• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
48- بَاب مَنِ اشْتَرَى مُصَرَّاةً فَكَرِهَهَا
۴۸-باب: کوئی شخص ایسا جانور خریدے جس کے تھن میں کئی دن کا دودھ اکٹھا کیا گیا ہواور بعد میں اس دھوکہ کا علم ہونے پر اس کو یہ بیع ناپسند ہو تو کیا کرے؟​


3443- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تَلَقَّوُا الرُّكْبَانَ لِلْبَيْعِ، وَلا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلاتُصَرُّوا الإِبِلَ وَالْغَنَمَ، فَمَنِ ابْتَاعَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ بَعْدَ أَنْ يَحْلُبَهَا: فَإِنْ رَضِيَهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ سَخِطَهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ >۔
* تخريج: خ/البیوع ۶۴ (۲۱۵۰)، م/البیوع ۴ (۱۵۱۵)، ن/ البیوع ۱۵ (۴۵۰۱)، ق/التجارات ۱۳ (۲۱۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۰۲)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۱۳ (۱۲۲۳)، ط/البیوع ۴۵ (۹۶)، حم (۲/۳۷۹، ۴۶۵) (صحیح)
۳۴۴۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تجارتی قافلوں سے آگے بڑھ کر نہ ملو ۱؎،کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اور اونٹ و بکر ی کا تصریہ ۲؎نہ کرو جس نے کوئی ایسی بکری یا اونٹنی خریدی تو اسے دو دھ دوہنے کے بعد اختیار ہے، چا ہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو پسند کرکے اسے واپس کر دے، اور ساتھ میں ایک صاع کھجور دے دے ‘‘ ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مال با زار میں پہنچنے سے پہلے راستہ میں مالکان سے مل کر سودا نہ طے کرلو۔
وضاحت ۲؎ : تھن میں دو یا تین دن تک دودھ چھوڑے رکھنے اور نہ دوہنے کو تصریہ کہتے ہیں تا کہ اونٹنی یا بکری دودھاری سمجھی جائے اور جلد اور اچھے پیسوں میں بک جائے ۔
وضاحت۳؎ : کسی ثابت شدہ حدیث کی تردید یہ کہہ کر نہیں کی جاسکتی کہ کسی مخالف اصل سے اس کا ٹکراو ہے یا اس میں مثلیت نہیں پائی جارہی ہے اس لئے عقل اسے تسلیم نہیں کرتی بلکہ شریعت سے جو چیز ثابت ہو وہی اصل ہے اور اس پر عمل واجب ہے ، اسی طرح حدیث مصراۃ ان احادیث میں سے ہے جو ثابت شدہ ہیں لہٰذا کسی قیل وقال کے بغیر اس پر عمل واجب ہے ۔


3444- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ وَهِشَامٌ وَحَبِيبٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنِ اشْتَرَى شَاةً مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، إِنْ شَائَ رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ طَعَامٍ لا سَمْرَائَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۳۱، ۱۴۵۶۶)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۶۴ (۲۱۴۹)، ۶۵ (۲۱۵۱)، م/البیوع ۷ (۱۵۲۵)، ت/البیوع ۲۹ (۱۲۵۲)، ن/البیوع ۱۴ (۴۴۹۴)، ق/التجارات ۴۲ (۲۲۳۹)، ط/البیوع ۴۵ (۹۶)، حم (۲/۲۴۸، ۳۹۴، ۴۶۰، ۴۶۵)، دي/البیوع ۱۹ (۲۵۹۵) (صحیح)
۳۴۴۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:’’ جس نے تصریہ کی ہوئی بکری خریدی تو اسے تین دن تک اختیار ہے چا ہے تواسے لو ٹا دے، اور ساتھ میں ایک صاع غلہ (جوغلہ بھی میسر ہو) دے دے، گیہوں دینا ضروری نہیں‘‘۔


3445- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَخْلَدٍ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ -يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ- حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي زِيَادٌ أَنَّ ثَابِتًا مَوْلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنِ اشْتَرَى غَنَمًا مُصَرَّاةً احْتَلَبَهَا: فَإِنْ رَضِيَهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ سَخِطَهَا فَفِي حَلْبَتِهَا صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ >۔
* تخريج: خ/البیوع ۶۵ (۲۱۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۲۷)، وقد أخرجہ: م/البیوع ۷ (۱۵۲۴) (صحیح)
۳۴۴۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے تھن میں دودھ جمع کی ہوئی بکری خریدی اسے دو ہا ، تو اگر اسے پسند ہو تو روک لے اور اگر ناپسند ہو تو دوہنے کے عوض ایک صاع کھجور دے کر اسے واپس پھیر دے۔


3446- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنِ ابْتَاعَ مُحَفَّلَةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ رَدَّهَا رَدَّ مَعَهَا مِثْلَ أَوْ مِثْلَيْ لَبَنِهَا قَمْحًا >۔
* تخريج: ق/التجارات ۴۲ (۲۲۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۷۵) (ضعیف)
(اس کا راوی’’ جمیع ‘‘ ضعیف اور رافضی ہے ، اور یہ صحیح احادیث کے خلاف بھی ہے)
۳۴۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو کوئی تھن میں دودھ جمع کی ہوئی ( ما دہ) خریدے تو تین دن تک اسے اختیا ر ہے ( چاہے تو رکھ لے تو کوئی بات نہیں)اور اگر واپس کرتا ہے ، تو اس کے ساتھ اس کے دودھ کے برا بر یا اس دودھ کے دو گنا گیہوں بھی دے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
49- بَاب فِي النَّهْيِ عَنِ الْحُكْرَةِ
۴۹-باب: ذخیرہ اندوزی منع ہے​


3447- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ عَطَائٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِي مَعْمَرٍ أَحَدِ بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَحْتَكِرُ إِلا خَاطِئٌ > فَقُلْتُ لِسَعِيدٍ: فَإِنَّكَ تَحْتَكِرُ، قَالَ: وَمَعْمَرٌ كَانَ يَحْتَكِرُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَسَأَلْتُ أَحْمَدَ مَا الْحُكْرَةُ؟ قَالَ: مَا فِيهِ عَيْشُ النَّاسِ.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: الْمُحْتَكِرُ مَنْ يَعْتَرِضُ السُّوقَ ۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۲۶ (۱۶۰۵)، ت/البیوع ۴۰ (۱۲۶۷)، ق/التجارات ۶ (۲۱۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/ ۴۵۳، ۶/۴۰۰)، دي/البیوع ۱۲ (۲۵۸۵) (صحیح)
۳۴۴۷- بنو عدی بن کعب کے ایک فرد معمر بن ابی معمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا :''بھاؤ بڑھانے کے لئے احتکار (ذخیرہ اندوزی) وہی کرتاہے جو خطا کار ہو''۔
محمد بن عمر وکہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے کہا: آپ تو احتکار کرتے ہیں ، انہوں نے کہا: معمر بھی احتکار کرتے تھے۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے پو چھا: حکرہ کیا ہے؟( یعنی احتکار کا اطلا ق کس چیز پر ہوگا) انہوں نے کہا: جس پر لوگوں کی زندگی موقوف ہو۔
ابو داود کہتے ہیں: اوزاعی کہتے ہیں: احتکار(ذخیرہ اندوزی) کرنے والا وہ ہے جو بازار کے آڑے آئے یعنی اس کے لئے رکاوٹ بنے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر غلہ کی کمی نہیں ہے اور بازار میں اس کی خرید و فروخت چل رہی ہے اور لوگوں کی ضرورت پوری ہو رہی ہے تو احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرنے میں کوئی حرج نہیں۔


3448- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَيَّاضٍ، حَدَّثَنَا أَبِي (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى ابْنُ الْفَيَّاضِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: لَيْسَ فِي التَّمْرِ حُكْرَةٌ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: قَالَ: عَنِ الْحَسَنِ، فَقُلْنَا لَهُ: لا تَقُلْ عَنِ الْحَسَنِ.
تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۱۶) (ضعیف) (یحییٰ بن فیاض لین الحدیث ہیں)
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدَنَا بَاطِلٌ.
قَالَ أَبو دَاود: كَانَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ يَحْتَكِرُ النَّوَى وَالْخَبَطَ وَالْبِزْرَ، و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ يُونُسَ يَقُولُ: سَأَلْتُ سُفْيَانَ عَنْ كَبْسِ الْقَتِّ، فَقَالَ: كَانُوا يَكْرَهُونَ الْحُكْرَةَ، وَسَأَلْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَيَّاشٍ، فَقَالَ: اكْبِسْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۶۵) (صحیح)
۳۴۴۸- قتا دہ کہتے ہیں: کھجو ر میں احتکا ر(ذخیرہ اندودزی)نہیں ہے۔
ابن مثنی کی روایت میں یحییٰ بن فیاض نے یوں کہا''حدثنا همام عن قتادة عن الحسن''محمد بن مثنی کہتے ہیں توہم نے ان سے کہا:''عن قتادة''کے بعد ''عن الحسن'' نہ کہئے (کیونکہ یہ قول حسن بصری کا نہیں ہے)۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ حدیث ہمارے نزدیک باطل ہے ۔
سعید بن مسیب کھجو ر کی گٹھلی، جانوروں کے چارے اور بیجوں کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے ۔
اور میں نے احمد بن یونس کو کہتے سنا کہ میں نے سفیان (ابن سعید ثوری ) سے جانوروں کے چاروں کے روک لینے کے بارے میں پو چھا تو انہوں نے کہا:لوگ احتکار (ذخیرہ اندوزی) کو نا پسند کر تے تھے ۔
اور میں نے ابو بکر بن عیاش سے پو چھا تو انہوں نے کہا: روک لو ( کوئی حرج نہیں ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
50- بَاب فِي كَسْرِ الدَّرَاهِمِ
۵۰-باب: (بلاضرورت ) درہم (چاندی کا سکہ) توڑنا (اور پگھلانا) منع ہے​


3449- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ فَضَائٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ تُكْسَرَ سِكَّةُ الْمُسْلِمِينَ الْجَائِزَةُ بَيْنَهُمْ إِلا مِنْ بَأْسٍ۔
* تخريج: ق/التجارات ۵۲ (۲۲۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۹) (ضعیف)
(اس کے راوی'' محمد بن فضاء '' ضعیف ہیں )
۳۴۴۹- عبداللہ(مزنی) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کے رائج سکے کو توڑنے سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ کسی کو ضرورت ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
51- بَاب فِي التَّسْعِيرِ
۵۱-باب: نرخ مقرر کر نا کیسا ہے؟​


3450- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ بِلالٍ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْعَلائُ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلا جَائَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! سَعِّرْ، فَقَالَ: < بَلْ أَدْعُو > ثُمَّ جَائَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! سَعِّرْ، فَقَالَ: < بَلِ اللَّهُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ، وَإِنِّي لأَرْجُو أَنْ أَلْقَى اللَّهَ وَلَيْسَ لأَحَدٍ عِنْدِي مَظْلَمَةٌ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۳۷، ۳۷۲) (صحیح)
۳۴۵۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا:اللہ کے رسول !نرخ مقرر فرما دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا:'' ( میں نرخ مقرر تو نہیں کروں گا ) البتہ دعا کروں گا''(کہ غلہ سستا ہو جائے)، پھر ایک اور شخص آپ کے پاس آیا اور اس نے بھی کہا:اللہ کے رسول! نرخ متعین فرما دیجئے ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ ہی نرخ گراتا اور اٹھاتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ سے اس طرح ملوں کہ کسی کی طرف سے مجھ پر زیادتی کا الزام نہ ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بھائو مقرر کر دینے میں کسی کا فائدہ اور کسی کا گھاٹا ہو سکتا ہے تو گھاٹے والا میرا دامن گیر ہو سکتا ہے کہ میری وجہ سے اسے نقصان اٹھا نا پڑا تھا۔


3451- حدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسِ [بْنِ مَالِكٍ] وَقَتَادَةُ وَحُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! غَلا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، وَإِنِّي لأَرْجُو أَنْ أَلْقَى اللَّهَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلا مَالٍ >۔
* تخريج: ت/البیوع ۷۳ (۱۳۱۴)، ق/التجارات ۲۷ (۲۲۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸، ۱۱۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۸۶)، دی/ البیوع ۱۳ (۲۵۸۷) (صحیح)
۳۴۵۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ (کوئی مناسب ) نرخ مقرر فرما دیجئے ، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' نرخ مقرر کر نے والا تو اللہ ہی ہے، ( میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کر نے والا ہے ،اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں ، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو ( اس لئے میں بھائو مقرر کر نے کے حق میں نہیں ہوں)''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
52- بَاب النَّهْيِ عَنِ الْغِشِّ
۵۲-باب: خرید و فروخت میں فریب اور دھوکہ دھڑی منع ہے​


3452- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ [بْنُ مُحَمَّدِ] بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الْعَلاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ بِرَجُلٍ يَبِيعُ طَعَامًا فَسَأَلَهُ: < كَيْفَ تَبِيعُ؟ ؟ فَأَخْبَرَهُ، فَأُوحِيَ إِلَيْهِ أَنْ أَدْخِلْ يَدَكَ فِيهِ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ، فَإِذَا هُوَ مَبْلُولٌ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ >۔
* تخريج:م/الإیمان ۴۳ (۱۰۲)، ت/البیوع ۷۴ (۱۳۱۵)، ق/التجارات ۳۶ (۲۲۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۲۲)، وقد أخرجہ: حم(۲/۲۴۲) (صحیح)
۳۴۵۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺایک آدمی کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا آپ نے اس سے پوچھا: ''کیسے بیچتے ہو؟''، تو اس نے آپ کو بتایا، اسی دوران آپ ﷺ کو وحی کے ذریعہ حکم ملا کہ اس کے غلہ ( کے ڈھیر ) میں ہاتھ ڈال کر دیکھئے ،آپ ﷺ نے غلہ کے اندر ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ اندر سے تر ( گیلا ) تھا تو آپ نے فرمایا: ''جو شخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے( یعنی دھوکہ دہی ہم مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے)''۔


3453- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنْ يَحْيَى قَالَ: كَانَ سُفْيَانُ يَكْرَهُ هَذَا التَّفْسِيرَ لَيْسَ مِنَّا: لَيْسَ مِثْلَنَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۶۹) (صحیح الإسناد)


۳۴۵۳- یحییٰ کہتے ہیں: سفیا ن '' لَيْسَ مِنَّا'' کی تفسیر ''لَيْسَ مِثْلَنَا'' ( ہماری طرح نہیں ہے)سے کرنا ناپسند کر تے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیو نکہ یہ ڈرانے و دھمکانے کا موقع ہے جس میں تغلیظ و تشدید مطلوب ہے، اور اس تفسیر میں یہ بات نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
53- بَاب فِي خِيَارِ الْمُتَبَايِعَيْنِ
۵۳-باب: بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان​


3454- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <الْمُتَبَايِعَانِ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْخِيَارِ عَلَى صَاحِبِهِ مَا لَمْ يَفْتَرِقَا، إِلا بَيْعَ الْخِيَارِ >۔
* تخريج: خ/البیوع ۴۲ (۲۱۰۷)، ۴۳ (۲۱۰۹)، ۴۴ (۲۱۱۱)، ۴۵ (۲۱۱۲)، ۴۶ (۲۱۱۳)، م/البیوع ۱۰ (۱۵۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۴۱، ۸۲۸۲)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۲۶ (۱۲۴۵)، ق/التجارات ۱۷ (۲۱۸۱)، ط/البیوع ۳۸ (۷۹)، حم (۲/۴، ۹، ۵۲، ۵۴، ۷۳، ۱۱۹، ۱۳۵) (صحیح)
۳۴۵۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو بیع قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیارہوتا ہے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں ۱؎مگر جب بیع خیا ر ہو ‘ ‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عقد کو فسخ کرنے سے پہلے مجلس عقد سے اگر بائع اور مشتری دونوں جسمانی طور پر جدا ہوگئے تو بیع لازم ہو جائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیار حاصل نہیں ہوگا ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی خیار کی شرط کر لی ہو تو مجلس علیحد گی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیار باقی رہے گا۔


3355-حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْماَعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: أَوْ يَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اخْتَرْ۔
* تخريج: خ/ البیوع ۴۳ (۲۱۰۹)، م/ البیوع ۱۰ (۱۵۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴، ۷۳) (صحیح)
۳۴۵۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں یوں ہے: ’’یا ان میں سے کوئی اپنے ساتھی سے کہے ’’اخْتَرْ‘‘ یعنی لینا ہے تو لے لو، یا دینا ہے تو دے دو(پھر وہ کہے: لے لیا، یا کہے دے دیا، تو جدا ہونے سے پہلے ہی اختیار جاتا رہے گا)‘‘۔


3456- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <الْمُتَبَايِعَانِ بِالْخِيَارِ مَالَمْ يَفْتَرِقَا، إِلا أَنْ تَكُونَ صَفْقَةَ خِيَارٍ، وَلا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَ صَاحِبَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ >۔
* تخريج: ت/البیوع ۲۶ (۱۲۴۷)، ن/البیوع ۹ (۴۴۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۳) (حسن)
۳۴۵۶- عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ خر ید و فروخت کر نے والے دونوں جب تک جدا نہ ہوں معاملہ ختم کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں ، مگر جب بیع خیار ہو،( تو جدا ہو نے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے)، با ئع و مشتری دونوں میں سے کسی کے لئے حلال نہیں کہ چیز کو پھیر دینے کے ڈر سے اپنے ساتھی کے پاس سے اٹھ کر چلا جائے‘‘۔


3457- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْوَضِيئِ، قَالَ: غَزَوْنَا غَزْوَةً لَنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلا، فَبَاعَ صَاحِبٌ لَنَا فَرَسًا بِغُلامٍ، ثُمَّ أَقَامَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا، فَلَمَّا أَصْبَحَا مِنَ الْغَدِ حَضَرَ الرَّحِيلُ فَقَامَ إِلَى فَرَسِهِ يُسْرِجُهُ فَنَدِمَ، فَأَتَى الرَّجُلَ وَأَخَذَهُ بِالْبَيْعِ، فَأَبَى الرَّجُلُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: بَيْنِي وَبَيْنَكَ أَبُو بَرْزَةَ صَاحِبُ النَّبِيِّ ﷺ، فَأَتَيَا أَبَا بَرْزَةَ فِي نَاحِيَةِ الْعَسْكَرِ، فَقَالا لَهُ هَذِهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ: أَتَرْضَيَانِ أَنْ أَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا > قَالَ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ: حَدَّثَ جَمِيلٌ أَنَّهُ قَالَ: مَا أَرَاكُمَا افْتَرَقْتُمَا۔
* تخريج: ق/التجارات ۱۷ (۲۱۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۲۵) (صحیح)
۳۴۵۷- ابو الو ضی کہتے ہیں: ہم نے ایک جنگ لڑ ی ایک جگہ قیام کیا تو ہمارے ایک ساتھی نے غلام کے بدلے ایک گھوڑا بیچا، اور معاملہ کے وقت سے لے کر پورا دن اور پوری رات دونوں وہیں رہے ، پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی اور کوچ کا وقت آیا، تو وہ ( بیچنے والا) اٹھا اور( اپنے) گھوڑے پر زین کسنے لگا اسے بیچنے پر شرمندگی ہوئی( زین کس کر اس نے واپس لے لینے کا ارا دہ کر لیا) وہ مشتری کے پاس آیا اوراسے بیع کو فسخ کرنے کے لئے پکڑا تو خریدنے والے نے گھوڑا لوٹانے سے انکار کر دیا ، پھر اس نے کہا: میرے اور تمہارے درمیان ر سول ﷺکے صحابی ابوبرزہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں( وہ جو فیصلہ کر دیں ہم مان لیں گے) وہ دونوں ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، اس وقت ابو برزہ لشکر کے ایک جانب ( پڑائو ) میں تھے ، ان دونوں نے ان سے یہ وا قعہ بیان کیا تو انہوں نے ان دونوں سے کہا: کیا تم اس با ت پر راضی ہو کہ میں تمہارے درمیان رسول اللہﷺ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کردوں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:’’ دونوں خریدو فروخت کر نے والوں کو اس وقت تک بیع فسخ کر دینے کا اختیار ہے ، جب تک کہ وہ دونوں ( ایک مجلس سے) جدا ہو کر ادھر ادھر نہ ہو جائیں‘‘۔
ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ جمیل نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا :میں سمجھتا ہوں کہ تم دونوں جدا نہیں ہوئے ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ یہ دونوں اسی جگہ ٹھہرے رہے جہاں آپس میں خرید وفروخت کا معاملہ ہوا تھا اور ایجاب وقبول کے بعد دونوں جسمانی طور پر جدا نہیں ہوئے بلکہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنا معاملہ بھی ایک ساتھ ہو کر لائے اسی لئے انہوں نے بیچنے والے کے حق میں فیصلہ دیا ، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صحابی رسول ﷺ آپ کے قول ’’ما لم يتفرقا‘‘ کو ’’تفرق بالأبدان‘‘ پر مجہول کرتے تھے نہ کہ تفرق بالا قوال پر ۔


3458- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْجَرْجَرَائِيُّ، قَالَ: مَرْوَانُ الْفَزَارِيُّ أَخْبَرَنَا، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ قَالَ: كَانَ أَبُو زُرْعَةَ إِذَا بَايَعَ رَجُلا خَيَّرَهُ، قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ: خَيِّرْنِي، وَيَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَاهُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَفْتَرِقَنَّ اثْنَانِ إِلا عَنْ تَرَاضٍ>۔
* تخريج: ت/البیوع ۲۷ (۱۲۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۳۶) (حسن صحیح)
۳۴۵۸- یحییٰ بن ایوب کہتے ہیں: ابو زرعہ جب کسی آدمی سے خر ید و فروخت کرتے تو اسے اختیار دیتے اور پھر اس سے کہتے: تم بھی مجھے اختیار دے دو اور کہتے: میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دو آدمی جب ایک ساتھ ہوں تو وہ ایک دوسرے سے علا حدہ نہ ہوں مگر ایک دوسرے سے راضی ہو کر‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : چا ہے وہ کلاس کے دو ساتھی ہوں یا ٹرین و بس کے دو ہم سفر، یا با ئع و مشتری ہوں یا کوئی اور انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ اس طرح ہونا چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے خوش ہوں۔


3459- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَفْتَرِقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتِ الْبَرَكَةُ مِنْ بَيْعِهِمَا >.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ وَحَمَّادٌ، وَأَمَّا هَمَّامٌ فَقَالَ: < حَتَّى يَتَفَرَّقَا أَوْ يَخْتَارَ ثَلاثَ مِرَارٍ >۔
* تخريج: خ/البیوع ۱۹ (۲۰۷۹)، ۲۲ (۲۰۸۲)، ۴۲ (۲۱۰۸)، ۴۴ (۲۱۱۰)، ۴۶ (۲۱۱۴)، م/البیوع ۱ (۱۵۳۲)، ت/البیوع ۲۶ (۱۲۴۶)، ن/البیوع ۴ (۴۴۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۲، ۴۰۳، ۴۳۴) (صحیح)
۳۴۵۹- حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں دونوں کو بیع کے با قی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے ، پھر اگر دونوں سچ کہیں اور خوبی و خرابی دونوں بیان کر دیں تو دونوں کے اس خرید وفروخت میں برکت ہوگی اور اگر ان دونوں نے عیوب کو چھپایا، اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان دونوں کی بیع سے برکت ختم کردی جائے گی‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے سعید بن ابی عروبہ اور حماد نے روایت کیا ہے ، لیکن ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ با ئع ومشتری کو اختیار ہے جب تک کہ دونوں جدا نہ ہوں ، یا دونوں تین مرتبہ اختیار کی شرط نہ کر لیں‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
54- بَاب فِي فَضْلِ الإِقَالَةِ
۵۴-باب: بیع فسخ کر دینے کی فضیلت کا بیان​


3460- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ >۔
* تخريج: ق/التجارات ۲۶ (۲۱۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۲) (صحیح)
۳۴۶۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے فروخت کا معاملہ فسخ کرلے تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے گناہ معاف کردے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کی تشریح یہ ہے کہ ایک آدمی نے کسی سے کوئی سامان خریدا ، مگر اس کو اس سامان کی ضرورت ختم ہوگئی یا کسی وجہ سے اس خرید پر اس کو پچھتاوا ہوگیا ، اور خریدا ہوا سامان واپس کر دینا چاہا تو بائع نے سامان واپس کر لیا ، تو گویا اس نے ایک مسلمان پر احسان کیا ، اس لئے اللہ تعالیٰ بھی اس پر احسان کرے گا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
55- بَاب فِيمَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ
۵۵-باب: ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت​


3461- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۰۵)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۱۸ (۱۲۳۱)، ن/البیوع ۷۳ (۷/۴۶۳۶)، ط/البیوع ۳۳ (۷۳)، حم (۲/۴۳۲، ۴۷۵، ۵۰۳) (حسن)
۳۴۶۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' جس نے ایک معاملہ میں دو طرح کی بیع کی تو جو کم والی ہوگی وہی لا گو ہو گی ( اور دوسری ٹھکرادی جائے گی) کیونکہ وہ سود ہو جائے گی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ '' ایک چیز کے بیچنے میں دو طرح کی بیع کرنا جیسے بیچنے والا خریدنے والے سے یہ کہے کہ یہ کپڑا ایک دینار کا ہے اور یہ دو دینار کا اور خریدنے والے کو دونوں میں سے ایک لینا پڑے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ بیچنے والا خریدنے والے سے کہے کہ میں نے تمہارے ہاتھ یہ کپڑا نقد دس روپیہ میں اور اُدھار پندرہ میں بیچا، بعضوں نے کہا : بیچنے والا خریدار سے کہے کہ میں نے اپنا باغ تمہارے ہاتھ اس شرط سے بیچا کہ تم اپنا گھرمیرے ہاتھ بیچو، مگردوسری صورت اس حدیث کے مضمون سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ ایک چیز کی دو بیع میں دو قیمتیں کم اور زیادہ ہیں ، اور اگر کم کو اختیار نہ کرے تو سود لازم ہوگا، ایک بیع میں دو بیع کی تشریح ابن القیم نے اس طرح کی ہے : بیچنے والا خریدنے والے کے ہاتھ کوئی سامان سو روپئے ادھار پر بیچے، پھر خریدار سے اسی سامان کو اسّی روپئے نقد پر خرید لے،چونکہ یہ بیع سود تک پہنچانے والی ہے اس لئے نا جائز ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
56- بَاب فِي النَّهْيِ عَنِ الْعِينَةِ
۵۶-باب: بیع عینہ منع ہے​


3462- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ (ح) وَحَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَحْيَى الْبُرُلُّسِيُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ إِسْحَاقَ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ سُلَيْمَانُ: عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْخُرَاسَانِيِّ أَنَّ عَطَائً الْخُرَاسَانِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَهُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلاً لايَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ >.
قَالَ أَبو دَاود: الإِخْبَارُ لِجَعْفَرٍ، وَهَذَا لَفْظُهُ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۲) (صحیح)
(متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے ورنہ اس کی سند میں اسحاق الخراسانی اور عطاء الخراسانی دونوں ضعیف ہیں )
۳۴۶۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: '' جب تم بیع عینہ ۱؎ کرنے لگو گے گا یوں بیلوں کے دُم تھام لو گے، کھیتی باڑی میں مست و مگن رہنے لگو گے، اور جہاد کو چھوڑ دو گے ، تو اللہ تعالی تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا ، جس سے تم اس وقت تک نجات و چھٹکارا نہ پاسکو گے جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آئوگے''۔
ابو داود کہتے ہیں:روایت جعفر کی ہے اور یہ انہیں کے الفاظ ہیں۔
وضاحت ۱؎ : بیع عینہ کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید نے عمرو کے ہاتھ ایک تھان کپڑا ایک ہزار روپے میں ایک مہینہ کے ادھار پر بیچا، پھر آٹھ سو روپیہ نقد دے کر وہ تھان اس نے عمرو سے خرید لیا، یہ بیع سود خوروں نے ایجاد کی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
57- بَاب فِي السَّلَفِ
۵۷-باب: بیع سلف (سلم) کا بیان ۱؎​


3463 - حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يُسْلِفُونَ فِي التَّمْرِ السَّنَةَ وَالسَّنَتَيْنِ وَالثَّلاثَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَسْلَفَ فِي تَمْرٍ فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ >۔
* تخريج: خ/السلم ۱ (۲۲۳۹)، ۲ (۲۲۴۰)، ۷ (۲۲۵۳)، م/المساقاۃ ۲۵ (۱۶۰۴)، ت/البیوع ۷۰ (۱۳۱۱)، ن/البیوع ۶۱ (۴۶۲۰)، ق/التجارات ۵۹ (۲۲۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۷، ۲۲۲، ۲۸۲، ۳۵۸)، دي/البیوع ۴۵ (۲۶۲۵) (صحیح)
۳۴۶۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لا ئے اس وقت لو گ پھلوں میں سال سال، دو دو سال، تین تین سال کی بیع سلف کرتے تھے (یعنی مشتری بائع کو قیمت نقد دے دیتا اور بائع سال و دو سال تین سال کی جو بھی مدت متعین ہوتی مقررہ وقت تک پھل دیتا رہتا) رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' جو شخص کھجور کی پیشگی قیمت دینے کا معاملہ کرے اسے چاہئے کہ معاملہ کرتے وقت پیمانہ وزن اور مدت سب کچھ معلوم و متعین کر لے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سلف یا سلم یہ ہے کہ خریدار بیچنے والے کو سامان کی قیمت پیشگی دے دے اور سامان کی ادائیگی کے لئے ایک میعاد مقرر کر لے، ساتھ ہی سامان کا وزن، وصف اور نوعیت وغیرہ متعین ہو ایسا جائز ہے۔
وضاحت ۲؎ : تاکہ جھگڑے اور اختلاف پیدا ہو نے والی بات نہ رہ جائے اگر مدت مجہول ہو اور وزن اور ناپ متعین نہ ہو تو بیع سلف درست نہ ہو گی۔


3464 - حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدٌ أَوْ عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُجَالِدٍ، قَالَ: اخْتَلَفَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ وَأَبُو بُرْدَةَ فِي السَّلَفِ، فَبَعَثُونِي إِلَى ابْنِ أَبِي أَوْفَى فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: إِنْ كُنَّا نُسْلِفُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فِي الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالتَّمْرِ وَالزَّبِيبِ -زَادَ ابْنُ كَثِيرٍ: إِلَى قَوْمٍ مَا هُوَ عِنْدَهُمْ- ثُمَّ اتَّفَقَا: وَسَأَلْتُ ابْنَ أَبْزَي فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ ۔
* تخريج: خ/السلم ۲ (۲۲۴۲)، ن/البیوع ۵۹ (۴۶۱۸)، ۶۰ (۴۶۱۹)، ق/التجارات ۵۹ (۲۲۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۴، ۳۸۰) (صحیح)
۳۴۶۴- محمد یا عبداللہ بن مجا لد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن شداد اور ابو بر دہ رضی اللہ عنہما میں بیع سلف کے سلسلہ میں اختلاف ہوا تو لوگوں نے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے یہ مسئلہ پوچھنے کے لئے بھیجا، میں نے ان سے پو چھا تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہﷺ ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں گیہوں ، جو ، کھجور اور انگور خرید نے میں سلف کیا کرتے تھے ، اور ان لوگوں سے (کرتے تھے) جن کے پاس یہ میوے نہ ہوتے تھے ۔
3465- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى وَابْنُ مَهْدِيٍّ قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ، وَقَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: عَنِ [ابْنِ] أَبِي الْمُجَالِدِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: عِنْدَ قَوْمٍ مَاهُوَعِنْدَهُمْ.
قَالَ أَبو دَاود: الصَّوَابُ ابْنُ أَبِي الْمُجَالِدِ، وَشُعْبَةُ أَخْطَأَ فِيهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۱۷) (صحیح)
۳۴۶۵- عبداللہ بن ابی مجالد (اور عبدالرحمن نے ابن ابی مجالد کہا ہے) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ ایسے لوگوں سے سلم کرتے تھے ، جن کے پاس ( بر وقت) یہ مال نہ ہو تے تھے ۔
ابو داود کہتے ہیں: ابن ابی مجالد صحیح ہے ، اور شعبہ سے اس میں غلطی ہوئی ہے۔


3466- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي غَنِيَّةَ، حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الأَسْلَمِيِّ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الشَّامَ، فَكَانَ يَأْتِينَا أَنْبَاطٌ مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ فَنُسْلِفُهُمْ فِي الْبُرِّ وَالزَّيْتِ سِعْرًا مَعْلُومًا وَأَجَلا مَعْلُومًا، فَقِيلَ لَهُ: مِمَّنْ لَهُ ذَلِكَ؟ قَالَ: مَا كُنَّا نَسْأَلُهُمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۶۸)، وقد أخرجہ: خ/السلم ۳ (۲۲۴۱)، ۷ (۲۲۵۳) (صحیح)
۳۴۶۶- عبداللہ بن ابی اوفی اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ شام میں جہاد کیا تو شام کے کاشتکاروں میں سے بہت سے کاشتکار ہمارے پاس آتے ، تو ہم ان سے بھائو اور مدت معلوم و متعین کر کے گیہوں اور تیل کا سلف کرتے (یعنی پہلے رقم دے دیتے پھر متیعنہ بھائو سے مقررہ مدت پر مال لے لیتے تھے) ان سے کہا گیا: آپ ایسے لوگوں سے سلم کرتے رہے ہوں گے جن کے پاس یہ مال موجود رہتا ہو گا ، انہوں نے کہا: ہم یہ سب ان سے نہیں پوچھتے تھے۔
 
Top