• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ
۲۶- باب: مرنے والے کے باقی صیام اس کا ولی پورا کرے​


3310- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ: سَمِعْتُ الأَعْمَشَ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ -الْمَعْنَى- عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةً جَائَتْ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: إِنَّهُ كَانَ عَلَى أُمِّهَا صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا؟ فَقَالَ: < لَوْكَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ، أَكُنْتِ قَاضِيَتَهُ؟ > قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: < فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى >۔
* تخريج: خ/الصوم ۴۲ (۱۹۵۳)، م/الصیام ۲۷ (۱۱۴۸)، ت/الصوم ۲۲ (۷۱۶)، ق/الصوم ۵۱ (۱۷۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۴، ۲۲۷، ۲۵۸، ۲۵۸، ۳۶۲)، دی/ الصوم ۴۹ (۱۸۰۹) (صحیح)
۳۳۱۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اوراس نے عرض کیا کہ میری والدہ کے ذمے ایک مہینے کے صیام تھے کیا میں اس کی جانب سے رکھ دوں؟ آپ ﷺ نے پوچھا:'' اگر تمہاری والدہ کے ذمہ قرض ہوتا تو کیاتم اسے ادا کر تی ؟'' اس نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ کا قرض تو اور بھی زیادہ ادا کئے جانے کا مستحق ہے''۔


3311- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۴۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۲) (صحیح)
۳۳۱۱- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :''جو مر جائے اور اس کے ذمہ صیام ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے صیام رکھے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ
۲۷-باب: نذر پوری کر نے کی تا کید کا بیان​


3312- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ أَبُو قُدَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ الأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى رَأْسِكَ بِالدُّفِّ، قَالَ: < أَوْفِي بِنَذْرِكِ > قَالَتْ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا -مَكَانٌ كَانَ يَذْبَحُ فِيهِ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ- قَالَ: < لِصَنَمٍ؟ > قَالَتْ: لا، قَالَ: < لِوَثَنٍ؟ > قَالَتْ: لا، قَالَ: < أَوْفِي بِنَذْرِكِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۵۶) (حسن صحیح)
۳۳۱۲- عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے نذر ما نی ہے کہ میں آپ کے سر پر دف بجائوں گی،آپ ﷺ نے فرمایا:’’ (بجا کر) اپنی نذر پوری کرلو ‘‘ ، اس نے کہا: میں نے ایسی ایسی جگہ قر بانی کرنے کی نذر ( بھی ) ما نی ہے جہاں جا ہلیت کے زما نہ کے لوگ ذبح کیا کر تے تھے،آپ ﷺ نے پوچھا: ’’کیا کسی صنم (بت) کے لئے؟‘‘، اس نے کہا :نہیں، پوچھا:’’ کسی وثن(بت) کے لئے؟‘‘، اس نے کہا :نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اپنی نذر پور ی کرلو‘‘۔


3313- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قِلابَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ قَالَ: نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَنْحَرَ إِبِلا بِبُوَانَةَ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلا بِبُوَانَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟ > قَالُوا: لا، قَالَ: < هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟ > قَالُوا: لا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلا فِيمَا لا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۵) (صحیح)
۳۳۱۳- ابوقلابہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ثابت بن ضحا ک نے بیان کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زما نہ میں ایک شخص نے نذر ما نی کہ وہ بو انہ(ایک جگہ کا نام ہے) میں اونٹ ذبح کرے گا تو وہ شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اوراس نے عرض کیا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کر نے کی نذر مانی ہے، تونبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ کیا جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت وہاں تھا جس کی عبادت کی جا تی تھی؟‘‘، لوگوں نے کہا: نہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’کیا کفا ر کی عیدوں میں سے کوئی عید وہاں منا ئی جاتی تھی؟‘‘، لوگوں نے کہا :نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اپنی نذر پو ری کرلو البتہ گنا ہ کی نذر پوری کر نا جائز نہیں اور نہ اس چیز میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہیں‘‘۔


3314- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ مِقْسَمٍ الثَّقَفِيُّ -مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ- قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَارَّةُ بِنْتُ مِقْسَمٍ الثَّقَفِيِّ أَنَّهَا سَمِعَتْ مَيْمُونَةَ بِنْتَ كَرْدَمٍ، قَالَتْ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي فِي حِجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، وَسَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ: رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَجَعَلْتُ أُبِدُّهُ بَصَرِي، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي وَهُوَ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ مَعَهُ دِرَّةٌ كَدِرَّةِ الْكُتَّابِ، فَسَمِعْتُ الأَعْرَابَ وَالنَّاسَ يَقُولُونَ: الطَّبْطَبِيَّةَ الطَّبْطَبِيَّةَ، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي، فَأَخَذَ بِقَدَمِهِ، قَالَتْ: فَأَقَرَّ لَهُ، وَوَقَفَ فَاسْتَمَعَ مِنْهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي نَذَرْتُ إِنْ وُلِدَ لِي وَلَدٌ ذَكَرٌ أَنْ أَنْحَرَ عَلَى رَأْسِ بُوَانَةَ فِي عَقَبَةٍ مِنَ الثَّنَايَا عِدَّةً مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: لا أَعْلَمُ إِلا أَنَّهَا قَالَتْ خَمْسِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < هَلْ بِهَا مِنَ الأَوْثَانِ شَيْئٌ > قَالَ: لا، قَالَ: < فَأَوْفِ بِمَا نَذَرْتَ بِهِ لِلَّهِ > قَالَتْ: فَجَمَعَهَا فَجَعَلَ يَذْبَحُهَا، فَانْفَلَتَتْ مِنْهَا شَاةٌ، فَطَلَبَهَا وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ أَوْفِ عَنِّي نَذْرِي، فَظَفِرَهَا فَذَبَحَهَا ۔
* تخريج: انظر حدیث (۲۱۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۹۱) (صحیح)
۳۳۱۴- میمو نہ بنت کر دم کہتی ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلی، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، اور لوگوں کو کہتے ہو ئے سنا کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں، میں نے آپ پراپنی نظر یں گا ڑ دیں، میرے والد آپ ﷺ سے قریب ہوئے آپ اپنی ایک اونٹنی پر سوار تھے، آپ ﷺ کے پاس معلمین مکتب کے درہ کے طرح ایک درہ تھا، میں نے بدویوں اور لوگوں کو کہتے ہوئے سنا : شن شن ( درے کی آواز جو تیز ی سے مارتے اور گھماتے وقت نکلتی ہے ) تومیرے والد آپ ﷺ سے قریب ہو گئے اور (جاکر) آپ کے قدم پکڑ لئے، آپ ﷺ کی رسالت کا اعتراف واقرار کیا، آپ کھڑے ہو گئے اور ان کی باتیں آپ نے توجہ سے سنیں، پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ اگر میرے یہاں لڑکا پیدا ہو گا تو میں بوانہ کی دشوار گزار پہاڑیوں میں بہت سی بکریوں کی قر با نی کروں گا۔
راوی کہتے ہیں:میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے پچاس بکریاں کہیں۔
آپ ﷺ نے پوچھا:’’ کیا وہاں کوئی بت بھی ہے؟‘‘، انہوں نے کہا:نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تم نے اللہ کے لئے جو نذر ما نی ہے اسے پوری کرو‘‘، انہوں نے( بکریاں) اکٹھا کیں، اور انہیں ذبح کر نے لگے، ان میں سے ایک بکری بدک کر بھاگ گئی تو وہ اُسے ڈھو نڈنے لگے اورکہہ رہے تھے اے اللہ! میری نذر پو ری کردے پھروہ اسے پا گئے تو ذبح کیا۔


3315- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ كَرْدَمِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِيهَا نَحْوَهُ، مُخْتَصَرٌ مِنْهُ شَيْئٌ، قَالَ: < هَلْ بِهَا وَثَنٌ أَوْ عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِ الْجَاهِلِيَّةِ؟ > قَالَ: لا، قُلْتُ: إِنَّ أُمِّي هَذِهِ عَلَيْهَا نَذْرٌ، وَمَشْيٌ، أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا؟ وَرُبَّمَا قَالَ ابْنُ بَشَّارٍ: أَنَقْضِيهِ عَنْهَا؟ قَالَ: < نَعَمْ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۳۱۵- میمونہ اپنے والد کر دم بن سفیان سے اسی جیسی لیکن اس سے قدرے اختصار کے ساتھ روایت کر تی ہیں آپ نے پوچھا: ’’ کیا وہاں کوئی بت ہے یا جا ہلیت کی عیدوں میں سے کوئی عید ہوتی ہے؟‘‘، انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: یہ میری والدہ ہیں ان کے ذمہ نذر ہے، اور پیدل حج کرناہے، کیا میں اسے ان کی طرف سے پورا کر دوں ؟ اور ابن بشار نے کبھی یوں کہاہے: کیا ہم ان کی طرف سے اسے پورا کر دیں؟(جمع کے صیغے کے ساتھ) آپ نے فرمایا: ’’ہاں ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28- بَاب فِي النَّذْرِ فِيمَا لا يَمْلِكُ
۲۸- باب: جس بات کا آدمی کو اختیار نہیں اس کی نذر کا بیان​


3316- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: كَانَتِ الْعَضْبَائُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَكَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ، قَالَ: فَأُسِرَ فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ فِي وَثَاقٍ، وَالنَّبِيُّ ﷺ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! عَلامَ تَأْخُذُنِي وَتَأْخُذُ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ قَالَ: < نَأْخُذُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ > قَالَ: وَكَانَ ثَقِيفُ قَدْ أَسَرُوا رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: وَقَدْ قَالَ فِيمَا قَالَ: وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَوْ قَالَ: وَقَدْ أَسْلَمْتُ، فَلَمَّا مَضَى النَّبِيُّ ﷺ -قَالَ أَبو دَاود: فَهِمْتُ هَذَا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى- نَادَاهُ يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ! قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ رَحِيمًا [رَفِيقًا] فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: < مَا شَأْنُكَ؟ > قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: < لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلاحِ > -قَالَ أَبو دَاود: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى حَدِيثِ سُلَيْمَانَ- قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، إِنِّي ظَمْآنٌ فَاسْقِنِي، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < هَذِهِ حَاجَتُكَ > أَوْ قَالَ: < هَذِهِ حَاجَتُهُ > فَفُودِيَ الرَّجُلُ بَعْدُ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَحَبَسَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْعَضْبَاءَ لِرَحْلِهِ، قَالَ: فَأَغَارَ الْمُشْرِكُونَ عَلَى سَرْحِ الْمَدِينَةِ فَذَهَبُوا بِالْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهَا وَأَسَرُوا امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَكَانُوا إِذَا كَانَ اللَّيْلُ يُرِيحُونَ إِبِلَهُمْ فِي أَفْنِيَتِهِمْ، قَالَ: فَنُوِّمُوا لَيْلَةً وَقَامَتِ الْمَرْأَةُ فَجَعَلَتْ لاتَضَعُ يَدَهَا عَلَى بَعِيرٍ إِلا رَغَا، حَتَّى أَتَتْ عَلَى الْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةٍ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ، قَالَ: فَرَكِبَتْهَا ثُمَّ جَعَلَتْ لِلَّهِ عَلَيْهَا إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ لَتَنْحَرَنَّهَا، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِينَةَ عُرِفَتِ النَّاقَةُ نَاقَةُ النَّبِيِّ ﷺ ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ ﷺ بِذَلِكَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَجِيئَ بِهَا، وَأُخْبِرَ بِنَذْرِهَا، فَقَالَ: < بِئْسَ مَا جَزَيْتِيهَا-أَوْ: جَزَتْهَا-إِنِ اللَّهُ أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلا فِيمَا لا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ >.
[قَالَ أَبو دَاود: وَالْمَرْأَةُ هَذِهِ امْرَأَةُ أَبِي ذَرٍّ]۔
* تخريج: م/النذر ۳ (۱۶۴۱)، ن/الأیمان ۳۱ (۳۸۲۱)، ۴۱ (۳۸۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۸۴)، وقد أخرجہ: ت/ السیر (۱۵۶۸)، ق/الکفارات ۱۶ (۲۱۲۴)، حم (۴/۴۲۶، ۴۳۰، ۴۳۲، ۴۳۳)، دی/ النذور ۳ (۲۳۸۲) (صحیح)
۳۳۱۶- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عضباء ۱؎ بنو عقیل کے ایک شخص کی تھی، حاجیوں کی سواریوں میں آگے چلنے والی تھی، وہ شخص گرفتا ر کر کے نبی اکرم ﷺ کے پاس بندھا ہوا لایا گیا، اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور آپ ایک چادر اوڑھے ہو ئے تھے، اس نے کہا: محمد!آپ نے مجھے اور حاجیوں کی سواریوں میں آگے جا نے والی میری اونٹنی (عضباء) کو کس بنا پر پکڑ رکھاہے، آپ ﷺ نے فرمایا:''ہم نے تمہارے حلیف ثقیف کے گناہ کے جرم میں پکڑرکھا ہے''۔
راوی کہتے ہیں : ثقیف نے نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے دو شخصوں کو قید کر لیا تھا ۔
اس نے جو بات کہی اس میں یہ بات بھی کہی کہ میں مسلمان ہوں، یا یہ کہا کہ میں اسلام لے آیا ہوں، توجب نبی اکرم ﷺ آگے بڑھ گئے ( آپ نے کوئی جواب نہیں دیا)تو اس نے پکارا: اے محمد! اے محمد!، عمران کہتے ہیں:نبی اکرم ﷺ رحم (دل اور نرم مزاج تھے، اس کے پاس لو ٹ آئے، اور پوچھا:''کیابات ہے؟''، اس نے کہا: میں مسلمان ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم یہ پہلے کہتے جب تم اپنے معاملے کے مختار تھے تو تم بالکل بچ جا تے ''، اس نے کہا: اے محمد! میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلا ئو، میں پیا سا ہوں مجھے پا نی پلا ئو۔
عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:'' یہی تمہارا مقصد ہے''، یا: '' یہی اس کا مقصد ہے''۔
راوی کہتے ہیں: پھر وہ دو آدمیوں کے بدلے فدیہ میں دے دیا گیا ۲؎ اور عضبا ء کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی سواری کے لئے روک لیا( یعنی واپس نہیں کیا)۔
پھر مشرکین نے مدینہ کے جا نوروں پر حملہ کیا اورعضباء کو پکڑ لے گئے،تو جب اسے لے گئے اور ایک مسلمان عورت کو بھی پکڑ لے گئے، جب رات ہوتی تووہ لوگ اپنے اونٹوں کو اپنے کھلے میدانوں میں سستا نے کے لئے چھوڑ دیتے، ایک رات وہ سب سو گئے، تو عورت (نکل بھاگنے کے ارادہ) سے اٹھی تو وہ جس اونٹ پر بھی ہاتھ رکھتی وہ بلبلا نے لگتا یہاں تک کہ وہ عضبا ء کے پاس آئی، وہ ایک سیدھی سادی سواری میں مشاق اونٹنی کے پاس آئی اور اس پر سوار ہو گئی اس نے نذر مان لی کہ اگر اللہ نے اسے بچا دیا تو وہ اسے ضرور قربان کر دے گی۔
جب وہ مدینہ پہنچی تو اونٹنی نبی اکرم ﷺ کی اونٹنی کی حیثیت سے پہچان لی گئی، نبی اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ نے اسے بلوایا،چنانچہ اسے بلاکر لایا گیا، اس نے اپنی نذر کے متعلق بتایا، آپ ﷺ نے فرمایا:''کتنا بُرا ہے جو تم نے اسے بدلہ دینا چاہا، اللہ نے اُسے اُس کی وجہ سے نجات دی ہے تووہ اسے نحر کر دے، اللہ کی معصیت میں نذر کا پورا کرنا نہیں اور نہ ہی نذر اس مال میں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو'' ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ عورت ابو ذر کی بیوی تھیں۔
وضاحت ۱؎ : ایک اونٹنی کانام ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ثقیف نے اسے لے لیا اور اس کے بدلہ میں ان دونوں مسلمانوں کوچھوڑ دیا جنہیں انہوں نے پکڑ رکھا تھا۔
29- بَاب فِيمَنْ نَذَرَ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِمَالِهِ
۲۹- باب: جواپنا سا را مال صدقہ میں دے دینے کی نذرمانے اس کے حکم کا بیان


3317- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ وَابْنُ السَّرْحِ قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ [حِينَ عَمِيَ]، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ >، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ ۔
* تخريج: ن/ الأیمان ۳۵ (۳۸۵۴)، انظر حدیث رقم : (۲۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۵) (صحیح)
۳۳۱۷- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :اللہ کے رسول! میری تو بہ یہ ہے کہ میں اپنے سا رے مال سے دستبردار ہو کر اسے اللہ اور اس کے رسول کے لئے صدقہ کردوں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اپنا کچھ مال اپنے لئے روک لو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے''، تو میں نے عرض کیا :میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے لئے روک لیتاہوں۔


3318- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ حِينَ تِيبَ عَلَيْهِ: إِنِّي أَنْخَلِعُ مِنْ مَالِي، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، إِلَى: < خَيْرٌ لَكَ > ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، وانظر حدیث رقم : (۲۲۰۲)،(تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۵) (صحیح)
۳۳۱۸- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب ان کی تو بہ قبول ہو گئی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: میں اپنے مال سے دستبر دار ہو جاتا ہوں،پھرا ٓگے راوی نے اسی طرح حدیث بیان کی: ''خَيْرٌ لَكَ '' تک۔


3319- حَدَّثَنِي عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ ابْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ ، أَوْ أَبُو لُبَابَةَ أَوْ مَنْ شَاءَ اللَّهُ: إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَهْجُرَ دَارَ قَوْمِي الَّتِي أَصَبْتُ فِيهَا الذَّنْبَ وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ صَدَقَةً، قَالَ: < يُجْزِئُ عَنْكَ الثُّلُثُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، وانظر حدیث رقم : (۲۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۵، ۱۲۴۹) (صحیح الإسناد)
۳۳۱۹- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انہوں نے یا ابو لبا بہ رضی اللہ عنہ نے یا کسی اور نے جسے اللہ نے چا ہا نبی اکرم ﷺ سے کہا: میری تو بہ میں شامل ہے کہ میں اپنے اس گھر سے جہاں مجھ سے گناہ سر زد ہوا ہے ہجرت کر جائوں اور اپنے سارے مال کو صدقہ کر کے اس سے دستبردار ہو جاؤں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' بس ایک ثلث کا صدقہ کر دیناتمہیں کا فی ہوگا''۔


3320- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ أَبُو لُبَابَةَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَالْقِصَّةُ لأَبِي لُبَابَةَ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ بَعْضِ بَنِي السَّائِبِ ابْنِ أَبِي لُبَابَةَ، وَرَوَاهُ الزُّبَيْدِيُّ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، مِثْلَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۴۹) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''محمد بن متوکل'' حافظہ کے سخت کمزور ہیں اور حسین بن ابی السائب یا بعض بنی السائب مجہول ہیں )
۳۳۲۰- زہری کہتے ہیں:مجھے ابن کعب بن مالک نے خبر دی ہے،وہ کہتے ہیں کہ یہ ابولبا بہ رضی اللہ عنہ تھے پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی اور واقعہ ابو لبابہ کا ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں : ا سے یونس نے ابن شہاب سے اورابن شہاب نے سائب بن ابو لبا بہ کے بیٹوں میں سے کسی سے روایت کیا ہے نیزاسے زبیدی نے زہری سے،زہری نے حسین بن سائب بن ابی لبابہ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔


3321- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: قَالَ ابْنُ إِسْحاَقَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ فِي قِصَّتِهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي إِلَى اللَّهِ أَنْ أَخْرُجَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ صَدَقَةً، قَالَ: < لا > قُلْتُ: فَنِصْفُهُ، قَالَ: < لا > قُلْتُ: فَثُلُثُهُ، قَالَ: < نَعَمْ > قُلْتُ: فَإِنِّي سَأُمْسِكُ سَهْمِي مِنْ خَيْبَرَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، انظر رقم (۲۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۵) (حسن صحیح)
۳۳۲۱- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی قصہ میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میری توبہ میں یہ شامل ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں اپنا سارا مال صدقہ کردوں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' نہیں''، میں نے کہا: نصف صدقہ کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :''نہیں''، میں نے کہا: ثلث صدقہ کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں''، میں نے کہا: تو میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَنْ نَذَرَ نَذْرًا لا يُطِيقُهُ
۳۰- باب: جس نے ایسی نذر مانی جس کو پوری کر نے کی وہ طاقت نہیں رکھتا توکیا کرے؟​


3322- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ قَالَ: حَدَّثَنِي طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى الأَنْصَارِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ نَذَرَ نَذْرًا لَمْ يُسَمِّهِ فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ، وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا فِي مَعْصِيَةٍ فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ، وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا لا يُطِيقُهُ فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ، [وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا أَطَاقَهُ فَلْيَفِ بِهِ] >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ وَكِيعٌ وَغَيْرُهُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَعِيدِ [بْنِ أَبِي الْهِنْدِ] أَوْقَفُوهُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ۔
* تخريج: ق/الکفارات ۱۷ (۲۱۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۴۱) (ضعیف مرفوعاً)
(اس کے راوی ''طلحہ انصاری '' حافظہ کے کمزور راوی ہیں ان کے بالمقابل وکیع ثقہ ہیں اور انہوں نے اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے روایت کیا ہے )
۳۳۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص غیر نامز د نذر ما نے تو اس کا کفا رہ قسم کا کفارہ ہے اور جو کسی گناہ کی نذر ما نے تو اس کا (بھی) کفا رہ وہی ہے جو قسم کا ہے، اور جو کوئی ایسی نذر ما نے جسے پوری کر نے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا کفا رہ وہی ہے جو قسم کاکفارہ ہے، اور جو کوئی ایسی نذر ما نے جسے وہ پو ری کرسکتا ہو تو وہ اسے پوری کرے ''۔
ابو داود کہتے ہیں : وکیع وغیرہ نے اس حدیث کو عبداللہ بن سعید (بن ابو ہند)سے ابن عباس رضی اللہ عنہما پر موقوفاً روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31- باب مَنْ نَذَرَ نَذَراً لَمْ يُسَمِّه
۳۱- باب: غیر معین نذر ماننے کا بیان​


3323- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبَّادٍ الأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ -يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ- عَنْ مُحَمَّدٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ قَالَ: حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < كَفَّارَةُ النَّذْرِ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ >.
[قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ كَعْبِ بْنِ عَلْقَمَةَ عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ عَنْ عُقْبَةَ] ۔
* تخريج: م/النذر ۵ (۱۶۴۵)، ت/النذور ۴ (۱۵۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۶۰)، وقد أخرجہ: ن/الأیمان ۴۰ (۳۸۶۳)، ق/الکفارات ۱۷ (۲۱۲۵)، حم (۴/۱۴۴، ۱۴۶، ۱۴۷) (صحیح)
۳۳۲۳- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' نذر کا کفا رہ قسم کا کفارہ ہے''۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے عمرو بن حا رث نے کعب بن علقمہ سے انہوں نے ابن شماسہ سے اور ابن شہاب نے عقبہ سے روایت کیا ہے۔


3324- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى [يَعْنِي] بْنَ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ شِمَاسَةَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۶۰) (صحیح)
۳۳۲۴- اس سند سے بھی عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32-بَاب مَنْ نَذَرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ثُمَّ أَدْرَكَ الإِسْلامَ
۳۲- زما نہء جا ہلیت میں نذرمانی پھرمسلمان ہوگیا توکیا کرے؟​


3325- أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْه أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ لَيْلَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : < أَوْفِ بِنَذْرِكَ >۔
* تخريج: خ/الاعتکاف ۵ (۲۰۳۲)، ۱۵ (۲۰۴۲)، ۱۶ (۲۰۴۳)، الخمس ۱۹ (۳۱۴۴)، المغازي ۵۴ (۴۳۲۰)، الأیمان ۲۹ (۶۶۹۷)، م/الأیمان ۶ (۱۶۵۶)، ت/الأیمان ۱۱ (۱۵۳۹)، ن/الأیمان ۳۵ (۳۸۵۱)، ق/الصیام ۶۰ (۱۷۷۲)، الکفارات ۱۸ (۲۱۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷، ۲/۲۰، ۸۲، ۱۵۳)، دي/النذور ۱ (۲۳۷۸) (صحیح)
۳۳۲۵- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے زمانہء جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر ما نی تھی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:'' اپنی نذر پوری کرلو''۔


* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

{ 17- اَوَّلُ كِتَاب الْبُيُوعِ }
۱۷-کتاب: خریدوفروخت کے احکام ومسائل


1- بَاب فِي التِّجَارَةِ يُخَالِطُهَا الْحَلْفُ وَاللَّغْوُ
۱-باب: تجا رت میں قسم اورلایعنی باتوں کی ملاوٹ ہو جا تی ہے​


3326- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ قَالَ: كُنَّا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نُسَمَّى السَّمَاسِرَةَ فَمَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَسَمَّانَا بِاسْمٍ هُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ فَقَالَ: < يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ! إِنَّ الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ اللَّغْوُ وَالْحَلْفُ، فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ >.
* تخريج: ت/البیوع ۴ (۱۲۰۸)، ن/الأیمان ۲۱ (۳۸۲۸)، البیوع ۷ (۴۴۶۸)، ق/التجارات ۳ (۲۱۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۶،۲۸۰) ( حسن صحیح)
۳۳۲۶- قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سماسرہ ۱؎کہا جاتا تھا، پھر رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں ایک اچھے نام سے نوازا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے سوداگروں کی جماعت! بیع میں لایعنی باتیں اور (جھوٹی) قسمیں ہو جاتی ہیں تو تم اسے صدقہ سے ملا دیا کرو‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’سماسرہ‘‘: سمسار کی جمع ہے، عجمی لفظ ہے چونکہ عرب میں اس وقت زیادہ تر عجمی لوگ خرید وفروخت کیا کرتے تھے، اس لئے ان کے لئے یہی لفظ رائج تھا، آپ ﷺ نے ان کے لئے ’’تجار‘‘ کا لفظ پسند کیا جو عربی ہے، سمسار اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع اور مشتری کے درمیان دلالی کرتا ہے۔
وضاحت۲؎ : یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کر لیا کرو۔


3327- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْبِسْطَامِيُّ وَحَامِدُ بْنُ يَحْيَى وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ وَعَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَعْيَنَ وَعَاصِمٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ -بِمَعْنَاهُ- قَالَ: < يَحْضُرُهُ الْكَذِبُ وَالْحَلْفُ >، وَقَالَ عَبْدُاللَّهِ الزُّهْرِيُّ: < اللَّغْوُ وَالْكَذِبُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۰۳) (صحیح)
۳۳۲۷- اس سند سے بھی قیس بن ابی غرزہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ’’يَحْضُرُهُ اللَّغْوُ وَالْحَلْفُ‘‘کے بجائے:’’يَحْضُرُهُ الْكَذِبُ وَالْحَلْفُ‘‘ہے عبد اللہ الزہری کی روایت میں: ’’اللَّغْوُ وَالْكَذِبُ‘‘ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2- بَاب فِي اسْتِخْرَاجِ الْمَعَادِنِ
۲-باب: معدنیات نکالنے کا بیان​


3328- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- عَنْ عَمْرٍو -يَعْنِي ابْنَ أَبِي عَمْرٍو- عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلا لَزِمَ غَرِيمًا لَهُ بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لا أُفَارِقُكَ حَتَّى تَقْضِيَنِي، أَوْ تَأْتِيَنِي بِحَمِيلٍ، فَتَحَمَّلَ بِهَا النَّبِيُّ ﷺ ، فَأَتَاهُ بِقَدْرِ مَاوَعَدَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : < مِنْ أَيْنَ أَصَبْتَ هَذَا الذَّهَبَ؟ > قَالَ: مِنْ مَعْدِنٍ، قَالَ: < لا حَاجَةَ لَنَا فِيهَا، وَلَيْسَ فِيهَا خَيْرٌ > فَقَضَاهَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: ق/الأحکام ۹ (۲۴۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۷۸) (صحیح)
۳۳۲۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے قرض دار کے ساتھ لگارہاجس کے ذمہ اس کے دس دینار تھے اس نے کہا: میں تجھ سے جدا نہ ہوںگا جب تک کہ تو قرض نہ ادا کر دے، یا ضا من نہ لے آ، یہ سن کرنبی اکرم ﷺ نے قرض دار کی ضما نت لے لی، پھر وہ اپنے وعدے کے مطابق لے کرا ٓیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا:'' یہ سونا تجھے کہاں سے ملا؟''، اس نے کہا: میں نے کان سے نکالا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ( لے جاؤ) اس میں بھلا ئی نہیں ہے''، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف سے(قرض کو) خو د ادا کر دیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فِي اجْتِنَابِ الشُّبُهَاتِ
۳-باب: شبہا ت سے بچنے کا بیان​


3329- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، وَلا أَسْمَعُ أَحَدًا بَعْدَهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ الْحَلالَ بَيِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ -[وَ] أَحْيَانًا يَقُولُ: مُشْتَبِهَةٌ- وَسَأَضْرِبُ [لَكُمْ] فِي ذَلِكَ مَثَلا: إِنَّ اللَّهَ حَمَى حِمًى، وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَا حَرَّمَ، وَإِنَّهُ مَنْ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُخَالِطَهُ، وَإِنَّهُ مَنْ يُخَالِطُ الرِّيبَةَ يُوشِكُ أَنْ يَجْسُرَ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۳۹ (۵۲)، والبیوع ۲ (۲۰۵۱)، م/المساقاۃ ۲۰ (۱۵۹۹)، ت/البیوع ۱ (۱۲۰۵)، ن/البیوع ۲ (۴۴۵۸)، ق/الفتن ۱۴ (۳۹۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۶۷، ۲۶۹، ۲۷۰، ۲۷۱، ۲۷۵)، دي/البیوع ۱ (۲۵۷۳) (صحیح)
۳۳۲۹- نعمان بن بشیررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے ہو ئے سنا: ’’حلا ل واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں( جن کی حلت و حرمت میں شک ہے ) اور کبھی یہ کہا کہ ان کے درمیان مشتبہ چیز ہے ۱؎اور میں تمہیں یہ با ت ایک مثال سے سمجھا تا ہوں، اللہ نے ( اپنے لئے) محفوظ جگہ ( چرا گاہ) بنائی ہے، اور اللہ کی محفوظ جگہ اس کے محا رم ہیں( یعنی ایسے امور جنہیں اللہ نے حرام قرا ر دیا ہے ) اور جو شخص محفوظ چراگا ہ کے گر د اپنے جا نور چرائے گا، تو عین ممکن ہے کہ اس کے اندر داخل ہو جائے اور جو شخص مشتبہ چیزوں کے قریب جائے گا تو عین ممکن ہے کہ اسے حلا ل کر بیٹھنے کی جسارت کر ڈالے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : گویا دنیاوی چیزیں تین طرح کی ہیں : حلال، حرام اور مشتبہ، پس حلال چیزیں وہ ہیں جو کتاب وسنت میں بالکل واضح ہیں جیسے دودھ، شہد، میوہ، گائے اور بکری وغیرہ، اسی طرح حرام چیزیں بھی کتاب وسنت میں واضح ہیں جیسے شراب، زنا، قتل اور جھوٹ وغیرہ، اور مشتبہ وہ ہے جو کسی حد تک حلال سے اور کسی حد تک حرام سے یعنی دونوں سے مشابہت رکھتی ہو جیسے رسول اللہ ﷺ نے راستہ میں ایک کھجور پڑا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ اگر اس بات کا خوف نہ ہو تاکہ یہ صدقہ کا ہوسکتا ہے تو میں اسے کھالیتا، اس لئے مشتبہ امر سے اپنے آپ کو بچا لینا ضروری ہے، کیونکہ اپنانے کی صورت میں حرام میں پڑنے کا خطرہ ہے، نیز شبہ والی چیز میں پڑتے پڑتے حرام میں پڑنے اور اسے اپنانے کی جسارت کرسکتا ہے ۔


3330- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ -بِهَذَا الْحَدِيثِ- قَالَ: < وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ عِرْضَهُ وَدِينَهُ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۲۴) (صحیح)
۳۳۳۰- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ یہی حدیث بیان فرما رہے تھے اور فرمارہے تھے: ’’ان دونوں کے درمیان کچھ شبہے کی چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جا نتے، جو شبہوں سے بچا وہ اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لے گیا، اور جو شبہوں میں پڑا وہ حرام میں پھنس گیا ‘‘۔


3331- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ ابْنَ أَبِي خَيْرَةَ يَقُولُ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ (ح) وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ دَاوُدَ -يَعْنِي ابْنَ أَبِي هِنْدٍ- وَهَذَا لَفْظُهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي خَيْرَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لا يَبْقَى أَحَدٌ إِلا أَكَلَ الرِّبَا، فَإِنْ لَمْ يَأْكُلْهُ أَصَابَهُ مِنْ بُخَارِهِ >.
قَالَ ابْنُ عِيسَى: < أَصَابَهُ مِنْ غُبَارِهِ >۔
* تخريج: ن/البیوع ۲ (۴۴۶۰)، ق/التجارات ۵۸ (۲۲۷۸)، حم (۲/۴۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۰۳، ۱۲۲۴۱) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’سعید ‘‘ لین الحدیث ہیں، نیز’’ حسن بصری ‘‘ کا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں )
۳۳۳۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ایک زما نہ ایسا آئے گا جس میں سو د کھانے سے کوئی بچ نہ سکے گا اور اگر نہ کھائے گا تو اس کی بھا پ کچھ نہ کچھ اس پر پڑ کر ہی رہے گی‘‘ ۱؎ ۔
ابن عیسیٰ کی روایت میں’’أَصَاْبَهُ مِنْ بُخَارِهِ‘‘ کی جگہ ’’أَصَاْبَهُ مِنْ غُبَارِهِ ‘‘ہے، یعنی اس کی گر د کچھ نہ کچھ اس پر پڑکر ہی رہے گی۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کا کچھ نہ کچھ اثر اس پر ظا ہر ہوکر رہے گا۔


3332- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي جَنَازَةٍ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَهُوَعَلَى الْقَبْرِ يُوصِي الْحَافِرَ: < أَوْسِعْ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ، أَوْسِعْ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ > فَلَمَّا رَجَعَ اسْتَقْبَلَهُ دَاعِي امْرَأَةٍ، فَجَاءَ، وَجِيئَ بِالطَّعَامِ فَوَضَعَ يَدَهُ، ثُمَّ وَضَعَ الْقَوْمُ فَأَكَلُوا، فَنَظَرَ آبَاؤُنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَلُوكُ لُقْمَةً فِي فَمِهِ، ثُمَّ قَالَ: < أَجِدُ لَحْمَ شَاةٍ أُخِذَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ أَهْلِهَا > فَأَرْسَلَتِ الْمَرْأَةُ [قَالَتْ]: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَرْسَلْتُ إِلَى الْبَقِيعِ يَشْتَرِي [لِي] شَاةً فَلَمْ أَجِدْ، فَأَرْسَلْتُ إِلَى جَارٍ لِي قَدِ اشْتَرَى شَاةً أَنْ أَرْسِلْ إِلَيَّ بِهَا بِثَمَنِهَا فَلَمْ يُوجَدْ، فَأَرْسَلْتُ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيَّ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <أَطْعِمِيهِ الأُسَارَى >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۹۳، ۴۰۸) (صحیح)
۳۳۳۲- ایک انصاری کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنا زہ میں گئے تو میں نے آپ کو دیکھاکہ آپ ﷺ قبرپر تھے قبرکھودنے والے کو بتا رہے تھے: ’’پیروں کی جا نب سے (قبر) کشادہ کرو اور سر کی جانب سے چوڑی کرو‘‘، پھر جب آپ ﷺ (وہاں سے فراغت پا کر) لو ٹے تو ایک عورت کی جانب سے کھانے کی دعوت دینے والا آپ کے سامنے آیا تو آپ ﷺ ( اس کے یہاں) آئے اور کھانا لایاگیا، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ رکھا(کھانا شروع کیا ) پھر دوسرے لوگوں نے رکھا اور سب نے کھانا شروع کردیا تو ہمارے بز رگوں نے رسول ﷺکو دیکھا، آپ ایک ہی لقمہ منہ میں لئے گھما پھرا رہے ہیں پھرآپ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے لگتا ہے یہ ایسی بکری کا گوشت ہے جسے اس کے مالک کی اجا زت کے بغیر ذبح کر کے پکا لیا گیا ہے‘‘، پھر عورت نے کہلا بھیجا:اللہ کے رسول! میں نے اپنا ایک آدمی بقیع کی طرف بکری خرید کر لا نے کے لئے بھیجاتواسے بکری نہیں ملی پھر میں نے اپنے ہم سایہ کو، جس نے ایک بکری خرید رکھی تھی کہلا بھیجا کہ تم نے جس قیمت میں بکری خرید رکھی ہے اسی قیمت میں مجھے دے دو (اتفاق سے) وہ ہم سایہ ( گھر پر) نہ ملاتو میں نے اس کی بیوی سے کہلا بھیجا تو اس نے بکری میرے پاس بھیج دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ گوشت قیدیوں کو کھلا دو‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ بکری صاحب بکری کی اجازت کے بغیر ذبح کرڈالی گئی اس لئے یہ مشتبہ گوشت ٹھہرا اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے اپنے آپ کو اس مشتبہ چیز کے کھانے سے بچایا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب فِي آكِلِ الرِّبَا وَمُوكِلِهِ
۴-باب: سو د کھانے اور کھلا نے والے پر وارد وعید کا بیان​


3333- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدَهُ وَكَاتِبَه۔
* تخريج: م/المساقات ۱۹ (۱۵۹۷)، ت/البیوع ۲ (۱۲۰۶)، ق/التجارات ۵۸ (۲۲۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۵۶)، وقد أخرجہ: ن/الطلاق ۱۳ (۳۴۴۵)، حم (۱/۳۹۲، ۳۹۴، ۴۰۲، ۴۵۳) (صحیح)
۳۳۳۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سو د کے لئے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب(لکھنے والے) پر لعنت فرمائی ہے۔
 
Top