- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,586
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
27- بَاب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ
۲۷-باب: نذر پوری کر نے کی تا کید کا بیان
3312- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ أَبُو قُدَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ الأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى رَأْسِكَ بِالدُّفِّ، قَالَ: < أَوْفِي بِنَذْرِكِ > قَالَتْ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا -مَكَانٌ كَانَ يَذْبَحُ فِيهِ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ- قَالَ: < لِصَنَمٍ؟ > قَالَتْ: لا، قَالَ: < لِوَثَنٍ؟ > قَالَتْ: لا، قَالَ: < أَوْفِي بِنَذْرِكِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۵۶) (حسن صحیح)
۳۳۱۲- عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے نذر ما نی ہے کہ میں آپ کے سر پر دف بجائوں گی،آپ ﷺ نے فرمایا:’’ (بجا کر) اپنی نذر پوری کرلو ‘‘ ، اس نے کہا: میں نے ایسی ایسی جگہ قر بانی کرنے کی نذر ( بھی ) ما نی ہے جہاں جا ہلیت کے زما نہ کے لوگ ذبح کیا کر تے تھے،آپ ﷺ نے پوچھا: ’’کیا کسی صنم (بت) کے لئے؟‘‘، اس نے کہا :نہیں، پوچھا:’’ کسی وثن(بت) کے لئے؟‘‘، اس نے کہا :نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اپنی نذر پور ی کرلو‘‘۔
3313- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قِلابَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ قَالَ: نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَنْحَرَ إِبِلا بِبُوَانَةَ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلا بِبُوَانَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟ > قَالُوا: لا، قَالَ: < هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟ > قَالُوا: لا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلا فِيمَا لا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۵) (صحیح)
۳۳۱۳- ابوقلابہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ثابت بن ضحا ک نے بیان کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زما نہ میں ایک شخص نے نذر ما نی کہ وہ بو انہ(ایک جگہ کا نام ہے) میں اونٹ ذبح کرے گا تو وہ شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اوراس نے عرض کیا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کر نے کی نذر مانی ہے، تونبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ کیا جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت وہاں تھا جس کی عبادت کی جا تی تھی؟‘‘، لوگوں نے کہا: نہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’کیا کفا ر کی عیدوں میں سے کوئی عید وہاں منا ئی جاتی تھی؟‘‘، لوگوں نے کہا :نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اپنی نذر پو ری کرلو البتہ گنا ہ کی نذر پوری کر نا جائز نہیں اور نہ اس چیز میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہیں‘‘۔
3314- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ مِقْسَمٍ الثَّقَفِيُّ -مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ- قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَارَّةُ بِنْتُ مِقْسَمٍ الثَّقَفِيِّ أَنَّهَا سَمِعَتْ مَيْمُونَةَ بِنْتَ كَرْدَمٍ، قَالَتْ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي فِي حِجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، وَسَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ: رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَجَعَلْتُ أُبِدُّهُ بَصَرِي، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي وَهُوَ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ مَعَهُ دِرَّةٌ كَدِرَّةِ الْكُتَّابِ، فَسَمِعْتُ الأَعْرَابَ وَالنَّاسَ يَقُولُونَ: الطَّبْطَبِيَّةَ الطَّبْطَبِيَّةَ، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي، فَأَخَذَ بِقَدَمِهِ، قَالَتْ: فَأَقَرَّ لَهُ، وَوَقَفَ فَاسْتَمَعَ مِنْهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي نَذَرْتُ إِنْ وُلِدَ لِي وَلَدٌ ذَكَرٌ أَنْ أَنْحَرَ عَلَى رَأْسِ بُوَانَةَ فِي عَقَبَةٍ مِنَ الثَّنَايَا عِدَّةً مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: لا أَعْلَمُ إِلا أَنَّهَا قَالَتْ خَمْسِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < هَلْ بِهَا مِنَ الأَوْثَانِ شَيْئٌ > قَالَ: لا، قَالَ: < فَأَوْفِ بِمَا نَذَرْتَ بِهِ لِلَّهِ > قَالَتْ: فَجَمَعَهَا فَجَعَلَ يَذْبَحُهَا، فَانْفَلَتَتْ مِنْهَا شَاةٌ، فَطَلَبَهَا وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ أَوْفِ عَنِّي نَذْرِي، فَظَفِرَهَا فَذَبَحَهَا ۔
* تخريج: انظر حدیث (۲۱۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۹۱) (صحیح)
۳۳۱۴- میمو نہ بنت کر دم کہتی ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلی، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، اور لوگوں کو کہتے ہو ئے سنا کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں، میں نے آپ پراپنی نظر یں گا ڑ دیں، میرے والد آپ ﷺ سے قریب ہوئے آپ اپنی ایک اونٹنی پر سوار تھے، آپ ﷺ کے پاس معلمین مکتب کے درہ کے طرح ایک درہ تھا، میں نے بدویوں اور لوگوں کو کہتے ہوئے سنا : شن شن ( درے کی آواز جو تیز ی سے مارتے اور گھماتے وقت نکلتی ہے ) تومیرے والد آپ ﷺ سے قریب ہو گئے اور (جاکر) آپ کے قدم پکڑ لئے، آپ ﷺ کی رسالت کا اعتراف واقرار کیا، آپ کھڑے ہو گئے اور ان کی باتیں آپ نے توجہ سے سنیں، پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ اگر میرے یہاں لڑکا پیدا ہو گا تو میں بوانہ کی دشوار گزار پہاڑیوں میں بہت سی بکریوں کی قر با نی کروں گا۔
راوی کہتے ہیں:میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے پچاس بکریاں کہیں۔
آپ ﷺ نے پوچھا:’’ کیا وہاں کوئی بت بھی ہے؟‘‘، انہوں نے کہا:نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تم نے اللہ کے لئے جو نذر ما نی ہے اسے پوری کرو‘‘، انہوں نے( بکریاں) اکٹھا کیں، اور انہیں ذبح کر نے لگے، ان میں سے ایک بکری بدک کر بھاگ گئی تو وہ اُسے ڈھو نڈنے لگے اورکہہ رہے تھے اے اللہ! میری نذر پو ری کردے پھروہ اسے پا گئے تو ذبح کیا۔
3315- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ كَرْدَمِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِيهَا نَحْوَهُ، مُخْتَصَرٌ مِنْهُ شَيْئٌ، قَالَ: < هَلْ بِهَا وَثَنٌ أَوْ عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِ الْجَاهِلِيَّةِ؟ > قَالَ: لا، قُلْتُ: إِنَّ أُمِّي هَذِهِ عَلَيْهَا نَذْرٌ، وَمَشْيٌ، أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا؟ وَرُبَّمَا قَالَ ابْنُ بَشَّارٍ: أَنَقْضِيهِ عَنْهَا؟ قَالَ: < نَعَمْ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۳۱۵- میمونہ اپنے والد کر دم بن سفیان سے اسی جیسی لیکن اس سے قدرے اختصار کے ساتھ روایت کر تی ہیں آپ نے پوچھا: ’’ کیا وہاں کوئی بت ہے یا جا ہلیت کی عیدوں میں سے کوئی عید ہوتی ہے؟‘‘، انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: یہ میری والدہ ہیں ان کے ذمہ نذر ہے، اور پیدل حج کرناہے، کیا میں اسے ان کی طرف سے پورا کر دوں ؟ اور ابن بشار نے کبھی یوں کہاہے: کیا ہم ان کی طرف سے اسے پورا کر دیں؟(جمع کے صیغے کے ساتھ) آپ نے فرمایا: ’’ہاں ‘‘۔