15- بَاب الْيَمِينِ فِي قَطِيعَةِ الرَّحِمِ
۱۵-باب: رشتہ داروں سے بے تعلقی کی قسم کھانے کا بیان
3272- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّ أَخَوَيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ بَيْنَهُمَا مِيرَاثٌ، فَسَأَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ الْقِسْمَةَ، فَقَالَ: إِنْ عُدْتَ تَسْأَلُنِي [عَنِ الْقِسْمَةِ] فَكُلُّ مَالٍ لِي فِي رِتَاجِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: إِنَّ الْكَعْبَةَ غَنِيَّةٌ عَنْ مَالِكَ، كَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَكَلِّمْ أَخَاكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا يَمِينَ عَلَيْكَ، وَلا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ الرَّبِّ، وَفِي قَطِيعَةِ الرَّحِمِ، وَفِيمَا لا تَمْلِكُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۴۷) (ضعیف الإسناد)
(سعید بن مسیب کے عمر رضی اللہ عنہ سے سماع میں اختلاف ہے )
۳۲۷۲- سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انصار کے دو بھا ئیوں میں میراث کی تقسیم کا معا ملہ تھا، ان میں کے ایک نے دوسرے سے میراث تقسیم کر دینے کے لئے کہاتو اس نے کہا: اگر تم نے دو با رہ تقسیم کر نے کا مطالبہ کیا تو میرا سارا مال کعبہ کے دروازے کے اندر ہوگا ۱؎ تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: کعبہ تمہارے مال کا محتا ج نہیں ہے، اپنی قسم کا کفا رہ دے کر اپنے بھائی سے (تقسیم میرا ث کی) با ت چیت کرو ( کیو نکہ) میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرمارہے تھے: ''قسم اور نذر اللہ کی نافرمانی اور رشتہ توڑنے میں نہیں اورنہ اس مال میں ہے جس میں تمہیں اختیارنہیں (ایسی قسم اور نذر لغوہے)''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کعبہ کے لئے وقف ہوجائے گا۔
3273- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبُوعَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لانَذْرَ إِلافِيمَا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ، وَلا يَمِينَ فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۱۹۲) (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۶) (حسن)
۳۲۷۳- عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' صرف ان چیزوںمیں نذر جائز ہے جس سے اللہ کی رضا و خو شنو دی مطلو ب ہو اور قسم(قطع رحمی) ناتا تو ڑنے کے لئے جائز نہیں ''۔
3274- حَدَّثَنَا الْمُنْذِرُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ الأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا نَذْرَ وَلا يَمِينَ فِيمَا لايَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ، وَلا فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلا فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ، وَمَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَلْيَدَعْهَا وَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، فَإِنَّ تَرْكَهَا كَفَّارَتُهَا >.
[قَالَ أَبو دَاود: الأَحَادِيثُ كُلُّهَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ < وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ > إِلا فِيمَا لايَعْبَأُ بِهِ.
قَالَ أَبو دَاود: قُلْتُ لأَحْمَدَ: رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ؟ فَقَالَ: تَرَكَهُ بَعْدَ ذَلِكَ، وَكَانَ أَهْلا لِذَلِكَ، قَالَ أَحْمَدُ: أَحَادِيثُهُ مَنَاكِيرُ، وَأَبُوهُ لا يُعْرَفُ]۔
* تخريج: ن/ الأیمان ۱۶ (۳۸۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۱۲) (حسن)
(اس روایت کا یہ جملہ
''فَإِنَّ تَرْكَهَا كَفَّارَتُهَا'' منکر ہے کیوں کہ یہ دیگر تمام صحیح روایات کے برخلاف ہے، صحیح روایات کا مستفاد ہے کہ کفارہ دینا ہوگا)
۳۲۷۴- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' نذر اور قسم اس چیز میں نہیں جو ابن آدم کے اختیار میں نہ ہو، اور نہ اللہ کی نافرمانی میں، اور نہ ناتا تو ڑنے میں،جوقسم کھائے اور پھراُسے بھلائی اس کے خلا ف میں نظر آئے تو اس قسم کو چھوڑ دے ( پو ری نہ کرے ) اور اس کو اختیار کرے جس میں بھلا ئی ہو کیونکہ اس قسم کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ''۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ تمام حدیثیںنبی اکرم ﷺ سے مر وی ہیں ۱؎ اورچاہئے کہ وہ اپنی قسم کا کفا رہ دیں مگر جو قسمیں بے سوچے کھائی جا تی ہیں اور ان کا خیا ل نہیں کیا جا تا تو ان کا کفا رہ نہیں ہے ۔
ابوداود کہتے ہیں: میں نے احمد سے پوچھا: کیا یحییٰ بن سعید نے یحییٰ بن عبید اللہ سے روایت کی ہے ؟تو انہوں نے کہا: ہاں پہلے کی تھی، پھرترک کر دیا، اور وہ اسی کے لائق تھے کہ ان سے روایت چھوڑدی جائے، احمد کہتے ہیں :ان کی حدیثیں منکر ہیں اور ان کے والد غیر معروف ہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مرفوع ہیں۔
وضاحت ۲؎ : ابو داود کا یہ کلام کسی اور حدیث کی سند کی بابت ہے،
نُسَّاخ کی غلطی سے یہاں درج ہوگیا ہے ۔