بھائی میں ہر گز سیدنا عبداللہ بن زبیر رض کوباغی نہیں تسلیم کرتا اور نہ ہی عبدالملک یا مروان انکو باغی تسلیم کرتے تھے، یہ محض آپ کی خام خیالی ہے۔ ہاں دوسرے چند اکابرصحابہ رض سیدنا عبداللہ بن زبیر کو باغی ضرور تسلیم کرتے تھے۔ آپ نے صحیح مسلم کی کذاب و مبیر والی حدیث تو کوٹ کردی لیکناسی باب میں چند اور احادیث بھی موجودتھیں، انکو کیوں آپ نے صرف نظر کیا۔ اب حقیقت حال ملاحظہ ہو کہ ان صحابہ کرام کے درمیان کیا معاملہ چل رہا تھا، کون کس کو باغی کہہ رہا تھا
عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے بھی ابن زبیررضی اللہ عنہ کے اقدام کی مذمت کی ، اوربعض روایات کے مطابق توعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ابن زبیررضی اللہ عنہ اوران کے رفقاء کو باغی سمجھتے تھے اورافسوس کرتے تھے کہ میں نے ان سے قتال کیوں نہ کیا کیونکہ باغیوں کے خلاف لڑنے کا حکم ہے ، یہ بات امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے ، یاد رہے کہ جس کام کی تمناء عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کررہے تھے اہل شام نے وہی کام کیا تھا ، نیزعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے ابن زبیررضی اللہ عنہ کی شہادت پرکہا :أَمَا وَاللهِ لَأُمَّةٌ أَنْتَ أَشَرُّهَا لَأُمَّةٌ خَيْرٌ
[صحيح مسلم: كتاب فضائل الصحابة رضي الله تعالى عنهم: باب ذكر كذاب ثقيف ومبيرها ، رقم 2545]۔اللہ کی قسم وہ امت کتنی بہتر ہے جس میں خطا کار لوگ بھی آپ جیسے ہوں۔
،اوردیگراجلہ صحابہ نے بھی عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے اس معارضہ کی شدید مخالف کی چنانچہ:صحابی رسول ابوبرزة الأسلمي رضی اللہ عنہ نے کہا:وَإِنْ ذَاكَ الَّذِي بِمَكَّةَ وَاللَّهِ إِنْ يُقَاتِلُ إِلَّا عَلَى الدُّنْيَااور وہ جو مکہ میں ہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما واللہ! وہ بھی صرف دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں
[صحيح البخاري:كتاب الفتن: باب إذا قال عند قوم شيئا، ثم خرج فقال بخلافه ، رقم 7112]۔
یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی صحیح سند کے ساتھ ہے اوراس کے اخیر میں ہے:وَإِنَّ ذَاكَ الَّذِي بِمَكَّةَ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ وَاللَّهِ إِنْ يُقَاتِلُ إِلَّا عَلَى الدُّنْيَااور وہ جو مکہ میں ہیں یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، اللہ کی قسم ! وہ بھی صرف دنیا کے لیے لڑرہے ہیں۔
[مصنف ابن أبي شيبة: 7/ 449 واسنادہ صحیح]۔
اسی طرح صحابی رسول عبد الله بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے بھی عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے کہا:يَا ابْنَ الزُّبَيْرِ ، إِيَّاكَ وَالإِلْحَادَ فِي حَرَمِ اللهِاے ابن زبیررضی اللہ عنہ ! آپ حرم میں فساد والحاد سے بچیں۔
[مسند أحمد: 2/ 219 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]۔
السلام علیکم
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمار ر ضی اللہ عنہ اور خؤد امیر المومنین علی رضہ عنہ سیدنا امیر المومنین عثمان رضہ سے اختلاف رکھتے تھے بہت سے مسائل میں اور بہت سے صحابہ ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے ۔۔ جب کہ صحابہ ایک دوسرے کو کبھی سخت الفاظ کہ جاتے تھے مجھے وہ الفاظ نقل کرنے کی حاجت نہیں نہ ہی آپ کو ضرورت ہونی چاہئے ۔ لیکن سیدنا عمار ضہ سیدنا عثمان رضہ پر سب شتم کرتے تھے کیا اس کو آپ اس انداز میں پیش کریں گے کہ وہ دیکھو عمارضی اللہ عنہ عثمان رضہ کے بارے میں یہ کہتے بس عثمان رضہ کو صحابہ نے قصور وار ٹھرایا۔۔۔۔ اللہ کے بندے آپ بھی مانتے ہیں کہ صحابہ انسان تھے ان سے غلطی ہوسکتی ہے وہ ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف ہوتے ہوئے اس کا احترام رکھتے تھے نہ کہ آپ کی طرح ا ن پر برس پڑتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایات تو پڑھ لیں لیکن سیدنا ابن عباس رضہ و ابن عمر رضہ اللہ عنہ کی دسری باتیں کیون نظر انداز کیں
اسی سولی پر چڑہی لاش پر کھڑے ہوکر سیدنا ابن عمر رضہ نے کہا تھا۔
أَمَا وَاللَّهِ لَلَّذِينِ كَبَّرُوا عِنْدَ مَوْلِدِهِ خَيْرٌ مِنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كبروا عند قتله،
تو فرمایا کہ اللہ کی قسم ان کے پیدا ہونے پر تکبیریں کہنے والے ان کے قتل ہونے تکبیریں کہنے والوں سے زیادہ اچھے تھے۔
کیا اس بات یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ابن عمر رضہ نے ان کے قتل کو ناپسند کیا بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا ابن زبیر رضہ کے پیدائش مسلمانوں کے لئے ایک بڑی خؤش خبری تھے کہ اللہ کے رسول نے خود مسلمانون کو خوشی منانے کا حکم دیا تھا اور دوسری طرف کچھ لوگ ان کی موت پر خوشی کر رہے ہیں ۔۔۔۔کہ ایک جائز خلیفہ اور جلیل القدر صحابی کے قتل پر حجاج اور اس کے لوگ خوشیاں کر رہے تھے ۔۔
ابن کثیر لکھتے ہیں
وَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ الْبَغَوِيُّ —–َسُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالَ كَانَ قَارِئًا لِكِتَابِ اللَّهِ، مُتَّبِعًا لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، قَانِتًا للَّه صَائِمًا فِي الْهَوَاجِرِ مِنْ مَخَافَةِ اللَّهِ، ابْنُ حَوَارِيِّ رَسُولِ اللَّهِ، وَأُمُّهُ بِنْتُ الصِّدِّيقِ، وَخَالَتُهُ عَائِشَةُ حَبِيبَةُ حَبِيبِ اللَّهِ، زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ، فَلَا يَجْهَلُ حَقَّهُ إِلَّا مَنْ أَعْمَاهُ اللَّهُ (اس طرح کی روایت بخآری میں بھی ہے اور ابن عباس رضۃ ہی سے مروی ہے)
ابو القاسم البغوی سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ابن عباس رضہ سے آپکے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے کہا ابن زبیر کتاب اللہ کے قاری اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع اللہ کے فرمانبردار اورخوف الاہی سے دوپھروں کو روزہ رکھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری کے بیٹے تھے اور آپ کی ماں صدیق اکبر کی بیٹی اور آپ کی خالہ عائشہ تھین جو رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بیوی تھیں
آپ کے حق سے وہی شخص ناواقف ہوسکتا ہے جس کو خدا نے اندہا کیا ہو
شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ اپنی کتاب یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ صفھہ نمبر 270 پر لکھتے ہیں
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى 235)نے کہا:حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلاَءِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم:
تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْرَأْسِ السَّبْعِينَوَمِنْ إمْرَةِ الصِّبْيَانِ[مصنف ابن أبي شيبة: 15/ 49 واسنادہ صحیح ومن طریق وکیع اخرجہ احمد فی مسندہ 15/ 486 و اخرجہ ایضا البزار 16/ 249 وابن عدی فی الکامل6/2101 و ابو أحمد الحاكم فی الأسامي والكنى : 5/ 169 وابویعلی کمافی البداية والنهاية 11/ 647 کلھم من طریق کامل بہ ، و اخرجہ ایضا احمدبن منیع فی مسندہ قال البوصیری فی إتحاف الخيرة المهرة:8/ 41 رواه أحمد بن منيع، ورواته ثقات ، والحدیث صححہ الالبانی فی الصحیحہ رقم 3191]۔
ترجمہ :صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سن ستر (٧٠) کے اوائل سے پناہ طلب کرو اور بچوں کی امارت سے پناہ طلب کرو۔
اسی حدیث کے بارے میں شیخ کفایت اللہ اپنی کتاب یزید بن معاویہ پر الزام--- میں 287صفحہ لکھتے ہیں کہ
اس حدیث کو حقیقیت پر ہی محمول کیا جائے گا۔۔پھر لکھتے ہیںاوروفات رسول کی تاریخ، ہجری سال کے اعتبار سے گیارہ (١١) ہجری ہے اوروفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا ستر(٧٠) سال بشمول سال وفات ، ہجری سال کے اعتبار سے اسی (٨٠) ہجری کا سال ہوگا، ، گویا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں سن اسی (٨٠) ہجری کے اوائل سے پناہ مانگنے کاحکم دیاہے۔
ایسی صورت میں امیریزیدبن معاویہ رحمہ اللہ اس حدیث کے مصداق ہوہی نہیں سکتے کیونکہ یزید رحمہ اللہ تو اسی (٨٠) ہجری سے ١٦ سال قبل سن چوسٹھ ٦٤ ہجری ہی کو وفات پاگئے۔پھر لکھتے ہین کہ اس حدیث سے مراد اور لوگ ہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں سعید بن عمرو بن سعید نے اس کا اشارہ کیا ہےجو عہد یزید سے بعد کا دور ہے۔۔ (یعنی عبدالمالک کا دور۔۔)پھر شیخ صحیح بخاری کی ہی حدیث پیش کرتے ہیں اس حدیث میں جن لوگون کی حکومت سے اللہ کے رسول اللہ کہتے ہیں کہ میری امت قریش چند لڑکوں کے ہاتھون ہوگی --- یہ ہیں صحیح بخاری۔۔
کتاب الفتن
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمایا کہ میری امت کی تباہی چند بیوقوف لڑکوں کے ہاتھوں ہو گی
حدیث نمبر : 7058
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو بن سعيد، قال أخبرني جدي، قال كنت جالسا مع أبي هريرة في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة ومعنا مروان قال أبو هريرة سمعت الصادق المصدوق يقول " هلكة أمتي على يدى غلمة من قريش ". فقال مروان لعنة الله عليهم غلمة. فقال أبو هريرة لو شئت أن أقول بني فلان وبني فلان لفعلت. فكنت أخرج مع جدي إلى بني مروان حين ملكوا بالشأم، فإذا رآهم غلمانا أحداثا قال لنا عسى هؤلاء أن يكونوا منهم قلنا أنت أعلم.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا سعید نے خبر دی ، کہا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھ سے ہو گی۔ مروان نے اس پر کہا ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں ان کے خاندان کے نام لے کر بتلانا چاہوں تو بتلا سکتا ہوں۔ پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں اپنے دادا کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا۔ جب وہاں انہوں نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا کہ شاید یہ انہی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو زیادہ علم ہے
۔
یاد رہے شخ کفایت اللہ نے یہ حدیث اوپر والی حدیث کی تشریح میں پیش کی ہے اور واضع طور کہا ہے کہ اس سے مراد 80 ہجری ہے اور اور 80 ہجری جس کی حکومت تھی آپ جانتے ہیں وہ کون ہیں ۔۔ ۔۔۔ اللہ کے رسول علیہ السلام کا فرمان کہ میری امت کی تباہی بلکل صحیح تھا کیونکہ اسی آدمی کی حکومت میں مسلمانوں کو گائے بکری سمجھ کر قتل کیا جاتا تھا۔امام مالک کے اس سے روایت لینے جو ظلم اس نے کئے وہ ان سے سےچھوٹ نہیں جاتا۔یاد رہے اس حدیث کے راوی سعید بن عمرو بن سعید بنی امیہ سے تعلق رکھتے تھے عبدالمالک اور ان کا جد ایک آدمی ہیں ابوالعاص بن امیہ تھے۔
پھر شیخ لکھتے ہیں۔ حدیث مذکورکا مصداق کون ؟؟؟
اصل حقیقت اللہ ہی کومعلوم ہے کیونکہ وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیش آنے والے حوادث وفتن کی باتیں کوئی شریعت کا حصہ نہیں ہیں کہ ان کی بھی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہو--
ثانیا:مذکورہ عہد حجاج بن یوسف کی امارت کا عہدہے، حجاج بن یوسف نے گرچہ اچھے کام بھی کئے لیکن یہ بات مسلم ہے کہ اس نے بہت سارے صحابہ کرام اورتابعین عظام کو بہت ہی بے دردی سے قتل کیا اور اپنی بات منوانے میں حددرجہ سختی سے کام لیتا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ممکن
ہے حدیث مذکور میں اسی فتنہ کی طرف اشارہ ہو کیونکہ حجاج بن یوسف کا فتنہ بھی کوئی معمولی فتنہ نہ تھا ۔بلکہ ایک روایت میں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صراحتا شر قرار دیا ہے چنانچہ مسند احمد کی روایت میں اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہافرماتی ہیں:وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ثَقِيفٍ كَذَّابَانِ،الْآخِرُ مِنْهُمَا شَرٌّ مِنَ الْأَوَّلِ، وَهُوَ مُبِيرٌ[مسند أحمد: 44/ 529 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]۔
ترجمہ: اللہ کی قسم ! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبردی ہے کہ بنوثقیف میں دو کذاب آدمیوں کا خروج عنقریب ہوگا ،جس میں دوسرا پہلے کی بنسبت زیادہ بڑے شر اورفتنے والا ہوگا اور وہ مبیر ہوگا۔
صحیح مسلم میں بھی یہی روایت موجود ہے اس میں اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں:إن رسول الله صلى الله عليه و سلم حدثنا أن في ثقيف كذابا ومبيرا فأما الكذاب فرأيناه وأما المبير فلا إخالك إلا إياه[صحيح مسلم:4/ 1971]۔
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک حدیث بیان فرمائی تھی قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہوگا کہ کذاب کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ظالم میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں سمجھتی۔
یادرہے کہ صحابہ وتابعین اورسلف نے متفقہ طور پرحجاج بن یوسف کواس حدیث کا مصداق قراردیاہے، اس لئے بعید نہیں کہ مذکورہ حدیث میں بھی اسی کے فتنہ کی طرف اشارہ ہو واللہ اعلم۔
میرہ خیال ہے شیخ محترم نے ایک مسلمان پر لگے بے بنیاد الزامات کو رد کرنے کے لئے ٓیہ کتاب لکھی ہے او ر آپ نے اس میں عبیدللہ بن زیاد تک کا دفاع کیا ہے نہیں کیا تو حجاج کا نہین کیا کیوں کہ وہ ایک ظالم انسان تھا اور حضور علیہ السلام کی حدیث اس پر صادق آتی رہے گی کیون کہ بنو ژقیف اس بڑا اور ظالم پیدا کر ہی نہیں سکتے۔۔آپ ہی اکیلے ہیں نایاب جحاج کو ظالم نہیں مانتے بلکہ مسلمانوں کا محسن مانتے ہیں کہ اس نے اچھا کیا سیدنا ابن زبیر رضہ کو ختمکیا۔۔
۔
\\\\\
اچھا جی، امیر حجاج نے کتنے صحابہ کو قتلکیا؟ حیرت ہے کہ اب تک صرف الزام پر الزام تراشی ہی ہورہی ہے آپ کی جانب سے، ایک صحیح حدیث بھی آپ نے اس سلسلے میں پیش نہیں کی۔ اور سب سے حیرت انگیز بات یہ بقول آپ کے امیر حجاج اور اسکی فوج نے صحابہ کو قتل کیا۔ لیکن سیدنا عبداللہ بن عباس رض، حضرت ابن حنفیہ رحمہ اللہ اور حضرت علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ کو مکہ میں ہوتے ہوئے زندہ چھوڑ دیا۔ کیوں؟ کیا یہ لوگ امیر حجاج کے رشتہ دار تھے؟؟؟ برائے مہربانی یہاں بالکل صحیح الاسناد حدیثوں سے اس معاملے کو کلئیر کئے کہ امیر حجاج نے ان لوگوں کو کیوں چھوڑا؟ نیز میں نے اپنی پوسٹ نمبر 82 میں یہ حوالہ دیا کہ دس ہزار لوگ اور ابن زبیر رض کےدو بیٹے بھی انکا ساتھ چھوڑ کر امیر حجاج کے ساتھ مکہ کے محاصرے کے وقت وہ کیوں ایک جائز خلیفہ الوقت کا ساتھ چھوڑ کر امیر حجاج کے پاس گئے، اگر وہ بھی اسکو ایک باغی تسلیم کرتے تھے؟ حوالے کے لئے یہاں دیکھئے
عبداللہ بن زبیر رضہ ، عبداللہ بن مطیع العدوی وغیرہ کو ۔۔ اگر سیدنا امیر المومنین ابن زبیر کا ساتھ لوگ چھوڑ دیں چاہے اپنا بیٹا ہی کیون نہ ہو تو کیا یہ دلیل ہے کہ امیر المومنین غلط اور حجاج ظالم صحیح تھا ؟؟؟
\\\\\\\
جناب عالی یہ بات نہ صرف عقدالفرید میںلکھی ہوئی بلکہ اسی باتکو امام ابن تیمیہ رح بھی فرمارہے ہیں اپنے فتویٰ میں کہ مختار نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا
جی جناب ابن تیمیہ یہ فرماتے ہیں اور ہم تو ان کی بات مانتے ہیں مختار یہ تھا وہ تھا پھر کیا آپ ان کی بات مانتے ہیں ؟؟؟؟؟
اور انہوں نے حجاج کے ظلم پر اتفاق نقل کیا ہے الحمداللہ۔۔۔اگر آپ کو ان کی اس بات سے اختلاف ہے تو مجھے بھی ان کی مختار والی بات سے اختلاف کا ہے ۔۔ تو معاملہ ابھی تک وہین لٹکہ ہے۔۔
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728)نے کہا:أن القول في لعنة يزيد كالقول في لعنة أمثاله من الملوك الخلفاء وغيرهم ، ويزيد خير من غيره ،خير من المختار بن أبي عبيد الثقفي أمير العراق ، الذي أظهر الانتقام من قتلة الحسين ؛ فإن هذا ادّعى أن جبريل يأتيه . وخير من الحجاج بن يوسف ؛ فإنه أظلم من يزيد باتفاق الناس. [مختصر منهاج السنة 1/ 343]
یزید پرلعنت کامسئلہ اسی جیسے دیگر خلفاء وبادشاہوں پرلعنت کی طرح ہے، اوریزید دیگربادشاہوں سے بہتر ہی ہے ، یہ امیرعراق مختاربن ابوعبید ثقفی سے بہتر ہے جس نے قاتلین حسین سے انتقام کا نعرہ بلندکیا تھا۔ کیونکہ اس ثقفی نے یہ دعوی کرلیا کہ اس کے پاس جبرئیل آتے ہیں ، اسی طرح یزید ، حجاج بن یوسف سے بھی بہترہے ۔
کیونکہ حجاج بن یوسف ،یزید سے بڑھ کر ظالم ہے اس پر سب کا اتفاق ہے ۔
واضح رہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یزید کو ظالم تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ الزامی جواب دیا ہے یعنی اگریزید کی طرف منسوب ظلم کی باتیں تسلیم کرلی جائیں تب بھی یہ حجاج بن یوسف سے بڑا ظالم نہیں ہے۔
جنابعالی یہ بات نہصرف عقدالفرید میںلکھی ہوئی بلکہ اسی باتکو امام ابن تیمیہ رح بھی فرمارہے ہیں اپنے فتویٰ میںکہ مختار نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا
شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالى سے اس سوال كے متعلق دريافت كياگيا تو انہوں نے اس كے جواب ميں فرمايا:
مسلم شريف ميں نبى كريم صلى اللہعليہ وسلم سے حديث ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ( قبيلہ ) ثقيف ميں ايك كذاباور اور ايك خونريزى كرنے والا ہو گا"
لہذامختار بن ابو عبيد الثقفى كذاب تھا، اور وہ اہل بيت سے دوستى اور محبت كا اظہار كرتا اور ان كى مدد كرنے كا دعويدار تھا، اور عراق كے امير عبيد اللہ بن زياد كو قتل كيا جس نے وہ پارٹى تيار كى جس نے حسين بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو قتل كيا اورپھر اس نے كذب كا اظہار كرديا اور نبوت كا دعوى كرتے ہوئے كہا كہ اس پر جبريل عليہ السلام نازل ہوتے ہے، حتى كہ وہ ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم كو كہنے لگے: انہوں نے ان ميں سے ايك كو كہا: مختار بن ابو عبيد كا خيال ہے كہ اس پر وحى نازل ہوتى ہے، تو انہوں نے كہا وہ سچ كہتا ہے:
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{كيا ميں تمہيں اس كى خبر نہ دوں جس پر شيطان نازل ہوتے ہيں تا كہ وہ اپنے دوستوں كو يہ وحى كريں كہ وہ تم سے لڑيں}.
اور رہا خونريزى كرنے والا تو وہ حجاج بن يوسف الثقفى تھا، اور يہ شخص على رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے ساتھيوں سے منحرف تھا، لہذا يہ نواصب ميں سے ہے، اور پہلا روافض ( شيعہ، مختار ثففی ) ميں سے تھا، اور يہ رافضى سب سے بڑا جھوٹ پرداز اور بہتان باز، اور دين ميں الحاد كرنے والا تھا، كيونكہ اس نے نبوت كا دعوى كيا.ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 5)
باقیرہا کہ امام ابن تیمیہ رح کا امیر حجاج کو ناصبی کہنا اور انکاخونریزی کرنے والا کہنا دراصل ابن تیمیہ رح کا تسامح ہے،اور جناب عالیٰ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ انسان تھے، اور ہرانسان میں غلطی کا مادہ ہوتا ہے، صرفانبیاء اور فرشتوں کی ذات غلطیوں سے مبراء ہوتی ہے۔اس لئے یہاں ابن تیمیہ رح سے ادھر غلطی ہوئ۔ اگر امیر حجاج ناصبی ہوتے تو کیا وہ سیدنا عبداللہ عباس، ابن حنفیہ اور زین العابدین رحمہ اللہ اجمعین کو کیا وہ زندہ چھوڑ دیتے، حالانکہ ان حضرات نے تو امیر المومنین عبدالملک کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی تھی۔ نیز مروان رحمہ اللہ کے بیٹے سے تو سیدنا علی المرتضی رض کی بیٹی بھی بیاہی گئی تھی، تو مروان کیسے ناصبی بن گئے؟
ماشاء اللہ ثم ماشاء اللہ ۔یعنی ایک ہی حدیث کی ابن تیمیہ کی آدہی تشریع آپ کو قبول ہے آدہی میں من مانی۔ابن تیمیہ نہ صرف حجاج کو ناصبی کہ رہے ہیں بلکہ اس حدیث کا مصداق بھی بنا رہے ہیں لیکن آپ نے کمال ہوشیاری سے اس کو الگ الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ اوپر ہمارے خلاف ابن تیمیہ سے ہی جناب نے حجت پکڑی ہے اور پھر جب ابن تیمیہ آنجناب کو رگڑا تو پھر تاویلیں ابن تیممیہ انسان تھے یہ تھے وہ تھے فرشتے تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انداز اختلاف ہے ۔حجاج کے خلاف کئے روایات ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ وہ ناصبی تھا ۔۔ کیا کہون۔۔ میں بھی کہتا ہون مختار کے معاملے میں ابن تیمیہ سے تسامح ہوا ۔۔ انہوں تاریخ کی داستانوں کو بنیاد بنا کر سیدنا حسین رضہ کا بدلہ لینے والے کے بارے میں ایسے الفاظ کہے -بس معاملہ وہیں کا وہیں لٹک رہا ہے۔۔ ابھی تک۔
نیز مختار کذاب کو جھوٹا مدعی نبی کہنے والے دیوبندی ۔ اہل حدیث - بریلوی تمام حضرات بھی شامل ہیں، ایک ویب سائٹ ہے جہاں تمام جھوٹے مدعی نبوت کے بارے میں لکھا ہوا ہے، غالبا یہ کسی دیوبند مکتب فکر والوں کی ہی ہے، اس ویب سائٹ پر جاکر دیکھئے، چوتھے یا پانچویں نمبر پر اسکا نام لکھا ہوا ہے، اور ہو تو ان ویب سائٹ والوں سے بھی پوچھئیے کہ بھی تم نے مختار کو جو جھوٹے نبی ہونے کا دعوے دار لکھا ہے، اسکا ثبوت کیا ہےhttp://khtmenabowt.blogspot.com/2011/06/blog-post_8479.html
کیا آپ دیوبندی ، اہل حدیث ، بریلوی کے اجماع کو مانتے ہیں ۔؟؟۔۔۔ اگر مانتے ہیں وہ حجاج کے ظلم پر متفق ہیں اور صحیح مسلم کی حدیث بھی حجاج پر ہی فٹ کرتے ہین۔۔۔۔۔۔ بلکہ ابن تیمیہ نے امت کا اجماع نقل کیا ہے
پھر کیا سبب ہے کہ مجھے تو قید کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور خود جناب اپنی بات پر امت کے اکبرین اور ابن تیمیہ ، دیوبندی ، اہل حدیث ، بریلویوں کی ایسی کی تیسی کر رہے ہین۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟