• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس نے یہ حدیث سنی اور رفع الیدین نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے "

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
محترم!!!لگتا ہے آپ نے میرے سکین کو پڑھا ہی نہیں!میں نے یہ سکین لگایا تھا۔۔اس میں تخریج لکھی ہوئی ہے جس میں کتاب اور احادیث کے مکمل حوالے موجود ہیں جس جس نے اسے ضعیف کہا۔۔۔۔شاید آپکی نظر کمزور ہے یا شاید عربی نہیں آتی جو آپ نے اس تخریج کو نہیں پڑھا
محترم! میں تخریج وغیرہ ہی کے متعلق استفسار کر رہا ہوں کہ ضعف کی کوئی دلیل بھی ہے یا کہ آپ لوگوں کی طرح میں اس کو بے دلیل کے ہی صحیح مان لوں۔اس پر جو ضعیف کا ”حکم“ صادر ہؤا ہے اس کی کیا دلیل ہے۔ کیا میں آپ کی طرح اندھی تقلید کرتے ہوئے بلا چوں چرا مان لوں جبکہ ایک محدث اس کو ”صحیح“ کہہ رہا ہے۔

اس حدیث کو صحیح کس نے کہا؟اور دماغ کو تھوڑا کنٹرول رکیں تو بہتر ہو گا جواب دینا ہمیں بھی آتا ہے آپ نے ’لا مذہب‘کہا یعنی کوئی مذہب نہیں(ہمارا!)میں بھی بہت کچھ کہ سکتا ہوں مگر بات کسی اور طرف نکل جائے گی۔۔۔آپ نے کہا ’لا مذہب ‘ اسے ضعیف کہتے ہیں تو کیا اما م آج کے عالم ہیں اور ان کا کوئی مذہب نہیں ہے؟ابن حزم کا کوئی مذہب نہیں!اور کیا وہ آج کے عالم ہیں؟سیر اعلام النبلاء میں امام نسائی ؒ نے سعید کو مدلس کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آپ کہتے ہیں محدث نے تو اسے صحیح کہا؟اب آپ اس کا صحیح ہونا ثابت کریں
”مدلس“ کسے کہتے ہیں؟ وضاحت فرما دیں مگر پانی پی کر کہ لگتا ہے پارہ بہت اونچا چڑھا ہؤا ہے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
محترم! میں تخریج وغیرہ ہی کے متعلق استفسار کر رہا ہوں کہ ضعف کی کوئی دلیل بھی ہے یا کہ آپ لوگوں کی طرح میں اس کو بے دلیل کے ہی صحیح مان لوں۔اس پر جو ضعیف کا ”حکم“ صادر ہؤا ہے اس کی کیا دلیل ہے۔ کیا میں آپ کی طرح اندھی تقلید کرتے ہوئے بلا چوں چرا مان لوں جبکہ ایک محدث اس کو ”صحیح“ کہہ رہا ہے۔
محترم!!!شاید یاداشت کمزور ہے آپکی!@اسحاق سلفی بھائی آپکو وضاحت کر چکے ہیں کہ قتادہؒ مشہور مدلس ہیں اور اسکا ثبوت بھی دے چکے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ سماعت کی تصریح نہ ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے مگر چونکہ آپ ایک ہٹ دھرم فرقے سے ہیں اسلئے آپ ’’میں نہ مانوں‘‘کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔۔۔اس سے پہلے میں نے جو سوال کئے تھے آپ نے ان کے کوئی جواب نہیں دیے ۔میں نے پوچھا تھا اس حدیث کو صحیح کس نے کہا میرے سکین میں حوالے کے ساتھ موجود ہے کہ خود امام نسائیؒ نے مدلس کہا۔ اور مدلس کی روایت ضعیف ہوتی ہے جب کہ سماعت کی تصریح نہ ہو۔۔۔۔اب آپ ثبوت دیں کہ امام صاحب نے کہاں اس حدیث کو صحیح کہا! اب آگے کے الفاظ اسحاق سلفی بھائی کے ہیں جسکا آپ نے جواب نہیں دیا تھا اور یہاں مجھ سے سوال کیا ضعیف کی دلیل کیا ہے حالانکہ آپکو جواب دیا جا چکا تھا۔۔ مقلد مفتی عبد الرحمن صاحب !
تقلید ایسی بیماری ہے جس کے سبب حدیث کی تحقیق اور تفہیم ممکن ہی نہیں ۔
سنئے ؛؛؛۔اس حدیث یعنی سیدنا مالک بن حویرث ؓ کی حدیث میں ’’ قتادہ ‘‘ رحمہ اللہ مشہور مدلس ہیں ۔اور یہاں انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی ، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے ۔علامہ عراقی نے ’’کتاب المدلسین ‘‘ اور ابن حجر نے ’’ طبقات المدلسین میں اور سیوطی ؒ نے ۔۔اسماء المدلسین میں قتادہ کو مشہور مدلس قرار دیا ہے ۔
علامہ ولی الدین ابن عراقی کی ’’ کتاب المدلسین ‘‘ کے الفاظ درج ذیل ہیں ::
sajday۱.jpg
پھر میں نے پوچھا تھا کہ کیا یہ سب امام آج کے اہلحدیث ہیں یا قدیم محدثین؟جواب نہ آیا ۔۔۔۔۔۔کیا یہ سب بھی لا مذہب ہیں آپکی نظر میں جنہوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا۔۔۔جواب نہ آیا۔۔دراصل یہ اہلحدیثوں سے بغض کے سوا اور کچھ نہیں۔


”مدلس“ کسے کہتے ہیں؟ وضاحت فرما دیں مگر پانی پی کر کہ لگتا ہے پارہ بہت اونچا چڑھا ہؤا ہے۔
جناب والا میرا تو صرف پارہ چڑھا(بقول آپ کے)مگر آپ تو اخلاق سے ہی عاری ہیں جو اپنے خلاف ثبوت دیکھ کر دوسروں کو لا مذہب یعنی کوئی مذہب نہیں کہنے لگے یہ بھی نہ سوچا کہ اس حکم کی زد میں وہ سب محدثین آئیں گے جنہوں نے اسے ضعیف قرار دیا ہوا ہے۔۔اس لئئے میرے پارے کی بجائے اپنی فکر کریں جو بغیر علم کے مسلسل اپنے باطل دعوے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔اب آتے ہیں مدلس کی تعریف پر تو نیچے پڑھ لیں
تدلیس کے لغوی معنی

'تدلیس' کے لغوی معنی پوشیدگی اور پردہ پوشی کے ہیں۔ اسی سے الدَلس (دال اور لام کی زبر کے ساتھ) ہے جس کا مطلب ہے:اختلاط النور بالظلمَة یعنی ''اندھیرے اور اُجالے کا سنگم'' دلس البائع کے معنی:بائع کا خریدار سے سودے کے عیب کو چھپانا ہے۔

(مزید تفصیل:الصحاح للجوھري:۲؍۹۲۷،لسان العرب:۷؍۳۸۹، تاج العروس: ۴؍۱۵۳ )

اِصطلاحی تعریف

اگر راوی اپنے ایسے اُستاد جس سے اس کا سماع یا معاصرت ثابت ہے وہ روایت عَن، أنَّ،قَال،حدَّث وغیرہ الفاظ سے بیان کرے، جسے درحقیقت اُس نے اپنے اُستاد کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے سنا ہے اور سامعین کو یہ خیال ہو کہ اس نے یہ حدیث اپنے اُستاد سے سنی ہوگی تو اسے 'تدلیس' کہا جاتا ہے۔ (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح:ص۶۶)

تدلیس کی مرکزی قسمیں دوہیں:

A تدلیس الاسناد

اس کی دو تعریفیں ہیں:

a راوی کا اپنے اُستاد سے ایسی اَحادیث بیان کرنا جو دراصل اُس نے اِس اُستاد کے علاوہ کسی اور سے سنی ہیں۔

b راوی کا اپنے ایسے معاصر سے روایت کرنا جس سے اس کی ملاقات ثابت نہیں ہوتی اور ایسے صیغوں سے بیان کرنا جس سے یہ شبہ پیدا ہو کہ راوی نے مروی عنہ سے اس حدیث کی سماعت کی ہے۔

پہلی صورت کی تفصیل یہ ہے کہ راوی نے اپنے کسی شیخ سے چند اَحادیث بالمشافہ سماعت کی ہوتی ہیں مگر اس کے ہاں کچھ ایسی بھی اَحادیث ہوتی ہیں جنہیں اس شیخ سے بالمشافہ سماعت نہیں کیا ہوتا بلکہ اُس راوی سے سنا ہوتا ہے جس نے مدلس کے شیخ سے سنی ہوتی ہیں۔ وہ اس واسطہ کو گرا کر اپنے شیخ سے براہِ راست ایسے صیغوں سے بیان کرتا ہے جو صراحتاً اتصال پر دلالت کرتے ہیں اور نہ صراحتاً عدمِ اتصال پر ، مگر عرفِ عام میں وہ سماع پر محمول کیے جاتے ہیں۔اس صورت کے تدلیس ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔

دوسری صورت کی توضیح یہ ہے کہ راوی اپنے ایسے معاصرجس سے اس نے کچھ سنا نہیں ہوتا اور بسا اوقات اس کی مروی عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیںہوتی،سے ایسے ہی صیغوں سے بیان کرتا ہے جن میں سماع اور عدمِ سماع دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ اگر یہ مدلسین کوئی ایسا صیغہ استعمال کریں جو تحدیث یا سماع پر دلالت کرے اور اس میں تاویل کی بھی کوئی گنجائش نہ ہو تو وہ صیغہ جھوٹ ہوگا جس کا مرتکب متروک درجے کا راوی ہوگا۔
حافظ ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں:

''قتادة إذا لم یقل: سمعت وخُولف في نقله، فلا تقوم به حجة لأنه یدلس کثیرًا عمن لم یسمع منه، ورُبّما کان بینھم غیر ثقة''

'' قتادہ جب (سمعتُ) نہ کہیں اور ان کی حدیث دوسروں کے مخالف ہو توقابل حجت نہیں ہوگی،کیونکہ وہ بکثرت ایسوں سے بھی تدلیس کرتے ہیں جن سے سماع نہیں ہوتا اور بسا اَوقات اس (تدلیس) میں غیر ثقہ راوی بھی ہوتا ہے۔'' (التمہید لابن عبدالبر:۳؍۳۰۷)
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
محترم! میں تخریج وغیرہ ہی کے متعلق استفسار کر رہا ہوں کہ ضعف کی کوئی دلیل بھی ہے یا کہ آپ لوگوں کی طرح میں اس کو بے دلیل کے ہی صحیح مان لوں۔اس پر جو ضعیف کا ”حکم“ صادر ہؤا ہے اس کی کیا دلیل ہے۔ کیا میں آپ کی طرح اندھی تقلید کرتے ہوئے بلا چوں چرا مان لوں جبکہ ایک محدث اس کو ”صحیح“ کہہ رہا ہے۔


”مدلس“ کسے کہتے ہیں؟ وضاحت فرما دیں مگر پانی پی کر کہ لگتا ہے پارہ بہت اونچا چڑھا ہؤا ہے۔
جناب والا میرا تو صرف پارہ چڑھا(بقول آپ کے)مگر آپ تو اخلاق سے ہی عاری ہیں جو اپنے خلاف ثبوت دیکھ کر دوسروں کو لا مذہب یعنی کوئی مذہب نہیں کہنے لگے یہ بھی نہ سوچا کہ اس حکم کی زد میں وہ سب محدثین آئیں گے جنہوں نے اسے ضعیف قرار دیا ہوا ہے۔۔اس لئئے میرے پارے کی بجائے اپنی فکر کریں جو بغیر علم کے مسلسل اپنے باطل دعوے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔اب آتے ہیں مدلس کی تعریف پر تو نیچے پڑھ لیں
تدلیس کے لغوی معنی

'تدلیس' کے لغوی معنی پوشیدگی اور پردہ پوشی کے ہیں۔ اسی سے الدَلس (دال اور لام کی زبر کے ساتھ) ہے جس کا مطلب ہے:اختلاط النور بالظلمَة یعنی ''اندھیرے اور اُجالے کا سنگم'' دلس البائع کے معنی:بائع کا خریدار سے سودے کے عیب کو چھپانا ہے۔

(مزید تفصیل:الصحاح للجوھري:۲؍۹۲۷،لسان العرب:۷؍۳۸۹، تاج العروس: ۴؍۱۵۳ )

اِصطلاحی تعریف

اگر راوی اپنے ایسے اُستاد جس سے اس کا سماع یا معاصرت ثابت ہے وہ روایت عَن، أنَّ،قَال،حدَّث وغیرہ الفاظ سے بیان کرے، جسے درحقیقت اُس نے اپنے اُستاد کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے سنا ہے اور سامعین کو یہ خیال ہو کہ اس نے یہ حدیث اپنے اُستاد سے سنی ہوگی تو اسے 'تدلیس' کہا جاتا ہے۔ (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح:ص۶۶)

تدلیس کی مرکزی قسمیں دوہیں:

A تدلیس الاسناد

اس کی دو تعریفیں ہیں:

a راوی کا اپنے اُستاد سے ایسی اَحادیث بیان کرنا جو دراصل اُس نے اِس اُستاد کے علاوہ کسی اور سے سنی ہیں۔

b راوی کا اپنے ایسے معاصر سے روایت کرنا جس سے اس کی ملاقات ثابت نہیں ہوتی اور ایسے صیغوں سے بیان کرنا جس سے یہ شبہ پیدا ہو کہ راوی نے مروی عنہ سے اس حدیث کی سماعت کی ہے۔

پہلی صورت کی تفصیل یہ ہے کہ راوی نے اپنے کسی شیخ سے چند اَحادیث بالمشافہ سماعت کی ہوتی ہیں مگر اس کے ہاں کچھ ایسی بھی اَحادیث ہوتی ہیں جنہیں اس شیخ سے بالمشافہ سماعت نہیں کیا ہوتا بلکہ اُس راوی سے سنا ہوتا ہے جس نے مدلس کے شیخ سے سنی ہوتی ہیں۔ وہ اس واسطہ کو گرا کر اپنے شیخ سے براہِ راست ایسے صیغوں سے بیان کرتا ہے جو صراحتاً اتصال پر دلالت کرتے ہیں اور نہ صراحتاً عدمِ اتصال پر ، مگر عرفِ عام میں وہ سماع پر محمول کیے جاتے ہیں۔اس صورت کے تدلیس ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔

دوسری صورت کی توضیح یہ ہے کہ راوی اپنے ایسے معاصرجس سے اس نے کچھ سنا نہیں ہوتا اور بسا اوقات اس کی مروی عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیںہوتی،سے ایسے ہی صیغوں سے بیان کرتا ہے جن میں سماع اور عدمِ سماع دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ اگر یہ مدلسین کوئی ایسا صیغہ استعمال کریں جو تحدیث یا سماع پر دلالت کرے اور اس میں تاویل کی بھی کوئی گنجائش نہ ہو تو وہ صیغہ جھوٹ ہوگا جس کا مرتکب متروک درجے کا راوی ہوگا۔
حافظ ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں:

''قتادة إذا لم یقل: سمعت وخُولف في نقله، فلا تقوم به حجة لأنه یدلس کثیرًا عمن لم یسمع منه، ورُبّما کان بینھم غیر ثقة''

'' قتادہ جب (سمعتُ) نہ کہیں اور ان کی حدیث دوسروں کے مخالف ہو توقابل حجت نہیں ہوگی،کیونکہ وہ بکثرت ایسوں سے بھی تدلیس کرتے ہیں جن سے سماع نہیں ہوتا اور بسا اَوقات اس (تدلیس) میں غیر ثقہ راوی بھی ہوتا ہے۔'' (التمہید لابن عبدالبر:۳؍۳۰۷)
جناب والا میرا تو صرف پارہ چڑھا(بقول آپ کے)مگر آپ تو اخلاق سے ہی عاری ہیں جو اپنے خلاف ثبوت دیکھ کر دوسروں کو لا مذہب یعنی کوئی مذہب نہیں کہنے لگے یہ بھی نہ سوچا کہ اس حکم کی زد میں وہ سب محدثین آئیں گے جنہوں نے اسے ضعیف قرار دیا ہوا ہے۔۔اس لئئے میرے پارے کی بجائے اپنی فکر کریں جو بغیر علم کے مسلسل اپنے باطل دعوے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔اب آتے ہیں مدلس کی تعریف پر تو نیچے پڑھ لیں
تدلیس کے لغوی معنی

'تدلیس' کے لغوی معنی پوشیدگی اور پردہ پوشی کے ہیں۔ اسی سے الدَلس (دال اور لام کی زبر کے ساتھ) ہے جس کا مطلب ہے:اختلاط النور بالظلمَة یعنی ''اندھیرے اور اُجالے کا سنگم'' دلس البائع کے معنی:بائع کا خریدار سے سودے کے عیب کو چھپانا ہے۔

(مزید تفصیل:الصحاح للجوھري:۲؍۹۲۷،لسان العرب:۷؍۳۸۹، تاج العروس: ۴؍۱۵۳ )

اِصطلاحی تعریف

اگر راوی اپنے ایسے اُستاد جس سے اس کا سماع یا معاصرت ثابت ہے وہ روایت عَن، أنَّ،قَال،حدَّث وغیرہ الفاظ سے بیان کرے، جسے درحقیقت اُس نے اپنے اُستاد کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے سنا ہے اور سامعین کو یہ خیال ہو کہ اس نے یہ حدیث اپنے اُستاد سے سنی ہوگی تو اسے 'تدلیس' کہا جاتا ہے۔ (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح:ص۶۶)

تدلیس کی مرکزی قسمیں دوہیں:

A تدلیس الاسناد

اس کی دو تعریفیں ہیں:

a راوی کا اپنے اُستاد سے ایسی اَحادیث بیان کرنا جو دراصل اُس نے اِس اُستاد کے علاوہ کسی اور سے سنی ہیں۔

b راوی کا اپنے ایسے معاصر سے روایت کرنا جس سے اس کی ملاقات ثابت نہیں ہوتی اور ایسے صیغوں سے بیان کرنا جس سے یہ شبہ پیدا ہو کہ راوی نے مروی عنہ سے اس حدیث کی سماعت کی ہے۔

پہلی صورت کی تفصیل یہ ہے کہ راوی نے اپنے کسی شیخ سے چند اَحادیث بالمشافہ سماعت کی ہوتی ہیں مگر اس کے ہاں کچھ ایسی بھی اَحادیث ہوتی ہیں جنہیں اس شیخ سے بالمشافہ سماعت نہیں کیا ہوتا بلکہ اُس راوی سے سنا ہوتا ہے جس نے مدلس کے شیخ سے سنی ہوتی ہیں۔ وہ اس واسطہ کو گرا کر اپنے شیخ سے براہِ راست ایسے صیغوں سے بیان کرتا ہے جو صراحتاً اتصال پر دلالت کرتے ہیں اور نہ صراحتاً عدمِ اتصال پر ، مگر عرفِ عام میں وہ سماع پر محمول کیے جاتے ہیں۔اس صورت کے تدلیس ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔

دوسری صورت کی توضیح یہ ہے کہ راوی اپنے ایسے معاصرجس سے اس نے کچھ سنا نہیں ہوتا اور بسا اوقات اس کی مروی عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیںہوتی،سے ایسے ہی صیغوں سے بیان کرتا ہے جن میں سماع اور عدمِ سماع دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ اگر یہ مدلسین کوئی ایسا صیغہ استعمال کریں جو تحدیث یا سماع پر دلالت کرے اور اس میں تاویل کی بھی کوئی گنجائش نہ ہو تو وہ صیغہ جھوٹ ہوگا جس کا مرتکب متروک درجے کا راوی ہوگا۔
حافظ ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں:

''قتادة إذا لم یقل: سمعت وخُولف في نقله، فلا تقوم به حجة لأنه یدلس کثیرًا عمن لم یسمع منه، ورُبّما کان بینھم غیر ثقة''

'' قتادہ جب (سمعتُ) نہ کہیں اور ان کی حدیث دوسروں کے مخالف ہو توقابل حجت نہیں ہوگی،کیونکہ وہ بکثرت ایسوں سے بھی تدلیس کرتے ہیں جن سے سماع نہیں ہوتا اور بسا اَوقات اس (تدلیس) میں غیر ثقہ راوی بھی ہوتا ہے۔'' (التمہید لابن عبدالبر:۳؍۳۰۷)
محترم! میں تخریج وغیرہ ہی کے متعلق استفسار کر رہا ہوں کہ ضعف کی کوئی دلیل بھی ہے یا کہ آپ لوگوں کی طرح میں اس کو بے دلیل کے ہی صحیح مان لوں۔اس پر جو ضعیف کا ”حکم“ صادر ہؤا ہے اس کی کیا دلیل ہے۔ کیا میں آپ کی طرح اندھی تقلید کرتے ہوئے بلا چوں چرا مان لوں جبکہ ایک محدث اس کو ”صحیح“ کہہ رہا ہے۔


”مدلس“ کسے کہتے ہیں؟ وضاحت فرما دیں مگر پانی پی کر کہ لگتا ہے پارہ بہت اونچا چڑھا ہؤا ہے۔
محترم! میں تخریج وغیرہ ہی کے متعلق استفسار کر رہا ہوں کہ ضعف کی کوئی دلیل بھی ہے یا کہ آپ لوگوں کی طرح میں اس کو بے دلیل کے ہی صحیح مان لوں۔اس پر جو ضعیف کا ”حکم“ صادر ہؤا ہے اس کی کیا دلیل ہے۔ کیا میں آپ کی طرح اندھی تقلید کرتے ہوئے بلا چوں چرا مان لوں جبکہ ایک محدث اس کو ”صحیح“ کہہ رہا ہے۔


”مدلس“ کسے کہتے ہیں؟ وضاحت فرما دیں مگر پانی پی کر کہ لگتا ہے پارہ بہت اونچا چڑھا ہؤا ہے۔
اب اس تعریف کے تحت یہ ثابت ہے کہ دوسری صحیح حدیث اس حدیث کے خلاف موجود ہے تو اسکا مدلس ہونا ثابت ہوا اور ضعیف ہونا بھی ثابت ہوگیا
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس حدیث کو صحیح کس نے کہا؟اور دماغ کو تھوڑا کنٹرول رکیں تو بہتر ہو گا جواب دینا ہمیں بھی آتا ہے آپ نے ’لا مذہب‘کہا یعنی کوئی مذہب نہیں(ہمارا!)میں بھی بہت کچھ کہ سکتا ہوں مگر بات کسی اور طرف نکل جائے گی۔۔۔آپ نے کہا ’لا مذہب ‘ اسے ضعیف کہتے ہیں تو کیا اما م آج کے عالم ہیں اور ان کا کوئی مذہب نہیں ہے؟ابن حزم کا کوئی مذہب نہیں!اور کیا وہ آج کے عالم ہیں؟سیر اعلام النبلاء میں امام نسائی ؒ نے سعید کو مدلس کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آپ کہتے ہیں محدث نے تو اسے صحیح کہا؟اب آپ اس کا صحیح ہونا ثابت کریں
محترم!خط کشیدہ فقرہ پر میں نے پانی پینے کا مشورہ دیا تھا اخلاص کے ساتھ۔

اگر راوی اپنے ایسے اُستاد جس سے اس کا سماع یا معاصرت ثابت ہے وہ روایت عَن، أنَّ،قَال،حدَّث وغیرہ الفاظ سے بیان کرے، جسے درحقیقت اُس نے اپنے اُستاد کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے سنا ہے اور سامعین کو یہ خیال ہو کہ اس نے یہ حدیث اپنے اُستاد سے سنی ہوگی تو اسے 'تدلیس' کہا جاتا ہے۔ (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح:ص۶۶)
یعنی جس راوی میں یہ صفت پائی جائے وہ قابلِ حجت نہیں۔ یہی کہنا چاہتے ہیں آپ یا کچھ اور؟

'' قتادہ جب (سمعتُ) نہ کہیں اور ان کی حدیث دوسروں کے مخالف ہو توقابل حجت نہیں ہوگی،کیونکہ وہ بکثرت ایسوں سے بھی تدلیس کرتے ہیں جن سے سماع نہیں ہوتا اور بسا اَوقات اس (تدلیس) میں غیر ثقہ راوی بھی ہوتا ہے۔'' (التمہید لابن عبدالبر:۳؍۳۰۷)
یعنی ”قتادہ“ قابلِ اعتبار راوی نہ رہا!

اب اس تعریف کے تحت یہ ثابت ہے کہ دوسری صحیح حدیث اس حدیث کے خلاف موجود ہے تو اسکا مدلس ہونا ثابت ہوا اور ضعیف ہونا بھی ثابت ہوگیا
یعنی جو ”مدلس“ ہو وہ ”ضعیف“ ہے۔
محترم! آپ کی تحریر سے جو میں سمجھا ہوں کیا صحیح ہے؟ یا جو صحیح ہے وہ سادہ الفاظ میں بیان فرما دیں تحریر الجھی ہوئی نہ ہو۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
محترم!خط کشیدہ فقرہ پر میں نے پانی پینے کا مشورہ دیا تھا اخلاص کے ساتھ۔


یعنی جس راوی میں یہ صفت پائی جائے وہ قابلِ حجت نہیں۔ یہی کہنا چاہتے ہیں آپ یا کچھ اور؟


یعنی ”قتادہ“ قابلِ اعتبار راوی نہ رہا!


یعنی جو ”مدلس“ ہو وہ ”ضعیف“ ہے۔
محترم! آپ کی تحریر سے جو میں سمجھا ہوں کیا صحیح ہے؟ یا جو صحیح ہے وہ سادہ الفاظ میں بیان فرما دیں تحریر الجھی ہوئی نہ ہو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلے تو میں معذرت خواہ ہوں قارئین سے کہ میں چونکہ نیا ہوں اس فورم پر اس لئے جواب دیتے ہوئے صحیح طرح سے اقتباس لینا اور پھر اسی کو مخصوص کر کے جواب دینا نہیں آتا مگر میں سیکھ جاؤں گا جلد ان شاء اللہ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
پہلے تو میں معذرت خواہ ہوں قارئین سے کہ میں چونکہ نیا ہوں اس فورم پر اس لئے جواب دیتے ہوئے صحیح طرح سے اقتباس لینا اور پھر اسی کو مخصوص کر کے جواب دینا نہیں آتا مگر میں سیکھ جاؤں گا جلد ان شاء اللہ۔
محترم! اصل استفسارات کی طرف لوٹئے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلے تو میں معذرت خواہ ہوں قارئین سے کہ میں چونکہ نیا ہوں اس فورم پر اس لئے جواب دیتے ہوئے صحیح طرح سے اقتباس لینا اور پھر اسی کو مخصوص کر کے جواب دینا نہیں آتا مگر میں سیکھ جاؤں گا جلد ان شاء اللہ۔
محترم!خط کشیدہ فقرہ پر میں نے پانی پینے کا مشورہ دیا تھا اخلاص کے ساتھ۔
اور میں نے یہ فقرہ آپ کے ’’لا مذہب‘‘اور ’’اہل حدیث نفس زندہ باد‘‘ کے جواب میں کہا تھا۔۔۔۔۔اور ساتھ کہا تھا کہ یہ انداز نہ اپنائیں ورنہ جواب سب دے سکتے ہیں اور پھر بات کہیں اور نکل جائے گی


یعنی جس راوی میں یہ صفت پائی جائے وہ قابلِ حجت نہیں۔ یہی کہنا چاہتے ہیں آپ یا کچھ اور؟



یعنی ”قتادہ“ قابلِ اعتبار راوی نہ رہا!


یعنی جو ”مدلس“ ہو وہ ”ضعیف“ ہے۔
محترم! آپ کی تحریر سے جو میں سمجھا ہوں کیا صحیح ہے؟ یا جو صحیح ہے وہ سادہ الفاظ میں بیان فرما دیں تحریر الجھی ہوئی نہ ہو۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
محترم! اصل استفسارات کی طرف لوٹئے۔
بالکل میں آپکی باتوں کا جواب ضرور دونگا ان شاء اللہ انتظار کریں میں ڈیوٹی پر ہوتا ہوں سارا دن اس لئے وقت ملتے ہی جواب ضرور دونگا ان شاء اللہ
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
محترم!خط کشیدہ فقرہ پر میں نے پانی پینے کا مشورہ دیا تھا اخلاص کے ساتھ۔


یعنی جس راوی میں یہ صفت پائی جائے وہ قابلِ حجت نہیں۔ یہی کہنا چاہتے ہیں آپ یا کچھ اور؟
آگے کچھ اقسام بھی لکھی ہیں اگر وہ بھی ملا کر سمجھنا چاہتے تو امید ہے سمجھ جاتے۔۔۔۔آگے دو اقسام بھی لکھی ہیں اور اس کے علاوہ بھی اس کی تشریح ہے مگر میں نے صرف وہ پیش کی جس سے آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو۔۔۔۔اس لئے آگے قتادہؒ کے نام سے مخصوص کر کے جو بات لکھی ہے اسے ملا کر پڑھیں تو سمجھ آجاتی کہ انکی وہ روایت حجت نہیں جس میں انہوں نےسماعت کی تصریح نہ کی ہو اور اس کے خلاف حدیث موجود ہو اور اس روایت میں سماعت کی تصریح نہ ہونے کی وجہ سے یہاں تدلیس ثابت ہو رہی ہے جسکی وجہ سےان کی’’یہ روایت‘‘قابل حجت نہیں۔اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ انکی’’ہر روایت‘‘قابل حجت نہیں


یعنی ”قتادہ“ قابلِ اعتبار راوی نہ رہا!


یعنی جو ”مدلس“ ہو وہ ”ضعیف“ ہے۔
محترم! آپ کی تحریر سے جو میں سمجھا ہوں کیا صحیح ہے؟ یا جو صحیح ہے وہ سادہ الفاظ میں بیان فرما دیں تحریر الجھی ہوئی نہ ہو۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
یعنی جس راوی میں یہ صفت پائی جائے وہ قابلِ حجت نہیں۔ یہی کہنا چاہتے ہیں آپ یا کچھ اور؟


آگے کچھ اقسام بھی لکھی ہیں اگر وہ بھی ملا کر سمجھنا چاہتے تو امید ہے سمجھ جاتے۔۔۔۔آگے دو اقسام بھی لکھی ہیں اور اس کے علاوہ بھی اس کی تشریح ہے مگر میں نے صرف وہ پیش کی جس سے آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو۔۔۔۔اس لئے آگے قتادہؒ کے نام سے مخصوص کر کے جو بات لکھی ہے اسے ملا کر پڑھیں تو سمجھ آجاتی کہ انکی وہ روایت حجت نہیں جس میں انہوں نےسماعت کی تصریح نہ کی ہو اور اس کے خلاف حدیث موجود ہو اور اس روایت میں سماعت کی تصریح نہ ہونے کی وجہ سے یہاں تدلیس ثابت ہو رہی ہے جسکی وجہ سےان کی’’یہ روایت‘‘قابل حجت نہیں۔اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ انکی’’ہر روایت‘‘قابل حجت نہیں
 
Top