• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بابرکت و باسعادت بڑھاپا

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
عمر میں اضافہ ممکن ہے؟

مومن ہر لمحہ اپنی موت کو یاد رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۔ ۔’’ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘۔(سورة آل عمران )
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں موت کواَجَل سے تعبیر فرمایا ہے،اَجَل کے معنی ہیں:کسی چیز کا مقررہ وقت، جو کسی قیمت پر نہ ٹلے۔
إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ۔۔۔ ’’بے شک جب اللہ کی طرف سے (موت کا) مقررہ وقت آ جاتا ہے تو وہ ٹلتا نہیں ہے‘‘ ﴿٤﴾‏ سورة نوح
وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ۔۔۔ ’’اور اللہ ہرگز کسی شخص کو مہلت نہیں دیتا جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے‘‘ ﴿١١﴾‏ سورة المنافقون
أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ۔۔۔ ’’پس جان لو! تم جہاں کہیں بھی ہوگے موت تمہیں آن پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو‘‘﴿٧٨﴾‏ سورة النساء

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور فرمایا:لکھو! قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے۔ (ترمذی: 2155 )
لہذا اللہ تعالیٰ نے قلم کی پیدائش سے لے کر قیامت كے دن تک کی ہر چیز کو لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔اور رسول اکرم ﷺ نے ہمیں یہ بھی خبر دی ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا، اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا ۔ (صحيح مسلم: 2653)
اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے: تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت میں) کی جاتی ہے، اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ (منجمد ) خون کے صورت اختیار کیے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ ’’ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے‘‘۔ (صحیح بخاری: 3208، صحیح مسلم: 2643)

مندرجہ بالا آیات و احادیث اور ان جیسی دیگر آیات و احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر متنفس کے موت کا وقت مقرر ہے لیکن دوسری طرف لمبی عمر کی دعا کرنا بھی جائز اور احسن ہے۔ لہذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر لمبی عمر کی دعا یا بد دعا کے کیا معنی ہیں، جبکہ موت کا وقت مقرر ہے اور کیا عمر میں اضافہ ممکن ہے؟

یا پھر یہ جو حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ۔ (سنن ترمذي: 2139، سنن ابن ماجہ: 90)
یا یہ کہ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کی روزی میں فراخی اور اس کی عمر میں تاخیر (یعنی اضافہ) کیا جائے تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ (صحيح مسلم: 2557)، (صحیح بخاری : 944)

تو پھر دعا، نیکی اور صلہ رحمی کرنے سے عمر میں اضافہ کیونکر ہوتا ہے، جبکہ قرآنی آیات و احادیث کے مطابق موت کا وقت مقرر ہونا ثابت ہے۔ اس عقدہ کو وا کرنے کے لیے تقدیر کو سمجھنا ضروری ہے۔ تقدیر لغت کے اعتبار سے ’’اندازہ‘‘ کرنے کو کہتے ہیں، جب کہ شرعی اصطلاح کے اعتبار سے تقدیر اللہ تعالیٰ کے اس علم اور فیصلہ کو کہتے ہیں جو اس کائنات اور اس کی تمام مخلوقات کے بارے میں اس کے وجود میں آنے سے پہلے طے کیا جاچکا ہے۔

تقدیر کی دو اقسام ہیں: (1) تقدیرمبرم اور (2) تقدیر معلق۔​

«تقدیر مبرم» تو حق تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہوتا ہے جو چیز پیش آنے والی ہوتی ہے اس میں کچھ بھی تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے۔مگر «تقدیر معلق» میں بعض اسباب کی بنا پر تغیر و تبدل بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس میں دو جہت ہوتی ہیں، مثلاً فلاں کام کیا تو تقدیر بدل جائے گی ورنہ نہیں بدلے گی۔

حدیث میں جس تقدیر کا دعا سے بدل جانے کا کہا گیا ہے وہ تقدیر معلق ہے، اس سے تقدیر مبرم مراد نہیں ہے۔ لہذا دعا یا بد دعا سے عمر میں جو زیادتی یا کمی ہوتی ہے وہ بھی تقدیر معلق کے زمرے میں آتی ہے۔

اور عمر میں زیادتی کے مفہوم میں علما کی مختلف تصریحات ہیں، جن میں سے تین اقوال درج ذیل ہیں:

پہلا قول : عمر میں برکت کا ہونا، جس کی زندگی میں برکت ہوتی ہے وہ اپنی محدود زندگی میں دوسروں کی نسبت بہت زیادہ نیک اعمال کر لیتا ہے۔
دوسرا قول : عمر کا درحقیقت طویل ہونا وہ یہ کہ کوئی شخص اپنے ہم عصر کی نسبت لمبی عمر پائے، مثلاً فی زمانہ لوگوں کی عمر 60 -70 سال ہے تو اب جو شخص 100 سال تک زندہ رہا تو اس کی عمر میں زیادتی ہوئی۔
تیسرا قول : مرنے کے بعد ذکر خیر کا پایا جانا، جب کوئی شخص ایسا صدقۂ جاریہ کر جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ اس کا ذکر خیر کرتے ہیں۔

بہر حال صرف لمبی عمر کسی انسان کے لیے خیر کی ضامن نہیں ہے الاّ یہ کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عمل دونوں میں اچھا ہو۔ لیکن جس کے اعمال اچھے نہیں ہوں گے اس کی لمبی عمر اس کے لیے کوئی خیر و برکت نہیں لائے گی بلکہ یہ اس کے لیے دنیا میں فتنے اور آخرت میں عذاب باعث ہوگا۔ جیسا کہ جب پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ بد تر شخص کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو۔ (سنن ترمذي: 2330)

اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ‎(١٧٨) سورة آل عمران
’’اور کافر یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں (یہ) ان کے حق میں بہتر ہے، ہم تو (یہ)مہلت انہیں صرف اس لیے دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں اور بڑھ جائیں، اور ان کے لیے (بالآخر) ذلّت انگیز عذاب ہے‘‘

ان کافروں کو اللہ تعالیٰ نے ڈھیل دی ہوئی ہے کہ انھیں رزقِ وافر، عافیت ، درازیٔ عمر اور بیوی بچے عطا کر رکھے ہیں لیکن اس میں ان کے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے بلکہ یہ ان کے لیے باعثِ فتنہ ہے۔ اللہ کی پناہ! کہ اس فراوانی سے وہ مزید گناہوں میں گِھر جائیں گے۔ طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اوقات اور گھڑیاں تاجر کے بنیادی سرمائے (پونجی) کی طرح ہیں پس، چاہیے کہ تجارت اس طرح کی جائے کہ حصولِ نفع کا باعث ہو، سرمایہ جتنا بڑھتا جائے گا نفع بھی زیادہ ہوتا جائے گا، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کرے وہ کامیاب ہو گا اور فلاح پائے گا اور جس نے اپنا سرمایہ ضائع کیا وہ نفع نہیں پائے گا اور سخت گھاٹے میں رہے گا۔

لہذا گھاٹے سے بچنے کے لیے ہر بندۂ مومن کو اپنی عمر سے مکمل فائدہ اٹھانے میں حریص ہونا چاہیے اور اسے خیر و عافیت والی لمبی عمر کی دعا مانگنے کے ساتھ ساتھ عمر میں اضافہ کرنے والے اعمال یعنی نیکی اور صلہ رحمی بھی کرتے رہنا چاہیے، تاکہ اس کا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رجوع کرسکتے ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
برکت کا مفہوم اور لمبی عمر

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو بابرکت و باسعادت لمبی عمر عطا فرمائے، آمین۔ ہمیں اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی، علم و عمل اور مال و اسباب میں برکت کی دعائیں کرتے رہنا چاہیے اور خیر و برکت کے حصول کے لیے جن نیک اعمال کا کرنا ضروری ہے انہیں سمجھ لینا چاہیے اور ان پر عمل کرتے رہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہنا چاہیے کہ ہماری زندگی میں خیر و برکت ہے یا یہ برکتوں سے خالی ہے۔ اپنی زندگی میں برکت کو دیکھنے اور اس کا حساب لگانے کے لیے ہمیں برکت کے معانی و مفاہیم کو سمجھنا ضروری ہے۔ برکت کا عربی لفظ بركة ہے، عام معنوں میں کسی چیز میں اضافہ یا بڑھوتری کو برکت کہتے ہیں جبکہ اسلامی عقائد کے مطابق برکت کے معانی و مفاہیم درج ذیل ہیں:
  1. کسی بھی چیز میں خیر کا حسی یا معنوی اضافہ
  2. کسی چیز میں خیر کے وجود کا ثابت ہونا
ان دونوں معانی میں مشترکہ صفت کسی چیز میں خیر کثیر کا ہونا ہے اور ہر خیر من جانب اللہ تعالیٰ ہے۔ لہذا اگر کسی چیز میں خیر کا وجود ہو یا کسی چیز میں ایسا اضافہ جو شرعی طور پر خیر والا ہو وہ برکت کہلائے گی۔ کسی چیز میں محض کوئی اضافہ برکت نہیں بلکہ صرف زیادہ ہونا ہے۔ اس لیے ہر اضافے یا زیادہ ہونے کو ہم برکت نہیں کہہ سکتے۔ کسی چیز میں برکت کے لیے شرعی طور پر اس میں خیر کثیر کا ہونا لازمی ہے اور یقیناً خیر اسی چیز میں ہوتی ہے جس کا استعمال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے عین مطابق ہوتا ہے۔

لہذا ہماری زندگی اگر اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزر رہی ہے (تو ہماری عمر کم ہو یا زیادہ) وہ برکت والی عمر کہلائے گی اور اگر وہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی میں گزر رہی ہے تو ہزار سالہ عمر بھی ہو تو وہ لمبی عمر تو ہو سکتی ہے لیکن وہ بابرکت و باسعادت لمبی عمر نہیں کہلا سکتی۔بابرکت و باسعادت لمبی عمر یا زندگی کے مفہوم میں علماء کی مختلف توجیہات ہیں، جن میں تین مفہوم درج ذیل ہیں:

نمبر (1) اللہ تعالیٰ جس کی زندگی میں برکت دیتے ہیں اس کو بعض خاص توفیق عنایت فرماتے ہیں جس کی بنا پر اس کے لیے نیک اعمال کرنا اور گناہوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے وقت میں برکت عطا فرماتے ہیں اور اس سے کم وقت میں دین کا بہت سا کام لے لیتے ہیں۔ تاریخ میں ایسی کتنی شخصیات گزری ہیں اور ہمارے آس پاس بھی ایسی کتنی شخصیات موجود ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے کم وقت میں دین کی ایسی قابل قدر خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ کتنی ہی مخلوقات صدیوں تک ان سے فیض یاب ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔

نمبر (2) اللہ تعالیٰ جس کی زندگی میں برکت دیتے ہیں اس کو نیک و صالح اولاد عطا فرماتے ہیں، نیک اولاد دنیا میں تو راحت ہیں ہی لیکن جب انسان دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تب یہ اولاد اس کے لیے استغفار کرتی ہیں، ایصال ثواب اور دیگر خیر کا کام کرتی ہیں جن کا ثواب اسے مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے۔

نمبر (3) کسی کی عمر میں برکت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ دنیا سے اس کے رخصت ہونے کے بعد لوگ اس کے صدقۂ جاریہ سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور اس کا ذکر اچھے الفاظ میں کرتے رہتے ہیں، بہت سے اللہ والے آج دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کا ذکر خیر آج بھی لوگوں کی زبان پر جاری ہے اور یہ ایسی نعمت ہے جس کی دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی مانگی تھی، قرآن کریم میں ہے:

وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ ۔۔۔ (٨٤) سورة الشعراء
’’اور آنے والی نسلوں میں میرے لیے وہ زبانیں پیدا فرمادے جو میری سچائی کی گواہی دیں‘‘

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو قبولیت بخشی، فرمایا:

فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا (٤٩) وَوَهَبْنَا لَهُم مِّن رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا (٥٠) سورة مريم
’’پھر جب ابراہیم ان لوگوں سے اور جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے اُن سے الگ ہوگئے تو ہم نے ان کو اسحاق اور (اسحاق کو) یعقوب بخشے اور سب کو نبی بنایا ۔ اور ہم نے ان (سب) کو اپنی (خاص) رحمت بخشی اور ہم نے ان کے لیے صداقت کی زبان بلند کردی، (یعنی آئندہ نسلوں میں ان کے ذکر جمیل کی آواز بلند کی) ‘‘

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سچائی کی گواہی یوں دی کہ آپ علیہ السلام کو ابو الانبیاء بنا دیا اور آپ علیہ السلام کے بعد ہر نبی کی امت میں آپ علیہ السلام کا ذکر خیر جاری کر دیا۔ آج امت محمدیہ ﷺ بھی اپنی ہر نماز میں اور ہربار درود ابراہیمی پڑھتے وقت آپ علیہ السلام کا ذکر خیر کرتی ہے۔

بعض ایسے بھی خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی عمر حقیقتاً بھی لمبی ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی فضل و کرم سے ان کی زندگیوں میں مندرجہ بالا کوئی ایک یا دو یا تینوں برکتیں بھی عطا فرما دیتے ہیں۔ جیسا کہ آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے 40 سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز کیا۔ آپؑ 950 سال تک اپنی قوم میں تبلیغ کا کام کرتے رہے اور انہیں توحید باری تعالیٰ کی دعوت دیتے رہے لیکن آپؑ کی قوم کفر و طغیان اور نافرمانی و سرکشی سے باز نہیں آئی تو آپؑ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے ان سب کو غرق کر دیا اور آپؑ کے ساتھ کشتی میں سوار صرف آپؑ کی ہی کی نسل سے دنیا کو دوبارہ آباد کیا۔ آج کی انسانی نسل آپؑ کی ہی نسل سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ ‎(٧٧) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ‎(٧٨) سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ ‎(٧٩) إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎(٨٠) إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ‎(٨١) سورة الصافات
’’اور ہم نے فقط ان ہی (نوح علیہ السلام) کی نسل کو باقی رہنے والا بنایا، اور ہم نے بعد میں آنے والے لوگوں میں ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا، تمام جہانوں میں نوح (علیہ السلام) پر سلام ہو، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں، یقیناً وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے‘‘

ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور صالح بندوں کی زندگی اور عمر میں برکت فرماتے ہیں اور ان کا ذکر خیر باقی رکھتے ہیں۔ لہذا اگر ہم بابرکت و باسعادت لمبی عمر کے طلب گار ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں میں شامل ہونا ہوگا اور نیک اعمال کرنا ہوگا، تب اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہمارا ذکر خیر بھی ہوتا رہے گا، ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رجوع کرسکتے ہیں۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
زندگی میں برکت کیسے؟

قرآن و سنت میں برکت دو طریقوں سے ظاہر ہوئی ہے۔ ایک برکت کے لفظ کے ساتھ اور دوسری بغیر برکت کے لفظ کے ساتھ ۔ برکت اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کا احاطہ کرنے والی ایک بڑی نعمت ہے۔ لہذا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی مل سکتی ہے۔ دنیا و آخرت کی کسی بھی چیز میں برکت دینا اللہ تبارک و تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام تر برکات کا منبع ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں خود ہی فرما دیا ہے:

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (١) سورة الملك’’بہت بابرکت ہے وه (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے والاہے ‘‘
بابرکت ہے وہ ذات، بابرکت سے مراد ہے جو عظیم ہے، بلند و بالا ہے، جس کا خیر کثرت سے ہے، جس کے انعام و احسان اپنی مخلوق پر کثرت سے ہیں۔ کس چیز میں اور کہاں برکت ہو اور کہاں نہیں ہو، یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حکمت پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں حصولِ برکات کے ذرائع متعین کردیئے ہیں۔ کتاب و سنت میں حصولِ برکت کے لیے بابرکت اشیا و مقامات، اوقات و اسباب، اقوال و افعال اور ذرائع و طریقے وغیرہ نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت غیر شرعی اور گمراہ کن طریقوں سے برکات حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ کوئی مزاروں پر چادر یا پھول چڑھا کر تو کوئی ڈھول تاشہ بجا کر، ناچ گا کر اور دھمال ڈال کر برکت حاصل کر رہا ہے۔ برکت حاصل کرنے کے لیے کہیں غیر اللہ کے نام کی نذریں مانی جاتی ہیں تو کہیں قبروں کا طواف کیا جاتا ہے۔ کوئی کسی مزار کے اطراف میں بنے گندے جوہڑ کو زمزم جیسا بابرکت سمجھ کر اس کا پانی پیتا ہے اور اس میں نہاتا ہے تو کوئی کسی مزار کے اطراف کی مٹی میں لوٹ پوٹ ہوتا ہے اور مزار کی خاک چاٹ کر برکت حاصل کرتا ہے۔

یہ سارے ایمان و اخلاق کو بگاڑنے والے گمراہ کن اعمال و طریقے ہیں۔ ان سے برکت نہیں بلکہ بے برکتی اور گمراہی ملتی ہیں۔ شریعت میں ان امور کے بابرکت ہونے کی کی کوئی دلیل نہیں ہے۔شریعت کے مطابق زندگی میں برکتیں بعض شرائط سے وابستہ ہیں، جن میں پہلی شرط ہے ایمان اور دوسری شرط ہے تقویٰ، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (٩٦) سورة الأعراف
’’‘اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حصول برکت کے لیے سب سے پہلے دو شرائط کا پوری ہونا ضروری ہے: « آمَنُوا وَاتَّقَوْا ۔ ۔ ۔ ایمان لانا اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرنا»

(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رجوع کرسکتے ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
زندگی میں برکت ایمان سے

حصول برکت کی پہلی شرط ایمان ہے۔ ایمان کی خوبی یہ ہے کہ جتنا ایمان بڑھتا جائے گا اُتنی ہی ایمان میں مضبوطی آئے گی اور اُتنی ہی برکت حاصل ہوگی۔ ایمان کی مضبوطی کے لیے ایمان کی تعریف اور ارکان کو سمجھنا ضروری ہے۔ جو لوگ ارکان ایمان کو جانتے ہی نہیں یا جنہوں نے علم کے اعتبار سے ایمان کو جانا ہی نہیں ہے، وہ صرف نام کے مومن ہیں اور ان کے لیے گمراہی میں پڑنا بہت آسان ہے۔ ارکان ایمان چھہ ہیں:

(1) اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، (2) اس کے فرشتوں پر ایمان لانا، (3) اس کی کتابوں پر ایمان لانا،
(4) اس کے رسولوں پر ایمان لانا، (5) قیامت کے دن پر ایمان لانا، اور (6) اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا​

اسلامی عقیدہ ان ارکانِ ایمان سے ملکر بنتا ہے ان میں سے ایک بھی موجود نہ وہ تو وہ عقیدہ اور ایمان ناقص کہلائے گا۔

اللہ تعالیٰ کا حق سب سے پہلے ادا کرنا ہے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ پر ایمان سب سے پہلے ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی تمام ارکانِ ایمان کی بنیاد ہے۔​

سب سے افضل عمل اللہ پر ایمان لانا ہے، جیسا کہ جب رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کیا گیا کہ: کون سا عمل افضل ہے؟، توآپ ﷺ نے فرمایا: ‎’’ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ‘‘ ۔ (صحیح بخاری:26، صحیح مسلم:83)

تمام ظاہری و باطنی اور قولی و عملی عبادتوں کو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرنا ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز کی عبادت کی نفی کرنا ہے خواہ ملا ئکہ و رسل ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ ہی حاجت روا، مشکل کشا اور داتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، الوہیت اور اس کے اسما و صفات یا کسی بھی معاملے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے افضل ایمان یہ ہے کہ تو اس بات پر یقین رکھے کہ ذات باری تعالیٰ بلاشبہ تیرے ساتھ ہے، جہاں تو ہے۔ (طبرانی، البيهقي، ابن کثیر تفسیر آیت 4 سورۃ حدید)

اور قرآنِ کریم میں فرمایا گیا ہے:

وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (٤) سورة الحديد
’’اور جہاں کہیں تم ہو وه تمہارے ساتھ ہے اور جو تم کر رہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے‘‘​

اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے سے اس درجے (Level) کے ایمان کا تقاضا کرتا ہے۔ جب ہمارا ایمان اس درجے کا اور اتنا پختہ ہوگا تب ہی ہم پر آسمان سے برکات یعنی خیر کثیر کا نزول ہوگا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایمان کے ستر سے زائد درجے ہیں ان میں افضل ترین « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ » کا اقرارہے‘‘۔ (صحيح مسلم: 35)

لہذا ایمان کی اساس «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ» ہے، یہ کلمہ توحید ہے۔ اس پر قائم دائم شخص ایمان کے اعلی ترین درجے پر فائز ہوتا ہے۔ ایمان دنیوی و اخروی برکت، سعادت و ہدایت کا ذریعہ ہے۔

فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ ۔۔۔ (١٢٥) سورة الأنعام
‎’’ سو اﷲ جس کسی کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ فرما دیتا ہے‘‘​

اگر ہم سمجھیں تو جس بندے کو ایمان کی دولت نصیب ہوگئی اسے دنیا و آخرت کی ساری بھلائی حاصل ہوگئی۔ دنیا میں تو کافر بھی نوازے جاتے ہیں لیکن آخرت کی بھلائی اور خیر و برکت صرف ایمان کی بنیاد پر ہی اہل ایمان کو نصیب ہوگی۔ ایمان کی بنیاد پر ہی لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے اور ایمان کی بنیاد پر ہی لوگ جہنم سے نکالے جائیں گے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے کہ ’’اللہ تعالیٰ جہنم سے ہر اس شخص کو نکال دے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوا‘‘ ۔ (صحيح البخاري: 7509-7510)

ذرا سوچیے! کیا ہم نے ایمان کے معنیٰ و مفہوم اور ارکانِ ایمان کو سمجھا ہے اور اس کے مطابق عمل کیا ہے یا مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے بس ساری زندگی یوں ہی مسلمان بنے رہے اور غفلت میں زندگی گزار کر بال سفید کرلیے اور بڑھاپے کو پہنچ گئے؟

اگر ہم نے ایمان کے معنی و مفہوم سمجھتے ہوئے اور ارکانِ ایمان کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے عمل سے اپنے ایمان کا ثبوت دیتے ہوئے زندگی گزاری ہے تو ’’الحمد للہ‘‘۔ اور اگر بغیر سمجھے بوجھے بس یوں ہی غفلت میں زندگی گزار دی ہے تو اب بھی وقت ہے کہ ہم ایمان کے معنی و مفہوم کو سمجھ لیں اور اس کے ارکان کو جان لیں۔ اپنی زبان سے ایمان کا اقرار اور دل سے تصدیق کرتے رہیں پھر اعضا و جوارح سے عمل کرتے ہوئے اپنی ایمان کا ثبوت بھی دیتے رہیں۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ:اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمہارے اور اس کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 467)

اور سب سے بڑی اور دائمی رکاوٹ موت ہے جس کے بعد کوئی نیک عمل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اب بڑھاپا ہمیں گھیر چکا ہے۔ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ اب بھی اگر ہم نے ایمان کے معنی، مفہوم اور ارکان کو نہیں سمجھا تو ہماری زندگی بابرکت کیونکر ہوگی؟ ہماری اولاد کیونکر ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنے گی؟

لہذا جو چند دنوں کی مہلت ملی ہوئی ہے اس میں ہمیں ہر لمحے اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہنا چاہیے اور اسے بڑھاتے رہنا چاہیے کیونکہ ایمان گھٹنے اور بڑھنے والی چیز ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری، نیک صحبت اور نیک اعمال سے بڑھتا ہے اور نافرمانی، شرک و کفر اور بدعات و خرافات سے گھٹتا ہے۔ اگر ہم اس بڑھاپے میں ہر لمحہ ہم اپنے ایمان کو بڑھانے میں کامیاب رہتے ہیں تب ہی ہمارا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہوگا، ہمیں ایمان پر موت آئے گی اور ہمیں موت کے وقت کلمہ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوگی جو کہ ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں کامیابی کی یہی راہ دکھائی ہے، فرمایا ہے: ’’جس شخص کے آخری الفاظ « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ» ہوں تو وہ جنت میں جائے گا‘‘ ۔ (سنن ابي داود: 3116)

«لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ» بہترین صدقہ، قبر میں باعث نجات، وزنِ میں سب پر بھاری، روزِ قیامت شفاعت کرنے اور لینے، نیز جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔ ایک مسلمان کی ساری کاوشیں جنت میں جانے کے لیے ہی تو ہیں، جنت میں داخل ہونا ہی بڑی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان پر موت دے کر یہ کامیابی نصیب فرمائے اور ہمارا آخری کلام « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ» ہو۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رجوع کرسکتے ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
زندگی میں برکت تقویٰ سے

حصول برکت کی پہلی شرط ایمان کا ذکر ہو چکا ہے،اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان کی اساس « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ» ہے جو کہ کلمۂ تقویٰ بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کے لیے مخصوص کیا ہے، فرمایا: «وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ»۔۔۔ ’’اور ان (مومنین) کو کلمۂ تقوی پر قائم رکھا‘‘ (٢٦) سورة الفتح
یہ کلمۂ تقویٰ « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ» ہے، لہذا ایمان اور تقویٰ دونوں کی اساس « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ»ہے۔
اور حصول برکت کی دوسری شرط تقویٰ ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:
« وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَ اتَّقَوْا» ۔۔۔ ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے‘‘(‎٩٦) سورة الأعراف
ایمان کے بعد دوسرا عمل تقویٰ ہے۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان تمام برائیوں سے دور رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جملہ احکام کو بجا لاتا ہے۔ جس طرح ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے اسی طرح تقویٰ بھی کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے جسے ہر متقی آدمی اپنے دل میں محسوس کرسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے‘‘ ۔ (صحيح مسلم: 2564)

اور امیر المؤمنین حضرت علی ﷛ نے فرمایا: التقوى هي الخوف من الجليل والعمل بالتنزيل والرضا بالقليل والاستعداد ليوم الرحيل ۔ یعنی (1) اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، (2) کتاب و سنت پر عمل کرنا، (3) تھوڑے پر قناعت کرنا اور (4) موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا تقویٰ ہے۔
اللہ تعالیٰ سے وہی ڈرتا ہے جس کا دل معرفتِ الٰہی سے معمور ہو، کتاب و سنت پر وہی عمل کرتا ہے جس نے دین کا علم سیکھا اور سمجھا ہو، تھوڑے پر قناعت وہی کرتا ہے جو دنیا کو فافی سمجھتا ہو اور موت کے لیے وہی تیار رہتا ہے جسے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تمنا اور اس کے وعدوں کے پورا ہونے کا انتظار ہو۔ یہ کتنی بڑی سعادت کی بات ہے کہ سارے کا سارا قرآن متقین کے لیے ہی نازل فرمایا گیا ہے۔ جسے قرآن مجید کے ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے:
الم (١) ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (٢) سورة البقرة
’’الم (1) اس کتاب میں کوئی شک نہیں ہے، (یہ کتابِ) ہدایت ہے صاحبانِ تقویٰ کے لیے‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ (١٣٨) سورة آل عمران
’’یہ (قرآن) لوگوں کے لیے تو صریح تنبیہ ہے لیکن اہلِ تقویٰ کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے‘‘۔
لہذا متقی وہی ہوگا جو قرآن سے ہدایت حاصل کرے گا اور قرآن کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالے گا۔ ہر جمعہ اور عیدین کے خطبے میں ہمیں تقویٰ سے متعلق ذیل کی آیات سنائی جاتی ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (٧٠) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (٧١) سورة الأحزاب
’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کیا کرو ۔ وہ (اللہ) تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا، جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی‘‘
لیکن افسوس کہ چالیس پچاس سال تک متواتر ہر خطبے میں ان واضح آیات کو سنتے ہوئے بڑھاپے میں پہنچنے والے مسلمان کے دل میں نہ ہی تقویٰ ہوتا ، نہ ہی وہ سیدھی سچی باتیں کرتا ہے اور نہ ہی اس کے اعمال درست ہوتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ وہ ان آیات کی مطالب و مفاہیم سمجھتا ہی نہیں، اور نہ ہی سمجھنے کے لیے ان پر غور و فکر کرتا ہے۔ اس طرح نہ ہی ان آیات کا اس کے دل پر کوئی اثر ہو پاتا ہے اور نہ ہی علم دین کا کوئی حصہ اسے مل پاتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ --- ’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘﴿٢٨﴾‏ سورة فاطر
« الخشیۃ » اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے اور عظمت کا تعین علم سے ہوتا ہے۔ لہذا جس کا علم ذاتِ الٰہی سے متعلق جتنا زیادہ ہوگا اسی قدر اس عظیم ذات کی عظمت و ہیبت اس کے دل میں پیدا ہوگی اور اسی قدر اس کے دل میں اللہ کا خوف یعنی تقویٰ بھی ہوگا اور جو معرفتِ الٰہی سے محروم رہتا ہے، وہ تقویٰ سے بھی محروم رہتا ہے۔
تقویٰ یعنی اللہ کا خوف تمام بھلائیوں کی جڑہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے آغازسے لے کر قیامت تک آنے والے تمام جن و انس کے لیے تقویٰ کی وصیت فرمائی ہے۔ تقویٰ ہی کل قیامت کے دن پار لگانے والی کشتی ہے۔ تقویٰ مؤمنین کے لیے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے، جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں، جو راستے کو روشن کرتی ہے اور اسی کی بدولت گمراہ بھی ہدایت پاجاتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسی طاقت ہے کہ اس کے ذریعہ برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
لیکن افسوس! آج تو حال یہ ہے کہ لوگ موبائل کا ہر فنکشن جانتے ہیں لیکن انہیں ایمان کے معنی، مفہوم اور ارکان تک کا پتہ نہیں ہوتا۔ تقویٰ کیا ہے؟ دل میں تقویٰ کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اس کے ثمرات کیا ہیں؟ کچھ بھی سیکھااور جانا نہیں۔ لوگ پچاس ساٹھ سال کے ہوگئے لیکن نماز پڑھنا نہیں آتا، قرآن پڑھتے نہیں، دین کا علم سیکھتے نہیں، احکام الٰہی کو سمجھا ہی نہیں، رسول اللہ ﷺ کی سنت کو جانا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ پھر زندگی میں برکت کیوں کر اور کیسے ہو؟
لیکن اس کے ساتھ ہی اس امت میں ایسے خوش نصیب بھی ہیں جو بڑھاپے میں آکر قرآن پڑھنا شروع کرتے ہیں، قرآن حفظ کرتے ہیں، دین کی باتیں سیکھتےاور سمجھتے ہیں، احکام الٰہی اور سنتوں پر عمل کرتے ہیں اور اس طرح اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنالیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو علم و عمل کی روشنی سے منور کردیتا ہے جس کی بنیاد پر ان کے دلوں میں ایمان اور تقویٰ کا نور پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسے خوش نصیبوں میں شامل فرمائے۔ آمین
قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں مختلف انداز سے تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم اور اس کی اہمیت و تاکید کا ذکر آیا ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان آیات پر غور کرلے تو اس کے دل میں متقی بننے کی تڑپ کے سوا اور کوئی خواہش باقی نہ رہے اور ہر بندہ اللہ تعالیٰ کا یہ حق ادا کرے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ‎﴿١٠٢﴾‏ سورة آل عمران
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا‘‘
زندگی کی سب سے بڑی برکت اور سب سے بڑی کامیابی تو یہی ہے کہ انسان مرتے دم تک مسلمان ہی رہے جو کہ ایمان اور تقویٰ کی برکت سے ہی ممکن ہے۔ لہذا اب اگر اس بڑھاپے میں آکر بھی ہم تقویٰ کا راستہ اختیار کرلیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حق ادا کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمارا بڑھاپا بابرکت و باسعادت بنا دے گا اور ہماری موت مسلمان ہونے کی حالت میں آئے گی جو کہ ہماری آخرت کی کامیابی کی ضامن ہوگی، ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی دولت سے مالامال کردے اور مسلم رہنے کی حالت میں ہمیں موت دے۔ آمین۔
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رجوع کرسکتے ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
زندگی میں برکت اخلاص سے

بندۂ مومن کی زندگی میں ایمان اور تقوی کے ساتھ ساتھ خیر و برکت لانے والی ایک اہم چیز اخلاصِ نیت ہے۔ اخلاص تمام مسلمانوں پر واجب ہونے والا سب سے عظیم وصف ہے۔

ایمان اور تقویٰ دونوں کی اساس کلمہ « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ » ہے اور یہی کلمۂ اخلاص بھی ہے۔ ایمان، تقویٰ اور اخلاص یہ تینوں ہی دل کے عظیم اوصاف ہیں اور مومن کے دل کی گہرائی میں پروان چڑھتے ہیں۔ ایمان اور تقویٰ کی طرح اخلاص بھی گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ اخلاص دین کا علم، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری، دین داروں کی صحبت اور نیک اعمال سے بڑھتا ہے جبکہ دنیا داروں کی صحبت، اللہ کی نافرمانی، حرام کاری وحرام خوری اور بدعات و خرافات سے گھٹتا ہے جبکہ شرک و کفر اخلاص کو بندے کے دل سے محو کر دیتے ہیں۔

اخلاص ویسے تو دین میں ہر عمل کی ایک لازمی شرط ہے مگر جس عمل میں سب سے بڑھ کر مطلوب ہے وہ ایمان یعنی کلمہ توحید « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ » کا اقرار اخلاص کے ساتھ ہونا لازمی ہے کیونکہ جو شخص اپنے رب پر ایمان لانے میں ہی مخلص نہیں ہوگا وہ اپنے رب کے لیے اخلاص کے ساتھ عمل کیونکر کرے گا۔ صرف زبانی کلامی ایمان کا دعویٰ کرنے سے کام نہیں چلتا جب تک دل میں اخلاص نہ ہو اور وہ عمل سے ظاہر نہ ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ (٨)‏ سورة البقرة
’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ در حقیقت وہ مومن نہیں ہیں‘‘​

اخلاص کے بغیر ایمان کا دعویٰ منافقت ہے اور منافق کے دل میں نہ ہی ایمان ہوتا ہے نہ ہی تقویٰ اور نہ ہی اخلاص۔ جبکہ بندہ مومن کے دل میں ایمان، تقویٰ اور اخلاص کسی نہ کسی درجے میں بسا ہوتا ہے اور یہ تینوں مومن کے دل سے کبھی بھی جدا نہیں ہو سکتے۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ ایمان ہو اور کسی درجے کا تقویٰ و اخلاص نہ ہو، یا تقویٰ ہو اور ایمان و اخلاص نہ ہو، یا اخلاص ہو اور ایمان و تقویٰ نہ ہو۔

حضرت جبیر بن مطعم ﷛ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ میدان منیٰ میں مسجد خیف میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرسکتا: (1) عمل میں اخلاص اور (2) حکمرانوں کے لیے خیر خواہی اور (3) جماعت کے ساتھ چمٹے رہنا کیونکہ جماعت کی دعا اسے پیچھے سے گھیر لیتی ہے۔ (مسند احمد : 16738)

بندۂ مومن جب اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ» کا اقرار کرتا ہے تو اس اخلاص کی وجہ سے اس پر جہنم حرام کر دی جاتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے : ’’اﷲ نے جہنم پر حرام کر دیا ہے اس شخص کو جو « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ» صرف ﷲ کی رضا مندی کے لیے کہتا ہے‘‘۔ (صحيح البخاري: 6423،صحيح مسلم: 33)

جہاں ایک طرف تقویٰ اور اخلاص کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا وہیں ایمان کی پختگی اور تقویٰ کی گہرائی سے اخلاص میں استقامت آتی ہے۔

ہم جدی پشتی مسلمان دین کا علم حاصل نہیں کرتے، دنیاوی علم حاصل کرنے کے لیے دنیا کے دوسرے کنارے تک چلے جاتے ہیں لیکن دین کا علم اگر گھر بیٹھے مفت میں بھی ملے تو بھی اسے سیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ اسی لیے آج کتنے لوگ بڑھاپے میں پہنچ کر بھی ایمان، تقویٰ اور اخلاص کے معنی و مفہوم تک نہیں جانتے۔ بڑھاپے میں پہنچ کر آج غور کیجيے کہ کیا ہم نے اپنے رب کو پہچانا ہے؟ کیا اپنے رب کے احکامات کو جانا اور مانا ہے؟ ہمارے اعمال و عبادات میں کتنا اخلاص تھا اور ہے؟ کیا ہم نے صرف اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے عبادات و ریاضت کی ہے؟ کیا ہم نے اپنے رب کے لیے دیا اور رب کے لیے روکا ہے؟ کیا ہم نے اپنے رب کے لیے محبت کی اور رب کے لیے ہی نفرت کی ہے؟ یا ان سب کی بنیاد نفس پرستی، نام و نمود، دکھاوا و ریا کاری یا غیر اللہ کو خوش کرنا تھا؟

جو اپنے رب کو پہچان لیتا ہے وہ اپنے رب سے محبت کرتا ہے اور اپنے رب کے ساتھ مخلص ہوتا ہے اور صرف اپنے رب کی رضا کے لیے سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق نیک اعمال کرتا ہے۔

جو کام اللہ کے لیے ہوتا ہے، اس کی قبولیت کی امید ہوتی ہے، اس میں خیر و برکت بھی ہوتی ہے، اس کا اثر بھی ہمیشہ باقی رہتا ہے اور جو غیر اللہ کے لیے ہوتا ہے، وہ بہت جلد فنا ہو جاتا ہے۔ جس کی نیت اچھی نہ ہو، جس کا عمل اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ہو اور جس کے اعمال، کوششیں اور نیتیں دنیا کے گرد گھومتی ہوں، اسے کل آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ملے گا کیونکہ ہمارے رب نے فرما دیا ہے:

وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا ‎﴿٢٣﴾‏ سورة الفرقان
’’جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اُسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے‘‘۔​

جو کام بھی غیر اللہ کے لیے ہوتا ہے، نہ وہ فائدہ مند ہوتا ہے اور نہ اس کا اثر دیرپا ہوتا ہے، کیونکہ

فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ ‎﴿١٧﴾ سورة الرعد
’’جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے، اس طرح اللہ (صحیح اور غلط کی) مثالیں بیان فرماتا ہے ‘‘​
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
زندگی میں برکت قرآن سے

زندگی میں حصول برکت کی تیسری شرط ہے قرآن مجید سے استفادہ حاصل کرنا ہے۔
تمام انسانیت کے لیے اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے قرآن مجید سے بڑی کوئی دولت نہیں اور نہ ہی اس سے عظیم تر کوئی نعمت ہے۔ قرآن مجید برکتوں کا خزانہ ہے۔ اس کی برکتوں کا اندازہ اس بات سے کیجيے کہ یہ ہمارے بابرکت رب کا بابرکت کلام ہے۔ اس بابرکت کلام کا نزول ایک بابرکت رات (شبِ قدر) میں ہوا:

حم (١) وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (٢) إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ (٣) سورة الدخان
’’حم ، قسم ہے اِس کتاب مبین کی کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے،کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے‘‘

اس پیغام کو لانے والے روح الامین ہیں جو کہ تمام فرشتوں میں بزرگ اور اللہ کے سب سے مقرب ہیں۔

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎﴿١٩٢﴾‏ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ‎﴿١٩٣﴾‏ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ‎﴿١٩٤﴾‏ سورة الشعراء
’’اور بیشک یہ (قرآن) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے ، اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ، آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں ‘‘

روئے زمین کے سب سے مبارک خطے میں (مکہ معظمہ اور مدینۃ المنورہ) میں اس قرآن مجید کا نزول ہوا۔

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ (٩٦) سورة آل عمران
’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے (مرکزِ) ہدایت ہے‘‘

اور مدینہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مدینہ محترم ومکرم ہے عیر اور ثور (مدینہ کی دو پہاڑیاں) کے درمیان۔ (سنن ابي داود: 2034)

مدینہ منورہ کے بابرکت شہر ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سب سے عظیم اور بابرکت ہستی (ﷺ) کا روضۂ اقدس ہے جہاں سے برکتوں کے چشمے ہر وقت پھوٹتے رہتے ہیں۔ ہر نبی کا ایک حرم ہوتا ہے اور مدینہ منورہ کو اللہ کے پیارے نبی ﷺ کے حرم ہونے کا اعجاز حاصل ہے۔

اس قرآن مجید کا نزول انس و جن میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے بابرکت ہستی (ﷺ) کے قلب اطہر پر ہوا۔ دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں تمام انس و جن کی کامیابی اور خیر و برکت اسی بابرکت ہستی (ﷺ) کی اسوۂ حسنہ کو اپنانے اور اسی بابرکت ہستی (ﷺ) کی اطاعت و اتباع کرنے میں ہی ہے۔ اسی طرح جس انسان کا قلب بھی اس قرآن مجید کو قبول کرے گا وہ دنیا و آخرت کی بے شمار خیر و برکت حاصل کرے گا، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

وَهَـٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(١٥٥) سورة الأنعام
’’اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بڑی خیر وبرکت والی ہے، سو اس کا اتباع کرو اور (اللہ سے) ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘

قرآن مجید سے دو طریقوں سے برکت حاصل کی جاتی ہے:
  1. عمومی طور پر پور اقرآن مجید ہی برکتوں کا خزانہ ہے اور
  2. خصوصی طور پر اس کی بعض آیات اور بعض سورتیں بابرکت ہیں،
قرآن کریم سے برکت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے حقوق کو سمجھا جائے اور انہیں ادا کیا جائے۔ قرآن کریم کے ہم پر درج ذیل حقوق ہیں۔

پہلا حق: اس پر ایمان لانا ہے۔ قرآن پر ایمان لانے میں اس کے کلام الٰہی ماننا اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں ذرہ برابر بھی شک نہ کرنا، اسے عدل وانصاف پر مبنی سمجھنا، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جاننا، اس کے اوامر کا بجا لانا اور نواہی سے بچنا اور اس کی ہر بات کی تصدیق کرنا شامل ہے۔

افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت قرآن پر کامل ایمان نہیں رکھتی کیونکہ اگر قرآن پر ہم مسلمانوں کا ایمان کامل ہوتا تو ہمارا عمل بھی قرآن کے مطابق ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے ۔ اس لیے ہماری زندگی قرآن کی حقیقی برکتوں سے محروم ہے۔

دوسرا حق: اس کی تلاوت کرنا اور اسے پڑھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے پیارے حبیب ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ۔۔ (٤) سورة المزمل
’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (اور واضح کر کے) پڑھا کیجيے!‘‘

قرآن کریم مومن کا اپنے رب سے ملاقات اور باتیں کرنے کا ذریعہ ہے، اس کی روح کی غذا اور اس کے لیے ہدایت و بشارت ہے، اپنے ایمان کو تر و تازہ رکھنے کا اور مصائب و مشکلات کے مقابے کے لیے اس کا سب سے موثر ہتھیار ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ (١٠٢) سورة النحل
’’ فرما دیجیے: اس (قرآن) کو روحُ القدس (جبرئیل علیہ السلام) نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے اور (یہ) مسلمانوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے‘‘

تیسرا حق: قرآن پڑھ کر اس کے مطابق عمل کرنا ہے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

وَهَـٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(١٥٥) سورة الأنعام
’’اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بڑی خیر وبرکت والی ہے، سو اس کی پیروی کرو اور (اللہ سے) ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘

قرآن پڑھ کر اس پر عمل نہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے قرآن پڑھا ہی نہیں۔ لہذا برکت اسی کی زندگی میں ہوتی ہے جس کا عمل قرآن کے امر و نہی کے مطابق ہوتا ہے۔

چوتھا حق: اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ قرآن کو سمجھ کر اور غور و فکر کے ساتھ پڑھا جائے۔

کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۲۹﴾ (٢٩) سورة ص
’’یہ کتاب برکت والی ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانش مند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں‘‘

قرآن مجید پر ایمان لانے کا حق جاننے اور سمجھنے والے وہی لوگ ہیں جو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، اس کی معنی و مطلب سمجھنے کے لیے اسے پڑھتے ہیں، اس کی آیتوں میں غور و فکر کرتے ہوئے اس سے صحیح نصیحت و ہدایت حاصل کرتے ہیں پھر اس کے مطابق صحیح عمل بھی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ « أُولُو الْأَلْبَابِ۔ ۔ ۔ اہلِ عقل و فہم اور دانشمند ہیں »۔ ایسے ہی لوگوں کی زندگی ہی بابرکت ہوتی ہے ۔

پانچواں حق : یہ « أُولُو الْأَلْبَابِ ۔ ۔ ۔ اہلِ عقل و فہم اور دانشمند» قرآن کو سیکھنے اور سمجھنے کے بعد اسے اپنے تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانے کا کام بھی کرتے ہیں جو کہ قرآن کا پانچواں حق ہے یعنی قرآن کا پانچواں حق اس کی تبلیغ کرنا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: « بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ۔ ۔ ۔ میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ! خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو»۔ (صحيح البخاري:3461)

یہ قرآن کریم کے حقوق ہیں جو بندہ ان حقوق کو جتنا زیادہ ادا کرے گا اس کی زندگی میں اتنی ہی زیادہ برکت ہوگی۔ قرآن کریم اللہ تبارک و تعالیٰ کا مبارک کلام اور روئے زمین پر سب سے زیادہ مبارک کتاب ہے۔ اسے نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ اس سے برکت حاصل کریں۔

لیکن آج کا مسلمان! افسوس کہ آج کا مسلمان اس بابرکت کتاب سے برکت حاصل کرنے کا طریقہ ہی نہیں جانتا۔ وہ اس عظیم کتاب کا احترام تو کرتا ہے لیکن اس سے برکت حاصل کرنے کے معاملے میں بدعات میں پڑا ہوا ہے۔ آج کے مسلمان کو کسی کے مرنے پر ہی قرآن کی یاد آتی ہے۔ کوئی مر جائے تو عزیز و اقارب اور مدرسے کے بچوں سے قرآن ختم کروا کر مرحوم کو ثواب پہنچایا جاتا ہے۔ نئے مکان میں منتقل ہونے سے پہلے یا نئی دوکان کا افتتاح کرتے وقت مدرسے کے بچوں سے قرآن پڑھوا کر برکت حاصل کی جاتی ہے۔ بیٹی کے جہیز میں قرآن کا نسخہ دینا اور رخصتی کے وقت سرپر قرآن پکڑ کر رخصت کرنا بابرکت سمجھا جاتا ہے۔ ہر مسلمان کے گھر میں قرآن پاک کا ایک نسخہ غلاف میں لپٹا الماری کے سب سے اوپر خانے میں ضرور رکھا ہوتا ہے، جو بوقت ضرورت حصولِ برکت کے لیے کھول کر پڑھا یا چوما جاتا ہے۔ بعض لوگ روزانہ اپنے کاروبار، دوکان پر جانے سے پہلے اسی طرح برکت حاصل کرتے ہیں تو بعض اپنے کاروبار میں برکت کے لیے کسی حافظ یا قاری کو بلا کر اپنی دوکان میں روزانہ صبح قرآن کی تلاوت کرواتے ہیں۔ اب تو یہ اور بھی آسان ہوگیا ہے کہ بس موبائل پر تھوڑی دیر کے لیے کسی قاری کی تلاوت لگا لو اور کچھ لوگوں کو بعض قرآنی آیات واٹس اپ کردو، بس برکت حاصل ہو گئی۔

قرآن سے برکت حاصل کرنے کے یہ سارے باطل طریقے ہیں۔ قرآن سے برکت حاصل ہوگی اس کے مندرجہ بالا پانچ حقوق ادا کرنے سے یعنی اس پر ایمان لانے، اس کی تلاوت کرنے، اس کی آیتوں کے معنی و مطلب سمجھ کر اس کے مطابق عمل کرنے اور اس میں غور و فکر کرکے اس سے نصیحت حاصل کرنے سے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود ﷛ فرماتے ہیں یہ قرآن اللہ کا دسترخوان ہے تم اس کے دسترخوان سے جہاں تک استفادہ حاصل کرسکتے ہو کرو۔ یہ قرآن اللہ کی رسی ہے اور واضح کرنے والا نور ہے اور نفع دینے والی شفا ہے جو اس کے ذریعے تمسک کرے گا اس کے لیے پناہ ہے اور جو اس کی پیروی کرے گا اس کے لیے نجات ہے وہ شخص گمراہ نہیں ہوگا کہ اس کے پیچھے جایا جائے اور ٹیڑھا نہیں ہوگا کہ اسے سیدھا کیا جائے اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور بکثرت استعمال سے یہ پرانا نہیں ہوگا تم اس کی تلاوت کرو اللہ تمہیں اس کی تلاوت کے ہر ایک حرف کے عوض میں دس نیکیاں عطا کرے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف، لام، میم میں سے ہر ایک حرف کے عوض دس نیکیاں ملیں گی۔ [سنن دارمی (اردو) ۔ جلد دوم ۔ كتاب فضائل القرآن۔ حدیث 3358]

آج مسلمانوں کی اکثریت قرآن مجید کی تلاوت تو کرتی ہی نہیں اور جو لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور پڑھتے ہیں ان میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو قرآن کی معنی و مطلب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ایسے کتنے حفاظ ہیں جو سورۃ الاخلاص کی معنی تک نہیں جانتے، پھر عام مسلمانوں کا قرآن مجید سے عدم دلچسپی اور بے رغبتی کا کیا رونا؟

آج صرف ثواب حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔ بے شک صرف تلاوت کرنے کا بھی ثواب ہے اور اس کا اجر ہر تلاوت کرنے والے کو ضرور ملے گا ۔ لیکن صرف تلاوت کرنے سے قرآن کریم کے مکمل حقوق ادا نہیں ہوتے۔ لہٰذا جب قرآن کے پورے حقوق ادا نہیں ہوں گے تو ہم قرآن کی حقیقی برکات سے کیسے فیض یاب ہوں گے اور ہماری زندگی میں برکتیں کیسے آئیں گی اور ہمارا بڑھاپا کیسے بابرکت و باسعات بنے گا؟ .آج ہم مسلمانوں کی زندگی میں جو بے برکتی ہے اس کی اہم وجہ قرآن مجید کی تعلیمات سے دوری اور بے عملی ہے۔ ابھی زندگی ختم نہیں ہوئی، ابھی صرف بڑھاپا آیا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم سب قرآن سے جڑ جائیں، اس کے مطابق اپنی زندگی سنوار لیں اور اپنی زندگی کو بابرکت بنا لیں۔ ایسے کتنے ہی بوڑھے ہیں جو عمر کے آخری ایام میں قرآن سیکھنا شروع کرتے ہیں اور قرآن کے حافظ و قاری بن جاتے ہیں، اس کے ترجمہ و تفسیر پڑھتے ہیں، اس کی آیتوں کی معنی و مفاہیم سمجھتے ہیں، اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا کام بھی کرتے ہیں جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ انہیں عمر کے آخری ایام میں ایسے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں جو ان کی دنیا و آخرت کو برکتوں سے بھر دیتا ہے اور ان کے بڑھاپے کو بابرکت اور خوشگوار بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
.
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
زندگی میں برکت ذکر الٰہی سے

وَلَذِكْرُ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۗ --- ’’اور بے شک اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘ --- ﴿٤٥﴾‏ سورة العنكبوت

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ہمیں ذکر الٰہی کی کثرت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ جہاد کے وقت بھی ذکر الٰہی سے غافل نہیں رہنا بلکہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے رہنا ہے، جیسا کہ فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (٤٥) سورة الأنفال
”اے ایمان والو! جب کسی (دشمن) گروہ سے مقابلہ کرو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو کہ شاید اسی طرح کامیابی حاصل کرلو“

اسی طرح حج کے ارکان ادا کرکے جب بندہ تھکا ماندہ ہوتا ہے تب بھی غفلت نہیں برتنا بلکہ اس وقت بھی ذکر الٰہی کی کثرت کرنے کا حکم دیا گیا ہے:

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ﴿٢٠٠﴾‏ سورة البقرة
’’پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر‘‘

اسی طرح ایک اور مقام پر حکم دیا گیا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ‎ --- ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو ‘‘﴿٤١﴾‏ سورة الأحزاب

بندہ اور اس کے رب کے درمیان تعلق صرف صبح و شام کی اذکار اور نماز، روزہ، عمرہ و حج جیسی عبادات تک محدود نہیں ہے کہ ان سب کو بجا لانے کے بعد بقیہ وقت میں وہ اپنے رب سے غافل رہے اور بغیر کسی قید وضبط کے جو چاہے کرتا رہے، بلکہ عابد و معبود کے درمیان سچا تعلق یہ ہے کہ بندہ جہاں کہیں بھی ہو اپنے رب کو یاد کرتا رہے اور اس کی یہ یاد اسے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کا پابند رکھنے والی اور اس کی بشری کمزوری پر متنبہ کرنے والی ہو اور اسے پیش آنے والی کسی بھی پریشانی کے وقت اپنے خالق سے رجوع کرنے پر معین و مددگار ہو۔

دینِ اسلام نے ہر مسلمان کو کثرت سے ذکر الٰہی کرنے کی ترغیب اسی لیے دی ہے کہ بندے کا اپنے رب سے نہایت ہی مضبوط تعلق قائم رہے تاکہ اس کا دل پاک رہے، اس کا ضمیر زندہ رہے، اس کے نفس کا تزکیہ ہوتا رہے اور وہ اپنے رب سے مدد و توفیق طلب کرتا رہے۔

روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے جب ایک بوڑھے دیہاتی آدمی نے کہا کہ: یا رسول اللہ! خیر کے دروازے بہت زیادہ ہیں اور میں ان سب کو بجا لانے سے قاصر ہوں، اس لیے آپ ﷺ مجھے ایسی چیز بتا دیجیے جس کو مضبوطی سے پکڑ لوں، لمبی بات نہ فرمائیں کہ میں بھول جاؤں۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: اسلام کے احکام و قوانین تو بہت ہیں، آپ ﷺ مجھے بس ایسی چیز بتا دیجیے جس کو میں مضبوطی سے پکڑ لوں، کیونکہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری زبان ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہیے۔ (سنن ترمذي: 3375، ابن ماجة: 3793)

قربان جائیے صحابہ کرام ﷢ اجمعین پر جنہوں نے آنحضور ﷺ سے ہر چھوٹی بڑی بات پوچھ کر ہمارے لیے کتنی آسانیاں پیدا فرما دی ہیں اور کتنے خیر کے دروازے کھولے ہیں۔ بڑھاپے میں انسان کے قویٰ کمزور پڑ جاتے ہیں، لہذا وہ لمبی نفلی نمازیں اور دیگر کار خیر کرنے سے قاصر رہتا ہے تو ایسے میں فرمانِ رسول اللہ ﷺ کے مطابق صرف اپنی زبان کو ذکر الٰہی سے تر رکھ کر وہ سارے خیرات و برکات حاصل کرسکتا ہے بلکہ قیامت کے دن سب سے اونچا اور برتر درجہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوالدرداء ﷛ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل ہو، اور تمہارے مالک کو سب سے زیادہ محبوب ہو، اور تمہارے درجات سب سے بلند کرنے والا ہو، اور تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے اور دشمن سے ایسی جنگ کرنے سے کہ تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں سے بہتر ہو؟، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سا عمل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اللہ کا ذکر ہے۔ (سنن ترمذي: 3377، سنن ابن ماجہ: 3790)

جو لوگ جوانی سے ہی ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں وہ تو بڑے خوش نصیب ہیں لیکن جو لوگ اپنی جوانی لہو و لعب میں برباد کرکے اب بڑھاپے میں پہنچ چکے ہیں اور اپنی موت اور عذاب قبر و حشر کو قریب آتا دیکھ کر خوفزدہ ہیں، تو ان کے لیے ذکر الٰہی بہت بڑا سہارا ہے کیونکہ معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے۔ (سنن ترمذي: 3377، سنن ابن ماجہ: 3790)

اور اس پر مغفرت اور اجر عظیم کی بشارت ہے:

وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ‎﴿٣٥﴾‏ سورة الأحزاب
’’اور بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں، ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں میں شامل فرمائے اور اپنا ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلہ میں ہماری مدد فرمائے۔ آمین
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
زندگی میں برکت توبہ و استغفار سے

زندگی کے اچھے دن یعنی جوانی جو کہ رب کی اطاعت و عبادت کرنے کے سنہرے دن تھے گزر چکے ہیں۔ اُن ایام کو اپنے رب کی نافرمانیوں میں گزار کر گناہ و معاصی کی غلاظت کے ساتھ ہم سب اب بڑھاپے کو پہنچ چکے ہیں۔ اب تکلیف دہ بڑھاپا ہے اور بڑھاپے کی مایوسی، بے بسی و بے چارگی ہے اور اس کے آگے موت ہے۔ زندگی میں کتنے سپنے دیکھے تھے، سب سپنے چکناچور ہو چکے ہیں۔ زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہا تھا لیکن کچھ کر نہ پائے۔ دنیا کی خاطر اپنے رب کو ناراض کیا۔ رب کی اطاعت و فرمانبرداری جیسی کرنی تھی ویسی نہیں کی۔ اب دنیا ہاتھ سے جا چکی ہے لیکن ابھی موت نہیں آئی، اب بھی وقت ہے ندامت کے آنسو بہانے کا اپنے گناہوں پر نادم اور شرمندہ ہونے کا کیونکہ اس سے بہتر اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں، یہی تو سچی توبہ ہے۔

اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے یہی فرمایا: « النَّدَمُ تَوْبَةٌ ۔ ۔ ۔ ندامت (شرمندگی) توبہ ہے»۔ (سنن ابن ماجہ: 4252)

بڑھاپے میں تو یوں بھی ایک مومن کا دل گناہوں کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ لہذا گناہوں پر خوفِ الٰہی سے ندامت کے آنسو بہانا اور گناہ و معصیت چھوڑ کر رب کی سچی بندگی کی طرف پلٹ جانا آسان ہے۔

سیدہ عائشہ صدیقہ ﷝ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے آپ ﷝ سے فرمایا: اگر تو واقعی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھی ہے تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کر اور اس کی طرف توبہ کر، کیونکہ کسی گناہ سے توبہ کرنے کا طریقہ اس پر ندامت کا اظہار اور اس سے استغفار کرنا ہے۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: 2250)

عام طور پر ہم مسلمان دونوں الفاظ یعنی توبہ و استغفار کو ایک ساتھ کہتے ہیں، تو توبہ کے معنے تو خوف الٰہی اور ندامت کے ساتھ گناہ و نافرمانی چھوڑ کر رب سے رجوع کرنے کے ہیں جبکہ استغفار گناہ و نافرمانی پر رب تعالٰی سے معافی مانگنے اور اور ان کے برے اثرات سے محفوظ رہنے کی دعا مانگنا ہے۔ گویا « توبہ و استغفار »ایک ساتھ بولنے کا مطلب ہوا گناہ چھوڑ کر اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرنا اور اُن گناہوں پر اللہ تعالٰی سے معافی بھی مانگنا۔ توبہ و استغفار اس لیے بھی ایک ساتھ بولے جاتے ہیں کہ جس وقت بندہ کسی گناہ پر نادم ہوکر اسے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو یہاں ایک دوسری چیز بھی لازم آتی ہے کہ اس نے جو گناہ کیا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کرے ۔ اس لیے بھی یہ دونوں الفاظ کو ایک ساتھ کہا جاتا ہے لیکن دونوں میں فرق ہے۔ قرآن و سنت میں یہ دونوں الفاظ کبھی ایک ساتھ آئے ہیں اور کبھی الگ الگ۔

توبہ و استغفار کا اصل فرق یہ ہے کہ توبہ صرف توبہ کرنے والے فرد کی ذات سے وابسطہ ہے جبکہ استغفار بندہ خود اپنے لئے، اپنے والدین، عزیز و اقارب، آباؤ اجداد اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام مومن مومنات کیلئے کرسکتا ہے اور ایسا کرنا بھی چاہئے، ہمیں اسی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہم سب دعا کرتے ہیں:

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ‎﴿٤١﴾ سورة ابراهيم
’’اے میرے پروردگار! مجھے، میرے والدین اور سب ایمان والوں کو اس دن معاف فرمانا جس دن حساب لیا جائے گا ‘‘

اس آیت میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام مومنین و مومنات کیلئے استغفار کرنا سکھایا گیا ہے۔ دین اسلام کی یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ ایک بندۂ مومن اپنے پہلے اور اپنے بعد میں آنے والی نسلوں کی دعاؤں میں شامل رہتا ہے۔

توبہ و استغفار وہ عظیم عبادت ہے جو بنی نوع انسان کو سب سے پہلے سکھائی گئی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے رب سے توبہ و استغفار ہی کرنا سیکھا۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ‎(٣٧) سورة البقرة
”پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے (عاجزی اور معافی کے) چند کلمات سیکھ لئے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے“

اور حضرت آدم علیہ السلام نے جن الفاظ میں استغفار کرنا سیکھا وہ یہ ہیں:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ‎(٢٣) سورة الأعراف
”دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی؛ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے “

تمام انبیاء علیہ السلام خود بھی ساری زندگی توبہ و استغفار کرتے رہے اور اپنی اپنی امت کو بھی توبہ و استغفار کرنا سکھایا۔ ہمارے پیارے نبی رحمت اللعالمین ﷺ معصوم عن الخطا ہونے کے باوجود روزانہ سو مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر﷟ بیان کرتے ہیں: ہم شمار کرتے کہ رسول اللہ ﷺ مجلس میں سو مرتبہ (استغفار) کرتے: رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ ۔ ۔ ۔ اے میرے رب ! مجھے معاف فرما اور مجھ پر رجوع فرما، یقیناً تو بہت رجوع فرمانے والا، بخشنے والا ہے۔ (سنن ابی داود: 1516، )

سیدہ عائشہ ﷝ نے بیان کیا کہ جب سے آیت « إذا جاء نصر الله والفتح‏ » نازل ہوئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں آپ یہ دعا نہ کرتے ہوں «سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي‏‏ ۔ پاک ہے تیری ذات، اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے، اے اللہ میری مغفرت فرما دے» ۔ (صحيح البخاري: 4967)

بعض روایات میں ذیل کی دعائیں بھی آئی ہیں:

« سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ »
« سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِى »
« سُبْحَانَكَ وَ بِحَمْدِكَ أَسْتَغْفِرُكَ و َأَتُوبُ إِلَيْكَ »
« سُبْحَانَكَ رَبِّى وَ بِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِى »


رسول اللہ ﷺ گناہوں سے پاک ہونے کے باوجود سورة النصر میں دیئے گیے اللہ تعالٰی کے حکم کی تعمیل میں اور اپنی امت کو تعلیم دینے کے لیے اپنی وفات سے چند ماہ قبل استغفار کی کثرت کی، لہذا ہر مومن بندے کو بڑھاپے میں استغفار کی کثرت کرنی چاہئے۔ اس سے ایک تو آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور ساتھ ہی ہماری مغفرت بھی ہوجائے گی، ان شاء اللہ ۔ یہ ہمارے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کا بہترین نسخہ ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اس نسخے پر عمل نہیں کیا تو پھر کب کریں گے ؟ جبکہ ہمارا رب ہمیں ہر آن اپنی بخشش اور جنت کی طرف بلا رہا ہے:

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ (١٣٣) سورة آل عمران
’’اور اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف تیزی سے بڑھو‘‘

ہم دنیاوی مال و دولت کے پیچھے لگ کر اپنی جوانی کے مبارک دن ضائع کر چکے ہیں۔ اب بڑھاپے کے چند دن باقی ہیں، تو آئیے ان دنوں میں استغفار کی کثرت سے اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنائیں۔

وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا ‎(١١٠) سورة النساء
’’اور جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے، وہ پھر اللہ سے بخشش طلب کرے تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا‘‘
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
زندگی میں برکت دعاسے

زندگی میں برکت حاصل کرنے والے اعمال میں دعا کا ایک خاص مقام ہے۔ عام لفظوں میں اللہ تعالیٰ کو مدد اور حاجت روائی کے لیے پکارنا، اللہ تعالیٰ سے مانگنا، فریاد و التجا کرنا دعا کہلاتا ہے۔

دعا کرنا انسانی جبلت میں شامل ہے۔ دنیا کا ہر انسان اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دعا کرتا ہے۔ شیطان کے پجاری شیطان کو اور رحمٰن کے بندے رحمٰن کو اپنی دعاؤں میں پکارتے ہیں۔ کافر و مشرک بھی دعا کرتے ہیں۔ مشرک اپنی دعاؤں میں غیر اللہ سے التجا و فریاد کرکے اور انہیں اپنی مدد و استعانت کے لیے پکار کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔

يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ ‎﴿١٢﴾‏ يَدْعُو لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ ۚ لَبِئْسَ الْمَوْلَىٰ وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُ ‎﴿١٣﴾‏ سورة الحج
’’اللہ تعالیٰ کے سوا انہیں پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکیں نہ نفع، یہ ہے گمراہی کی انتہا ، اسے پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے زیاده قریب ہے، یقیناً برے والی ہیں اور برے ساتھی‘‘

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ‎(٥) سورة الأحقاف
’’اور بڑا گمراہ ہے وہ شخص جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اس کو جواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ تو ان کی دعا و پکار سے ہی بے خبر ہیں ‘‘

غیر اللہ سے دعا و فریاد کرنا اور انہیں اپنی مدد و استعانت کے لیے پکارنا بدترین گمراہی اور شرک ہے، بڑھاپے میں پہنچ کر بھی جنہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آئی، تو وہ اب کب سمجھیں گے؟ اب تو قبر میں جانے کا وقت ہے۔ روح کے حلق میں پھنستے ہی توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا تو اس شرک کی بنا پرجہنم ٹھکانہ بنے گا۔ جبکہ ہمیں تو حکم دیا گیا ہے:

وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ ‎(١٠٦) سورة يونس
’’اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکارو جو تمہیں نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان، اگر تم نے ایسا کیا تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے‘‘

دعا میں شرک جیسی بدترین گمراہی سے بچنے کے لیے دعا مانگتے ہوئے ہمیں بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: «الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ۔ ۔ ’’دعا ہی عبادت ہے‘‘ »۔ (سنن ترمذي: 3372)

پس جب دعا عبادت ہے تو دعا صرف اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنی چاہیے۔

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ﴿٣٦﴾‏‏ سورة النساء
’’ اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ ‘‘

اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو دعا کی غرض سے پکارنا شرک اکبر میں شمار ہوگا کیونکہ دعا عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لیے ہے

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚوَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ‎(٤٨) سورة النساء
’’(اور) بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے اور اس کے علاوہ جس (گناہ) کو چاہے بخش سکتا ہے اور جو بھی اس کا شریک بنائے گا (تو) اس نے بہت بڑا گناہ کیا‘‘

لیکن افسوس کہ کتنے لوگ ہیں جو بڑھاپے میں پہنچ کر بھی اس بات کو نہیں سمجھتے اور بڑھاپے میں دعا کی خیر و برکت حاصل کرنے کے بجائے غیر اللہ سے دعا و فریاد کرکے اپنی آخرت کو ہمیشہ کے لیے برباد کر لیتے ہیں۔ جان لیجیے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی اور کو شریک کرتا ہے تواس کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیکو کار اور برگزیدہ بندوں کے بارے میں بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے:

وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (٨٨) سورة الأنعام
’’اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو یقیناً ان کے بھی سارے اعمال ضائع ہوجاتے‘‘

ذرا غور کیجيے کہ یہ کتنا بڑا خسارہ ہے کہ ایک انسان یہ سمجھتے ہوئے دعا و فریاد کرے کہ اس کی نجات ہوجائے گی جبکہ اسی (شرکیہ) دعا سے اس کے سارے نیک اعمال حبط اور باطل ہو جائیں اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جا گرے۔ افسوس کہ فرقہ پرستی لوگوں کو یہ بات سمجھنے نہیں دیتی۔ اپنے مخالف فرقے کو نیچا دکھانے کے لیے فرقہ پرستوں نے قرآن و سنت کے منہج سے ہٹ کر خود ساختہ دعائیں بنائے اور غیر اللہ سے براہ راست یا کسی قبر والے کے وسیلے سے دعا، مدد و استعانت مانگنے کے دلائل پیش کئے۔ اس طرح وہ لوگ خود بھی بدترین گمراہی میں جا گرے اور عوام الناس کو بھی گمراہ کیا۔

قرآن و سنت میں دعاؤں کا ایک مجموعہ موجود ہے۔ دعا کرنے یا مانگنے سے پہلے اپنی دعا کو یا کسی کی بنائی ہوئی دعا کو قرآن و سنت کے ان دعاؤں کے معیار پر پرکھیے، اگر وہ دعا قرآن و سنت کی دعاؤں کے معیار پر پوری اترتی ہو تو اس دعا کو اپنے زبان پر لائیے ورنہ اسے اپنی زبان پر کبھی نہیں لائیے۔ شرکیہ دعا ؤں سے بچنے کا یہ بہتر طریقہ ہے۔

قرآن و سنت میں کوئی بھی دعا ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مخاطب کیا گیا ہو، پھر یہ گمراہی کے سوا اور کیا ہے کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو مخاطب کیا جائے۔ لہذا جو لوگ نبی کریم ﷺ کی اطاعت و اتباع کرنے کی بجائے ان سے دعا و فریاد کرتے ہیں، اہل قبور سے رزق، اولاد اور مرادیں مانگتے ہیں، خود ساختہ اقطاب وابدال، پیروں و فقیروں، مجذوبوں اور باباؤں وغیرہ کو اپنا ملجا و ماویٰ اور مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتے ہیں اور یا رسول اللہ ﷺ ۔ ۔ ۔، یا علی ۔ ۔ ۔، یا غوث اعظم ۔ ۔ ۔ ، یا خواجہ ۔ ۔ ۔، یا داتا ۔ ۔ ۔ وغیرہ کے الفاظ سے دعائیں کرتے ہیں وہ لوگ بدترین گمراہی میں ہیں۔ ایسے لوگوں کو فوری توبہ کرنی چاہیے۔

وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ سورة الشورى
’’اور وہی (اللہ) ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور جو تم کرتے ہو (وہ سب) جانتا ہے‘‘

ملک الموت کے آنے سے پہلے تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ ہمیں اپنے اعمال و افعال اور دعاؤں پر غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہم کسی طرح کی شرک و بدعات کا ارتکاب تو نہیں کر رہے ہیں، اگر ایسا ہے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور فوری توبہ کرنی چاہیے اور شرک و بدعات کی آلودگی سے اپنے آپ کو بالکل پاک کرنا چاہیے۔

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ‎(٢٢٢) سورة البقرة
’’بیشک ﷲ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور بہت پاک رہنے والوں سے (بھی) محبت کرتا ہے‘‘

اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالٰی نے پہلے توبہ کرنے والوں سے محبت کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور چونکہ توبہ کرنے والے توبہ کرکے شرک و بدعات اور دیگر گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں، لہذا اللہ تعالٰی نے ایسے پاکباز لوگوں سے محبت کرنے کا ذکر بھی فرما دیا۔

دُعا ایک عظیم عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور احادیثِ طیبہ موجود ہیں۔ دُعا اللہ تعالیٰ سے ہماری محبت کے اِظہار، اُس کی شانِ اُلوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت، اُس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔ دعا عبادات کا خلاصہ، انسانی حاجات اور جذبات کا مرقع، بندے اور اس کے رب کے درمیان لطیف مگر مضبوط واسطہ، اللہ تعالیٰ کے مزید انعامات کا حصول اور نقصانات سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ اس سے ضمیر کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور پریشانیوں سے چھٹکارا ملتا ہے۔ اس لیے دعا انتہائی خلوص نیت، مکمل یکسوئی و توجہ اور اصرار و تکرار کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ارض و سماء کے مالک کا حکم ہے کہ اس سے براہ راست مانگا جائے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی دعاؤں میں بندے کو اپنے رب سے براہ راست مانگنا سکھایا گیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: تم جب مانگو تو اللہ تعالیٰ سے مانگو اور جب بھی مدد چاہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو۔ (سنن ترمذی: 2516)

اپنی دعاؤں میں صرف اپنے رب کو مخاطب کیجيے، جو بھی مانگنا ہو اپنے رب سے ہی مانگیے۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز (عبادت میں) نہیں ہے۔(سنن ترمذي: 3370)

اور یہ بھی فرمایا کہ:دعا عبادت کا مغز (حاصل و نچوڑ) ہے۔ (سنن ترمذي: 3371)

اور بعض سلف سے منقول ہے کہ :
» » »اطاعت گزاری ہی ہر خیر کا سرچشمہ ہے اور تمام خیرو برکات دعا میں پوشیدہ ہیں« « «
لہذا زندگی میں خیر و برکت اور صحت و عافیت دعا کرکے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بڑھاپے میں چونکہ زیادہ محنت و مشقت والی عبادات کرنا ممکن نہیں رہتا تو ایسے میں زیادہ سے زیادہ دعا کرکے ہم اپنی نیکیوں میں اضافہ اور اپنے رب کو راضی کرسکتے ہیں۔ دعا کرنے کی کوئی وقت یا جگہ مختص کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دعا کرنے پر اللہ تعالیٰ بڑے ثواب سے نوازتا ہے۔ دعا نفع بخش دواؤں میں سے ہے۔ دعا مصیبت، تکالیف اور پریشانی کو قریب آنے نہیں دیتی، اگر آجائے تو انہیں دور کرتی ہے یا ان میں کمی کرتی ہے۔ دعا کے ذریعے خاص اور عام تمام قسم کے مطالبات و حاجات پورے کروائے جا سکتے ہیں، چاہے ان کا تعلق دنیا سے ہو یا دین سے، زندگی سے ہو یا موت کے وقت سے یا موت کے بعد سے۔

حضرت معاذ ﷛ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تدبیر و احتیاط تقدیر سے نہیں بچا سکتی، البتہ دعاء نازل شدہ اور آئندہ نازل ہونے والے مصائب و تکالیف سے فائدہ پہنچاتی ہے، لہٰذا اے اللہ کے بندو! دعا کو اپنے اوپر لازم کرلو ۔ (مسند احمد : 22044)

جس طرح حضرت یقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو مصر میں داخل ہونے کے معاملے میں احتیاط برتنے کو کہا اور انہوں نے احتیاط کی بھی لیکن یہ احتیاط کرنا انہیں تقدیر سے نہیں بچا سکی۔

سیدنا سلمان ﷛ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تقدیر کو دعا ہی ٹال سکتی ہے اور عمر میں نیکی سے ہی اضافہ ہوسکتا ہے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 154)

دعا ہی وہ عظیم دروازہ ہے جہاں سے بنی نوع انسان کی اور تمام مخلوقات کی مشکل کشائی اور حاجت روائی ہوتی ہے۔ مخلوقات کی ضروریات لا تعداد ہیں اور انہیں جاننے والی ذات صرف اور صرف ان کا خالق ہے، وہی تمام مخلوقات کی ضروریات کو پوری کرسکتا ہے، وہی ہر سائل کی حاجت روائی کرتا ہے، ہر امیدوار کی امیدیں پوری کرتا ہے، ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے۔فرمایا ہے:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ‎(١٨٦) سورة البقرة
’’اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں، تو اُنہیں بتا دیں کہ بے شک میں ان سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں، شاید کہ وہ راہ راست پالیں ‘‘

کتنے پیار بھرے انداز ہیں ہمارے رب کے، فرمایا: ’’بے شک میں ان سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی پکار سنتا ہوں اور جواب (بھی) دیتا ہوں‘‘۔ کیا غیر اللہ میں سے بھی کوئی ایسا ہے جو کسی کی پکار کا جواب دیتا ہو؟ افسوس کہ پھر بھی لوگ اپنی دعاؤں میں غیر اللہ کو پکارتے ہیں!

جان لیجیے کہ اپنے رب کو پکارنا، اپنے رب سے دعا و فریاد کرنا بڑی عزت اور عظمت والا عمل ہے کیونکہ دعا عبدیت کا مظہراتم ہے۔ دعا کرنے والا اللہ رب العزت کی عظمت و کبریائی کو جانتا ہے اور اپنے عاجز ہونے کا علم بھی اسے ہوتا ہے۔ لہذا وہ عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنے رب کے حضور دعا و فریاد کرکے اپنے رب کی محبت و قربت حاصل کر لیتا ہے۔ اسی وجہ سے دعا مانگنے والا بندہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عزت کا مستحق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندہ کے مانگنے سے خوشی ہوتی ہے اور دعا نہ کرنا ایک قسم کا استغناء اور کبر ہے جو اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں، اسی لیے جو شخص دعا نہیں مانگتا اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ‎(٦٠) سورة غافر
’’اور تمہارا رب فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری عبادت (یعنی دعا کرنے) سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘

اللہ بہت ہی بزرگ اور برتر ہے، جب بندہ اللہ سے مانگتا ہے تو اللہ اس کی دعا کو قبول کرتا ہے اور اس کی عاجزی پر ثواب دیتا ہے۔ سلمانؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا رب بہت باحیاء اور کریم (کرم والا) ہے، جب اس کا بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹاتے ہوئے اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے“ ۔ (أبو داود: 1488)

جب ایک عام بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ اٹھاتا ہے تو ہمارا باحیاء اور کرم والا رب اس کا ہاتھ خالی نہیں لوٹاتا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کانپتا لرزتا نحیف و لاغر بوڑھا ہاتھ دعا کے لیے اٹھے اور رب تعالیٰ کی بخشش و کرم جوش نہ مارے؟۔ لہذا اپنے بڑھاپے کے باعث کانپتے ہوئے ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کیجيے، یقین جانئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا۔

اب بڑھاپے میں ہمارے پاس کثرت سے دعائیں کرنے کے سوا رکھا ہی کیا ہے۔ لہذا ہمیں زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہیے اور دعا میں اچھی اور صحیح دعا مانگنے کی توفیق بھی ماگنی چاہیے کیونکہ ’’جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کےلئے رحمت کے دروزے کھول دئیے گئے‘‘۔ (سنن ترمذي: 3548)

دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے یہ رحمت کے دروازے کھول دے اور ہمیں دعا مانگنے اور دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
۔
 
Top