اجمالی طور پر میرا موقف یہ ہے کہ ان فرقوں کے عوام کو جہالت کا عذر دیا جائے گا اور ان کے عالموں کو تاویل
وہ کفریہ بدعت جو لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کے مدلول ہی سے براہ راست متصادم ہو ۔یہ وہ مسائل ہیں جن کو مسلمانوں کے عوام اور علماء سب جانتے ہیں یہ شریعت کے بنیادی عقائد ہیں۔امت کا ان مسائل میں اجماع ہو چکا اس لیے ان بنیادی امور میں تاویل یا غلط مبحث کا کوئی امکان نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان مسائل میں اختلاف قطعاً قابل برداشت نہیں کیونکہ اس سے دین کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ امور قطعی طور پر ثابت ہیں اس لیئے انہیں قطعیات کہتے ہیں علماء اسلام کا ان پر اتفاق ہے اور یہ تواتر عملی سے امت کے اندر رائج ہیں۔اس لیئے ان کو صرف اور صرف تسلیم کر لینا ہی واجب ہے ۔یہ قطعیات عقائد اور فروع دونوں میں پائے جاتے ہیں ان میں اجتہاد ،رائے یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ شریعت کے وہ عظیم الشان قواعد ہیں جو اٹل ہیں۔جو شخص ان کے تسلیم کرنے میں ہی تردد کرے یا ان کے معاملے کو مشکوک ٹھہرائے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہو گا۔اس کو لاعلمی ،جہالت ،شبہ یا تاویل کا عذر نہیں دیا جائے گا
شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:’’ کافر و مشرک سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو مسلمان ہونے کے دعویدار تو ہیں لیکن کسی ایسے کام کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا کفر و شرک علمائِ امت کے نزد یک متفق علیہ ہے ۔ جیسے غیر اللہ کو سجدہ کرنا، دین کی بنیادی باتوں کا انکار کرنا ، اللہ اور اس کے رسول یا اسلام کا مذاق اڑانا۔ بشرطیکہ وہ خود با خبر ہوں یا ان پر حجت قائم ہو چکی ہو۔‘‘(وفاداری یا بیزاری،ص30)
سعودی عرب کی اللّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء (جس کے رئیس الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ تھے)کے چند فتوے ملاحظہ فرمائیں:
’’جو شخص نماز پڑھے ،روزے رکھے اور ارکان اسلام پر عمل کرے مگر اس کے ساتھ وہ مُردوں، غیر حاضر بزرگوں اور فرشتوں وغیرہ کو مدد کے لیے پکارے، وہ مشرک ہے اور اگر وہ نصیحت کو قبول نہ کرے اور مرتے دم تک اس عقیدے پر رہے تو اُسکی موت شرک پرہے۔ اس کا شرک ’’شرک اکبر‘‘ ہے جو اسے اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ اُسے نہ تو مرنے کے بعد غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا اور نہ اس کیلئے مغفرت کی دعا کی جائے گی اور نہ ہی اس کی اولاد ،والدین اور بھائی، اگر مو ّحدین ہوں، اُس کے وارث ہوں گے۔‘‘ [فتوی نمبر6972]
’’جو شخص اللہ کی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے پس وہ مسلم و مومن ہے۔ اور جو شرکیہ اقوال یا شرکیہ افعال کرتا ہے جو کلمہ کے منافی ہیں پس وہ کافر ہے اگرچہ کلمہ پڑھے ، نماز ادا کرے اور روزہ رکھے۔ جیسا کہ مُردوں کو مشکلات میں پکارتا ہے، ان کی تعظیم میں قربانی کرنا ہے ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ ‘‘[فتوی نمبر10685، فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش]
اسی طرح جو شخص پانچ وقت کی نماز ،رمضان کے روزوں، عشر، زکوٰۃ یا حج وغیرہ میں سے کسی ایک کا انکار کرے تو وہ بھی کافر ہو گا ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف جہاد کیا ۔ حالانکہ وہ کلمہ پڑھتے اور نماز یںادا کرتے تھے۔ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کر لیں اور جب وہ اس کا اقرار کریں تو انہوں نے اپنی جان اور اپنا مال میری تلوار سے محفوظ کر لیا مگر اسلام کا حق ان سے لیا جائے گا اور ان کے دل کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ۔سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے۔ بے شک زکوٰۃ مال کا حق ہے ۔ اللہ کی قسم اگر انہوں نے اونٹ کے گلے میں باندھنے والی رسی بھی روکی، جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے، میں اس کے روکنے پر ان سے ضرور لڑوں گا۔ عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اللہ نے ابو بکر کا سینہ منکرین زکوٰۃ سے جہاد کے لیے کھول دیا اور پھر میں نے بھی جان لیا کہ یہی بات حق ہے۔
(بخاری: ۱۴۰۰۔مسلم: ۲۰)
گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شہادتین کا اقرار کرنے اور نماز پڑھنے والوں کو مرتدین میں شمار کیا اور ان سے جہاد کیا کیونکہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے اور ان میں سے بعض کا یہ موقف تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔
نماز کے تارک اور دین یا سنت نبوی کا مذاق اڑانے والے کے بارے میں للجنہ نے یوں فتویٰ دیا۔
’’نماز کو جان بوجھ کر ترک کرنے والا اگر نماز کا منکر ہے تو اس کے متعلق علماء اسلام کا اجماع ہے کہ وہ کافر ہو جاتا ہے اور اگر سستی کی وجہ سے ترک کرے تو اس کے متعلق بھی صحیح قول یہی ہے کہ وہ کافر ہے اور جو شخص دین اسلام کا مذاق اڑائے یا کسی ایسی سنت کو نشانہ تضحیک بنائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے مثلاً پوری داڑھی رکھنا ،کپڑا ٹخنوں سے اوپر یا آدھی پنڈلی تک رکھنا اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ واقعی سنت ہے، تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کا محض اس لیئے مذاق اڑائے کہ وہ اسلام کے احکام کا پابند ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہوتا ہے ۔‘‘(فتاویٰ دارالافتاء جلد دوم ص ۳۵)