• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
49- بَاب الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ
۴۹-باب: جنازہ کے آگے چلنے کا بیان​


3179- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ۔
* تخريج: ت/الجنائز ۲۶ (۱۰۰۷)، ن/الجنائز ۵۶ (۱۹۴۶)، ق/الجنائز ۱۶ (۱۴۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۲۰)، وقد أخرجہ: ط/الجنائز ۳ (۸)، حم (۲/۸، ۱۲۲) (صحیح)
۳۱۷۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما کو جنا زے کے آگے چلتے دیکھاہے ۔


3180- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَأَحْسَبُ أَنَّ أَهْلَ زِيَادٍ أَخْبَرُونِي أَنَّهُ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الرَّاكِبُ يَسِيرُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ، وَالْمَاشِي يَمْشِي خَلْفَهَا وَأَمَامَهَا وَعَنْ يَمِينِهَا وَعَنْ يَسَارِهَا قَرِيبًا مِنْهَا، وَالسِّقْطُ يُصَلَّى عَلَيْهِ وَيُدْعَى لِوَالِدَيْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ >۔
* تخريج: ت/الجنائز ۴۲ (۱۰۳۱)، ن/الجنائز ۵۵ (۱۹۴۴)، ق/الجنائز ۱۵ (۱۴۸۱)، ۲۶ (۱۵۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۹۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴۷، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۵۲) (صحیح)
۳۱۸۰- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' سوار جنا زے کے پیچھے چلے، اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنا زے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے، اور کچّے بچّوں ۱؎ کی صلاۃِ جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے''۔
وضاحت ۱؎ : ایسے بچّے جو مدّت حمل پوری ہونے سے پہلے پیدا ہوجائیں اور زندہ رہ کر مرجائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50- بَاب الإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ
۵۰-باب: جنازہ کو جلدی لے جانے کا بیان​


3181- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ تَكُ سِوَى ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ >۔
* تخريج: خ/الجنائز ۵۱ (۱۳۱۵)، م/الجنائز ۱۶ (۹۴۴)، ت/الجنائز ۳۰ (۱۰۱۵)، ن/الجنائز ۴۴ (۱۹۰۹)، ق/الجنائز ۱۵ (۱۴۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۴)، وقد أخرجہ: ط/الجنائز ۱۶ (۵۶)، حم (۲/۲۴۰) (صحیح)
۳۱۸۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ جنازہ لے جانے میں جلدی کیا کروکیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے نیکی کی طرف پہنچانے میں جلدی کروگے اور اگر نیک نہیں ہے تو تم شر کو جلد اپنی گر دنوں سے اتا ر پھینکوگے‘‘۔


3182- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ فِي جَنَازَةِ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، وَكُنَّا نَمْشِي مَشْيًا خَفِيفًا، فَلَحِقَنَا أَبُو بَكْرَةَ فَرَفَعَ سَوْطَهُ فَقَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَرْمُلُ رَمَلا۔
* تخريج: ن/الجنائز ۴۴ (۱۹۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۶، ۳۷، ۳۸) (صحیح)
(اس واقعہ میں ’’ عثمان بن ابی العاص‘‘ کا نام وہم ہے، صحیح نام ’’عبدالرحمن بن سمرہ‘‘ ہے جیسا کہ اگلی روایت میں ہے)
۳۱۸۲- عبدالرحمن کہتے ہیں کہ وہ عثمان بن ابو العاص کے جنازے میں تھے اور ہم دھیرے دھیر ے چل رہے تھے، اتنے میں ہم سے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ آملے اور انہوں نے اپنا کوڑا لہرایا (ڈرانے کے لئے) اور کہا: ہم نے اپنے آپ کو دیکھا ہے اور ہم رسو ل اللہﷺ کے ساتھ تھے کہ ہم (جنازے لے کر) تیز چلا کرتے تھے۔


3183- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ (ح) وَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عِيسَى -يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ- عَنْ عُيَيْنَةَ -بِهَذَا الْحَدِيثِ- قَالا: فِي جَنَازَةِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، وَقَالَ: فَحَمَلَ عَلَيْهِمْ بَغْلَتَهُ وَأَهْوَى بِالسَّوْطِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۹۵) (صحیح) وھٰذا ھوالمحفوظ۔
۳۱۸۳- اس سند سے بھی عیینہ سے یہی حدیث مروی ہے،مگر اس میں خالد بن حارث اور عیسیٰ بن یوسف دونوں نے کہا ہے کہ یہ واقعہ عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے جنازہ کاہے نیزاس میں یہ بھی ہے کہ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے ان پر اپنا خچر دوڑایا اور کوڑے سے (جلدی) چلنے کا اشارہ کیا۔


3184- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَحْيَى الْمُجَبِّرِ -قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ يَحْيَى بْنُ عَبْدِاللَّهِ التَّيْمِيُّ- عَنْ أَبِي مَاجِدَةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: سَأَلْنَا نَبِيَّنَا ﷺ عَنِ الْمَشْيِ مَعَ الْجَنَازَةِ فَقَالَ: < مَا دُونَ الْخَبَبِ إِنْ يَكُنْ خَيْرًا تَعَجَّلَ إِلَيْهِ وَإِنْ يَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ فَبُعْدًا لأَهْلِ النَّارِ، وَالْجَنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ وَلا تُتْبَعُ لَيْسَ مَعَهَا مَنْ تَقَدَّمَهَا >.
[قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ ضَعِيفٌ، هُوَ يَحْيَى بْنُ عَبْدِاللَّهِ، وَهُوَ يَحْيَى الْجَابِرُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا كُوفِيٌّ، وَأَبُو مَاجِدَةَ بَصْرِيٌّ.
قَالَ أَبو دَاود: أَبُو مَاجِدَةَ هَذَا لا يُعْرَفُ]۔
* تخريج: ت/الجنائز ۲۷ (۱۰۱۱)، ق/الجنائز ۱۶ (۱۴۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷۸، ۳۹۴، ۴۱۵، ۴۱۹، ۴۳۲) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ یحییٰ الجابر‘‘ لین الحدیث، اور ابوماجدۃ ‘‘ مجہول ہیں،واضح رہے کہ ابوماجد ، کو ابوماجدہ نیز ابن ماجدہ کہاجاتاہے)
۳۱۸۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے اپنی نبی اکرم ﷺ سے جنازے کے ساتھ چلنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :’’خَبَبْ‘‘ ۱؎سے کچھ کم، اگر جنازہ نیک ہے تو وہ نیکی سے جلدی جا ملے گا، اور اگر نیک نہیں ہے تو اہل جہنم کا دور ہو جانا ہی بہتر ہے، جنازہ کی پیروی کی جائے گی (یعنی جنازہ آگے رہے گا اور لو گ اس کے پیچھے رہیں گے) اسے پیچھے نہیں رکھا جاسکتا، جو آگے رہے گا وہ جنازہ کے ساتھ نہیں سمجھا جائے گا‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں:یحییٰ المجبّرضعیف ہیں اور یہی یحییٰ بن عبداللہ ہیں اور یہی یحییٰ الجابر ہیں، یہ کو فی ہیں اور ابو ماجدہ بصری ہیں، نیز ابو ماجدہ غیر معروف شخص ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : چال کی ایک قسم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
51- بَاب الإِمَامِ( لا) يُصَلِّي عَلَى مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ
۵۱-باب: جوشخص خو د کشی کرے اس کی صلاۃِ جنازہ امام نہ پڑھے​


3185- حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ قَالَ: مَرِضَ رَجُلٌ فَصِيحَ عَلَيْهِ، فَجَاءَ جَارُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ [لَهُ]: إِنَّهُ قَدْ مَاتَ، قَالَ: < وَمَا يُدْرِيكَ؟ > قَالَ: أَنَا رَأَيْتُهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < إِنَّهُ لَمْ يَمُتْ >، قَالَ: فَرَجَعَ، فَصِيحَ عَلَيْهِ، فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < إِنَّهُ لَمْ يَمُتْ > فَرَجَعَ، فَصِيحَ عَلَيْهِ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَخْبِرْهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: اللَّهُمَّ الْعَنْهُ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ الرَّجُلُ، فَرَآهُ قَدْ نَحَرَ نَفْسَهُ بِمِشْقَصٍ مَعَهُ، فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَقَالَ: < وَمَا يُدْرِيكَ؟ > قَالَ: رَأَيْتُهُ يَنْحَرُ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ مَعَهُ، قَالَ: < أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ > قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < إِذًا لا أُصَلِّيَ عَلَيْهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۶۰)، وقد أخرجہ: م/الجنائز ۳۶ (۹۷۸)، ت/الجنائز ۶۸ (۱۰۶۶)، ن/الجنائز ۶۸ (۱۹۶۳)، ق/الجنائز ۳۱ (۱۵۲۶)، حم (۵/۸۷، ۹۲، ۹۴، ۹۶، ۹۷) (صحیح)
۳۱۸۵- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص بیمار ہوا پھر اس کی موت کی خبر پھیلی تو اس کا پڑوسی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا کہ وہ مرگیا ہے،آپ ﷺ نے پوچھا:''تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟''، وہ بولا: میں اسے دیکھ کر آیا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' وہ نہیں مرا ہے''، وہ پھر لو ٹ گیا، پھر اس کے مرنے کی خبر پھیلی، پھر وہی شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: وہ مر گیا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''وہ نہیں خراہے''، تو وہ پھر لوٹ گیا، اس کے بعد پھر اس کے مرنے کی خبر مشہور ہوئی، تو اس کی بیوی نے کہا :تم رسول اللہ ﷺ کے پاس جائو اور اس کے مرنے کی آپ کو خبر دو، اس نے کہا: اللہ کی لعنت ہواس پر۔
پھر وہ شخص مریض کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس نے تیر کے پیکان سے اپنا گلا کاٹ ڈالا ہے، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا اور اس نے آپ کو بتایا کہ وہ مر گیا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا:'' تمہیں کیسے پتا لگا ؟''، اس نے کہا: میں نے دیکھا ہے اس نے تیر کی پیکان سے اپنا گلا کاٹ لیا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا :''کیاتم نے خود دیکھا ہے؟''، اس نے کہا :ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تب تو میں اس کی صلاۃ (جنازہ) نہیں پڑھوں گا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
52- بَاب الصَّلاةِ عَلَى مَنْ قَتَلَتْهُ الْحُدُودُ
۵۲-باب: شرعی حدودمیں قتل ہونے والے کی صلاۃِ جنازہ کاحکم​


3186- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، حَدَّثَنِي نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمْ يُصَلِّ عَلَى مَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، وَلَمْ يَنْهَ عَنِ الصَّلاةِ عَلَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۱۰) (حسن صحیح)
(اس کی سند میں ''نفر من أهل البصرة'' مبہم رواۃ ہیں، لیکن یہ جماعت تابعین کثرت کی وجہ سے قابل استناد ہیں، نیز جابر کی صحیح حدیث (ابو داود حدیث نمبر (۴۴۳۰) سے اس کو تقویت ہے)
۳۱۸۶- ابو بر زہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ما عزبن مالک رضی اللہ عنہ کی صلاۃِ (جنازہ) نہیں پڑھی اور نہ ہی اوروں کو ان کی صلاۃ پڑھنے سے روکا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ماعز رضی اللہ عنہ کو رجم کیا گیاتھا، صحیح بخاری میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھی، نیز آپ نے غامدیہ رضی اللہ عنہا پر بھی پڑھی، ان کو بھی سنگسار کیا گیا تھا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
53- بَاب فِي الصَّلاةِ عَلَى الطِّفْلِ
۵۳-باب: (نا با لغ) بچے کی صلاۃِ جنازہ کا بیان​


3187- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَاتَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۶۷) (حسن الإسناد)
۳۱۸۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے ابرا ہیم کا انتقال ہوا اس وقت وہ اٹھا رہ مہینے کے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑ ھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دیگر بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھی۔


3188- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ قَالَ: سَمِعْتُ الْبَهِيَّ قَالَ: لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ النَّبِيِّ ﷺ صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الْمَقَاعِدِ.
قَالَ أَبو دَاود: قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيِّ [قِيلَ لَهُ]: حَدَّثَكُمُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ عَطَاء أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى عَلَى ابْنِهِ إِبْرَاهِيمَ وَهُوَ ابْنُ سَبْعِينَ لَيْلَةً۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۴۷، ۱۹۸۴) (ضعیف منکر)
(دونوں روایتیں مرسل ہیں)
۳۱۸۸- وائل بن داود کہتے ہیں: میں نے بہی سے سناوہ کہہ رہے تھے کہ جب نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے ابرا ہیم کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی نشست گا ہ میں ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھی ۔
ابو داود کہتے ہیں : میں نے سعید بن یعقوب طالقانی پر پڑھا کہ آپ سے حدیث بیان کی ابن المبارک نے انہوں نے یعقوب بن قعقاع سے اور انہوں نے عطاء سے روایت کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے بیٹے ابرا ہیم کی صلاۃِ جنازہ پڑھی اس وقت وہ ستر دن کے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
54- بَاب الصَّلاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ فِي الْمَسْجِدِ
۵۴-باب: مسجد کے اندر صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا بیان​


3189- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ عَجْلانَ، وَمُحَمَّدِ بنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَاصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ الْبَيْضَاءِ إِلا فِي الْمَسْجِدِ۔
* تخريج: ق/الجنائز ۲۹ (۱۵۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۷۴)، وقد أخرجہ: م/الجنائز ۳۴ (۹۷۳)، ت/الجنائز ۴۴ (۱۰۳۳)، ن/الجنائز ۷۰ (۱۹۶۹)، ط/الجنائز ۸ (۲۲)، حم (۶/۷۹، ۱۳۳، ۱۶۹) (صحیح)
۳۱۸۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: قسم اللہ کی رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی صلاۃِ جنازہ مسجد ہی میں پڑھی تھی ۔


3190- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ -يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ- عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى ابْنَيْ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ: سُهَيْلٍ، وَأَخِيهِ۔
* تخريج: م/الجنائز ۳۴ (۹۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۱۳) (صحیح)
۳۱۹۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے بیضا ء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کی صلاۃِ جنازہ مسجد میں پڑھی۔


3191- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنِي صَالِحٌ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَلا شَيْئَ عَلَيْهِ >۔
* تخريج: ق/الجنائز ۲۹ (۱۵۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۴۴، ۴۵۵) (حسن)
۳۱۹۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے صلاۃِ جنازہ مسجد میں پڑھی تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دوسری روایت میں ہے اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، اور زیادہ صحیح روایت یہی ہے، اور یہ عام حالات کے لئے ہے اور مسجد میں صرف جواز ہے فضیلت نہیں)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
55- بَاب الدَّفْنِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا
۵۵-باب: سورج نکلتے اور ڈوبتے وقت میت کو دفنانامنع ہے​


3192- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ قَالَ: ثَلاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ أَوْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ، وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ، أَوْ كَمَا قَالَ۔
* تخريج: م/المسافرین ۵۱ (۸۳۱)، ت/الجنائز ۴۱ (۱۰۳۰)، ن/المواقیت ۳۰ (۵۶۱)، ۳۳ (۵۶۶)، الجنائز ۸۹ (۲۰۱۵)، ق/الجنائز ۳۰ (۱۵۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۵۲)، دي/الصلاۃ ۱۴۲ (۱۴۷۲) (صحیح)
۳۱۹۲-عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول ﷺ ہمیں صلاۃ پڑھنے اور اپنے مردوں کو دفن کرنے سے روکتے تھے : ایک تو جب سورج چمکتا ہوا نکلے یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے، دوسرے جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو یہاں تک کہ ڈھل جائے اور تیسرے جب سورج ڈوبنے لگے یہاں تک کہ ڈوب جائے یا اسی طرح کچھ فرمایا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56- بَاب إِذَا حَضَرَ جَنَائِزُ رِجَالٍ وَنِسَاء مَنْ يُقَدَّمُ؟
۵۶-باب: جب مرد و عورت دونوں کے جنازے آجائیں تو کسے آگے کریں؟​


3193- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ صَبِيحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمَّارٌ مَوْلَى الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ أَنَّهُ شَهِدَ جَنَازَةَ أُمِّ كُلْثُومٍ وَابْنِهَا، فَجُعِلَ الْغُلامُ مِمَّا يَلِي الإِمَامَ فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ، وَفِي الْقَوْمِ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، وَأَبُوقَتَادَةَ، وَأَبُوهُرَيْرَةَ، فَقَالُوا: هَذِهِ السُّنَّةُ۔
* تخريج: ن/الجنائز ۷۴ (۱۹۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۱) (صحیح)
۳۱۹۳- حارث بن نو فل کے غلام عمار کا بیان ہے کہ وہ ام کلثوم اور ان کے بیٹے کے جنازے میں شریک ہوئے تو لڑکا امام کے قریب رکھا گیاتو میں نے اسے نا پسند کیا اس وقت لوگوں میں ا بن عباس،ابو سعید خدری، ابو قتا دہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم موجود تھے اس پر ان لوگوں نے کہا: سنت یہی ہے (یعنی پہلے لڑکے کو رکھنا پھر عورت کو)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57- بَاب أَيْنَ يَقُومُ الإِمَامُ مِنَ الْمَيِّتِ إِذَا صَلَّى عَلَيْهِ
۵۷-باب: صلاۃِ جنازہ پڑھاتے وقت امام میت کے پاس کہاں کھڑا ہو؟​


3194- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ نَافِعٍ أَبِي غَالِبٍ قَالَ: كُنْتُ فِي سِكَّةِ الْمِرْبَدِ، فَمَرَّتْ جَنَازَةٌ مَعَهَا نَاسٌ كَثِيرٌ، قَالُوا: جَنَازَةُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ، فَتَبِعْتُهَا، فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ عَلَيْهِ كِسَائٌ رَقِيقٌ عَلَى بُرَيْذِينَتِهِ [وَ] عَلَى رَأْسِهِ خِرْقَةٌ تَقِيهِ مِنَ الشَّمْسِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا الدِّهْقَانُ؟ قَالُوا: هَذَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَلَمَّا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ قَامَ أَنَسٌ، فَصَلَّى عَلَيْهَا وَأَنَا خَلْفَهُ لايَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْئٌ، فَقَامَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ لَمْ يُطِلْ وَلَمْ يُسْرِعْ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقْعُدُ، فَقَالُوا: يَا أَبَا حَمْزَةَ، الْمَرْأَةُ الأَنْصَارِيَّةُ، فَقَرَّبُوهَا وَعَلَيْهَا نَعْشٌ أَخْضَرُ، فَقَامَ عِنْدَ عَجِيزَتِهَا، فَصَلَّى عَلَيْهَا نَحْوَ صَلاتِهِ عَلَى الرَّجُلِ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ الْعَلاءُ بْنُ زِيَادٍ: يَا أَبَا حَمْزَةَ! هَكَذَا كَانَ [يَفْعَلُ] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي عَلَى الْجَنَازَةِ كَصَلاتِكَ يُكَبِّرُ عَلَيْهَا أَرْبَعًا وَيَقُومُ عِنْدَ رَأْسِ الرَّجُلِ وَعَجِيزَةِ الْمَرْأَةِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا أَبَا حَمْزَةَ! غَزَوْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم؟ قَالَ: نَعَمْ، غَزَوْتُ مَعَهُ حُنَيْنًا، فَخَرَجَ الْمُشْرِكُونَ فَحَمَلُوا عَلَيْنَا حَتَّى رَأَيْنَا خَيْلَنَا وَرَاءَ ظُهُورِنَا، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ يَحْمِلُ عَلَيْنَا فَيَدُقُّنَا وَيَحْطِمُنَا، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ، وَجَعَلَ يُجَاءُ بِهِمْ فَيُبَايِعُونَهُ عَلَى الإِسْلامِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم: إِنَّ عَلَيَّ نَذْرًا إِنْ جَاءَ اللَّهُ بِالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ مُنْذُ الْيَوْمَ يَحْطِمُنَا لأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، وَجِيئَ بِالرَّجُلِ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! تُبْتُ إِلَى اللَّهِ، فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لا يُبَايِعُهُ لِيَفِيَ الآخَرُ بِنَذْرِهِ، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَتَصَدَّى لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ لِيَأْمُرَهُ بِقَتْلِهِ، وَجَعَلَ يَهَابُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَقْتُلَهُ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ لا يَصْنَعُ شَيْئًا بَايَعَهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَذْرِي، فَقَالَ: < إِنِّي لَمْ أُمْسِكْ عَنْهُ مُنْذُ الْيَوْمَ إِلا لِتُوفِيَ بِنَذْرِكَ >، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلا أَوْمَضْتَ إِلَيَّ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < إِنَّهُ لَيْسَ لِنَبِيٍّ أَنْ يُومِضَ >، قَالَ أَبُو غَالِبٍ: فَسَأَلْتُ عَنْ صَنِيعِ أَنَسٍ فِي قِيَامِهِ عَلَى الْمَرْأَةِ عِنْدَ عَجِيزَتِهَا، فَحَدَّثُونِي أَنَّهُ إِنَّمَا كَانَ لأَنَّهُ لَمْ تَكُنِ النُّعُوشُ فَكَانَ الإِمَامُ يَقُومُ حِيَالَ عَجِيزَتِهَا يَسْتُرُهَا مِنَ الْقَوْمِ.
[قَالَ أَبو دَاود: قَوْلُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم: < أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ > نُسِخَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ الْوَفَاءُ بِالنَّذْرِ فِي قَتْلِهِ بِقَوْلِهِ: إِنِّي قَدْ تُبْتُ]۔
* تخريج: ت/الجنائز ۴۵ (۱۰۳۴)، ق/الجنائز ۲۱ (۱۴۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۸، ۱۵۱، ۲۰۴) (صحیح)
(مگر قال ابو غالب سے اخیر تک کا جملہ صحیح نہیں ہے)
۳۱۹۴- نا فع ابو غالب کہتے ہیں کہ میں سکۃ المربد (ایک جگہ کا نام ہے) میں تھا اتنے میں ایک جنازہ گزرا، اس کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے، لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ہے، یہ سن کر میں بھی جنازہ کے ساتھ ہولیا، تو میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ باریک شال اوڑھے ہوئے چھوٹی گھوڑی پر سوار ہے، دھوپ سے بچنے کے لئے سر پر ایک کپڑے کاٹکڑا ڈالے ہوئے ہے، میں نے لوگوں سے پوچھا: یہ چودھری صاحب کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ انس بن مالک ۱؎ رضی اللہ عنہ ہیں، پھر جب جنازہ رکھا گیا توانس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھائی، میں ان کے پیچھے تھا، میرے اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے، چار تکبیریں کہیں (اور تکبیریں کہنے میں) نہ بہت دیر لگائی اور نہ بہت جلدی کی، پھر بیٹھنے لگے تو لوگوں نے کہا: ابو حمزہ! (انس رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) یہ انصاری عورت کا بھی جنازہ ہے (اس کی بھی صلاۃ پڑھا دیجئے) یہ کہہ کر اسے قریب لائے، وہ ایک سبز تابوت میں تھی، وہ اس کے کولہے کے سامنے کھڑے ہوئے، اور ویسی ہی صلاۃ پڑھی جیسی صلاۃ مرد کی پڑھی تھی، پھر اس کے بعد بیٹھے، تو علاء بن زیاد نے کہا: اے ابو حمزہ! کیا رسول اللہ ﷺ اسی طرح جنازے کی صلاۃ پڑھا کرتے تھے جس طرح آپ نے پڑھی ہے؟ چار تکبیریں کہتے تھے،مرد کے سر کے سامنے اور عورت کے کولھے کے سامنے کھڑے ہوتے تھے، انہوں نے کہا: ہاں۔
علاء بن زیاد نے (پھر) کہا: ابو حمزہ! کیا آپ نے رسول ﷺ کے ساتھ جہاد کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں جنگ حنین ۲؎میں آپ ﷺ کے ساتھ تھا، مشرکین نکلے انہوں نے ہم پر حملہ کیا یہاں تک کہ ہم نے اپنے گھوڑوں کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے دیکھا ۳؎اور قوم (کافروں) میں ایک حملہ آور شخص تھا جو ہمیں مار کاٹ رہا تھا (پھر جنگ کا رخ پلٹا) اللہ تعالی نے انہیں شکست دی اور انہیں (اسلام کی چوکھٹ پر) لانا شروع کردیا، وہ آکر رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر بیعت کرنے لگے، تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے نذر مانی ہے اگر اللہ اس شخص کو لایا جو اس دن ہمیں مار کاٹ رہا تھا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ چپ رہے، پھر وہ (قیدی) رسول ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! میں نے اللہ سے توبہ کی، تو آپ ﷺ نے اس سے بیعت کرنے میں توقف کیا تا کہ دوسرا بندہ (یعنی نذر ماننے والا صحابی) اپنی نذر پوری کرلے (یعنی آپ ﷺ کے بیعت لینے سے پہلے ہی اس کی گردن اڑادے) لیکن وہ شخص رسول ﷺ کا انتظار کرنے لگا کہ آپ اسے اس کے قتل کا حکم فرمائیں اور ڈر رہا تھا کہ ایسا نہ ہو میں اسے قتل کر ڈالوں اور آپ ﷺ خفا ہوں، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ وہ کچھ نہیں کرتا ہے تو آپ ﷺ نے اس سے بیعت کرلی، تب اس صحابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری نذر تو رہ گئی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں جو اب تک رکا رہا اور اس سے بیعت نہیں کی تھی تو اسی وجہ سے کہ اس دوران تم اپنی نذر پوری کرلو‘‘، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے ہمیں اس کا اشارہ کیوں نہ فرما دیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ کسی نبی کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ رمز سے اشارہ کرے‘‘ ۔
ابو غالب کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ کے عورت کے کولہے کے سامنے کھڑے ہونے کے بارے میں پوچھا کہ (وہ وہاں کیوں کھڑے ہوئے) تو لوگوں نے بتایا کہ پہلے تابوت نہ ہوتا تھا تو امام عورت کے کولہے کے پاس کھڑا ہوتا تھا تا کہ مقتدیوں سے اس کی نعش چھپی رہے۔
ابو داود کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کی حدیث: ’’أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ‘‘ سے اس کے قتل کی نذر پوری کرنے کو منسوخ کر دیا گیا ہے کیونکہ اس نے آکر یہ کہا تھا کہ میں نے توبہ کرلی ہے، اور اسلام لے آیا ہوں۔
وضاحت ۱؎ : جنہوں نے دس برس تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی، ۹۲ھ؁یا ۹۳ھ؁میں انتقال ہوا۔
وضاحت ۲؎ : غزوہ حنین ۹ھ؁میں ہوا، حنین ایک جگہ کا نام ہے جو طائف کے نواح میں واقع ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی شکست کھاکر بھاگ کھڑے ہوئے۔


3195- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ ﷺ عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا، فَقَامَ عَلَيْهَا لِلصَّلاةِ وَسَطَهَا ۔
* تخريج: خ/الحیض ۲۹ (۳۳۲)، والجنائز ۶۲ (۱۳۳۱)، ۶۳ (۱۳۳۲)، م/الجنائز ۲۷ (۹۶۴)، ت/الجنائز ۴۵ (۱۰۳۵)، ن/الحیض والاستحاضۃ ۲۵ (۳۹۳)، الجنائز ۷۳ (۱۹۷۸)، ق/الجنائز ۲۱ (۱۴۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۴، ۱۹) (صحیح)
۳۱۹۵- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کے پیچھے ایک ایسی عورت کی صلاۃِ جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں مر گئی تھی تو آپ ﷺ صلاۃ کے لئے اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58- بَاب التَّكْبِيرِ عَلَى الْجَنَازَةِ
۵۸-باب: صلاۃِ جنازہ میں تکبیرات کا بیان​


3196- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ بِقَبْرٍ رَطْبٍ فَصَفُّوا عَلَيْهِ، وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا، فَقُلْتُ لِلشَّعْبِيِّ: مَنْ حَدَّثَكَ؟ قَالَ: الثِّقَةُ مَنْ شَهِدَهُ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۶۱ (۸۵۷)، والجنائز ۵ (۱۲۴۷)، ۵۴ (۱۳۱۹)، ۵۵ (۱۳۲۲)، ۵۹ (۱۳۲۶)، ۶۶ (۱۳۳۶)، ۶۹ (۱۳۴۰)، م/الجنائز ۲۳ (۹۵۴)، ت/الجنائز ۴۷ (۱۰۳۷)، ن/الجنائز ۹۴ (۲۰۲۵)، ق/الجنائز ۳۲ (۱۵۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۴، ۲۸۳، ۳۳۸) (صحیح)
۳۱۹۶- شعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک نئی قبر پر سے ہوا، تو لوگوں نے اس پر صف بندی کی آپ نے (صلاۃ پڑھائی اور) چار تکبیریں کہیں۔
ابو اسحاق کہتے ہیں: میں نے شعبی سے پوچھا :آپ سے یہ حدیث کس نے بیان کی؟ انہوں نے کہا: ایک معتبر آدمی نے جو اس وقت مو جو د تھے، یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے۔


3197- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: كَانَ زَيْدٌ -يَعْنِي ابْنَ أَرْقَمَ- يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا، وَإِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُكَبِّرُهَا.
قَالَ أَبو دَاود: وَأَنَا لِحَدِيثِ ابْنِ الْمُثَنَّى أَتْقَنُ۔
* تخريج: م/الجنائز ۲۳ (۹۶۱)، ت/الجنائز ۳۷ (۱۰۲۳)، ن/الجنائز ۷۶ (۱۹۸۴)، ق/الجنائز ۲۵ (۱۵۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶۸،۳۷۰، ۳۷۱، ۳۷۲) (صحیح)
۳۱۹۷- ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید یعنی ا بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور ایک بار ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا (آپ ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ کیسے کہیں؟) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ایسا (بھی) کہتے تھے ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: مجھے ابن مثنیٰ کی حدیث زیادہ یاد ہے۔
وضاحت ۱؎ : جب پانچ تکبیریں کہی جائیں تو پہلی تکبیر کے بعد دعاء ثنا پڑھے، دوسری کے بعد سورہ فاتحہ، تیسری کے بعد درود، چوتھی کے بعد دعاء اور پانچویں کے بعد سلام پھیرے۔
 
Top