بہتر ھوگا کہ اپنے ملاحظات فورم پر خوش اسلوبی سے پیش کریں -
آپ کا سوال مبہم ہے!کیا کسی کو رضی اللہ عنہ کہا جا سکتا ہے
ان کے بعض امور اچھے ہیں، اور بعض برے!چونکہ فضائل اعمال میں مذکور کچھ واقعات کی تحقیق ہو رہی ہے ۔ تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں، کہ تبلیغی جماعت کے عمومی کام سے متعلق ارکان و احباب کی کیا رائے ہے؟
بلکل! جو اچھی بات ہے، وہ سراہی جانی چاہیئے!میری دانست میں تو معاشرے میں پھیلی بے دینی کے خلاف ہونے والی کوئی بھی مثبت کوشش سراہی جانی چاہیے۔
یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ اس کا عام تبلیغی جماعت کی مصروفیات سے کوئی لینا دینا نہیں!جہاں تک تبلیغی جماعت کے کچھ متنازعہ عقائد کا تعلق ہے، جو کہ بالعموم تصوف کے ذیل کی چیزیں ہیں، ان کا عام تبلیغی جماعت کی مصروفیات میں کوئی خاص لینا دینا نہیں ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان کے بعض امور اچھے ہیں، اور بعض برے!
ان کا عمومی کام یہ ہے کہ یہ پہلے تو تبلیغی نصاب کی تعلیم دیا کرتے تھے، جس میں فضائل حج بھی شامل تھی!
مگر اب فضائل اعمال اور فضائل صدقات کا درس دیا کرتے ہیں، کہ جس میں فضائل حج شامل نہیں!
اور فضائل اعمال اور فضائل صدقات سے باقاعدہ ''تعلیم'' دی جاتی ہے!
اور یہ بدعت، کفر اور شرک کی تعلیم پر مشتمل ہیں!
اچھے بھلے عامی مسلمان کو صوفیت کی بدعات ، کفر اور شرک کا قائل بنانے کی ''تعلیم'' دی جاتی ہے، اور بہت سے اچھے بھلے عامی مسلمان اس بدعت و کفر وشرک کے قائل ہوجاتے ہیں!
بلکل! جو اچھی بات ہے، وہ سراہی جانی چاہیئے!
یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ اس کا عام تبلیغی جماعت کی مصروفیات سے کوئی لینا دینا نہیں!
بلکہ غلط فہمی سے بھی کچھ بڑھ کر!
تبلیغی جماعت کا بنیادی کام ہی ، اس فضائل اعمال و فضائل صدقات کی'' تعلیم ''دینا ہوتا ہے، اور وہ اسی کی ''تعلیم'' کے لئے لوگوں کو بلاتے ہیں!
تبلیغی جماعت نماز کے بعد جس ''تعلیم '' کے لئے لوگوں کو مسجد میں رکنے اور حصہ لینے کا کہتے ہیں، اس ''تعلیم'' میں انہیں دو کتابوں میں سے کسی ایک کتاب سے ''تعلیم'' دی جاتی ہے!
اور یہ روزانہ کا معمول ہے!
ویسے ایک سوال ہے؛
آپ نے یہ تبلیغی نصاب ، یعنی فضائل اعمال، فضائل صدقات اور فضائل حج کا مطالعہ کیا ہے؟
آپ کو اس میں کوئی بدعت، کفر اور شرک نظر آیا ہے؟
اور آپ کہتے ہیں کہ ''ان کا عام تبلیغی جماعت کی مصروفیات میں کوئی لینا دینا نہیں۔''
جزاک اللہ خیرا ابن داود بھائی ، اللہ آپ سے راضی رہے ، آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے -السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کا سوال مبہم ہے!
آپ غالباً یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے علاوہ کسی اور کو رضی اللہ عنہ کہا جا سکتا ہے یا نہیں!
کیوں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں تمام کو رضی اللہ عنہم کہنا تو اہل سنت والجماعت کا شعار ہے!
اور اب ہمارے معاشرے میں صحابہ کے علاوہ دیگر نیک ہستیوں کے لئے رحمۃ اللہ علیہ کہنا رائج ہے!
یعنی عوام الناس جب کسی کے ساتھ رضی اللہ عنہ پڑھتی سنتی ہے تو اگر وہ اس ہستی کو نہ جانتی ہو، تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی سمجھتی ہے!
لہٰذا عوام میں کسی غلط فہمی کے پیدا ہونے کے سدد باب کا لحاظ رکھتے ہوئے، صحابہ کے علاوہ کسی اور کے لئے رضی اللہ عنہ کا استعمال نہ کرنا ہی بہتر ہے!
لیکن رضی اللہ عنہ کا استعمال صحابہ رضی اللہ عنہ کے لئے دیگر کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے!
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورة التوبة100)
اور جو لوگ قدیم میں پہلے ہجرت کرنے والوں اور مدد دینے والو ں میں سے اور وہ لوگ جو نیکی میں ان کی پیروی کرنے والے ہیں الله ان سے راضی ہوئےاوروہ اس سے راضی ہوئےان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے ﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری﴾
اس آیت میں نیلے رنگ والے الفاظ مہاجرین و انصار صحابہ کی بالاحسان پیروی کرنے والے تمام لوگوں کے لئے عام ہیں! یعنی کہ اس میں صحابہ کےعلاوہ داخل ہیں!
جن کے لئے رضی اللہ عنہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے!
صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے ہم یہ اللہ تعالیٰ کی بشارت کے اعتبار سے کہتے ہیں، کہ یقیناً تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ راضی ہے!
اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ دیگر کے لئے یہ باعتبار دعا استعمال ہوتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو!اور اس بشارت میں داخل ہوں!