• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب فِي وَضْعِ الرِّبَا
۵-باب: سو د معاف کر دینے کا بیان​


3334- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا شَبِيبُ بْنُ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ يَقُولُ: < أَلا إِنَّ كُلَّ رِبًا مِنْ رِبَاالْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، لَكُمْ رُئُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ، أَلا وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ مِنْ دَمِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُ مِنْهَا دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ > كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْثٍ، فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، قَالَ : < [اللَّهُمَّ] هَلْ بَلَّغْتُ >، قَالُوا: نَعَمْ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: < اللَّهُمَّ اشْهَدْ > ثَلاثَ مَرَّاتٍ۔
* تخريج: ت/الفتن ۱ (۱۲۵۹)، تفسیرالقرآن ۱۰ (۳۰۸۷)، ق/المناسک ۷۶ (۳۰۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۶، ۴۹۸) (صحیح)
۳۳۳۴- عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حجۃ الوداع میں سنا:آپ فرمارہے تھے: ''سنو! زمانۂ جاہلیت کے سارے سو د کا لعدم قرار دے دیئے گئے ہیں تمہارے لئے بس تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تم پر ظلم کرے (نہ تم کسی سے سو د لو نہ تم سے کوئی سو دلے ) سن لو! زمانۂ جاہلیت کے خو ن کالعدم کر دئیے گئے ہیں، اور زمانۂ جاہلیت کے سارے خونوں میں سے میں سب سے پہلے جسے معاف کرتا ہوں وہ حا رث بن عبدالمطلب ۱؎ کا خون ہے''، وہ ایک شیر خواربچہ تھے جو بنی لیث میں پرورش پا رہے تھے کہ ان کو ہذیل کے لوگوں نے مارڈالا تھا ۔
راوی کہتے ہیں :آپ ﷺ نے فرمایا: ''اے اللہ !کیا میں نے پہنچا دیا ؟'' لوگوں نے تین بار کہا: ہاں( آپ نے پہنچا دیا)، آپ ﷺ نے تین بار فرمایا : ''اے اللہ !تو گواہ رہ ''۔
وضاحت ۱؎ : حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے چچا تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ الْيَمِينِ فِي الْبَيْعِ
۶-باب: خریدوفروخت میں (جھوٹی) قسم کھانے کی ممانعت​


3335- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: قَالَ [لِي] ابْنُ الْمُسَيَّبِ: إِنَّ أَبَاهُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الْحَلِفُ مَنْفَقَةٌ لِلسِّلْعَةِ مَمْحَقَةٌ لِلْبَرَكَةِ>، قَالَ ابْنُ السَّرْحِ < لِلْكَسْبِ >، وقَالَ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: خ/البیوع ۲۶ (۲۰۸۷)، م/المساقاۃ ۲۷ (۱۶۰۶)، ن/البیوع ۵ (۴۴۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۵،۲۴۲، ۴۱۳) (صحیح)
۳۳۳۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوے سنا:'' (جھوٹی ) قسم(قسم کھانے والے کے خیال میں) سامان کورائج کردیتی ہے، لیکن بر کت کوختم کر دیتی ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب فِي الرُّجْحَانِ فِي الْوَزْنِ وَالْوَزْنِ بِالأَجْرِ
۷-باب: تو ل میں جھکتا ہوا (زیادہ) دینے اور اجرت لے کر تو لنے کا بیان​


3336- حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَفَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنْ هَجَرَ، فَأَتَيْنَا بِهِ مَكَّةَ، فَجَائَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَمْشِي، فَسَاوَمَنَا بِسَرَاوِيلَ فَبِعْنَاهُ، وَثَمَّ رَجُلٌ يَزِنُ بِالأَجْرِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < زِنْ وَارْجِحْ > ۔
* تخريج: ت/البیوع ۶۶ (۱۳۰۵)، ن/البیوع ۵۲ (۴۵۹۶)، ق/التجارات ۳۴ (۲۲۲۰)، اللباس ۱۲ (۳۵۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۲)، دي/البیوع ۴۷ (۲۶۲۷) (صحیح)
۳۳۳۶- سوید بن قیس کہتے ہیں: میں نے اور مخرمہ عبدی نے ہجر ۱؎ سے کپڑا لیا اوراسے( بیچنے کے لئے) مکہ لے کر آئے تو رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس پیدل آئے، اور ہم سے پا ئجا مہ کے کپڑے کے لئے بھا ئو تا ئو کیا تو ہم نے اسے بیچ دیااور وہاں ایک شخص تھا جومعا وضہ لے کر وزن کیا کر تاتھا تورسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:'' تولو اور جھکا ہوا تولو''۔
وضاحت ۱؎ : مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔


3337- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ -الْمَعْنَى قَرِيبٌ- قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي صَفْوَانَ بْنِ عُمَيْرَةَ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بِمَكَّةَ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ: < يَزِنُ بِأَجْرٍ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ قَيْسٌ كَمَا قَالَ سُفْيَانُ، وَالْقَوْلُ قَوْلُ سُفْيَانَ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۱۰) (صحیح)
۳۳۳۷- ابوصفوان بن عمیرۃ(یعنی سوید) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کی ہجرت سے پہلے مکہ آیا، پھرانہوں نے یہی حدیث بیان کی لیکن اجرت لے کر وزن کرنے کا ذکر نہیں کیاہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے قیس نے بھی سفیان کی طرح بیان کیاہے اورلائق اعتمادبا ت تو سفیان کی بات ہے۔


3338- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ، سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ لِشُعْبَةَ: خَالَفَكَ سُفْيَانَ قَالَ: دَمَغْتَنِي، وَبَلَغَنِي عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ، قَالَ: كُلُّ مَنْ خَالَفَ سُفْيَانَ فَالْقَوْلُ قَوْلُ سُفْيَانَ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۳۳۳۸- ابو رزمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے شعبہ سے کہا : سفیان نے روایت میں آپ کی مخالفت کی ہے،آپ نے کہا: تم نے تو میرا دماغ چا ٹ لیا ۔
ابو داود کہتے ہیں: مجھے یحییٰ بن معین کی یہ بات پہنچی ہے کہ جس شخص نے بھی سفیان کی مخالفت کی تو لائق اعتماد بات سفیان کی بات ہوگی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی صحابی کا نام ''سوید بن قیس'' (جیسا کہ سفیان نے کہا ہے ) زیادہ قابل اعتماد ہے بنسبت'' ابو صفوان بن عمیرۃ'' کے، لیکن اصحاب التراجم کا فیصلہ ہے کہ دونوں نام ایک ہی آدمی کے ہیں )


3339- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: كَانَ سُفْيَانُ أَحْفَظَ مِنِّي۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۰۸) (صحیح)
۳۳۳۹- شعبہ کہتے ہیں: سفیان کا حا فظہ مجھ سے زیادہ قوی تھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فِي قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ الْمِكْيَالُ مِكْيَالُ الْمَدِينَةِ
۸-باب: پیما نوں میں(معتبر) مدینہ کا پیما نہ ہے​


3340- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَنْظَلَةَ، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <الْوَزْنُ وَزْنُ أَهْلِ مَكَّةَ، وَالْمِكْيَالُ مِكْيَالُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَا رَوَاهُ الْفِرْيَابِيُّ، وَأَبُو أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، وَافَقَهُمَا فِي الْمَتْنِ، وَقَالَ أَبُوأَحْمَدَ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَكَانَ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَاهُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ حَنْظَلَةَ قَالَ: وَزْنُ الْمَدِينَةِ وَمِكْيَالُ مَكَّةَ.
قَالَ أَبو دَاود: وَاخْتُلِفَ فِي الْمَتْنِ فِي حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَائٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۴۴ (۲۵۲۱)، البیوع ۵۴ (۴۵۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۴۵) (صحیح)
۳۳۴۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تول میں مکے والوں کی تول معتبر ہے اور ناپ میں مدینہ والوں کی ناپ ہے'' ۔
ابو داود کہتے ہیں: فریا بی اور ابو احمد نے سفیان سے اسی طرح روایت کی ہے اور انہوں نے متن میں ان دونوں کی موافقت کی ہے اور ابو احمد نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جگہ ''عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ '' کہا ہے اور اسے ولید بن مسلم نے حنظلہ سے روایت کیا ہے کہ وزن (باٹ) مدینہ کا اور پیمانہ مکہ کا معتبرہے''۔
ابو داود کہتے ہیں: مالک بن دینار کی حدیث جسے انہوں نے عطاء سے عطاء نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ متن میں اختلاف واقع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي الدَّيْنِ
۹-باب: قرض کے نہ ادا کرنے پرواردوعید کا بیان​


3341- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ سَمْعَانَ، عَنْ سَمُرَةَ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ بَنِي فُلانٍ؟ > فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَ: < هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ بَنِي فُلانٍ؟ > فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَ: <هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ بَنِي فُلانٍ؟ > فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ ﷺ : <مَا مَنَعَكَ أَنْ تُجِيبَنِي فِي الْمَرَّتَيْنِ الأُولَيَيْنِ؟ [أَمَا] إِنِّي لَمْ أُنَوِّهْ بِكُمْ إِلا خَيْرًا، إِنَّ صَاحِبَكُمْ مَأْسُورٌ بِدَيْنِهِ> فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ أَدَّى عَنْهُ حَتَّى مَا [بَقِيَ] أَحَدٌ يَطْلُبُهُ بِشَيْئٍ.
[قَالَ أَبو دَاود: سَمْعَانُ بْنُ مُشَنِّجٍ]۔
* تخريج: ن/البیوع ۹۶ (۴۶۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۱، ۱۳، ۲۰) (حسن)
۳۳۴۱- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبے میں فرمایا :’’کیا یہاں بنی فلاں کا کوئی شخص ہے؟‘‘، تو کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر پوچھا:’’ کیا یہاں بنی فلاں کا کوئی شخص ہے ؟‘‘، تو پھر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ ﷺ نے پھرپوچھا: ’’کیا یہاں بنی فلاں کا کوئی شخص ہے؟‘‘،تو ایک شخص کھڑے ہوکر کہا: میں ہوں،اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پہلے دوبار پو چھنے پر تم کومیرا جواب دینے سے کس چیز نے روکا تھا ؟ میں تو تمہیں بھلا ئی ہی کی خاطر پکا ر رہا تھا تمہارا ساتھی اپنے قرض کے سبب قید ہے ۱؎ ‘‘۔
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے اسے دیکھا کہ اس شخص نے اس کا قرض ادا کر دیایہاں تک کہ کوئی اس سے اپنا قرضہ مانگنے والا نہ بچا ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی قرض کے ادانہ کرنے کی وجہ سے وہ جنت میں جا نہیں سکتا۔


3342- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِاللَّهِ الْقُرَشِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَةَ بْنَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيَّ يَقُولُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < إِنَّ أَعْظَمَ الذُّنُوبِ عِنْدَ اللَّهِ أَنْ يَلْقَاهُ بِهَا عَبْدٌ بَعْدَ الْكَبَائِرِ الَّتِي نَهَى اللَّهُ عَنْهَا أَنْ يَمُوتَ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ لا يَدَعُ لَهُ قَضَائً >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۹۲) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ابوعبدا للہ قرشی ‘‘لین الحدیث ہیں )
۳۳۴۲- ابو مو سی اشعر ی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ کے نزدیک ان کبائر کے بعدجن سے اللہ نے منع فرمایا ہے سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی مرے اور اس پر قرض ہواوروہ کوئی ایسی چیز نہ چھوڑے جس سے اس کا قرض ادا ہو‘‘۔


3343- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لا يُصَلِّي عَلَى رَجُلٍ مَاتَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَأُتِيَ بِمَيِّتٍ فَقَالَ: < أَعَلَيْهِ دَيْنٌ؟ > قَالُوا: نَعَمْ دِينَارَانِ، قَالَ: < صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ > فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ الأَنْصَارِيُّ: هُمَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، فَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالا فَلِوَرَثَتِهِ >۔
* تخريج: ن/الجنائز ۶۷ (۱۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۶) (صحیح)
۳۳۴۳- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس شخص کی صلاۃِ جنا زہ نہیں پڑھتے تھے جو اس حال میں مرتا کہ اس پرقرض ہوتا،چنانچہ آپ ﷺ کے پاس ایک جنازہ (میت) لایا گیا، آپ نے پوچھا: ’’کیا اس پر قرض ہے؟‘‘، لوگوں نے کہا :ہاں، اس کے ذمہ دو دینار ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تم اپنے ساتھی کی صلاۃ پڑھ لو‘‘ ۱؎، تو ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کی ادائیگی کی ذمہ داری لیتا ہوں اللہ کے رسول! تورسو ل ا للہﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی، پھر جب اللہ نے اپنے رسول ﷺ کوفتوحات اور اموال غنیمت سے نوازا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میں ہر مومن سے اس کی جان سے زیادہ قریب تر ہوںپس جو کوئی قرض دار مر جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہو گی اور جو کوئی مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے ورثاء کاہو گا‘‘ ۔
وضاحت ۱؎ : اتنا سخت رَوَیہ ّ آپ ﷺ نے اس لئے اپنایا تاکہ لوگوں کے حقوق ضائع نہ ہونے پائیں۔


3344- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ رَفَعَهُ، قَالَ عُثْمَانُ: وَحَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ، قَالَ: اشْتَرَى مِنْ عِيرٍ تَبِيعًا وَلَيْسَ عِنْدَهُ ثَمَنُهُ فَأُرْبِحَ فِيهِ، فَبَاعَهُ فَتَصَدَّقَ بِالرِّبْحِ عَلَى أَرَامِلِ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَقَالَ: لا أَشْتَرِي بَعْدَهَا شَيْئًا إِلا وَعِنْدِي ثَمَنُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۱۳، ۱۹۱۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۵، ۳۲۳) (ضعیف)
(اس کے راوی’’شریک‘‘ حافظہ کے کمزور ہیں، نیز عکرمہ سے سماک کی روایت میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے )
۳۳۴۴- عکرمہ سے روایت ہے انہوں نے اسے مرفوع کیا ہے، اور عثمان کی سند یوں ہے: ’’حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ‘‘ اور متن اسی کے ہم مثل ہے اس میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے ایک قافلہ سے ایک تبیع ۱؎خریدا،اور آپ ﷺکے پاس اس کی قیمت نہیں تھی، تو آپ کواس میں نفع دیا گیا، آپ ﷺ نے اسے بیچ دیا اور جو نفع ہوا اسے بنو عبدالمطلب کی بیوا ئوں کو صدقہ کردیا اور فرمایا:’’ آئندہ جب تک چیز کی قیمت اپنے پاس نہ ہو گی کوئی چیز نہ خریدوںگا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : تبیع خادم کو کہتے ہیں اور گائے کے اس بچے کو بھی جو پہلے سال میں ہو ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب فِي الْمَطْلِ
۱۰-باب: قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا کیسا ہے؟​


3345- حَدَّثَنَا [عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ] الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيئٍ فَلْيَتْبَعْ >۔
* تخريج: خ/الحوالۃ ۱ (۲۲۸۸)، ۲ (۲۲۸۹)، والاستقراض ۱۲(۲۴۰۰)، م/المساقاۃ ۷ (۱۵۶۴)، ن/البیوع ۹۹ (۴۶۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۹۳، ۱۳۸۰۳)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۶۸ (۱۳۰۸)، ق/الصدقات ۸ (۲۴۰۳)، ط/البیوع ۴۰ (۸۴)، حم (۲/۲۴۵، ۲۵۴، ۲۶۰، ۳۱۵، ۳۷۷، ۳۸۰، ۴۶۳، ۴۶۴، ۴۶۵)، دي/البیوع ۴۸ (۲۶۲۸) (صحیح)
۳۳۴۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مال دا ر کا ٹال مٹول کر نا ظلم ہے ( چا ہے وہ قرض ہو یا کسی کا کوئی حق) اور اگر تم میں سے کوئی مالدار شخص کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہئے کہ اس کی حوالگی ۱؎ قبول کرے''۔
وضاحت ۱؎ : اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کردینا یہی حوالہ ہے، مثلاً زید عمرو کا مقروض ہے پھر زید عمرو کا مقابلہ بکر سے یہ کہہ کر کرادے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکر کے سر ہے اور بکر اسے تسلیم بھی کرلے تو عمرو کو یہ حوالگی قبول کرنا چاہئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب فِي حُسْنِ الْقَضَاءِ
۱۱-باب: قرض کو بہتر طورپر اداکرنے کا بیان​


3346- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَكْرًا، فَجَائَتْهُ إِبِلٌ مِنَ الصَّدَقَةِ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَهُ، فَقُلْتُ: لَمْ أَجِدْ فِي الإِبِلِ إِلا جَمَلاً خِيَارًا رَبَاعِيًا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < أَعْطِهِ إِيَّاهُ، فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَائً >۔
* تخريج: م/البیوع ۴۳ (۱۶۰۰)، ت/البیوع ۷۵ (۱۳۱۸)، ن/البیوع ۶۲ (۴۶۲۱)، ق/التجارات ۶۲ (۲۲۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۲۵)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۴۳ (۸۹)، حم (۶/۳۹۰)، دي/البیوع ۳۱ (۲۶۰۷) (صحیح)
۳۳۴۶- ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چھوٹا اونٹ بطور قرض لیا پھر آپ کے پاس صدقہ کے اونٹ آئے تو آپ نے مجھے حکم دیاکہ ویسا ہی اونٹ آدمی کو لو ٹا دوں، میں نے ( آکر ) عرض کیا:مجھے کوئی ایسا اونٹ نہیں ملا سبھی اچھے، بڑے اور چھ برس کے ہیں، تونبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''اُسے اسی کو دے دو، لوگوں میں اچھے وہ ہیں جو قرض کی ادائیگی اچھی کریں''۔


3347- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ مُحَارِبِ [بْنِ دِثَارٍ] قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كَانَ لِي عَلَى النَّبِيِّ ﷺ دَيْنٌ، فَقَضَانِي وَزَادَنِي۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۵۹ (۴۴۳)، والوکالۃ ۸ (۲۳۰۹)، والاستقراض ۷ (۲۳۹۴)، والھبۃ ۳۲ (۳۶۰۳)، م/المسافرین ۱۱ (۷۱۵)، ن/البیوع ۵۱ (۴۵۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۹، ۳۰۲، ۳۱۹، ۳۶۳) (صحیح)
۳۳۴۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرا کچھ قرض نبی اکرم ﷺ پر تھا، تو آپ نے مجھے ادا کیا اور زیادہ کر کے دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر قرضدار اپنی خوشی سے بغیر کسی شرط کے زیادہ دے تو اس کے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي الصَّرْفِ
۱۲-باب: بیع صر ف کا بیان​


3348- حَدَّثَنَا [عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ] الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلا هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلا هَاءَ وَهَاءَ >۔
* تخريج: خ/البیوع ۵۴ (۲۱۳۴)، ۷۴ (۲۱۷۰)، ۷۶ (۲۱۷۴)، م/البیوع ۳۷ (۱۵۸۶)، ت/البیوع ۲۴ (۱۲۴۳)، ن/البیوع ۳۹ (۴۵۶۲)، ق/التجارات ۵۰ (۲۲۶۰، ۲۲۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۰)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۱۷ (۳۸)، حم (۱/۲۴، ۲۵، ۴۵)، دي/البیوع ۴۱ (۲۶۲۰) (صحیح)
۳۳۴۸- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سونا چاندی کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، گیہوں گیہوں کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، اور کھجور کھجور کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو،اور جو جو کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو''، (نقدا نقد ہونے کی صورت میں ان چیزوں میں سود نہیں ہے لیکن شرط یہ بھی ہے کہ برابر بھی ہوں) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سونا چاندی کو سونا چاندی کے بدلے میں نقدا بیچنا یہی بیع صرف ہے ،اس میں نقدا نقد ہونا ضروری ہے، ادھار درست نہیں۔


3349- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ تِبْرُهَا وَعَيْنُهَا، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ تِبْرُهَا وَعَيْنُهَا، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ مُدْيٌ بِمُدْيٍ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ مُدْيٌ بِمُدْيٍ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ مُدْيٌ بِمُدْيٍ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مُدْيٌ بِمُدْيٍ، فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى، وَلا بَأْسَ بِبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْفِضَّةِ وَالْفِضَّةُ أَكْثَرُهُمَا يَدًا بِيَدٍ، وَأَمَّا نَسِيئَةً فَلا، وَلا بَأْسَ بِبَيْعِ الْبُرِّ بِالشَّعِيرِ وَالشَّعِيرُ أَكْثَرُهُمَا يَدًا بِيَدٍ، وَأَمَّا نَسِيئَةً فَلا >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا [الْحَدِيثَ] سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ وَهِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ بِإِسْنَادِهِ ۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۱۵ (۱۵۸۷)، ت/ البیوع (۱۲۴۰)، ن/البیوع ۴۲ (۴۵۶۷)، ق/التجارات ۴۸ (۲۲۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۴، ۳۲۰) (صحیح)
۳۳۴۹- عبادہ بن صا مت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سونا سونے کے بدلے برابر برابر بیچو، ڈلی ہو یا سکہ، اور چاندی چاندی کے بدلے میں برابر برابر بیچو ڈلی ہو یا سکہ، اور گیہوں گیہوں کے بدلے برابر برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں، جو جو کے بدلے میں برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں، اسی طرح کھجور کھجور کے بدلے میں برابر برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں، نمک نمک کے بدلے میں برابر برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود دیا، سود لیا، سونے کو چاندی سے کمی وبیشی کے ساتھ نقدا نقد بیچنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن ادھار درست نہیں، اور گیہوں کو جو سے کمی وبیشی کے ساتھ نقدا نقد بیچنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ادھار بیچنا صحیح نہیں '' ۲؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کو سعید بن ابی عروبہ اور ہشام دستوائی نے قتادہ سے انہوں نے مسلم بن یسار سے اسی سند سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ''مد'': شام اور مصر کا ایک پیمانہ ہے، جو پندرہ مکوک کا ہوتا ہے، اور مکوک ڈیڑھ صاع کا ہوتا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : حاصل یہ ہے کہ جب جنس مختلف ہو تو کمی بیشی درست ہے مگر نقدا نقد ہونا ضروری ہے، ادھار درست نہیں۔


3350- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذَا الْخَبَرِ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، وَزَادَ: قَالَ: فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ، إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۸۹) (صحیح)
۳۳۵۰- عبا دہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث کچھ کمی و بیشی کے ساتھ روایت کی ہے، اس حدیث میں اتنا اضافہ ہے کہ جب صنف بد ل جائے (قسم مختلف ہو جائے) تو جس طرح چا ہو بیچو (مثلا سو نا چا ندی کے بدلہ میں گیہوں جو کے بد لہ میں)جب کہ وہ نقدا نقدہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب فِي حِلْيَةِ السَّيْفِ تُبَاعُ بِالدَّرَاهِمِ
۱۳-باب: تلوار کے قبضہ کو جس پر چا ندی مڑھی ہو ئی ہو درہم (چاندی کے سکے) سے بیچنا کیسا ہے؟​


3351- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْعَلائِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ عَامَ خَيْبَرَ بِقِلادَةٍ فِيهَا ذَهَبٌ وَخَرَزٌ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَابْنُ مَنِيعٍ: فِيهَا خَرَزٌ مُعَلَّقَةٌ بِذَهَبٍ ابْتَاعَهَا رَجُلٌ بِتِسْعَةِ دَنَانِيرَ أَوْ بِسَبْعَةِ دَنَانِيرَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا، حَتَّى تُمَيِّزَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ>، فَقَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ الْحِجَارَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا، حَتَّى تُمَيِّزَ بَيْنَهُمَا > قَالَ: فَرَدَّهُ حَتَّى مُيِّزَ بَيْنَهُمَا، وَقَالَ ابْنُ عِيسَى: أَرَدْتُ التِّجَارَةَ.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَانَ فِي كِتَابِهِ: < الْحِجَارَةُ > [فَغَيَّرَهُ فَقَالَ التِّجَارَةُ]۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۱۷ (۱۵۹۱)، ت/البیوع ۳۲ (۱۲۵۵)، ن/ البیوع ۴۶ (۴۵۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۹، ۲۱) (صحیح)
۳۳۵۱- فضا لہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: خیبر کے سال نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ہا ر لا یا گیا جس میں سو نے اور پتھر کے نگ( جڑے ہو ئے) تھے ابو بکر اور ابن منیع کہتے ہیں: اس میں پتھر کے دا نے سو نے سے آویز اں کئے گئے تھے، ایک شخص نے اسے نو یا سات دینا ر دے کر خریدا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''نہیں( یہ خریداری درست نہیں) یہاں تک کہ تم ان دونوں کو الگ الگ کر دو''،اس شخص نے کہا: میرا ارا دہ پتھر کے دانے ( نگ) لینے کا تھا( یعنی میں نے پتھر کے دانے کے دام دئے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا:''نہیں، یہ خریداری درست نہیں جب تک کہ تم دونوں کو علیحدہ نہ کر دو''،یہ سن کر اس نے ہا ر و اپس کر دیا، یہاں تک کہ سونا نگوں سے جداکر دیا گیا ۱؎ ۔
ابن عیسیٰ نے ''أَرَدْتُ التِّجَارَةَ '' کہا ہے۔
ابوداود کہتے ہیں:ان کی کتاب میں ''الْحِجَاْرَةُ'' ہی تھا مگر انہوں نے اسے بدل کر '' التِّجَاْرَةُ '' کردیا۔
وضاحت ۱؎ : اس بیع سے آپ نے اس لئے منع فرمایا کیونکہ سونے کے عوض جو دینار دئے گئے اس میں سونے کے بالمقابل دینار میں کمی بیشی کا خدشہ تھا۔


3352- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: اشْتَرَيْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ قِلادَةً بِاثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا فِيهَا ذَهَبٌ وَخَرَزٌ فَفَصَّلْتُهَا، فَوَجَدْتُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنِ اثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: < لا تُبَاعُ حَتَّى تُفَصَّلَ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۲۷) (صحیح)
۳۳۵۲- فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے خیبر کی لڑائی کے دن با رہ دینار میں ایک ہا ر خریدا جو سو نے اور نگینے کا تھا میں نے سو نا اور نگ الگ کئے تو اس میں مجھے سو نا (۱۲) دینار سے زیادہ کا ملا، پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، آپ ﷺ نے فرمایا:'' دونوں کو الگ الگ کئے بغیر بیچنا درست نہیں''۔


3353- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنِ الْجُلاحِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي حَنَشٌ الصَّنْعَانِيُّ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ خَيْبَرَ نُبَايِعُ الْيَهُودَ الأُوقِيَّةَ مِنَ الذَّهَبِ بِالدِّينَارِ، قَالَ غَيْرُ قُتَيْبَةَ: بِالدِّينَارَيْنِ وَالثَّلاثَةِ، ثُمَّ اتَّفَقَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلا وَزْنًا بِوَزْنٍ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۳۳۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۲۷) (صحیح)
۳۳۵۳- فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم خیبر کی لڑائی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہم یہود سے سونے کا اوقیہ دینار کے بدلے بیچتے خرید تے تھے(قتیبہ کے علاوہ دوسرے راویوں نے دو دینار اور تین دینار بھی کہے ہیں، پھر آگے کی بات میں دونوں راوی ایک ہو گئے ہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سو نے کو سو نے سے نہ بیچو جب تک کہ دونوں طرف وزن برابر نہ ہوں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب فِي اقْتِضَائِ الذَّهَبِ مِنَ الْوَرِقِ
۱۴-باب: چا ندی کے بدلے سونا لینا کیسا ہے؟​


3354- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ -الْمَعْنَى وَاحِدٌ- قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنْتُ أَبِيعُ الإِبِلَ بِالْبَقِيعِ، فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ، وَأَبِيعُ بِالدَّرَاهِمِ وَآخُذُ الدَّنَانِيرَ آخُذُ هَذِهِ مِنْ هَذِهِ، وَأُعْطِي هَذِهِ مِنْ هَذِهِ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! رُوَيْدَكَ أَسْأَلُكَ، إِنِّي أَبِيعُ الإِبِلَ بِالْبَقِيعِ، فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ، وَأَبِيعُ بِالدَّرَاهِمِ وَآخُذُ الدَّنَانِيرَ، آخُذُ هَذِهِ مِنْ هَذِهِ، وَأُعْطِي هَذِهِ مِنْ هَذِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَهَا بِسِعْرِ يَوْمِهَا، مَالَمْ تَفْتَرِقَا وَبَيْنَكُمَا شَيْئٌ >۔
* تخريج: ت/البیوع ۲۴ (۱۲۴۲)، ن/البیوع ۴۸ (۴۵۸۶)، ق/التجارات ۵۱ (۲۲۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۳، ۵۹، ۸۹، ۱۰۱، ۱۳۹)، دي/البیوع ۴۳ (۲۶۲۳) (ضعیف)
(اس کے راوی ''سماک مختلط ہوگئے تھے اور تلقین کو قبول کرلیتے تھے، ان کے ثقہ ساتھیوں نے اس کو ابن عمر رضی اللہ عنہما پر ہی موقوف کردیا ہے )
۳۳۵۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں بقیع میں اونٹ بیچا کر تا تھا، تو میں (اُسے)دینارسے بیچتا تھا اور اس کے بدلے درہم لیتا تھا اور درہم سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے دینار لیتا تھا، میں اسے اس کے بدلے میں اور اسے اس کے بدلے میں الٹ پلٹ کر لیتا دیتا تھا، پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا،آپ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تھے، میں نے کہا:اللہ کے رسول! ذرا سا میری عرض سن لیجئے :میں آپ سے پوچھتا ہوں: میں بقیع میں اونٹ بیچتا ہوں تو دینارسے بیچتا ہوں اور اس کے بدلے درہم لیتا ہوں اوردرہم سے بیچتا ہوں اوردینار لیتاہوں، یہ اس کے بدلے لے لیتا ہوں اور یہ اس کے بدلے،تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اگر اس دن کے بھا ئو سے ہو تو کوئی مضا ئقہ نہیں ہے جب تک تم دونوں جدا نہ ہوجاؤ اور حال یہ ہوکہ تم دونوں کے درمیان کوئی معاملہ باقی رہ گیا ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی تم دونوں میں سے ایک کا دوسرے کے ذمہ کچھ باقی ہو، بلکہ جدا ہونے سے پیشتر معاملہ صاف ہوجانا چاہئے ۔


3355- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، وَالأَوَّلُ أَتَمُّ، لَمْ يَذْكُرْ: < بِسِعْرِ يَوْمِهَا >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۳) (ضعیف)
۳۳۵۵- اس سند سے بھی سماک سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مر وی ہے،لیکن پہلی روایت زیا دہ مکمل ہے اس میں ''اس دن کے بھا ئو'' کا ذکر نہیں ہے۔
 
Top