- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
س:
اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ
"جدھر منہ کرو ادھر اللہ کا چہرہ ہے"
کیا اس سے اللہ کا ہر جگہ ہونا ثابت ہوتا ہے؟
ج:
پوری آیت اس طرح ہے:
وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿١١٥﴾
"اور اللہ ہی کے لیے مشرق و مغرب ہے، جدھر تم رخ کرو ادھر اللہ کا "چہرہ" ہے بے شک اللہ وسعت والا علم والا ہے" (البقرہ:115)
اس آیت کی ابتدا میں اللہ کی بادشاہت کی وسعت کی خبر ہے اور آخر میں اس کی وسعت رحمت اور علم کا ذکر ہے، مفہوم یہ ہوا کہ ہر جگہ اللہ کی حکومت ہے اور کوئی چیز اس کے علم وقدرت سے باہر نہیں، تم جہاں بھی جاؤ اللہ تمہیں جانتا ہے اور تم پر قادر ہے، یہ مفہوم کئی آیات قرآنی میں موجود ہے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّـهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٤٨﴾
"جہاں بھی تم ہوگے اللہ تم سب کو جمع کرے گا، بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے" (البقرہ:148)
اکثر ائمہ مفسرین اس کا شان نزول یہ بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے اپنا قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف تبدیل کیا تو یہودیوں کے اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرق ومغرب سب اللہ کی پیدا کردہ ہے جس کی طرف اللہ تعالی منہ کرنے کا حکم دے وہی قبلہ ہے۔
اگر اس آیت کی بابت صوفیا کے بیان کردہ معنی قبول کیے جائیں تو عظیم فساد لازم آئے گا، کوئی قبر پرست ہو یا بت پرست یا آگ پرست، کوئی پانی کو پوجتا ہو یا درخت کو ، تو وہ کہے گا کہ جب ہر طرف اللہ ہے تو میں تو اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں، پھر تو شرک جائز ہوگا جو قرآنی تعلیم کے صریحاََ خلاف ہے۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ
"جدھر منہ کرو ادھر اللہ کا چہرہ ہے"
کیا اس سے اللہ کا ہر جگہ ہونا ثابت ہوتا ہے؟
ج:
پوری آیت اس طرح ہے:
وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿١١٥﴾
"اور اللہ ہی کے لیے مشرق و مغرب ہے، جدھر تم رخ کرو ادھر اللہ کا "چہرہ" ہے بے شک اللہ وسعت والا علم والا ہے" (البقرہ:115)
اس آیت کی ابتدا میں اللہ کی بادشاہت کی وسعت کی خبر ہے اور آخر میں اس کی وسعت رحمت اور علم کا ذکر ہے، مفہوم یہ ہوا کہ ہر جگہ اللہ کی حکومت ہے اور کوئی چیز اس کے علم وقدرت سے باہر نہیں، تم جہاں بھی جاؤ اللہ تمہیں جانتا ہے اور تم پر قادر ہے، یہ مفہوم کئی آیات قرآنی میں موجود ہے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّـهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٤٨﴾
"جہاں بھی تم ہوگے اللہ تم سب کو جمع کرے گا، بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے" (البقرہ:148)
اکثر ائمہ مفسرین اس کا شان نزول یہ بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے اپنا قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف تبدیل کیا تو یہودیوں کے اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرق ومغرب سب اللہ کی پیدا کردہ ہے جس کی طرف اللہ تعالی منہ کرنے کا حکم دے وہی قبلہ ہے۔
اگر اس آیت کی بابت صوفیا کے بیان کردہ معنی قبول کیے جائیں تو عظیم فساد لازم آئے گا، کوئی قبر پرست ہو یا بت پرست یا آگ پرست، کوئی پانی کو پوجتا ہو یا درخت کو ، تو وہ کہے گا کہ جب ہر طرف اللہ ہے تو میں تو اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں، پھر تو شرک جائز ہوگا جو قرآنی تعلیم کے صریحاََ خلاف ہے۔