حلالہ کے عدم وقوع پر دلیل آپ کو دینی چاہئے۔ ایک شخص کوئی فعل کررہاہے لیکن اس کا فعل شرعامعتبر نہیں ہے توکیوں معتبر نہیں ہے اس کی دلیل تو آپ کو دینی چاہئے۔
آپ کا اور ہمارا اتفاق ہے کہ حلالہ کوئی عام نکاح کی طرح سنت نہیں۔ بلکہ گناہ اور مؤجب لعنت فعل ہے۔ اب کوئی شخص سنت طریقے سے ہٹ کر کوئی فعل کرے تب بھی وہ فعل شرعا معتبر کیوں کر ہوگا، اس کی تو دلیل آپ کے ذمہ ہی بنتی ہے۔
رہ گئی بات یہ کہ اللہ کے رسول نے لعنت فرمائی ۔ یااس کو کرائے کے سانڈ سے مشابہ قراردیاتواس کو زجروتوبیخ پر محمول کیاجاسکتاہے نہ کی فعل کے عدم وقوع پر ۔
غیراللہ کو سجدہ حرام ہے۔ لیکن اگر کوئی غیراللہ کے لئے نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی؟ کیا خیال ہے؟
جیساکہ خود قرآن میں ہے جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیاتووہ جنہم میں ہمیشہ رہے گا۔ اس کا مطلب کوئی یہ نہیں لیتاکہ وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا۔
حضورپاک نے فرمایاکہ جوچھوٹوں پر شفقت اوربڑوں کااحترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ حضورپاک نے ارشاد فرمایاکہ جو مسلمان کو چھری (دھار دار ہتھیار)دکھائے وہ ہم میں سے نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کافرہوگیا۔
خود نفس نماز کے تعلق سے حضورپاک نے فرمایاکہ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑدی اس نے کفر کیا اس کے باوجود متعدد فقہائے کرام اس کو زجروتوبیخ پر محمول کرتے ہیں نہ کہ اس کے کفرپر ۔
اسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا حدیث میں جوکچھ فرمایا ہے اللہ کی لعنت ،کرائے کا سانڈ تویہ اس فعل کی شناعت بیان کرنے کیلئے ہے نہ کہ اس کا حکم بیان کرنے کیلئے ۔
یہ مثالیں آپ کے دعوے کی دلیل ہیں؟
کچھ مثالیں ہم سے سن لیجئے۔
شاتم رسول پر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔ کیا وہاں بھی آپ اسے فقط زجر و توبیخ ہی گردانیں گے؟
غیراللہ کی عبادت کرنے والا جہنمی ہے، کیا وہاں بھی اسے ہمیشگی جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل ہے؟
اگرآپ کے پاس حلالہ کے عدم وقوع پر کوئی دلیل ہوکتاب وسنت سے توضرور شیئر کریں لیکن گھسے پٹے نہیں اورذرا علمی حدود میں رہ کر ۔
اگرچہ عمومی دلائل بہت موجود ہیں۔ لیکن چلئے بات مختصر کرنے کی نیت سے ہم نکاح حلالہ کے واقع نہ ہونے کی صریح دلیل پیش کر دیتے ہیں۔
''ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔پھر اس (طلاق دینے والے آدمی) کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس سے اس لئے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس عورت کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے
کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدکاری (زنا ) شمار کرتے تھے۔''(مستدرک حاکم ۲۸۰۶،۲/۲۱۷ط، قدیم،۲/۱۹۹، بیہقی۷/۲۰۸، التلخیص الحبیر باب موانع النکاح۱۰۳۹،۳/۱۷۱۔ تحفہ الاحوذی۲/۱۷۵، امام حاکم نے فرمایا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے اور امام ذہبی نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کی موافقت کی ہے)۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فتوے سے معلوم ہوا کہ:
1۔ حلالہ صحیح نکاح نہیں ہے۔ ورنہ وہ یوں نہ کہتے کہ صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہوسکتی۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حلالہ کو بدکاری (زنا) شمار کیا جاتا تھا۔ اور ہر شخص جانتا ہے کہ نکاح کے بعد ازدواجی تعلق قائم کرنا زنا نہیں کہلاتا۔ اور
انس صاحب نے
اپنی پوسٹ میں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ صحابی کا کہنا:
كنا نعده على عهد رسول الله سفاحاً سنتِ مبارکہ ہوتا ہے۔
3۔ اس شخص نے اصلاح کی نیت سے ہی اپنے بھائی کے لئے اس کی بیوی کو حلال کرنے کی خاطر نکاح حلالہ کیا۔ لیکن صحابی رسول نے اسے زنا قرار دے دیا اور احناف اسی فعل پر ایسے شخص کو اجر کا حقدار ٹھہراتے ہیں۔
لہٰذا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہوا اور صحابی کے اپنے فتوے سے بھی ثابت ہو گیا کہ نکاح حلالہ منعقد نہیں ہوتا اور ایسا شخص اجر کا حقدار تو کیا ہوگا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا حقدار ہوگا چاہے اس کی نیت اصلاح ہی کی ہو۔ اب آپ اس دلیل کی تردید کیجئے اور پھر یہ بھی فرمائیے کہ جیسے آپ کی پیش کردہ مثالوں میں استثناء یا تشریح و توضیح اور تفسیر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یا سلف صالحین سے ثابت ہے، کیا نکاح حلالہ کے منعقد ہو جانے پر بھی کوئی صریح دلیل آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے دے سکتے ہیں؟