• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برادران احناف سے 20 سوالات

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
گڈ مسلم صاحب آپکا سوال دیکھنے میں ایک سطر ہے مگر اسکا جواب دینے کیلئے علماء نے کئی سو صفحات کی کتابیں لکھ ڈالیں ہیں۔ بہتر یہ ہوگا وہ کتابیں آپ خود پڑھیں اور بیکار کا وقت ضائع نہ ہو کیونکہ علماء کرام اس بات کا مفصل جواب دے چکے ہیں۔
یعقوب بھائی آپ میری اس بات سے متفق ہونگے کہ جتنا حقائق کاانکشاف بحث ومباحثہ اور تبادلہ خیال سے ہوتا ہے۔ اتنا مطالعہ سے نہیں۔۔ اگر میں آپ کو دو چار ایسی کتابوں کا لنک دے دوں جو رد تقلید میں لکھی گئی ہو تو آپ اس میں موجود مؤقف کو تسلیم کرلیں گے ؟ ۔۔۔ اور ساتھ یہ بھی کہہ دوں کہ آپ بھی تقلید کے رد میں لکھی گئی کتب کا مطالعہ فرمالیں اور تقی صاحب کی کتاب پر کلی طور انحصار نہ کریں۔۔ اگر انحصار کریں گے تو ہر چیز کا ضیاع ہے۔۔ کچھ درست نہیں ہوگا۔۔ اس لیے بھائی کتب کی طرف رہنمائی سے بہتر ہے کہ مہذب انداز میں تبادلہ خیال ہی ہوجائے۔۔۔
جبکہ ہمارا اور آپکا مقصد صرف اور صرف حق تک پہونچنا ہے تو پھر عناد کیسا؟ آپ کتاب پڑھ لیجئے
بالکل آپ نے بجا فرمایا۔۔۔ لیکن بھائی عناد نہیں۔۔ کتاب میری نظر میں ہے۔۔ بفضلہ تعالیٰ۔۔
اس میں ہمارا موقف واضح طور پر موجود ہے ان شاء اللہ ہم جسکو تقلید کہتے ہیں (تقلید شرعی) نہ کہ تقلید لغوی۔
یعنی اس کا مطلب ہے کہ اس کتاب میں جو بیان ہوگیا ہے۔۔ وہ اٹل حقیقت ہے۔۔ اس کے خلاف آپ کسی کی بات نہیں سنیں گے۔؟۔۔۔ اگر ابھی سے آپ نے یہ ذہن ہی بنا لیا ہے تو پھر میرے خیال میں بات کرنا ہی ٹائم کا ضیاع ہوگا۔۔
ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا مقصد ومؤقف حق تک پہنچنا ہے۔۔ اور دوسری طرف ایک کتاب کے ساتھ ہی تمسک کو لازم کرڈالا ہے۔ جو اس میں بیان ہے اسی کو ہی حق سمجھنے لگ گئے ہیں۔ تو یہ درست نہیں۔۔ اور نہ ہی اس طریق پر آدمی حق کی تلاش کرسکتا ہے۔
اسی لیئے ضروری ہیکہ آپ پہلے ہمارا صحیح موقف سمجھیں اور غلط اشاعات پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں
آپ کے بقول آپ کی ٹائپنگ رفتار بہت تیز ہے۔۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ جو سوال پوچھا ہے۔ صرف اسی بارے مختصر مگر جامع تفصیل فراہم کردیں۔ ہم بھی آپ کی بیان تفصیل پر ہی گفتگو کریں گے۔۔ اور اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاءاللہ
ہماری مستند کتاب ہر جگہ موجود ہے اور اگر چاہیں تو کتاب کا لنک بھی حاضر کردیتے ہیں اگر آپ واقعی بحث کرنا چاہتے ہیں تو اسکا صحیح طریقہ یہیں ہے۔
ایک طرف کہہ رہے ہو کہ ہمارا مقصد حق کی تلاش ہے۔۔ اور دوسری طرف ایک ہی کتاب کو مستند قرار دے کر اسی کو سینے سے لگایا ہوا ہے۔۔ اور پھر مجھے اس کتاب کا مطالعہ کرنے پر بھی ریفر کیے جارہے ہیں۔۔ محترم بھائی آپ جو بات پیش کریں گے ظاہر ہے ساتھ حوالہ بھی دیں گے۔ تو جس کتاب کاحوالہ دیں گے۔ ہم ان شاءاللہ اس کتاب کی طرف رجوع بھی کریں گے۔۔ اس لیے جتنا سوال ہے۔ صرف اسی پر ہی اپنے علم کی گہرائی سے معلومات فراہم کریں۔ چاہے تقی صاحب کی کتاب سے یا دیگر کتب سے۔۔۔
گڈ مسلم صاحب میں آپکی اس شروعات کی داد دینا چاہتا ہوں ہمت فرمائیں مجھے بھی کوئی جلدی نہیں اس کتاب کو کوئی منصف پڑھ کر تقلید کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔
مکمل تقلید کی حقیقت نہیں بھائی صرف یہی سوال کہ ’’ تقلید شخصی اصطلاحی کی تعریف کیا ہے۔ اور یہ فرض ہے، واجب ہے، مستحب ہے یا مباح ہے؟ ‘‘۔ اس کتاب میں تو اور بھی بہت کچھ ہے اس موضوع پر۔۔ لیکن ہمیں صرف اسی سوال پر ہی معلومات چاہیے۔۔ کیونکہ آپ نے خود ہی کہا تھا کہ ایک ایک کرکے سوالات پیش کیے جاتے رہیں تو میں جواب دیتا جاؤنگا۔۔ اس لیے آپ فی الحال صرف اسی سوال کے مطابق جواب فراہم کریں۔ جزاک اللہ خیرا
میں ابھی زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤنگا پہلے آپ وقت نکال کر یہ کتاب پڑھ ڈالیں پھر سوال کریں تو وہ سوال حقیقی ہوگا ابھی آپکا سوال ان مفروضوں کی بنیاد پر ہے جو غلط اشاعات ہیں۔
میں نے بھی نہیں کہا کہ آپ زیادہ تفصیل میں جائیں۔۔ سوال پیش کردیا ہے۔ آپ صرف اسی سوال کا جواب ہی پیش فرمادیں۔۔ ضروری نہیں کہ سوال کے جواب کےلیے آپ صفحات ہی بھر دیں۔۔ دو تین حوالوں سے تقلید شخصی کی تعریف اور دو تین حوالوں سے حکم (فرض، واجب، مستحب،مباح)
امید ہے درخواست قبول فرمائینگے
ہمیں بھی قوی امید ہے کہ آپ ہماری گفتگو بھی سمجھ رہے ہونگے۔۔ اس لیے آپ ہماری درخواست بھی قبول کریں گے۔ ان شاءاللہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
بٗھائی صاحب برا نہیں منائیے گا

یہ علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے جسکی پچھلی تین سطریں یہ ہیں جو آپ سے چونک گئی
ملاحظہ فرمائے
رہی یہ بات کہ تقلید کس کے لئے جائز ہے؟ سو وہ عامی شخص ہے جو احکام شرعیہ کے طریقوں سے واقف نہیں’ لہذا اس کے لئے جائز ہیکہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے اور اسکے قول پر عمل پیرا ہو نیز اس لئے کہ وہ (عام آدمی) اجتہاد کا اہل نہیں ہے’ لہذا اسکا فرض یہ ہیکہ وہ بالکل اس طرح تقلید کرے جیسے ایک نابینا قبلے کے معاملے میں کسی آنکھ والے کی تقلید کرت ہے’ اس لئے کہ جب اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ اپنی ذاتی کوشش کے ذریعہ قبلے کا رخ معلوم کرسکے تو اس پر واجب ہیکہ کسی آنکھ والے کی تقلید کرے الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی ص (۶۸)

مولانا تقی عثمانی صاحب نے خطیب بغدادی کے قول کی تشریح کی ہے انکی اپنی کوئی ایسی بات نہیں۔

اس شخص کی مثال ایسی عامی کی سی ہے جس نے ایک دفعہ مجھ سے سوال کیا کہ میں الحمد للہ سمجھ دار ہوں میں ترجمہ قرآن پڑھ کر خود بخود قرآن سمجھ سکتا ہوں میں ان صاحب سے عرض کیا بھائی صاحب ذرا یو تو بتادیجئے کہ ناسخ ومنسوخ کیا چیز ہوتی ہے؟ فرمانے لگے ناسخ ومنسوخ کا قرآن کی سمجھ سے کیا تعلق؟ میں تو ترجمہ پڑھ کر خود ہی قرآن سمجھ سکتا ہوں میں نے کہا بھائی سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۴ سے لیکر ۲۴۰ تک چھ سات آیتوں کا ترجمہ پڑھ کر آؤ ہاں مگر یہ شرط یہ ہیکہ سمجھ کر پڑھنا اور پھر مجھے یہ سمجھادو آیت نمبر ۲۳۴ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہیکہ بیوہ کی عدت چار مہینہ دس دن ہے’ جبکہ آیت نمبر ۲۴۰ میں فرماتے ہیں کہ بیوہ کی عدت ایک سال ہے۔ اب مجھےسمجھاؤ کونسی بات صحیح ہے کونسی غلط؟ اگر دونوں صحیح تو یہ بات عقل کے خلاف اگر ایک صحیح تو دوسری آیت بھی تو قرآن کی ہے؟ تو کیا پھر اسے جھٹلاؤگے؟
ظاہر ہیکہ انہیں بات سمجھ میں آگئی کہ قرآن وحدیث کسی استاد سے پڑھنے کے بعد ہی اسکا صحیح معنی ومفہوم سمجھا جاسکتا ہے۔ وگرنہ تو وہی حالت ہوگی جو غلام پرویز اور مودودی صاحب وغیرہ نے کی ہے۔
بالکل اسی طرح حدیث کا سمجھنا کسی عامی کے بس کی بات نہیں کیونکہ اگر بالفرض حدیث صحیح ہو اور امام مسلم نے آپنی کتاب میں اسکی تخریج بھی کی ہو’ مگر اس سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ اس پر عمل ضروری ہے جب تک حدیث پر عمل کرنے کے تمام قواعد اس شخص کو نہ معلوم ہوں
ملاحظہ فرمائیے صحیح مسلم کی حدیث ہے
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہیکہ اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مسافر پر دو رکعت مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے صحیح مسلم باب صلاۃ المسافرین وقصرہا۔
اب فرمائیے کہ حالت خوف میں کیا ایک رکعت نماز پڑھی جاتی ہے؟ ظاہر ہر منصف شخص کا جواب نفی میں ہوگا پھر تو کیا ہم تمام مسلمان اس حدیث کی مخالفت کررہے ہیں؟ اور اہل حدیث بھی آج تک اس حدیث کی مخالفت کرتے رہے۔
ظاہر ہیکہ اسکا جواب نفی میں ہوگا اور ہر عالم یہی کہے گا کہ حدیث پر عمل کرنے بہت سے ضوابط ہیں جنکو خطیب بغدادی اور ابن الصلاح نے تقریبا پینسٹھ قسموں میں تقسیم کردیا ہے اب ان تمام قسموں کے استعمال کے بعد ہی آپ یہ جان سکتے ہیں اس حدیث کو تمام مسلمانوں نے کیوں چھوڑدیا؟ اور یہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
اب کیا آپ عامی سے بھی فرمائینگے کہ تقلید کو چھوڑو اور اجتہاد کرو اور علم حدیث کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ؟ یا آپ اسے دو لفظوں میں جواب دیکر مطمئن فرمادینگے چاہے آپ حنفی ہوں یا سلفی شافعی یا غیر مقلد مالکی یا اہلحدیث حنبلی یا ظاہری؟ یہی تقلید کی حقیقت ہے جو ان صفحات میں بیان فرمائی گئیں ہیں۔
اور ایسے شخص کہ حق میں تقلید شخصی فرض ہے یعنی اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ دس علماء کرام سے فتوی پوچھنے کے بعد جہاں آسانی نظر آئے اس فتوی پر عمل کرے۔ بلکہ اسکے ذمہ واجب ہے کہ ایک شخص کو تھام لے اور اسی کی بات پر عمل کرتا رہے۔
امید ہیکہ تعصب کی عینک اتار کر یہ مضمون پڑھا جائیگا اور پھر میری غلطیوں پر حقیقت پسندی سے مطلع فرمائینگے

پلیز میرے بھائی اس پوسٹر کی وضاحت کر دیں

میرے پوچھنے کا مقصد کوئی تنقید کرنا نہیں ہے

جب سب آئمہ کرام اپنی تقلید سے روک رھے ہیں تو ہم کس بنیاد پر ان کی تقلید کرتے ہیں





 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بٗھائی صاحب برا نہیں منائیے گا

یہ علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے جسکی پچھلی تین سطریں یہ ہیں جو آپ سے چونک گئی
ملاحظہ فرمائے
رہی یہ بات کہ تقلید کس کے لئے جائز ہے؟ سو وہ عامی شخص ہے جو احکام شرعیہ کے طریقوں سے واقف نہیں’ لہذا اس کے لئے جائز ہیکہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے اور اسکے قول پر عمل پیرا ہو نیز اس لئے کہ وہ (عام آدمی) اجتہاد کا اہل نہیں ہے’ لہذا اسکا فرض یہ ہیکہ وہ بالکل اس طرح تقلید کرے جیسے ایک نابینا قبلے کے معاملے میں کسی آنکھ والے کی تقلید کرت ہے’ اس لئے کہ جب اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ اپنی ذاتی کوشش کے ذریعہ قبلے کا رخ معلوم کرسکے تو اس پر واجب ہیکہ کسی آنکھ والے کی تقلید کرے الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی ص (۶۸)

مولانا تقی عثمانی صاحب نے خطیب بغدادی کے قول کی تشریح کی ہے انکی اپنی کوئی ایسی بات نہیں۔

اس شخص کی مثال ایسی عامی کی سی ہے جس نے ایک دفعہ مجھ سے سوال کیا کہ میں الحمد للہ سمجھ دار ہوں میں ترجمہ قرآن پڑھ کر خود بخود قرآن سمجھ سکتا ہوں میں ان صاحب سے عرض کیا بھائی صاحب ذرا یو تو بتادیجئے کہ ناسخ ومنسوخ کیا چیز ہوتی ہے؟ فرمانے لگے ناسخ ومنسوخ کا قرآن کی سمجھ سے کیا تعلق؟ میں تو ترجمہ پڑھ کر خود ہی قرآن سمجھ سکتا ہوں میں نے کہا بھائی سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۴ سے لیکر ۲۴۰ تک چھ سات آیتوں کا ترجمہ پڑھ کر آؤ ہاں مگر یہ شرط یہ ہیکہ سمجھ کر پڑھنا اور پھر مجھے یہ سمجھادو آیت نمبر ۲۳۴ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہیکہ بیوہ کی عدت چار مہینہ دس دن ہے’ جبکہ آیت نمبر ۲۴۰ میں فرماتے ہیں کہ بیوہ کی عدت ایک سال ہے۔ اب مجھےسمجھاؤ کونسی بات صحیح ہے کونسی غلط؟ اگر دونوں صحیح تو یہ بات عقل کے خلاف اگر ایک صحیح تو دوسری آیت بھی تو قرآن کی ہے؟ تو کیا پھر اسے جھٹلاؤگے؟
ظاہر ہیکہ انہیں بات سمجھ میں آگئی کہ قرآن وحدیث کسی استاد سے پڑھنے کے بعد ہی اسکا صحیح معنی ومفہوم سمجھا جاسکتا ہے۔ وگرنہ تو وہی حالت ہوگی جو غلام پرویز اور مودودی صاحب وغیرہ نے کی ہے۔
بالکل اسی طرح حدیث کا سمجھنا کسی عامی کے بس کی بات نہیں کیونکہ اگر بالفرض حدیث صحیح ہو اور امام مسلم نے آپنی کتاب میں اسکی تخریج بھی کی ہو’ مگر اس سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ اس پر عمل ضروری ہے جب تک حدیث پر عمل کرنے کے تمام قواعد اس شخص کو نہ معلوم ہوں
ملاحظہ فرمائیے صحیح مسلم کی حدیث ہے
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہیکہ اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مسافر پر دو رکعت مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے صحیح مسلم باب صلاۃ المسافرین وقصرہا۔
اب فرمائیے کہ حالت خوف میں کیا ایک رکعت نماز پڑھی جاتی ہے؟ ظاہر ہر منصف شخص کا جواب نفی میں ہوگا پھر تو کیا ہم تمام مسلمان اس حدیث کی مخالفت کررہے ہیں؟ اور اہل حدیث بھی آج تک اس حدیث کی مخالفت کرتے رہے۔
ظاہر ہیکہ اسکا جواب نفی میں ہوگا اور ہر عالم یہی کہے گا کہ حدیث پر عمل کرنے بہت سے ضوابط ہیں جنکو خطیب بغدادی اور ابن الصلاح نے تقریبا پینسٹھ قسموں میں تقسیم کردیا ہے اب ان تمام قسموں کے استعمال کے بعد ہی آپ یہ جان سکتے ہیں اس حدیث کو تمام مسلمانوں نے کیوں چھوڑدیا؟ اور یہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
اب کیا آپ عامی سے بھی فرمائینگے کہ تقلید کو چھوڑو اور اجتہاد کرو اور علم حدیث کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ؟ یا آپ اسے دو لفظوں میں جواب دیکر مطمئن فرمادینگے چاہے آپ حنفی ہوں یا سلفی شافعی یا غیر مقلد مالکی یا اہلحدیث حنبلی یا ظاہری؟ یہی تقلید کی حقیقت ہے جو ان صفحات میں بیان فرمائی گئیں ہیں۔
اور ایسے شخص کہ حق میں تقلید شخصی فرض ہے یعنی اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ دس علماء کرام سے فتوی پوچھنے کے بعد جہاں آسانی نظر آئے اس فتوی پر عمل کرے۔ بلکہ اسکے ذمہ واجب ہے کہ ایک شخص کو تھام لے اور اسی کی بات پر عمل کرتا رہے۔
امید ہیکہ تعصب کی عینک اتار کر یہ مضمون پڑھا جائیگا اور پھر میری غلطیوں پر حقیقت پسندی سے مطلع فرمائینگے

بھائی میرے ذرا یہ بھی بتا دیجیے کہ تقلید کے یہ اصول کون سی کتاب میں کس امام یا مجتہد نےبیان کیے ہیں ؟؟ پھر کیا آپ کے امام کا فہم صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کےفہم سے زیادہ قابل اعتماد ہے -جب کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین براہ راست نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے تو پھر ان کی تقلید کیوں نہیں کی گئی ؟؟ کیا صرف چار امام ہی قرآن اور احدیث نبوی صل الله علیہ وسلم کو سمجھ سکے -باقی اماموں کا فہم اس قبل نہیں کہ ان کی بات یا اجتہاد کی پیروی کی جائے ؟؟ آپ کے امام بھی کبھی عامی رہے ہونگے ؟؟ وہ کس کی تقلید کر کے مجتہد بنے ؟؟

یا وہ پیدائشی طور پر مجتہد تھے؟؟ کیا آپ اپنے امام کا تقلید کے اثبات میں کوئی قول پیش کر سکتے ہیں ؟؟

واسلام
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اس پوسٹ کامعقول اور مختصر سا جواب تو یہ ہے کہ۔ کہ آپ کی یہ پوسٹ ہمارےسوال کا جواب نہیں۔ گزارش ہے کہ جتنا سوال ہے صرف اتنا ہی جواب دیا جائے۔۔ لیکن اگر آپ نے پوسٹ کردی اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ
یہی تقلید کی حقیقت ہے جو ان صفحات میں بیان فرمائی گئیں ہیں۔
تو ہم بھی کچھ گزارشات پیش کردیتے ہیں۔۔ اور پھر یہی توقع رکھتے ہیں کہ آپ ہمارے سوال پر ہی گفتگو کریں گے۔ فی الحال مزید باتیں نہیں چھیڑیں گے۔ ان شاءاللہ


بٗھائی صاحب برا نہیں منائیے گا
محترم بھائی جب بات مہذب انداز میں ہورہی ہو اور طرفین دلائل ومہذب انداز سے ایک دوسرے کا رد پیش کررہے ہوں تو میرے خیال میں نہ بات کسی کو بری لگتی ہے اور نہ بے فائدہ ہوتی ہے۔ قوی امید ہے کہ اس مسئلہ پر بھی فریقین یہی انداز اختیار کریں گے۔ ان شاءاللہ
یہ علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے جسکی پچھلی تین سطریں یہ ہیں جو آپ سے چونک گئی
ملاحظہ فرمائے
رہی یہ بات کہ تقلید کس کے لئے جائز ہے؟ سو وہ عامی شخص ہے جو احکام شرعیہ کے طریقوں سے واقف نہیں’ لہذا اس کے لئے جائز ہیکہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے اور اسکے قول پر عمل پیرا ہو نیز اس لئے کہ وہ (عام آدمی) اجتہاد کا اہل نہیں ہے’ لہذا اسکا فرض یہ ہیکہ وہ بالکل اس طرح تقلید کرے جیسے ایک نابینا قبلے کے معاملے میں کسی آنکھ والے کی تقلید کرت ہے’ اس لئے کہ جب اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ اپنی ذاتی کوشش کے ذریعہ قبلے کا رخ معلوم کرسکے تو اس پر واجب ہیکہ کسی آنکھ والے کی تقلید کرے الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی ص (۶۸)
1۔ پہلی بات یہ قول خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا ہے یا کسی اور کا۔ تقی صاحب اگر اس کو پیش کررہے ہیں تو پیش کرنے کا مطلب ہی قول سے اتفاق ہے۔ اگر تقی صاحب کو اس قول سے اتفاق نہ ہوتا تو پھر تقلید کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے اسے بیچ میں لاتے ہی ناں۔۔۔ اس لیے بےشک قول خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا ہے۔اور یہی (الفقیہ والمتفقۃ ) کتاب جو میرے پاس ہے اس کے صفحہ نمبر133 اور 134 میں علامہ بغدادی صاحب یہ عبارت لائے ہیں۔ تقی صاحب کا نقل کرنا ہی اتفاق پہ دال ہے۔۔۔ اب جب آپ کے علماء کی طرف سے کی گئی تقلید کی تعریفات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو تین باتیں سامنے آتی ہیں
1۔ آنکھیں بند کر کے ، بے سوچے سمجھے ، بغیر دلیل و بغیر حجت کے ، کسی غیر نبی کی بات ماننا تقلید ہے ۔
2۔ قرآن ، حدیث اور اجماع پر عمل کرنا تقلید نہیں ہے ۔ جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں ہے۔
3۔ تقلید اور اتباع بالدلیل میں فرق ہے ۔
مزید اگر آپ کہیں گے تو پھر ان باتوں کو بادلائل بھی ثابت کردیا جائے گا۔۔ مقصود ان باتوں کو پیش کرنے کا یہ ہے کہ اگر جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں تو پھر خطیب بغدادی صاحب اس کو کیوں تقلید کا نام دے رہے ہیں ؟۔۔ یہ خارج از موضوع بات ہے۔ اس لیے اس پر گزارشات کو مؤخر ہی کیا جاتا ہے۔
2۔ دوسری بات خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے اس قول سے یہ کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا کہ تقلید واجب ہے؟ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا یوں ’’ باب القول فيمن يسوغ له التقليد ومن لا يسوغ ‘‘ باب قائم کرکے مذکور بات پیش کرنے سے تقلید کا فرض اور واجب ہونا ثابت نہیں کرتا۔ اگر خطیب بغدادی رحمہ اللہ عامی کےلیے تقلید کو واجب اور فرض گردانتے ہوتے تو یوں باب قائم نہ کرتے۔ باب سے تو یہ معلوم ہورہا ہے کہ اس کے ذیل میں خطیب صاحب یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ تقلید کی کس کےلیے ضرورت ہے اور کس کےلیے نہیں۔؟
3۔ اس قول میں ایک لفظ ’’ فکان فرضہ التقلید ‘‘ کو اگر ماقبل اور مابعد عبارت سے دیکھا جائے تو یہاں فرض وہ والا فرض مراد ہی نہیں جو ہم اور آپ سمجھتے ہیں۔اور تقی عثمانی صاحب نے جس طرز پر ترجمہ کیا ہے۔’’ لہذا اس کا فرض یہ ہے کہ وہ بالکل اس طرح تقلید کرے جیسے ایک نابینا قبلے کے معاملے میں کسی آنکھ والے کی تقلید کرتا ہے‘‘ میرے خیال میں اس سے بھی تقلید کو فرض سمجھنا سمجھ نہیں آتا۔۔ یہاں بھی فرض کو ضرورت کے معنیٰ میں لیا جائے گا۔ کہ عامی چونکہ اجتہاد کا اہل نہیں، لہٰذا تقلید کرنا اس کی ضرورت ہے۔ سو وہ کسی عالم کی تقلید کرلے۔۔۔
میں آپ کو بتاؤں کہ ہم جس تقلید کی مخالف کرتے ہیں۔ وہ ہمارے نزدیک یہ ہے۔۔۔’’ قرآن وحدیث کے خلاف کسی کی بات ماننا ‘‘۔۔ اور آپ لوگ یہ تقلید کرتے ہیں۔ اور اسی کی ہی ہم مخالفت کرتے ہیں اور اسی کو ہی ہم شرک کہتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ
مولانا تقی عثمانی صاحب نے خطیب بغدادی کے قول کی تشریح کی ہے انکی اپنی کوئی ایسی بات نہیں۔
تو آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ خطیب بغدادی کی بات سے تقی صاحب اتفاق نہیں رکھتے ؟
اس شخص کی مثال ایسی عامی کی سی ہے جس نے ایک دفعہ مجھ سے سوال کیا کہ میں الحمد للہ سمجھ دار ہوں میں ترجمہ قرآن پڑھ کر خود بخود قرآن سمجھ سکتا ہوں میں ان صاحب سے عرض کیا بھائی صاحب ذرا یو تو بتادیجئے کہ ناسخ ومنسوخ کیا چیز ہوتی ہے؟ فرمانے لگے ناسخ ومنسوخ کا قرآن کی سمجھ سے کیا تعلق؟ میں تو ترجمہ پڑھ کر خود ہی قرآن سمجھ سکتا ہوں میں نے کہا بھائی سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۴ سے لیکر ۲۴۰ تک چھ سات آیتوں کا ترجمہ پڑھ کر آؤ ہاں مگر یہ شرط یہ ہیکہ سمجھ کر پڑھنا اور پھر مجھے یہ سمجھادو آیت نمبر ۲۳۴ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہیکہ بیوہ کی عدت چار مہینہ دس دن ہے’ جبکہ آیت نمبر ۲۴۰ میں فرماتے ہیں کہ بیوہ کی عدت ایک سال ہے۔ اب مجھےسمجھاؤ کونسی بات صحیح ہے کونسی غلط؟ اگر دونوں صحیح تو یہ بات عقل کے خلاف اگر ایک صحیح تو دوسری آیت بھی تو قرآن کی ہے؟ تو کیا پھر اسے جھٹلاؤگے؟
ان سب باتوں سے پہلے اگر ہم یہ جان لیں کہ ’’ عامی کون ہوتا ہے؟ کس طرح کے شخص پر عامی کا اطلاق ہوگا ‘‘ تو بات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔۔ سو یعقوب بھائی آپ عامی کی تعریف بھی پیش فرمادیں جس کے لیے تقلید واجب ہوتی ہے۔
ظاہر ہیکہ انہیں بات سمجھ میں آگئی کہ قرآن وحدیث کسی استاد سے پڑھنے کے بعد ہی اسکا صحیح معنی ومفہوم سمجھا جاسکتا ہے۔ وگرنہ تو وہی حالت ہوگی جو غلام پرویز اور مودودی صاحب وغیرہ نے کی ہے۔
تو بھائی ہم کب کہتے ہیں کہ پڑھنے لکھنے اور سمجھنے کے بناء ہی مفتی کی سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔۔۔ یا اجتہادات کرنے لگ جاؤ ۔؟ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں جو آپ کہہ رہے ہیں۔۔ اس لیے ان باتوں کی گہرائی تک جانے سے پہلے عامی کا جاننا ضروری ہے۔ اس لیے آپ عامی کی تعریف پیش فرمادینا۔۔ جزاک اللہ
بالکل اسی طرح حدیث کا سمجھنا کسی عامی کے بس کی بات نہیں کیونکہ اگر بالفرض حدیث صحیح ہو اور امام مسلم نے آپنی کتاب میں اسکی تخریج بھی کی ہو’ مگر اس سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ اس پر عمل ضروری ہے جب تک حدیث پر عمل کرنے کے تمام قواعد اس شخص کو نہ معلوم ہوں
دیکھیں بھائی عامی کو عالم سے سوال کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ لیکن آپ کے ہی علماء اس کو تقلید نہیں کہتے تو آپ کیسے اس پر تقلید واجب کہہ رہے ہیں؟۔۔ آپ ایک نظر اس کی بھی وضاحت فرمادینا۔ جزاک اللہ ۔۔
ملاحظہ فرمائیے صحیح مسلم کی حدیث ہے
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہیکہ اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مسافر پر دو رکعت مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے صحیح مسلم باب صلاۃ المسافرین وقصرہا۔
اب فرمائیے کہ حالت خوف میں کیا ایک رکعت نماز پڑھی جاتی ہے؟ ظاہر ہر منصف شخص کا جواب نفی میں ہوگا پھر تو کیا ہم تمام مسلمان اس حدیث کی مخالفت کررہے ہیں؟ اور اہل حدیث بھی آج تک اس حدیث کی مخالفت کرتے رہے۔
ظاہر ہیکہ اسکا جواب نفی میں ہوگا اور ہر عالم یہی کہے گا کہ حدیث پر عمل کرنے بہت سے ضوابط ہیں جنکو خطیب بغدادی اور ابن الصلاح نے تقریبا پینسٹھ قسموں میں تقسیم کردیا ہے اب ان تمام قسموں کے استعمال کے بعد ہی آپ یہ جان سکتے ہیں اس حدیث کو تمام مسلمانوں نے کیوں چھوڑدیا؟ اور یہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
عامی کو جان لینے کے بعد کی باتیں ہیں۔
اب کیا آپ عامی سے بھی فرمائینگے کہ تقلید کو چھوڑو اور اجتہاد کرو اور علم حدیث کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ؟ یا آپ اسے دو لفظوں میں جواب دیکر مطمئن فرمادینگے چاہے آپ حنفی ہوں یا سلفی شافعی یا غیر مقلد مالکی یا اہلحدیث حنبلی یا ظاہری؟ یہی تقلید کی حقیقت ہے جو ان صفحات میں بیان فرمائی گئیں ہیں۔
آپ عامی اور عالم کو خلط ملط کرر رہے ہیں۔۔ پہلے ہم عامی کو جان لیں۔۔ پھر اگر آپ مناسب سمجھیں تو جس کو عالم سمجھتے ہیں۔اس بارے بھی بتا دینا۔۔۔ اس تفریق کے بعد تقلید پر بات کرتے ہوئے آسانی رہے گی۔ اور بات کوسمجھنا اینڈ سمجھانا آسان ہوگا۔ ان شاءاللہ
اور ایسے شخص کہ حق میں تقلید شخصی فرض ہے یعنی اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ دس علماء کرام سے فتوی پوچھنے کے بعد جہاں آسانی نظر آئے اس فتوی پر عمل کرے۔ بلکہ اسکے ذمہ واجب ہے کہ ایک شخص کو تھام لے اور اسی کی بات پر عمل کرتا رہے۔
جو سوال ہم نے کیا ہوا ہے اس کے بعد کی باتیں ہیں۔ کہ تقلید شخصی اس پر فرض ہے یا نہیں؟۔۔۔ پہلے آپ صرف تقلید شخصی کی تعریف ہی پیش کردیں۔
امید ہیکہ تعصب کی عینک اتار کر یہ مضمون پڑھا جائیگا اور پھر میری غلطیوں پر حقیقت پسندی سے مطلع فرمائینگے
ان شاءاللہ تعصب کی عینک اتار کر ہی آپ کی باتوں کو پڑھا جائے گا۔ اور تعصب کی عینک اتار کر ہی لکھا جائے گا۔۔۔ ہماری آپ سے بھی یہی گزارش ہے۔۔ جزاکم اللہ خیرا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ‌ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَ‌فُوا ۚ إِنَّ أَكْرَ‌مَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ‌
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے
تو حنفیوں سے کیوں نالاں ہیں؟؟؟۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180

پلیز میرے بھائی اس پوسٹر کی وضاحت کر دیں

میرے پوچھنے کا مقصد کوئی تنقید کرنا نہیں ہے

جب سب آئمہ کرام اپنی تقلید سے روک رھے ہیں تو ہم کس بنیاد پر ان کی تقلید کرتے ہیں





میں نے بہت پہلے ایک تحریر لکھی تھی جس میں اس کی ہی وضاحت کی گئی تھی کہ ائمہ کرام کے اس قول "اذاصح الحدیث فھو مذہبی"کاکیامطلب ہے۔ ائمہ کرام کے حالات زندگی سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ کتنے سائلین توایسے ہوتے تھے کہ وہ آکر پوچھے تھے ان کو نپاتلا جواب دیتے تھے اور وہ چلاجاتاتھا اورکچھ ان کے اہل علم شاگرد تھے ۔ اس قول میں جہاں انہوں نے کہاکہ کسی کی تقلید مت کرو بلکہ دلیل پر عمل کرو یاپھرجہاں سے ہم نے دلیل کو اخذ کیاہے تم بھی اخذ کرو ۔اس قول کے مخاطب ہرایک فرد نہیں بلکہ ان کے اہل علم شاگرد ہیں اوربعد کے بھی اہل علم ہی مراد ہیں ۔ہرہماوشمااس قول کا مخاطب نہیں ہے۔ لیجئے یہ میری تحریر ۔پڑھئے اگربات حق وصواب لگے توپھر اس کو تسلیم کیجئے اوراگرنہ لگے توجوغلطی ہواس کو ضروربیان کیجئے۔ والسلام
اذا صح الحدیث فھو مذہبی پر ایک نگاہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
میں نے بہت پہلے ایک تحریر لکھی تھی جس میں اس کی ہی وضاحت کی گئی تھی کہ ائمہ کرام کے اس قول "اذاصح الحدیث فھو مذہبی"کاکیامطلب ہے۔ ائمہ کرام کے حالات زندگی سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ کتنے سائلین توایسے ہوتے تھے کہ وہ آکر پوچھے تھے ان کو نپاتلا جواب دیتے تھے اور وہ چلاجاتاتھا اورکچھ ان کے اہل علم شاگرد تھے ۔ اس قول میں جہاں انہوں نے کہاکہ کسی کی تقلید مت کرو بلکہ دلیل پر عمل کرو یاپھرجہاں سے ہم نے دلیل کو اخذ کیاہے تم بھی اخذ کرو ۔اس قول کے مخاطب ہرایک فرد نہیں بلکہ ان کے اہل علم شاگرد ہیں اوربعد کے بھی اہل علم ہی مراد ہیں ۔ہرہماوشمااس قول کا مخاطب نہیں ہے۔ لیجئے یہ میری تحریر ۔پڑھئے اگربات حق وصواب لگے توپھر اس کو تسلیم کیجئے اوراگرنہ لگے توجوغلطی ہواس کو ضروربیان کیجئے۔ والسلام
اذا صح الحدیث فھو مذہبی پر ایک نگاہ
سلام

آپ نے کہا

اس قول میں جہاں انہوں نے کہاکہ کسی کی تقلید مت کرو بلکہ دلیل پر عمل کرو یاپھرجہاں سے ہم نے دلیل کو اخذ کیاہے تم بھی اخذ کرو ۔اس قول کے مخاطب ہرایک فرد نہیں بلکہ ان کے اہل علم شاگرد ہیں اوربعد کے بھی اہل علم ہی مراد ہیں

آپ نے اپنے رحمانی بلوگ میں تاریخ بغداد کا یہ حوالہ دیا ہوا ہے
أَخْبَرَنِي إبراهيم بن مخلد المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو بكر أَحْمَد بن كامل، إملاء، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل السلمي، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن الزبير الحميدي، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: شيئان ما ظننت أنهما يجاوزان قنطرة الكوفة، وقد بلغا الآفاق: قراءة حمزة، ورأي أَبِي حنيفة.

(تاریخ بغداد15/475اسنادہ صحیح)

سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے بارے میں میراگمان تھاکہ وہ کوفہ کی حدود سے بھی تجاوز نہیں کریں گی لیکن وہ دنیابھر میں پھیل چکی ہیں۔ایک حمزہ کی قرات دوسرے ابوحنیفہ کے اجتہادات۔
لکن آپ کو یہ حوالہ دینا کیوں بھول گیا

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا :

اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔

(تاریخ بغداد 424/13 ،تاریخ ابن معین 2/607 وسندہ صحيح)
امام صاحب کے شاگردوں نے اپنے امام صاحب سے کیوں اختلاف کیا

امام ابو حنیفہ کے شاگردوں نے امام ابو حنیفہ کی ٢/٣ مسائل میں امام کی مخالفت کی ہے - اگر امام کی تمام باتیں قرآن اور حدیث کے مطابق ہی تھیں تو
انکے شاگردوں نے مخالفت کیوں کی؟؟؟

١۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ نماز کے سات فرض ہیں صاحبین امام ابو یوسف اور امام محمد فرماتے ہیں کہ کل چھ فرض ہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں التحیات میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو نماز نہیں ہوتی کیونکہ ساتواں فرض ابھی باقی ہے صاحبین کہتے ہیں ہو جاتی ہے کیونکہ چھ فرض پورے ہوچکے ہیں( ھدایہ؛ کتاب الصلوہ، باب الحدیث فی الصلوہ صفحہ ١٣٠)۔۔۔




٢۔ اگر بیوی کا خاوند لا پتہ ہوجائے تو کوئی امام کہتا ہے کہ عورت خاوند کی ١٢٠ سال کی عمر تک انتظار کرے، ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ کا یہی قول ہے--- حنفیوں کے زیادہ اماموں کی رائے ہے جب اس کے خاوند کی عمر کے تمام آدمی مرجائیں اس وقت تک انتظار کرے بعض کہتے ہیں ٩٠ سال انتظار کرے۔۔۔۔(ھدایہ کتاب المفقود صفحہ ٦٢٣)۔۔۔ایک حنفی عورت بیچاری کیا کرے کدھر جائے؟؟؟۔۔۔




٣۔ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں دو مثل سایہ ہو تو عصر کا وقت ہوتا ہےصاحبین فرماتے ہیں ایک مثل ہو تو وقت ہوتا ہے۔۔۔۔(ھدایہ کتاب الصلوہ بات المواقیت)۔۔۔




٤۔ امام صاحب فرماتے ہیں چار آدمی ہوں تو جمعہ ہو سکتا ہےصاحبین فرماتے ہیں تین ہوں تو ہو سکتا ہے۔۔۔(ھدایہ کتاب الصلوہ باب الصلوہ الجمعہ)۔۔۔




٥۔ اس کے علاوہ مستعمل پانی کو ہی لے لیں جس سے ہروقت واسطہ پڑتا ہے کوئی پاک کہتا ہے کوئی پلیت پھر اس میں اختلاف ہوتا ہے کہ کم پاک ہے یا زیادہ---- کم پلیدہے یا زیادہ۔۔۔
(ھدایہ کتاب الطہارات باب الماء الذی یجوز بہ الوضوع)۔۔
یہ صرف مثال کے طور پر ہیں نا کہ تضحیک کے طور پر

حقیقت یہ ہے کے جن مسائل میں انہوں نے امام کے مسائل کو قرآن و حدیث کے خلاف پایا اور شاگردوں تک صحیح حدیث پونھچی تو حق بیان کردیا...یہی ہمارا مسلک ہے...ہمارے نزدیک امام ابو حنیفہ سمیت تمام آئمہ حق تھے اور انکے بعد کے بھی لوگ اور ان سے پہلے کے بھی لوگ وہ کسی کے مقلد نا تھے...الحمدللہ...تقلید تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے ٤٠٠ سال بعد شروع ہوئی

.ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کو سلف صالحین کے طریقہ پر سمجھنا ہی فلاح اور کامیابی ہے اور انکے طریقے سے ہٹ کر روش اپنانا گمراہی ہے...سلف صالحین میں امام ابو حنیفہ سمیت آئمہ اربعہ بھی آگئے اور دیگر جلیل القدر علما بھی، علما حق ہر دور میں قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے منہج کے مطابق فتاویٰ دیتے رہے ہیں اور اس معاملے میں تقلید شخصی کا کبھی شکار نہیں ہووے...مگر ہم ساتھ ہی یہ بھی سمجھتے ہیں کے ان آئمہ کے نقش قدم پہ چلنا قرآن اور حدیث کو اختیار کرنے کے لئے ہو...جہاں ان آئمہ میں سے کسی سے غلطی ہو اور علما اس کی نشاندہی کریں اور دیگر آئمہ کا اقوال قرآن اور صحیح حدیث کے عین مطابق ہوں تو ہم قرآن اور حدیث کی روشنی میں صحیح مسلے کو اختیار کرتے ہیں..ہمارا مقصد قرآن اور حدیث کی اتباع ہے نا کے آئمہ کی اندھی تقلید ، اس طرح ہمارے لئے تمام آئمہ برابر کا درجہ رکھتے ہیں ..یہی کام امام محمد نے اور امام یوسف نے کیا...جہاں امام ابو حنیفہ کو غلطی پر دیکھا تو باوجود انکا شاگرد ہونے کے حق بیان کیا اور امام کی مخالفت کی..اس سے نا امام کی توہین ہوئی نا ہی حق چھوٹا

امام عبداللہ بن مبارک بھی امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے شاگرد تھے

آپ یہ بتانا بھی آپ کو بھول گیا کہ وہ اپنے استاد کے بارے میں کیا کہتے ہیں


امام عبداللہ بن مبارک کا ابوحنیفہ پر تبصرہ

امام صاحب کے شاگرد رشید امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کان ابو احنیفۃ یتیما فیا الحدیث کہ امام ابو حنیفہ حدیث میں یتیم ہیں (قیام اللیل ص١٢٣ ،بغدادی ص٤١٥ج١٣،الضعفائ لابن حبان ص٧١ج٣)وغیرہ بعض حضرات نے تفنن طبع کا ثبوت دیتے ہوئے ’’یتیمکے معنی یکتا زمانہ ‘‘کے کئے ہیں مگر کیا کیا جائے جب کہ اب کے یہ الفاظ بھی ہیں کان ابوحنیفٰۃ مسکینا فی الحدیث (الجرح والتعدیال ص٤٥٠ج٤،ق١ )کہ وہ حدیث میں مسکین تھے ۔


امام ابن حبان بسند متصل نقل کیا ہے کہ ابراہیم بن شماس فرماتے ہیں میں نے امام ابن مبارک کو ثغر کے مقام میں دیکھا کہ وہ کتاب لوگوں پر پڑھ رہے تھے جبامام ابوحنیفہ کا ذکر آتا تو فرماتے اضربو ا علیہ ۔اس پر نشان لگا لو ۔اور یہ آخری کتاب تھی جوانھوں نے لوگوں کو سنائی تھی (الثقات ترجمہ ابراہیم بن شماس )السنۃ لابن احمد میں ہے کی یہ واقعہ امام ابن مبارک کی وفات سے بضعۃ عشر تیرہ چودہ دن پہلے کا ہے ۔ابراہیم بن شماس ثقہ ہے (تقریب ص٢٢)اور ابن حبان نے اب سے یہ روایت بواسطہ عمر بن محمد الجبیری یقول سمعت محمد بن سھل بن عسکر بیان کی ھے ۔اور محمد بن سھل بن ثقہ امام ھے۔ اور عمر بن محمدالجبیری حافظ حدیث اور ثقہ امام ھیں (تزٖکرہ ص؛٧١٩) ۔اور یہ قول ابراھیم سے مختلف اسانید کے ساتھ تاریخ بغداد ص٤١٤ج١٣ اور المجروحین لابن حبان (ص٧١ج٣)السنۃ لعبداللہ بن احمد (ص٢١١،٢١٤ج١)،العلل و معرفۃ الرجال(ج٢ص٢٤٢)میں بھی دیکھا جا سکتا ہے




امام عبداللہ بن مبارک مزید فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے چار سو حدیثیں نقل کی ہیں ۔جب میں واپس عرق جاوں گا توانھیں مسخ کر دوں گا ۔(بغدادی ص٤١٤ج١٣)


اور امام ابن عبدالبر بسند متصل معلی بن اسد سے نقل کرتے ہیں

قلت لابن المبارک کان الناس یقولون انک تذہبن الی قول ابی حنیفٰۃ قال لیس کل ما یقول الناس یصیبونم فیہ قد کنا ناتیہ زمانا و نحن لا نعرفہ فلما عرفناہ ترکناہ ۔

(الانتقاء ص١٥١)


یعنی میں نے ابن مبارک سے کہا لوگ کہتے ہیں کہ تم ابو حنیفہ کے قول کی اقتدا کرتے ہو تو انھوں نے جواب دیا لوگوں کی ہر بات صحیح نہیں ہوتی ۔ہم ایک زمانہ تک ان کے پاس جاتے تھے مگر انھین پہچانتے نہ تھے لیکن جب ہمیں معلوم ہو گیا تو انھیں چھوڑ دیا ۔


امام ابن ابی حاتم غالبا انھیں اقوال کی روشنی میں لکھتے ہیں :ترکہ ابن امبارک بآخرہ ۔کہ ابن مبارک نے بالآخر انھی÷ں چھوڑ دیا تھا۔


علمائے احناف امام ابوحنیفہ کی تعریف میں امام ابن مبارک کا نام بڑے اچھوتے انداز میں کرتے ہیں اور ان کے غیر مستند قصائد اور اقوال شہ سرخیوں سے ذکر کرتے ہیں ۔حالانکہ مندرجہ بالا اقوال ان کے یکسر منافی ہیں ۔اگر ان اقوال کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ان میں تطبیق کی صورت بالکل ظاہر ہے کہ آخری عمر میں امام ابن مبارک کی ابو حنیفہ سے عقیدت کافور ہو چکی تھی ۔جیسا کہ امام ابی حاتم نے کہا ہے بلکہ امام ابن مبارک کے شاگرد رشید ابراہیم بن شماس کے الفاظ بھی یہی ہیں کہ:ّّترکہ ابن المبارک فی آخر امری ٗٗ(المجروحین لابن حبان ص٧١ج٣ )


بحوالہ توضیح الکالام لشیخنا محدث العصر ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ص:933۔




قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ امام شیرازی کہتے ہیں


امام ابن مبارک نے امام مالک اور ثوری سے فقہ حاصل کی


اور ابتدائ وہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے تھے


پھرانھیں چھوڑ دیا اور ان کے مذہب سے رجوع کر لیا ۔ابن وضآع کہتے ہیں
کہ انھوں
اپنی کتابوں میں
امام ابو حنیفہ کی روایات کو قلم زد کر دیا تھا اور انھیں لوگوں کو نہیں سناتےتھے


(ترتیب المدارک ص300ج1)
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اصل حقیقت یہ ہے اس کو کیوں بھول جاتے ہیں






امام ابوحنیفہ کا مقام امام عبداللہ بن مبارک کے نزدیک اور آل دیوبند کی نا انصافی






مسئلہ رفع الیدین


پر




امام عبداللہ بن المبارک




کی




امام ابوحنیفہ




سے گفتگو !






ایک بار مسجد کوفہ میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا




ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر




” آپ نماز کی ہر تکبیر ( اس میں تسمیع بھی شامل ہے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت ) میں رفع الیدین کرتے ہیں گویا اڑنا اور پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ “




امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جواب میں کہا :




ان کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا




اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں ۔












امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب سے اس طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاموش رہے ۔ امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی ۔

کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 ، تمھید لابن عبدالبرج :5 ، ص :66 ، جزءرفع الیدین للبخاری مع جلاءص : 125,123



اس واقعے سے امام ابو حنیفہ کا مقام ابن مبارک کے نزدیک کیا ہے باکل واضح ہو جاتا ہے






 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436


مقلد کی دلیل

مقلدین اپنے مختلف فورمز سے ہم پر یہ الزام لگاتے رہتے ہیں کہ اہل حدیث دلائل اربعہ کتاب ، سنت ، اجماع ، قیاس کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔ اس اعتراض کا جواب مختلف اہل علم کے ذریعہ تحریرا اور تقریرا کئی مرتبہ دیا جاچکا ہے ۔ لیکن ایک الزامی سوال جو میرے خیال سے اس اعتراض سےپہلے پوچھے جانے کا مستحق ہے وہ یہ کہ آیا مقلدین خود عملا قرآن و سنت اور اجماع و قیاس کی حجیت کو تسلیم کرتے ہیں ؟
مقلد کے یہاں صرف اس کے امام کا مسلک دلیل ہوتا ہے ۔ اور پھر ان چاروں دلائل میں سے ہر وہ چیز جو اس کے امام کے قول کے مطابق ہے ۔ اور ان چاروں میں سے کوئی چیز جو امام کے قول کے مخالف ہو مقلد کے لیے قابل قبول نہیں ہوتی۔
رضاعت اور ایمان میں نقص واضافہ کے معاملہ میں قرآن کی صاف اور صریح آیت تسلیم نہیں کی جاتی کیوں کہ امام کا مسلک کچھ اور ہے اور فاتحہ خلف الامام کے موضوع پر کہاں کی آیت کو کہاں لاکر جوڑ دیا جاتا ہے تاکہ امام کا مسلک صحیح ثابت کیا جاسکے ۔
نماز ، روزہ ، حج اور زکاۃ سمیت مختلف موضوعات پر صحیحین دسیوں روایات مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سےنا قابل قبول سمجھی جاتی ہیں ۔ اور ایک ہاتھ سے مصافحہ کے معاملہ میں امام بخاری کے باندھے ہوئے باب کو اتنے پر زوز انداز میں پیش کیا جاتا ہے جیسے امام بخاری کا باب نہیں حدیث پیش کررہے ہوں ۔
قرات فاتحہ کے مسئلہ میں ماتیسر من القرآن کے عموم کو لاصلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب سے خاص کرنا خلاف قاعدہ بتلایا جاتا ہے اور تعیین مہر کے مسئلہ میں وَأُحِل لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ میں اموال کے عموم کو لاَ مَهْرَ دُونَ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ کی ضعیف روایت سے خاص کردیا جاتا ہے ۔
تین طلاق کے مسئلہ میں جمہور کا فتوی ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسا ہر وہ مسئلہ جس پر جمہور کا اتفاق ہوجائے قبول ہی کرلیا جائے گا اور وہ سیکڑوں مسائل جن میں حنفیہ کا جمہور سے اختلاف ہے وہاں جمہور کی رائے کیوں نا قابل تسلیم ہوتی ہے؟
بیس رکعت تراویح کے معاملہ میں حرمین کا عمل دلیل ۔ اور حرمین کی آمین ، رفع الیدین ؟
طلاق کے مسئلہ حضرت عمر کا فتوی سب سے بڑی دلیل اور حلالہ سمیت بیسیوں مسائل میں حنفی مسلک کے خلاف حضرت عمر کے بیسیوں فتاویٰ ؟
الغرض دلائل اربعہ کی حجیت صرف زبانی دعوی ہے عملا دلیل صرف امام کا قول ہے ۔ آخر مقلد کس منہ سے ہم سے دلیل پر بات کرسکتا ہے ؟

 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اگر منصفانہ طور پر جائزہ لیں تو امام صاحبؒ کی شخصیت کافی متنازعہ بن جاتی ہے مسائل میں۔۔۔
اس کی کیا وجہ ہے؟؟؟۔۔۔ کیا ہمیں اس طرف توجہ نہیں دینی چاہئے۔۔۔
کہ اُن وجوہات کو تلاش کریں جس بناء پر یہ اعتراضات رقم کئے جاتے ہیں۔۔۔
 
Top