اللہ کی مدد۔۔ ضرور آئے گی۔۔
ان شاء اللہ
میں ڈر رہا ہوں. میں ایک انجانے خوف میں مبتلاء ہوں. مجھے شدید شرمندگی کا احساس ہورہا ہے. زمین باوجود وسعتوں کے مجھ پر تنگ محسوس ہورہی.
آسمان بے پناہ بلندیوں پر ہونے کے باوجود سر پر گرتا دکھائی دے رہا. میرا دماغ سوچ سوچ کر شل ہورہا ہے آنکھیں رورو کر سوج رہی ہیں.
یہ دیکھ اور سن کر کہ جب حلب کے فرشتوں سے بھی زیادہ معصوم ننھی ننھی کلیوں کو ” انسانیت ” کے درندے بارود سے ریزہ ریزہ کر رہے تھے.
تو ہم میلادی جلوس کی شرعی حیثیت کی لایعنی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔
ایسے میں جب یہ خبر پڑھی کہ مظلوم حلب میں بچیوں پر غارت گرانِ مغرب نے قیامت ڈھادی تو مجھے یوں لگا
کہ حشر کا میدان ہے اور حلبی” شہزادیوں ” کا ہاتھ میرے گریباں میں ہے اور وہ دریدہ بدن کے ساتھ کھڑی ہیں
اور ان سے سوال ہورہا ہے “بای ذنب قتلت- کس جرم کی پاداش میں تمھاری خاک اڑائی گی”۔۔
صدموں کے تو ہم عادی ہیں .
غم کی کوہ گراں تو ہم پر ٹوٹتے رہتے ہیں.
کربلا تو ہر روز برپا ہوتی رہتی ہے. مصائب کے جھکڑ تو ہم پر گرتے ہی رہتے ہیں.
آلام کا ڈیرا تو امت مسلمہ کے آنگن میں مستقل ہے. لیکن حلب کا دکھ دو آتشہ ہے،
حلب کا غم تو کمر توڑ ہے. حلب کا کرب جداگانہ ہے.
حلب تو بازی لے گیا دکھ کی بازی جیت گیا دل ٹوٹ گیا
آج اپنے وجود سے گھن آرہی ہے.
آج اپنے سراپے سے نفرت سی ہونے لگی ہے. آج اپنا جسم مردہ لاشہ لگ رہا ہے.
آج اپنی آتی جاتی سانسوں پر شرمندگی محسوس ہورہی،
آج اپنی اچھلتی پھدکتی نبض پر غصہ آرہا ہے، آج اپنی زندگی بوجھ لگ رہی ہے،
رگوں میں دوڑتا لہو جوش نہیں احساس ندامت سے منجمد ہورہا ہے، دل کی ہر دھڑکن پر کوفت ہورہی ہے۔
حلب سلگتا رہا، میں فلسفیانہ موشگافیوں میں جتا رہا۔
حلب ادھڑتا رہا اور میں حلوے بریانی کی دیگوں کو سینکتا رہا۔
حلب کی بیٹیاں لٹتی رہیں اور میں گلیوں کی سجاوٹ کے نظاروں میں مگن رہا۔
حلب کے معصوم کٹتے رہے اور میں اصول فقہ کی ورق گردانی میں انگلیاں گھساتا رہا۔
حلب کی مائیں مرتی رہیں اور میں زندگی کا سامان کرتا رہا۔ حلب کے بو ڑھے بے توقیر ہوتے رہے
اور میں لاٰئک وکمنٹ کے گھن چکروں میں الجھا رہا۔ حلب کے شیر دل مجاھد فرض ادا کرتے رہے
اور میں بریانی اور نذرونیاز کی پلیٹوں کا انتظار کرتا رہا۔
محمد کریم صلی الله عليه وسلم کی امت گاجر مولی کی طرح ذبح ہوتی رہی اور میں میلاد میں گانوں کی دھنوں میں وجدی حال طاری کرکے جھوم جھوم کر نبی مکرم کو راضی کرنے کا ناٹک کرتا رہا۔
اور منافق زبانیں قادیانیت کی وکالت میں لپلپارہی تھیں۔
ایک عبادت گاہ پر مشکوک حملہ ہوا تو اخلاقیات کے چغادریوں کی ہمدردی جاگ اٹھی،
لیکن حلب کی سینکڑوں مساجد کی شہادت پر زبان کو قبض دائمی ہوگئی،
اسلحہ ڈپو عبادت خانے کا غم تو کھایا جارہا ہے لیکن ہسپتالوں سے مریضوں کو نکال نکال کر لبرل اسلحے کے دہانے ٹھنڈے کئے گے،
پیچس زدہ الفاظ کو فلیجل مل گئی۔ تف ہے۔۔ اور بے حد ہے۔
اے حلب۔۔!! میرے پاس بے غیرتی کے آنسو ہیں،
میرے پاس تیرے شیروں کو عقیدت کے نذرانے کے طور پر بے بس خاموشی ہے.
میرے دامن میں تیرے لئے بے حسی ہے، میرے دل میں تجھ پہ نثار کرنے کو بزدلی ہی ہے، میرے الفاظ گنگ ہیں۔
میں چپ، میرا شعور چپ۔۔
سیدھی سی بات ہے، صرف دعا ہی کرسکتا ہوں۔
بزدل اور کربھی کیا سکتے ہیں ؟؟؟
پر دل کی دھڑکن تیرے ان بیٹوں کے نام جو بے سروسامانی میں تیری حرمت پر کٹ گئے۔
نظروں کا تقدس ان جوتیوں پر قربان جو تیری حصار میں جتے کسی مرد مجاہد کے تلوے چاٹتے رہے۔
میرے جذبات تیرے ان وارثوں کے نام جو بھوکے پیٹ تجھ پر جان وار گئے۔ میرے لبو ں کی ہر دعا ان خدامست سرفروشوں کی نذر جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے تیرے دشمن اللہ ورسول کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہیں۔
حلب تو رو نہیں۔۔!!
آئے گا اللہ کا لشکر۔۔ آئیں گے اللہ کے شیر۔۔ جھپٹیں گے تجھے ان مغربی دہشت گردوں اور شیعہ عسکریت پسندوں اور بشاری گرگوں سے چھڑائیں گے.
تب تک خون کی مہندی لگا، چوکھا رنگ چڑھا۔۔ آئے گی اللہ کی مدد۔۔ ضرور آئے گی۔۔
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
اللہ دیکھ رہا ہے اللہ کا رسول دیکھ رہا ہے
تیرے آنسو جلد ہی پونچھے جائیں گے
نوفل ربانی