• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
81- بَاب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا رَكِبَ
۸۱-باب: سواری پر چڑھتے وقت سوار کیا دعا پڑھے ؟​


2602- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِي اللَّه عَنْه [وَ] أُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، ثُمَّ قَالَ: {سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ}، ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاأَنْتَ، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَيِّ شَيْئٍ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَعَلَ كَمَا فَعَلْتُ، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، مِنْ أَيِّ شَيْئٍ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: < إِنَّ رَبَّكَ يَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ: اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، يَعْلَمُ أَنَّهُ لا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرِي >۔
* تخريج: ت/الدعوات ۴۷ (۳۴۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۴۸)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری / (۸۷۹۹)، الیوم واللیلۃ (۵۰۲)، حم (۱/۹۷، ۱۱۵، ۱۲۸) (صحیح لغیرہ)
(ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ۷/۳۵۴)
۲۶۰۲- علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا، آپ کے لئے ایک سواری لائی گئی تا کہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پائوں رکاب میں رکھا تو ''بسم الله'' کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو ''الحمدلله'' کہا، اور {سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ} کہا، پھر تین مرتبہ ''الحمدلله'' کہا، پھر تین مرتبہ''الله أكبر'' کہا، پھر''سبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا أَنْتَ'' کہا، پھرہنسے، پوچھا گیا: امیر المومنین! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا جیسے کہ میں نے کیا پھر آپ ہنسے تو میں نے پوچھا : اللہ کے رسول! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
82- بَاب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا نَزَلَ الْمَنْزِلَ
۸۲-باب: جب آدمی منزل پر پڑاؤ ڈالے تو کیا دعا پڑھے ؟​


2603- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ، حَدَّثَنِي شُرَيْحُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ [عُمَرٍ] قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا سَافَرَ فَأَقْبَلَ اللَّيْلُ قَالَ: < يَا أَرْضُ! رَبِّي وَرَبُّكِ اللَّهُ، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكِ، وَشَرِّ مَا فِيكِ، وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِيكِ، وَ[مِنْ] شَرِّ مَايَدِبُّ عَلَيْكِ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ أَسَدٍ وَأَسْوَدَ، وَمِنَ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ، وَمِنْ سَاكِنِ الْبَلَدِ، وَمِنْ وَالِدٍ وَمَا وَلَدَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۳۲، ۳/۱۲۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''زبیر بن ولید'' لین الحدیث ہیں)
۲۶۰۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے اور رات ہو جاتی تو فرماتے: ''يَا أَرْضُ! رَبِّي وَرَبُّكِ اللَّهُ، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكِ، وَشَرِّ مَا فِيكِ، وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِيكِ، وَ[مِنْ] شَرِّ مَا يَدِبُّ عَلَيْكِ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ أَسَدٍ وَأَسْوَدَ، وَمِنَ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ، وَمِنْ سَاكِنِ الْبَلَدِ، وَمِنْ وَالِدٍ وَمَاوَلَدَ''، (اے زمین! میرا اور تیرا رب اللہ ہے، میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں تیرے شر سے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ پر چلتی ہے اور اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیر اور کالے ناگ سے اور سانپ اور بچھو سے اور زمین پر رہنے والے (انسانوں اور جنوں) کے شر سے اور جننے والے کے شر اور جس چیز کو جسے اس نے جنا ہے اس کے شر سے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
83- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ السَّيْرِ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ
۸۳-باب: شروع رات میں چلنا مکروہ ہے​


2604- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تُرْسِلُوا فَوَاشِيَكُمْ إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ؛ فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَعِيثُ إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ >.
قَالَ أَبو دَاود: الْفَوَاشِي مَا يَفْشُو مِنْ كُلِّ شَيْئٍ۔
* تخريج:م/ الأشربۃ ۱۲ (۲۰۱۳)، حم (۳/۳۰۱، ۳۱۲، ۳۶۲، ۳۷۴، ۳۸۶، ۳۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۲۳) (صحیح)
۲۶۰۴- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب سورج ڈوب جائے تو اپنے جانوروں کو نہ چھوڑو یہاں تک کہ رات کی ابتدائی سیاہی چلی جائے، کیونکہ شیاطین سورج ڈوبنے کے بعد فساد مچاتے ہیں یہاں تک کہ رات کی ابتدائی سیاہی چلی جائے'' ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں:فواشی ہر شیٔ کا وہ حصہ ہے جوپھیل جائے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے پیدل یا جانوروں کی سورای والے سفر میں مغرب کے وقت ٹھہر جانا چاہئے، پھر اندھیرا ہونے پر چلنا چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
84- بَاب فِي أَيِّ يَوْمٍ يُسْتَحَبُّ السَّفَرُ
۸۴-باب: کس دن سفر کرنا مستحب ہے؟​


2605- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَخْرُجُ فِي سَفَرٍ إِلا يَوْمَ الْخَمِيسِ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۰۳ (۲۹۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۵۴، ۴۵۵، ۶/۳۸۶، ۳۸۷، ۳۹۰) (صحیح)
(اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے)۔
۲۶۰۵- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ جمعرات کے علاوہ کسی اور دن سفر میں نکلیں (یعنی آپ اکثر جمعرات ہی کو نکلتے تھے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
85- بَاب فِي الابْتِكَارِ فِي السَّفَرِ
۸۵-باب: سفر میں صبح سویرے نکلنے کا بیان​


2606- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاء، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ حَدِيدٍ، عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < اللَّهُمَّ بَارِكْ لأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا >.
وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً أَوْ جَيْشًا بَعَثَهُمْ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ، وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلا تَاجِرًا، وَكَانَ يَبْعَثُ تِجَارَتَهُ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ فَأَثْرَى وَكَثُرَ مَالُهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ صَخْرُ بْنُ وَدَاعَةَ۔
* تخريج: ت/البیوع ۶ (۱۲۱۲)، ق/ التجارات ۴۱ (۲۲۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۶، ۴۱۷، ۴۳۲، ۴/۳۸۴،۳۹۰، ۳۹۱)، دی/ السیر ۱(۲۴۷۹) (صحیح)
( حدیث کا پہلا ٹکڑا <اللَّهُمَّ بَارِكْ لأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا > شواہد کی وجہ سے صحیح ہے اور سند میں عمارہ بن حدید کی توثیق ابن حبان نے کی ہے جو مجاہیل کی توثیق کرتے ہیں، اور ابن حجر نے مجہول کہا ہے حدیث کے دوسرے ٹکڑے کو البانی صاحب نے ''الضعیفہ( ۴۱۷۸) '' میں شاہد نہ ملنے کی وجہ سے ضعیف کہا ہے جب کہ سنن ابی داود میں پوری حدیث کو صحیح کہا ہے لیکن سنن ابن ماجہ میں تفصیل بیان کردی ہے، نیز اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے)۔
۲۶۰۶- صخرغامدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اے اللہ ! میر ی امت کے لئے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے''، اور جب بھی آپ ﷺ کوئی سریہ یا لشکر بھیجتے، تو دن کے ابتدائی حصہ میں بھیجتے۔
(عمارہ کہتے ہیں) صخر ایک تاجر آدمی تھے، وہ اپنی تجارت صبح سویرے شروع کرتے تھے تو وہ مالدار ہو گئے اور ان کا مال بہت ہو گیا۔
ابوداود کہتے ہیں:صخر سے مراد صخر بن وداعہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
86- بَاب فِي الرَّجُلِ يُسَافِرُ وَحْدَهُ
۸۶-باب: تنہا سفر کرنے کی ممانعت کا بیان​


2607- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الرَّاكِبُ شَيْطَانٌ، وَالرَّاكِبَانِ شَيْطَانَانِ، وَالثَّلاثَةُ رَكْبٌ >۔
* تخريج: ت/الجھاد ۴ (۱۶۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۴۰)، وقد أخرجہ: ط/الاستئذان ۱۴ (۳۵)، حم (۲/۱۸۶، ۲۱۴) (حسن)
۲۶۰۷- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ایک سوار شیطان ہے اور دو سوار دو شیطان ہیں، اور تین سوار قافلہ ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایک سوار کو شیطان کہا گیا کیونکہ اکیلا مسافر جماعت نہیں قائم کرسکتا، اور بوقت مصیبت اس کا کوئی معاون ومددگار نہیں ہوتا، اور دو سوار شیطان اس لئے ہیں کہ جب ان میں سے ایک کسی مصیبت وآفت سے دوچار ہوتا ہے تو دوسرا اس کی خاطر اس طرح مضطرب وپریشان ہوجاتا ہے کہ اس کی پریشانی کو دیکھ کر شیطان بے حد خوش ہوتا ہے، اور اگر مسافر تعداد میں تین ہیں تو مذکورہ پریشانیوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
87- بَاب فِي الْقَوْمِ يُسَافِرُونَ يُؤَمِّرُونَ أَحَدَهُمْ
۸۷-باب: ساتھ سفر کرنے والے کسی کو اپنا امیر بنالیں​


2608- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرِ بْنِ بَرِّيٍّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا خَرَجَ ثَلاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۲۹) (حسن صحیح)
۲۶۰۸- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تین افراد کسی سفر میں ہوں تو ہوئے کہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنا لیں ''۔


2609- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِذَا كَانَ ثَلاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ > قَالَ نَافِعٌ: فَقُلْنَا لأَبِي سَلَمَةَ: فَأَنْتَ أَمِيرُنَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۴۹) (حسن صحیح)
۲۶۰۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تین افراد کسی سفر میں ہوں تو ان میں سے کسی کو امیر بنا لیں'' ۱؎ ، نافع کہتے ہیں:تو ہم نے ابو سلمہ سے کہا: آپ ہمارے امیر ہیں۔
وضاحت ۱؎ : آپ ﷺ نے یہ حکم اس لئے دیا تا کہ ان میں آپس میں اجتماعیت برقرار رہے اور اختلاف کی نوبت نہ آئے اور ایسا جبھی ممکن ہے جب وہ کسی امیر کے تابع ہوں گے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
88- بَاب فِي الْمُصْحَفِ يُسَافَرُ بِهِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ
۸۸-باب: قرآن کریم کے ساتھ دشمن کی سرزمین میں جانا کیسا ہے؟​


2610- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ، قَالَ مَالِكٌ: أُرَاهُ مَخَافَةَ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُوُّ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۲۹ (۲۹۹۰)، (ولیس عندہ قول مالک)، م/الإمارۃ ۲۴ (۱۸۶۹)، ق/الجھاد ۴۵ (۲۸۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۴۷)، وقد أخرجہ: ط/الجھاد ۲ (۷)، حم (۲/۶، ۷، ۱۰، ۵۵، ۶۳، ۷۶، ۱۲۸) (صحیح)
(صحیح مسلم میں آخری ٹکڑا اصلِ حدیث میں سے ہے نہ کہ قولِ مالک سے)
۲۶۱۰- نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو دشمن کی سر زمین میں لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے، مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے اس واسطے منع کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اسے پالے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور اس کی بے حرمتی کرے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
89- بَاب فِيمَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الْجُيُوشِ وَالرُّفَقَاءِ وَالسَّرَايَا
۸۹-باب: چھوٹے بڑے لشکر، اور ساتھیوں کی کون سی تعداد مستحب و مناسب ہے​


2611- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <خَيْرُ الصَّحَابَةِ أَرْبَعَةٌ، وَخَيْرُ السَّرَايَا أَرْبَعُ مِائَةٍ، وَخَيْرُ الْجُيُوشِ أَرْبَعَةُ آلافٍ، وَلَنْ يُغْلَبَ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّةٍ >.
[قَالَ أَبو دَاود: وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ مُرْسَلٌ]۔
* تخريج: ت/السیر ۷ (۱۵۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۴۸)، وقد أخرجہ: ق/السرایا (۲۷۲۸)، دي/السیر ۴ (۲۴۸۲)، حم (۱/۲۹۴، ۲۹۹) (ضعیف) (الصحيحة: 986، وتراجع الألباني: 152)
۲۶۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' بہترساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چار ہو ۱؎ ، اور چھوٹی فوج میں بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چار سو ہو، اور بڑی فوجوں میں بہتر وہ فوج ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو، اور بارہ ہزار کی فوج قلت تعداد کی وجہ سے ہرگز مغلوب نہیں ہو گی '' ۲؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں:صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کم سے کم چار ہو کیونکہ ان میں سے اگر کبھی کوئی بیمار ہو اور وہ اپنے کسی ساتھی کو وصیت کرنا چاہے تو گواہی کے لئے ان میں سے دو باقی رہ جائیں، اس حدیث میں (بشرط صحت) مرتبہ أقل کا بیان ہے علماء نے لکھا ہے : چار سے پانچ بہتر ہیں بلکہ جس قدر زیادہ ہوں گے اتنا ہی خیر ہوگا ۔
وضاحت ۲؎ : بارہ ہزار کا لشکر اپنی قلت کے سبب ہرگز نہیں ہارے گا، اب اگر دوسری قومیں اس پر غالب آگئیں تو اس ہار کا سبب قلت نہیں بلکہ لشکر کا عجب وغرور میں مبتلا ہونا یا اسی طرح کا کوئی اور دوسرا سبب ہوسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
90- بَاب فِي دُعَاءِ الْمُشْرِكِينَ
۹۰-باب: کفار و مشرکین کو اسلام کی دعوت دینے کا بیان​


2612- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى سَرِيَّةٍ أَوْجَيْشٍ أَوْصَاهُ بِتَقْوَى اللَّهِ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ وَبِمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، وَقَالَ: < إِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلاثِ خِصَالٍ، أَوْ خِلالٍ، فَأَيَّتُهَا أَجَابُوكَ إِلَيْهَا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمُ: ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَعْلِمْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَأَنَّ عَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوا دَارَهُمْ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ: يُجْرَى عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْفَيْئِ وَالْغَنِيمَةِ نَصِيبٌ، إِلا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَادْعُهُمْ إِلَى إِعْطَاءِ الْجِزْيَةِ، فَإِنْ أَجَابُوا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ تَعَالَى وَقَاتِلْهُمْ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ تَعَالَى فَلا تُنْزِلْهُمْ، فَإِنَّكُمْ لا تَدْرُونَ مَا يَحْكُمُ اللَّهُ فِيهِمْ، وَلَكِنْ أَنْزِلُوهُمْ عَلَى حُكْمِكُمْ، ثُمَّ اقْضُوا فِيهِمْ بَعْدُ مَا شِئْتُمْ >.
قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ عَلْقَمَةُ: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِمُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمٌ قَالَ -قَالَ أَبو دَاود : هُوَ ابْنُ هَيْصَمٍ- عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ۔
* تخريج: م/الجھاد ۲ (۱۷۳۱)، ت/السیر ۴۸ (۱۶۱۷)، ق/الجھاد ۳۸ (۲۸۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۵۲، ۳۵۸)، دي/السیر ۵ (۲۴۸۳) (صحیح)
۲۶۱۲- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر یا سریہ کا کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو اسے اپنے نفس کے بارے میں اللہ کے تقوی کی وصیت کرتے، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیتے، اور فرماتے: ''جب تم اپنے مشرک دشمنوں کا سامنا کرنا تو انہیں تین چیزوں کی دعوت دینا، ان تینوں میں سے جس چیز کو وہ مان لیں تم ان سے اُسے مان لینا اور ان سے رک جانا، (سب سے پہلے ) انہیں اسلام کی جانب بلانا، اگر تمہاری اس دعوت کو وہ لوگ تسلیم کرلیں تو تم اسے قبول کر لینا اور ان سے لڑائی کرنے سے رک جانا، پھر انہیں اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دینا، اور انہیں یہ بتانا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لئے وہی چیز ہوگی جو مہاجرین کے لئے ہو گی، اور ان کے وہی فرائض ہوں گے، جو مہاجرین کے ہیں، اور اگر وہ انکار کریں اور اپنے وطن ہی میں رہنا چاہیں تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم چلے گا جو عام مسلمانوں پر چلتا ہے، اور فی ٔ اور مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو انہیں جزیہ کی ادائیگی کی دعوت دینا، اگر وہ لوگ جزیہ کی ادائیگی قبول کر لیں تو ان سے اسے قبول کر لینا اور جہاد کرنے سے رک جانا، اور اگر وہ جزیہ بھی دینے سے انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرنا، اور ان سے جہاد کرنا، اور اگر تم کسی قلعہ والے کا محاصرہ کرنا اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے حکم پر اتارو، تو تم انہیں اللہ کے حکم پر مت اتارنا، اس لئے کہ تم نہیں جانتے ہو کہ اللہ ان کے سلسلے میں کیا فیصلہ کرے گا، لیکن ان کو اپنے حکم پر اتارنا، پھر اس کے بعد ان کے سلسلے میں تم جو چاہو فیصلہ کرنا''۔
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں :علقمہ کا کہنا ہے کہ میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: مجھ سے مسلم نے۔
ابوداود کہتے ہیں : وہ ابن ہیصم ہیں، بیان کیا انہوں نے نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے اور نعمانرضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے سلیمان بن بریدہ کی حدیث کے مثل روایت کیا۔


2613- حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الأَنْطَاكِيُّ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَقَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، اغْزُوا، وَلاتَغْدِرُوا، وَلا تَغُلُّوا، وَلا تُمَثِّلُوا، وَلاتَقْتُلُوا وَلِيدًا >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۹) (صحیح)
۲۶۱۳- بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اللہ کے نام سے اور اللہ کے راستے میں غزوہ کرو اور اس شخص سے جہاد کرو جو اللہ کا انکار کرے، غزوہ کرو، بدعہدی نہ کرو، خیانت نہ کرو، مثلہ نہ کرو، اور کسی بچہ کو قتل نہ کرو''۔


2614- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ وَعُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ حَسَنِ ابْنِ صَالِحٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفِزْرِ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، وَلا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا، وَلا طِفْلا، وَلا صَغِيرًا، وَلا امْرَأَةً، وَلاتَغُلُّوا، وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ، وَأَصْلِحُوا، {وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}>۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''خالد بن فزر'' لین الحدیث ہیں)
۲۶۱۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (مجاہدین کو رخصت کرتے وقت) فرمایا:'' تم لوگ اللہ کے نام سے، اللہ کی تائید اور تو فیق کے ساتھ، اللہ کے رسول کے دین پر جاؤ، اور بوڑھوں کو جو مرنے والے ہوں نہ مارنا، نہ بچوں کو، نہ چھوٹے لڑکوں کو، اور نہ ہی عورتوں کو، اورغنیمت میں خیانت نہ کرنا، اور غنیمت کے مال کو اکٹھا کر لینا ، صلح کرنا اور نیکی کرنا، اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے''۔
 
Top