیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جوہدیتاً حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
لمبی عمر، اچھے عمل

سیدنا عبداللہ بن بسر بازنی بیان کرتے ہیں کہ دو بدو، رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ان میں سے ایک نے کہا: کون سے لوگ بہتر ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سعادت (‏‏‏‏اور خوشخبری) ہے اس آدمی کے لیے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھے ہوں ۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ، ترقيم الباني: 1836)

اس حدیث میں رسول ﷺ نے لمبی عمر پانے والوں کو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی ہے۔ لہذا زندگی اور بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بندۂ مومن کو زندگی کے جو دن بھی میسر ہوں ان میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرے اور اگر لمبی عمر ملے تو اسے اپنے رب کا بے حد شکر گزار ہونا چاہیےکہ اس کا رب اسے اچھے عمل کرنے کا موقع دے رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ہم عصروں کے بعد دنیا سے رخصت ہونے کے باوجودنیک اعمال کی کثرت کرکے اُن سے پہلے جنت میں داخل ہوسکتا ہے۔(اس پر حدیث آگے آرہی ہے، مسند احمد: 1401، سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 654)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایسے نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جوہدیتاً حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
لمبی عمر کی دعا

اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندۂ مومن کی لمبی عمر میں دنیا و آخرت کی بے شمار خیر و برکت رکھی ہے۔ یہ جاننے کے بعد ہمارے دلوں میں اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے لمبی عمر کی دعا کرنے کی شدید خواہش کا پیدا ہونا لازمی ہے، جس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ لمبی عمر کی دعا کرنا جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو یہ دعا کس طرح کرنی چاہیے؟
خود اپنی لمبی عمر کی دعا کرنا یا کسی کو، خاص کر اپنے پیاروں کو لمبی عمر کی دعا دینا جائز ہے لیکن مطلق لمبی عمر کی دعا کرنا یا دینا مناسب نہیں ہے ، کیونکہ لمبی عمر اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی، اس لیے کہ ہماارے پیارے نبی کریم ﷺ فرمایا ہے کہ ’’لوگوں میں سب سے بدتر وہ شخص ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو‘‘۔ (سنن ترمذي: 2330)
چنانچہ لمبی عمر کی دعا کس طرح کی جائے، آئیے اسے میں نبی محترم ﷺ کی تعلیمات سے سمجھتے ہیں۔ قربان جائیے صحابہ کرام پر جنہوں نےہر چھوٹی بڑی بات آپ ﷺ سے دریافت کی اور محدیثین کرام رحمہم اللہ پر جنہوں نے ان باتوں کو ہم تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں: میری ماں مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ آپ کا چھوٹا سا خادم ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں، تو آپ ﷺ نے یہ دعا دی: اے اللہ! اس کا مال اور اس کی اولاد زیادہ کر دے، اس کو لمبی عمر عطا فرما اور اسے بخش دے۔ سیدنا انس کہتے ہیں: میرا مال زیادہ ہو گیا، میر عمر اتنی لمبی ہو گئی کہ میں اپنے اہل و عیال سے شرماتا ہوں اور میرے پھل پک کر توڑنے کے قابل ہو گئے، اور چوتھی چیزمغفرت ہے، (‏‏‏‏اس کا آخرت میں پتہ چلے گا، اور ان شاء اللہ مغفرت بھی ہوگی)۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ، ترقیم البانی: 2541)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت انس کے لیے برکت کی جو دعا فرمائی وہ یہ تھی:
اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ ۔ ۔ ۔ یا اللہ! اس کے مال و اولاد کو زیادہ کر اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے، اس میں اسے برکت عطا فرمائیو۔(صحيح البخاري: 6334)
یعنی نبی اکرم ﷺ نے اپنی دعا میں ہر چیز کو برکت کے ساتھ منسلک کر دیا تھا، اسی لیے حضرت انس کو زندگی کی وہ ساری برکات نصیب ہوئے جس کی ہر بندۂ مومن اس دنیا یں تمنا کرسکتا ہے۔
آج بھی عربوں میں اسی طرح دعا دینے کا رواج عام ہے چونکہ یہی اسلام کی تعلیم ہے، عرب ہم سے زیادہ قریب دین اسلام کے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم برصغیر کے مسلمان دین سے دوری کی وجہ سے ان باتوں کو جانتے ہی نہیں اور اپنے پیاروں کو صرف لمبی عمر کی دعائیں دیتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ لمبی عمر میں ان کے اعمال اچھے ہوں گے یا برے، انہیں عافیت و راحت والی لمبی زندگی نصیب ہوگی یا دکھ، درد، بیماری، تنگ دستی اور بدنصیبی ان کا مقدر بنے گی۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے لمبی عمر کی دعاؤں میں خیر و عافیت، برکت و مغفرت، اطاعت و فرمانبرداری، صحت و تندرستی اور نیک اعمال کی توفیق جیسے الفاظ ضرور شامل کیا کریں، چنانچہ
 ہم اپنی لمبی عمر کی دعا اس طرح کریں کہ اے اللہ آپ اپنی اطاعت و فرمانبرداری پر مجھے لمبی عمر عطا فرما۔
 یا یہ دعا کہ اے اللہ خیر و برکت کے ساتھ میری عمر طویل کر دے اور مجھے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما۔
 یا یہ دعا کرے کہ اے اللہ مجھے صحت و عافیت، خیر و برکت اور نیک اعمال کرنے کی توفیق کے ساتھ لمبی عمر عطا فرما۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحت و عافیت، خیر و برکت اور اور ایمان و عمل میں استقامت کے ساتھ بابرکت و باسعادت لمبی عمر عطا فرمائے ۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جوہدیتاً حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
لمبی عمر کی بد دعا

جس طرح لمبی عمر کی دعا دی جاتی ہے اسی طرح لمبی عمر کی بد دعا بھی کی جاتی ہے۔ اکثر لوگ ظالم و جابر حکمران کے حق میں عمر درازی کی دعائیں کرتے ہیں تاکہ وہ عبرت کا نشان بنا لمبی عمر تک زندہ رہے۔ اگرچہ کسی مسلمان کا شیوہ نہیں کہ وہ کسی کے حق میں بد دعا کرے لیکن ظالم کے حق میں مظلوم بد دعا کر سکتا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مظلوم کی بد دعا سے بچو، یہ چنگاریوں کی طرح آسمان کی طرف اٹھتی ہے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 871)
تاریخ اسلام میں حضرت سعد بن ابی وقاص ﷛ کا ایک کوفی کے لیے لمبی عمر کی بد دعا کرنے کا ذکر ملتا ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ﷛ کو کوفہ کا گورنر بنا کر بھیجا۔ آپ ﷛ کوفہ میں اپنی فرائضِ منصبی بخیر و خوبی انجام دیتے رہے لیکن بد دیانت اہل کوفہ نے خلیفۃ المسلمین کی دربار میں آپ ﷛ کی شکایت کر دی۔ کوفہ والوں نے حضرت سعد ﷛ کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ حضرت عمر ﷛ نے حضرت سعد ﷛کو معزول کر کے عمار ﷛ کو کوفہ کا حاکم بنایا اور حضرت سعد ﷛ کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔ جب حضرت سعد ﷛آئے تو ان سے پوچھا: اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ (ابواسحاق حضرت سعد ﷛ کی کنیت تھی)
اس پر حضرت سعد ﷛ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم ﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا۔ عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی پہلی دو رکعات میں (قراءت) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔
حضرت عمر ﷛ نے فرمایا: اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر حضرت عمر ﷛ نے حضرت سعد ﷛ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے کہ) سعد
(1)- نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے،
(2)- نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے ،
(3)- اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔​
حضرت سعد ﷛ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں (تمہاری اس بات پر) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو تُو
(1) اس کی عمردراز کر اور
(2) اسے خوب محتاج بنا
(3) اور اسے فتنوں میں مبتلا کر​
اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ میں ایک بوڑھا اور پریشان حال آدمی ہوں، مجھے سعد (﷛) کی بد دعا لگ گئی ہے۔ اور فتنوں نے اُسے ایسا گھِیرا کہ بڑھاپے میں بھی وہ لڑکیوں کو چھیڑتا تھا۔
عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی لیکن پھر بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا تھا۔( صحیح بخاری: 755)
سعد ﷛ مستجاب الدعوات تھے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں دعا دی تھی: اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدٍ إِذَا دَعَاكَ ۔۔ ’’اے اللہ! سعد جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرما‘‘۔ (سنن ترمذي: 3751)
لہذا حضرت سعد ﷛ کی دعا قبول ہوئی۔ اس کوفی نے اپنی ریا و نمود کے لیے ایک صحابیٔ رسول اللہ ﷺ حضرت سعد ﷛ کی شان میں گستاخی کی، آپ ﷛ پر تین الزامات لگائے اور آپ ﷛ پر بہتان باندھا، جس کی پاداش میں حضرت سعد ﷛ نے بھی اسے تین بد دعائیں دیں، جو کہ دنیا ہی میں اس پر پوری ہوئیں یعنی اس کی عمر لمبی ہوئی، وہ خوب بدحال ہوا اور وہ فتنوں میں مبتلا ہوا جبکہ اس کے آخرت کی عذاب کے بارے میں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ لمبی عمر کی بد دعا بھی کی جا سکتی ہے۔
ایک صاحب کی بیوی انہیں بہت ستاتی اور تنگ کرتی تھی۔ ایک دن عاجز ہو کر اپنی بیوی کو کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ میرے بعد تم بیس (20) سال تک بیوگی کی زندگی گزارو۔ یہ دعا قبول ہوئی اور آج تقریباً بیس (20) سال ہو چکے ہیں وہ محترمہ بڑھاپے کے دکھ درد کے ساتھ بیوگی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے، آمین۔
میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور کسی کو اتنا نہ ستائیں کہ کوئی ایسی بد دعا دے دے۔ لہٰذا بابرکت و باسعات بڑھاپے کے لیے ہر میاں بیوی کو ایک دوسرے کو لمبی عمر کی بد دعا دینے سے گریز کرنا چاہیے اور اپنے یا کسی اور کے لیے مطلق لمبی عمر کی دعا بھی نہیں کرنی چاہیے۔
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، ، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رجوع کرسکتے ہیں ۔
.
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
لمبی عمر کا ثمر

اب تک ہم نے جو احادیث پڑھے ہیں ان سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ لمبی عمر کا ثمر اسی وقت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جب انسان اچھے اخلاق کا حامل ہو، راہ راست پر چلنے والا ہو اور انتہائی نیک اعمال کرنے والا ہو۔ عمر کا طویل ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اسے یوں ہی ضائع نہ کر دیا جائے بلکہ اسے کام میں لگا کر اپنی اجر و ثواب میں اضافہ کیا جائے۔

محمد بن ابی عمیرہ جو کہ رسول اللہﷺ کے صحابی تھے، فرماتے ہیں: اگرکوئی بندہ اپنے یوم پیدائش سے لے کر بوڑھا ہو کر مرنے تک اللہ کی اطاعت میں سجدہ ریز رہے تو وہ روز قیامت اس کو بھی حقیر سمجھے گا اور وہ آرزو کرے گا کہ کاش اسے دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تا کہ وہ اجر و ثواب میں اضافہ کر سکے “۔(مشكوة المصابيح: 5294)۔

یعنی اجر و ثواب کی اہمیت بندے کو آخرت میں سمجھ میں آئے گی۔ اس لیے مومن بندے کی عمر جتنی زیادہ ہوگی اس کے اعمال صالحہ بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے اور اسی حساب سے اسے اجر و ثواب بھی زیادہ ملے گا جو کہ قیامت کے دن کا سرمایہ ہوگا۔

(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رجوع کرسکتے ہیں۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
لمبی عمر پانے والا مومن پہلے جنت میں جائے گا

اب تک مختلف احادیث مبارکہ سے ہم سب یہ جان چکے ہیں کہ ایسے طویل العمر افراد جن کے اخلاق اچھے ہوں، جو راہ راست پر چلنے والے ہوں اور انتہائی نیک اعمال کرتے ہوں اور جن کی زبان ذکر الٰہی سے تر رہتی ہو، وہ اس دنیا میں اپنے اپنے دور میں اس امت کے بہترین لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اس دنیا سے اپنے ہم عصروں کے بعد رخصت ہوں گے لیکن ان سے پہلے جنت میں داخل ہو جائیں گے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن شداد سے مروی ہے کہ بنو عذرہ کے تین آدمیوں کی ایک جماعت نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا، نبی ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ ان کی کفالت کون کرے گا؟ حضرت طلحہ نے اپنے آپ کو پیش کر دیا، چنانچہ یہ لوگ حضرت طلحہ کے پاس رہتے رہے، اس دوران نبی ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا تو ان میں سے بھی ایک آدمی اس میں شریک ہوگیا اور وہیں پر جام شہادت نوش کرلیا۔ کچھ عرصہ کے بعد نبی ﷺ نے ایک اور لشکر روانہ فرمایا تو دوسرا آدمی بھی شریک ہوگیا اور اس دوران وہ بھی شہید ہوگیا جبکہ (اس کے کچھ عرصہ بعد) تیسرے شخص کا انتقال طبعی موت سے ہوگیا۔ حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں ان تینوں کو جو میرے پاس رہتے تھے جنت میں دیکھا، ان میں سے جس کی موت طبعی ہوئی تھی وہ ان دونوں سے آگے تھا، بعد میں شہید ہونے والا دوسرے درجے پر تھا اور سب سے پہلے شہید ہونے والا سب سے آخر میں تھا، مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا، میں نے نبی ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اس پر تعجب کیونکر ہوا؟ ’’ اللہ کی بارگاہ میں اس مومن سے افضل کوئی نہیں ہے جسے حالت اسلام میں لمبی عمر دی گئی ہو، اس کی تسبیح و تکبیر اور تہلیل کی وجہ سے ‘‘ ۔ (مسند احمد: 1401، سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 654)
اور حضرت جابر سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ موت کی تمنا نہ کیا کرو کیونکہ قیامت کی ہولناکی بہت سخت ہے اور انسان کی سعادت و خوش نصیبی یہ ہے کہ اسے لمبی عمر ملے اور اللہ اسے اپنی طرف رجوع کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ (مسند احمد : 14564)
لہذا اللہ تعالیٰ جسے لمبی عمر دے اور ساتھ ہی اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق بھی دے تو اسے بابرکت و باسعادت بڑھاپا مل گیا، اب اسے چاہیے کہ زندگی کے آخری لمحے تک اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توبہ و استغفار کرکے اپنے نیکیوں میں اضافہ کرتا رہے تاکہ قیامت کے دن وہ اپنے ہم عصر لوگوں سے پہلے جنت میں داخل ہو سکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ‎(٩٨) وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ‎(٩٩) سورة الحجر
’’پس آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں اور اُس آخری (موت) گھڑی تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں جس کا آنا یقینی ہے‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں آخری گھڑی تک اپنی عبادت میں لگائے رکھے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رجوع کرسکتے ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
لمبی عمر کی برکت سے قیامت میں نور ہوگا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو اسلام میں بوڑھا ہو جائے، تو قیامت کے دن یہ اس کے لیے نور بن کر آئے گا۔(سنن ترمذي:1634)۔
اور یہ بھی فرمایا:جو شخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہو جائے قیامت کے دن اس کے لیے ایک نور ہو گا۔ (سنن ترمذي:1635, سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 2681)

اور قیامت کے دن جس کے لیے نور ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوگا، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو خوشخبری سنائی ہے:

يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَىٰ نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‎(١٢) سورة الحديد
’’(اے نبی مکرم ﷺ !) اُس (قیامت کے) دن آپ مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لیے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں تم ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔

اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے نیک اعمال کے مطابق انہیں نور ملے گا جو قیامت کے دن ان کے ساتھ ساتھ رہے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان میں بعض کا نور پہاڑوں کے برابر ہو گا اور بعض کا کھجور کے درختوں کے برابر اور بعض کا کھڑے انسان کے قد کے برابر سب سے کم نور جس گنہگار مومن کا ہو گا اس کے پیر کے انگوٹھے پر نور ہو گا جو کبھی روشن ہوتا ہو گا اور کبھی بجھ جاتا ہو گا۔ ( ابن جریر ) ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے بعض مومن ایسے بھی ہوں گے جن کا نور اس قدر ہو گا کہ جس قدر مدینہ سے عدن دور ہے اور ابین دور ہے اور صنعا دور ہے ۔ بعض اس سے کم بعض اس سے کم یہاں تک کہ بعض وہ بھی ہوں گے جن کے نور سے صرف ان کے دونوں قدموں کے پاس ہی اجالا ہو گا۔ حضرت جنادہ بن ابو امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگو تمہارے نام مع ولدیت کے اور خاص نشانیوں کے اللہ کے ہاں لکھے ہوئے ہیں، اسی طرح تمہارا ہر ظاہر و باطن عمل بھی وہاں لکھا ہوا ہے۔ قیامت کے دن نام لے کر پکار کر کہہ دیا جائے گا کہ اے فلاں یہ تیرا نور ہے اور اے فلاں تیرے لیے کوئی نور ہمارے ہاں نہیں ہے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔اسی طرح ایک اور آیت میں فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎(٨) سورة التحريم
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی کو اور اُن لوگوں جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہ کرے گا، اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب،ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے‘‘۔

اس آیت کے ابتدائی حصے میں اہل ایمان کو یہ نکتہ بتا دیا گیا ہے کہ اگر تم اس نور کوحاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کے سامنے توبہ کرو، خالص توبہ، یعنی دل میں گناہ پر کامل ندامت اور آئندہ اس کے نہ کرنے کے پختہ قصد کے ساتھ توبہ کرو، غفلت کی زندگی اور معصیت کی روش سے توبہ کرو، تو امید ہے کہ تمہارا رب اس توبہ کی بدولت تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں وہ نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم پل صراط کے کٹھن اور نازک راستے پر چل کر جنت تک پہنچ جاؤ گے۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں: اول اول تو ہر شخص کو نور عطا ہو گا لیکن جب پل صراط پر جائیں گے تو منافقوں کا نور بجھ جائے گا اسے دیکھ کر مومن بھی ڈرنے لگیں گے کہ ایسا نہ ہو ہمارا نور بھی بجھ جائے، لہذا وہ اللہ سے دعا کریں گے:

« رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎»۔۔۔’’اے ہمارے پروردگار! (جنت میں پہنچنے تک) ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے‘‘۔

لہذا اے لمبی عمر پانے والے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو موقع دیا ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ! کثرت سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، توبہ و استغفار کرو، تسبیح و تہلیل اور ذکر و اذکار اور دعا و درود سے ہر وقت اپنی زبان تر رکھو، تم زندگی کے آخری مرحلے میں ہو اور تمہارے پاس وقت بہت کم ہے، نہ جانے کب زندگی کا چراغ گُل ہو جائے اور یہ جو وقت ملا ہوا ہے وہ ختم ہو جائے۔ لہذا وقت ختم ہونے سے پہلے لمبی عمر کی برکات سمیٹو! حلق میں روح آپھنسنے سے پہلے توبہ کرلو، سچی توبہ کرلو اور اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنالو تاکہ آخرت میں یہ بڑھاپا نور بن کر آئے اور جنت میں داخلے کا سبب بنے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں نور ہدایت سے نوازے اور آخرت میں ہمیں مکمل نور عطا فرمائے جو ہمارے لیے جنت تک جانے کا سبب بنے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رجوع کرسکتے ہیں۔
۔
 
Top