میں نے بہت پہلے ایک تحریر لکھی تھی جس میں اس کی ہی وضاحت کی گئی تھی کہ ائمہ کرام کے اس قول "اذاصح الحدیث فھو مذہبی"کاکیامطلب ہے۔ ائمہ کرام کے حالات زندگی سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ کتنے سائلین توایسے ہوتے تھے کہ وہ آکر پوچھے تھے ان کو نپاتلا جواب دیتے تھے اور وہ چلاجاتاتھا اورکچھ ان کے اہل علم شاگرد تھے ۔ اس قول میں جہاں انہوں نے کہاکہ کسی کی تقلید مت کرو بلکہ دلیل پر عمل کرو یاپھرجہاں سے ہم نے دلیل کو اخذ کیاہے تم بھی اخذ کرو ۔اس قول کے مخاطب ہرایک فرد نہیں بلکہ ان کے اہل علم شاگرد ہیں اوربعد کے بھی اہل علم ہی مراد ہیں ۔ہرہماوشمااس قول کا مخاطب نہیں ہے۔ لیجئے یہ میری تحریر ۔پڑھئے اگربات حق وصواب لگے توپھر اس کو تسلیم کیجئے اوراگرنہ لگے توجوغلطی ہواس کو ضروربیان کیجئے۔ والسلام
اذا صح الحدیث فھو مذہبی پر ایک نگاہ
سلام
آپ نے کہا
اس قول میں جہاں انہوں نے کہاکہ کسی کی تقلید مت کرو بلکہ دلیل پر عمل کرو یاپھرجہاں سے ہم نے دلیل کو اخذ کیاہے تم بھی اخذ کرو ۔اس قول کے مخاطب ہرایک فرد نہیں بلکہ ان کے اہل علم شاگرد ہیں اوربعد کے بھی اہل علم ہی مراد ہیں
آپ نے اپنے رحمانی بلوگ میں تاریخ بغداد کا یہ حوالہ دیا ہوا ہے
أَخْبَرَنِي إبراهيم بن مخلد المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو بكر أَحْمَد بن كامل، إملاء، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل السلمي، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن الزبير الحميدي، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: شيئان ما ظننت أنهما يجاوزان قنطرة الكوفة، وقد بلغا الآفاق: قراءة حمزة، ورأي أَبِي حنيفة.
(تاریخ بغداد15/475اسنادہ صحیح)
سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے بارے میں میراگمان تھاکہ وہ کوفہ کی حدود سے بھی تجاوز نہیں کریں گی لیکن وہ دنیابھر میں پھیل چکی ہیں۔ایک حمزہ کی قرات دوسرے ابوحنیفہ کے اجتہادات۔
لکن آپ کو یہ حوالہ دینا کیوں بھول گیا
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا :
اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔
(تاریخ بغداد 424/13 ،تاریخ ابن معین 2/607 وسندہ صحيح)
امام صاحب کے شاگردوں نے اپنے امام صاحب سے کیوں اختلاف کیا
امام ابو حنیفہ کے شاگردوں نے امام ابو حنیفہ کی ٢/٣ مسائل میں امام کی مخالفت کی ہے - اگر امام کی تمام باتیں قرآن اور حدیث کے مطابق ہی تھیں تو
انکے شاگردوں نے مخالفت کیوں کی؟؟؟
١۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ نماز کے سات فرض ہیں صاحبین امام ابو یوسف اور امام محمد فرماتے ہیں کہ کل چھ فرض ہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں التحیات میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو نماز نہیں ہوتی کیونکہ ساتواں فرض ابھی باقی ہے صاحبین کہتے ہیں ہو جاتی ہے کیونکہ چھ فرض پورے ہوچکے ہیں( ھدایہ؛ کتاب الصلوہ، باب الحدیث فی الصلوہ صفحہ ١٣٠)۔۔۔
٢۔ اگر بیوی کا خاوند لا پتہ ہوجائے تو کوئی امام کہتا ہے کہ عورت خاوند کی ١٢٠ سال کی عمر تک انتظار کرے، ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ کا یہی قول ہے--- حنفیوں کے زیادہ اماموں کی رائے ہے جب اس کے خاوند کی عمر کے تمام آدمی مرجائیں اس وقت تک انتظار کرے بعض کہتے ہیں ٩٠ سال انتظار کرے۔۔۔۔(ھدایہ کتاب المفقود صفحہ ٦٢٣)۔۔۔ایک حنفی عورت بیچاری کیا کرے کدھر جائے؟؟؟۔۔۔
٣۔ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں دو مثل سایہ ہو تو عصر کا وقت ہوتا ہےصاحبین فرماتے ہیں ایک مثل ہو تو وقت ہوتا ہے۔۔۔۔(ھدایہ کتاب الصلوہ بات المواقیت)۔۔۔
٤۔ امام صاحب فرماتے ہیں چار آدمی ہوں تو جمعہ ہو سکتا ہےصاحبین فرماتے ہیں تین ہوں تو ہو سکتا ہے۔۔۔(ھدایہ کتاب الصلوہ باب الصلوہ الجمعہ)۔۔۔
٥۔ اس کے علاوہ مستعمل پانی کو ہی لے لیں جس سے ہروقت واسطہ پڑتا ہے کوئی پاک کہتا ہے کوئی پلیت پھر اس میں اختلاف ہوتا ہے کہ کم پاک ہے یا زیادہ---- کم پلیدہے یا زیادہ۔۔۔
(ھدایہ کتاب الطہارات باب الماء الذی یجوز بہ الوضوع)۔۔
یہ صرف مثال کے طور پر ہیں نا کہ تضحیک کے طور پر
حقیقت یہ ہے کے جن مسائل میں انہوں نے امام کے مسائل کو قرآن و حدیث کے خلاف پایا اور شاگردوں تک صحیح حدیث پونھچی تو حق بیان کردیا...یہی ہمارا مسلک ہے...ہمارے نزدیک امام ابو حنیفہ سمیت تمام آئمہ حق تھے اور انکے بعد کے بھی لوگ اور ان سے پہلے کے بھی لوگ وہ کسی کے مقلد نا تھے...الحمدللہ...تقلید تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے ٤٠٠ سال بعد شروع ہوئی
.ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کو سلف صالحین کے طریقہ پر سمجھنا ہی فلاح اور کامیابی ہے اور انکے طریقے سے ہٹ کر روش اپنانا گمراہی ہے...سلف صالحین میں امام ابو حنیفہ سمیت آئمہ اربعہ بھی آگئے اور دیگر جلیل القدر علما بھی، علما حق ہر دور میں قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے منہج کے مطابق فتاویٰ دیتے رہے ہیں اور اس معاملے میں تقلید شخصی کا کبھی شکار نہیں ہووے...مگر ہم ساتھ ہی یہ بھی سمجھتے ہیں کے ان آئمہ کے نقش قدم پہ چلنا قرآن اور حدیث کو اختیار کرنے کے لئے ہو...جہاں ان آئمہ میں سے کسی سے غلطی ہو اور علما اس کی نشاندہی کریں اور دیگر آئمہ کا اقوال قرآن اور صحیح حدیث کے عین مطابق ہوں تو ہم قرآن اور حدیث کی روشنی میں صحیح مسلے کو اختیار کرتے ہیں..ہمارا مقصد قرآن اور حدیث کی اتباع ہے نا کے آئمہ کی اندھی تقلید ، اس طرح ہمارے لئے تمام آئمہ برابر کا درجہ رکھتے ہیں ..یہی کام امام محمد نے اور امام یوسف نے کیا...جہاں امام ابو حنیفہ کو غلطی پر دیکھا تو باوجود انکا شاگرد ہونے کے حق بیان کیا اور امام کی مخالفت کی..اس سے نا امام کی توہین ہوئی نا ہی حق چھوٹا
امام عبداللہ بن مبارک بھی امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے شاگرد تھے
آپ یہ بتانا بھی آپ کو بھول گیا کہ وہ اپنے استاد کے بارے میں کیا کہتے ہیں
امام عبداللہ بن مبارک کا ابوحنیفہ پر تبصرہ
امام صاحب کے شاگرد رشید امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کان ابو احنیفۃ یتیما فیا الحدیث کہ امام ابو حنیفہ حدیث میں یتیم ہیں (قیام اللیل ص١٢٣ ،بغدادی ص٤١٥ج١٣،الضعفائ لابن حبان ص٧١ج٣)وغیرہ بعض حضرات نے تفنن طبع کا ثبوت دیتے ہوئے ’’یتیمکے معنی یکتا زمانہ ‘‘کے کئے ہیں مگر کیا کیا جائے جب کہ اب کے یہ الفاظ بھی ہیں کان ابوحنیفٰۃ مسکینا فی الحدیث (الجرح والتعدیال ص٤٥٠ج٤،ق١ )کہ وہ حدیث میں مسکین تھے ۔
امام ابن حبان بسند متصل نقل کیا ہے کہ ابراہیم بن شماس فرماتے ہیں میں نے امام ابن مبارک کو ثغر کے مقام میں دیکھا کہ وہ کتاب لوگوں پر پڑھ رہے تھے جبامام ابوحنیفہ کا ذکر آتا تو فرماتے اضربو ا علیہ ۔اس پر نشان لگا لو ۔اور یہ آخری کتاب تھی جوانھوں نے لوگوں کو سنائی تھی (الثقات ترجمہ ابراہیم بن شماس )السنۃ لابن احمد میں ہے کی یہ واقعہ امام ابن مبارک کی وفات سے بضعۃ عشر تیرہ چودہ دن پہلے کا ہے ۔ابراہیم بن شماس ثقہ ہے (تقریب ص٢٢)اور ابن حبان نے اب سے یہ روایت بواسطہ عمر بن محمد الجبیری یقول سمعت محمد بن سھل بن عسکر بیان کی ھے ۔اور محمد بن سھل بن ثقہ امام ھے۔ اور عمر بن محمدالجبیری حافظ حدیث اور ثقہ امام ھیں (تزٖکرہ ص؛٧١٩) ۔اور یہ قول ابراھیم سے مختلف اسانید کے ساتھ تاریخ بغداد ص٤١٤ج١٣ اور المجروحین لابن حبان (ص٧١ج٣)السنۃ لعبداللہ بن احمد (ص٢١١،٢١٤ج١)،العلل و معرفۃ الرجال(ج٢ص٢٤٢)میں بھی دیکھا جا سکتا ہے
امام عبداللہ بن مبارک مزید فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے چار سو حدیثیں نقل کی ہیں ۔جب میں واپس عرق جاوں گا توانھیں مسخ کر دوں گا ۔(بغدادی ص٤١٤ج١٣)
اور امام ابن عبدالبر بسند متصل معلی بن اسد سے نقل کرتے ہیں
قلت لابن المبارک کان الناس یقولون انک تذہبن الی قول ابی حنیفٰۃ قال لیس کل ما یقول الناس یصیبونم فیہ قد کنا ناتیہ زمانا و نحن لا نعرفہ فلما عرفناہ ترکناہ ۔
(الانتقاء ص١٥١)
یعنی میں نے ابن مبارک سے کہا لوگ کہتے ہیں کہ تم ابو حنیفہ کے قول کی اقتدا کرتے ہو تو انھوں نے جواب دیا لوگوں کی ہر بات صحیح نہیں ہوتی ۔ہم ایک زمانہ تک ان کے پاس جاتے تھے مگر انھین پہچانتے نہ تھے لیکن جب ہمیں معلوم ہو گیا تو انھیں چھوڑ دیا ۔
امام ابن ابی حاتم غالبا انھیں اقوال کی روشنی میں لکھتے ہیں :ترکہ ابن امبارک بآخرہ ۔کہ ابن مبارک نے بالآخر انھی÷ں چھوڑ دیا تھا۔
علمائے احناف امام ابوحنیفہ کی تعریف میں امام ابن مبارک کا نام بڑے اچھوتے انداز میں کرتے ہیں اور ان کے غیر مستند قصائد اور اقوال شہ سرخیوں سے ذکر کرتے ہیں ۔حالانکہ مندرجہ بالا اقوال ان کے یکسر منافی ہیں ۔اگر ان اقوال کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ان میں تطبیق کی صورت بالکل ظاہر ہے کہ آخری عمر میں امام ابن مبارک کی ابو حنیفہ سے عقیدت کافور ہو چکی تھی ۔جیسا کہ امام ابی حاتم نے کہا ہے بلکہ امام ابن مبارک کے شاگرد رشید ابراہیم بن شماس کے الفاظ بھی یہی ہیں کہ:ّّترکہ ابن المبارک فی آخر امری ٗٗ(المجروحین لابن حبان ص٧١ج٣ )
بحوالہ توضیح الکالام لشیخنا محدث العصر ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ص:933۔
قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ امام شیرازی کہتے ہیں
امام ابن مبارک نے امام مالک اور ثوری سے فقہ حاصل کی
اور ابتدائ وہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے تھے
پھرانھیں چھوڑ دیا اور ان کے مذہب سے رجوع کر لیا ۔ابن وضآع کہتے ہیں
کہ انھوں
اپنی کتابوں میں
امام ابو حنیفہ کی روایات کو قلم زد کر دیا تھا اور انھیں لوگوں کو نہیں سناتےتھے
(ترتیب المدارک ص300ج1)