• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
131- بَاب فِي فِدَاءِ الأَسِيرِ بِالْمَالِ
۱۳۱-باب: قیدی کو مال لے کر رِہا کرنے کا بیان​


2690- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ فَأَخَذَ -يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ - الْفِدَاءَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ} إِلَى قَوْلِهِ: {لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ} مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أَحَلَّ لَهُمُ [اللَّهُ] الْغَنَائِمَ.
قَالَ أَبو دَاود: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُسْأَلُ عَنِ اسْمِ أَبِي نُوحٍ، فَقَالَ: إِيشْ تَصْنَعُ بِاسْمِهِ اسْمُهُ؟ اسْمٌ شَنِيعٌ .
قَالَ أَبو دَاود: اسْمُ أَبِي نُوحٍ قُرَادٌ، وَالصَّحِيحُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ۔
* تخريج: م/الجھاد ۱۸ (۱۷۶۳)، ت/التفسیر ۹ (۳۰۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۰، ۳۲) (حسن صحیح)
۲۶۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب غزوہ ٔ بدر ہوا اور نبی اکرم ﷺ نے قیدیوں سے فدیہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: {مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ۔۔۔ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ} ۱؎ تک پھر اللہ نے ان کے لئے غنائم کو حلال کر دیا۔
وضاحت ۱؎ : ''نبی کے لئے مناسب نہیں کہ ان کے قیدی باقی اور زندہ رہیں جب تک کہ زمین میں ان (کافروں کا ) اچھی طرح خون نہ بہالیں، تم دنیا کے مال واسباب چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اللہ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے سبب سے تمہیں بڑی سزا پہنچتی'' (سورۃ الأنفال: ۶۷-۶۸)


2691- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ الْعَيْشِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْعَنْبَسِ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَعَلَ فِدَاءَ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعَ مِائَةٍ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۸۲) (صحیح)
(لیکن ''چار سو'' کی بات صحیح نہیں ہے، بلکہ ابن عباس ہی سے دوسری بہتر سند سے چار ہزار مروی ہے، اس سند میں ابوالعنبس لین الحدیث ہیں)
۲۶۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بدر کے دن جاہلیت کے لوگوں کا فدیہ فی آدمی چار سو مقرر کیا۔


2692- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحاَقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِي فِدَاءِ أَسْرَاهُمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بِمَالٍ، وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلادَةٍ لَهَا كَانَتْ عِنْدَ خَدِيجَةَ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِي الْعَاصِ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً، وَقَالَ: < إِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِيرَهَا وَتَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا > فَقَالُوا: نَعَمْ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَخَذَ عَلَيْهِ، أَوْ وَعَدَهُ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَ زَيْنَبَ إِلَيْهِ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَرَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ: <كُونَا بِبَطْنِ يَأْجَجَ حَتَّى تَمُرَّ بِكُمَا زَيْنَبُ فَتَصْحَبَاهَا حَتَّى تَأْتِيَا بِهَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۷۶) (حسن)
۲۶۹۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب اہل مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کے فدیے بھیجے تو اس وقت زینب رضی اللہ عنہا نے ابو العاص رضی اللہ عنہ ۱؎ کے فدیہ میں کچھ مال بھیجا اور اس مال میں اپنا ایک ہار بھیجا جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا، انہوں نے یہ ہار زینب کو ابو العاص سے نکاح کے موقع پر رخصتی کے وقت دیا تھا، جب رسول اللہ ﷺ نے اس ہار کو دیکھا تو آپ پر سخت رقت طاری ہو گئی، آپ ﷺ نے فرمایا : ''اگر تم مناسب سمجھو تو ان کی خاطر و دلداری میں ان کا قیدی چھوڑ دو، اور ان کا مال انہیں لوٹا دو''، لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں چھوڑتے وقت یہ عہد لے لیا کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا کو میرے پاس آنے سے نہ روکیں گے، پھر رسول ﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور انصار میں سے ایک شخص کو بھیجا، اور فرمایا: ''تم دونوں'' بطن یأجج'' میں رہنا یہاں تک کہ زینب تم دونوں کے پاس سے گزریں تو ان کو ساتھ لے کر آنا '' ۲ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : زینب رضی اللہ عنہا رسول اکر م ﷺ کی بڑی صاحب زادی تھیں، اور ابو العاص رضی اللہ عنہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے اور زینب کے شوہر تھے۔
وضاحت ۲؎ : شاید یہ نا محرم کے ساتھ سفر کرنے کی ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہو، زینب رضی اللہ عنہا کے مدینہ آجانے کے بعد ابو العاص رضی اللہ عنہ کفر کی حالت میں مکہ ہی میں مقیم رہے، پھر تجارت کے لئے شام گئے، وہاں سے لو ٹتے وقت انھیں اسلام پیش کیا گیا، تو وہ مکہ واپس گئے اور وہ مال جس جس کا تھا اس کو واپس کیا اور سب کے سامنے کلمہ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے، پھر ہجرت کر کے مدینہ آگئے اور مسلمان ہو جانے پر رسول اکرم ﷺ نے زینب کو ان کی زوجیت میں لوٹا دیا تھا۔


2693- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي -يَعْنِي سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ- قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ [بْنُ سَعْدٍ] عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: وَذَكَرَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ حِينَ جَائَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِمَّاالسَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ > فَقَالُوا: نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: <أَمَّابَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلاءِ جَائُوا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيئُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ >، فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ: [لَهُمْ] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّا لا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ >، فَرَجَعَ النَّاسُ، فكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ فَأَخْبَرُوهُمْ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا۔
* تخريج: خ/الوکالۃ ۷ (۲۳۰۷)، العتق ۱۳ (۲۵۴۰)، الھبۃ ۱۰ (۲۵۸۳)، المغازي ۵۴ (۴۳۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۲۶) (صحیح)
۲۶۹۳- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے ذکر کیا کہ انہیں مروان اور مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس وفد ہوازن مسلمان ہو کر آیا اور اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کے مال انہیں واپس لوٹا دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:'' میرے ساتھ جو ہیں انہیں تم دیکھ رہے ہو، اور میرے نزدیک سب سے عمدہ بات سچی بات ہے تم یا تو قیدیوں (کی واپسی) اختیار کر لو یا مال''، انہوں نے کہا: ہم اپنے قیدیوں کو اختیار کریں گے، نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اس کے بعد فرمایا:''تمہارے یہ بھائی (شرک سے ) توبہ کر کے آئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدیوں کو واپس لوٹا دوں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اپنی خوشی سے واپس لوٹا سکتا ہو تو وہ واپس لوٹا دے، اور جو شخص اپنا حصہ لینے پرمصر ہے تو پہلا مال غنیمت جواللہ ہم کو دے ہم اس میں سے اس کا عوض دیں تو وہ ایسا ہی کر لے''، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے انہیں بخوشی واپس لوٹا دیا، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ''ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی، اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم واپس جائو یہاں تک کہ تمہارے سردار معاملہ کی تفصیل ہمارے پاس لے کر آئیں''، لوگ لوٹ گئے، اور ان سے ان کے سرداروں نے بات کی تو انہوں نے اپنے سرداروں کو بتایا کہ انہوں نے خوشی خوشی اجازت دی ہے۔


2694- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ -فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ- قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَائَهُمْ [وَأَبْنَائَهُمْ] فَمَنْ مَسَكَ بِشَيْئٍ مِنْ هَذَا الْفَيْئِ فَإِنَّ لَهُ بِهِ عَلَيْنَا سِتَّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْئٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَلَيْنَا > ثُمَّ دَنَا -يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ - مِنْ بَعِيرٍ، فَأَخَذَ وَبَرَةً مِنْ سَنَامِهِ، ثُمَّ قَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ هَذَا الْفَيْئِ شَيْئٌ، وَلا هَذَا -وَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ- إِلا الْخُمُسَ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ، فَأَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمِخْيَطَ >، فَقَامَ رَجُلٌ فِي يَدِهِ كُبَّةٌ مِنْ شَعْرٍ، فَقَالَ: أَخَذْتُ هَذِهِ لأُصْلِحَ بِهَا بَرْذَعَةً لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكَ >، فَقَالَ: أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرَى فَلا أَرَبَ لِي فِيهَا، وَنَبَذَهَا۔
* تخريج: ن/الھبۃ ۱ (۳۶۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۴، ۲۱۸) (حسن)
۲۶۹۴- عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما اسی قصہ کی روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''ان کی عورتوں اور بچوں کو واپس لوٹا دو، اور جو کوئی اس مال غنیمت سے اپنا حصہ باقی رکھنا چاہے تو ہم اس کو اس پہلے مال غنیمت سے جو اللہ ہمیں دے گا چھ اونٹ دیں گے''، پھر آپ ﷺ ایک اونٹ کے قریب آئے اور اس کی کوہان سے ایک بال لیا پھر فرمایا: ''لوگو! میرے لئے اس مالِ غنیمت سے کچھ بھی حلال نہیں ہے''، اور اپنی دونوں انگلیاں اٹھا کر کہا: ''یہاں تک کہ یہ (بال) بھی حلال نہیں سوائے خمس (پانچواں حصہ) کے، اور خمس بھی تمہارے ہی اوپر لوٹا دیا جاتا ہے، لہٰذا تم سوئی اور دھاگا بھی ادا کردو'' (یعنی بیت المال میں جمع کردو)، ایک شخص کھڑا ہو اس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا تھا، اس نے کہا: میں نے اس کو پالان کے نیچے کی کملی درست کرنے کے لئے لیا تھا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''رہا میرا اور بنی عبدالمطلب کا حصہ تو وہ تمہارے لئے ہے''، تو اس نے کہا: جب معاملہ اتنا اہم ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اس نے اسے (غنیمت کے مال میں )پھینک دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غنیمت کے مال میں سے چوری کرنا گناہ عظیم ہے، جو کچھ ملے سب امام کے پاس جمع کردیا جائے پھر وہ تقسیم کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
132- بَاب فِي الإِمَامِ يُقِيمُ عِنْدَ الظُّهُورِ عَلَى الْعَدُوِّ بِعَرْصَتِهِمْ
۱۳۲-باب: دشمن پر غلبہ پانے کے بعد امام کا میدان جنگ میں ٹھہرنا​


2695- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ (ح) وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحٌ، قَالا: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا غَلَبَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَةِ ثَلاثًا، قَالَ ابْنُ المُثَنَّى: إِذَا غَلَبَ قَوْمًا أَحَبَّ أَنْ يُقِيمَ بِعَرْصَتِهِمْ ثَلاثًا.
[قَالَ أَبو دَاود: كَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ يَطْعَنُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، لأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ قَدِيمِ حَدِيثِ سَعِيدٍ، لأَنَّهُ تَغَيَّرَ سَنَةَ خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، وَلَمْ يُخْرِجْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلا بِآخَرة.
قَالَ أَبو دَاود: يُقَالُ إِنَّ وَكِيعًا حَمَلَ عَنْهُ فِي تَغَيُّرِهِ].
* تخريج: خ/الجھاد ۱۸۴ (۳۰۶۴)، والمغازي ۸ (۳۹۷۶)، م/صفۃ أہل النار ۱۷ (۲۸۷۵)، ت/السیر ۳ (۱۵۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۴۵، ۴/۲۹)، دي/السیر ۲۲ (۲۵۰۲) (صحیح)
۲۶۹۵- ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں تین رات قیام کرتے ۔
ابن مثنیٰ کا بیان ہے : جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں جوان کی سرزمین میں پڑتا تین رات قیام کرنا پسند فرماتے ۔
ابو داود کہتے ہیں : کہ یحییٰ بن سعید اس حدیث میں طعن کرتے تھے کیوں کہ یہ سعید(ابن ابی عروبہ) کی پہلے کی حدیثوں میں سے نہیں ہے، اس لئے کہ ۱۴۵ھ؁ میں ان کے حافظہ میں تغیر پیدا ہو گیا تھا، اور یہ حدیث بھی آخری عمر کی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ وکیع نے ان سے ان کے زمانہ ٔتغیر میں ہی حدیث حاصل کی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بخاری اورمسلم نے سعید بن ابی عروبہ کی حدیث کو روح بن عبادہ کی روایت سے صحیحین میں داخل کیا ہے، یہ روایت بھی روح ہی کے واسطے سے ہے، اس لئے اس کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے، وکیع نے ابن ابی عروبہ سے اختلاط کے بعد روایت کی ہے یہ بات مسلَّم ہے، مگر یہاں اس کا کوئی عمل دخل نہیں یہ بات مؤلف نے برسبیل تذکرہ لکھ دی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
133- بَاب فِي التَّفْرِيقِ بَيْنَ السَّبْيِ
۱۳۳-باب: قیدیوں کو الگ الگ کر دینے کا بیان​


2696- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ جَارِيَةٍ وَوَلَدِهَا، فَنَهَاهُ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ ذَلِكَ وَرَدَّ الْبَيْعَ.
قَالَ أَبو دَاود: وَمَيْمُونٌ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيًّا، قُتِلَ بِالْجَمَاجِمِ، وَالْجَمَاجِمُ سَنَةُ ثَلاثٍ وَثَمَانِينَ.
قَالَ أَبو دَاود: وَالْحَرَّةُ سَنَةُ ثَلاثٍ وَسِتِّينَ، وَقُتِلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ سَنَةَ ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۸۶) (حسن)
(بعض لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے میمون کا سماع ثابت مانا ہے اسی بنیاد پر البانی نے اس حدیث کو حسن قراردیا ہے )
۲۶۹۶- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک لونڈی اور اس کے بچے کے درمیان جدائی کرا دی تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا، اور بیع کو رد کر دیا ۔
ابو داود کہتے ہیں: میمو ن نے علی رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے، میمون جنگ جماجم میں قتل کئے گئے، اور جماجم ۸۳ھ میں ہوئی ہے، نیز واقعہ حرہ( ۶۳ھ) میں پیش آیا، اور ابن زبیر (۷۳ھ) میں قتل ہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
134- بَاب الرُّخْصَةِ فِي الْمُدْرِكِينَ يُفَرَّقُ بَيْنَهُمْ
۱۳۴-باب: جوان قیدیوں کو الگ الگ رکھنا جائز ہے​


2697- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ أَبِي بَكْرٍ -وَأَمَّرَهُ [عَلَيْنَا] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ - فَغَزَوْنَا فَزَارَةَ، فَشَنَنَّا الْغَارَةَ ثُمَّ نَظَرْتُ إِلَى عُنُقٍ مِنَ النَّاسِ فِيهِ الذُّرِّيَّةُ وَالنِّسَاءُ، فَرَمَيْتُ بِسَهْمٍ، فَوَقَعَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْجَبَلِ، فَقَامُوا، فَجِئْتُ بِهِمْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فِيهِمُ امْرَأَةٌ مِنْ فَزَارَةَ، [وَ]عَلَيْهَا قِشْعٌ مَنْ أَدَمٍ مَعَهَا بِنْتٌ لَهَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، فَنَفَّلَنِي أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا، فَقَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ لِي: < يَا سَلَمَةُ! هَبْ لِيَ الْمَرْأَةَ > فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدْأَعْجَبَتْنِي، وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، فَسَكَتَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي السُّوقِ فَقَالَ: <يَاسَلَمَةُ، هَبْ لِيَ الْمَرْأَةَ لِلَّهِ أَبُوكَ >، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، وَهِيَ لَكَ، فَبَعَثَ بِهَا إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ وَفِي أَيْدِيهِمْ أَسْرَى فَفَادَاهُمْ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ۔
* تخريج: م/الجھاد ۱۴ (۱۷۵۵)، ق/الجھاد ۳۲ (۲۸۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۶، ۴۷، ۵۱) (حسن)
۲۶۹۷- سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے، رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا، ہم نے قبیلہ بنی فزارہ سے جنگ کی، ہم نے ان پر اچانک حملہ کیا، کچھ بچوں اور عورتوں کی گردنیں ہمیں نظر آئیں، تو میں نے ایک تیر چلائی، تیر ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا وہ سب کھڑے ہوگئے، پھر میں ان کو پکڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی، وہ کھال پہنے ہوئی تھی، اس کے ساتھ اس کی لڑکی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی، ابوبکر نے مجھے اس کی بیٹی کو بطور انعام دے دیا، میں مدینہ آیا تو رسول اللہ ﷺ سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: ''سلمہ! اس عورت کومجھے ہبہ کر دو''، میں نے کہا: اللہ کی قسم وہ لڑکی مجھے پسند آئی ہے، اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں ہٹایا ہے، آپ خاموش ہو گئے، جب دوسرا دن ہوا تو رسول اللہ ﷺ پھر مجھے بازار میں ملے اور فرمایا: ''سلمہ! اس عورت کو مجھے ہبہ کردو، قسم ہے اللہ کی'' ۱؎ ، میں نے کہا: اللہ کے رسول !اللہ کی قسم! میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں ہٹایا ہے، اور وہ آپ کے لئے ہے، پھر آپ ﷺ نے اسے مکہ والوں کے پاس بھیج دیا، اور اس کے بدلے میں ان کے پاس جو مسلمان قیدی تھے انہیں چھڑا لیا۔
وضاحت ۱؎ : متن حدیث میں ''لله أبوك'' کے الفاظ ہیں یہ جملہ قسم کے حکم میں ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
135- بَاب فِي الْمَالِ يُصِيبُهُ الْعَدُوُّ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ثُمَّ يُدْرِكُهُ صَاحِبُهُ فِي الْغَنِيمَةِ
۱۳۵-باب: دشمن جنگ میں کسی مسلمان کا مال لوٹ کر لے جائے پھر مالک اُسے غنیمت میں پائے تو اس کے حکم کا بیان​


2698- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ سُهَيْلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى -يَعْنِي ابْنَ أَبِي زَائِدَةَ- عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ غُلامًا لابْنِ عُمَرَ أَبَقَ إِلَى الْعَدُوِّ فَظَهَرَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ، فَرَدَّهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى ابْنِ عُمَرَ، وَلَمْ يَقْسِمْ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَقَالَ غَيْرُهُ: رَدَّهُ عَلَيْهِ خَالِدُ ابْنُ الْوَلِيدِ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۳۵)، وقد أخرجہ: خ/الجھاد ۱۸۷ (۳۰۶۷)، ق/الجھاد ۳۲ (۲۸۴۶) (صحیح)
۲۶۹۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کا ایک غلام دشمنوں کی جانب بھاگ گیا پھر مسلمان دشمن پر غالب آگئے تو رسول اللہ ﷺ نے یہ غلام عبداللہ بن عمر کو واپس دے دیا، اسے مال غنیمت میں تقسیم نہیں کیا۔
ابو داود کہتے ہیں:دوسروں کی روایت میں ہے خالد بن ولید نے اسے انھیں لوٹا دیا۔


2699- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: ذَهَبَ فَرَسٌ لَهُ، فَأَخَذَهَا الْعَدُوُّ، فَظَهَرَ عَلَيْهِمُ الْمُسْلِمُونَ، فَرُدَّ عَلَيْهِ فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَأَبَقَ عَبْدٌ لَهُ، فَلَحِقَ بِأَرْضِ الرُّومِ، فَظَهَرَ عَلَيْهِمُ الْمُسْلِمُونَ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱۸۷ (۳۰۶۷)، تعلیقًا، ق/الجہاد ۳۳(۲۸۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۴۳) (صحیح)
۲۶۹۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کا ایک گھوڑا بھاگ گیا، اور اسے دشمن نے پکڑ لیا پھر مسلمان دشمن پر غالب آگئے تو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو واپس لوٹا دیا گیا، اور ان کا ایک غلام بھاگ کر روم چلا گیا ، پھر رومیوں پر مسلمان غالب آئے تو نبی اکرم ﷺ کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے (بھی ) انہیں غلام واپس لوٹا دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
136- بَاب فِي عَبِيدِ الْمُشْرِكِينَ يَلْحَقُونَ بِالْمُسْلِمِينَ فَيُسْلِمُونَ
۱۳۶-باب: کفار و مشرکین کے غلام مسلمانوں سے آ ملیں اور مسلمان ہو جائیں تو کیا کیا جائے؟​


2700- حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ- عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عَلِيِّ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: خَرَجَ عِبْدَانٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ -يَعْنِي يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ- قَبْلَ الصُّلْحِ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ مَوَالِيهُمْ فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، وَاللَّهِ مَا خَرَجُوا إِلَيْكَ رَغْبَةً فِي دِينِكَ، وَإِنَّمَا خَرَجُوا هَرَبًا مِنَ الرِّقِّ، فَقَالَ نَاسٌ: صَدَقُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ! رُدَّهُمْ إِلَيْهِمْ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ: < مَا أُرَاكُمْ تَنْتَهُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ! حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ عَلَى هَذَا > وَأَبَى أَنْ يَرُدَّهُمْ، وَقَالَ: < هُمْ عُتَقَاءُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ >۔
* تخريج: ت/المناقب ۲۰ (۳۷۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۵۵) (صحیح)
۲۷۰۰- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوۂ حدیبیہ میں صلح سے پہلے کچھ غلام ( بھا گ کر) رسول اللہ ﷺ کے پاس آگئے، تو ان کے مالکوں نے آپ کو لکھا: اے محمد !اللہ کی قسم ! یہ غلام تمہارے دین کے شوق میں تمہارے پاس نہیں آئے ہیں، یہ تو فقط غلامی کی قید سے بھاگ کر آئے ہیں، تو کچھ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول! ان لوگوں نے سچ کہا: انہیں مالکوں کے پاس واپس لوٹا دیا جائے تو آپ ﷺ غصہ ہو گئے ۱؎ اور فرمایا:'' قریش کے لوگو، میں تم کو باز آتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تمہارے اوپر اس شخص کو بھیجے جو اس پر ۲؎ تمہاری گردنیں مارے''، اور آپ ﷺ نے انہیں واپس لوٹانے سے انکار کیا اور فرمایا: '' یہ اللہ عزوجل کے آزاد کئے ہوئے ہیں''۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم ﷺ کی ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے شرع کے حکم پر ظن وتخمین کی بنیاد پر اعتراض کیا، اور مشرکین کے دعوے کی حمایت کی ۔
وضاحت ۲؎ : اس پر سے مراد جاہلی عصبیت اور بے جا قومی حمیت ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
137- بَاب فِي إِبَاحَةِ الطَّعَامِ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ
۱۳۷-باب: دشمن کے ملک میں( غنیمت میں)غلہ یا کھانے کی چیز آئے تو کھانا جائز ہے​


2701- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ الزُّبَيْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ جَيْشًا غَنِمُوا فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ طَعَامًا وَعَسَلا فَلَمْ يُؤْخَذْ مِنْهُمُ الْخُمُسُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۱۱)، وقد أخرجہ: خ/فرض الخمس ۲۰ (۳۱۵۴) (صحیح)
۲۷۰۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک لشکر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (دوران جنگ) غلہ اور شہد غنیمت میں لایا تو اس میں سے خمس نہیں لیا گیا۔


2702- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَالْقَعْنَبِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ -يَعْنِي ابْنَ هِلالٍ- عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: دُلِّيَ جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَالْتَزَمْتُهُ، قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ: لا أُعْطِي مِنْ هَذَا أَحَدًا الْيَوْمَ شَيْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَبَسَّمُ إِلَيَّ ۔
* تخريج: خ/الخمس ۲۰ (۳۱۵۳)، والمغازي ۳۸ (۴۲۱۴)، والصید ۲۲ (۵۵۰۸)، م/الجھاد ۲۵ (۱۷۷۲)، ن/الضحایا ۳۷ (۴۴۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۵۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۶، ۵/۵۵، ۵۶)، دي/السیر ۵۷ (۲۵۴۲) (صحیح)
۲۷۰۲- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کے دن چربی کا ایک مشک لٹکایا گیا تو میں آیا اور اس سے چمٹ گیا، پھرمیں نے کہا :آج میں اس میں سے کسی کو بھی کچھ نہیں دوں گا، پھر میں مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ میری اس حرکت پر کھڑے مسکرا رہے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
138- بَاب فِي النَّهْيِ عَنِ النُّهْبَى إِذَا كَانَ فِي الطَّعَامِ قِلَّةٌ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ
۱۳۸-باب: دشمن کے علاقہ میں غلہ کی کمی ہو تو غلہ لوٹ کر اپنے لئے رکھنا منع ہے​


2703- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ -يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ- عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي لَبِيدٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ بِكَابُلَ فَأَصَابَ النَّاسُ غَنِيمَةً، فَانْتَهَبُوهَا، فَقَامَ خَطِيبًا فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَنْهَى عَنِ النُّهْبَى، فَرَدُّوا مَا أَخَذُوا، فَقَسَمَهُ بَيْنَهُمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۶۲، ۶۳)، دي/الأضاحي ۲۳ (۲۰۳۸) (صحیح)
۲۷۰۳- ابو لبید کہتے ہیں کہ ہم عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کابل میں تھے وہاں لوگوں کو مال غنیمت ملا تو انہوں نے اسے لوٹ لیا، عبدالرحمن نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ لو ٹنے سے منع فرماتے تھے، تو لوگوں نے جو کچھ لیا تھا واپس لوٹا دیا، پھر انہوں نے اسے ان میں تقسیم کر دیا۔


2704- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ أَبِي مُجَالِدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قُلْتُ: هَلْ كُنْتُمْ تُخَمِّسُونَ -يَعْنِي الطَّعَامَ- فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ فَقَالَ: أَصَبْنَا طَعَامًا يَوْمَ خَيْبَرَ فَكَانَ الرَّجُلُ يَجِيئُ فَيَأْخُذُ مِنْهُ مِقْدَارَ مَايَكْفِيهِ ثُمَّ يَنْصَرِفُ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۵) (صحیح)
۲۷۰۴- عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا آپ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں غلہ کا پانچواں حصہ نکالا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہمیں خیبر کے دن غلہ ملا تو آدمی آتا اور اس میں سے کھانے کی مقدار میں لے لیتا پھر واپس چلا جاتا۔


2705- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمٍ -يَعْنِي ابْنَ كُلَيْبٍ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَأَصَابَ النَّاسَ حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ وَجَهْدٌ، وَأَصَابُوا غَنَمًا فَانْتَهَبُوهَا، فَإِنَّ قُدُورَنَا لَتَغْلِي إِذْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَمْشِي عَلَى قَوْسِهِ فَأَكْفَأَ قُدُورَنَا بِقَوْسِهِ، ثُمَّ جَعَلَ يُرَمِّلُ اللَّحْمَ بِالتُّرَابِ، ثُمَّ قَالَ: < إِنَّ النُّهْبَةَ لَيْسَتْ بِأَحَلَّ مِنَ الْمَيْتَةِ > أَوْ: < إِنَّ الْمَيْتَةَ لَيْسَتْ بِأَحَلَّ مِنَ النُّهْبَةِ > الشَّكُّ مِنْ هَنَّادٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۶۲) (صحیح)
۲۷۰۵- ایک انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، لوگوں کو اس سفر میں بڑی احتیاج اور سخت پر یشانی ہوئی پھر انہیں کچھ بکریاں ملیں، تو لوگوں نے انہیں لوٹ لیا، ہماری ہانڈیاں ابل رہی تھیں، اتنے میں نبی اکرم ﷺ اپنی کمان پر ٹیک لگائے ہوئے تشریف لائے، پھر آپ نے اپنے کمان سے ہماری ہانڈیاں الٹ دیں اور گوشت کو مٹی میں لت پت کرنے لگے، اور فرمایا:'' لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں''، یا فرمایا:'' مردار لوٹ کے مال سے زیادہ حلال نہیں''، یہ شک ہناد راوی کی جانب سے ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ بکریاں غلے یا تیار کھانے کی چیزوں کی قبیل سے نہیں ہیں اس لئے ان کی لوٹ سے منع کیا گیا، جائز صرف غلہ یا تیار کھانے کی اشیاء میں سے بقدر ضرورت لینا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
139- بَاب فِي حَمْلِ الطَّعَامِ مِنْ أَرْضِ الْعَدُوِّ
۱۳۹-باب: دشمن کی زمین سے اپنے ساتھ کھانے کی چیزیں لانے کا بیان​


2706- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ ابْنَ حَرْشَفٍ الأَزْدِيَّ حَدَّثَهُ عَنِ الْقَاسِمِ مَوْلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: كُنَّا نَأْكُلُ الْجَزَرَ فِي الْغَزْوِ، وَلا نَقْسِمُهُ حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَرْجِعُ إِلَى رِحَالِنَا وَأَخْرِجَتُنَا مِنْهُ مُمْلأَةٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۵۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ''ابن خرشف'' مجہول ہیں)
۲۷۰۶- بعض صحابہ کرام سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں غزوات میں گاجر کھاتے تھے، ہم اسے تقسیم نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ ہم اپنے مکانوں کی طرف لوٹتے اور ہمارے برتن اس سے بھرے ہوتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
140- بَاب فِي بَيْعِ الطَّعَامِ إِذَا فَضَلَ عَنِ النَّاسِ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ
۱۴۰-باب: دشمن کے علاقہ میں ضرورت سے زائد کھانے کی چیزوں کو بیچنے کا بیان​


2707- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِالْعَزِيزِ -شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الأُرْدُنِّ- عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ قَالَ: رَابَطْنَا مَدِينَةَ قِنَّسْرِينَ مَعَ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ، فَلَمَّا فَتَحَهَا أَصَابَ فِيهَا غَنَمًا وَبَقَرًا، فَقَسَمَ فِينَا طَائِفَةً مِنْهَا وَجَعَلَ بَقِيَّتَهَا فِي الْمَغْنَمِ، فَلَقِيتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ مُعَاذٌ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ خَيْبَرَ فَأَصَبْنَا فِيهَا غَنَمًا فَقَسَمَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ طَائِفَةً، وَجَعَلَ بَقِيَّتَهَا فِي الْمَغْنَمِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۳۴) (حسن)
۲۷۰۷- عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں کہ ہم نے شرحبیل بن سمط کے ساتھ شہر قنسرین کا محاصرہ کیا، جب آپ نے اس شہر کو فتح کیا تو وہاں بکریاں اور گائیں ملیں تو ان میں سے کچھ تو ہم میں تقسیم کر دیں اور کچھ مال غنیمت میں شامل کرلیں، پھر میری ملاقات معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ہوئی، میں نے ان سے بیان کیا، تو آپ نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ خیبر کیا تو ہمیں اس میں بکریاں ملیں تو آپ ﷺ نے ایک حصہ ہم میں تقسیم کر دیا اور بقیہ حصہ مال غنیمت میں شامل کر دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : گویا کھانے پینے کی چیزیں حسب ضرورت مجاہدین میں تقسیم کردی جائیں گی اور بقیہ مال غنیمت میں شامل کردیا جائے گا ان کا بیچنا صحیح نہیں ہوگا، یہی باب سے مطابقت ہے۔
 
Top