28- بَاب مَا جَاءَ فِي إِسْبَالِ الإِزَارِ
۲۸-باب: تہ بند (لنگی) کو ٹخنوں سے نیچے لٹکا نا منع ہے
4084- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي غِفَارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيُّ، [وَأَبُو تَمِيمَةَ اسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ] عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ، قَالَ: رَأَيْتُ رَجُلا يَصْدُرُ النَّاسُ عَنْ رَأْيِهِ، لا يَقُولُ شَيْئًا إِلا صَدَرُوا عَنْهُ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: [هَذَا] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، قُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَرَّتَيْنِ، قَالَ: < لا تَقُلْ عَلَيْكَ السَّلامُ؛ فَإِنَّ عَلَيْكَ السَّلامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ، قُلِ: السَّلامُ عَلَيْكَ >، قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ؟ قَالَ: < أَنَا رَسُولُ اللَّهِ الَّذِي إِذَا أَصَابَكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ، وَإِنْ أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ أَنْبَتَهَا لَكَ، وَإِذَا كُنْتَ بِأَرْضٍ قَفْرَاءَ أَوْ فَلاةٍ فَضَلَّتْ رَاحِلَتُكَ فَدَعَوْتَهُ رَدَّهَا عَلَيْكَ >، قَالَ: قُلْتُ: اعْهَدْ إِلَيَّ، قَالَ: < لا تَسُبَّنَّ أَحَدًا >، قَالَ: فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا وَلا عَبْدًا وَلا بَعِيرًا وَلا شَاةً، قَالَ: < وَلا تَحْقِرَنَّ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَأَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطٌ إِلَيْهِ وَجْهُكَ؛ إِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الإِزَارِ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ، وَإِنِ امْرُؤٌ شَتَمَكَ وَعَيَّرَكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ فَلا تُعَيِّرْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ، فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عَلَيْهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۲۴)، وقد أخرجہ: ت/الاستئذان ۲۸ (۲۷۲۲)، ن/ الکبری (۹۶۹۱)، حم (۳/۴۸۲، ۵/۶۳) (صحیح)
۴۰۸۴- ابو جری جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کی رائے کو قبول کرتے ہیں جب بھی وہ کوئی با ت کہتا ہے لوگ اسی کوتسلیم کرتے ہیں، میں نے پوچھا: یہ کو ن ہیں ؟ لوگوں نے بتا یا کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں، میں نے دومرتبہ کہا: ''عليك السلام يا رسول الله!'' (آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول ) آپ ﷺ نے فرمایا: ''عليك السلام'' نہ کہو،یہ مُردوں کا سلام ہے اس کے بجائے ''السلام عليك'' کہو۔
'' میں اس اللہ کا بھیجا رسول ہوں، جس کو تمہیں کوئی ضر ر لا حق ہوتو پکارو وہ تم سے اس ضررکو دور فرما دے گا، جب تم پر کوئی قحط سالی آئے اور تم اسے پکا رو تو وہ تمہارے لئے غلہ اگا دے گا، اور جب تم کسی چٹیل زمین میں ہویا میدان پھر تمہاری اونٹنی گم ہو جائے تو اگر تم اس اللہ سے دعا کرو تو وہ اسے لے آئے گا''، میں نے کہا :مجھے نصیحت کیجئے آپ نے فرمایا: ''کسی کو بھی گالی نہ دو''۔
اس کے بعد سے میں نے کسی کو گالی نہیں دی، نہ آزاد کو، نہ غلام کو، نہ اونٹ کو، نہ بکری کو، اور آپ ﷺ نے فرمایا:'' کسی بھی بھلائی کے کام کو معمولی نہ سمجھو، اور اگر تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے با ت کروگے تو یہ بھی بھلے کام میں داخل ہے، اور اپنا تہ بندنصف ساق ( پنڈلی) تک اونچی رکھو، اور اگر اتنا نہ ہو سکے تو ٹخنوں تک رکھو، اور تہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ غرورو تکبر کی با ت ہے، اور اللہ غرور پسندنہیں کرتا، اور اگرتمہیں کوئی گا لی دے اور تمہارے اس عیب سے تمہیں عار دلائے جسے وہ جانتا ہے تو تم اسے اس کے اس عیب سے عا رنہ دلاؤ جسے تم جا نتے ہو کیونکہ اس کا وبال اسی پر ہو گا''۔
4085- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ >، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ أَحَدَ جَانِبَيْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي، إِنِّي لأَتَعَاهَدُ ذَلِكَ مِنْهُ، قَالَ: < لَسْتَ مِمَّنْ يَفْعَلُهُ خُيَلاءَ >۔
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۶۵)، اللباس ۱ (۵۷۸۳)، ۲ (۵۷۸۴)، ۵ (۵۷۹۱)، ن/الزینۃ من المجتبی ۵۰ (۵۳۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۲۶)، وقد أخرجہ: م/اللباس ۹ (۲۰۸۵)، ت/اللباس ۸ (۱۷۳۰)، ۹ (۱۷۳۱)، ق/اللباس ۶ (۳۵۷۱)، ۹ (۳۵۷۶)، ط/اللباس ۵ (۹)، حم (۲/۵، ۱۰، ۳۲، ۴۲، ۴۴، ۴۶، ۵۵، ۵۶، ۶۰، ۶۵، ۶۷، ۶۹، ۷۴، ۷۶، ۸۱) (صحیح)
۴۰۸۵- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو کوئی غروراور تکبرسے اپنا کپڑا گھسیٹے گا تو اللہ اسے قیامت کے دن نہیں دیکھے گا'' یہ سنا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے تہبند کا ایک کنا رہ لٹکتا رہتا ہے جب کہ میں اس کابہت خیال رکھتاہوں۔
آپ نے فرمایا: تم ان میں سے نہیں ہو جو غرور سے یہ کام کیا کرتے ہیں۔
4086- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ عَطَاءِ ابْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلا إِزَارَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ > فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: < اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ > فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ، قَالَ: < إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ، وَإِنَّ اللَّهَ لا يَقْبَلُ صَلاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم (۶۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۴۱) (ضعیف)
۴۰۸۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنا تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے صلاۃ پڑھ رہاتھا کہ اسی دوران رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا :''جا وضو کر کے آؤ''، وہ گیا اور وضو کر کے دوبارہ آیا، پھر آپ نے فرمایا: ''جا ؤ اور وضو کرکے آؤ''،تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول!آپ اس کو وضو کا حکم دیتے ہیں پھر چپ ہو رہتے ہیں آخر کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ ''تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر صلاۃ پڑھ رہاتھا، اور اللہ ایسے شخص کی صلاۃ قبول نہیں فرماتا جو اپنا تہ بند ٹخنے کے نیچے لٹکائے ہو''۔
4087- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو ابْنِ جَرِيرٍ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: <ثَلاثَةٌ لا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ، وَلا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ>، قُلْتُ: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا؟ فَأَعَادَهَا ثَلاثًا، قُلْتُ: مَنْ هُمْ [يَا رَسُولَ اللَّهِ] خَابُوا وَخَسِرُوا؟ فَقَالَ: < الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ -أَوِ الْفَاجِرِ - >۔
* تخريج: م/الإیمان ۴۶ (۱۰۶)، ت/البیوع ۵ (۱۲۱۱)، ن/الزکاۃ ۶۹ (۲۵۶۴)، البیوع ۵ (۴۴۶۳)، الزینۃ من المجتبی ۵۰ (۵۳۳۵)، ق/التجارات ۳۰ (۲۲۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۸، ۱۵۸، ۱۶۲، ۱۶۸، ۱۷۸)، دی/ البیوع ۶۳ (۲۶۴۷) (صحیح)
۴۰۸۷- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ انہیں رحمت کی نظر سے دیکھے گا، اور نہ ان کو پا ک کرے گا اور ان کے لئے در د ناک عذاب ہو گا''، میں نے پوچھا : وہ کو ن لوگ ہیں؟ اللہ کے رسول!جو نامراد ہوے اور گھاٹے اور خسارے میں رہے، پھر آپ نے یہی با ت تین با ر دہرائی، میں نے عرض کیا: وہ کو ن لوگ ہیں؟ اللہ کے رسول! جو نا مراد ہوے اور گھاٹے اور خسارے میں رہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''ٹخنہ سے نیچے تہ بند لٹکا نے والا، اور احسان جتا نے والا، اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا''۔
4088- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذَا، وَالأَوَّلُ أَتَمُّ، قَالَ: <الْمَنَّانُ الَّذِي لا يُعْطِي شَيْئًا إِلا مَنَّهُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۰۹) (صحیح)
۴۰۸۸- اس سند سے بھی ابو ذر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہے اور پہلی روایت زیادہ کا مل ہے راوی کہتے ہیں:'' منان وہ ہے جو بغیر احسان جتائے کچھ نہ دے''۔
4089- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ -يَعْنِي عَبْدَالْمَلِكِ بْنَ عَمْرٍو- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ بِشْرٍ التَّغْلِبِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، وَكَانَ جَلِيسًا لأَبِي الدَّرْدَائِ، قَالَ: كَانَ بِدِمَشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، وَكَانَ رَجُلا مُتَوَحِّدًا قَلَّمَا يُجَالِسُ النَّاسَ، إِنَّمَا هُوَ صَلاةٌ، فَإِذَا فَرَغَ فَإِنَّمَا هُوَ تَسْبِيحٌ وَتَكْبِيرٌ حَتَّى يَأْتِيَ أَهْلَهُ، فَمَرَّ بِنَا وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَائِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَائِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلا تَضُرُّكَ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَرِيَّةً، فَقَدِمَتْ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَجَلَسَ فِي الْمَجْلِسِ الَّذِي يَجْلِسُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ لِرَجُلٍ إِلَى جَنْبِهِ: لَوْ رَأَيْتَنَا حِينَ الْتَقَيْنَا نَحْنُ وَالْعَدُوُّ فَحَمَلَ فُلانٌ فَطَعَنَ فَقَالَ: خُذْهَا مِنِّي وَأَنَا الْغُلامُ الْغِفَارِيُّ، كَيْفَ تَرَى فِي قَوْلِهِ؟ قَالَ: مَا أُرَاهُ إِلا قَدْ بَطَلَ أَجْرُهُ، فَسَمِعَ بِذَلِكَ آخَرُ، فَقَالَ: مَا أَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا، فَتَنَازَعَا، حَتَّى سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: < سُبْحَانَ اللَّهِ! لا بَأْسَ أَنْ يُؤْجَرَ وَيُحْمَدَ > فَرَأَيْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ سُرَّ بِذَلِكَ، وَجَعَلَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَيْهِ وَيَقُولُ: أَنْتَ سَمِعْتَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَمَا زَالَ يُعِيدُ عَلَيْهِ حَتَّى إِنِّي لأَقُولُ: لَيَبْرُكَنَّ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، قَالَ: فَمَرَّ بِنَا يَوْمًا آخَرَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَائِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلا تَضُرُّكَ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الْمُنْفِقُ عَلَى الْخَيْلِ كَالْبَاسِطِ يَدَهُ بِالصَّدَقَةِ لا يَقْبِضُهَا > ثُمَّ مَرَّ بِنَا يَوْمًا آخَرَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَائِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلا تَضُرُّكَ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَيْمٌ الأَسَدِيُّ لَوْلا طُولُ جُمَّتِهِ وَإِسْبَالُ إِزَارِهِ > فَبَلَغَ ذَلِكَ خُرَيْمًا فَعَجِلَ فَأَخَذَ شَفْرَةً فَقَطَعَ بِهَا جُمَّتَهُ إِلَى أُذُنَيْهِ وَرَفَعَ إِزَارَهُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، ثُمَّ مَرَّ بِنَا يَوْمًا آخَرَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَائِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلا تَضُرُّكَ، فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّكُمْ قَادِمُونَ عَلَى إِخْوَانِكُمْ، فَأَصْلِحُوا رِحَالَكُمْ، وَأَصْلِحُوا لِبَاسَكُمْ حَتَّى تَكُونُوا كَأَنَّكُمْ شَامَةٌ فِي النَّاسِ؛ فَإِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلا التَّفَحُّشَ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: حَتَّى تَكُونُوا كَالشَّامَةِ فِي النَّاسِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۷۹، ۱۸۰) (ضعیف)
۴۰۸۹- قیس بن بشر تغلبی کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور وہ ابو الدردا ء رضی اللہ عنہ کے ساتھی تھے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص دمشق میں تھے جنہیں ابن حنظلیہ کہا جاتا تھا، وہ خلوت پسند آدمی تھے، لوگوں میں کم بیٹھتے تھے، اکثر اوقات صلاۃ ہی میں رہتے تھے جب صلاۃ سے فارغ ہو تے تو جب تک گھر نہ چلے جاتے تسبیح و تکبیر ہی میں لگے رہتے ۔
ایک روز وہ ہمارے پاس سے گز رے اور ہم ابو الدرداء کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو ان سے ابو الدردا ء نے کہا : کوئی ایسی با ت کہئے جس سے ہمیں فا ئدہ ہو، اور آپ کو اس سے کوئی نقصان نہ ہو تو وہ کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ جہاد کے لئے بھیجا، جب وہ سر یہ لو ٹ کر وا پس آیا تو اس میں کا ایک شخص آیا اور جہاں رسول اللہ ﷺ بیٹھا کرتے تھے وہا ں آکر بیٹھ گیا، پھر وہ اپنے بغل کے ایک شخص سے کہنے لگا: کاش تم نے ہمیں دیکھا ہو تا جب ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی تھی، فلاں نے نیزہ اٹھا کر دشمن پر وار کیا اور وار کرتے ہوئے یوں گویا ہوا''لے میرا یہ وار اور میں قبیلہ غفار کافرزند ہوںـــ'' بتائو تم اس کے اس کہنے کو کیسا سمجھتے ہو؟ وہ بولا: میں توسمجھتا ہوں کہ اس کاثو اب جاتا رہا، ایک اور شخص نے اسے سنا تو بو لا: اس میں کوئی مضا ئقہ نہیں، چنا نچہ وہ دونوں جھگڑنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے سنا توفرمایا: ''سبحان اللہ! کیا قبا حت ہے اگر اس کو ثو اب بھی ملے اور لوگ اس کی تعریف بھی کر یں''۔
بشرتغلبی کہتے ہیں: میں نے ابوالدرداء کو دیکھا وہ اسے سن کر خوش ہوئے اور اپنا سر ان کی طرف اٹھا کر پو چھنے لگے کہ آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ فرمایا: ہاں، پھر وہ با ر بار یہی سوا ل دہرانے لگے یہاں تک کہ میں سمجھا کہ وہ ان کے گھٹنوں پر بیٹھ جائیں گے ۔
پھر ایک دن وہ ہمارے پاس سے گزرے تو ان سے ابو الدرداء نے کہا: مجھے کوئی ایسی بات بتا ئیے جس سے ہمیں فائدہ ہو اور آپ کو اس سے کوئی نقصان نہ ہو، تو انہوں نے کہا: ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''( جہا د کی نیت سے) گھوڑوں کی پر ورش پر صرف کر نے والا اس شخص کے مانند ہے جو اپنا ہاتھ پھیلا کے صدقہ کر رہا ہو کبھی انہیں سمیٹتا نہ ہو''۔
پھر ایک دن وہ ہمارے پاس سے گزرے پھر ابوالدرداء نے ان سے کہا :ہمیں کوئی ایسی با ت بتا ئیے جو ہمیں فائدہ پہنچائے، تو انہوں نے کہا ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' خریم اسدی کیا ہی اچھے آدمی ہیں اگر ان کے سر کے بال بڑھے ہوے نہ ہوتے، اور تہ بند ٹخنے سے نیچے نہ لٹکتا''، یہ بات خریم کو معلوم ہوئی توانہوں نے چھری لے کر اپنے با لوں کو کا ٹ کر کا نوں کے برابر کرلیا، اور تہ بند کو نصف سا ق (پنڈلی ) تک اونچا کر لیا۔
پھردوبارہ ایک اور دن ہمارے پاس سے ان کا گزر ہوا تو ابوا لدرداء نے ان سے کہا: ہمیں کوئی ایسی با ت بتا ئیے جو ہمیں فا ئدہ پہنچائے اور جس سے آپ کو کوئی نقصان نہ ہو، تو وہ بو لے :میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ''اب تم اپنے بھائیوں سے ملنے والے ہو ( یعنی سفر سے واپس گھر پہنچنے والے ہو) تو اپنی سواریاں اور اپنے لباس درست کر لو تا کہ تم اس طرح ہو جائو گو یا تم تل ہو لوگوں میں یعنی ہر شخص تمہیں دیکھ کر پہچان لے، کیو نکہ اللہ فحش گو ئی کو، اور قدرت کے با وجود خستہ حالت (پھٹے پر انے کپڑے ) میں رہنے کو پسند نہیں کر تا''۔
ابو داود کہتے ہیں :اور اسی طرح ابو نعیم نے ہشام سے روایت کیا ہے اس میں
''حتى تكونوا كأنكم شامة في الناس'' کے بجائے
''حتى تكونوا كالشامة في الناس''ہے۔