• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
121- بَاب فِي قَتْلِ النِّسَاءِ
۱۲۱-باب: عورتوں کے قتل کی ممانعت کا بیان​


2668- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ، وَقُتَيْبَةُ -يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ- قَالا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ امْرَأَةً وُجِدَتْ فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَقْتُولَةً، فَأَنْكَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَتْلَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۴۷ (۳۰۱۴)، م/الجھاد ۸ (۱۷۴۴)، ت/الجھاد ۱۹ (۱۵۶۹)، ق/الجھاد ۳۰ (۲۸۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۶۸)، وقد أخرجہ: ط/الجھاد ۳ (۹)، حم (۲/۱۲۲، ۱۲۳)، دي/السیر ۲۵ (۲۵۰۵) (صحیح)
۲۶۶۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کسی غزوہ میں مقتول پائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل پر نکیر فرمائی ۔


2669- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْمُرَقَّعِ بْنِ صَيْفِيِّ [بْنِ رَبَاحٍ]، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّهِ رَبَاحِ بْنِ رَبِيعٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي غَزْوَةٍ، فَرَأَى النَّاسَ مُجْتَمِعِينَ عَلَى شَيْئٍ، فَبَعَثَ رَجُلا فَقَالَ: < انْظُرْ عَلامَ اجْتَمَعَ هَؤُلاءِ > فَجَاءَ، فَقَالَ: [عَلَى] امْرَأَةٍ قَتِيلٍ، فَقَالَ: < مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُقَاتِلَ > قَالَ: وَعَلَى الْمُقَدِّمَةِ خَالِدُ ابْنُ الْوَلِيدِ، فَبَعَثَ رَجُلا، فَقَالَ: < قُلْ لِخَالِدٍ لا يَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلا عَسِيفًا >۔
* تخريج: ق/الجھاد ۳۰ (۲۸۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۴۹، ۳۷۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۸۸، ۴/۱۷۸، ۳۴۶) (حسن صحیح)
۲۶۶۹- رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ نے دیکھا کہ لوگ کسی چیز کے پاس اکٹھا ہیں تو ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا :'' جائو، دیکھو یہ لوگ کس چیز کے پاس اکٹھا ہیں''، وہ دیکھ کر آیا اور اس نے بتایا کہ لوگ ایک مقتول عورت کے پاس اکٹھا ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' یہ تو ایسی نہیں تھی کہ قتال کرے'' ۱؎ ، مقدمۃ الجیش (فوج کے اگلے حصہ) پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مقرر تھے تو آپ ﷺ نے ایک شخص سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس کہلا بھیجا کہ وہ ہرگز کسی عورت کو نہ ماریں اور نہ کسی مزدور کو ۲ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہوا کہ عورت اگر لڑائی میں حصہ لیتی ہے اور لڑتی ہے تو اسے قتل کیا جائے گا بصورت دیگر اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔
وضاحت ۲؎ : یہاں مزدور سے مراد وہ مزدور ہے جو لڑتا نہ ہو صرف خدمت کے لئے ہو۔


2670- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < اقْتُلُوا شُيُوخَ الْمُشْرِكِينَ وَاسْتَبْقُوا شَرْخَهُمْ >۔
* تخريج: ت/السیر ۲۹ (۱۵۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲، ۲۰) (ضعیف)
(حسن بصری مدلس ہیں، اور '' عنعنہ '' سے روایت کئے ہوئے ہیں )
۲۶۷۰- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مشرکین کے بوڑھوں ۱؎ کو (جو لڑنے کے قابل ہوں) قتل کرو، اور کم سنوں کو باقی رکھو''۔


2671- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمْ يُقْتَلْ مِنْ نِسَائِهِمْ -تَعْنِي بَنِي قُرَيْظَةَ- إِلا امْرَأَةٌ، إِنَّهَا لَعِنْدِي تُحَدِّثُ تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْتُلُ رِجَالَهُمْ [بِالسُّيُوفِ] إِذْ هَتَفَ هَاتِفٌ بِاسْمِهَا: أَيْنَ فُلانَةُ؟ قَالَتْ: أَنَا، قُلْتُ: وَمَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: حَدَثٌ أَحْدَثْتُهُ، قَالَتْ: فَانْطَلَقَ بِهَا، فَضُرِبَتْ عُنُقُهَا، فَمَا أَنْسَى عَجَبًا مِنْهَا أَنَّهَا تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا وَقَدْ عَلِمَتْ أَنَّهَا تُقْتَلُ.
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۷۷) (حسن)
۲۶۷۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بنی قریظہ کی عورتوں میں سے کوئی بھی عورت نہیں قتل کی گئی سوائے ایک عورت کے جو میرے پاس بیٹھ کر اس طرح باتیں کر رہی تھی اور ہنس رہی تھی کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں بل پڑ جارہے تھے، اور رسول ﷺ ان کے مردوں کو تلوار سے قتل کر رہے تھے، یہاں تک کہ ایک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا: فلاں عورت کہاں ہے؟ وہ بولی: میں ہوں، میں نے پوچھا: تجھ کو کیا ہوا کہ تیرا نام پکارا جا رہا ہے، وہ بولی: میں نے ایک نیا کام کیا ہے، عائشہ کہتی ہیں: پھر وہ پکارنے والا اس عورت کو لے گیا اور اس کی گردن مار دی گئی، اور میں اس تعجب کو اب تک نہیں بھولی جو مجھے اس کے اس طرح ہنسنے پر ہو رہا تھا کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں بل پڑپڑ جا رہے تھے، حالاں کہ اس کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ قتل کردی جائے گی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کہا جاتا ہے کہ اس عورت کا نیا کام یہ تھا کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دی تھیں، اسی سبب سے اسے قتل کیا گیا۔


2672- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِاللَّهِ- عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الدَّارِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُبَيَّتُونَ، فَيُصَابُ مِنْ ذَرَارِيِّهِمْ وَنِسَائِهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < هُمْ مِنْهُمْ >، وَكَانَ عَمْرٌو -يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ- يَقُولُ: < هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ >.
قَالَ الزُّهْرِيُّ: ثُمَّ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۴۶ (۳۰۱۲)، م/الجھاد ۹ (۱۷۸۵)، ت/السیر ۱۹ (۱۵۷۰)، ق/الجھاد ۳۰ (۲۸۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۸، ۷۱، ۷۲، ۷۳) (صحیح)
(زہری کا مذکورہ قول مؤلف کے سوا کسی کے یہاں نہیں ہے)
۲۶۷۲- صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مشرکین کے گھروں کے بارے میں پوچھا کہ اگر ان پر شب خون مارا جائے اور ان کے بچے اور بیوی زخمی ہوں(تو کیا حکم ہے؟)، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' وہ بھی انہیں میں سے ہیں'' اور عمرو بن دینار کہتے تھے:'' وہ اپنے آباء ہی میں سے ہیں'' ۔
زہری کہتے ہیں: پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
122- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ حَرْقِ الْعَدُوِّ بِالنَّارِ
۱۲۲-باب: دشمن کو آگ سے جلانے کی کراہت کا بیان​


2673- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحِزَامِيُّ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَمْزَةَ الأَسْلَمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَّرَهُ عَلَى سَرِيَّةٍ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فِيهَا، وَقَالَ: < إِنْ وَجَدْتُمْ فُلانًا فَأَحْرِقُوهُ بِالنَّارِ > فَوَلَّيْتُ، فَنَادَانِي، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: < إِنْ وَجَدْتُمْ فُلانًا فَاقْتُلُوهُ وَلا تُحْرِقُوهُ، فَإِنَّهُ لا يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلا رَبُّ النَّارِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۹۴) (صحیح)
۲۶۷۳- حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایک سریہ کا امیر بنایا، میں اس سریہ میں نکلا، آپ ﷺ نے فرمایا:''اگر فلاں کافر کو پانا تو اسے آگ میں جلا دینا''، جب میں پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ ﷺ نے مجھے پکارا، میں لوٹا تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' اگر اس کو پانا تو مار ڈالنا، جلانا نہیں، کیوں کہ آگ کا عذاب صرف آگ کے رب کو سزاوار ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : البتہ آگ سے کافروں کے کھیتوں، باغوں اور بستیوں کو جلانا ثابت ہے۔


2674- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ، وَقُتَيْبَةُ أَنَّ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ ابْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي بَعْثٍ، فَقَالَ: < إِنْ وَجَدْتُمْ فُلانًا وَفُلانًا > فَذَكَرَ مَعْنَاهُ ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۴۹ (۳۰۱۶)، ت/السیر ۲۰ (۱۵۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۷، ۳۳۸، ۴۵۳) (صحیح)
۲۶۷۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک جنگ میں بھیجا اور فرمایا :''اگر تم فلاں اور فلاں کو پانا''،پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔


2675- حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ ابْنِ سَعْدٍ، قَالَ غَيْرُ أَبِي صَالِحٍ: عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ، فَرَأَيْنَا حُمَرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ، فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا، فَجَائَتِ الْحُمَرَةُ، فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ، فَجَاءَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: < مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا؟ رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا >، وَرَأَى قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا، فَقَالَ: < مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ؟ > قُلْنَا: نَحْنُ، قَالَ: < إِنَّهُ لا يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلاَ رَبُّ النَّارِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۰۴)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۲۶۸) (صحیح)
۲۶۷۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ اپنی ضرورت کے لئے گئے، ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے، ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، وہ چڑیا آکر زمین پر پر بچھانے لگی، اتنے میں نبی اکرم ﷺ آگئے، اور(یہ دیکھ کر) فرمایا :'' اس چڑیا کا بچہ لے کر کس نے اسے بے قرار کیا ہے؟ اس کے بچے کو اسے واپس کرو''، اور آپ نے چینوٹیوں کی ایک بستی کو دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا تو پوچھا:'' اس کو کس نے جلایا ہے ؟ ''ہم لوگوں نے کہا: ہم نے، آپ ﷺ نے فرمایا :''آگ سے عذاب دینا آگ کے مالک کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
123- بَاب فِي الرَّجُلِ يَكْرِي دَابَّتَهُ عَلَى النِّصْفِ أَوِ السَّهْمِ
۱۲۳-باب: آدمی اپنا جانور مالِ غنیمت کے آدھے یا پورے حصے کے بدلے کرایہ پر دے​


2676- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، أَخْبَرَنِي أَبُوزَرْعَةَ -يَحْيَى بْنُ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيُّ- عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ وَاثِلَةَ ابْنِ الأَسْقَعِ، قَالَ: نادى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَخَرَجْتُ إِلَى أَهْلِي، فَأَقْبَلْتُ وَقَدْ خَرَجَ أَوَّلُ صَحَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَطَفِقْتُ فِي الْمَدِينَةِ أُنَادِي: أَلا مَنْ يَحْمِلُ رَجُلا لَهُ سَهْمُهُ، فَنَادَى شَيْخٌ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ: لَنَا سَهْمُهُ عَلَى أَنْ نَحْمِلَهُ عُقْبَةً وَطَعَامُهُ مَعَنَا؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَسِرْ عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ تَعَالَى، قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَ خَيْرِ صَاحِبٍ حَتَّى أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْنَا، فَأَصَابَنِي قَلائِصُ فَسُقْتُهُنَّ حَتَّى أَتَيْتُهُ، فَخَرَجَ فَقَعَدَ عَلَى حَقِيبَةٍ مِنْ حَقَائِبِ إِبِلِهِ، ثُمَّ قَالَ: سُقْهُنَّ مُدْبِرَاتٍ، ثُمَّ قَالَ: سُقْهُنَّ مُقْبِلاتٍ، فَقَالَ: مَا أَرَى قَلائِصَكَ إِلا كِرَامًا، قَالَ: إِنَّمَا هِيَ غَنِيمَتُكَ الَّتِي شَرَطْتُ لَكَ، قَالَ: خُذْ قَلائِصَكَ يَا ابْنَ أَخِي فَغَيْرَ سَهْمِكَ أَرَدْنَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۴۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عمر وبن عبد اللہ سے سیبانی '' لین الحدیث ہیں)
۲۶۷۶- واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کے سلسلہ میں منادی کرائی، میں اپنے اہل کے پاس گیا اور وہاں سے ہو کر آیا تو صحابہ کرام نکل چکے تھے، تو میں شہرمیں پکار لگانے لگا کہ کوئی ایسا ہے جو ایک آدمی کو سوار کر لے، اور جو حصہ مال غنیمت سے ملے اسے لے لے، ایک بوڑھے انصاری بولے: اچھا ہم اس کا حصہ لے لیں گے، اور اس کو اپنے ساتھ بٹھالیں گے، اور ساتھ کھانا کھلائیں گے، میں نے کہا: ہاں قبول ہے، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، اللہ کی برکت پر بھروسہ کر کے چلو، میں بہت ہی اچھے ساتھی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنیمت کا مال دیا، میرے حصہ میں چند تیزرو اونٹنیا ں آئیں، میں ان کو ہنکا کر اپنے ساتھی کے پاس لایا، وہ نکلے اور اپنے اونٹ کے پچھلے حصہ (حقیبہ ) پربیٹھے، پھر کہا: ان کی پیٹھ میری طرف کر کے ہانکو، پھر بولے: ان کا منہ میری طرف کر کے ہانکو، اس کے بعد کہا: تیری اونٹنیاں میرے نزدیک عمدہ ہیں، میں نے کہا: یہ تو آپ کا وہی مال ہے جس کی میں نے شرط رکھی تھی، انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! تو اپنی اونٹنیاں لے لے، میرا ارادہ تیرا حصہ لینے کا نہ تھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
124- بَاب فِي الأَسِيرِ يُوثَقُ
۱۲۴-باب: قیدی کے باندھنے کا بیان​


2677- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < عَجِبَ رَبُّنَا عَزَّوَجَلَّ مِنْ قَوْمٍ يُقَادُونَ إِلَى الْجَنَّةِ فِي السَّلاسِلِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۶۴)، وقد أخرجہ: خ/الجھاد ۱۴۴ (۳۰۱۰)، حم (۲/۳۰۲، ۴۰۶) (صحیح)
۲۶۷۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:'' ہمارا رب ایسے لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو بیڑیوں میں جکڑ کر جنت میں لے جائے جاتے ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مراد وہ لوگ ہیں جو قید ہو کر مسلمانوں کے ہاتھ میں آتے ہیں پھر اللہ انہیں اسلام کی توفیق دیتا ہے اور وہ اسلام قبول کرکے جنت کی راہ پر چل پڑتے ہیں یا وہ مسلمان قیدی مراد ہیں جو کفار کے ہاتھوں قید ہو کر انتقال کر جاتے ہیں پھر اللہ انہیں جنت میں داخل کرتا ہے ۔


2678- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ مَكِيثٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَبْدَاللَّهِ بْنَ غَالِبٍ اللَّيْثِيَّ فِي سَرِيَّةٍ، وَكُنْتُ فِيهِمْ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَشُنُّوا الْغَارَةَ عَلَى بَنِي الْمُلَوِّحِ بِالْكَدِيدِ فَخَرَجْنَا، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْكَدِيدِ لَقِينَا الْحَارِثَ بْنَ الْبَرْصَاءِ اللَّيْثِيَّ، فَأَخَذْنَاهُ فَقَالَ: إِنَّمَا جِئْتُ أُرِيدُ الإِسْلامَ، وَإِنَّمَا خَرَجْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقُلْنَا: إِنْ تَكُنْ مُسْلِمًا لَمْ يَضُرَّكَ رِبَاطُنَا يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَإِنْ تَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ نَسْتَوْثِقُ مِنْكَ، فَشَدَدْنَاهُ وِثَاقًا۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۷، ۴۶۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ''مسلم جہنی''مجہول ہیں)
۲۶۷۸- جندب بن مکیث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن غالب لیثی رضی اللہ عنہ کو ایک سریہ میں بھیجا، میں بھی انہیں میں تھا، اور آپ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ بنو المُلَوِّح پر کدید میں کئی طرف سے حملہ کریں، چنانچہ ہم لوگ نکلے جب کدید میں پہنچے تو ہم حارث بن بر صاء لیثی سے ملے، ہم نے اسے پکڑ لیا، وہ کہنے لگا: میں تو مسلمان ہونے کے لئے آیا ہوں، میں تو رسول اللہ ﷺ ہی کی طرف جا رہا تھا، ہم نے کہا: اگر تو مسلمان ہے تو ایک دن ایک رات کا ہمارا باندھنا تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر تم مسلمان نہیں ہو تو ہم تمہیں مضبوطی سے باندھیں گے، پھر ہم نے اس کو مضبوطی سے باندھ دیا۔


2679- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ وَقُتَيْبَةُ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ [ابْنُ سَعْدٍ] عَنْ سَعِيدِ ابْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خَيْلا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَائَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ، يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ -سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ- فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: < مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟ > قَالَ: عِنْدِي يَا مُحَمَّدُ خَيْرٌ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ ثُمَّ قَالَ لَهُ: <مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟ > فَأَعَادَ مِثْلَ هَذَا الْكَلامِ، فَتَرَكَهُ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَذَكَرَ مِثْلَ هَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ > فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَاغْتَسَلَ [فِيهِ] ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ عِيسَى: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ وَقَالَ: ذَا ذِمٍّ ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۷۶ (۴۶۲)، والمغازي ۷۰ (۴۳۷۲)، م/الجھاد ۱۹ (۱۷۶۴)، ن/الطھارۃ ۱۲۷ (۱۸۹)، المساجد ۲۰ (۷۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۵۲) (صحیح)
۲۶۷۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ سواروں کو نجد کی جانب بھیجا وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی آدمی کوگرفتار کر کے لائے، وہ اہل یمامہ کے سردار تھے، ان کو مسجد کے ایک کھمبے سے باندھ دیا، رسول اللہ ﷺ ان کے پاس گئے اور پوچھا: ''ثمامہ! تمہارے پاس کیا ہے؟''، کہا : اے محمد !میرے پاس خیر ہے، اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک مستحق شخص کو قتل کریں گے، اور اگر احسان کریں گے، تو ایک قدرداں پر احسان کریں گے، اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو کہئے جتنا چاہیں گے دیا جائے گا، رسول اللہ ﷺ انہیں چھوڑ کر واپس آگئے، یہاں تک کہ جب دوسرا دن ہوا تو پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ''ثمامہ تمہارے پاس کیا ہے؟''، تو انہوں نے پھر اپنی وہی بات دہرائی ، آپ ﷺ نے پھر انہیں یوں ہی چھوڑ دیا، پھر جب تیسرا دن ہوا تو پھر وہی بات ہوئی، پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو آزاد کر دو، چنانچہ وہ مسجد کے قریب ایک با غ میں گئے، غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہوئے اور ''أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله'' پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کیا ۔
عیسیٰ کہتے ہیں: مجھ سے لیث نے ''ذَاْ دَمٍ'' کے بجائے''ذَا ذِمٍّ '' ( یعنی ایک عزت دار کو قتل کروگے) روایت کی ہے۔


2680- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ -يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ- عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ: قُدِمَ بِالأُسَارَى حِينَ قُدِمَ بِهِمْ وَسَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ عِنْدَ آلِ عَفْرَاءَ فِي مُنَاخِهِمْ عَلَى عَوْفٍ وَمُعَوِّذٍ ابْنَيْ عَفْرَاءَ قَالَ: وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُضْرَبَ عَلَيْهِنَّ الْحِجَابُ، قَالَ: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَعِنْدَهُمْ إِذْ أَتَيْتُ فَقِيلَ: هَؤُلاءِ الأُسَارَى قَدْ أُتِيَ بِهِمْ، فَرَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِيهِ، وَإِذَا أَبُو يَزِيدَ -سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو- فِي نَاحِيَةِ الْحُجْرَةِ مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ بِحَبْلٍ، ثُمَّ ذَكَرَ الْحَدِيثَ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهُمَا قَتَلا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ، وَكَانَا انْتَدَبَا لَهُ، وَلَمْ يَعْرِفَاهُ، وَقُتِلا يَوْمَ بَدْرٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۹۷) (ضعیف)
(یحییٰ بن عبد اللہ تابعی صغیرہیں، اسلئے یہ روایت مرسل ہے)
۲۶۸۰- یحییٰ بن عبد اللہ بن عبدالرحمن بن سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قیدیوں کو لایا گیا جس وقت انہیں لایا گیا، اور سودہ بنت زمعہ (ام المومنین رضی اللہ عنہا) آل عفراء یعنی عوف بن عفراء اور معوذ بن عفراء کے پاس اس جگہ تھیں جہاں ان کے اونٹ بٹھائے جاتے تھے، اور یہ معاملہ پردہ کا حکم اترنے سے پہلے کا ہے، سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: قسم اللہ کی ! میں انہیں کے پاس تھی، یکایک آئی تو کہا گیا یہ قیدی ہیں پکڑ کر لائے گئے ہیں، تو میں اپنے گھر واپس آئی اور رسول اللہ ﷺ گھر میں تھے اور ابو یزید سہیل بن عمرو حجر ے کے ایک کونے میں تھا، اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن سے ایک رسی سے بندھے ہوئے تھے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ۔
ابو داود کہتے ہیں :انہیں دونوں(عوف ومعوذ)نے ابو جہل بن ہشام کو قتل کیا، اور یہی دونوں اس کے آگے آئے حالاں کہ اسے پہچانتے نہ تھے، یہ دونوں بدر کے دن مارے گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
125- بَاب فِي الأَسِيرِ يُنَالُ مِنْهُ وَيُضْرَبُ وَيُقَرَّرُ
۱۲۵-باب: قیدی کو مارنے پیٹنے اور ڈانٹ پلانے کا بیان​


2681- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَدَبَ أَصْحَابَهُ فَانْطَلَقُوا إِلَى بَدْرٍ، فَإِذَا هُمْ بِرَوَايَا قُرَيْشٍ فِيهَا عَبْدٌ أَسْوَدُ لِبَنِي الْحَجَّاجِ، فَأَخَذَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَجَعَلُوا يَسْأَلُونَهُ: أَيْنَ أَبُوسُفْيَانَ؟ فَيَقُولُ: وَاللَّهِ مَالِي بِشَيْئٍ مِنْ أَمْرِهِ عِلْمٌ، وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ جَائَتْ، فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ وَعُتْبَةُ وَشَيْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ، فَإِذَا قَالَ لَهُمْ ذَلِكَ ضَرَبُوهُ، فَيَقُولُ: دَعُونِي دَعُونِي أُخْبِرْكُمْ، فَإِذَا تَرَكُوهُ قَالَ: وَاللَّهِ مَالِي بِأَبِي سُفْيَانَ مِنْ عِلْمٍ، وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ، فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ وَعُتْبَةُ وَشَيْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ قَدْأَقْبَلُوا، وَالنَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي، وَهُوَ يَسْمَعُ ذَلِكَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: < وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ لَتَضْرِبُونَهُ إِذَا صَدَقَكُمْ، وَتَدَعُونَهُ إِذَا كَذَبَكُمْ، هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ لِتَمْنَعَ أَبَا سُفْيَانَ >، قَالَ أَنَسٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < هَذَا مَصْرَعُ فُلانٍ غَدًا -وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الأَرْضِ- وَهَذَا مَصْرَعُ فُلانٍ غَدًا -وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الأَرْضِ- وَهَذَا مَصْرَعُ فُلانٍ غَدًا -وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الأَرْضِ- >، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا جَاوَزَ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَأَمَرَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَأُخِذَ بِأَرْجُلِهِمْ، فَسُحِبُوا، فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۶)، وقد أخرجہ: م/الجھاد ۳۰ (۱۷۷۹)، والجنۃ ۱۷ (۵۷۳۲)، ن/ الجنائز ۱۱۷(۲۰۷۶) حم (۱/۲۶) (صحیح)
۲۶۸۱- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحا بۂ کرام کو بلایا، وہ سب بدر کی طرف چلے، اچانک قریش کے پانی والے اونٹ ملے ان میں بنی حجاج کا ایک کالا کلوٹا غلام تھا، صحابۂ کرام نے اسے پکڑلیا اور اس سے پوچھنے لگے کہ بتائو ابوسفیان کہاں ہے ؟ وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم ! مجھے ابوسفیان کے سلسلہ میں کوئی علم نہیں، البتہ قریش کے لوگ آئے ہیں ان میں ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف بھی آئے ہوئے ہیں، جب اس نے یہ کہا تو صحابۂ کرام اسے مارنے لگے، وہ بولا: مجھے چھوڑ دو، مجھے چھوڑ دو، میں تمہیں بتاتا ہوں، جب اس کو چھوڑا تو پھر وہ یہی بات کہنے لگا: اللہ کی قسم مجھے ابو سفیان کے سلسلہ میں کوئی علم نہیں البتہ قریش آئے ہیں ان میں ابو جہل، ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ وشیبہ اور امیہ بن خلف بھی آئے ہوئے ہیں، (اس وقت) نبی اکرم ﷺ صلاۃ پڑھ رہے تھے اور اسے سن رہے تھے، جب صلاۃ سے فارغ ہوئے تو فرمایا: '' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب وہ تم سے سچ کہتا ہے تو تم اُسے مارتے ہو اور جب جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو، (ابو سفیان تو شام کے قافلہ کے ساتھ مال لئے ہوئے آرہا ہے) اور یہ قریش کے لوگ ہیں اس کو بچانے کے لئے آئے ہیں ''۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کل یہاں فلاں کی لاش گرے گی''، اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا، ''کل یہ فلاں کا مقتل ہوگا'' اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا، ''اور کل یہ فلاں کا مقتل ہوگا'' اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا ۱؎ ۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ کی جگہ سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکا، پھر آپ ﷺ نے ان کے سلسلہ میں حکم دیا تو ان کے پائوں پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے انہیں بدر کے کنوئیں میں ڈال دیا گیا۔
وضاحت ۱؎ : یہ رسول اکرم ﷺ کا معجزہ تھا، آپ نے پہلے ہی بتا دیا کہ یہاں فلاں مارا جائے گا، اور یہاں فلاں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
126- بَاب فِي الأَسِيرِ يُكْرَهُ عَلَى الإِسْلامِ
۱۲۶-باب: قیدی کو اسلام لانے کے لئے مجبور نہ کئے جانے کا بیان​


2682- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ -يَعْنِي السِّجِسْتَانِيَّ- (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ -وَهَذَا لَفْظُهُ- (ح) وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَكُونُ مِقْلاةً، فَتَجْعَلُ عَلَى نَفْسِهَا إِنْ عَاشَ لَهَا وَلَدٌ أَنْ تُهَوِّدَهُ، فَلَمَّا أُجْلِيَتْ بَنُو النَّضِيرِ كَانَ فِيهِمْ مِنْ أَبْنَاءِ الأَنْصَارِ، فَقَالُوا: لا نَدَعُ أَبْنَائَنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ: { لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ}.
قَالَ أَبو دَاود: الْمِقْلاةُ الَّتِي لا يَعِيشُ لَهَا وَلَدٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۵۹) (صحیح)
۲۶۸۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ( کفر کے زمانہ میں) کوئی عورت ایسی ہوتی جس کا بچہ نہ جیتا تو وہ نذر مانتی کہ اگر اس کا بچہ جیئے گا تو وہ اس کو یہودی بنائے گی، جب بنی نضیر کو جلا وطن کرنے کا حکم ہوا تو ان میں چند لڑکے انصار کے بھی تھے، انصار نے کہا: ہم اپنے لڑکوں کو نہ چھوڑیں گے تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی {لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ} (سورۃ البقرۃ : ۲۵۶) ''دین میں زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے''۔
ابو داود کہتے ہیں: مقلات : اس عورت کو کہتے ہیں جس کا کوئی بچہ نہ جیتا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
127- باب قتل الأسير ولا يعرض عليه الإسلام
۱۲۷-باب: قیدی پر اسلام پیش کئے بغیر اسے قتل کر دینے کا بیان​


2683- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ: زَعَمَ السُّدِّيُّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ النَّاسَ إِلا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَسَمَّاهُمْ، وَابْنُ أَبِي سَرْحٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: وَأَمَّا ابْنُ أَبِي سَرْحٍ فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ: بَايِعْ عَبْدَاللَّهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلاثًا، كُلُّ ذَلِكَ يَأْبَى، فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلاثٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: < أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ؟ > فَقَالُوا: مَا نَدْرِي يَارَسُولَ اللَّهِ! مَا فِي نَفْسِكَ، أَلا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ، قَالَ: < إِنَّهُ لا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ تَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ الأَعْيُنِ >.
[قَالَ أَبو دَاود: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ أَخَا عُثْمَانَ مِنَ الرِّضَاعَةِ، وَكَانَ الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ أَخَا عُثْمَانَ لأُمِّهِ، وَضَرَبَهُ عُثْمَانُ الْحَدَّ إِذْ شَرِبَ الْخَمْرَ]۔
* تخريج: ن/ المحاربۃ ۱۱ (۴۰۷۲)، ویأتي عند المؤلف في الحدود ۱(۴۳۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۳۷) (صحیح)
۲۶۸۳- سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا سب کو امان دے دی، انہوں نے ان کا اور ابن ابی السرح کا نام لیا، رہا ابن ابی سرح تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے جب لوگوں کو بیعت کے لئے بلایا تو عثمان نے اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے لا کھڑا کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! عبداللہ سے بیعت لیجئے، آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی جانب دیکھا، تین بار ایسا ہی کیا، ہر بار آپ انکار کرتے رہے، تین بار کے بعد پھر اس سے بیعت لے لی، پھرصحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:'' کیا تم میں کوئی بھی عقلمند آدمی نہیں تھا کہ جس وقت میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے روک رکھا تھا، اٹھتا اور اسے قتل کردیتا؟''، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ہمیں آپ کے دل کا حال نہیں معلوم تھا، آپ نے ہمیں آنکھ سے اشارہ کیوں نہیں کر دیا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کسی نبی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کنکھیوں سے اشارے کرے''۔
ابو داود کہتے ہیں: عبداللہ عثمان کا رضاعی بھائی تھا اور ولید بن عقبہ عثمان کا اخیافی بھائی تھا، اس نے شراب پی تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر حد لگائی ۔


2684- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدِ [بْنِ يَرْبُوعٍ] الْمَخْزُومِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي جَدِّي، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: < أَرْبَعَةٌ لا أُؤَمِّنُهُمْ فِي حِلٍّ وَلا حَرَمٍ > فَسَمَّاهُمْ، قَالَ: وَقَيْنَتَيْنِ كَانَتَا لِمِقْيَسٍ، فَقُتِلَتْ إِحْدَاهُمَا، وَأَفْلَتَتِ الأُخْرَى فَأَسْلَمَتْ.
قَالَ أَبو دَاود: لَمْ أَفْهَمْ إِسْنَادَهُ مِنِ ابْنِ الْعَلاءِ كَمَا أُحِبُّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۷۴) (ضعیف)
(اس کے راوی عمر وبن عثمان ''لین الحدیث ہیں)
۲۶۸۴- سعید بن یربوع مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ''چار آدمیوں کو میں حرم اور حرم سے باہر کہیں بھی امان نہیں دیتا''، پھر آپ ﷺ نے ان کے نام لئے، اور مقیس کی دو لونڈیوں کو، ایک ان میں سے قتل کی گئی، دوسری بھاگ گئی پھر وہ مسلمان ہو گئی ۔


2685- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ، فَلَمَّا نَزَعَهُ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: < اقْتُلُوهُ >.
قَالَ أَبو دَاود: ابْنُ خَطَلٍ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ، وَكَانَ أَبُو بَرْزَةَ [الأَسْلَمِيُّ] قَتَلَهُ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۸ (۱۸۴۶)، الجھاد ۱۶۹ (۳۰۴۴)، المغازي ۴۸ (۴۲۸۶)، اللباس ۱۷ (۵۸۰۸)، م/الحج ۸۴ (۱۳۵۷)، ت/الحج ۱۸ (۱۶۹۳)، الشمائل ۱۶ (۱۰۶)، ن/الحج ۱۰۷ (۲۸۷۰، ۲۸۷۱)، ق/الجھاد ۱۸ (۲۸۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۸۱(۲۴۷)، حم (۳/۱۰۹، ۱۶۴، ۱۸۰، ۱۸۶، ۲۲۴، ۲۳۱، ۲۳۲، ۲۴۰، دي/المناسک ۸۸ (۱۹۸۱)، والسیر ۲۰ (۲۵۰۰) (صحیح)
۲۶۸۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں فتح مکہ کے سال داخل ہوئے، آپ کے سر پر خود تھا، جب آپ ﷺ نے خود اتارا تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ابن خطل کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس کو قتل کر دو'' ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: ابن خطل کا نام عبداللہ تھا اور اُسے ابو برزہ اسلمی نے قتل کیا ۔
وضاحت ۱؎ : رسول اللہ ﷺ نے ابن خطل کو ایک انصاری کے ساتھ کسی جہت میں زکاۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا، انصاری کو اس وفد کا امیر بنایا، راستہ میں ابن خطل نے انصاری پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا اور سارا مال ومتاع لے کر فرار ہوگیا اور اسلام سے پھر گیا، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اسے امان نہیں دی اور خون ناحق کا بدلہ لینے کے لئے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
128- بَاب فِي قَتْلِ الأَسِيرِ صَبْرًا
۱۲۸-باب: قیدی کو باندھ کر مار ڈالنے کا بیان​


2686- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الرَّقِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَرَادَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ أَنْ يَسْتَعْمِلَ مَسْرُوقًا، فَقَالَ لَهُ عُمَارَةُ بْنُ عُقْبَةَ: أَتَسْتَعْمِلُ رَجُلا مِنْ بَقَايَا قَتَلَةِ عُثْمَانَ؟ فَقَالَ لَهُ مَسْرُوقٌ: حَدَّثَنَا: عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ -وَكَانَ فِي أَنْفُسِنَا مَوْثُوقَ الْحَدِيثِ- أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمَّا أَرَادَ قَتْلَ أَبِيكَ قَالَ: مَنْ لِلصِّبْيَةِ؟ قَالَ: <النَّارُ> فَقَدْ رَضِيتُ لَكَ مَا رَضِيَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۶۰) (حسن صحیح)
۲۶۸۶- ابراہیم کہتے ہیں کہ ضحاک بن قیس نے مسروق کو عامل بنانا چاہا تو عمارہ بن عقبہ نے ان سے کہا:کیا آپ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں سے ایک شخص کو عامل بنارہے ہیں؟ تو مسروق نے ان سے کہا: مجھ سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور وہ ہم میں حدیث (بیان کرنے ) میں قابل اعتماد تھے کہ جب نبی اکرم ﷺ نے تیرے باپ (عقبہ ۱؎ ) کے قتل کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگا: میرے لڑکوں کی خبر گیری کون کرے گا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''آگ ۲؎ پس میں تیرے لئے اسی چیز سے راضی ہوں جس چیز سے رسول اللہ ﷺ راضی ہوئے''۔
وضاحت ۱؎ : عقبہ بن ابی معیط یہی وہ بدقماش شخص ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے سر پر صلاۃ کی حالت میں اوجھڑی ڈالی تھی۔
وضاحت ۲؎ : رسول اللہ ﷺ نے عقبہ بن ابی معیط کے جواب میں '' آگ '' کہا، علماء اس کی دو وجہیں بیان کرتے ہیں :
۱- یہ بطور استہزاء ہے اور اشارہ ہے اس کی اولاد کے ضائع ہونے کی طرف۔
۲- یا مفہوم ہے ''لك النار'' یعنی تیرے لئے آگ ہے، رہا بچوں کا معاملہ تو ان کا محافظ اللہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
129- بَاب فِي قَتْلِ الأَسِيرِ بِالنَّبْلِ
۱۲۹-باب: قیدی کو باندھ کر تیروں سے مار ڈالنے کا بیان​


2687- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ [عَبْدِاللَّهِ] بْنِ الأَشَجِّ، عَنِ ابْنِ تِعْلَى، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَأُتِيَ بِأَرْبِعَةِ أَعْلاجٍ مِنَ الْعَدُوِّ، فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُتِلُوا صَبْرًا.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ لَنَا غَيْرُ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: [بِالنَّبْلِ صَبْرًا]، فَبَلَغَ ذَلِكَ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَنْهَى عَنْ قَتْلِ الصَّبْرِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَتْ دَجَاجَةٌ مَا صَبَرْتُهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ فَأَعْتَقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۲۲)، دي/الاضاحي ۱۳ (۲۰۱۷) (حسن)
۲۶۸۷- ابن تِعلی کہتے ہیں کہ ہم نے عبدالرحمن بن خالد بن ولید کے ساتھ جہاد کیا تو ان کے سامنے عجمی کافروں میں سے چار طاقتوراور ہٹے کٹے کافر لائے گئے انہوں نے ان کے متعلق حکم دیا تو وہ باندھ کر قتل کر دیئے گئے ۔
ابو داود کہتے ہیں:ہم سے سعید بن منصور کے سوا اور لوگوں نے ابن وہب سے یہی حدیث یوں روایت کی ہے کہ پکڑ کر نشانہ بنا کر تیروں سے مار ڈالے گئے، تو یہ خبر ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح مارنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مرغی بھی ہو تو میں اس کو اس طرح روک کر نہ ماروں، یہ خبرعبدالرحمن بن خالد بن ولید کو پہنچی تو انہوں نے(اپنی اس غلطی کی تلافی کے لئے ) چار غلام آزاد کئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
130- بَاب فِي الْمَنِّ عَلَى الأَسِيرِ بِغَيْرِ فِدَائٍ
۱۳۰-باب: قیدی پر احسان رکھ کر بغیر فدیہ لیے مفت چھوڑ دینے کا بیان​


2688- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ ثَمَانِينَ رَجُلا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ هَبَطُوا عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ مِنْ جِبَالِ التَّنْعِيمِ عِنْدَ صَلاةِ الْفَجْرِ لِيَقْتُلُوهُمْ، فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سِلْمًا، فَأَعْتَقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ: {وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ۔
* تخريج: م/الجھاد ۴۶ (۱۸۰۸)، ت/تفسیرالفتح ۳ (۳۲۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۲۲، ۲۹۰) (صحیح)
۲۶۸۸- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں میں سے اَسّی آدمی جبل تنعیم سے صلاۃِ فجر کے وقت نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے لئے اترے تو رسول ﷺ نے انہیں کسی مزاحمت کے بغیر گرفتار کر لیا، پھر آپ ﷺ نے ان کو آزاد کر دیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ} إلى آخر الآية (سورۃ الفتح:۲۴ ) '' اللہ ہی نے ان کا ہاتھ تم سے اور تمہارا ہاتھ ان سے وادی مکہ میں روک دیا ''۔


2689- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لأُسَارَى بَدْرٍ: <لَوْ كَانَ مُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلاءِ النَّتْنَى لأَطْلَقْتُهُمْ لَهُ>۔
* تخريج: خ/فرض الخمس ۱۶ (۳۱۳۹)، والمغازي ۱۲ (۴۰۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۰) (صحیح)
۲۶۸۹- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بدر کے قیدیوں سے فرمایا:'' اگر مطعم بن عدی ۱؎ زندہ ہوتے اور ان ناپاک قیدیوں کے سلسلے میں مجھ سے سفارش کرتے تو میں ان کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا''۔
وضاحت ۱؎ : رسول اللہ ﷺ اہل طائف سے پہنچنے والی ایذاء اور تکلیف سے بچنے کے لئے طائف سے لوٹتے وقت مطعم بن عدیرضی اللہ عنہ کے یہاں پہنچے، تو انہوں نے مشرکین کو دفع کیا اور آپ ﷺ کو ان سے بچایا، اسی احسان کا بدلہ چکانے کے لئے آپ ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے متعلق یہ فرمایا تھا کہ مطعم کی سفارش پر میں ان سب کو چھوڑ دیتا، یعنی فدیہ وغیرہ نہیں لیتا۔
 
Top