- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
صحابی کا کہنا: كنا نعده على عهد رسول الله سفاحاً سنتِ مبارکہ ہوتا ہے۔ یہ فتویٰ کیسے ہوگیا؟؟؟ کتب اصولِ حدیث کا مطالعہ کیجئے:آیت کا استثنا جن بھائی نے دعوی کیا ہے ان سے طلب فرمائیے۔
ان احادیث سے اس نکاح کا فاسد ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟ طرز استدلال بتائیے۔
یہ صحابہ کرام نہیں صرف عبد اللہ بن عمر رض کا فتوی ہے جو ممکن ہے ان کے اجتہاد کی بنا پر ہو۔ احناف کا اجتہاد اس سے ہٹ کر ہے۔ اسی طرح امیر صنعانی، صاحب سبل السلام نے بھی اجتہاد کیا ہے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کس بنا پر وہ صریح آیت کو چھوڑ کر یہ اجتہاد کر رہے ہیں۔
صریح اگر حدیث خبر واحد ہو تب بھی وہ کتاب اللہ کی صراحت کے مقابلے میں مرجوح ہوتی ہے اور یہاں تو حدیث میں صراحت ہی نہیں ہے۔
یہ کیسا عجیب مطالبہ ہے کہ قرآن کو چھوڑ دوں اور حدیث کو ڈھونڈوں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ قرآن کا مرتبہ سب سے پہلا ہے؟
قال الحاكم في معرفة علوم الحديث
وقول الصحابي من السنة كذا وأشباه ما ذكرناه إذا قاله الصحابي المعروف بالصحبة فهو حديث مسند وكل ذلك مخرج في المسانيد
وقال الخطيب البغدادي رحمه الله في كتاب الكفاية
باب في حكم قول الصحابي أمرنا بكذا ونهينا عن كذا ومن السنة كذا هل يجب حمله على أمر الرسول الله صلى الله عليه وسلم ونهيه أو يجوز كونه أمرا ونهيا له ولغيره
أخبرنا أبو سعيد محمد بن موسى الصيرفي قال ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم قال ثنا يحيى بن أبي طالب قال أنا عبد الوهاب بن عطاء قال أنا بن عون عن حميد بن زاذويه عن أنس بن مالك قال أمرنا أو قال نهينا أن لا نزيد أهل الكتاب على وعليكم
أخبرنا القاضي أبو بكر أحمد بن الحسن الحيري قال ثنا محمد بن يعقوب الأصم قال ثنا محمد بن إسحاق الصنعاني قال أنا عبد الوهاب قال ثنا بن عون عن محمد بن سيرين أن أنس بن مالك قال نهينا ان يبيع حاضر لباد
أخبرنا عبد الله بن يحيى بن عبد الجبار السكري قال أنا عبد الخالق بن الحسن المعدل قال ثنا محمد بن سليمان بن الحارث قال ثنا مسلم بن إبراهيم الأزدي قال ثنا شعبة بن الحجاج عن مسعر بن كدام عن وبرة بن عبد الرحمن عن همام بن الحارث عن عبد الله بن مسعود قال ان من السنة الغسل يوم الجمعة
قال أكثر أهل العلم يجب أن يحمل قول الصحابي أمرنا بكذا على أنه أمر الله ورسوله
وقال فريق منهم يجب الوقف في ذلك لأنه لا يؤمن ان يعني بذلك أمر الأئمة والعلماء كما انه يعني بذلك أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم
والقول الأول أولى بالصواب
والدليل عليه ان الصحابي إذا قال أمرنا بكذا فانما يقصد الاحتجاج لاثبات شرع وتحليل وتحريم وحكم يجب كونه مشروعا
وقد ثبت انه لايجب بأمر الأئمة والعلماء تحليل ولا تحريم إذا لم يكن ذلك أمرا عن الله ورسوله وثبت ان التقليد لهم غير صحيح
وإذا كان كذلك لم يجز ان يقول الصحابي أمرنا بكذا أو نهينا عن كذا ليخبر بإثبات شرع ولزوم حكم في الدين وهو يريد أمر غير الرسول ومن لا يجب طاعته ولا يثبت شرع بقوله وانه متى أراد أمر من هذه حاله وجب تقييده له بما يدل على انه لم يرد أمر من يثبت بامره شرع
وهذه الدلالة بعينها توجب حمل قوله من السنة كذا على انها سنة الرسول الله صلى الله عليه وسلم
فان قيل هل تفصلون بين قول الصحابي ذلك في زمن النبي صلى الله عليه وسلم وبين قوله بعد وفاته
قيل لا لأنا لا نعرف أحدا فصل بين ذلك
باقی قرآن کریم سے آپ جو مفہوم مراد لے رہے ہیں اسے آپ قرآن کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ قرآن نہیں ہے۔ اپنے لئے گئے مفہوم (اجتہاد) کو قرآن کہنا اور اختلاف رکھنے والے پر طعن کرنا صحیح نہیں ہے۔
یہ اصول آپ کے ہاں تو ہو سکتا ہے کہ خبر واحد (صحیح) قرآن کے مخالف ہو تو مرجوح ہوتی ہے، امام صاحب رحمہ اللہ کے اقوال کو ترجیح دینے کیلئے آپ لوگوں ایسے اصولوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ سلف صالحین اور محدثین کے ہاں ہرگز یہ اُصول نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ قرآن کریم (وحی) اور صحیح حدیث (وحی، خواہ وہ خبرِ واحد ہو) آپس میں ٹکرا جائیں؟؟؟ نہیں! یہ ممکن ہی نہیں!!! ولو كان من عند خير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا ہاں عموم خصوص، مطلق مقید وغیرہ کا معاملہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں قطعی الدّلالہ (تخصیص وتقیید) پر ہی عمل کیا جائے گا۔