• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26- بَاب فِي بَيْعِ الْمُضْطَرِّ
۲۶-باب: لا چا ر و مجبو ر ہوکر بیع کرنا کیسا ہے؟​


3382- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ عَامِرٍ [قَالَ أَبودَاود]: كَذَا قَالَ مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا شَيْخٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، أَوْ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ، قَالَ ابْنُ عِيسَى: هَكَذَا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ يَعَضُّ الْمُوسِرُ عَلَى مَا فِي يَدَيْهِ، وَلَمْ يُؤْمَرْ بِذَلِكَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَلا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ} وَيُبَايِعُ الْمُضْطَرُّونَ، وَقَدْ نَهَى النَّبِيُّ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْمُضْطَرِّ، وَبَيْعِ الْغَرَرِ، وَبَيْعِ الثَّمَرَةِ قَبْلَ أَنْ تُدْرِكَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۱۶) (ضعیف)
(اس کے راوی '' شیخ من بنی تمیم '' مبہم ہیں )
۳۳۸۲- بنو تمیم کے ایک شیخ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا، یافرمایا: عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا، جو کا ٹ کھانے والا ہو گا، مالدار اپنے مال کو دانتوں سے پکڑے رہے گا ( کسی کو نہ دے گا) حالا نکہ اسے ایسا حکم نہیں دیا گیا ہے اللہ تعالی نے فرمایا ہے{وَلا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ} ۱؎ مجبور و پریشاں حال اپنا مال بیچیں گے حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے لاچارومجبور کا مال خریدنے سے اور دھو کے کی بیع سے روکا ہے، اور پھل کے پکنے سے پہلے اسے بیچنے سے روکا ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''اللہ کے فضل بخشش و انعام کو نہ بھولویعنی مال کو خر چ کرو'' (سورۃ البقرۃ : ۲۳۸)
وضاحت ۲؎ : یعنی ضرورت مند کے مال کو سستا خریدنے سے یازبردستی کسی کامال خریدنے سے اوردھوکہ کی بیع سے اورپختگی سے پہلے پھل بیچنے سے منع کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب فِي الشَّرِكَةِ
۲۷-باب: تجارت میں شرا کت کا بیان​


3383- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَفَعَهُ، قَالَ: < إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: أَنَا ثَالِثُ الشَّرِيكَيْنِ، مَا لَمْ يَخُنْ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَإِذَا خَانَهُ خَرَجْتُ مِنْ بَيْنِهِمَا >.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۳۹) (ضعیف)
(ابو حیان تیمی مجہول ہیں، ابن الزبرقان نے ابوہریرہؓ کا ذکر کیاہے، دار قطنی (۳۰۳) میں اور جریر نے ابوہریرہؓ کا ذکر نہیں کیاہے، ملاحظہ ہو: التلخیص الحبیر،و الارواء ۱۴۶۸)
۳۳۸۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالی فرما تا ہے: میں دو شریکوں کا تیسرا ہوں جب تک کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ خیا نت نہ کرے،اور جب کوئی اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت کرتاہے تو میں ان کے درمیان سے ہٹ جا تا ہوں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28- بَاب فِي الْمُضَارِبِ يُخَالِفُ
۲۸-باب: مضارِب (وکیل) ایسا تصرف کرے جس سے مالک کو فائدہ ہو ۱؎​


3384 - حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، حَدَّثَنِي الْحَيُّ، عَنْ عُرْوَةَ -يَعْنِي [ابْنَ أَبِي الْجَعْدِ] الْبَارِقِيَّ- قَالَ: أَعْطَاهُ النَّبِيُّ ﷺ دِينَارًا يَشْتَرِي بِهِ أُضْحِيَّةً أَوْ شَاةً، فَاشْتَرَى شَاتَيْنِ، فَبَاعَ إِحْدَاهُمَا بِدِينَارٍ، فَأَتَاهُ بِشَاةٍ وَدِينَارٍ، فَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ فِي بَيْعِهِ، كَانَ لَوِ اشْتَرَى تُرَابًا لَرَبِحَ فِيهِ۔
* تخريج: خ/المناقب ۲۸ (۳۶۴۲)، ت/البیوع ۳۴ (۱۲۵۸)، ق/الاحکام ۷ (۲۴۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۷۵، ۳۷۶) (صحیح)
۳۳۸۴- عر وہ بن ابی الجعد با رقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرم ﷺ نے انہیں قر بانی کا جانور یا بکری خریدنے کے لئے ایک دینا ر دیا تو انہوں نے دو بکریاں خریدیں، پھرایک بکری ایک دینار میں بیچ دی، اور ایک دینار اور ایک بکری لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان کی خرید وفروخت میں بر کت کی دعا فرما ئی ( اس دعا کے بعد) ان کا حال یہ ہو گیا تھا کہ اگر وہ مٹی بھی خرید لیتے تواس میں بھی نفع کما لیتے۔
وضاحت ۱؎ : مضاربت ایسے معاملے کو کہتے ہیں جس میں ایک آدمی کا پیسہ ہو اور دوسرے کی محنت، پیسے والے کو مضارَب اور محنت والے کو مضارِب کہتے ہیں ۔


3385- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، هُوَ أَخُو حَمَّادِ ابْنِ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ الْخِرِّيتِ، عَنْ أَبِي لَبِيدٍ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ الْبَارِقِيُّ بِهَذَا الْخَبَرِ، وَلَفْظُهُ مُخْتَلِفٌ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۸) (صحیح)
۳۳۸۵- اس سند سے بھی عروہ با رقی سے یہی حدیث مروی ہے اور اس کے الفاظ مختلف ہیں۔


3386- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي أَبُو حُصَيْنٍ، عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ مَعَهُ بِدِينَارٍ يَشْتَرِي لَهُ أُضْحِيَّةً، فَاشْتَرَاهَا بِدِينَارٍ، وَبَاعَهَا بِدِينَارَيْنِ، فَرَجَعَ فَاشْتَرَى لَهُ أُضْحِيَّةً بِدِينَارٍ، وَجَاءَ بِدِينَارٍ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَتَصَدَّقَ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ وَدَعَا لَهُ أَنْ يُبَارَكَ لَهُ فِي تِجَارَتِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۳۸)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۳۴ (۱۲۵۷) (ضعیف)
(اس کے ایک راوی ''شیخ من أہل المدینہ '' مبہم ہیں )
۳۳۸۶- حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک دینار دے کر بھیجا کہ وہ آپ کے لئے ایک قربانی کا جانور خرید لیں، انہوں نے قربانی کا جا نور ایک دینار میں خریدا اوراُسے دو دینار میں بیچ دیا پھر لو ٹ کرقر بانی کا ایک جانور ایک دینا ر میں خریدا اور ایک دینار بچا کرنبی اکرم ﷺ کے پاس لے آ ئے تو آپ ﷺ نے اسے صدقہ کردیا اور ان کے لئے ان کی تجارت میں بر کت کی دعا کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29- بَاب فِي الرَّجُلِ يَتَّجِرُ فِي مَالِ الرَّجُلِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ
۲۹-باب: آدمی مالک کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے تجا رت کرے اس کے حکم کا بیان​


3387- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ، أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ مِثْلَ صَاحِبِ فَرْقِ الأَرُزِّ فَلْيَكُنْ مِثْلَهُ > قَالُوا: وَمَنْ صَاحِبُ فَرْقِ الأَرُزِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَذَكَرَ حَدِيثَ الْغَارِ حِينَ سَقَطَ عَلَيْهِمُ الْجَبَلُ، فَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمُ: اذْكُرُوا أَحْسَنَ عَمَلِكُمْ، قَالَ: وَقَالَ الثَّالِثُ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرْقِ أَرُزٍّ، فَلَمَّا أَمْسَيْتُ عَرَضْتُ عَلَيْهِ حَقَّهُ فَأَبَى أَنْ يَأْخُذَهُ وَذَهَبَ فَثَمَّرْتُهُ لَهُ حَتَّى جَمَعْتُ لَهُ بَقَرًا وَرِعَائَهَا فَلَقِيَنِي، فَقَالَ: أَعْطِنِي حَقِّي، فَقُلْتُ: اذْهَبْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ وَرِعَائِهَا فَخُذْهَا، فَذَهَبَ فَاسْتَاقَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۷۹)، وقد أخرجہ: خ/الإجارۃ ۱۲ (۲۲۷۲)، المزارعۃ ۱۳ (۲۳۳۳)، أحادیث الأنبیاء ۵۳ (۳۴۶۵)، الأدب ۸۳ (۶۱۳۳)، م/الذکر ۲۷ (۲۷۴۳)، حم (۲/۱۱۶)
(اصل حدیث صحیحین میں مفصلا ہے مذکور، اس حدیث کا ابتدائی فقرہ ''من استطاع....'' یا رسول اللہ منکر ہے)
۳۳۸۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تیسنا :''جو شخص ایک فرق ۱؎ چا ول والے کے مثل ہو سکے تو ہو جائے''، لوگوں نے پوچھا:ایک فرق چاول والا کون ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ ﷺ نے غار کی حدیث بیان کی جب ان پرچٹان گر پڑی تھی تو ان میں سے ہر ایک شخص نے اپنے اپنے اچھے کاموں کا ذکر کرکے اللہ سے چٹان ہٹنے کی دعا کرنے کی بات کہی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تیسرے شخص نے کہا :اے اللہ! تو جانتا ہے میں نے ایک مزدور کو ایک فرق چاول کے بدلے مز دوری پر رکھا، شام ہو ئی میں نے اسے اس کی مز دوری پیش کی تو اس نے نہ لی، اور چلا گیا، تو میں نے اسے اس کے لئے پھل داربنایا، ( بو یا اور بڑھا یا )یہاں تک کہ اس سے میں نے گائیں اور ان کے چرواہے بڑھالئے، پھر وہ مجھے ملا اور کہا: مجھے میرا حق (مزدوری) دے دو، میں نے اس سے کہا: ان گایوں بیلوں اور ان کے چرواہوں کو لے جائو تو وہ گیا اورانہیں ہانک لے گیا''۔
وضاحت ۱؎ : فرق : سولہ(۱۶) رطل کاایک پیمانہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب فِي الشَّرِكَةِ عَلَى غَيْرِ رَأْسِ مَالٍ
۳۰-باب: بغیر سرمایہ لگا ئے شرکت کر نے کا بیان​


3388- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: اشْتَرَكْتُ أَنَا وَعَمَّارٌ وَسَعْدٌ فِيمَا نُصِيبُ يَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ: فَجَاءَ سَعْدٌ بِأَسِيرَيْنِ وَلَمْ أَجِئْ أَنَا وَعَمَّارٌ بِشَيْئٍ۔
* تخريج: ن/الأیمان والنذور ۴۷ (۳۹۶۹)، البیوع ۱۰۳ (۴۷۰۱)، ق/التجارات ۶۳ (۲۲۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۱۶) (ضعیف)
(ابوعبیدہ کا اپنے والدعبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے )
۳۳۸۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں، عما راور سعدتینوں نے بد ر کے دن حاصل ہونے والے مال غنیمت میں حصے کا معاملہ کیا تو سعد دو قیدی لے کرا ٓئے اور میں اور عمار کچھ نہ لائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31- بَاب فِي الْمُزَارَعَةِ
۳۱-باب: مزارعت یعنی بٹا ئی پر زمین دینے کا بیان ۱؎​


3389- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: مَا كُنَّا نَرَى بِالْمُزَارَعَةِ بَأْسًا، حَتَّى سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْهَا، فَذَكَرْتُهُ لِطَاوُوسٍ، فَقَالَ: قَالَ [لِي] ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمْ يَنْهَ عَنْهَا، وَلَكِنْ قَالَ: < لأَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَرْضَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ [عَلَيْهَا] خَرَاجًا مَعْلُومًا >۔
* تخريج: خ/ الحرث والمزارعۃ ۱۰ (۲۳۳۰)، الہبۃ ۳۵ (۲۶۳۴)، م/البیوع ۲۱ (۱۵۴۷)، ن/ المزارعۃ ۲ (۳۹۲۷، ۳۹۲۸) ق/الرھون ۷ (۲۴۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۵، ۳۵۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۴، ۲/۱۱، ۴۶۳، ۴۶۵، ۴/۱۴۲) (صحیح)
۳۳۸۹- عمروبن دینار کہتے ہیں میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ ہم مزارعت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما یا ہے، میں نے طائوس سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اس سے نہیں روکا ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی کسی کو اپنی زمین یونہی بغیر کسی معاوضہ کے دے دے تو یہ کوئی متعین محصول (لگان ) لگا کر دینے سے بہتر ہے۔
وضاحت ۱؎ : مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اور بٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہونے والے غلہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ ان دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امر کے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپئے پیسے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اور مزارعت کی وہ شکل جو شرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس کی حدیث نمبر (۳۳۹۲) میں مذکور ہے۔


3390 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ -الْمَعْنَى- عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَا وَاللَّهِ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْهُ، إِنَّمَا أَتَاهُ رَجُلانِ، قَالَ مُسَدَّدٌ: مِنَ الأَنْصَارِ، ثُمَّ اتَّفَقَا: قَدِ اقْتَتَلا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنْ كَانَ هَذَا شَأْنَكُمْ فَلا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ >، زَادَ مُسَدَّدٌ: فَسَمِعَ قَوْلَهُ: < لا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ > ۔ ۱؎
* تخريج: ن/ المزارعۃ ۳ (۳۹۵۹)، ق/الرھون ۱۰ (۲۴۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۸۲، ۱۸۷) (ضعیف)
( اس کے راوی ’’ابوعبیدہ ‘‘ اور ولید بن ابی الولید لین الحدیث ہیں )
وضاحت ۱؎ : ابن ماجہ کی حدیث پر صحیح کا حکم ہے تفصیل مذکورہ حدیث نمبر پر ملاحظہ فرمائیں۔
۳۳۹۰- عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معا ف فرما ئے قسم اللہ کی میں اس حدیث کو ان سے زیادہ جانتا ہوں( واقعہ یہ ہے کہ) آپ ﷺ کے پاس انصار کے دو آدمی آئے، پھر وہ دونوں جھگڑ بیٹھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اگر تمہیں ایسے ہی (یعنی لڑ تے جھگڑتے)رہنا ہے توکھیتوں کو بٹائی پر نہ دیا کرو‘‘۔
مسدد کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے آپ کی اتنی ہی بات سنی کہ زمین بٹائی پر نہ دیا کرو (موقع و محل اور انداز گفتگو پر دھیان نہیں دیا)۔


3391 - حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِكْرِمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ [بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ]، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَبِيبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَعْدٍ قَالَ: كُنَّا نُكْرِي الأَرْضَ بِمَا عَلَى السَّوَاقِي مِنَ الزَّرْعِ وَمَا سَعِدَ بِالْمَائِ مِنْهَا، فَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ ذَلِكَ، وَأَمَرَنَا أَنْ نُكْرِيَهَا بِذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ۔
* تخريج: ن/ المزارعۃ ۲ (۳۹۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷۸، ۱۸۲)، دی/ البیوع ۷۵ (۲۶۶۰) (حسن)
۳۳۹۱- سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم زمین کو کرا یہ پر کھیتی کی نالیوں اور سہولت سے پا نی پہنچنے والی جگہوں کی پیداوار کے بدلے دیا کر تے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس سے منع فر ما دیا اور سو نے چا ندی ( سکّوں ) کے بدلے میں دینے کا حکم دیا۔


3392- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ (ح) وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ابْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، كِلاهُمَا عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَاللَّفْظُ لِلأَوْزَاعِيِّ، حَدَّثَنِي حَنْظَلَةُ بْنُ قَيْسٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، فَقَالَ: لا بَأْسَ بِهَا، إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِمَا عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ وَأَشْيَاءَ مِنَ الزَّرْعِ، فَيَهْلَكُ هَذَا وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلَكُ هَذَا، وَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَائٌ إِلا هَذَا، فَلِذَلِكَ زَجَرَ عَنْهُ، فَأَمَّا شَيْئٌ مَضْمُونٌ مَعْلُومٌ فَلا بَأْسَ بِهِ.
وَحَدِيثُ إِبْرَاهِيمَ أَتَمُّ، وَقَالَ قُتَيْبَةُ: عَنْ حَنْظَلَةَ عَنْ رَافِعٍ.
قَالَ أَبو دَاود: رِوَايَةُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَنْظَلَةَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: خ/الحرث ۷ (۲۳۲۷)، ۱۳ (۲۳۳۳)، ۱۹ (۲۳۴۶)، الشروط ۷ (۲۷۲۲)، م/البیوع ۱۹ (۱۵۴۷)، ن/المزارعۃ ۲ (۳۹۳۰، ۳۹۳۱، ۳۹۳۲، ۳۹۳۳)، ق/الرھون ۹ (۲۴۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۳)، وقد أخرجہ: ط/کراء الأرض ۱ (۱)، حم (۳/۴۶۳، ۴/۱۴۰، ۱۴۲) (صحیح)
۳۳۹۲- حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں: مین نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سونے چا ندی کے بدلے زمین کرا یہ پر دینے کے با رے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لوگ رسول اللہ ﷺ کے زما نہ میں اجرت پر لینے دینے کا معاملہ کر تے تھے پا نی کی نا لیوں، نالوں کے سروں اور کھیتی کی جگہوں کے بدلے ( یعنی ان جگہوں کی پیداوار میں لوں گا) تو کبھی یہ برباد ہوجاتا اور وہ محفوظ رہتا اور کبھی یہ محفوظ رہتا اور وہ بر باد ہو جا تا، اس کے سوا کرا یہ کا اور کوئی طریقہ رائج نہ تھااس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمادیا، اوررہی محفوظ اور مامون صورت تواس میں کوئی حرج نہیں ۔
ابراہیم کی حدیث مکمل ہے اور قتیبہ نے ’’عَنْ حَنْظَلَةَ عَنْ رَافِعٍ‘‘ کہا ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید کی روایت جسے انھوں نے حنظلہ سے روایت کیا ہے اسی طرح ہے۔


3393- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ أَنَّهُ سَأَلَ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ، فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ، فَقَالَ: أَبِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ؟ فَقَالَ: أَمَّا بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ فَلا بَأْسَ بِهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۳) (صحیح)
۳۳۹۳- حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو کرایہ پر دینے کے بار ے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے زمین کرایہ پر ( کھیتی کے لئے) دینے سے منع فرمایا ہے، تو میں نے پوچھا: سونے اور چاندی کے بدلے کرا یہ کی بات ہو تو ؟ توانہوں نے کہا:رہی بات سونے اور چاندی سے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32- بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي ذَلِكَ
۳۲-باب: بٹائی کی مما نعت کا بیان​


3394 - حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَكْرِي أَرْضَهُ حَتَّى بَلَغَهُ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ الأَنْصَارِيَّ [حَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ] كَانَ يَنْهَى عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ، فَلَقِيَهُ عَبْدُاللَّهِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ خَدِيجٍ، مَاذَا تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي كِرَائِ الأَرْضِ؟ قَالَ رَافِعٌ لِعَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ: سَمِعْتُ عَمَّيَّ -وَكَانَا قَدْ شَهِدَا بَدْرًا- يُحَدِّثَانِ أَهْلَ الدَّارِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ، قَالَ عَبْدُاللَّهِ: وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّ الأَرْضَ تُكْرَى، ثُمَّ خَشِيَ عَبْدُاللَّهِ أَنْ يَكُونَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَحْدَثَ فِي ذَلِكَ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ عَلِمَهُ، فَتَرَكَ كِرَائَ الأَرْضِ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ أَيُّوبُ، وَعُبَيْدُاللَّهِ، وَكَثِيرُ بْنُ فَرْقَدٍ، وَمَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ رَافِعٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَرَوَاهُ الأَوْزَاعِيُّ عَنْ حَفْصِ بْنِ عِنَانٍ [الْحَنَفِيِّ]، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ رَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أَتَى رَافِعًا، فَقَالَ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَكَذَا قَالَ عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي النَّجَاشِيِّ، عَنْ رَافِعِ [بْنِ خَدِيجٍ] قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَلَيْهِ الصَّلاة وَالسَّلام، وَرَوَاهُ الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ أَبِي النَّجَاشِيِّ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ عَمِّهِ ظُهَيْرِ بْنِ رَافِعٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
[قَالَ أَبو دَاود: أَبُو النَّجَاشِيِّ عَطَائُ بْنُ صُهَيْبٍ]۔
* تخريج: خ/الحرث ۱۸ (۲۳۴۵)، م/البیوع ۱۷ (۱۵۴۷)، ن/المزارعۃ ۲ (۳۹۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۷۹، ۵۵۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۵، ۴/۱۴۰) (صحیح)
۳۳۹۴- سالم بن عبداللہ بن عمر نے خبردی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین بٹا ئی پر دیا کر تے تھے، پھر جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ را فع بن خدیج انصا ری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ زمین کو بٹا ئی پر دینے سے روکتے تھے، تو عبداللہ بن عمرؓ ان سے ملے، اور کہنے لگے: ابن خدیج !زمین کو بٹا ئی پر دینے کے سلسلے میں رسول اللہﷺ سے آپ کیا حدیث بیان کرتے ہیں؟ رافع رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر سے کہا :میں نے اپنے دونوں چچا ئوں سے سنا ہے اور وہ دونوں جنگ بدرمیں شریک تھے، وہ گھر والوںسے حدیث بیان کررہے تھے کہ رسول اللہﷺ نے زمین کو بٹا ئی پر دینے سے منع فر مایا ہے، عبداللہ بن عمر نے کہا :قسم اللہ کی ! میں رسول اللہﷺ کے زما نہ میں یہی جا نتا تھا کہ زمین بٹا ئی پر دی جا تی تھی، پھر عبداللہ کو خد شہ ہوا کہ اس دوران رسول اللہﷺ نے اس باب میں کوئی نیا حکم نہ صادر فرما دیا ہو اور ان کو پتہ نہ چل پا یا ہو، تو انہوں نے زمین کو بٹا ئی پر دینا چھو ڑ دیا۔
ابو داود کہتے ہیں کہ اسے ایو ب، عبیداللہ،کثیر بن فر قد اور مالک نے نا فع سے انہوں نے رافع رضی اللہ عنہ سے اوررافع نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔
ا ور اسے اوزاعی نے حفص بن عنان حنفی سے اور انہوں نے نافع سے اورنافع نے را فع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،رافع کہتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ۔
اوراسی طرح اسے زید بن ابی انیسہ نے حکم سے انہوں نے نا فع سے اورنافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ وہ رافع رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوران سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں۔
ایسے ہی عکرمہ بن عمار نے ابونجا شی سے اور انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے ۔
اور اسے اوزاعی نے ابونجاشی سے،انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے، رافع نے اپنے چچا ظہیر بن رافع سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: ابو نجا شی سے مراد عطاء بن صہیب ہیں۔


3395 - حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ قَالَ: كُنَّا نُخَابِرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَذَكَرَ أَنَّ بَعْضَ عُمُومَتِهِ أَتَاهُ فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَوَاعِيَةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْفَعُ لَنَا وَأَنْفَعُ، قَالَ: قُلْنَا: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ، وَلا يُكَارِيهَا بِثُلُثٍ وَلا بِرُبُعٍ، وَلا بِطَعَامٍ مُسَمًّى >۔
* تخريج: م/ البیوع ۱۸ (۱۵۴۸)، ن/المزارعۃ ۲ (۳۹۰۴، ۳۹۰۵، ۳۹۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۹،۱۵۵۷۰)، وقد أخرجہ: ط/کراء الأرض ۱ (۱)، حم (۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴۶۶) (صحیح)
۳۳۹۵- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے زما نہ میں (بٹائی پر )کھیتی با ڑی کا کام کر تے تھے تو (ایک بار) میرے ایک چچا آئے اورکہنے لگے کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے ایک کام سے منع فرما دیا ہے جس میں ہما را فائدہ تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطا عت ہما رے لئے مناسب اور زیادہ نفع بخش ہے، ہم نے کہا: وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ''جس کے پاس زمین ہوتوچا ہئے کہ وہ خود کاشت کرے،یا( اگرخود کاشت نہ کر سکتا ہو تو) اپنے کسی بھا ئی کو کاشت کروادے اور اسے تہا ئی یا چو تھائی یا کسی معین مقدارکے غلہ پر بٹائی نہ دے''۔


3396- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ أَنِّي سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، بِمَعْنَى إِسْنَادِ عُبَيْدِاللَّهِ وَحَدِيثِهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۹، ۱۵۵۷۰) (صحیح)
۳۳۹۶- ایو ب کہتے ہیں: یعلی بن حکیم نے مجھے لکھا کہ میں نے سلیما ن بن یسارسے عبید اللہ کی سند اور ان کی حدیث کے ہم معنی حدیث سنی ہے۔


3397 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: جَائَنَا أَبُو رَافِعٍ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أَمْرٍ كَانَ يَرْفُقُ بِنَا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِهِ أَرْفَقُ بِنَا، نَهَانَا أَنْ يَزْرَعَ أَحَدُنَا إِلا أَرْضًا يَمْلِكُ رَقَبَتَهَا، أَوْ مَنِيحَةً يَمْنَحُهَا رَجُلٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۳۳) (حسن)
( اگلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت حسن ہے ورنہ اس کے راوی '' ابن رافع '' مجہول ہیں )
۳۳۹۷- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہما رے پاس ابو رافع رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے پاس سے آئے اور کہنے لگے :رسول اللہﷺ نے ہمیں اس کام سے روک دیا ہے جو ہما رے لئے سود مند تھا،لیکن اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی فرماں بر داری ہما رے لئے اس سے بھی زیا دہ سو د مند ہے،آپ ﷺ نے ہمیں زراعت کرنے سے روک دیا ہے مگر ایسی زمین میںجس کے رقبہ و حدود کے ہم خود مالک ہوں یاجسے کوئی ہمیں(بلا معاوضہ و شرط) دے دے۔


3398- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّ أُسَيْدَ بْنَ ظُهَيْرٍ قَالَ: جَائَنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَنْهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْفَعُ لَكُمْ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَنْهَاكُمْ عَنِ الْحَقْلِ، وَقَالَ: < مَنِ اسْتَغْنَى عَنْ أَرْضِهِ فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ أَوْ لِيَدَعْ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَكَذَا رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَمُفَضَّلُ بْنُ مُهَلْهَلٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ [شُعْبَةُ]: أُسَيْدٌ ابْنُ أَخِي رَافِعِ بْنِ خَديِجٍ۔
* تخريج: ن/المزارعۃ ۲ (۳۸۹۴)، ق/الرھون ۱۰ (۲۴۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۹)، وقد أخرجہ: ط/ کراء الأرض ۱ (۱)، حم (۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴۶۶) (صحیح)
۳۳۹۸- اسید بن ظہیر کہتے ہیں:ہما رے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: رسول اللہﷺ تم کو ایک ایسے کام سے منع فرما رہے ہیں جس میں تمہارا فائدہ تھا، لیکن اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت تمہا رے لئے زیادہ سود مند ہے، رسول اللہﷺ تم کو حقل سے یعنی مزارعت سے روکتے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا: ''جو شخص اپنی زمین سے بے نیاز ہو یعنی جوتنے بونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تواسے چاہئے کہ وہ اپنی زمین اپنے کسی بھا ئی کو (مفت) دے دے یا اسے یوں ہی چھوڑے رکھے''۔
ابو داود کہتے ہیں: اسی طرح سے شعبہ اور مفضل بن مہلہل نے منصور سے روایت کیا ہے شعبہ کہتے ہیں: اسید رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہیں۔


3399 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْخَطْمِيُّ، قَالَ: بَعَثَنِي عَمِّي أَنَا وَغُلامًا لَهُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ: فَقُلْنَا لَهُ: شَيْئٌ بَلَغَنَا عَنْكَ فِي الْمُزَارَعَةِ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ لا يَرَى بِهَا بَأْسًا، حَتَّى بَلَغَهُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ، فَأَتَاهُ فَأَخْبَرَهُ رَافِعٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَتَى بَنِي حَارِثَةَ فَرَأَى زَرْعًا فِي أَرْضِ ظُهَيْرٍ، فَقَالَ: <مَا أَحْسَنَ زَرْعَ ظُهَيْرٍ >! قَالُوا: لَيْسَ لِظُهَيْرٍ، قَالَ: < أَلَيْسَ أَرْضُ ظُهَيْرٍ؟ > قَالُوا: بَلَى، وَلَكِنَّهُ زَرْعُ فُلانٍ، قَالَ: <فَخُذُوا زَرْعَكُمْ وَرُدُّوا عَلَيْهِ النَّفَقَةَ >، قَالَ رَافِعٌ: فَأَخَذْنَا زَرْعَنَا وَرَدَدْنَا إِلَيْهِ النَّفَقَةَ، قَالَ سَعِيدٌ: أَفْقِرْ أَخَاكَ، أَوْأَكْرِهِ بِالدَّرَاهِمِ۔
* تخريج: ن/المزارعۃ ۲ (۳۹۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۸) (صحیح الإسناد)
۳۳۹۹- ابو جعفر خطمی کہتے ہیں: میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک غلام کو سعید بن مسیب کے پاس بھیجا،توہم نے ان سے کہا : مز ارعت کے سلسلے میں آپ کے واسطہ سے ہمیں ایک خبر ملی ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مزارعت میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیث پہنچی تو وہ ( برا ہ راست) ان کے پاس معلوم کر نے پہنچ گئے، رافع رضی اللہ عنہ نے انہیں بتا یا کہ رسول اللہﷺ بنو حا رثہ کے پاس آئے تو وہاں ظہیر کی زمین میں کھیتی دیکھی، تو فرمایا: ''( ماشا ء اللہ) ظہیر کی کھیتی کتنی اچھی ہے''، لوگوں نے کہا: یہ ظہیر کی نہیں ہے، آپ ﷺ نے پوچھا:'' کیا یہ زمین ظہیر کی نہیں ہے؟''، لوگوں نے کہا : ہاں زمین تو ظہیر کی ہے لیکن کھیتی فلاں کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا :'' اپنا کھیت لے لو اور کھیتی کرنے والے کو اس کے اخراجات اور مزدوری دے دو''، رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ( یہ سن کر) ہم نے اپنا کھیت لے لیا اور جس نے جوتا بو یا تھا اس کا نفقہ (اخرا جات و محنتا نہ ) اسے دے دیا۔
سعیدبن مسیب نے کہا: (اب دو صورتیں ہیں) یا تو اپنے بھائی کو زمین زراعت کے لئے عاریتہ دے دو( اس سے پیداوار کا کوئی حصہ وغیرہ نہ مانگو ) یا پھردر ہم کے عوض زمین کو کرایہ پر دو(یعنی نقد روپیہ اس سے طے کر لو)۔


3400 - حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا طَارِقُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ، وَقَالَ: < إِنَّمَا يَزْرَعُ ثَلاثَةٌ: رَجُلٌ لَهُ أَرْضٌ، فَهُوَ يَزْرَعُهَا، وَرَجُلٌ مُنِحَ أَرْضًا فَهُوَ يَزْرَعُ مَا مُنِحَ، وَرَجُلٌ اسْتَكْرَى أَرْضًا بِذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ >۔
* تخريج: ن/ المزارعۃ ۲ (۳۹۲۱)، التجارات ۵۴ (۲۶۶۷)، ق/الرھون ۷ (۲۴۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۷)، وقد أخرجہ: ط/ کراء الأرض ۱ (۱) حم (۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴۶۶) (صحیح)
۳۴۰۰- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے محاقلہ اور مز ابنہ سے منع کیاہے ۱؎ اور فرمایا: ''زراعت تین طرح کے لوگ کرتے ہیں : (۱) ایک وہ شخص جس کی اپنی ذاتی زمین ہو تووہ اس میں کھیتی کرتا ہے، (۲)دوسرا وہ شخص جسے عاریۃً ( بلا معا وضہ) زمین دے دی گئی ہو تو وہ دی ہو ئی زمین میں کھیتی کرتاہے،(۳) تیسرا وہ شخص جس نے سونا چاندی(نقد) دے کر زمین کرایہ پر لی ہو''۔
وضاحت ۱؎ : محاقلہ سے مراد یہاں مزار عہ ( بٹا ئی) پر دینا ہے اور مزابنہ سے مرادیہ ہے کہ درخت پرلگے کھجور یا انگو ر کا اندا زہ کر کے اسے خشک کھجور یا انگور کے بدلے بیچنا۔


3401 - [قَالَ أَبو دَاود]: قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيِّ، قُلْتُ [لَهُ]: حَدَّثَكُمُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَعِيدٍ أَبِي شُجَاعٍ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ سَهْلِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: إِنِّي لَيَتِيمٌ فِي حِجْرِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَحَجَجْتُ مَعَهُ فَجَائَهُ أَخِي عِمْرَانُ بْنُ سَهْلٍ، فَقَالَ: أَكْرَيْنَا أَرْضَنَا فُلانَةَ بِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَقَالَ: دَعْهُ؛ فَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ۔
* تخريج: ن/المزارعۃ ۳ (۳۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۶۹) (شاذ)
(اس کے راوی ''عثمان ''(جن کا صحیح نام ''عیسیٰ ''ہے )لین الحدیث ہیں، اس میں شذوذ یہ ہے کہ اس میں مطلق زمین کرایہ پر دینے کی بات ہے، حالانکہ ابو رافع سے سونا چاندی اور درہم و دینار کے بدلے کرایہ پر دینے کی اجازت مروی ہے )
۳۴۰۱- عثمان بن سہل بن رافع بن خدیج کہتے ہیں : میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش ایک یتیم تھا،میں نے ان کے ساتھ حج کیاتو میرے بھا ئی عمران بنسہل ان کے پاس آ ئے اور کہنے لگے: ہم نے اپنی زمین دوسو درہم کے بدلے فلاں شخص کو کرا یہ پر دی ہے، تو انہوں نے(رافع نے) کہا :اسے چھو ڑ دو ( یعنی یہ معاملہ ختم کرلو) کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے زمین کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔


3402 - حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا بُكَيْرٌ -يَعْنِي ابْنَ عَامِرٍ- عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، حَدَّثَنِي رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّهُ زَرَعَ أَرْضًا فَمَرَّ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ وَهُوَ يَسْقِيهَا فَسَأَلَهُ: < لِمَنِ الزَّرْعُ؟ وَلِمَنِ الأَرْضُ؟ > فَقَالَ: زَرْعِي بِبَذْرِي وَعَمَلِي، لِيَ الشَّطْرُ وَلِبَنِي فُلانٍ الشَّطْرُ، فَقَالَ: < أَرْبَيْتُمَا، فَرُدَّ الأَرْضَ عَلَى أَهْلِهَا وَخُذْ نَفَقَتَكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۶۸) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''بکیر بن عامر '' ضعیف ہیں )
۳۴۰۲- ابن ابی نعم سے روایت ہے کہ مجھ سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ انہوں نے ایک زمین میں کھیتی کی تو نبی اکرم ﷺ کا وہاں سے گز ر ہوا اور وہ اس میں پانی دے رہے تھے، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا :'' کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی؟''، تو انہوں کہا: میری کھیتی میرے بیج سے ہے اور محنت بھی میری ہے نصف پیداوار مجھے ملے گی اور نصف پیداوار فلاں شخص کو(جوزمین کا مالک ہے) آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم دونوں نے ربا کیا ( یعنی یہ عقد ناجائز ہے) زمین اس کے مالک کو لو ٹا دو، اور تم اپنے خر چ اور اپنی محنت کی اجرت لے لو''۔
33- بَاب فِي زَرْعِ الأَرْضِ بِغَيْرِ إِذْنِ صَاحِبِهَا
۳۳-باب: زمین کے مالک کی اجازت کے بغیر زمین میں کھیتی کر نے کا بیان​


3403- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ زَرَعَ فِي أَرْضِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، فَلَيْسَ لَهُ مِنَ الزَّرْعِ شَيْئٌ، وَلَهُ نَفَقَتُهُ >۔
* تخريج: ت/الأحکام ۲۹ (۱۳۶۶)، ق/الرھون ۱۳ (۲۴۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۵، ۴/۱۴۱) (صحیح)
۳۴۰۳- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے دوسرے لوگوں کی زمین میں بغیر ان کی اجا زت کے کاشت کی تو اسے کاشت میں سے کچھ نہیں ملے گا صرف اس کاخرچ ملے گا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب فِي الْمُخَابَرَةِ
۳۴-باب: مخابرہ( یعنی مزارعت) کا بیان​


3404- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ حَمَّادًا وَعَبْدَالْوَارِثِ حَدَّثَاهُمْ، كُلُّهُمْ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، قَالَ: عَنْ حَمَّادٍ، وَسَعِيدِ بْنِ مِينَاءَ، ثُمَّ اتَّفَقُوا: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُخَابَرَةِ، وَالْمُعَاوَمَةِ، قَالَ عَنْ حَمَّادٍ: وَقَالَ أَحَدُهُمَا: وَالْمُعَاوَمَةِ، وَقَالَ الآخَرُ: بَيْعُ السِّنِينَ، ثُمَّ اتَّفَقُوا، وَعَنِ الثُّنْيَا، وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا۔
* تخريج: م/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶)، ت/البیوع ۵۵ (۱۲۹۰)، ۷۲ (۱۳۱۳)، ن/الأیمان ۴۵ (۳۸۸۶)، البیوع ۷۲ (۴۶۳۸)، ق/التجارات ۵۴ (۲۲۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۶۶)، وقد أخرجہ: خ/المساقاۃ ۱۷ (۲۳۸۰)، حم (۳/۳۱۳، ۳۵۶، ۳۶۰، ۳۶۴، ۳۶، ۳۹۲) (صحیح)
۳۴۰۴- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے محاقلہ ۱؎مزابنہ ۲؎مخا برہ اور’’ مُعَاوَمَةِ ‘‘ ۳؎سے منع فرمایا ہے ۔
مسدد کی روایت میں’’عَنْ حَمَّادٍ ‘‘ہے اور ابوزبیر اور سعید بن میناء دونوں میں سے ایک نے ’’مُعَاوَمَةِ‘‘ کہا اور دوسرے نے’’بَيْعُ السِّنِينَ ‘‘کہا ہے پھر دونوں راوی متفق ہیں اور استثناء کرنے ۴؎سے منع فرمایا ہے، اور عرا یا ۵؎کی اجازت دی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : کھیت میں لگی ہوئی فصل کااندازہ کرکے اسے غلّہ سے بیچنے کو محاقلہ کہتے ہیں۔
وضاحت۲؎ : درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک پھل سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔
وضاحت۳؎ : معاومہ اور بیع سنین ایک ہی معنی میں ہے یعنی کئی سال تک کا میوہ بیچنا۔
وضاحت۴؎ : سار ے باغ یا کھیت کو بیچ دینے اور اس میں سے غیر معلوم مقدار نکال لینے سے منع کیا ہے۔
وضاحت۵؎ : عرایا یہ ہے کہ مالک باغ ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین کو کھانے کے لئے مفت دے دے اور اس کے آنے جا نے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلو ں کا اندا زہ کر کے مسکین سے خرید لے اور اس کے بدلے تر یا خشک میوہ اس کے حوالے کردے۔


3405 - حَدَّثَنَا [أَبُو حَفْصٍ] عُمَرُ بْنُ يَزِيدَ السَّيَّارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيدٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُحَاقَلَةِ، وَعَنِ الثُّنْيَا إِلا أَنْ يُعْلَمَ۔
* تخريج: ت/ البیوع ۵۵ (۱۲۹۰)، ن/ المزارعۃ ۲ (۳۹۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۹۵) (صحیح)
۳۴۰۵- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مز ابنہ(درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک پھل سے بیچنے)سے اور محاقلہ (کھیت میں لگی ہوئی فصل کو غلّہ سے اندازہ کرکے بیچنے) سے اور غیر متعین اور غیر معلوم مقدار کے استثناء سے روکا ہے۔


3406 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ رَجَائٍ -يَعْنِي الْمَكِّيَّ- قَالَ: ابْنُ خُثَيْمٍ حَدَّثَنِي، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ لَمْ يَذَرِ الْمُخَابَرَةَ، فَلْيَأْذَنْ بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۷۵) (ضعیف)
( اس کے راوی ’’ ابو الزبیر ’’مدلس ہیں، اور ’’عنعنہ ‘‘سے روایت کئے ہوئے ہیں )
۳۴۰۶- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے : جو مخا بر ہ نہ چھو ڑے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان کردے۔


3407 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْمُخَابَرَةِ، قُلْتُ: وَمَا الْمُخَابَرَةُ؟ قَالَ: أَنْ تَأْخُذَ الأَرْضَ بِنِصْفٍ أَوْ ثُلُثٍ أَوْ رُبْعٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۸۷) (صحیح)
۳۴۰۷- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مخا برہ سے روکا ہے، میں نے پوچھا:مخا برہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا : مخا برہ یہ ہے کہ تم زمین کوآدھی یا تہا ئی یا چو تھا ئی پیداوار پر بٹا ئی پر لو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مرادبٹائی کی وہ صورتیں ہیں جن میں فریقین کے اندر اختلاف پیدا ہونے کے اسباب ہو تے ہیں کیوں کہ بٹائی آپ سے صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں آرہا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب فِي الْمُسَاقَاةِ
۳۵-باب: مسا قا ۃ یعنی درختوں میں بٹائی کا بیان ۱؎​


3408 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عَامَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ۔
* تخريج: خ/الحرث ۸ (۲۳۲۹)، م/المساقاۃ ۱ (۱۵۵۱)، ت/الأحکام ۴۱ (۱۳۸۳)، ق/الرھون ۱۴ (۲۴۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۷، ۲۲، ۳۷)، دي/البیوع ۷۱ (۲۶۵۶) (صحیح)
۳۴۰۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اہل خیبر کو زمین کے کام پر اس شر ط پہ لگا یا کہ کھجو ریا غلہ کی جو بھی پیدا وار ہو گی اس کا آدھا ہم لیں گے اور آدھا تمہیں دیں گے ۔
وضاحت ۱؎ : مساقاۃ یہ ہے کہ باغ کا مالک اپنے باغ کو کسی ایسے شخص کے حوالہ کردے جو اس کی پوری نگہداشت کرے پھر اس سے حاصل ہونے والے پھل میں دونوں برابر کے شریک ہوں، مساقاۃ مزارعت ہی کی ایک شکل ہے فرق یہ ہے کہ مساقاۃ کا تعلق درختوں سے ہے جب کہ مزارعت کا تعلق کھیتی سے ہے ۔


3409 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ -يَعْنِي ابْنَ غَنَجٍ- عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَفَعَ إِلَى يَهُودِ خَيْبَرَ نَخْلَ خَيْبَرَ وَأَرْضَهَا عَلَى أَنْ يَعْتَمِلُوهَا مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَأَنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ شَطْرَ ثَمَرَتِهَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۲۴) (صحیح)
۳۴۰۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو خیبر کے کھجور کے درخت اوراس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ ان میں اپنی پونجی لگا کر کام کریں گے اور جو پیدا وار ہو گی، اس کا نصف رسول اللہ ﷺ کے لئے ہو گا۔


3410 - حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خَيْبَرَ، وَاشْتَرَطَ أَنَّ لَهُ الأَرْضَ وَكُلَّ صَفْرَاءَ وَبَيْضَاءَ، قَالَ أَهْلُ خَيْبَرَ: نَحْنُ أَعْلَمُ بِالأَرْضِ مِنْكُمْ فَأَعْطِنَاهَا عَلَى أَنَّ لَكُمْ نِصْفَ الثَّمَرَةِ وَلَنَا نِصْفٌ، فَزَعَمَ أَنَّهُ أَعْطَاهُمْ عَلَى ذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ حِينَ يُصْرَمُ النَّخْلُ بَعَثَ إِلَيْهِمْ عَبْدَاللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ فَحَزَرَ عَلَيْهِمُ النَّخْلَ، وَهُوَ الَّذِي يُسَمِّيهِ أَهْلُ الْمَدِينَةِ الْخَرْصَ، فَقَالَ: فِي ذِهْ كَذَا وَكَذَا، قَالُوا: أَكْثَرْتَ عَلَيْنَا يَا ابْنَ رَوَاحَةَ، فَقَالَ: فَأَنَا أَلِي حَزْرَ النَّخْلِ وَأُعْطِيكُمْ نِصْفَ الَّذِي قُلْتُ، قَالُوا: هَذَا الْحَقُّ [وَ] بِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالأَرْضُ، قَدْ رَضِينَا أَنْ نَأْخُذَهُ بِالَّذِي قُلْتَ ۔
* تخريج: ق/الزکاۃ ۱۸ (۱۸۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۹۴) (حسن صحیح)
۳۴۱۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا، اور یہ شرط لگا دی( واضح کر دیا) کہ اب زمین ان کی ہے اور جو بھی سونا چا ندی نکلے وہ بھی ان کا ہے، تب خیبروالے کہنے لگے: ہم زمین کے کام کا ج کو آپ لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں تو آپ ہمیں زمین اس شر ط پہ دے دیجئے کہ نصف پیدا وار آپ کو دیں گے اور نصف ہم لیں گے ۔
تو آپ ﷺ نے اسی شرط پر انہیں زمین دے دی، پھر جب کھجور کے تو ڑ نے کا وقت آیا تو آپ ﷺ نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس بھیجا، انہوں نے جا کر کھجور کا اندا زہ لگا یا( اسی کو اہل مدینہ خر ص(آنکنا) کہتے ہیں )تو انہوں نے کہا: اس باغ میں اتنی کھجور یں نکلیں گی اور اس با غ میں ا تنی ( ان کا نصف ہمیں دے دو) وہ کہنے لگے: اے ابن رواحہ! تم نے تو ہم پر ( بوجھ ڈالنے کے لئے) زیا دہ تخمینہ لگا دیا ہے، تو ابن روا حہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اگر یہ زیا دہ ہے ) تو ہم اسے توڑ لیں گے اور جو میں نے کہا ہے اس کا آدھا تمہیں دے دیں گے، یہ سن کر انہوں نے کہا یہی صحیح بات ہے، اور اسی انصاف اور سچا ئی کی بنا پر ہی زمین وآسمان اپنی جگہ پر قا ئم اور ٹھہرے ہو ئے ہیں، ہم راضی ہیں تمہارے آنکنے کے مطابق ہی ہم لے لیں گے۔


3411 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَبِي الزَّرْقَائِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: فَحَزَرَ، وَقَالَ عِنْدَ قَوْلِهِ: < وَكُلَّ صَفْرَاءَ وَبَيْضَاءَ > يَعْنِي: الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [لَهُ].
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۹۴) (صحیح الإسناد)
۳۴۱۱- جعفر بن برقان سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مر وی ہے، اس میں لفظ '' فَحَزَر'' ہے اور ''وَكُلَّ صَفْرَاءَ وَبَيْضَاء'' کی تفسیر سو نے چا ندی سے کی ہے۔


3412- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا كَثِيرٌ -يَعْنِي ابْنَ هِشَامٍ- عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا مَيْمُونٌ، عَنْ مِقْسَم أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ زَيْدٍ، قَالَ: فَحَزَرَ النَّخْلَ، وَقَالَ: فَأَنَا أَلِي جُذَاذَ النَّخْلِ وَأُعْطِيكُمْ نِصْفَ الَّذِي قُلْتُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۴۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۹۴) (صحیح الإسناد)
( اگلی دونوں روایتوں سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ خود یہ مرسل روایت ہے )
۳۴۱۲- مقسم سے (مرسلا) روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جس وقت خیبر فتح کیا، پھر آگے انہوں نے زید کی حدیث (پچھلی حدیث) کی طرح حدیث ذکر کی اس میں ہے پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کھجور کا اندازہ لگا یا، ( اور جب یہودیوں نے اعتراض کیا) تو آپ نے کہا: اچھا کھجوروں کے پھل میں خو د توڑلوں گا، اور جو اندازہ میں نے لگا یا ہے، اس کا نصف تمہیں دے دوں گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب فِي الْخَرْص
۳۶-باب: درخت پر پھل کا اندازہ لگانا​


3413- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أُخْبِرْتُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَبْعَثُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ فَيَخْرُصُ النَّخْلَ حِينَ يَطِيبُ قَبْلَ أَنْ يُؤْكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ يُخَيِّرُ يَهُودَ يَأْخُذُونَهُ بِذَلِكَ الْخَرْصِ أَوْيَدْفَعُونَهُ إِلَيْهِمْ بِذَلِكَ الْخَرْصِ؛ لِكَيْ تُحْصَى الزَّكَاةُ قَبْلَ أَنْ تُؤْكَلَ الثِّمَارُ وَتُفَرَّقَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۶۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۳۱، ۱۶۷۵۲) (ضعیف الإسناد)
۳۴۱۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:نبی اکرم ﷺ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو (خیبر ) بھیجتے تھے،تو وہ کھجوروں کا اٹکل اندازہ لگاتے تھے جس وقت وہ پکنے کے قریب ہو جاتا کھائے جانے کے قابل ہونے سے پہلے پھر یہود کو اختیا ر دیتے کہ یا تو وہ اس اندازے کے مطا بق نصف لے لیں یا آپ کو دے دیںتا کہ وہ زکوۃ کے حسا ب و کتا ب میں آجائیں، اس سے پہلے کہ پھل کھائے جائیں اور ادھر ادھر بٹ جائیں ۔


3414- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ قَالَ: أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ خَيْبَرَ، فَأَقَرَّهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ كَمَا كَانُوا، وَجَعَلَهَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ، فَبَعَثَ عَبْدَاللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ فَخَرَصَهَا عَلَيْهِمْ ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۶۷) (صحیح)
۳۴۱۴- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ نے اپنے رسول کو خیبر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے خیبر والوں کو ان کی جگہوں پر رہنے دیا جیسے وہ پہلے تھے اورخیبر کی زمین کو (آدھے آدھے کے اصول پر) انہیں بٹا ئی پر دے دیا اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو (تخمینہ لگا کر تقسیم کے لئے ) بھیجا تو انہوں نے جاکر اندا زہ کیا (اور اسی اندازے کا نصف ان سے لے لیا) ۔


3415- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُوالزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: خَرَصَهَا ابْنُ رَوَاحَةَ أَرْبَعِينَ أَلْفَ وَسْقٍ، وَزَعَمَ أَنَّ الْيَهُودَ لَمَّا خَيَّرَهُمُ ابْنُ رَوَاحَةَ أَخَذُوا الثَّمَرَ وَعَلَيْهِمْ عِشْرُونَ أَلْفَ وَسْقٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۶۹) (صحیح الإسناد)
۳۴۱۵- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے چالیس ہز ار وسق (کھجور) کا اندازہ لگا یا ( ایک وسق ساٹھ صاع کا ہو تا ہے ) اور ان کا خیال ہے کہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جب یہود کو اختیا ر دیا ( کہ وہ ہمیں اس کا نصف دے دیں، یا ہم سے اس کا نصف لے لیں) توا نہوں نے پھل اپنے پاس رکھا اورانہیں بیس ہز ار وسق (کٹائی کے بعد) رسول اللہ ﷺ کو دینا پڑا۔

احادیث 3416 تا 3570 پر ملاحظہ فرمائیں!


* * * * *​
 
Top