• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ
"جدھر منہ کرو ادھر اللہ کا چہرہ ہے"
کیا اس سے اللہ کا ہر جگہ ہونا ثابت ہوتا ہے؟
ج:
پوری آیت اس طرح ہے:
وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿١١٥
"اور اللہ ہی کے لیے مشرق و مغرب ہے، جدھر تم رخ کرو ادھر اللہ کا "چہرہ" ہے بے شک اللہ وسعت والا علم والا ہے" (البقرہ:115)
اس آیت کی ابتدا میں اللہ کی بادشاہت کی وسعت کی خبر ہے اور آخر میں اس کی وسعت رحمت اور علم کا ذکر ہے، مفہوم یہ ہوا کہ ہر جگہ اللہ کی حکومت ہے اور کوئی چیز اس کے علم وقدرت سے باہر نہیں، تم جہاں بھی جاؤ اللہ تمہیں جانتا ہے اور تم پر قادر ہے، یہ مفہوم کئی آیات قرآنی میں موجود ہے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّـهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٤٨
"جہاں بھی تم ہوگے اللہ تم سب کو جمع کرے گا، بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے" (البقرہ:148)
اکثر ائمہ مفسرین اس کا شان نزول یہ بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے اپنا قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف تبدیل کیا تو یہودیوں کے اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرق ومغرب سب اللہ کی پیدا کردہ ہے جس کی طرف اللہ تعالی منہ کرنے کا حکم دے وہی قبلہ ہے۔
اگر اس آیت کی بابت صوفیا کے بیان کردہ معنی قبول کیے جائیں تو عظیم فساد لازم آئے گا، کوئی قبر پرست ہو یا بت پرست یا آگ پرست، کوئی پانی کو پوجتا ہو یا درخت کو ، تو وہ کہے گا کہ جب ہر طرف اللہ ہے تو میں تو اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں، پھر تو شرک جائز ہوگا جو قرآنی تعلیم کے صریحاََ خلاف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
" اور کیا تم اپنے نفسوں میں نہیں دیکھتے" (الذاریات:21)
کیا اللہ ہر نفس کے اندر ہے؟
ج:
یہ صوفیا کی دلیری ہے جو اس آیت کو بھی دلیل بناتے ہیں، فرمایا:
وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ ﴿٢٠﴾وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿٢١
" یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں اور خود تمہاری جانوں میں نشانیاں ہیں پھر تم غور کیوں نہیں کرتے" (الذاریات 20، 21)
یعنی ہر چیز میں اللہ تعالٰی کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن کو دیکھ کر ہم یقین کر سکتے ہیں کہ انبیاء علیھم السلام کی توحید کی دعوت برحق ہے۔ آیت قرآنی میں واضح طور پر آیات (نشانیاں) کا ذکر ہے کہ واضح نشانیاں دیکھ کر بھی تم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
"وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن ہے" (الحدید:3)۔ اس آیت کا کیا مطلب ہے؟
ج:
اول سے مراد یہ ہے کہ اللہ سب سے اول اور سب کا خالق ہے۔
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ
" اسی نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا" (ھود:7)
آخر کا مطلب ہے کہ ہر چیز فنا و ہلاک کے بعد بھی موجود ہوگا۔
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ
"اس کے "چہرہ" کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے" (القصص:88)
ظاہر کا مطلب وہ سب مخلوق پر غالب ہے، جیسا فرمایا:
فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ
"پس وہ غالب ہو گئے" (الصف:14)
پس ظاہر "العالی" کے ہم معنی ہوا"
باطن کا مطلب ہر پوشیدہ کو جاننے والا، اور یہ بھی ہے کہ وہ نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔
یہ چاروں نام اللہ کے علو اور مخلوق سے الگ ہونے کو ظاہر کرتے ہیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر کی، اب کسی ایسی تفسیر کی ضرورت نہیں جو آپ کی تفسیر کے خلاف ہو، ایسی ہر تفسیر باطل ہے، فرمایا:
اَللّهُمَّ اَنْتَ الاَْوَّلُ فَلَیسَ قَبْلَک شَیئٌ وَ اَنْتَ الاْ خِرُ فَلَیسَ بَعْدَک شَیئٌ وَ اَنْتَ الظّاهِرُ فَلَیسَ فَوْقَک شَیئٌ وَ اَنْتَ الْباطِنُ فَلَیسَ دُونَک شَیئٌ (مسلم:2713)
" اے اللہ آپ سب سے پہلے ہیں آپ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی، آپ آخر ہیں آپ کے بعد کوئی چیز نہیں آپ ظاہر ہیں آپ کے اوپر کوئی چیز نہیں، آپ الباطن ہیں آپ سے مخفی کوئی چیز نہیں "فَلَیسَ فَوْقَک شَیئٌ "آپ سے اوپر کوئی چیز نہیں صفت علو کو ثابت کر رہی ہے"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا اللہ تعالٰی نے فرمایا: ( کُنتُ کَنزََا مَّخفِیََّا۔۔۔۔الخ) میں مخفی خزانہ تھا، جسے کوئی نہ جانتا تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق پیدا کی اور ان کو اپنی معرفت دی پھر انہوں نے مجھے پہچان لیا؟
ج:
صوفیا کی بیان کردہ یہ روایت بالکل جھوٹی اور بناوٹی ہے، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی کوئی صحیح یا ضعیف سند معروف ہے، ملا علی قاری نے بھی موضوعات کبیر میں اس کا ذکر کیا، امام سخاوی کے حوالے سے ضعیف کہا۔معنی کے لحاظ سے بھی یہ روایت باطل ہے، اللہ تعالٰی تو ہمیشہ سے "الظاہر" ہے وہ کائنات کے وجود سے پہلے بھی ظاہر تھا، پھر صوفیا نے (کُنتُ کَنزََا) کے بعد بیج اور درخت کی مثال دی، تو اللہ بمثل بیج ہوا اور کائنات بمثل درخت، بیج تو ختم ہو کر درخت بن گیا، اللہ تعالی کے لیے یہ مثال تو مالک کی گستاخی ہے، نَعُوذُ بِاللہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا اللہ تعالی فرماتا ہے:
قَلبُ المُومِنِ بَیتُ الرَّبِّ
" مومن کا دل رب کا گھر ہے؟ "
ج:
یہ روایت بے اصل یعنی جھوٹی اور باطل ہے، امام سخاوی، ابن تیمیہ اور ملا علی قاری نے موضوع (من گھڑت) قرار دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اولاد آدم کا دل رحمٰن کی دو انگلیوں میں ہے، وہ جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے" (مسلم:2654)
یعنی سب قلوب اللہ تعالی کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، اور یہ جھوٹی روایت کہتی ہے کہ ہر قلب اللہ تعالی کو محیط ہے، (سبحان اللہ تعالی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَن عَرَفَ نَفسَہُ فَقَد عَرَفَ رَبَّہ)
" جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا؟"۔
ج:
یہ بھی من گھڑت روایت ہے، اس کی سند کا ہی پتہ نہیں، امام نووی رحمہ اللہ نے کہا " لَیسَ ھُوَ بِثَابِتِِ" یہ ثابت نہیں ہے، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے موضوع کہا۔
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسناد دین میں سے ہیں، اگر اسناد نہ ہوں تو جو کوئی جو چاہے کہتا رہے(مقدمہ مسلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میرا بندہ نوافل پڑھتے پڑھتے میرے قریب ہوتا رہتا ہے حتٰی کہ میں اس کو محبوب بنا لیتا ہوں، پھر میں اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اسکا ہاتھ ہوتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے اور پاؤں ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے" (صحیح بخاری:6501)
اس حدیث کا کیا مفہوم ہے؟
ج:
علمائے سلف نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ وہ مکمل طور پر اللہ تعالی کے ساتھ مشغول ہے، اس کا کان ادھر ہی متوجہ ہو جاتا ہے، جس طرف اللہ راضی ہوتا ہے اور اپنی آنکھ سے وہی کچھ دیکھتا ہے جس کا اللہ نے اسے حکم دے رکھا ہے وہ اپنا ہاتھ پاؤں اللہ کی رضا کے کام کی طرف بڑھاتا ہے، یعنی وہ شخص اس کو نہیں سنتا جس کے سننے کی شرع اجازت نہ دے، نہ ہی اسے دیکھتا ہے جسے دیکھنے سے شرع نے منع کیا ہے، خلافِ شرع کسی چیز کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا اور نہ ہی اس کام کی طرف چلتا ہے جس کے کرنے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔
فرقہ حلولیہ اور اتحادیہ کا یہ خیال کہ یہ کلام حقیقت پر ہے اور اللہ تعالٰی عین عبد بن جاتا ہے یا اس میں حلول کر چکا ہے عین گمراہی اور کفر ہے، حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں، اگر اس نے مجھ سے سوال کیا تو میں اس کا سوال پورا کروں گا، اگر پناہ طلب کرے تو پناہ دوں گا، یہ الفاظ دلیل ہیں کہ اللہ اور بندہ الگ الگ ہیں، اللہ انسان میں حلول نہیں کرتا، اگر حلولیہ کے معنی مراد لیے جائیں تو پھر اس مرتبہ پر پہنچا ہوا شخص ہاتھ سے استنجا کیوں کرتا ہے، ہاتھ گندگی میں کیوں ڈالتا ہے، پاؤں سے بیت الخلا کو کیوں جاتا ہے؟ اسی طرح آنکھ اندھی، کان بہرا، ہاتھ لُولا، یا پاؤں لنگڑا کیوں ہوتا ہے۔ کیا ان صفات کو اللہ کی طرف منسوب کرو گے، استغفر اللہ ثم استغفر اللہ، سب سے زیادہ اقرب الی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر زخمی ہوگیا اور اس سے خون نکلنا شروع ہوا" (بخاری:5722، مسلم:1790)
کیا معاذ اللہ خود اللہ ہی کو یہ زخم ہوا تھا؟
اگر صوفیا کے معنی لیے جائیں تو جس کا ہاتھ، پاؤں، آنکھ اور کان اللہ ہے اس کو تکبر سے کیا منع؟
پھر جن آیات واحادیث میں تکبر کرنے سے منع فرمایا وہ کن کے لیے ہے؟ لہذا وہ معنی جو سلف صالحین نے بیان کیے وہی درست ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ
" (اے محمد) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے (کنکریاں) نہیں پھینکیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں" (الانفال:17)
اس آیت کا کیا مفہوم ہے؟
ج:
یہاں بھی اللہ تعالی نے آپ کے فعل کو اپنی طرف منسوب کیا، لیکن إِذْ رَمَيْتَ کہہ کر کنکریوں کو پھینکنے کا فعل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا پھر نفی کر کے اپنی طرف اضافت کی، فعل ایک ہی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے پھینکی، جبکہ اس کا سبب اللہ تعالی کا ارادہ اور مشیت ہے، جس نے ایسا کرنے کا حکم دیا اور پھر ان کنکریوں کو مشرکین تک پہنچا دیا، چونکہ مخلوق کے کاموں کا سبب اللہ تعالی کی مشیت اور ارادہ ہی ہے، وہی انسانوں کو توفیق دیتا ہے، اسباب مہیا کرتا ہے، وہی ہر کوشش کو کامیاب کرتا ہے اس لیے اس کام کو اللہ تعالی اپنی طرف منسوب فرماتا ہے:
درج ذیل آیت کا بھی یہی مفہوم ہے:
فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ قَتَلَهُمْ
" تم نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی نے انہیں قتل کیا ہے" (الانفال:17)
یہاں بھی سبب اللہ تعالی ہے، اسی کے حکم سے مومنین نے ان سے قتال کیا اور وہی مومنین کو فتح دینے والا ہے لہذا اس فعل کی اضافت اللہ کی طرف بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن اللہ تعالٰی کہے گا، اے ابن آدم میں بیمار ہو گیا تھا تو نے میری طبع پرسی نہ کی وہ کہے گا اے رب میں رب العالمین کی طبع پرسی کیسے کر سکتا ہوں، اللہ تعالی فرمائے گا میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی طبع پرسی نہ کی، اگر تو اس کی طبع پرسی کرتا مجھے اس کے ہاں پاتا" (مسلم:2569)
اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟
ج:
امام نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں، علماء نے کہا کہ اللہ تعالی نے بیماری کی نسبت اپنی طرف کی ہے جبکہ مراد بندہ ہے، بندے کی عزت افزائی اور اظہار شرف و قرب کے لیے اور وَجَدتَّنِی عِندَہُ کامطلب ہے کہ اس کا ثواب وہاں پاتا۔
میری رحمت، میرا فضل وثواب اور تیری عبادت کی عزت افزائی وہاں پاتا، اگر اس حدیث کے وہ معنی لیے جائیں جو صوفیا لیتے ہیں کہ وہ نیک بندہ اللہ ہی ہے تو سوچیئے کیا اللہ بیمار ہو سکتا ہے، بھوکا پیاسا بھی ہے، یقینا نہیں، وہ تو بے مثل ہے، یہ سب نقائص اور حاجات ہیں، جبکہ اللہ تعالی بے مثل سب نقائص و حاجات سے پاک ہے، اس حدیث میں بیان یہ ہوا ہے کہ کسی بیمار کی عیادت، کسی کو کھلانا اور پلانا ایسا محبوب عمل ہے جس کی جزا یقینی ہے، بندے کا یہ کہنا کہ کَیفَ اعُوذُکَ میں تیری بیمار پرسی کیسے کرتا، دلیل ہے کہ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ تعالی ان سب چیزوں سے بے نیاز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شرک فی الصفات

س:
کیا اللہ کے سوا کوئی مختار کل ہے؟ یعنی لوگوں کی مشکلات حل کرنے پر قادر؟
ج:
اللہ تعالی فرماتا ہے: قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا
"(اے رسول!) آپ کہہ دیجئے کہ اگر اللہ مسیح ابن مریم، ان کی والدہ اور روئے زمین کے تمام لوگوں کو ہلاک کرنا چاہے تو کون ہے جسے اللہ کے مقابلے میں ذرا سا بھی اختیار ہو (کہ انہیں ہلاکت سے بچالے)" المائدۃ:17
جن کو لوگ مشکل کشا سمجھتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا:
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ
"اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو کسی چیز کے مالک نہیں" (الفاطر:13)
سید البشر امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کروایا:
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ
"کہہ دو میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں" (الانعام:50)
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ
"کہہ دو میں تو اپنے لیے نفع و نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جتنا اللہ چاہے"۔(یونس:49 اور الاعراف:188 میں بھی یہی بات کہی ہے)
قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا
"کہہ دو کہ میں تمہارے لیے نفع و نقصان کا اخیتار نہیں رکھتا" (الجن:21)
ساری مخلوقات سے افضل امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے لیے اور اپنے سوا کسی اور کے لیے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے تو پھر اللہ قادر مطلق کے علاوہ کسی اور کو امداد کے لیے کیسے پکارا جاسکتا ہے؟ اس لیے فرمایا:
وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ
" اور اگر اللہ تعالی تجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اس تکلیف کو دور کرنے والا نہیں" (الانعام:17)
 
Top