• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
67- بَاب فِي بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوْفِيَ
۶۷-باب: قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے​


3492- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ > .
* تخريج: خ/البیوع ۵۱ (۲۱۲۶)، ۵۴ (۲۱۳۳)، ۵۵ (۲۱۳۶)، م/البیوع ۸ (۱۵۲۶)، ن/البیوع ۵۳ (۴۵۹۹)، ق/التجارات ۳۷ (۲۲۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۷)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۱۹ (۴۰)، حم (۱/۵۶، ۶۳، ۲/۲۳، ۴۶، ۵۹، ۶۴، ۷۳، ۷۹، ۱۰۸، ۱۱۱، ۱۱۳)، دي/البیوع ۲۶ (۲۶۰۲) (صحیح)
۳۴۹۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جو کھانے کا غلہ خریدے وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک کہ اسے پورے طور سے اپنے قبضہ میں نہ لے لے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جمہور علماء کا کہنا ہے کہ یہ حکم ہر بیچی جانے والی شی کے لئے عام ہے لہٰذا خریدی گئی چیز میں اس وقت تک کسی طرح کا تصرف جائز نہیں جب تک کہ اسے پورے طور سے قبضہ میں نہ لے لیا جائے یا جہاں خریدا ہے وہاں سے اسے منتقل نہ کر لیا جائے ۔


3493 - حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَبْتَاعُ الطَّعَامَ، فَيَبْعَثُ عَلَيْنَا مَنْ يَأْمُرُنَا بِانْتِقَالِهِ مِنَ الْمَكَانِ الَّذِي ابْتَعْنَاهُ فِيهِ إِلَى مَكَانٍ سِوَاهُ قَبْلَ أَنْ نَبِيعَهُ، يَعْنِي جُزَافًا۔
* تخريج: م/البیوع ۸ (۱۵۲۷)، ن/البیوع ۵۵ (۴۶۰۹)، ق/التجارات ۳۱ (۲۲۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۷۱)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۵۴ (۲۱۳۱)، ۵۶ (۲۱۳۷)، ۷۲ (۲۱۶۶)، ط/البیوع ۱۹ (۴۲)، حم (۱/۵۶، ۱۱۲، ۲/۷، ۱۵، ۲۱، ۴۰، ۵۳، ۱۴۲، ۱۵۰، ۱۵۷) (صحیح)
۳۴۹۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم رسول اللہﷺ کے زمانہ میں غلہ خریدتے تھے ، تو آپ ہمارے پاس (کسی شخص کو ) بھیجتے وہ ہمیں اس بات کا حکم دیتا کہ غلّہ اس جگہ سے اٹھالیا جائے جہا ں سے ہم نے اسے خریدا ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے بیچیں یعنی انداز ے سے ۔


3494- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانُوا يَتَبَايَعُونَ الطَّعَامَ جُزَافًا بِأَعْلَى السُّوقِ فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَبِيعُوهُ حَتَّى يَنْقُلُوهُ۔
* تخريج: خ/ البیوع ۷۲ (۲۱۶۷)، ن/ البیوع ۵۵ (۴۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۵، ۲۱) (صحیح)
۳۴۹۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:''لو گ اٹکل سے بغیر نا پے تولے(ڈھیر کے ڈھیر ) بازار کے بلند علا قے میں غلّہ خریدتے تھے تو رسول اللہﷺ نے اسے بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اُسے اس جگہ سے منتقل نہ کرلیں'' (تاکہ مشتری کا پہلے اس پر قبضہ ثابت ہو جائے پھر بیچے)۔


3495- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ عُبَيْدٍ الْمَدِينِيِّ أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى أَنْ يَبِيعَ أَحَدٌ طَعَامًا اشْتَرَاهُ بِكَيْلٍ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ ۔
* تخريج: ن/ البیوع ۵۴ (۴۶۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۱۱) (صحیح)
۳۴۹۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے غلہ کو جسے کسی نے ناپ تول کر خریدا ہو، جب تک اسے اپنے قبضہ و تحویل میں پوری طرح نہ لے لے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔


3496- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ وَعُثْمَانُ ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلا يَبِعْهُ حَتَّى يَكْتَالَهُ >، زَادَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ: قُلْتُ لابْنِ عَبَّاسٍ: لِمَ؟ قَالَ: أَلا تَرَى أَنَّهُمْ يَتَبَايَعُونَ بِالذَّهَبِ وَالطَّعَامُ مُرجىً۔
* تخريج: خ/البیوع ۵۴ (۲۱۳۲)، ۵۵ (۲۱۳۵)، م/البیوع ۸ (۱۵۲۵)، ن/البیوع ۵۳ (۴۶۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۵۱، ۲۷۰، ۲۸۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ۳۶۸، ۳۶۹) (صحیح)
۳۴۹۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ''جوشخص گیہوں خریدے تو وہ اسے تولے بغیر فروخت نہ کرے''۔
ابو بکرکی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیوں؟ توانہوں نے کہا:کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ لو گ اشرفیوں سے گیہوں خریدتے بیچتے ہیں حا لا نکہ گیہوں بعد میں تاخیر سے ملنے والاہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مثلا: ایک آدمی نے سوروپیہ کسی کو غلہ کے لئے دیئے اور غلہ اپنے قبضہ میں نہیں لیا، پھر اس کو کسی اور سے ایک سو بیس روپیہ میں بیچ دیا جبکہ غلہ ابھی کسان یا فروخت کرنے والے کے ہاتھ ہی میں ہے ، تو گویا اس نے سو روپیہ کو ایک سو بیس روپیہ میں بیچا اور یہ سود ہے ۔


3497- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ -وَهَذَا لَفْظُ مُسَدَّدٍ- عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا اشْتَرَى أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلا يَبِعْهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ >، قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ: [حَتَّى] يَسْتَوْفِيَهُ، زَادَ مُسَدَّدٌ قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَحْسِبُ [أَنَّ] كُلَّ شَيْئٍ مِثْلَ الطَّعَامِ۔
* تخريج: خ/ البیوع ۵۵ (۲۱۳۵)، م/ البیوع ۸ (۱۵۲۵)، ت/ البیوع ۵۶ (۱۲۹۱)، ن/ البیوع ۵۳ (۴۶۰۲)، ق/ التجارات ۳۷ (۲۲۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۷۰، ۲۸۵) (صحیح)
۳۴۹۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' جب تم میں سے کوئی گیہوں خریدے تو جب تک اسے اپنے قبضہ میں نہ کر لے ، نہ بیچے''۔
سلیما ن بن حرب نے اپنی روایت میں (''حَتَّى يَقْبِضَه '' کے بجائے) '' [حَتَّى] يَسْتَوْفِيَه'' روایت کیا ہے۔
مسدد نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ گیہوں کی طرح ہر چیز کا حکم ہے (جو چیز بھی کوئی خریدے جب تک اس پر قبضہ نہ کر لے دوسرے کے ہا تھ نہ بیچے) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف کی اگلی مرفوع حدیث نمبر (۳۴۹۹) اسی عموم پر دلالت کرتی ہے۔


3498- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: رَأَيْتُ النَّاسَ يُضْرَبُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذَا اشْتَرَوُا الطَّعَامَ جُزَافًا أَنْ يَبِيعُوهُ حَتَّى يُبْلِغَهُ إِلَى رَحْلِهِ۔
* تخريج: خ/ المحاربین ۲۹ (۶۸۵۲)، م/ البیوع ۸ (۱۵۲۷)، ن/ البیوع ۵۵ (۴۶۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۷، ۱۵۰) (صحیح)
۳۴۹۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں میں نے لوگوں کو مارے کھاتے ہوئے دیکھا ہے ۱؎ جب وہ گیہوں کے ڈھیر بغیر تولے اندازے سے خریدتے اور اپنے مکانوں پر لے جانے سے پہلے بیچ ڈالتے ۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ وہ قبضہ میں لے کر بیچنے کے حکم کی خلاف ورزی کرتے تھے۔


3499- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ، حَدَّثَنَا [مُحَمَّدُ] بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: ابْتَعْتُ زَيْتًا فِي السُّوقِ، فَلَمَّا اسْتَوْجَبْتُهُ [لِنَفْسِي] لَقِيَنِي رَجُلٌ، فَأَعْطَانِي بِهِ رِبْحًا حَسَنًا، فَأَرَدْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى يَدِهِ، فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي بِذِرَاعِي، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، فَقَالَ: لا تَبِعْهُ حَيْثُ ابْتَعْتَهُ حَتَّى تَحُوزَهُ إِلَى رَحْلِكَ؛ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَيْثُ تُبْتَاعُ حَتَّى يَحُوزَهَا التُّجَّارُ إِلَى رِحَالِهِمْ۔
* تخريج: تفردبہ أبو دواد، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۹۱) (حسن)
۳۴۹۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے بازار میں تیل خریدا ، تو جب اس بیع کو میں نے مکمل کرلیا ، تو مجھے ایک شخص ملا، وہ مجھے اس کا اچھا نفع دینے لگا، تو میں نے ارادہ کیا کہ اس سے سو دا پکا کر لوں اتنے میں ایک شخص نے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا ، میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے ، انہوں نے کہا: جب تک کہ تم اسے جہاں سے خریدے ہو وہاں سے اٹھا کر اپنے ٹھکانے پر نہ لے آئو نہ بیچنا کیونکہ رسول اللہﷺ نے سامان کو اسی جگہ بیچنے سے روکا ہے ، جس جگہ خریدا گیا ہے یہاں تک کہ تجار سامان تجارت کو اپنے ٹھکانوں پر لے آئیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
68- بَاب فِي الرَّجُلِ يَقُولُ فِي الْبَيْعِ لا خِلابَةَ
۶۸-باب: خریدار اگر یہ کہہ دے کہ بیع میں دھوکا دھڑی نہیں چلے گی تواس کو بیع کے فسخ کا اختیار ہوگا​


3500- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلا ذَكَرَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ يُخْدَعُ فِي الْبَيْعِ، فَقَالَ [لَهُ] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لاخِلابَةَ > فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا بَايَعَ يَقُولُ: لا خِلابَة۔
* تخريج: خ/البیوع ۴۸ (۲۱۱۷)، الاستقراض ۱۹ (۲۴۰۷)، الخصومات ۳ (۲۴۱۴)، الحیل ۷ (۶۹۶۴)، ن/البیوع ۱۰ (۴۴۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۲۹)، وقد أخرجہ: م/البیوع ۱۲ (۱۵۳۳)، ط/البیوع ۴۶ (۹۸)، حم (۲/۸۰، ۱۱۶، ۱۲۹،۱۳۰) (صحیح)
۳۵۰۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے ذکر کیا کہ خرید و فروخت میں اسے دھوکا دے دیا جاتا ہے ( تو وہ کیا کرے) رسول اللہﷺ نے اس سے فرمایا:''جب تم خرید و فروخت کرو ، تو کہہ دیا کرو ''لا خِلابَةَ'' (دھو کا دھڑی کا اعتبار نہ ہو گا)''، تو وہ آدمی جب کوئی چیز بیچتا تو ''لا خِلابَةَ '' کہہ دیتا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : خریدار کے ایسا کہہ دینے سے اسے اختیار حاصل ہو جاتا ہے اور اگر بعد میں اسے پتہ چل جائے کہ اس کے ساتھ چالبازی کی گئی ہے تو وہ بیع فسخ کرسکتا ہے۔


3501 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأُرُزِّيُّ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ أَبُو ثَوْرٍ الْكَلْبِيُّ -الْمَعْنَى- قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَطَائٍ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَبْتَاعُ وَفِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، فَأَتَى أَهْلُهُ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! احْجُرْ عَلَى فُلانٍ فَإِنَّهُ يَبْتَاعُ وَفِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، فَدَعَاهُ النَّبِيُّ ﷺ فَنَهَاهُ عَنِ الْبَيْعِ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! إِنِّي لاأَصْبِرُ عَنِ الْبَيْعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنْ كُنْتَ غَيْرَ تَارِكٍ الْبَيْعَ فَقُلْ هَائَ وَهَائَ وَلا خِلابَةَ >.
قَالَ أَبُو ثَوْرٍ: عَنْ سَعِيدٍ۔
* تخريج: ت/البیوع ۲۸ (۱۲۵۰)، ن/البیوع ۱۰ (۴۴۹۰)، ق/الأحکام ۲۴ (۲۳۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۱۷) (صحیح)
۳۵۰۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے زمانہ میں خرید و فروخت کرتا تھا ، لیکن اس کی گرہ (معاملہ کی پختگی میں) کمی و کمز وری ہوتی تھی تو اس کے گھر والے اللہ کے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! فلاں(کے خرید و فروخت ) پرروک لگا دیجئے ، کیو نکہ وہ سو دا کرتا ہے لیکن اس کی سو دا با زی کمزور ہوتی ہے( جس سے نقصان پہنچتا ہے ) تو نبی اکرم ﷺ نے اسے بلایا اور اسے خرید و فروخت کرنے سے منع فرما دیا ، اس نے کہا :اللہ کے نبی ! مجھ سے خریدو فروخت کئے بغیر رہا نہیں جاتا ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' اچھا اگر تم خرید و فروخت چھوڑ نہیں سکتے تو خرید وفروخت کرتے وقت کہا کرو:نقدا نقدا ہو، لیکن اس میں دھوکادھڑی نہیں چلے گی'' ۱؎ ۔
اورابوثور کی روایت میں('' أَخْبَرَنَا سَعِيْدٌ''کے بجائے) ''عن سعيد'' ہے۔
وضاحت ۱؎ : پس اگر کسی نے دھوکہ اور فریب کیا ، تو بیع فسخ ہو جائے گی اور لیا دیا واپس ہو جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
69- بَاب فِي الْعُرْبَانِ
۶۹-باب: بیعانہ کا حکم​


3502- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ.
قَالَ مَالِكٌ: وَذَلِكَ -فِيمَا نَرَى، وَاللَّهُ أَعْلَمُ- أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْعَبْدَ أَوْ يَتَكَارَى الدَّابَّةَ ثُمَّ يَقُولُ: أُعْطِيكَ دِينَارًا عَلَى أَنِّي إِنْ تَرَكْتُ السِّلْعَةَ أَوِ الْكِرَائَ فَمَا أَعْطَيْتُكَ لَكَ۔
* تخريج: ق/التجارات ۲۲ (۲۱۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۲۰)، وقد أخرجہ: ط/ البیوع ۱ (۱)، حم (۲/۱۸۳) (ضعیف)
(اس کی سند میں انقطاع ہے ،یہ امام مالک کی بلاغات میں سے ہے)
۳۵۰۲- عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے۔
امام مالک کہتے ہیں: جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں ، اور اللہ بہتر جانتا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بیچنے والے یا کرایہ دینے والے سے کہے کہ میں تجھے( مثلاً ) ایک دینار اس شرط پر دیتا ہوں کہ اگر میں نے یہ سامان یا کرایہ کی سواری نہیں لی تو یہ جو ( دینار) تجھے دے چکا ہوں تیرا ہوجائے گا ( اور اگر لے لیا تو یہ دینار قیمت یا کرایہ میں کٹ جائے گا)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
70- بَاب فِي الرَّجُلِ يَبِيعُ مَا لَيْسَ عِنْدَهُ
۷۰-باب: جو چیز آدمی کے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچے​


3503- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ ابْنِ حِزَامٍ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيُرِيدُ مِنِّي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي، أَفَأَبْتَاعُهُ لَهُ مِنَ السُّوقِ؟ فَقَالَ: < لا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ >۔
* تخريج: ت/البیوع ۱۹ (۱۲۳۲)، ن/البیوع ۵۸ (۴۶۱۵)، ق/التجارات ۲۰ (۲۱۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۲، ۴۳۴) (صحیح)
۳۵۰۳- حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ! آدمی آتا ہے اور مجھ سے اس چیز کی بیع کرناچا ہتا ہے جو میرے پاس موجود نہیں ہوتی، تو کیا میں اس سے سودا کر لوں، اور با زار سے لا کر اسے وہ چیز دے دوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچو''۔


3504- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، حَتَّى ذَكَرَ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ، وَلا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلا رِبْحُ مَا لَمْ تَضْمَنْ، وَلا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ >۔
* تخريج: ت/البیوع ۱۹ (۱۲۳۴)، ن/البیوع ۶۰ (۴۶۲۵)، ق/التجارات ۲۰ (۲۱۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۷۴، ۱۷۸، ۲۰۵) (حسن صحیح)
۳۵۰۴- عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' ادھا ر اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ۱؎ اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ۲؎ اور نہ اس چیز کا نفع لینا درست ہے ، جس کا وہ ابھی ضامن نہ ہوا ہو، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہیں'' ۳؎ (کیوں کہ چیز کے سا منے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے ) ۔
وضاحت ۱؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ بائع خریدار کے ہاتھ آٹھ سو کا سامان ایک ہزار روپیے کے عوض اس شرط پر بیچے کہ بائع خریدار کو ایک ہزار روپیے بطور قرض دے گا گویا بیع کی اگر یہ شکل نہ ہوتی تو بیچنے والا خریدار کو قرض نہ دیتا، اور اگر قرض کا وجود نہ ہوتا تو خریدار یہ سامان نہ خریدتا۔
وضاحت ۲؎ : مثلاً کوئی کہے کہ یہ غلام میں نے تم سے ایک ہزار نقد یا دو ہزار ادھار میں بیچا یہ ایسی بیع ہے جو دو شرطوں پر مشتمل ہے یا مثلاً کوئی یوں کہے کہ میں نے تم سے اپنا یہ کپڑا اتنے اتنے میں اس شرط پر بیچا کہ اس کا دھلوانا اور سلوانا میرے ذمہ ہے۔
وضاحت ۳؎ : بائع کے پاس جو چیز موجود نہیں ہے اسے بیچنے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اس میں دھوکا دھڑی کا خطرہ ہے جیسے کوئی شخص اپنے بھاگے ہوے غلام یا اونٹ کی بیع کرے جب کہ ان دونوں کے واپسی کی ضمانت بائع نہیں دے سکتا، البتہ ایسی چیز کی بیع جو اپنی صفت کے اعتبار سے مشتری کے لئے بالکل واضح ہو جائز ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺنے بیع سلم کی اجازت دی ہے باوجود یکہ بیچی جانے والی شیٔ بائع کے پاس فی الوقت موجود نہیں ہوتی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71- بَاب فِي شَرْطٍ فِي بَيْعٍ
۷۱-باب: بیع میں شرط کرنے کا بیان​


3505- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى -يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ- عَنْ زَكَرِيَّا، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: بِعْتُهُ -يَعْنِي بَعِيرَهُ- مِنَ النَّبِيِّ ﷺ، وَاشْتَرَطْتُ حُمْلانَهُ إِلَى أَهْلِي، قَالَ فِي آخِرِهِ: < تُرَانِي إِنَّمَا مَاكَسْتُكَ لأَذْهَبَ بِجَمَلِكَ؟ خُذْ جَمَلَكَ وَثَمَنَهُ فَهُمَا لَكَ>۔
* تخريج: خ/البیوع ۳۴ (۲۰۹۷)، الاستقراض ۱ (۲۳۸۵)، ۱۸ (۲۴۰۶)، المظالم ۲۶ (۲۴۷۰)، الشروط ۴ (۲۷۱۸)، الجھاد ۴۹ (۲۸۶۱)، ۱۱۳ (۲۹۶۷)، م/البیوع ۴۲ (۷۱۵)، الرضاع ۱۶ (۷۱۵)، ت/البیوع ۳۰ (۱۲۵۳)، ن/البیوع ۷۵ (۴۶۴۱)، ق/التجارات ۲۹ (۲۲۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۹، ۳۹۲) (صحیح)
۳۵۰۵- جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اسے (یعنی اپنا) اونٹ نبی اکرمﷺ سے بیچا اور اپنے ساما ن سمیت سوا ر ہوکراپنے اہل تک پہنچنے کی شرط لگا لی، اور اخیر میں آپ ﷺ نے فرمایا: ''کیا تم سمجھتے ہو کہ میں قیمت کم کرا رہا ہوں تاکہ کم ہی پیسے میں تمہارے اونٹ ہڑپ کر لے جاؤں،جاؤ تم اپنا اونٹ بھی لے جاؤ اور اونٹ کی قیمت بھی ، یہ دونوں چیزیں تمہاری ہیں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72- بَاب فِي عُهْدَةِ الرَّقِيقِ
۷۲-باب: غلام اور لو نڈی کی خریداری میں خریدار کے اختیار کا بیان​


3506 - حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < عُهْدَةُ الرَّقِيقِ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ > ۔
* تخريج: ق/التجارات ۴۴ (۲۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۳، ۱۵۰، ۱۵۲)، دي/البیوع ۱۸ (۲۵۹۴) (ضعیف)
(حسن بصری کا سماع عقبہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
۳۵۰۶- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' (بایع پر) غلام و لو نڈی کے عیب کی جواب دہی کی مدت تین دن ہے ''۔


3507- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنِي عَبْدُالصَّمَدِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ: إِنْ وَجَدَ دَائً فِي الثَّلاثِ [لَيَالِي] رُدَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ، وَإِنْ وَجَدَ دَائً بَعْدَ الثَّلاثِ كُلِّفَ الْبَيِّنَةَ أَنَّهُ اشْتَرَاهُ وَبِهِ هَذَا الدَّائُ.
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا [التَّفْسِيرُ مِنْ] كَلامِ قَتَادَةَ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۱۷) (ضعیف) وسندہ إلی قتادۃ صحیح
(حسن بصری کا سماع عقبہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
۳۵۰۷- اس سند سے بھی قتا دہ سے اسی مفہوم کی حدیث مر وی ہے، اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ اگر تین دن کے اندر ہی اس میں کوئی عیب پائے تو وہ اسے بغیر کسی گواہ کے لوٹا دے گا، اور اگر تین دن بعد اس میں کوئی عیب نکلے تو اس سے اس بات پر بیّنہ (گواہ) طلب کیا جائے گا، کہ جب اس نے اسے خریداتھا تو اس میں یہ بیما ری اور یہ عیب مو جود تھا ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ تفسیر قتا دہ کے کلام کا ایک حصہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
73- بَاب فِيمَنِ اشْتَرَى عَبْدًا فَاسْتَعْمَلَهُ ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا
۷۳-باب: ایک شخص نے غلام خریدا اور اسے کام پر لگایا پھر اس میں عیب کا پتہ چلا تو اس کی اُجرت خریدارکے ذمہ ہے​


3508- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ خُفَافٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ >۔
* تخريج: ت/البیوع ۵۳ (۱۲۸۵)، ن/ البیوع ۱۳ (۴۴۹۵)، ق/التجارات ۴۳ (۲۲۴۲، ۲۲۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۹، ۲۰۸، ۲۳۷) (حسن)
۳۵۰۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' خراج ضمان سے جڑا ہوا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مثلاً خریدار نے ایک غلام خریدا اسی دوران غلام نے کچھ کمائی کی تو اس کا حق دار مشتری ہو گا بائع نہیں کیونکہ غلام کے کھو جانے یا بھاگ جانے کی صورت میں مشتری ہی اس کا ضامن ہے۔


3509- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الفَرْيَابِي، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ مَخْلَدِ [بْنِ خُفَافٍ] الْغِفَارِيِّ قَالَ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ أُنَاسٍ شَرِكَةٌ فِي عَبْدٍ فَاقْتَوَيْتُهُ وَبَعْضُنَا غَائِبٌ، فَأَغَلَّ عَلَيَّ غَلَّةً، فَخَاصَمَنِي فِي نَصِيبِهِ إِلَى بَعْضِ الْقُضَاةِ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَرُدَّ الْغَلَّةَ، فَأَتَيْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ فَحَدَّثْتُهُ، فَأَتَاهُ عُرْوَةُ فَحَدَّثَهُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۵۵) (حسن)
۳۵۰۹- مخلد(بن خفاف) غفاری کہتے ہیں: میرے اور چند لوگوں کے درمیان ایک غلام مشترک تھا ، میں نے اس غلام سے کچھ کام لینا شروع کیا اور ہمارا ایک حصہ دار موجود نہیں تھا اس غلام نے کچھ غلّہ کما کر ہمیں دیا تو میرا شریک جو غائب تھا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور معاملہ ایک قاضی کے پاس لے گیا، اس قاضی نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے حصہ کا غلّہ اسے دے دوں، پھر میں عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے اُسے بیان کیا ، تو عروہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور ان سے وہ حدیث بیان کی جو انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہﷺ سے روایت کی تھی آپ نے فرمایا : ''منافع اس کا ہو گا جو ضامن ہوگا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عروہ نے اس حصہ دار سے یہ حدیث اس لئے بیان کی تاکہ وہ مخلد سے غلہ نہ لے کیونکہ غلام اس وقت مخلد کے ضمان میں تھا اس لئے اس کی کمائی کے مستحق بھی تنہا وہی ہوئے۔


3510- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ رَجُلا ابْتَاعَ غُلامًا فَأَقَامَ عِنْدَهُ مَاشَائَ اللَّهُ أَنْ يُقِيمَ، ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا، فَخَاصَمَهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! قَدِ اسْتَغَلَّ غُلامِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ >.
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا إِسْنَادٌ لَيْسَ بِذَاكَ۔
* تخريج: ق/ التجارات ۴۳ (۲۲۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۸۰، ۱۱۶) (حسن) بما قبلہ
(مسلم زنجی حافظہ کے کمزور راوی ہیں )
۳۵۱۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، وہ غلام جب تک اللہ کو منظور تھا اس کے پاس رہا ، پھراس نے اس میں کوئی عیب پایا تو اس کا مقدمہ نبی اکرم ﷺکے سامنے پیش کیا ، رسول اللہﷺ نے غلام بائع کو واپس کرا دیا، تو بائع کہنے لگا:اللہ کے رسول ! اس نے میرے غلام کے ذریعہ کمائی کی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' خراج (منافع) اس شخص کا حق ہے جو ضامن ہو''۔
ابوداود کہتے ہیں :یہ سند ویسی (قوی) نہیں ہے (جیسی سندوں سے کوئی حدیث ثابت ہوتی ہے )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
74- بَاب إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ وَالْمَبِيعُ قَائِمٌ
۷۴-باب: جب بیچنے والے اورخریدنے والے کے درمیان قیمت میں اختلا ف ہو جائے اور بیچی گئی چیز مو جود ہو تو اس کے حکم کا بیان​


3511- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ قَيْسِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الأَشْعَثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: اشْتَرَى الأَشْعَثُ رَقِيقًا مِنْ رَقِيقِ الْخُمْسِ مِنْ عَبْدِاللَّهِ بِعِشْرِينَ أَلْفًا، فَأَرْسَلَ عَبْدُاللَّهِ إِلَيْهِ فِي ثَمَنِهِمْ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَخَذْتُهُمْ بِعَشَرَةِ آلافٍ، فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَاخْتَرْ رَجُلا يَكُونُ بَيْنِي وَبَيْنَكَ.
قَالَ الأَشْعَثُ: أَنْتَ بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِكَ.
قَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ فَهُوَمَا يَقُولُ رَبُّ السِّلْعَةِ، أَوْ يَتَتَارَكَانِ > ۔
* تخريج: ت/البیوع ۴۳ (۱۲۷۰)، ن/البیوع ۸۰ (۴۶۵۲)، ق/التجارات ۱۹ (۲۱۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۵۸، ۹۵۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۴۶) (صحیح)
۳۵۱۱- محمد بن اشعث کہتے ہیں: اشعث نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے خمس کے غلاموں میں سے چند غلام بیس ہزار میں خریدے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اشعث سے ان کی قیمت منگا بھیجی تو انہوں نے کہا کہ میں نے دس ہزار میں خریدے ہیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی شخص کو چن لو جو ہمارے اور تمہارے درمیان معاملے کا فیصلہ کر دے، اشعث نے کہا: آپ ہی میرے اور اپنے معا ملے میں فیصلہ فرما دیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :'' جب بائع اور مشتری (بیچنے اور خریدنے والے) دونوں کے درمیان ( قیمت میں) اختلا ف ہو جائے اور ان کے درمیان کوئی گواہ موجود نہ ہو تو صاحب مال و سامان جو بات کہے وہی مانی جائے گی ، یا پھر دونوں بیع کو فسخ کر دیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : خریدار اور بیچنے والے کے مابین قیمت کی تعیین و تحدید میں اگر اختلاف ہوجائے اور ان کے درمیان کوئی گواہ موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں بیچنے والا قسم کھا کرکہے گا کہ میں نے اس سامان کو اتنے میں نہیں بلکہ اتنے میں بیچا ہے، اب خریدار اس کی قسم اور قیمت کی تعیین پر راضی ہے تو بہتر ورنہ خریدار بھی قسم کھا کر یہ کہے کہ میں نے یہ سامان اتنے میں نہیں بلکہ اتنے میں خریدا ہے، پھر بیع فسخ کردی جائے گی ۔


3512- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ بَاعَ مِنَ الأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ رَقِيقًا، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَالْكَلامُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ۔
* تخريج: ق/ التجارات ۱۹ (۲۱۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۶۶) (صحیح)
۳۵۱۲- قاسم بن عبدالرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک غلام اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچا، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث الفا ظ کی کچھ کمی و بیشی کے ساتھ بیان کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75- بَاب فِي الشُّفْعَةِ
۷۵-باب: شفعہ کا بیان ۱؎​


3513 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شِرْكٍ رَبْعَةٍ أَوْ حَائِطٍ، لايَصْلُحُ أَنْ يَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ، فَإِنْ بَاعَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ حَتَّى يُؤْذِنَهُ >۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۲۸ (۱۶۰۸)، ن/البیوع ۷۸ (۴۶۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۰۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۱۲، ۳۱۶، ۳۵۷، ۳۹۷)، دي/البیوع ۸۳ (۲۶۷۰) (صحیح)
۳۵۱۳- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ شفعہ ہر مشترک چیز میں ہے ، خواہ گھر ہو یا باغ کی چہار دیواری، کسی شریک کے لئے درست نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے شریک کو آگاہ کئے بغیر بیچ دے ، اور اگر بغیر آگا ہ کئے بیچ دیا تو شریک اس کے لینے کا زیا دہ حق دار ہے یہاں تک کہ وہ اسے دوسرے کے ہاتھ بیچنے کی اجازت دے دے‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شفعہ وہ استحقاق ہے جس کے ذریعہ شریک اپنے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جاچکا ہے قیمت ادا کرکے حاصل کرسکے ۔
وضاحت ۲؎ : اگر شریک لینے کا خواہش مند ہے تو مشتری نے جتنی قیمت دی ہے ، وہ قیمت دے کر لے لے ، مشتری کے پیسے واپس ہوجائیں گے، لیکن اگر اس نے آگاہ کر دیا ، اور شریک لینے کا خو اہش مند نہیں ہے ، تو جس کے ہاتھ بھی چا ہے بیچے حق شفغہ باقی نہ رہے گا۔


3514- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: إِنَّمَا جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلا شُفْعَة۔
* تخريج: خ/البیوع ۹۶ (۲۲۱۳)، ۹۷ (۲۲۱۴)، الشفعۃ ۱ (۲۲۵۷)، الشرکۃ ۸ (۲۴۹۵)، الحیل ۱۴ (۶۹۷۶)، ت/الأحکام ۳۳ (۱۳۷۰)، ق/الشفعۃ ۳ (۲۴۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۷۲، ۳۹۹) (صحیح)
۳۵۱۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے شفعہ ہر اس چیز میں رکھا ہے ، جو تقسیم نہ ہوئی ہو، لیکن جب حد بندیاں ہو گئی ہوں، اور راستے الگ الگ نکا ل دئے گئے ہوں تو اس میں شفعہ نہیں ہے۔


3515- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ [الزُّهْرِيِّ]، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَوْ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَوْ عَنْهُمَا جَمِيعًا، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا قُسِّمَتِ الأَرْضُ وَحُدَّتْ فَلا شُفْعَةَ فِيهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۱۳، ۱۳۲۰۱)، وقد أخرجہ: ق/الأحکام ۳ (۲۴۹۷) (صحیح)
۳۵۱۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جب زمین کا بٹوارہ ہو چکا ہو اور ہر ایک کی حد بندی کر دی گئی ہو تو پھر اس میں شفعہ نہیں رہا‘‘۔


3516- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، سَمِعَ عَمْرَو ابْنَ الشَّرِيدِ، سَمِعَ أَبَا رَافِعٍ، سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: < الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ >۔
* تخريج: خ/الشفعۃ ۲ (۲۲۵۸)، الحیل ۱۴ (۶۹۷۷)، ۱۵ (۶۹۷۸)، ن/البیوع ۱۰۷ (۴۷۰۶)، ق/الأحکام ۸۷ (۲۴۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۸۹،۳۹۰، ۶/۱۰) (صحیح)
۳۵۱۶- ابو رافع رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو فرما تے ہوئے سنا: ’’پڑوسی اپنے سے لگے ہوئے مکان یا زمین کا زیادہ حق دار ہے‘‘۔


3517- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِدَارِ الْجَارِ أَوِ الأَرْضِ >۔
* تخريج: ت/الأحکام ۳۱ (۱۳۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲، ۱۳، ۱۸) (صحیح)
۳۵۱۷- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ گھر کا پڑوسی پڑوسی کے گھر اور زمین کا زیادہ حق دار ہے‘‘ ۔


3518- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالْمَلِكِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَةِ جَارِهِ: يُنْتَظَرُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَائِبًا، إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا >۔
* تخريج: ت/الأحکام ۳۲ (۱۳۶۹)، ق/الشفعۃ ۲ (۲۴۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۳)، دي/ البیوع ۸۳ (۲۶۶۹) (صحیح)
۳۵۱۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ پڑوسی اپنے پڑوسی کے شفعہ کا زیادہ حق دار ہے ، اگر وہ موجود نہ ہو گا تو شفعہ میں اس کا انتظار کیا جائے گا ، جب دونوں ہمسایوں کے آنے جانے کا راستہ ایک ہو‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
76- بَابٌ فِي الرَّجُلِ يفْلس فَيَجِدُ الرَّجُل مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ [عِنْدَهُ]
۷۶-باب: آدمی مفلس (دیوالیہ) کے پاس اپنا سامان بعینہ پائے تو اس کا زیادہ حق دار وہی ہوگا​


3519- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ (ح) وَحَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ -الْمَعْنَى- عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ [بْنِ مُحَمَّدِ] بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَيُّمَا رَجُلٍ أَفْلَسَ فَأَدْرَكَ الرَّجُلُ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ > ۔
* تخريج: خ/الاستقراض ۱۴ (۲۴۰۲)، م/المساقاۃ ۵ (۱۵۵۹)، ت/البیوع ۲۶ (۱۲۶۲)، ن/البیوع ۹۳ (۴۶۸۰)، ق/الأحکام ۲۶ (۴۳۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶۱)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۴۲ (۸۸)، حم (۲/۲۲۸، ۴۷، ۴۹، ۲۵۸، ۴۱۰، ۴۶۸، ۴۷۴، ۵۰۸)، دی/ البیوع ۵۱ (۲۶۳۲) (صحیح)
۳۵۱۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جو کوئی مفلس ہوجائے، پھر کوئی آدمی اپنا مال اس کے پاس ہو بہو پائے تو وہ ( دوسرے قرض خواہوں کے مقابل میں) اسے واپس لے لینے کا زیادہ مستحق ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس باب کی احادیث کی روشنی میں علماء نے کچھ شرائط کے ساتھ ایسے شخص کو اپنے سامان کا زیادہ حقدار ٹھہرایا ہے جو یہ سامان کسی ایسے شخص کے پاس بعینہٖ پائے جس کا دیوالیہ ہوگیا ہو ، وہ شرائط یہ ہیں : (الف) سامان خریدار کے پاس بعینہٖ موجود ہو، (ب) یا پاجانے والا سامان اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے کافی نہ ہو ، (ج) سامان کی قیمت میں سے کچھ بھی نہ لیا گیا ہو ، (د) کوئی ایسی رکاوٹ حائل نہ ہو جس سے وہ سامان لوٹایا ہی نہ جاسکے ۔


3520- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ مَتَاعًا فَأَفْلَسَ الَّذِي ابْتَاعَهُ وَلَمْ يَقْبِضِ الَّذِي بَاعَهُ مِنْ ثَمَنِهِ شَيْئًا فَوَجَدَ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ، وَإِنْ مَاتَ الْمُشْتَرِي فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أُسْوَةُ الْغُرَمَاءِ > ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶۱) (صحیح)
(یہ روایت مرسل ہے ، پچھلی سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے )
۳۵۲۰- ابو بکر بن عبدالرحمن بن حا رث بن ہشام کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس آدمی نے اپنا سامان بیچا اورخریدار مفلس ہوگیا، اور بیچنے والے نے اپنے مال کی کوئی قیمت نہ پا ئی ہو، اور اس کا سامان خریدار کے پاس بعینہٖ موجو د ہو تو وہ اپنا سامان واپس لے لینے کا زیادہ حق دار ہے ، اور اگر خریدار مر گیا ہو تو سامان والا دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہے‘‘۔


3521- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ وَهْبٍ- أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ، زَادَ: < وَإِنْ [كَانَ قَدْ] قَضَى مِنْ ثَمَنِهَا شَيْئًا فَهُوَ أُسْوَةُ الْغُرَمَاءِ فِيهَا >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۵۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶۱) (صحیح)
(یہ بھی مرسل ہے اور حدیث نمبر (۳۵۱۹) سے تقویت پاکر یہ بھی صحیح ہے)
۳۵۲۱- یونس، ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ مجھے ابو بکر بن عبدالرحمن بن حا رث بن ہشام نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺنے…پھر آگے انہوں نے مالک کی حدیث جیسی روایت ذکر کی، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ اگر مشتری اس مال کی کسی قدر قیمت دے چکا ہے ، تو وہ مال والا دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہو گا ۔


3522- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ [الطَّائِيُّ]، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالْجَبَّارِ -يَعْنِي الْخَبَايِرِيَّ- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ- عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، [قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ أَبُوالْهُذَيْلِ الْحِمْصِيُّ] عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، قَالَ: < فَإِنْ كَانَ قَضَاهُ مِنْ ثَمَنِهَا شَيْئًا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ أُسْوَةُ الْغُرَمَاءِ، وَأَيُّمَا امْرِئٍ هَلَكَ [وَ] عِنْدَهُ مَتَاعُ امْرِئٍ بِعَيْنِهِ، اقْتَضَى مِنْهُ شَيْئًا أَوْ لَمْ يَقْتَضِ فَهُوَ أُسْوَةُ الْغُرَمَاءِ >.
[قَالَ أَبو دَاود: حَدِيثُ مَالِكٍ أَصَحُّ] ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۵۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶۱) (صحیح)
۳۵۲۲- اس سند سے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے،اس میں ہے: ’’اگر بائع نے اس کی قیمت میں سے کچھ پا لیا ہے تو باقی قرض کے سلسلہ میں وہ دیگر قرض خواہوں کی طرح ہوگا ،اور جو شخص مر گیا اور اس کے پاس کسی شخص کی بعینہٖ کوئی چیز نکلی تو اس میں سے اس نے کچھ وصول کیا ہو یا نہ کیا ہو، ہر حال میں وہ دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہوگا‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں:مالک کی روایت(بہ نسبت زبیدی کی روایت کے) زیادہ صحیح ہے۔


3523- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ [هُوَ الطَّيَالِسِيُّ]، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ أَبِي الْمُعْتَمِرِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ خَلْدَةَ قَالَ: أَتَيْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ فِي صَاحِبٍ لَنَا أَفْلَسَ، فَقَالَ: لأَقْضِيَنَّ فِيكُمْ بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَفْلَسَ أَوْ مَاتَ فَوَجَدَ رَجُلٌ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ >۔
* تخريج: ق/الأحکام ۲۶ (۲۳۶۰)، انظر حدیث رقم : (۳۵۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۶۹) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ابو المعتمر بن عمرو بن رافع‘‘ مجہول ہیں )
۳۵۲۳- عمر بن خلدہ کہتے ہیں: ہم اپنے ایک ساتھی کے مقدمہ میں جو مفلس ہوگیا تھا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، انہوں نے کہا: میں تمہارا فیصلہ رسول اللہﷺ کے فیصلہ کے مطا بق کروں گا ،آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جو مفلس ہوگیا ،یا مر گیا، اور بائع نے اپنا مال اس کے پاس بعینہ موجود پایا تو وہ بہ نسبت اور قرض خواہوں کے اپنا مال واپس لے لینے کا زیا دہ حق دار ہے‘‘۔
 
Top