• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویوں کا مشرکانہ عقیدہ

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کو میں اب تک ایمان سمجھتا رہا تھا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی جس کا مفہوم یہ کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
آپ ہیں کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عمل بتارہے ہیں
لگتا ہے میری اوپر باتوں کا جواب نہ پا کر دوسری طرف لے جانا چاہتے ہیں اگر ایسا نہیں تو میرے اوپر دو تین اشکالات کا جواب دیں اور ادھر ادھر بات نہ کریں آپ کے ان اشکالات کا جواب میں دیتا ہوں
ہمارے ہاں ایمان میں دل کی تصدیق کے ساتھ ہمارا قول اور عمل بھی شامل ہوتا ہے جیسا کہ امام مسلم وہ حدیث لائے ہیں کہ اتدرون ما الایمان باللہ وحدہ اور اسکے جواب میں ہمارے اعمال یعنی نماز روزہ وغیرہ کو بھی ایمان میں شامل کیا ہے اور پھر امام بخاری تو اس حدیث کو کتاب الایمان میں جس عنوان کے تحت لائے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ خمس بھی ایمان کا حصہ ہے
عقیدہ طحاویہ کے مشہور شارح امام ابن ابی العز حنفی راقم ہیں:
ولا خلاف بین أهل السنة والجماعة أن الله تعالىٰ أراد من العباد القول والعمل وأعني بالقول: التصدیق بالقلب والإقرار باللسان وهٰذا الذي یعنی به عند اطلاق قولهم: الإیمان قول و عمل ۔
’’اہل سنت کے ہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے قول و عمل کو چاہتے ہیں او رقول سے میری مراد ہے: دل سے تصدیق اور زبان سے اِقرار، اور ایمان قول و عمل پرمشتمل ہے۔‘
اسی لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابوعبید قاسم بن سلام کے حوالہ سے اہل مکہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ، اہل واسط او راہل مشرق کی ایک بہت بڑی جماعت کو ذکر کرنے کے بعدفرماتے ہیں:
قال أبوعبید هٰؤلاء جمیعًا یقولون: الإیمان قول و عمل یزید و ینقص وهو قول أهل السنة والجماعة المعمول به عندنا

پس اصل میں وقول اور عمل ہی ہے پس اس لحاظ سے دل کی تصدیق قول القلب یعنی دل کا قول ہے اور زبان کی تصدیق قول اللسان یعنی زبان کا قول ہے
دوسرے طریقے سے بتاؤں کہ ہمارے ایمان کے تینوں جز (یعنی دل سے تصدیق، قول اور علم) دراصل ہمارے اعمال ہی تو ہیں آپ کی دل سے تصدیق بھی آپ کا ایک عمل ہی ہے اور آپ جو کلمہ پڑھتے ہیں وہ قول بھی آپ کا عمل ہے
غرض حقیقت میں تو یہ سب آپکے اعمال ہیں ان اعمال میں کچھ کو ہم دل سے منسوب کرتے ہیں انکو قول القلب یا دل سے تصدیق کہ سکتے ہیں جو زبان سے اعمال ادا کرتے ہیں انکو قول اللسان یا اقوال کہ سکتے ہیں اور جو اعمال ہم اعضاء سے کرتے ہیں انکو عمل بالجوارح کہتے ہیں واللہ اعلم
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کاش علی بہرام صاحب یہ ثابت کر دیتے کہ صحابہؓ نے نبیﷺ سے صرف محبت ہی کی تھی نبیﷺ کی اتباع نہیں کی تھی۔ ہمارا تو موقف ہے کہ ” حقیقی محبت “ وہی کریگا جو ” عمل “ کریگا اور جو ” عمل “ کریگا وہی ” حقیقی محبت “ کریگا۔ ورنہ بغیر عمل کے محبت ایک ” جھوٹی محبت “ ہے بلکہ ایک فریب ہے۔
اگر ہم اللہ تعالٰی سے محض ” قولی محبت “ کا اظہار کریں اور اللہ تعالٰی کے احکامات کی مطلق پیروی نہ کریں تو کیا نجات ممکن ہے ؟ اگر ہاں ! تو اس آیت کا کیا مطلب ہے؟
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
قرآن ، سورت آلِ عمران ، آیت نمبر 31
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
لگتا ہے میری اوپر باتوں کا جواب نہ پا کر دوسری طرف لے جانا چاہتے ہیں اگر ایسا نہیں تو میرے اوپر دو تین اشکالات کا جواب دیں اور ادھر ادھر بات نہ کریں آپ کے ان اشکالات کا جواب میں دیتا ہوں
آپ نشاندہی فرمادیں پھر میں آپ کے ان اشکالات کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں ان شاء اللہ
ہمارے ہاں ایمان میں دل کی تصدیق کے ساتھ ہمارا قول اور عمل بھی شامل ہوتا ہے جیسا کہ امام مسلم وہ حدیث لائے ہیں کہ اتدرون ما الایمان باللہ وحدہ اور اسکے جواب میں ہمارے اعمال یعنی نماز روزہ وغیرہ کو بھی ایمان میں شامل کیا ہے اور پھر امام بخاری تو اس حدیث کو کتاب الایمان میں جس عنوان کے تحت لائے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ خمس بھی ایمان کا حصہ ہے
لیکن محبت کے لئے یہ اصول نہیں کیونکہ محبت خالص دل کا معاملہ ہے یعنی اگر میرے دل میں کسی کی محبت ہے تو میں چاہے اس کا اظہار زبان سے کروں یا کروں اس سے اس محبت میں کوئی فرق نہیں پڑتا یا اگر محبت کے لئے بھی زبان سے اقرار کرنا لازم ہے تو اس کی دلیل چاہئے یاد رہے کہ یہاں صرف محبت پر بات کی جائے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کاش علی بہرام صاحب یہ ثابت کر دیتے کہ صحابہؓ نے نبیﷺ سے صرف محبت ہی کی تھی نبیﷺ کی اتباع نہیں کی تھی۔ ہمارا تو موقف ہے کہ ” حقیقی محبت “ وہی کریگا جو ” عمل “ کریگا اور جو ” عمل “ کریگا وہی ” حقیقی محبت “ کریگا۔ ورنہ بغیر عمل کے محبت ایک ” جھوٹی محبت “ ہے بلکہ ایک فریب ہے۔
اگر ہم اللہ تعالٰی سے محض ” قولی محبت “ کا اظہار کریں اور اللہ تعالٰی کے احکامات کی مطلق پیروی نہ کریں تو کیا نجات ممکن ہے ؟ اگر ہاں ! تو اس آیت کا کیا مطلب ہے؟
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
قرآن ، سورت آلِ عمران ، آیت نمبر 31
اس کے لئے ایک حدیث پیش کی تھی جس میں سائل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال
کیا تھا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے اس پر اس سائل نے کہا کہ کچھ بھی نہیں سواء اس کے میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں
یہاں اس سائل جو یقینا صحابی ہیں کے اقرار کے میرے پاس کوئی عمل نہیں کے باوجود اس صحابی کو اتنی بڑی خوش خبری
کہ" تم اس کے ساتھ ہوگے جس سے تمہیں محبت ہے "عطاء کرنا اور اس خوش خبری سے دیگر صحابہ کا بھی خوش ہوجانا
کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
[QUOTE="محمد ارسلان, post: 185373, member: 31"
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک صحابی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں رفاقت کی خواہش ظاہر کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کثرت سجود سے میری مدد کرو" (او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم) ، مطلب نوافل کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے، کیا جس صحابی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں رفاقت کی خواہش ظاہر کی تو ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ہو گی؟ ضرور ہو گی بلکہ یہ محبت کا ہی تو تقاضا ہے، لیکن اس کے باوجود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا "کثرت سجود سے میری مدد کرو" یہ نہیں فرمایا کہ بس رفاقت ہو گئی بلکہ زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی طرف توجہ دلائی تاکہ اللہ کو رضامند کرنے کی کوشش کو تیز کیا جا سکے، یہ ہے اہل ایمان کا طریقہ کار، قرآن و حدیث سے درست استدلال کرنے کے لئے۔[/QUOTE]
لیکن میں نے جو اس مفہوم کی حدیث پڑھ رکھی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان صحابی سے خوش ہوکر فرمایا کہ" مانگ کیا مانگتا ہے " ان صحابی نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنت مانگ لی اورجنت کا بھی وہ مقام جس میں آپ کی رفاقت ہو یعنی صحابی یہ مانتے تھے کہ جنت عطاء کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں ہے لیکن لیکن لیکن آج کا وہابی اس سے انکار کرتا ہے اور دعویٰ یہ کرتا ہے کہ ہم صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہیں !!!!!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
[QUOTE="محمد ارسلان, post: 185373, member: 31"
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک صحابی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں رفاقت کی خواہش ظاہر کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کثرت سجود سے میری مدد کرو" (او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم) ، مطلب نوافل کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے، کیا جس صحابی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں رفاقت کی خواہش ظاہر کی تو ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ہو گی؟ ضرور ہو گی بلکہ یہ محبت کا ہی تو تقاضا ہے، لیکن اس کے باوجود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا "کثرت سجود سے میری مدد کرو" یہ نہیں فرمایا کہ بس رفاقت ہو گئی بلکہ زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی طرف توجہ دلائی تاکہ اللہ کو رضامند کرنے کی کوشش کو تیز کیا جا سکے، یہ ہے اہل ایمان کا طریقہ کار، قرآن و حدیث سے درست استدلال کرنے کے لئے۔


لیکن میں نے جو اس مفہوم کی حدیث پڑھ رکھی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان صحابی سے خوش ہوکر فرمایا کہ" مانگ کیا مانگتا ہے " ان صحابی نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنت مانگ لی اورجنت کا بھی وہ مقام جس میں آپ کی رفاقت ہو یعنی صحابی یہ مانتے تھے کہ جنت عطاء کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں ہے لیکن لیکن لیکن آج کا وہابی اس سے انکار کرتا ہے اور دعویٰ یہ کرتا ہے کہ ہم صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہیں !!!!![/QUOTE]


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :
لَا یُدْخِلُ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ وَلَا یُجِیرُہُ مِنْ النَّارِ وَلَا أَنَا إِلَّا بِرَحْمَۃٍ مِنْ اللَّہِ۔
تم میں سے کوئی بھی شخص اپنی نیکیوں سے جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ہے اور نہ آگ سے بچ سکتا ہے اور میں بھی سواء اللہ کی رحمت کے ۔ ( میں خود محتاج ہوں)[صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۸۱۷]

ابوطالب کو جنت نصیب نہ ہو سکی بلکہ وہ جہنم کا ایندھن بن گیا، کیونکہ ہدایت اور جنت عطا کرنا یہ اللہ تعالیٰ اکیلے کا کام ہے۔
حدثنا مسدد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا يحيى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عبد الملك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عبد الله بن الحارث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا العباس بن عبد المطلب ـ رضى الله عنه ـ قال للنبي صلى الله عليه وسلم ما أغنيت عن عمك فإنه كان يحوطك ويغضب لك‏.‏ قال ‏"‏ هو في ضحضاح من نار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار ‏"‏‏.

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیرنے، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غصہ ہوتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتے۔

حدثنا محمود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عبد الرزاق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا معمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن المسيب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن أبا طالب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لما حضرته الوفاة دخل عليه النبي صلى الله عليه وسلم وعنده أبو جهل فقال ‏"‏ أى عم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قل لا إله إلا الله‏.‏ كلمة أحاج لك بها عند الله ‏"‏‏.‏ فقال أبو جهل وعبد الله بن أبي أمية يا أبا طالب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ترغب عن ملة عبد المطلب فلم يزالا يكلمانه حتى قال آخر شىء كلمهم به على ملة عبد المطلب‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لأستغفرن لك ما لم أنه عنه ‏"‏‏.‏ فنزلت ‏ {‏ ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم‏}‏ ونزلت ‏ {‏ إنك لا تهدي من أحببت‏}‏

ہم سے محمودبن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الرزق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ان کے والد مسیب بن حزن صحابی رضی اللہ عنہ نے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں ابوجہل بھی بیٹھا ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا! کلمہ لا الہٰ الا اللہ ایک مرتبہ کہہ دو، اللہ کی بارگاہ میں (آپ کی بخشش کے لئے) ایک یہی دلیل میرے ہاتھ آ جائے گی، اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا، اے ابوطالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے تم پھر جاؤ گے! یہ دونوں ان ہی پر زور دیتے رہے اور آخر ی کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا، وہ یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان کے لئے اس وقت تک مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ (سورۃ براۃ میں) یہ آیت نازل ہوئی ”نبی کے لئے اور مسلمانوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ مشرکین کے لئے دعا مغفرت کریں خواہ وہ ان کے ناطے والے ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ دوزخی ہیں“ اور سورۃ قصص میں یہ آیت نازل ہوئی ”بیشک جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے۔

حوالہ
صحیح بخاری
کتاب مناقب الانصآر

پس اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت عطا فرمائے اور جسے چاہے جنت عطا فرمائے، اللہ کے سوا اور کسی کے اختیار میں نہیں۔ نا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ان اختیار کا دعویٰ کیا ہے۔
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
علی بہرام صاحب:جناب نے لکھا ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے محبت و تعلق کے باعث نجات"
کیا جناب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف نبی اکرم کی محبت کی وجہ سے موجودہ مسلمانوں کا حشر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو جائے گا عمل کی ضرورت نہیں؟
موجودہ مسلم کہلانے والا شرک و بدعت میں ڈوبا رہے اور صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ رکھے بس اُسکا کام بن گیا؟
بہرام صاحب : سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کی محبت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا جو انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی،لیکن اسکے باوجود آپ نے سیدہ کو کیا فرمایا تھا پڑھئے اور اپنے گریبان میں جھانکئے!

وَيَا فَاطِمَةُ ، بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ".(بخاری)

اے فاطمہ میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو لیکن اللہ کی بارگاہ میں میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا


يَا فَاطِمَةُ ، أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ، "(مسلم)

یہ احادیث تو صاف صاف جناب کے نظریہ (صرف محبت و تعلق باعث نجات) ہوگی کا رد کر رہی ہیں ۔یا یہ کہیں کہ جناب کو سیدہ فاطمہ سے زیادہ نبی اکرم سے محبت ہے؟
اس حدیث کو غور سے پڑھیں:

(کل أمتی یدخلون الجنۃإلا من أبی، قالوا: یا رسول اللہ! ومن یأبی؟ قال من أطاعنی دخل الجنۃ، ومن عصانی فقد أبی) (بخاری)

"ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہےجو بھی میری امت میں سے ہے وہ جنت میں جائےگا،سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا۔پوچھا گيا یا رسول اللہ (جنت میں جانے سے) کون انکار کرےگا؟آپ نے فرمایاجس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگااور جس نے میری نافرمانیکی اس نےجنت میں جانے سے انکار کیا۔
یہ حدیث مبارکہ بھی صاف اعلان کر رہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گا
ماننا پڑے گا کہ محبت کے ساتھ اطاعت رسول بھی ضروری ہے۔صرف محبت کا دعوی کافی نہیں ہوگا



 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میرا خیال ہے علی بہرام صاحب نے شائد کبھی بھی غور سے قرآن کا مطالعہ نہیں کیا اگر کیا ہوتا تو یقینا وہ ایسی خلاف ِ شریعت باتیں نہ کہتے۔ لہذا میں علی بہرام صاحب کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قرآن کا مطالعہ کریں اور پھر اپنی کہی ہوئی باتوں کا جائزہ لیں اور وہ یہ بھی جان لیں گے کہ وہ احادیث جو انہوں نے پیش کر کے اپنا مفہوم نکالنے کی کوشش کی ہے ان کا کیا مطلب ہے۔
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
علی بہرام صاحب : معاویہ بھائی کے جواب میں جناب نے لکھا ہے "اول تو اس روایت کے بقیا ٹکرے کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں تھا " اپنی اس بات پر قائم رہیں؟
اس پورے دھاگہ میں جناب کی کس بات کا تعلق اس دھاگہ کے اصل موضوع (بریلویوں کا مشرکانہ عقیدہ) کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ؟
اس دھاگہ میں پہلا عقیدہ احمد رضا خان کا یہ نقل ہوا ہے کہ "جو شخص کسی نبی یا ولی سے وابستہ ہوگا تو اُس کے پکارنے پر وہ حاضر ہوگا اور اس کی دستگیری کریگا "دوسرا عقیدہ یہ نقل ہوا کہ "جب تمہیں پریشانی کا سامنا ہو تو اہل قبور سے مدد مانگو " تیرا عقیدہ نقل ہوا کہ "میں نے جب بھی مدد طلب کی یا غوث ہی کہا "
ہم اہل سنت کے نذدیک یہ تینوں شرکیہ عقائد ہیں اور ایسا عقیدہ رکھنے والا مشرک کہلائے گا
جناب سے پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ یہ بتائیں کہ یہ مذکورہ بالا عقائد شرکیہ ہیں یا نہیں؟ اگر جواب نفی میں ہو تو یہ بتائیں کہ کیا یہ عقائد قرآن و سنت اور صحابہ کرام سے ثابت ہیں ؟
یہی اس دھاگہ کا اصل موضوع ہے امید ہے کہ جناب اس سے فرار کی کوشش نہیں کریں گے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
قرآن کریم میں الله کا ارشاد ہے کہ :

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ ۖ سوره النساء ١٧١
اے اہِل کتاب تم اپنے دین میں حد سے نہ نکلو اور الله کی شان میں سوائے حق بات کے کچھ نہ کہو-شک مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا الله کا رسول ہے اور الله کا ایک کلمہ ہےجسے الله نے مریم تک پہنچایا اور الله کی طرف سے ایک جان ہے-


اہل کتاب کا حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ سلام کو الله کا بیٹا ماننا محبت میں غلو کی بنا پر ہی تھا اور ہے -

اسی بنا پر نبی کریم نے یہ وحی الہی کے ذریے پیشن گوئی کرتے ہوے فرمایا -

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتّٰی تَأْخُذَ أُمَّتِي بِأَخْذِ الْقُرُونِ قَبْلَهَا شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ کَفَارِسَ وَالرُّومِ فَقَالَ وَمَنِ النَّاسُ إِلَّا أُولٰٓئِکَ۔ (صحیح بخاری۔حدیث ۶۸۳۹ جلد:۲)
احمد بن یونس، ابن ابی ذئب، مقبری، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک کہ میری امت تمام باتوں میں اگلی امتوں کے بالکل اسی طرح برابر نہ ہو جائے گی جس طرح ایک بالشت بالشت کے برابر اور ایک گز گز کے برابر ہوتا ہے، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا روم اور فارس کی طرح؟ آپؐ نے فرمایا: ان کے علاوہ اور کون ہیں۔


چوں کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو معلوم تھا کہ میری امّت میں سے بھی ایسے بدعتی کلمہ گو مشرک پیدا ہونگے جو میری ذات کے حوالے سے اہل کتاب کی طرز پر مجھ سے جھوٹی محبت کا دعوا کریں گے تو آپ نے اپنی ساری امّت کو خبردار کرتے ہوے فرمایا :

لا تطروني کما أطرت النصاری ابن مریم إنما أنا عبد فقولوا عبد اﷲ ورسوله » (صحیح البخاري:۳۴۴۵)
’’مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی شان میں انتہا کر دی میں تو صرف ایک بندہ ہوں پس مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘


وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا سوره الاحزاب ٣٦
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو لائق نہیں کہ جب الله اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دے تو انہیں اپنے کام میں اختیار باقی رہے اور جس نے الله اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہ ہوا-
 
Top