جی طاھر بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کا اثر ہے کہ وہ جنبی کیلئے بھی تلاوت قرآن جائز سمجھتے تھے صحیح بخاری میں یہ دیکھیں
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=52&ID=593
اور ابن حجر نے جو باب کی مطابقت بیان کی ہے حدیث سے وہ بھی دیکھیں
اوپر شاھد بھائی نے ھرقل والی روایت بارے کہا تھا کہ پھر تو یہ بھی کہیں کہ قرآن نجس کیلئے چھونا بھی جائز ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ انما المشرکون نجس بعد میں نازل ہوئی تھی اور دوسری یہ کہ اسلام کی دعوت دینا کفار کو واجب ہے تو کیسے ان کو بغیر قرآن کے دعوت دے دیجائے؟؟؟ یعنی بقدر ضرورت آیت لکھ دینی یا مقصود صفحہ یا جزء دے دینا دعوت کی بنیاد پر واللہ اعلم بظاھر اس میں حرج نہیں
اور فھم سلف تو حجت ہے لیکن کیا فھم جمھور کا حجت ہے یا کہ جس کا فھم دلیل کے موافق ہے ؟؟؟ قاعدہ یہ نہیں کہ جمھور کا فھم حجت ہے کبھی کبھی حق جمھور کے فھم کے خلاف بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ اذا وافقت الحق فانت الجماعۃ و لو کنت وحدک
اس موضوع پر کئی کتب لکھی گئی ہیں الشیخ عمر الحدوشی حفظہ اللہ کی یہ کتاب بھی ایک اھم کتاب ہے اسی موضوع پر
http://elibrary.mediu.edu.my/books/MAL05724.pdf
اعلام الخائض بجواز مس المصحف للجنب و الحائض
عرصہ قبل ایک کتاب دیکھی تھی جس کا موضوع اس حدیث کا ضعف بیان کرنا تھا لا احل المسجد لحائض
لا یمسہ الا المطھرون تفسیر طبری میں دیکھیئے سند صحیح کے ساتھ اقوال میں مراد کون ہیں صرف ملائکہ اور دوسرے قول پر ان کی مثل اور انبیاء اور ان کی مثل بلکہ رد بھی ہے اقوال میں ان پر جنہوں نے اس سے مراد عام مسلمانوں کو لیا
ان تجد عیبا فسد الخللا جل من لا عین فیہ و علا