• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
101- بَاب الْمَكْرِ فِي الْحَرْبِ
۱۰۱-باب: جنگ میں حیلہ کرنے کا بیان​


2636- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < الْحَرْبُ خُدَعَةٌ >۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۵۷ (۳۰۳۰)، م/الجھاد ۵ (۱۷۳۹)، ت/الجھاد ۵ (۱۶۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۸) (صحیح)
۲۶۳۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' لڑائی دھوکہ وفریب کا نام ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جنگ کے دوران کفار کو جہاں تک ممکن ہو دھوکہ دینا جائز ہے بشرطیکہ یہ دھوکہ ان سے کئے گئے کسی عہد وپیمان کے توڑنے کا سبب نہ بنے، تین مقامات جہاں کذب کا سہارا لیا جاسکتا ہے ان میں سے ایک جنگ کا مقام بھی ہے جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔


2637- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَرَادَ غَزْوَةً وَرَّى غَيْرَهَا، وَكَانَ يَقُولُ: < الْحَرْبُ خَدْعَةٌ >.
[قَالَ أَبو دَاود: لَمْ يَجِئْ بِهِ إِلا مَعْمَرٌ -يُرِيدُ قَوْلَهُ: < الْحَرْبُ خَدْعَةٌ >- بِهَذَا الإِسْنَادِ، إِنَّمَا يُرْوَى مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرٍ، وَمِنْ حَدِيثِ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۵۱)، وقد أخرجہ: خ/الجھاد ۱۰۳ (۲۹۴۷)، والمغازي ۷۹ (۴۴۱۸)، دي/السیر ۱۴ (۲۴۸۴) (صحیح) دون الشطر الثاني
۲۶۳۷- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو جس سمت جانا ہوتا اس کے علاوہ کا توریہ ۱؎ کرتے اور فرماتے:'' جنگ دھو کہ کا نام ہے''۔
ابوداود کہتے ہیں:اسے معمر کے سوا کسی اور نے اس سند سے نہیں روایت کیا ہے، وہ اس سے آپ ﷺ کے قول ''الحَرْبُ خَدْعَةٌ'' کو مراد لے رہے ہیں، یہ لفظ صرف عمرو بن دینار کے واسطے سے جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یا معمر کے واسطے سے ہمام بن منبہ سے مروی ہے جسے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مشرق کی طرف نکلنا ہوتا تو مغرب کا اشارہ کرتے، اور شمال کی طرف نکلنا ہوتا تو جنوب کا اشارہ کرتے، اصل بات چھپا کر دوسری بات ظاہر کرنا، یہی توریہ ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
102- بَابٌ فِي الْبَيَاتِ
۱۰۲-باب: شب خون (را ت میں چھاپہ) مارنے کا بیان​


2638- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ وَأَبُو عَامِرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ [عَلَيْنَا] أَبَا بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه، فَغَزَوْنَا نَاسًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَبَيَّتْنَاهُمْ نَقْتُلُهُمْ، وَكَانَ شِعَارُنَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ: أَمِتْ، أَمِتْ، قَالَ سَلَمَةُ: فَقَتَلْتُ بِيَدِي تِلْكَ اللَّيْلَةَ سَبْعَةَ أَهْلِ أَبْيَاتٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔
* تخريج: ق/الجھاد ۳۰ (۲۸۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۶)، دي/السیر ۱۵ (۲۴۹۵) (حسن)
۲۶۳۸- سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر بھیجا، ہم نے مشرکین کے کچھ لوگوں سے جہاد کیا تو ہم نے ان پر شب خوں مارا، ہم انہیں قتل کر رہے تھے، اور اس رات ہمارا شعار (کوڈ) ''أَمِتْ أَمِتْ'' ۱؎ تھا، اس رات میں نے اپنے ہاتھ سے سات گھروں کے مشرکوں کو قتل کیا ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اے مدد کرنے والے دشمن کو فنا کر۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے کافروں پر شب خوں مارنے کا جواز ثابت ہوا اگر اسلام کی دعوت ان تک پہنچ چکی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
103- بَاب فِي لُزُومِ السَّاقَةِ
۱۰۳-باب: امام کا لشکر کے پچھلے دستہ کے ساتھ رہنے کا بیان​


2639- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ شَوْكَرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ حَدَّثَهُمْ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَخَلَّفُ فِي الْمَسِيرِ، فَيُزْجِي الضَّعِيفَ، وَيُرْدِفُ، وَيَدْعُو لَهُمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۸۳) (صحیح)
۲۶۳۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں ساقہ (لشکر کے پچھلے دستہ) کے ساتھ رہا کرتے تھے، آپ ﷺ کمزوروں کو ساتھ لیتے، انہیں اپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیتے اور ان کے لئے دعا کرتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
104- بَاب عَلَى مَا يُقَاتَلُ الْمُشْرِكُونَ
۱۰۴-باب: کس بنا پرکفار و مشرکین سے جنگ کی جائے​


2640- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ،فَإِذَا قَالُوهَا مَنَعُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى>۔
* تخريج: ت/الإیمان ۱(۲۶۰۶)، ن/المحاربۃ ۱ (۳۹۸۱)، ق/الفتن (۳۹۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۶)، وقد أخرجہ: خ/الجھاد ۱۰۲ (۲۹۴۶)، م/الإیمان ۸ (۲۶۱۰)، حم (۲/ ۳۱۴، ۳۷۷، ۴۲۳، ۴۳۹، ۴۷۵، ۴۸۲، ۵۰۲) (صحیح متواتر)
۲۶۴۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ ''لا إله إلا الله'' کی گو اہی نہ دینے لگ جائیں، پھر جب وہ اس کلمہ کو کہہ دیں تو ان کے خون اور مال مجھ سے محفوظ ہو گئے، سوائے اس کے حق کے (یعنی اگر وہ کسی کا مال لیں یا خون کریں تو اس کے بدلہ میں ان کا مال لیا جائے گا اور ان کا خون کیا جائے گا) اوران کا حساب اللہ پر ہو گا''۔


2641- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنْ يَسْتَقْبِلُوا قِبْلَتَنَا، وَأَنْ يَأْكُلُوا ذَبِيحَتَنَا، وَأَنْ يُصَلُّوا صَلاتَنَا، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ، إِلا بِحَقِّهَا: لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ، وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُسْلِمِينَ >۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۲۸ (۳۹۲)، ت/الایمان ۲ (۲۶۰۸)، ن/تحریم الدم ۱ (۳۹۷۲)، والإیمان ۱۵ (۵۰۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۹۹،۲۲۴) (صحیح)
۲۶۴۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ' 'لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ'' ۱؎ کی گواہی دینے، ہمارے قبلہ کا استقبال کرنے، ہمارا ذبیحہ کھانے، اور ہماری صلاۃ کی طرح صلاۃ پڑھنے نہ لگ جائیں، تو جب وہ ایسا کرنے لگیں تو ان کے خون اور مال ہمارے اوپر حرام ہو گئے سوائے اس کے حق کے ساتھ اور ان کے وہ سارے حقوق ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور ان پر وہ سارے حقوق عائد ہوں گے جومسلمانوں پرہوتے ہیں''۔
وضاحت ۱؎ : نہیں ہے کوئی معبود برحق سوائے اللہ کے اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔


2642- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ الْمُشْرِكِينَ > بِمَعْنَاهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۹)، وقد أخرجہ: خ/ الصلاۃ ۲۸ (۳۹۳ تعلیقًا) (صحیح)
۲۶۴۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مشرکوں سے قتال کروں''، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے۔


2643- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ [بْنُ عَلِيٍّ] وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، الْمَعْنَى قَالا: حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَرِيَّةً إِلَى الْحُرَقَاتِ، فَنَذِرُوا بِنَا، فَهَرَبُوا، فَأَدْرَكْنَا رَجُلا، فَلَمَّا غَشِينَاهُ، قَالَ: لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ، فَضَرَبْنَاهُ، حَتَّى قَتَلْنَاهُ، فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ: < مَنْ لَكَ بـ: لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟>، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّمَا قَالَهَا مَخَافَةَ السِّلاحِ، قَالَ: < أَفَلا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَالَهَا أَمْ لا؟ مَنْ لَكَ بـ لاَإِلَهَ إِلا اللَّهُ [يَوْمَ الْقِيَامَةِ]؟ > فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتَّى وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أُسْلِمْ إِلا يَوْمَئِذٍ۔
* تخريج: خ/المغازي ۴۵ (۴۲۶۹)، والدیات ۲ (۶۸۷۲)، م/الإیمان ۴۱ (۹۶)،ن/الکبری (۸۵۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸) (صحیح)
۲۶۴۳- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حرقات ۱؎ کی طرف ایک سریّہ میں بھیجا، تو ان کافروں کو ہمارے آنے کا علم ہو گیا، چنانچہ وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن ہم نے ایک آدمی کو پکڑ لیا، جب ہم نے اسے گھیرے میں لے لیا تو'' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کہنے لگا (اس کے باوجود) ہم نے اُسے مارا یہاں تک کہ اُسے قتل کر دیا، پھر میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کے سامنے تیری مدد کون کر ے گا؟'' ، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے یہ بات تلوار کے ڈر سے کہی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ کیوں نہیں لیا کہ ۲؎ اس نے کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا ہے یا (تلوار کے ڈرسے) نہیں (بلکہ اسلام کے لئے ) ؟ قیامت کے دن ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ'' کے سامنے تیری مدد کون کر ے گا ؟''، آپ ﷺ برابر یہی بات فرماتے رہے، یہاں تک کہ میں نے سو چا کاش کہ میں آج ہی اسلام لایا ہوتا۔
وضاحت ۱؎ : جہینہ کے چند قبائل کا نام ہے۔
وضاحت ۲؎ : زبان سے کلمہ شہادت پڑھنے والے کا شمار مسلمانوں میں ہوگا، اس کے ساتھ دنیا میں وہی سلوک ہوگا جو کسی مسلم مومن کے ساتھ ہوتا ہے اس کے کلمہ پڑھنے کا سبب خواہ کچھ بھی ہو، کیونکہ کلمہ کا تعلق ظاہر سے ہے نہ کہ باطن سے اور باطن کا علم صرف اللہ کو ہے نبی اکرم ﷺ کے فرمان ''أفلا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ'' کا یہی مفہوم ہے ۔


2644- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّه! أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلا مِنَ الْكُفَّارِ فَقَاتَلَنِي، فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ ثُمَّ لاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ، أَفَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تَقْتُلْهُ >، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهُ قَطَعَ يَدِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تَقْتُلْهُ، فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَأَنْتَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ >۔
* تخريج: خ/المغازي ۱۲ (۴۰۱۹)، والدیات۱ (۶۸۶۵)، م/الإیمان ۴۱ (۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳، ۴، ۵، ۶) (صحیح)
۲۶۴۴- مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر کافروں میں کسی شخص سے میری مڈبھیڑ ہوجائے اور وہ مجھ سے قتال کرے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ دے اس کے بعد درخت کی آڑ میں چھپ جائے اور کہے: میں نے اللہ کے لئے اسلام قبول کرلیا، تو کیا میں اسے اس کلمہ کے کہنے کے بعد قتل کروں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' نہیں تم اُسے قتل نہ کرو''، میں نے کہا : اللہ کے رسول! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اُسے قتل نہ کرو، کیونکہ اگر تم نے اُسے قتل کر دیا تو قتل کرنے سے پہلے تمہارا جو مقام تھا وہ اس مقام میں آ جائے گا اور تم اس مقام میں پہنچ جاؤ گے جو اس کلمہ کے کہنے سے پہلے اس کا تھا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ معصوم الدم قرار پائے گا اور تمہیں بطور قصاص قتل کیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
105- بَاب النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ مَنِ اعْتَصَمَ بِالسُّجُودِ
۱۰۵-باب: جو سجدہ کرکے پناہ حاصل کرے اس کو قتل کرنا منع ہے​


2645- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَرِيَّةً إِلَى خَثْعَمٍ، فَاعْتَصَمَ نَاسٌ مِنْهُمْ بِالسُّجُودِ، فَأَسْرَعَ فِيهِمُ الْقَتْلَ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَأَمَرَ لَهُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ، وَقَالَ: < أَنَا بَرِيئٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ >، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لِمَ؟ قَالَ: < لا تَرَائَى نَارَاهُمَا >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ هُشَيْمٌ، وَمَعْمَرٌ، وَخَالِدٌ الْوَاسِطِيُّ، وَجَمَاعَةٌ،لَمْ يَذْكُرُوا جَرِيرًا۔
* تخريج: ت/السیر ۴۲ (۱۶۰۵)، ن/القسامۃ ۲۱ (۴۷۸۴) (عن قیس مرسلا)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۲۷) (صحیح)
۲۶۴۵- جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ خثعم کی جانب ایک سریہ بھیجا تو ان کے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے بچنا چاہا پھر بھی لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی، نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے ان کے لئے نصف دیت ۱؎ کا حکم دیا اور فرمایا:'' میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے''، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول! کیوں؟آپ ﷺ نے فرمایا:''دونوں کی (یعنی اسلام اور کفر کی ) آگ ایک ساتھ نہیں رہ سکتی'' ۲؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے ہشیم، معمر، خالد واسطی اور ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے جر یر کا ذکر نہیں کیا ہے۳؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : نصف دیت کا حکم دیا اور باقی نصف کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہوگئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا درحقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں نصف دیت ساقط ہوگئی۔
وضاحت ۲؎ : اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں: ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہوسکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علیحدہ کردیا ہے لہٰذا مسلمانوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل وصورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے ۔
وضاحت ۳؎ : یعنی : ان لوگوں نے اس حدیث کو عن قیس عن النبی ﷺ مرسلا روایت کیا ہے، بخاری نے بھی مرسل ہی کو صحیح قرار دیا ہے مگر موصول کی متابعات صحیحہ موجود ہیں جیسا کہ البانی نے (ارواء الغلیل، حدیث نمبر: ۱۲۰۷ میں) ذکر کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
106- بَاب فِي التَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ
۱۰۶-باب: میدانِ جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جانے کا بیان​


2646- حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ ابْنِ خِرِّيتٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نَزَلَتْ: {إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ} فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ حِينَ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَنْ لا يَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَةٍ، ثُمَّ إِنَّهُ جَاءَ تَخْفِيفٌ، فَقَالَ: {الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ} قَرَأَ أَبُو تَوْبَةَ إِلَى قَوْلِهِ: {يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ} قَالَ: فَلَمَّا خَفَّفَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ مِنَ الْعِدَّةِ نَقَصَ مِنَ الصَّبْرِ بِقَدْرِ مَا خَفَّفَ عَنْهُمْ۔
* تخريج: خ/التفسیر ۷ (۴۶۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۸۸) (صحیح)
۲۶۴۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ {إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ} ۱؎ نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ فرض کر دیا کہ ان میں کا ایک آدمی دس کافروں کے مقابلہ میں نہ بھاگے، تو یہ چیز ان پر شاق گزری، پھر تخفیف ہوئی اور اللہ نے فرمایا:{الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ} ۲؎ ابو توبہ نے پوری آیت {يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ} تک پڑھ کر سنایا اور کہا: جب اللہ نے ان سے تعداد میں تخفیف کر دی تو اس تخفیف کی مقدار میں صبر میں بھی کمی کر دی ۔
وضاحت ۱ ؎ : ''اگر تم میں سے بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے'' (سورۃ الانفال : ۶۵)
وضاحت ۲؎ : ''اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں کمزوری ہے تو اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے'' (سورۃ الانفال : ۶۶)


2647- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ أَنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ مِنْ سَرَايَا رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، قَالَ: فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، فَكُنْتُ فِيمَنْ حَاصَ، قَالَ: فَلَمَّا بَرَزْنَا قُلْنَا: كَيْفَ نَصْنَعُ، وَقَدْ فَرَرْنَا مِنَ الزَّحْفِ، وَبُؤْنَا بِالْغَضَبِ؟ فَقُلْنَا: نَدْخُلُ الْمَدِينَةَ، فَنَتَثَبَّتُ فِيهَا، وَنَذْهَبُ، وَلا يَرَانَا أَحَدٌ، قَالَ: فَدَخَلْنَا، فَقُلْنَا: لَوْ عَرَضْنَا أَنْفُسَنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَإِنْ كَانَتْ لَنَا تَوْبَةٌ أَقَمْنَا، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ ذَهَبْنَا، قَالَ: فَجَلَسْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَبْلَ صَلاةِ الْفَجْرِ، فَلَمَّا خَرَجَ قُمْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: نَحْنُ الْفَرَّارُونَ، فَأَقْبَلَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: < لا، بَلْ أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ >، قَالَ: فَدَنَوْنَا فَقَبَّلْنَا يَدَهُ، فَقَالَ: < أَنَا فِئَةُ الْمُسْلِمِينَ >۔
* تخريج: ت/الجھاد ۳۶ (۱۷۱۶)، ق/ الأدب ۱۶ (۳۷۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳، ۵۸، ۷۰، ۸۶، ۹۹، ۱۰۰، ۱۱۰) ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۲۲۳) (ضعیف)
(اس کے راوی ''یزید بن ابی زیاد'' ضعیف ہیں)
۲۶۴۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سرایا میں سے کسی سریہ میں تھے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ تیزی کے ساتھ بھاگے، بھا گنے والوں میں میں بھی تھا، جب ہم رکے تو ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کریں؟ ہم کافروں کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے، پھر ہم نے کہا: چلو ہم مدینہ چلیں اور وہاں ٹھہرے رہیں، ( پھر جب دوسری بار جہاد ہو) تو چل نکلیں اور ہم کو کوئی دیکھنے نہ پائے، خیر ہم مدینہ گئے، وہاں ہم نے اپنے دل میں کہا: کاش! ہم اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اگر ہماری توبہ قبول ہوئی تو ہم ٹھہرے رہیں گے ورنہ ہم چلے جائیں گے، ہم رسول اللہ ﷺ کے انتظار میں فجرسے پہلے بیٹھ گئے، جب آپ ﷺ نکلے تو ہم کھڑے ہوئے اور آپ کے پاس جا کر ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم بھاگے ہوئے لوگ ہیں، آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''نہیں، بلکہ تم لوگ عکارون ہو(یعنی دو بارہ لڑائی میں واپس لو ٹنے والے ہو) ''۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں: (خوش ہوکر ) ہم آپ کے نزدیک گئے اور آپ کا ہاتھ چوما تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' میں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوں''،(یعنی ان کا ملجا و ماویٰ ہوں میرے سوا وہ اور کہاں جائیں گے؟)۔


2648- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: نَزَلَتْ فِي يَوْمِ بَدْرٍ: {وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ}۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۱۶) (صحیح)
۲۶۴۸- ابو سعید خد ری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ {وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ} ۱؎ بدر کے دن نازل ہوئی۔
وضاحت ۱؎ : پوری آیت اس طرح ہے {إِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاء بِغَضَبٍ مِّنَ اللّهِ} (سورۃ الانفال:۱۶) '' جو شخص لڑائی سے اپنی پیٹھ موڑے گا، مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پینترا بدلتا ہو یا اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنی ہے باقی جو ایسا کر ے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائیگا'' ، حدیث میں مذکور ہے لوگوں نے خود کو اس آیت کا مصداق سمجھ لیا تھا تو اللہ کے رسول ﷺ نے ان کو مستثنی لوگوں میں سے قرار دیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
107- بَاب فِي الأَسِيرِ يُكْرَهُ عَلَى الْكُفْرِ
۱۰۷-باب: مسلمان قیدی کفر پر مجبور کیا جائے تو اس کے حکم کا بیان​


2649- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ وَخَالِدٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ خَبَّابٍ قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ فَقُلْنَا: أَلا تَسْتَنْصِرُ لَنَا، أَلا تَدْعُو اللَّهَ لَنَا؟ فَجَلَسَ مُحْمَرًّا وَجْهُهُ فَقَالَ: < قَدْ كَانَ مَنْ قَبْلَكُمْ يُؤْخَذُ الرَّجُلُ فَيُحْفَرُ لَهُ فِي الأَرْضِ ثُمَّ يُؤْتَى بِالْمِنْشَارِ فَيُجْعَلُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُجْعَلُ فِرْقَتَيْنِ، مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ عَظْمِهِ مِنْ لَحْمٍ وَعَصَبٍ، مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مَا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَحَضْرَمُوتَ مَا يَخَافُ إِلااللَّهَ تَعَالَى وَالذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَعْجَلُونَ >۔
* تخريج: خ/المناقب ۲۲ (۳۴۶۶) ۲۵ (۳۸۲۹)، والإکراہ ۱ (۶۵۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۱، ۶/۳۹۵) (صحیح)
۲۶۴۹- خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر پر تکیہ لگائے ہوئے تھے، ہم نے آپ سے (کافروں کے غلبہ کی) شکایت کی اور کہا: کیا آپ ہمارے لئے اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے؟ کیا آپ اللہ سے ہمارے لئے دعا نہیں کرتے؟ (یہ سن کر) آپ ﷺ بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا، اور فرمایا: ''تم سے پہلے آدمی کا یہ حال ہوتا کہ وہ ایمان کی وجہ سے پکڑا جاتا تھا، اس کے لئے زمین میں گڑھا کھودا جاتا تھا، اس کے سر کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا تھا مگر یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی، لو ہے کی کنگھیوں سے اس کے ہڈی کے گو شت اور پٹھوں کو نوچا جاتا تھا لیکن یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی، اللہ کی قسم! اللہ اس دین کو پورا کرکے رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعا ء سے حضر مو ت تک جائے گا اور سوائے اللہ کے یا اپنی بکریوں کے سلسلہ میں بھیڑئے کے کسی اور سے نہیں ڈرے گا لیکن تم لوگ جلدی کر رہے ہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
108- بَاب فِي حُكْمِ الْجَاسُوسِ إِذَا كَانَ مُسْلِمًا
۱۰۸-باب: جاسوس اگر مسلمان ہو اور کافروں کے لیے جاسوسی کرے تو اس کے حکم کا بیان​


2650- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، حَدَّثَهُ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ -وَكَانَ كَاتِبًا لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ- قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَا وَالزُّبَيْرُ وَالْمِقْدَادُ فَقَالَ: < انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا >، فَانْطَلَقْنَا تَتَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: هَلُمِّي الْكِتَابَ، قَالَتْ: مَا عِنْدِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْتُ: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ النَّبِيَّ ﷺ فَإِذَا هُوَ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: < مَا هَذَا يَا حَاطِبُ؟ > فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لا تَعْجَلْ عَلَيَّ فَإِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَإِنَّ قُرَيْشًا لَهُمْ بِهَا قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ بِمَكَّةَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ قَرَابَتِي بِهَا، وَاللَّهِ [يَا رَسُولَ اللَّهِ] مَا كَانَ بِي [مِنْ] كُفْرٍ وَلا ارْتِدَادٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < صَدَقَكُمْ >، فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي أَضْرِبُ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ >۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۴۱ (۳۰۰۷)، والمغازي ۹ (۳۹۸۳)، وتفسیر الممتحنۃ ۱ (۴۸۹۰)، م/فضائل الصحابۃ ۳۶ (۲۴۹۴)، ت/تفسیرالقرآن ۶۰ (۳۳۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۷۹، ۲/۲۹۶) (صحیح)
۲۶۵۰- عبید اللہ بن ابی رافع جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے منشی تھے- کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، زبیر اور مقداد تینوں کو بھیجا اور کہا: ''تم لوگ جائو یہاں تک کہ روضہ ٔخا خ ۱؎ پہنچو، وہاں ایک عورت کجاوہ میں بیٹھی ہوئی اونٹ پر سوار ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے تم اس سے اُسے چھین لینا''، تو ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے یہاں تک کہ روضہ خاخ پہنچے اور دفعتاً اس عورت کو جا لیا، ہم نے اس سے کہا: خط لائو، اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا: خط نکالو ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے، اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کر دیا، ہم اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لائے، وہ حاطب بن ابو بلتعہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے کچھ مشرکوں کے نام تھا، وہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے بعض امور سے آگاہ کر رہے تھے، آپ ﷺ نے پوچھا:'' حا طب یہ کیا ہے؟'' ، انہوں نے کہا:اللہ کے رسول! میرے سلسلے میں جلدی نہ کیجئے، میں تو ایسا شخص ہوں جو قریش میں آکر شامل ہوا ہوں یعنی ان کا حلیف ہوں، خاص ان میں سے نہیں ہوں، اور جو لوگ قریش کی قوم سے ہیں وہاں ان کے قرابت دار ہیں، مشرکین اس قرابت کے سبب مکہ میں ان کے مال اور عیال کی نگہبانی کرتے ہیں، چونکہ میری ان سے قرابت نہیں تھی، میں نے چاہا کہ میں ان کے حق میں کوئی ایسا کام کردوں جس کے سبب مشرکین مکہ میرے اہل و عیال کی نگہبانی کریں، قسم اللہ کی! میں نے یہ کام نہ کفر کے سبب کیا اور نہ ہی ارتداد کے سبب، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اس نے تم سے سچ کہا''،اس پر عمر رضی اللہ عنہ بولے: مجھے چھوڑئیے، میں اس منافق کی گردن ماردوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہ جنگ بدر میں شریک رہے ہیں، اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہل بدر کو جھانک کر نظر رحمت سے دیکھا، اور فرمایا:تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کرچکا ہوں'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مدینہ سے بارہ میل کی دوری پر ایک مقام کا نام ہے۔
وضاحت ۲ ؎ : مراد آخرت میں ان کے گناہ کی معافی ہے اگر دنیا میں وہ کسی حد کے مرتکب ہوئے تو حد ان سے ساقط نہیں ہوگی۔


2651- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: انْطَلَقَ حَاطِبٌ فَكَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ أَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ قَدْسَارَ إِلَيْكُمْ، وَقَالَ فِيهِ: قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَانْتَحَيْنَاهَا فَمَا وَجَدْنَا مَعَهَا كِتَابًا، فَقَالَ عَلِيٌّ: وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لأَقْتُلَنَّكِ أَوْ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: خ/ الجہاد ۱۹۵ (۳۰۸۱)، المغازی ۹ (۳۹۸۳)، الاستئذان ۲۳ (۶۲۵۹)، م/ فضائل الصحابۃ ۳۶ (۲۴۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۰۵، ۱۳۱) (صحیح)
۲۶۵۱- اس سند سے بھی علی رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مروی ہے، اس میں ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ نے اہل مکہ کو لکھ بھیجا کہ محمد ﷺ تمہارے اوپر حملہ کرنے والے ہیں، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ عورت بولی:'' میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے''، ہم نے اس کا اونٹ بٹھا کر دیکھا تو اس کے پاس ہمیں کوئی خط نہیں ملا، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے! میں تجھے قتل کر ڈالوں گا، ورنہ خط مجھے نکال کر دے، پھر پوری حدیث ذکر کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
09- بَاب فِي الْجَاسُوسِ الذِّمِّيِّ
۱۰۹-باب: مسلمانوں کے خلاف جاسو سی کرنے والے ذمّی کافر کا حکم کیا ہے؟​


2652- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُحَبَّبٍ أَبُو هَمَّامٍ الدَّلا لُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، عَنْ فُرَاتِ بْنِ حَيَّانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَ بِقَتْلِهِ، وَكَانَ عَيْنًا لأَبِي سُفْيَانَ، وَ[كَانَ] حَلِيفًا لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَمَرَّ بِحَلَقَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهُ يَقُولُ: إِنَّى مُسْلِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <إِنَّ مِنْكُمْ رِجَالا نَكِلُهُمْ إِلَى إِيمَانِهِمْ، مِنْهُمْ فُرَاتُ بْنُ حَيَّانَ>۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۲۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۳۶) (صحیح)
۲۶۵۲- فرات بن حیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق قتل کا حکم صادر فرمایا، یہ ابوسفیان کے جاسوس اورایک انصاری کے حلیف تھے ۱؎ ، ان کا گزر حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے کچھ انصار کے پاس سے ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، ایک انصاری نے کہا:اللہ کے رسول! یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ہم انہیں ان کے ایمان کے سپرد کرتے ہیں، ان ہی میں سے فرات بن حیان بھی ہیں''۔
وضاحت ۱؎ : ایک انصاری کے حلیف ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے فرات بن حیان کے متعلق قتل کا حکم صادر فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ذمی جاسوس کو قتل کرنا صحیح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
110- بَاب فِي الْجَاسُوسِ الْمُسْتَأْمَنِ
۱۱۰-باب: جو کافر امن لے کر مسلمانوں میں جاسوسی کے لیے آیا ہو اس کے حکم کا بیان​


2653- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْسٍ، عَنِ ابْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ عَيْنٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَهُوَ فِي سَفَرٍ، فَجَلَسَ عِنْدَ أَصْحَابِهِ ثُمَّ انْسَلَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <اطْلُبُوهُ فَاقْتُلُوهُ >، قَالَ: فَسَبَقْتُهُمْ إِلَيْهِ فَقَتَلْتُهُ، وَأَخَذْتُ سَلَبَهُ، فَنَفَّلَنِي إِيَّاهُ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۷۳ (۳۰۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱۴)، وقد أخرجہ: م/الجھاد ۱۳ (۱۷۵۴) مطولاً، ق/الجھاد ۲۹ (۲۸۳۶)، حم (۴/۵۰)، دي/السیر ۱۵ (۲۴۹۵) (صحیح)
۲۶۵۳- سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس مشرکوں میں سے ایک جاسوس آیا، آپ سفر میں تھے، وہ آپ کے اصحاب کے پاس بیٹھا رہا، پھر چپکے سے فرار ہو گیا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اس کو تلاش کر کے قتل کر ڈالو''، سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سب سے پہلے میں اس کے پاس پہنچا اور جا کر اسے قتل کر دیا اور اس کا مال لے لیا تو آپ ﷺ نے اُسے بطورنفل( انعام) مجھے دیدیا۔


2654- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ هَاشِمَ بْنَ الْقَاسِمِ وَهِشَامًا حَدَّثَاهُمْ، قَالا: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ هَوَازِنَ، قَالَ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَتَضَحَّى وَعَامَّتُنَا مُشَاةٌ وَفِينَا ضَعَفَةٌ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ، فَانْتَزَعَ طَلَقًا مِنْ حَقْوِ الْبَعِيرِ فَقَيَّدَ بِهِ جَمَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ يَتَغَدَّى مَعَ الْقَوْمِ، فَلَمَّا رَأَى ضَعَفَتَهُمْ وَرِقَّةَ ظَهْرِهِمْ خَرَجَ يَعْدُو إِلَى جَمَلِهِ فَأَطْلَقَهُ ثُمَّ أَنَاخَهُ فَقَعَدَ عَلَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ يَرْكُضُهُ، وَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ عَلَى نَاقَةٍ وَرْقَاءَ هِيَ أَمْثَلُ ظَهْرِ الْقَوْمِ، قَالَ: فَخَرَجْتُ أَعْدُو فَأَدْرَكْتُهُ وَرَأْسُ النَّاقَةِ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، وَكُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ النَّاقَةِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ فَأَنَخْتُهُ، فَلَمَّا وَضَعَ رُكْبَتَهُ بِالأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَيْفِي فَأَضْرِبُ رَأْسَهُ، فَنَدَرَ، فَجِئْتُ بِرَاحِلَتِهِ وَمَا عَلَيْهَا أَقُودُهَا، فَاسْتَقْبَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي النَّاسِ مُقْبِلا، فَقَالَ: < مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ؟ > فَقَالُوا: [سَلَمَةُ] بْنُ الأَكْوَعِ، فَقَالَ: < لَهُ سَلَبُهُ أَجْمَعُ >.
قَالَ هَارُونُ: هَذَا لَفْظُ هَاشِمٍ۔
* تخريج: م/ الجہاد ۱۳ (۱۷۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۹، ۵۱) (حسن)
(مؤلف کی اس سند سے حسن ہے، نیز یہ واقعہ صحیحین میں بھی ہے، جیسا کہ تخریج سے واضح ہے)
۲۶۵۴- سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوازن کا غزوہ کیا، وہ کہتے ہیں : ہم چاشت کے وقت کھانا کھا رہے تھے، اور اکثر لوگ ہم میں سے پیدل تھے، ہمارے ساتھ کچھ ناتواں اور ضعیف بھی تھے کہ اسی دوران ایک شخص سرخ اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اور اونٹ کی کمر سے ایک رسی نکال کر اس سے اپنے اونٹ کو باندھا، اور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا، جب اس نے ہمارے کمزوروں اور سواریوں کی کمی کو دیکھا تو اپنے اونٹ کی طرف دوڑتا ہوا نکلا، اس کی رسی کھولی پھر اسے بٹھایا اور اس پر بیٹھا اور اسے ایڑ لگاتے ہوئے تیزی کے ساتھ چل پڑا(جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ جاسوس ہے ) تو قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے اپنی خاکستری اونٹنی پر سوار ہو کر اس کا پیچھا کیا اور یہ لوگوں کی سواریوں میں سب سے بہتر تھی، پھر میں آگے بڑھا یہاں تک کہ میں نے اسے پا لیا اور حال یہ تھا کہ اونٹنی کا سر اونٹ کے پٹھے کے پاس اور میں اونٹنی کے پٹھے پر تھا، پھر میں تیزی سے آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ میں اونٹ کے پٹھے کے پاس پہنچ گیا، پھر آگے بڑھ کر میں نے اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور اسے بٹھایا، جب اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا تو میں نے تلوار میان سے نکال کر اس کے سر پر ماری تو اس کا سر اڑ گیا، میں اس کا اونٹ مع ساز و سامان کے کھینچتے ہوئے لایا تو لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے آ کر میرا استقبال کیا اور پوچھا: ''اس شخص کو کس نے مارا ؟'' ، لوگوں نے بتایا: سلمہ بن اکوع نے، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اس کا سارا سامان انہی کو ملے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امن حاصل کرنے والے کافر کے متعلق اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ جاسوس ہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے۔
 
Top