32- بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي ذَلِكَ
۳۲-باب: بٹائی کی مما نعت کا بیان
3394 - حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَكْرِي أَرْضَهُ حَتَّى بَلَغَهُ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ الأَنْصَارِيَّ [حَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ] كَانَ يَنْهَى عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ، فَلَقِيَهُ عَبْدُاللَّهِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ خَدِيجٍ، مَاذَا تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي كِرَائِ الأَرْضِ؟ قَالَ رَافِعٌ لِعَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ: سَمِعْتُ عَمَّيَّ -وَكَانَا قَدْ شَهِدَا بَدْرًا- يُحَدِّثَانِ أَهْلَ الدَّارِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ، قَالَ عَبْدُاللَّهِ: وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّ الأَرْضَ تُكْرَى، ثُمَّ خَشِيَ عَبْدُاللَّهِ أَنْ يَكُونَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَحْدَثَ فِي ذَلِكَ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ عَلِمَهُ، فَتَرَكَ كِرَائَ الأَرْضِ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ أَيُّوبُ، وَعُبَيْدُاللَّهِ، وَكَثِيرُ بْنُ فَرْقَدٍ، وَمَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ رَافِعٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَرَوَاهُ الأَوْزَاعِيُّ عَنْ حَفْصِ بْنِ عِنَانٍ [الْحَنَفِيِّ]، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ رَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أَتَى رَافِعًا، فَقَالَ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَكَذَا قَالَ عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي النَّجَاشِيِّ، عَنْ رَافِعِ [بْنِ خَدِيجٍ] قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَلَيْهِ الصَّلاة وَالسَّلام، وَرَوَاهُ الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ أَبِي النَّجَاشِيِّ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ عَمِّهِ ظُهَيْرِ بْنِ رَافِعٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
[قَالَ أَبو دَاود: أَبُو النَّجَاشِيِّ عَطَائُ بْنُ صُهَيْبٍ]۔
* تخريج: خ/الحرث ۱۸ (۲۳۴۵)، م/البیوع ۱۷ (۱۵۴۷)، ن/المزارعۃ ۲ (۳۹۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۷۹، ۵۵۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۵، ۴/۱۴۰) (صحیح)
۳۳۹۴- سالم بن عبداللہ بن عمر نے خبردی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین بٹا ئی پر دیا کر تے تھے، پھر جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ را فع بن خدیج انصا ری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ زمین کو بٹا ئی پر دینے سے روکتے تھے، تو عبداللہ بن عمرؓ ان سے ملے، اور کہنے لگے: ابن خدیج !زمین کو بٹا ئی پر دینے کے سلسلے میں رسول اللہﷺ سے آپ کیا حدیث بیان کرتے ہیں؟ رافع رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر سے کہا :میں نے اپنے دونوں چچا ئوں سے سنا ہے اور وہ دونوں جنگ بدرمیں شریک تھے، وہ گھر والوںسے حدیث بیان کررہے تھے کہ رسول اللہﷺ نے زمین کو بٹا ئی پر دینے سے منع فر مایا ہے، عبداللہ بن عمر نے کہا :قسم اللہ کی ! میں رسول اللہﷺ کے زما نہ میں یہی جا نتا تھا کہ زمین بٹا ئی پر دی جا تی تھی، پھر عبداللہ کو خد شہ ہوا کہ اس دوران رسول اللہﷺ نے اس باب میں کوئی نیا حکم نہ صادر فرما دیا ہو اور ان کو پتہ نہ چل پا یا ہو، تو انہوں نے زمین کو بٹا ئی پر دینا چھو ڑ دیا۔
ابو داود کہتے ہیں کہ اسے ایو ب، عبیداللہ،کثیر بن فر قد اور مالک نے نا فع سے انہوں نے رافع رضی اللہ عنہ سے اوررافع نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔
ا ور اسے اوزاعی نے حفص بن عنان حنفی سے اور انہوں نے نافع سے اورنافع نے را فع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،رافع کہتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ۔
اوراسی طرح اسے زید بن ابی انیسہ نے حکم سے انہوں نے نا فع سے اورنافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ وہ رافع رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوران سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں۔
ایسے ہی عکرمہ بن عمار نے ابونجا شی سے اور انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے ۔
اور اسے اوزاعی نے ابونجاشی سے،انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے، رافع نے اپنے چچا ظہیر بن رافع سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: ابو نجا شی سے مراد عطاء بن صہیب ہیں۔
3395 - حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ قَالَ: كُنَّا نُخَابِرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَذَكَرَ أَنَّ بَعْضَ عُمُومَتِهِ أَتَاهُ فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَوَاعِيَةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْفَعُ لَنَا وَأَنْفَعُ، قَالَ: قُلْنَا: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ، وَلا يُكَارِيهَا بِثُلُثٍ وَلا بِرُبُعٍ، وَلا بِطَعَامٍ مُسَمًّى >۔
* تخريج: م/ البیوع ۱۸ (۱۵۴۸)، ن/المزارعۃ ۲ (۳۹۰۴، ۳۹۰۵، ۳۹۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۹،۱۵۵۷۰)، وقد أخرجہ: ط/کراء الأرض ۱ (۱)، حم (۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴۶۶) (صحیح)
۳۳۹۵- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے زما نہ میں (بٹائی پر )کھیتی با ڑی کا کام کر تے تھے تو (ایک بار) میرے ایک چچا آئے اورکہنے لگے کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے ایک کام سے منع فرما دیا ہے جس میں ہما را فائدہ تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطا عت ہما رے لئے مناسب اور زیادہ نفع بخش ہے، ہم نے کہا: وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ''جس کے پاس زمین ہوتوچا ہئے کہ وہ خود کاشت کرے،یا( اگرخود کاشت نہ کر سکتا ہو تو) اپنے کسی بھا ئی کو کاشت کروادے اور اسے تہا ئی یا چو تھائی یا کسی معین مقدارکے غلہ پر بٹائی نہ دے''۔
3396- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ أَنِّي سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، بِمَعْنَى إِسْنَادِ عُبَيْدِاللَّهِ وَحَدِيثِهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۹، ۱۵۵۷۰) (صحیح)
۳۳۹۶- ایو ب کہتے ہیں: یعلی بن حکیم نے مجھے لکھا کہ میں نے سلیما ن بن یسارسے عبید اللہ کی سند اور ان کی حدیث کے ہم معنی حدیث سنی ہے۔
3397 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: جَائَنَا أَبُو رَافِعٍ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أَمْرٍ كَانَ يَرْفُقُ بِنَا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِهِ أَرْفَقُ بِنَا، نَهَانَا أَنْ يَزْرَعَ أَحَدُنَا إِلا أَرْضًا يَمْلِكُ رَقَبَتَهَا، أَوْ مَنِيحَةً يَمْنَحُهَا رَجُلٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۳۳) (حسن)
( اگلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت حسن ہے ورنہ اس کے راوی '' ابن رافع '' مجہول ہیں )
۳۳۹۷- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہما رے پاس ابو رافع رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے پاس سے آئے اور کہنے لگے :رسول اللہﷺ نے ہمیں اس کام سے روک دیا ہے جو ہما رے لئے سود مند تھا،لیکن اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی فرماں بر داری ہما رے لئے اس سے بھی زیا دہ سو د مند ہے،آپ ﷺ نے ہمیں زراعت کرنے سے روک دیا ہے مگر ایسی زمین میںجس کے رقبہ و حدود کے ہم خود مالک ہوں یاجسے کوئی ہمیں(بلا معاوضہ و شرط) دے دے۔
3398- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّ أُسَيْدَ بْنَ ظُهَيْرٍ قَالَ: جَائَنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَنْهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْفَعُ لَكُمْ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَنْهَاكُمْ عَنِ الْحَقْلِ، وَقَالَ: < مَنِ اسْتَغْنَى عَنْ أَرْضِهِ فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ أَوْ لِيَدَعْ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَكَذَا رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَمُفَضَّلُ بْنُ مُهَلْهَلٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ [شُعْبَةُ]: أُسَيْدٌ ابْنُ أَخِي رَافِعِ بْنِ خَديِجٍ۔
* تخريج: ن/المزارعۃ ۲ (۳۸۹۴)، ق/الرھون ۱۰ (۲۴۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۹)، وقد أخرجہ: ط/ کراء الأرض ۱ (۱)، حم (۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴۶۶) (صحیح)
۳۳۹۸- اسید بن ظہیر کہتے ہیں:ہما رے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: رسول اللہﷺ تم کو ایک ایسے کام سے منع فرما رہے ہیں جس میں تمہارا فائدہ تھا، لیکن اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت تمہا رے لئے زیادہ سود مند ہے، رسول اللہﷺ تم کو حقل سے یعنی مزارعت سے روکتے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا: ''جو شخص اپنی زمین سے بے نیاز ہو یعنی جوتنے بونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تواسے چاہئے کہ وہ اپنی زمین اپنے کسی بھا ئی کو (مفت) دے دے یا اسے یوں ہی چھوڑے رکھے''۔
ابو داود کہتے ہیں: اسی طرح سے شعبہ اور مفضل بن مہلہل نے منصور سے روایت کیا ہے شعبہ کہتے ہیں: اسید رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہیں۔
3399 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْخَطْمِيُّ، قَالَ: بَعَثَنِي عَمِّي أَنَا وَغُلامًا لَهُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ: فَقُلْنَا لَهُ: شَيْئٌ بَلَغَنَا عَنْكَ فِي الْمُزَارَعَةِ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ لا يَرَى بِهَا بَأْسًا، حَتَّى بَلَغَهُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ، فَأَتَاهُ فَأَخْبَرَهُ رَافِعٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَتَى بَنِي حَارِثَةَ فَرَأَى زَرْعًا فِي أَرْضِ ظُهَيْرٍ، فَقَالَ: <مَا أَحْسَنَ زَرْعَ ظُهَيْرٍ >! قَالُوا: لَيْسَ لِظُهَيْرٍ، قَالَ: < أَلَيْسَ أَرْضُ ظُهَيْرٍ؟ > قَالُوا: بَلَى، وَلَكِنَّهُ زَرْعُ فُلانٍ، قَالَ: <فَخُذُوا زَرْعَكُمْ وَرُدُّوا عَلَيْهِ النَّفَقَةَ >، قَالَ رَافِعٌ: فَأَخَذْنَا زَرْعَنَا وَرَدَدْنَا إِلَيْهِ النَّفَقَةَ، قَالَ سَعِيدٌ: أَفْقِرْ أَخَاكَ، أَوْأَكْرِهِ بِالدَّرَاهِمِ۔
* تخريج: ن/المزارعۃ ۲ (۳۹۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۸) (صحیح الإسناد)
۳۳۹۹- ابو جعفر خطمی کہتے ہیں: میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک غلام کو سعید بن مسیب کے پاس بھیجا،توہم نے ان سے کہا : مز ارعت کے سلسلے میں آپ کے واسطہ سے ہمیں ایک خبر ملی ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مزارعت میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیث پہنچی تو وہ ( برا ہ راست) ان کے پاس معلوم کر نے پہنچ گئے، رافع رضی اللہ عنہ نے انہیں بتا یا کہ رسول اللہﷺ بنو حا رثہ کے پاس آئے تو وہاں ظہیر کی زمین میں کھیتی دیکھی، تو فرمایا: ''( ماشا ء اللہ) ظہیر کی کھیتی کتنی اچھی ہے''، لوگوں نے کہا: یہ ظہیر کی نہیں ہے، آپ ﷺ نے پوچھا:'' کیا یہ زمین ظہیر کی نہیں ہے؟''، لوگوں نے کہا : ہاں زمین تو ظہیر کی ہے لیکن کھیتی فلاں کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا :'' اپنا کھیت لے لو اور کھیتی کرنے والے کو اس کے اخراجات اور مزدوری دے دو''، رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ( یہ سن کر) ہم نے اپنا کھیت لے لیا اور جس نے جوتا بو یا تھا اس کا نفقہ (اخرا جات و محنتا نہ ) اسے دے دیا۔
سعیدبن مسیب نے کہا: (اب دو صورتیں ہیں) یا تو اپنے بھائی کو زمین زراعت کے لئے عاریتہ دے دو( اس سے پیداوار کا کوئی حصہ وغیرہ نہ مانگو ) یا پھردر ہم کے عوض زمین کو کرایہ پر دو(یعنی نقد روپیہ اس سے طے کر لو)۔
3400 - حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا طَارِقُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ، وَقَالَ: < إِنَّمَا يَزْرَعُ ثَلاثَةٌ: رَجُلٌ لَهُ أَرْضٌ، فَهُوَ يَزْرَعُهَا، وَرَجُلٌ مُنِحَ أَرْضًا فَهُوَ يَزْرَعُ مَا مُنِحَ، وَرَجُلٌ اسْتَكْرَى أَرْضًا بِذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ >۔
* تخريج: ن/ المزارعۃ ۲ (۳۹۲۱)، التجارات ۵۴ (۲۶۶۷)، ق/الرھون ۷ (۲۴۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۷)، وقد أخرجہ: ط/ کراء الأرض ۱ (۱) حم (۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴۶۶) (صحیح)
۳۴۰۰- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے محاقلہ اور مز ابنہ سے منع کیاہے ۱؎ اور فرمایا: ''زراعت تین طرح کے لوگ کرتے ہیں : (۱) ایک وہ شخص جس کی اپنی ذاتی زمین ہو تووہ اس میں کھیتی کرتا ہے، (۲)دوسرا وہ شخص جسے عاریۃً ( بلا معا وضہ) زمین دے دی گئی ہو تو وہ دی ہو ئی زمین میں کھیتی کرتاہے،(۳) تیسرا وہ شخص جس نے سونا چاندی(نقد) دے کر زمین کرایہ پر لی ہو''۔
وضاحت ۱؎ : محاقلہ سے مراد یہاں مزار عہ ( بٹا ئی) پر دینا ہے اور مزابنہ سے مرادیہ ہے کہ درخت پرلگے کھجور یا انگو ر کا اندا زہ کر کے اسے خشک کھجور یا انگور کے بدلے بیچنا۔
3401 - [قَالَ أَبو دَاود]: قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيِّ، قُلْتُ [لَهُ]: حَدَّثَكُمُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَعِيدٍ أَبِي شُجَاعٍ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ سَهْلِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: إِنِّي لَيَتِيمٌ فِي حِجْرِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَحَجَجْتُ مَعَهُ فَجَائَهُ أَخِي عِمْرَانُ بْنُ سَهْلٍ، فَقَالَ: أَكْرَيْنَا أَرْضَنَا فُلانَةَ بِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَقَالَ: دَعْهُ؛ فَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ۔
* تخريج: ن/المزارعۃ ۳ (۳۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۶۹) (شاذ)
(اس کے راوی ''عثمان ''(جن کا صحیح نام ''عیسیٰ ''ہے )لین الحدیث ہیں، اس میں شذوذ یہ ہے کہ اس میں مطلق زمین کرایہ پر دینے کی بات ہے، حالانکہ ابو رافع سے سونا چاندی اور درہم و دینار کے بدلے کرایہ پر دینے کی اجازت مروی ہے )
۳۴۰۱- عثمان بن سہل بن رافع بن خدیج کہتے ہیں : میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش ایک یتیم تھا،میں نے ان کے ساتھ حج کیاتو میرے بھا ئی عمران بنسہل ان کے پاس آ ئے اور کہنے لگے: ہم نے اپنی زمین دوسو درہم کے بدلے فلاں شخص کو کرا یہ پر دی ہے، تو انہوں نے(رافع نے) کہا :اسے چھو ڑ دو ( یعنی یہ معاملہ ختم کرلو) کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے زمین کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔
3402 - حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا بُكَيْرٌ -يَعْنِي ابْنَ عَامِرٍ- عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، حَدَّثَنِي رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّهُ زَرَعَ أَرْضًا فَمَرَّ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ وَهُوَ يَسْقِيهَا فَسَأَلَهُ: < لِمَنِ الزَّرْعُ؟ وَلِمَنِ الأَرْضُ؟ > فَقَالَ: زَرْعِي بِبَذْرِي وَعَمَلِي، لِيَ الشَّطْرُ وَلِبَنِي فُلانٍ الشَّطْرُ، فَقَالَ: < أَرْبَيْتُمَا، فَرُدَّ الأَرْضَ عَلَى أَهْلِهَا وَخُذْ نَفَقَتَكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۶۸) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''بکیر بن عامر '' ضعیف ہیں )
۳۴۰۲- ابن ابی نعم سے روایت ہے کہ مجھ سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ انہوں نے ایک زمین میں کھیتی کی تو نبی اکرم ﷺ کا وہاں سے گز ر ہوا اور وہ اس میں پانی دے رہے تھے، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا :'' کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی؟''، تو انہوں کہا: میری کھیتی میرے بیج سے ہے اور محنت بھی میری ہے نصف پیداوار مجھے ملے گی اور نصف پیداوار فلاں شخص کو(جوزمین کا مالک ہے) آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم دونوں نے ربا کیا ( یعنی یہ عقد ناجائز ہے) زمین اس کے مالک کو لو ٹا دو، اور تم اپنے خر چ اور اپنی محنت کی اجرت لے لو''۔
33- بَاب فِي زَرْعِ الأَرْضِ بِغَيْرِ إِذْنِ صَاحِبِهَا
۳۳-باب: زمین کے مالک کی اجازت کے بغیر زمین میں کھیتی کر نے کا بیان
3403- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ زَرَعَ فِي أَرْضِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، فَلَيْسَ لَهُ مِنَ الزَّرْعِ شَيْئٌ، وَلَهُ نَفَقَتُهُ >۔
* تخريج: ت/الأحکام ۲۹ (۱۳۶۶)، ق/الرھون ۱۳ (۲۴۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۵، ۴/۱۴۱) (صحیح)
۳۴۰۳- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے دوسرے لوگوں کی زمین میں بغیر ان کی اجا زت کے کاشت کی تو اسے کاشت میں سے کچھ نہیں ملے گا صرف اس کاخرچ ملے گا''۔