- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
131- بَاب فِي فِدَاءِ الأَسِيرِ بِالْمَالِ
۱۳۱-باب: قیدی کو مال لے کر رِہا کرنے کا بیان
2690- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ فَأَخَذَ -يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ - الْفِدَاءَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ} إِلَى قَوْلِهِ: {لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ} مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أَحَلَّ لَهُمُ [اللَّهُ] الْغَنَائِمَ.
قَالَ أَبو دَاود: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُسْأَلُ عَنِ اسْمِ أَبِي نُوحٍ، فَقَالَ: إِيشْ تَصْنَعُ بِاسْمِهِ اسْمُهُ؟ اسْمٌ شَنِيعٌ .
قَالَ أَبو دَاود: اسْمُ أَبِي نُوحٍ قُرَادٌ، وَالصَّحِيحُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ۔
* تخريج: م/الجھاد ۱۸ (۱۷۶۳)، ت/التفسیر ۹ (۳۰۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۰، ۳۲) (حسن صحیح)
۲۶۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب غزوہ ٔ بدر ہوا اور نبی اکرم ﷺ نے قیدیوں سے فدیہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: {مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ۔۔۔ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ} ۱؎ تک پھر اللہ نے ان کے لئے غنائم کو حلال کر دیا۔
وضاحت ۱؎ : ''نبی کے لئے مناسب نہیں کہ ان کے قیدی باقی اور زندہ رہیں جب تک کہ زمین میں ان (کافروں کا ) اچھی طرح خون نہ بہالیں، تم دنیا کے مال واسباب چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اللہ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے سبب سے تمہیں بڑی سزا پہنچتی'' (سورۃ الأنفال: ۶۷-۶۸)
2691- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ الْعَيْشِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْعَنْبَسِ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَعَلَ فِدَاءَ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعَ مِائَةٍ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۸۲) (صحیح)
(لیکن ''چار سو'' کی بات صحیح نہیں ہے، بلکہ ابن عباس ہی سے دوسری بہتر سند سے چار ہزار مروی ہے، اس سند میں ابوالعنبس لین الحدیث ہیں)
۲۶۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بدر کے دن جاہلیت کے لوگوں کا فدیہ فی آدمی چار سو مقرر کیا۔
2692- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحاَقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِي فِدَاءِ أَسْرَاهُمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بِمَالٍ، وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلادَةٍ لَهَا كَانَتْ عِنْدَ خَدِيجَةَ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِي الْعَاصِ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً، وَقَالَ: < إِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِيرَهَا وَتَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا > فَقَالُوا: نَعَمْ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَخَذَ عَلَيْهِ، أَوْ وَعَدَهُ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَ زَيْنَبَ إِلَيْهِ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَرَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ: <كُونَا بِبَطْنِ يَأْجَجَ حَتَّى تَمُرَّ بِكُمَا زَيْنَبُ فَتَصْحَبَاهَا حَتَّى تَأْتِيَا بِهَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۷۶) (حسن)
۲۶۹۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب اہل مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کے فدیے بھیجے تو اس وقت زینب رضی اللہ عنہا نے ابو العاص رضی اللہ عنہ ۱؎ کے فدیہ میں کچھ مال بھیجا اور اس مال میں اپنا ایک ہار بھیجا جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا، انہوں نے یہ ہار زینب کو ابو العاص سے نکاح کے موقع پر رخصتی کے وقت دیا تھا، جب رسول اللہ ﷺ نے اس ہار کو دیکھا تو آپ پر سخت رقت طاری ہو گئی، آپ ﷺ نے فرمایا : ''اگر تم مناسب سمجھو تو ان کی خاطر و دلداری میں ان کا قیدی چھوڑ دو، اور ان کا مال انہیں لوٹا دو''، لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں چھوڑتے وقت یہ عہد لے لیا کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا کو میرے پاس آنے سے نہ روکیں گے، پھر رسول ﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور انصار میں سے ایک شخص کو بھیجا، اور فرمایا: ''تم دونوں'' بطن یأجج'' میں رہنا یہاں تک کہ زینب تم دونوں کے پاس سے گزریں تو ان کو ساتھ لے کر آنا '' ۲ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : زینب رضی اللہ عنہا رسول اکر م ﷺ کی بڑی صاحب زادی تھیں، اور ابو العاص رضی اللہ عنہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے اور زینب کے شوہر تھے۔
وضاحت ۲؎ : شاید یہ نا محرم کے ساتھ سفر کرنے کی ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہو، زینب رضی اللہ عنہا کے مدینہ آجانے کے بعد ابو العاص رضی اللہ عنہ کفر کی حالت میں مکہ ہی میں مقیم رہے، پھر تجارت کے لئے شام گئے، وہاں سے لو ٹتے وقت انھیں اسلام پیش کیا گیا، تو وہ مکہ واپس گئے اور وہ مال جس جس کا تھا اس کو واپس کیا اور سب کے سامنے کلمہ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے، پھر ہجرت کر کے مدینہ آگئے اور مسلمان ہو جانے پر رسول اکرم ﷺ نے زینب کو ان کی زوجیت میں لوٹا دیا تھا۔
2693- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي -يَعْنِي سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ- قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ [بْنُ سَعْدٍ] عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: وَذَكَرَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ حِينَ جَائَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِمَّاالسَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ > فَقَالُوا: نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: <أَمَّابَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلاءِ جَائُوا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيئُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ >، فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ: [لَهُمْ] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّا لا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ >، فَرَجَعَ النَّاسُ، فكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ فَأَخْبَرُوهُمْ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا۔
* تخريج: خ/الوکالۃ ۷ (۲۳۰۷)، العتق ۱۳ (۲۵۴۰)، الھبۃ ۱۰ (۲۵۸۳)، المغازي ۵۴ (۴۳۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۲۶) (صحیح)
۲۶۹۳- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے ذکر کیا کہ انہیں مروان اور مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس وفد ہوازن مسلمان ہو کر آیا اور اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کے مال انہیں واپس لوٹا دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:'' میرے ساتھ جو ہیں انہیں تم دیکھ رہے ہو، اور میرے نزدیک سب سے عمدہ بات سچی بات ہے تم یا تو قیدیوں (کی واپسی) اختیار کر لو یا مال''، انہوں نے کہا: ہم اپنے قیدیوں کو اختیار کریں گے، نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اس کے بعد فرمایا:''تمہارے یہ بھائی (شرک سے ) توبہ کر کے آئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدیوں کو واپس لوٹا دوں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اپنی خوشی سے واپس لوٹا سکتا ہو تو وہ واپس لوٹا دے، اور جو شخص اپنا حصہ لینے پرمصر ہے تو پہلا مال غنیمت جواللہ ہم کو دے ہم اس میں سے اس کا عوض دیں تو وہ ایسا ہی کر لے''، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے انہیں بخوشی واپس لوٹا دیا، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ''ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی، اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم واپس جائو یہاں تک کہ تمہارے سردار معاملہ کی تفصیل ہمارے پاس لے کر آئیں''، لوگ لوٹ گئے، اور ان سے ان کے سرداروں نے بات کی تو انہوں نے اپنے سرداروں کو بتایا کہ انہوں نے خوشی خوشی اجازت دی ہے۔
2694- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ -فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ- قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَائَهُمْ [وَأَبْنَائَهُمْ] فَمَنْ مَسَكَ بِشَيْئٍ مِنْ هَذَا الْفَيْئِ فَإِنَّ لَهُ بِهِ عَلَيْنَا سِتَّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْئٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَلَيْنَا > ثُمَّ دَنَا -يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ - مِنْ بَعِيرٍ، فَأَخَذَ وَبَرَةً مِنْ سَنَامِهِ، ثُمَّ قَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ هَذَا الْفَيْئِ شَيْئٌ، وَلا هَذَا -وَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ- إِلا الْخُمُسَ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ، فَأَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمِخْيَطَ >، فَقَامَ رَجُلٌ فِي يَدِهِ كُبَّةٌ مِنْ شَعْرٍ، فَقَالَ: أَخَذْتُ هَذِهِ لأُصْلِحَ بِهَا بَرْذَعَةً لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكَ >، فَقَالَ: أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرَى فَلا أَرَبَ لِي فِيهَا، وَنَبَذَهَا۔
* تخريج: ن/الھبۃ ۱ (۳۶۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۴، ۲۱۸) (حسن)
۲۶۹۴- عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما اسی قصہ کی روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''ان کی عورتوں اور بچوں کو واپس لوٹا دو، اور جو کوئی اس مال غنیمت سے اپنا حصہ باقی رکھنا چاہے تو ہم اس کو اس پہلے مال غنیمت سے جو اللہ ہمیں دے گا چھ اونٹ دیں گے''، پھر آپ ﷺ ایک اونٹ کے قریب آئے اور اس کی کوہان سے ایک بال لیا پھر فرمایا: ''لوگو! میرے لئے اس مالِ غنیمت سے کچھ بھی حلال نہیں ہے''، اور اپنی دونوں انگلیاں اٹھا کر کہا: ''یہاں تک کہ یہ (بال) بھی حلال نہیں سوائے خمس (پانچواں حصہ) کے، اور خمس بھی تمہارے ہی اوپر لوٹا دیا جاتا ہے، لہٰذا تم سوئی اور دھاگا بھی ادا کردو'' (یعنی بیت المال میں جمع کردو)، ایک شخص کھڑا ہو اس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا تھا، اس نے کہا: میں نے اس کو پالان کے نیچے کی کملی درست کرنے کے لئے لیا تھا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''رہا میرا اور بنی عبدالمطلب کا حصہ تو وہ تمہارے لئے ہے''، تو اس نے کہا: جب معاملہ اتنا اہم ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اس نے اسے (غنیمت کے مال میں )پھینک دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غنیمت کے مال میں سے چوری کرنا گناہ عظیم ہے، جو کچھ ملے سب امام کے پاس جمع کردیا جائے پھر وہ تقسیم کرے۔