• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا اللہ کے سوا کوئی اور مافوق الاسباب (بغیر اسباب کے) لوگوں کی تکلیف کا علم رکھتا ہے؟
ج:
اللہ تعالی ہی اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے، فرمایا:
إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا
"بے شک اللہ اپنے بندوں سے خبردار ہے اور ان کو دیکھ رہا ہے۔" (الاسرا:30)
کسی فوت شدہ بزرگ کو لوگوں کی تکالیف کا علم نہیں ہوسکتا، اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ
" اور اس شخص سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو اللہ کے سوا کسی ایسے کو پکارے جو قیامت تک بھی اسے جواب نہ دے سکے اور وہ اس کی پکار ہی سے غافل ہو" (الاحقاف:5)
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ
"(اے نبی!) آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں" (الفاطر:22)
فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ
" پس بے شک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے" (الروم:52)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو نہیں سنا سکتے تو اور کون ہے جو مردوں کو اپنی مشکلات سے آگاہ کر سکے، اس لیے فرمایا:
أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ
" بھلا کون بے قرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور کون اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے" (النمل:62)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا اللہ کے سوا کوئی اور عالم الغیب ہے؟
ج:
اللہ تعالی فرماتا ہے: قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
" کہہ دو جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں غیب کی باتیں نہیں جانتے سوائے اللہ کے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کب (زندہ کر کے) اُٹھائے جائیں گے" (النمل:65)
سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کروایا: وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ
" اور نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں" (الانعام:50)
اور فرمایا: وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ
" اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی" (الاعراف:188)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے تو آپ نے بہت سے ماضی کے واقعات اور مستقبل کی پیشین گوئیاں کیسے کیں؟
ج:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ
" اللہ عالم الغیب ہے وہ کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا سوائے جس رسول کو منتخب فرما لیتا ہے، (اس کو غیب کی بعض باتیں بذریعہ وحی بتاتا ہے)" الجن:26،27
اور فرمایا:
وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ
" اور اللہ تعالی تم کو براہ راست غیب کی باتیں نہیں بتاتا البتہ اپنے رسولوں میں سے جن کو چاہتا ہے چن لیتا ہے، لہذا تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو" (آل عمران:179)
معلوم ہوا کہ اللہ تعالی ہی عالم الغیب ہے، وہ غیب کی بعض باتیں اپنے رسولوں کو بتاتا ہے، بلکہ تمام دین پردہ غیب ہی سے رُسل و انبیاء کو بتلایا جاتا ہے، ان کے علاوہ کسی کو نہیں بتاتا، اگر کوئی شخص رسول نہ ہو اور پھر بھی وہ یہ دعوی کرے کہ اس کے پاس غیب کی خبریں آتی ہیں وہ جھوٹا ہے، جو باتیں رسولوں کو منجانب اللہ بتائی جاتی ہیں وہ ان لوگوں تک پہنچانے میں بخل نہیں کرتے، بلکہ اسے کما حقہ پہنچانے کے لیے کسی قربانی سے گریز نہیں کرتے:
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ
" اور یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ باتوں کے ظاہر کرنے میں بخیل نہیں"
اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ
" اے رسول آپ پہنچا دیجئے جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے"
معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کا علم ازلی و ابدی ہے، لازوال ہے، لامحدود ہے، ذاتی ہے جبکہ مخلوق کا علم وقتی، محدود اور مشروط ہے، زوال پذیر ہے۔
اللہ تعالی کے علم میں کسی دوسرے کو شریک سمجھنا شرک فی العلم ہے، اللہ تعالی نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ نے قرب قیامت کی علامات، دجال کی آمد اور نزول عیسیٰ سمیت بہت سے واقعات بیان فرمائے اور جب اللہ نے اطلاع نہیں دی تو:
1۔۔آپ نے اس منافق کے ساتھ ستر جلیل القدر صحابہ بھیج دئیے جس نے کہا تھا کہ اسے تبلیغ اسلام کے لیے مبلغین چاہییں اور راستہ میں اس نے دھوکہ سے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو شہید کروادیا (بخاری:4090، مسلم:677)
2--آپ نے ایک یہودی کے ہاں زہر آلود کھانا کھا لیا جس سے ایک صحابی موقع پر شہید ہو گئے اور وفات کے وقت زہر نے آپ پر بھی اثر دکھایا (ابوداؤد:2190، بخاری:2617)
3--منافقین نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی، آپ ایک ماہ تک سخت پریشان رہے، ایک ماہ بعد اللہ تعالی نے بذریعہ وحی عائشہ رضی اللہ عنہا کو بری کیا اور آپ کی پریشانی دور ہوئی (بخاری:4750)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
بعض نجومی آنے والے حالات کی خبر دے دیتے ہیں ان کو مستقبل کے حالات کا علم کیسے ہوتا ہے؟
ج:
جنات نے آسمان دنیا میں فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے کچھ جگہیں بنائی تھیں، نزول قرآن کے وقت ان کے سننے پر پابندی لگ گئی تھی:
وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ
" اور ہم (اس سے قبل) سننے کی جگہوں پر بیٹھا کرتے تھے"۔ الجن:9
اور یہ بھی فرمایا:
وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ
"اور بے شک شیطان اپنے رفیقوں کے دلوں میں بات ڈالتے ہیں"۔الانعام:121
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب اللہ تعالی کسی بات کا فیصلہ فرماتے ہیں تو عرش اُٹھانے والوں کے قریبی فرشتے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا، آسمان دنیا والوں تک بات پہنچتی ہے، پھر جنات کچھ بات جھپٹ کر اپنے دوستوں کو لادیتے ہیں جو اس میں اضافے کر کے لوگوں میں بیان کرتے ہیں"۔ بخاری:3210، مسلم:2228
معلوم ہوا کہ بطور آزمائش اگر اللہ چاہے تو نجومیوں کو شیطان جنوں سے بعض صحیح خبریں مل سکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی فرمائے گا:
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ
" اے گروہ جنات تم نے انسانوں سے بہت (فائدے) حاصل کیے (تو انسانوں میں ان کے دوست کہیں گے)"
رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ
"اے ہمارے رب ہم ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرتے رہے"۔ الانعام:128
پھر اللہ تعالی شیطان اور ان کے انسانی دوستوں کو جہنم میں داخل فرمائے گا، معلوم ہوا کہ انسان اور جنات ایک دوسرے سے فائدے حاصل کرتے رہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی اور آپ کائنات میں ہونے والے تمام واقعات دیکھ رہے تھے اور ماکان ومایکون "جو ہوگیا اور جوہونا تھا" کا علم رکھتے تھے؟
ج:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام کے آخر میں 571ء میں آمنہ کے گھر مکہ میں پیدا ہوئے، ایسا کوئی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے کہ " اللہ تعالی نے سب سے پہلے مجھے پیدا کیا" اور ایسی روایات بلا سند اور من گھڑت ہیں، ان روایات کو فرمان رسول کہنا سخت گناہ ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
" یہ غیب کی باتیں ہیں جو ہم آپ پر وحی کر رہے ہیں، جب (برادران یوسف علیہ السلام نے) اپنی بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ فریب کر رہے تھے تو تم ان کے پاس نہ تھے"۔یوسف:102
اور یہ بھی فرمایا:
وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ
" اور جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم بھیجا تو تم (طور کے) مغرب میں نہیں تھے اور نہ ہی اس واقعہ کے دیکھنے والوں میں سے تھے"۔ قصص:44
ایسی بات آل عمران:44 اور ھود:49 میں بھی ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ
" اور بہت سے رسول ہیں جن کے حالات ہم نے آپ سے بیان نہیں کیے"۔ النساء:164
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کروایا:
وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ
" اور میں اول مسلم ہوں"۔ الانعام:163
اگر آپ سب سے پہلے پیدا نہیں ہوئے تو اول مسلم کیسے ہوسکتے ہیں؟
ج:
جب موسی علیہ السلام نے اللہ کی تجلی دیکھی اور بے ہوش ہوگئے ، ہوش آنے کے بعد کہنے لگے:
سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
" تیری ذات پاک ہے میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں اول مومن ہوں"۔ الاعراف:143
جادوگر جب موسی علیہ السلام سےمقابلہ کرنے میں ناکام ہوئے اور اللہ تعالی پر ایمان لے آئے تو کہنے لگے:
أَن كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ
" ہم اول مومن ہیں"۔ الشعراء:51
معلوم ہوا اول مسلم سے یہ مراد لینا کہ ان سے پہلے مسلم موجود نہ تھے، قرآنی منشا کے مطابق نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
لَولَاکَ لَمَا خَلَقتُ اَلَافُلَاکَ
" اے محمد! اگر تجھے پیدا نہ کرتا تو کائنات پیدا نہ کرتا"
کیا اس حدیث کی بنا پر آپ کو سب سے پہلے نہیں ہونا چاہیے؟
ج:
یہ روایت من گھڑت ہے، امام الصنعانی نے اسے موضوع قرار دیا ہے، ایسی بلا سند روایت کو ماننا جائز نہیں ہے جبکہ قرآن حکیم بھی اس نظریہ کی تردید کرتا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
" میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے"۔ الذاریات:56
معلوم ہوا کہ تخلیق کائنات کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا مقصد بھی اللہ تعالی کی عبادت ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَا أَرْ‌سَلْنَاكَ إِلَّا رَ‌حْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
" اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے"۔ الانبیاء:107
جہان میں تو آدم علیہ السلام سے لے کر ہر نبی علیہ السلام کی اُمت شامل ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب رسولوں کے آخر میں آئے تو پہلے لوگوں کے لیے رحمت کیسے ہوں گے؟
ج:
دراصل عالمین کے لفظ سے دھوکہ ہوا ہے، یقینا اللہ رب العالمین ہے اور اس آیت میں عالمین سے مراد کائنات کی ہر چیز ہے مگر دوسروں کے لیے "عالمین" محدود ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
تَبَارَ‌كَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْ‌قَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرً‌ا
" وہ بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ "عالمین" کو ڈرائے"۔ الفرقان:1
اس آیت پر غور فرمائیں یہاں "عالمین" میں نہ فرشتے شامل ہیں اور نہ ہی پہلی اُمتیں، یہاں عالمین سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے لوگ ہیں۔
اللہ تعالی نے پیدائش عیسیٰ علیہ السلام کو آيَةً لِّلْعَالَمِينَ۔ الانبیاء:91
"تمام عالمین کے لیے نشانی" قرار دیا۔
سوچیئے عیسیٰ علیہ السلام اپنی پیدائش سے قبل کے لوگوں پر کیسے نشانی ہو سکتے ہیں؟
قوم موسیٰ کے بارے میں فرمایا:
وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ۔ البقرہ:122
" اور میں نے تم کو عالمین پر فضیلت دی"
اس آیت میں عالمین مزید محدود ہوگا کیونکہ قوم موسیٰ علیہ السلام کو اُمت محمد یہ پر فضیلت نہیں ملی، اور نہ ہی انبیاء علیھم السلام پر انہیں فضیلت دی گئی تھی۔ ان دلائل سے واضح ہے کہ رحمۃ للعالمین کو بنیاد بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سب سے پہلے ثابت نہیں کی جاسکتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ تعالی شیطان سے سوال کرتا ہے:
قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْ‌تَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ ۔ ص:75
"فرمایا اے ابلیس جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا، کیا تو غرور میں آگیا یا عالین (اونچے درجے والوں) میں سے ہے"۔
کیا عالین (اونچے درجے) میں کچھ لوگ تھے جو سجدہ سے مستثنیٰ تھے کیا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد ہیں اور جو آدم کی پیدائش سے پہلے موجود تھے؟
ج:
قرآن و سنت میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد عالین میں سے ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے موجود تھے، بلکہ اللہ تعالی فرعون اور اس کی جماعت کے بارے میں فرماتا ہے:
وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ ۔ المومنون:46
" اور وہ عالین میں سے تھے"۔
معلوم ہوا عالین سے مراد سرکش لوگ ہیں معاذ اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد نہیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو "شاہد" کا خطاب دیا، شاہد کے معنی گواہ ہیں، گواہی وہی دے سکتا ہے جو موقع پر موجود ہو، اگر آپ شروع سے موجود نہیں اور لوگوں کے حالات پر حاضر ناظر نہیں تو قیامت کے دن گواہی کیسے دیں گے؟
ج:
قیامت کے دن کی گواہی کی تفصیلی کیفیت اللہ ہی کے علم میں ہے، یہ گواہی کراما کاتبین کے لکھے ہوئے نامہ اعمال کی بنیاد پر ہوگی، انسانی اعضا بھی گواہی دیں گے، جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہد ہونے کا تعلق ہے تو اس شہادت کا تعلق اس دنیا سے ہے۔
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّ‌سُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا۔ البقرۃ:143
" اور اس طرح ہم نے تمہیں امتِ وسط بنایا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے"۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں حق کی گواہی دی اس حق کی گواہی کے نتیجہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اسلام قبول کیا پھر صحابہ نے حق کی یہ گواہی اگلے لوگوں تک پہنچائی، شہادت حق کا یہ فریضہ ہر زمانہ میں اُمت مسلمہ پر فرض ہے، آپ شاہد تھے یعنی اپنی زندگی میں حق کی گواہی دیتے تھے اور نذیر تھے، لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈراتے تھے، اب یہی شہادتِ حق کا فریضہ اُمت مسلمہ کے ذمہ ہے۔
ہم سابقہ انبیاء کی قوموں کے خلاف بھی گواہی دیں گے اور جب ہم پچھلی قوموں پر حاضر ناظر نہیں تو پھر گواہی کیسے ہوگی؟ یہ اللہ ہی کے دئیے ہوئے علم کی بنیاد پر ہوگی۔
معلوم ہوا کہ "شاہد" کے لفظ کو بنیاد بنا کر جو عقیدہ تراشہ گیا ہے وہ بے بنیاد ہے۔
 
Top