• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلالہ جیسے لعنتی فعل پر آپکو سمجھانے کے لئے،،، انتہائی ضروری بات،،

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
آیت کا استثنا جن بھائی نے دعوی کیا ہے ان سے طلب فرمائیے۔

ان احادیث سے اس نکاح کا فاسد ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟ طرز استدلال بتائیے۔
یہ صحابہ کرام نہیں صرف عبد اللہ بن عمر رض کا فتوی ہے جو ممکن ہے ان کے اجتہاد کی بنا پر ہو۔ احناف کا اجتہاد اس سے ہٹ کر ہے۔ اسی طرح امیر صنعانی، صاحب سبل السلام نے بھی اجتہاد کیا ہے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کس بنا پر وہ صریح آیت کو چھوڑ کر یہ اجتہاد کر رہے ہیں۔
صریح اگر حدیث خبر واحد ہو تب بھی وہ کتاب اللہ کی صراحت کے مقابلے میں مرجوح ہوتی ہے اور یہاں تو حدیث میں صراحت ہی نہیں ہے۔

یہ کیسا عجیب مطالبہ ہے کہ قرآن کو چھوڑ دوں اور حدیث کو ڈھونڈوں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ قرآن کا مرتبہ سب سے پہلا ہے؟
صحابی کا کہنا: كنا نعده على عهد رسول الله سفاحاً سنتِ مبارکہ ہوتا ہے۔ یہ فتویٰ کیسے ہوگیا؟؟؟ کتب اصولِ حدیث کا مطالعہ کیجئے:

قال الحاكم في معرفة علوم الحديث
وقول الصحابي من السنة كذا وأشباه ما ذكرناه إذا قاله الصحابي المعروف بالصحبة فهو حديث مسند وكل ذلك مخرج في المسانيد
وقال الخطيب البغدادي رحمه الله في كتاب الكفاية
باب في حكم قول الصحابي أمرنا بكذا ونهينا عن كذا ومن السنة كذا هل يجب حمله على أمر الرسول الله صلى الله عليه وسلم ونهيه أو يجوز كونه أمرا ونهيا له ولغيره
أخبرنا أبو سعيد محمد بن موسى الصيرفي قال ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم قال ثنا يحيى بن أبي طالب قال أنا عبد الوهاب بن عطاء قال أنا بن عون عن حميد بن زاذويه عن أنس بن مالك قال أمرنا أو قال نهينا أن لا نزيد أهل الكتاب على وعليكم
أخبرنا القاضي أبو بكر أحمد بن الحسن الحيري قال ثنا محمد بن يعقوب الأصم قال ثنا محمد بن إسحاق الصنعاني قال أنا عبد الوهاب قال ثنا بن عون عن محمد بن سيرين أن أنس بن مالك قال نهينا ان يبيع حاضر لباد
أخبرنا عبد الله بن يحيى بن عبد الجبار السكري قال أنا عبد الخالق بن الحسن المعدل قال ثنا محمد بن سليمان بن الحارث قال ثنا مسلم بن إبراهيم الأزدي قال ثنا شعبة بن الحجاج عن مسعر بن كدام عن وبرة بن عبد الرحمن عن همام بن الحارث عن عبد الله بن مسعود قال ان من السنة الغسل يوم الجمعة
قال أكثر أهل العلم يجب أن يحمل قول الصحابي أمرنا بكذا على أنه أمر الله ورسوله
وقال فريق منهم يجب الوقف في ذلك لأنه لا يؤمن ان يعني بذلك أمر الأئمة والعلماء كما انه يعني بذلك أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم
والقول الأول أولى بالصواب
والدليل عليه ان الصحابي إذا قال أمرنا بكذا فانما يقصد الاحتجاج لاثبات شرع وتحليل وتحريم وحكم يجب كونه مشروعا
وقد ثبت انه لايجب بأمر الأئمة والعلماء تحليل ولا تحريم إذا لم يكن ذلك أمرا عن الله ورسوله وثبت ان التقليد لهم غير صحيح
وإذا كان كذلك لم يجز ان يقول الصحابي أمرنا بكذا أو نهينا عن كذا ليخبر بإثبات شرع ولزوم حكم في الدين وهو يريد أمر غير الرسول ومن لا يجب طاعته ولا يثبت شرع بقوله وانه متى أراد أمر من هذه حاله وجب تقييده له بما يدل على انه لم يرد أمر من يثبت بامره شرع
وهذه الدلالة بعينها توجب حمل قوله من السنة كذا على انها سنة الرسول الله صلى الله عليه وسلم
فان قيل هل تفصلون بين قول الصحابي ذلك في زمن النبي صلى الله عليه وسلم وبين قوله بعد وفاته
قيل لا لأنا لا نعرف أحدا فصل بين ذلك


باقی قرآن کریم سے آپ جو مفہوم مراد لے رہے ہیں اسے آپ قرآن کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ قرآن نہیں ہے۔ اپنے لئے گئے مفہوم (اجتہاد) کو قرآن کہنا اور اختلاف رکھنے والے پر طعن کرنا صحیح نہیں ہے۔

یہ اصول آپ کے ہاں تو ہو سکتا ہے کہ خبر واحد (صحیح) قرآن کے مخالف ہو تو مرجوح ہوتی ہے، امام صاحب رحمہ اللہ کے اقوال کو ترجیح دینے کیلئے آپ لوگوں ایسے اصولوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ سلف صالحین اور محدثین کے ہاں ہرگز یہ اُصول نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ قرآن کریم (وحی) اور صحیح حدیث (وحی، خواہ وہ خبرِ واحد ہو) آپس میں ٹکرا جائیں؟؟؟ نہیں! یہ ممکن ہی نہیں!!! ولو كان من عند خير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا ہاں عموم خصوص، مطلق مقید وغیرہ کا معاملہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں قطعی الدّلالہ (تخصیص وتقیید) پر ہی عمل کیا جائے گا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
آیت کا استثنا جن بھائی نے دعوی کیا ہے ان سے طلب فرمائیے۔
عجیب بات ہے۔
آپ نے دعویٰ کیا کہ قرآن کی آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت دوسرے شوہر سے ہمبستری کے بعد پہلے کے لئے حلال ہو جائے گی۔
اس پر محترم محمد علی جواد بھائی نے بالکل جائز اور مناسب اعتراض قائم کیا کہ اگر قرآن کے ظاہری الفاظ کو احادیث کی تفسیر و توضیح کے بغیر پڑھا جائے تو ایسی کئی دیگر آیات سے بھی وہ معانی مراد لئے جا سکتے ہیں جو شریعت کا منشا نہیں ہیں۔ اور دلیل کے طور پر کچھ آیات ذکر کیں۔
آپ نے ان آیات کے جواب میں ایک نیا دعویٰ کر دیا کہ ان آیات کو اس تناظر میں بطور مثال پیش کرنا درست نہیں ، کیونکہ ان آیات کا استثنا صراحت سے ثابت ہے۔ ملاحظہ ہوں آپ کے الفاظ:

باقی ان آیات سے مستثنیات صراحت سے ثابت ہو رہی ہیں۔ آپ حلالہ والے نکاح نہ ہونے کی صراحت دکھائیے۔
تو ان آیات سے مستثنیات کا صراحت سے ثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ ورنہ اصل اعتراض اپنی جگہ قائم ہے کہ قرآن کی اس زیربحث آیت کے ظاہری الفاظ سے آپ جو مفہوم مراد لے رہے ہیں، ویسا ہی مفہوم ان دیگر آیات سے کیوں نہیں لیا جاتا۔۔؟

دوسری بات آپ نے کہی کہ حلالہ والے نکاح نہ ہونے کی صراحت دکھائیے۔ تو اس کے لئے کئی احادیث آپ کو پیش کی گئیں۔ ان پر آپ کے اعتراضات کا اوپر محترم انس صاحب نے شافی جواب دے دیا ہے۔
لیکن یہاں میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ قرآن کی ایک آیت سے دو مفاہیم مراد لئے جا سکتے ہوں۔ اور ایک مفہوم کی تائید میں کچھ صحیح احادیث و آثار موجود ہوں، چاہے یہ تائید صراحت سے ثابت ہو یا اشارۃ النص سے۔
اور دوسرے مفہوم کی تائید میں کوئی ایک بھی صحیح یا ضعیف حدیث موجود نہ ہو۔ نہ صراحت سے اور نہ اشارۃ النص سے۔ تو کس مفہوم کو اختیار کیا جانا چاہئے۔۔؟

ان احادیث سے اس نکاح کا فاسد ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟ طرز استدلال بتائیے۔
طرز استدلال امیر صنعانی کی عبارت میں موجود تھا، جسے آپ نے ان کا اجتہاد کہہ کر رد کر دیا۔ آپ ان کے اجتہاد سے متفق بے شک نہ ہوں۔ ان کے استدلال کی تردید تو فرمائیے؟

"مذکورہ حدیث حلالہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ لعنت کا اطلاق فعل حرام کے مرتکب پر ہی ہوتا ہے اور ہر حرام چیز پر شریعت میں نہی وارد ہے اور نہی فساد کا تقاضا ہے۔''
لہٰذا جب حلالہ حرام اور منہی عنہ ہے ، اس لئے یہ نکاح فاسد قرار پاتا ہے ۔ یہی مفہوم دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح حلالہ نکاح فاسد ہے ، زنا اور بدکاری ہے، نکاح صحیح نہیں ہے۔

یہ صحابہ کرام نہیں صرف عبد اللہ بن عمر رض کا فتوی ہے جو ممکن ہے ان کے اجتہاد کی بنا پر ہو۔ احناف کا اجتہاد اس سے ہٹ کر ہے۔ اسی طرح امیر صنعانی، صاحب سبل السلام نے بھی اجتہاد کیا ہے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کس بنا پر وہ صریح آیت کو چھوڑ کر یہ اجتہاد کر رہے ہیں۔
اس بارے میں ایک وضاحت تو اوپر انس بھائی نے کر دی کہ یہ ایک صحابی کا فتویٰ ہی نہیں، بلکہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح ثبوت ہے۔

دوسری بات یہ کہ "ممکن ہے" کہہ کر جواب دے دینا، کیا جواب ہو جاتا ہے؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ فتویٰ مبنی بر اجتہاد نہ ہو، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایت کی بنا پر ہو۔ جب دونوں کا امکان ہے اور بلکہ دوسرے امکان کے قوی ہونے پر قرائن بھی موجود ہیں ، تو آپ کو اپنے استدلال پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

تیسری بات یہ کہ صحابی کا فتویٰ ہی ہو، اس پر دیگر احادیث شاہد ہیں۔ احناف کے اجتہاد پر، خاص نکاح حلالہ کے منعقد ہونے کی تائید میں کوئی ایک حدیث ہی پیش فرمائیے۔۔؟

صریح اگر حدیث خبر واحد ہو تب بھی وہ کتاب اللہ کی صراحت کے مقابلے میں مرجوح ہوتی ہے اور یہاں تو حدیث میں صراحت ہی نہیں ہے۔
پہلی بات کتاب اللہ میں یہ صراحت نہیں، جس کے آپ مدعی ہیں۔

دوسری بات، تھوڑی دیر کو مان لیجئے یہ اصول۔ تب یہ فرمائیے کہ اوپر جس آیت کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ جب آپس میں سودا کرو تو گواہ بنا لو۔ کیا یہ آیت اپنے مدعا پر صریح نہیں؟ اور اس کے بالمقابل اب آپ کوئی صریح حدیث پیش فرمائیے۔ اگر یہاں قرآن کی صراحت کے بالمقابل اپنا اجتہاد قبول ہے تو وہاں قرآن کی صراحت کی تائید میں نہ کہ اس کے بالمقابل احادیث کیوں قبول نہیں؟

اور قرآن کی صراحت کے بالمقابل صحیح حدیث کو مرجوح قرار دینے والے، معلوم نہیں یہ اصول مدت رضاعت والے مسئلے میں کیوں بھول جاتے ہیں۔

یہ کیسا عجیب مطالبہ ہے کہ قرآن کو چھوڑ دوں اور حدیث کو ڈھونڈوں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ قرآن کا مرتبہ سب سے پہلا ہے؟
عجیب بات ہے۔ منکرین حدیث بھی یہی کہتے ہیں۔ قرآن سے اپنا من مانا مفہوم مراد لے کر، وہ تمام احادیث جو اس مفہوم کے خلاف ہوتی ہیں، خلاف قرآن قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔ اور یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ یہ احادیث واقعتاً قرآن کی آیت کے خلاف ہیں، یا اس مفہوم کے خلاف ہیں، جو زبردستی قرآن کے گلے مڑھ دیا گیا ہے۔ آپ بھی غور کیجئے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یہ کیسا عجیب مطالبہ ہے کہ قرآن کو چھوڑ دوں اور حدیث کو ڈھونڈوں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ قرآن کا مرتبہ سب سے پہلا ہے؟
کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی طریقہ کار تھا کہ نبی کریمﷺ کے احکامات پر کہہ دیتے ہوں کہ نہیں جی! قرآن آپ کی بات سے مقدم ہے؟ آپ کی بات کو کیسے مان سکتے ہیں؟؟؟ میرے بھائی! وحی کے اعتبار سے اور ایمان لانے اور عمل کرنے کے اعتبار سے قرآن وحدیث میں کوئی فرق نہیں۔ قرآن وحدیث میں اس قسم کی تفریق کرنا مؤمن کے شایان شان نہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
حلالہ کا مسئلہ
حلالہ کی نیت سے نکاح حرام ہے۔
http://banuri.edu.pk/ur/node/1782
انا للہ وانا الیہ راجعون!

مفتی صاحب حلالہ کو حرام، گناہ اور لعنتی عمل کہہ رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی مستفتی کو اس کی ترغیب بھی دے رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں!
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
احناف کے موقف کو شاید جذبات کی گرمی میں فراموش کردیاگیاہے۔
احناف بھی حلالہ کے فعل کو قابل لعنت اورگناہ مانتے ہیں۔ فرق صرف یہاں یہ ہوتاہے کہ اگرکسی نے ایساکیاتواس کا فعل واقع ہوگایانہیں۔ جیساکہ بعینہ تین طلاق کے مسئلہ میں ہے۔ تین طلاق اکٹھی دیناشریعت کی نگاہ میں گناہ ہے لیکن اگرکسی نے دے دیاتو جمہورائمہ علماء فقہاء کی رائے ہے کہ واقع ہوجائے گی۔
اس کی ایک مزید مثال لیں ایک شخص اپنی بیوی کو ناحق طلاق دیتاہے تو وہ گناہ گار ہے لیکن طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس طرح کی شریعت میں مزید مثالیں ہیں۔ لہذا شرعی مسائل کو علمی طورپر پرکھنے کے بجائے جذبات کی رو میں بہہ کر کسی ایک فقہی مکتب فکر کو کوسنا غلط فعل ہے۔ اللہ ہم سب کو صحیح راستہ دکھائے۔ آمین
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
لگتا ہے کہ فقہ شریف کا دفاع کرتے کرتے اشماریہ بھائی قرآن اور صحیح احادیث کو بہت پیچھے چھوڑ آ ے ہیں -

جب ان کے لیے فقہ اتنی ہی ضروری ہے تو ان کو قرآن اور احادیث کی ضرورت ہی کیا -


اب میرا ایک سخت سوال جو یہاں ضروری ہے​
کیا اشماریہ بھائی اگر آپ کی بہن کو طلاق ھو جا ے اور دوبارہ اس کا خاوند اس سے رجوح کرنا چاہے تو کیا آپ ایک رات کے لیے اس کا کسی اور سے حلالہ کروا لیں گے اور دوبارہ پہلے کے لیے اپنی بہن کو حلال کر دیں گے​
امید ہے کہ کوئی ناراض نہیں ھو گا ۔​
کیوں کہ اشماریہ بھائی خود کہ چکے ہیں کہ​
تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہ بحث کے دوران ادب و احترام کا خیال رکھنا شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے۔اور ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز بھی ایسا ہی ہوتا تھا کہ مجرم یا گناہ گار کو مخاطب ہو کر گفتگو نہیں کرتے تھے۔اس لیے مثال دینے کے لیے نا م لینا ضروری نہیں بلکہ مثال کو بطور مثال ہی بیان کر چاہیے۔امید ہے کہ بات بری نہیں لگے گی۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
احناف کے موقف کو شاید جذبات کی گرمی میں فراموش کردیاگیاہے۔
احناف بھی حلالہ کے فعل کو قابل لعنت اورگناہ مانتے ہیں۔ فرق صرف یہاں یہ ہوتاہے کہ اگرکسی نے ایساکیاتواس کا فعل واقع ہوگایانہیں۔ جیساکہ بعینہ تین طلاق کے مسئلہ میں ہے۔ تین طلاق اکٹھی دیناشریعت کی نگاہ میں گناہ ہے لیکن اگرکسی نے دے دیاتو جمہورائمہ علماء فقہاء کی رائے ہے کہ واقع ہوجائے گی۔
اس کی ایک مزید مثال لیں ایک شخص اپنی بیوی کو ناحق طلاق دیتاہے تو وہ گناہ گار ہے لیکن طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس طرح کی شریعت میں مزید مثالیں ہیں۔ لہذا شرعی مسائل کو علمی طورپر پرکھنے کے بجائے جذبات کی رو میں بہہ کر کسی ایک فقہی مکتب فکر کو کوسنا غلط فعل ہے۔ اللہ ہم سب کو صحیح راستہ دکھائے۔ آمین
السلام علیکم !
فورم پر خوش آمدید بھائی
آپ پورا دھاگا ملاحظہ کر لیں ، یہاں جذبات سے نہیں ، قرآن و سنت سے دلائل دیئے جاتے ہیں۔
اور قرآن وسنت کی دلیل دینا ہی علمی طور پر پرکھنا ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
اوپر ناظم صاحب نصیحت کررہے ہیں کہ لوگ آپسی احترام کا خیال رکھیں اورآپ کہہ رہی ہیں کہ قرآن وسنت سے دلائل دیئے جارہے ہیں۔ میں نے پوری بحث پڑھ لی ہے لیکن شاید آپ نے میرے موقف کو اورمیری بات کو سمجھنے کی زحمت گوارانہیں کی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
احناف کے موقف کو شاید جذبات کی گرمی میں فراموش کردیاگیاہے۔
احناف بھی حلالہ کے فعل کو قابل لعنت اورگناہ مانتے ہیں۔ فرق صرف یہاں یہ ہوتاہے کہ اگرکسی نے ایساکیاتواس کا فعل واقع ہوگایانہیں۔ جیساکہ بعینہ تین طلاق کے مسئلہ میں ہے۔ تین طلاق اکٹھی دیناشریعت کی نگاہ میں گناہ ہے لیکن اگرکسی نے دے دیاتو جمہورائمہ علماء فقہاء کی رائے ہے کہ واقع ہوجائے گی۔
اس کی ایک مزید مثال لیں ایک شخص اپنی بیوی کو ناحق طلاق دیتاہے تو وہ گناہ گار ہے لیکن طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس طرح کی شریعت میں مزید مثالیں ہیں۔ لہذا شرعی مسائل کو علمی طورپر پرکھنے کے بجائے جذبات کی رو میں بہہ کر کسی ایک فقہی مکتب فکر کو کوسنا غلط فعل ہے۔ اللہ ہم سب کو صحیح راستہ دکھائے۔ آمین
آپ انصاف سے مطالعہ کریں گے تو جذبات کی گرمی کے ساتھ ہماری جانب سے پیش کردہ دلائل بھی نظر آ جائیں گے۔ اب تک احناف کی جانب سے تو ہمیں ایک بھی دلیل نہیں دی گئی کہ جس میں حلالہ کی نیت سے کئے گئے نکاح کے منعقد ہو جانے کا صریح ثبوت پیش کیا ہو۔

رہی آپ کی یہ بات کہ احناف بھی حلالہ کے فعل کو قابل لعنت اور گناہ مانتے ہیں، تو معاف کیجئے گا یہ کہنے کی حد تک ہے۔ درج ذیل فتویٰ دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ سے ملاحظہ فرمائیے اور اپنے مؤقف پر بنظر انصاف نظر ثانی کیجئے:

آن لائن لنک
سوال: حلالہ کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے، کیوں کہ میں نے ایک حدیث میں پڑھا ہے کہ حلالہ کرنے اورکروانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہے؟ (۲) اگر تین طلاقیں دی جائیں اوراسی مہینہ کے دوران شوہر رجوع کرلے ․․․․کیا طلاق واقع ہوجائے گی؟ کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور ِ خلافت سے پہلے اکٹھی تین طلاق کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا؟ (۳)حلالہ اور متعہ میں کیا فرق ہے، اگر دونوں میں کچھ وقت کے لیے رشتہ ازدواج مقصود ہو اور اس رشتہ کے بعد میاں اوربیوی ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں؟ از راہ مہربانی جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
Nov 08,2008
Answer: 7794
فتوی: 1681/د= 99/ک
حدیث مذکور صحیح ہے، جب نکاح میں حلالہ کرنے کی شرط کردی جائے تو وہ نکاح موقت کے مشابہ ہوجاتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے، اگر شرط لگاکر نکاح نہ کیا گیا ہو اگر چہ اس کی نیت ہو تو یہ مذموم نہیں ہے۔ لمعات شرح مشکاة میں لکھا ہے المکروہ اشتراط الزوج التحلیل في القول لا في النیعة بل قد قیل إنہ ماجور بالنیة لقصد الإصلاح (حاشیة مشکاة، ص:۲۸۴)
(۲) تین طلاق دینے کے بعد رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے اس لیے اسی مہینہ میں شوہر کا رجوع کرنا درست نہیں، ہے طلاق واقع ہوگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تین طلاق تین ہی ہوتی تھی۔ عمدة الأثاث فی حکم الطلاق الثلاث کا مطالعہ فرمائیں۔
(۳) متعہ خاص مدت کے لیے تمتع حاصل کرنے کا معاملہ کیا جائے جو کہ ناجائز وحرام ہے اور حلالہ میں نکاح کے وقت کی تعیین نہیں ہوتی بلکہ نکاح کی دوامی خصوصیت موجود رہتی ہے، کوئی جملہ اس کے منافی نہیں صادر کیا جاتا ہے جب کہ متعہ میں نکاح کی دوامی کیفیت کے خلاف مدت کی تعیین کی جاتی ہے کہ ہم مثلاً ایک ہفتہ ایک ماہ کے لیے تم سے نکاح کردیتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

ہم نے حال ہی میں عربی کی کلاسز لینی شروع کی ہیں۔ لیکن آپ فتویٰ میں موجود اس عبارت کا کسی صاحب علم مثلا اشماریہ صاحب سے ترجمہ کروا لیں، تو شاید ہمارے جذبات کی گرمی کی "سیک" آپ تک بھی پہنچ جائے۔

المکروہ اشتراط الزوج التحلیل في القول لا في النیعة بل قد قیل إنہ ماجور بالنیة لقصد الإصلاح

کہاں احناف کا حلالہ کو قابل لعنت اور گناہ کہنا اور کہاں "مذموم بھی نہیں" بلکہ اس سے بڑھ کر انہ ماجور بالنیۃ سے امید ثواب کی بشارت!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
احناف بھی حلالہ کے فعل کو قابل لعنت اورگناہ مانتے ہیں۔ فرق صرف یہاں یہ ہوتاہے کہ اگرکسی نے ایساکیاتواس کا فعل واقع ہوگایانہیں۔
ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور!

منہ سے یہی کہتے ہیں کہ حرام ہے، قابل لعنت ہے لیکن ساتھ ہی ترغیب بھی دیتے ہیں کہ کر لو۔ یہ قول وفعل میں تضاد نہیں؟؟؟

اشماریہ صاحب کا شیئر کیا گیا فتویٰ ملاحظہ کریں:

سوال
محترم مفتی صاحب !
السلام علیکم !
میرے والد صاحب نے میری والدہ کو طلاق دے دی تھی جس کی وجہ سے ہمارا سارا گھر برباد ہوگیا۔ میرے والد صاحب کو بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اب ہمارے خاندان والے ہماری والدہ کو حلالہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
کیا حلالہ اسلام میں جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو حلالہ کرنے میں کن باتوں کا خیال رکھنا ہوگا؟ بعض لوگ حلالہ کو گناہ کہتے ہیں، کیا حلالہ گناہ ہے؟
جزاک اللہ
سائل : محمد ریاض

جواب
واضح رہے کہ حلالہ کی نیت سے نکاح کرنا حرام اور گناہ ہے اور اس طرح حلالہ کرنے اور کرانے والے پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے۔
لیکن اگر کوئی باوجود اس کے حلالہ کی نیت سے نکاح کرلیتا ہے تو نکاح شرعاً منعقد ہوجائے گا، البتہ اس حلالہ کے مؤثر اور مکمل ہونے کے لیے حقوق زوجیت کی ادائیگی کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی۔
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
سوال حلالہ کے جواز یا عدمِ جواز کا تھا۔ اور شرعی رائے پوچھی گئی تھی کہ درج بالا صورت میں کیا حلالہ کر لیا جائے؟! اگر کیا جائے تو شرائط؟؟!
جواب میں بتایا گیا کہ حلالہ حرام، گناہ اور قابل لعنت ہے۔ لیکن پھر ’لیکن‘ کہہ کر راہ دکھلا دی گئی کہ البتہ اگر حلالہ کر لیا جائے تو ہو جاتا ہے!!! (والعیاذ باللہ)

اسے کیا کہا جائے؟ کیا واقعی علمائے احناف حلالہ کو غلط سمجھتے ہیں؟؟؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top