- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
29- بَاب فِي النَّوْحِ
۲۹-باب: موت پر نو حہ (ماتم)کرنے کا بیان
3127- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَانَا عَنِ النِّيَاحَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۲۲)، وقد أخرجہ: خ/الجنائز ۴۵ (۱۳۰۶)، والأحکام ۴۹ (۷۲۱۵)، م/الجنائز ۱۰ (۹۳۶)، ن/البیعۃ ۱۸ (۴۱۵۸)، حم (۶/۴۰۷، ۴۰۸) (صحیح)
۳۱۲۷- ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نو حہ ۱؎ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : میت پر آواز کے ساتھ رونے کو نوحہ کہتے ہیں۔
3128- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ النَّائِحَةَ وَالْمُسْتَمِعَةَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۶۵) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوۃ:محمد،ان کے والد اور دادا سب ضعیف ہیں)
۳۱۲۸- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے نوحہ کرنے والی اور نو حہ ( دلچسپی سے ) سننے والی پر لعنت فرمائی ہے۔
3129- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ وَأَبِي مُعَاوِيَةَ، الْمَعْنَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ >، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ: وَهلَ -تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- إِنَّمَا مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى قَبْرٍ فَقَالَ: < إِنَّ صَاحِبَ هَذَا لَيُعَذَّبُ وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ > ثُمَّ قَرَأَتْ: {وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى}، قَالَ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ: عَلَى قَبْرِ يَهُودِيٍّ۔
* تخريج: م/الجنائز ۹ (۹۳۱)، ن/الجنائز ۱۵ (۱۸۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۲۴، ۱۷۰۶۹، ۱۷۲۲۶)، وقد أخرجہ: خ/المغازي ۸ (۳۹۷۸)، حم (۲/۳۸، ۶/۳۹، ۵۷، ۹۵، ۲۰۹) (صحیح)
۳۱۲۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے'' ۱؎ ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس با ت کا ذکر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا: ان سے یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھو ل ہوئی ہے، سچ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک قبر کے پاس سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' اس قبر والے کو توعذاب ہو رہا ہے اور اس کے گھر والے ہیں کہ اس پر رو رہے ہیں''، پھر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت {وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى}۲؎ پڑھی۔
ابومعاویہ کی روایت میں ''عَلَى قَبَرٍ''کے بجائے ''عَلَى قَبْرِ يَهُوْدِي''ہے، یعنی ایک یہودی کے قبر کے پاس سے گزر ہوا۔
وضاحت ۱؎ : ''إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ'' میت کو اس کے گھروالوں کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے، حالاں کہ رونا یا نوحہ کرنا بذات خود میت کا عمل نہیں ہے، پھر غیر کے عمل پر اسے عذاب دیا جانا باعث تعجب ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کافر مان ہے {وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} (کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) اس سلسلہ میں علماء کا کہنا ہے کہ مرنے والے کو اگر یہ معلوم ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے گھر والے مجھ پر نوحہ کریں گے اور اس نے قدرت رکھنے کے باوجود قبل از موت اس سے منع نہیں کیا تو نہ روکنا اس کے لئے باعث سزا ہوگا،اور اس کے گھروالے اگر آہ وبکا کئے بغیر آنسو بہا رہے ہیں تو یہ جائز ہے جیسا کہ ابراہیم اور ام کلثوم کے انتقال پر خود رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، پوچھے جانے پر آپ ﷺ نے فرمایاکہ یہ تو رحمت ہے اللہ نے جس کے دل میں چاہا رکھا ۔
وضاحت ۲؎ : ''کوئی بو جھ اٹھانے والا دوسرے کا بو جھ نہیں اٹھائے گا'' (سورۃ الإسراء : ۱۵)
3130- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى وَهُوَ ثَقِيلٌ فَذَهَبَتِ امْرَأَتُهُ لِتَبْكِيَ أَوْ تَهُمَّ بِهِ، فَقَالَ لَهَا أَبُومُوسَى: أَمَا سَمِعْتِ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم؟ قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَسَكَتَتْ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُومُوسَى قَالَ يَزِيدُ: لَقِيتُ الْمَرْأَةَ فَقُلْتُ لَهَا: مَا قَوْلُ أَبِي مُوسَى لَكِ أَمَا سَمِعْتِ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، ثُمَّ سَكَتِّ؟ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لَيْسَ مِنَّا مَنْ حَلَقَ وَمَنْ سَلَقَ وَمَنْ خَرَقَ >۔
* تخريج: ن/الجنائز ۲۰ (۱۸۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۳۴)، وقد أخرجہ: م/الإیمان ۴۴ (۱۰۴)، ق/الجنائز ۵۲ (۱۵۸۶)، حم (۴/۳۹۶، ۴۰۴، ۴۰۵، ۴۱۱، ۴۱۶) (صحیح)
۳۱۳۰- یز ید بن اوس کہتے ہیں کہ ابو مو سی رضی اللہ عنہ بیمار تھے میں ان کے پاس (عیادت کے لئے) گیا تو ان کی اہلیہ رونے لگیں یا رونا چاہا، تو ابو موسی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان نہیں سنا ہے؟ وہ بولیں:کیوں نہیں، ضرور سنا ہے، تو وہ چپ ہوگئیں، یزید کہتے ہیں: جب ابو مو سیؓ وفات پا گئے تو میں ان کی اہلیہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کے قول: '' کیا تم نے رسول ﷺ کا فرمان نہیں سنا ہے '' پھر آپ چپ ہو گئیں کا کیا مطلب تھا؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: '' جو (میت کے غم میں) اپنا سر منڈوائے، جو چلا کر روئے پیٹے، اور جو کپڑے پھاڑے وہ ہم میں سے نہیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ کفر کی رسم تھی جب کوئی مرجاتا تو اس کے غم میں یہ سب کام کئے جاتے تھے، جس طرح ہندؤوں میں بال منڈوانے کی رسم ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت میں صبر کرنا لازم ہے۔
3131- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَامِلٌ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ عَلَى الرَّبَذَةِ، حَدَّثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، عَنِ امْرَأَةٍ مِنَ الْمُبَايِعَاتِ، قَالَتْ: كَانَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الْمَعْرُوفِ الَّذِي أَخَذَ عَلَيْنَا أَنْ لا نَعْصِيَهُ فِيهِ: أَنْ لا نَخْمُشَ وَجْهًا، وَلانَدْعُوَ وَيْلا، وَلانَشُقَّ جَيْبًا، وَ[أَنْ] لا نَنْشُرَ شَعَرًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۶۶) (صحیح)
۳۱۳۱- رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ایک عورت کہتی ہے: رسول اللہ ﷺ نے جن بھلی با توں کا ہم سے عہد لیا تھا کہ ان میں ہم آپ کی نا فر مانی نہیں کریں گے وہ یہ تھیں کہ ہم (کسی کے مرنے پر) نہ منہ نوچیں گے، نہ تبا ہی و بر با دی کو پکا ریں گے،نہ کپڑے پھا ڑیں گے اور نہ بال بکھیریں گے۔