- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
گذشتہ سے پیوستہ
{ أَبْوَاْبُ الإِجَارَةِ }
مزدوری اور کرایہ سے متعلق احکام و مسائل
3416- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا، فَقُلْتُ: لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ لآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَلأَسْأَلَنَّهُ، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! رَجُلٌ أَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا مِمَّنْ كُنْتُ أُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، وَلَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: < إِنْ كُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا > ۔
* تخريج: ق/التجارات ۸ (۲۱۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۵) (صحیح)
(اس کے راوی ’’ سعود‘‘ مجہول ہیں اور ’’ مغیرہ ‘‘ سے وہم ہوجاتا تھا، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ ۲۵۶، والارواء ۱۴۹۳)
۳۴۱۶- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ کے کچھ لوگوں کو قرا ٓن پڑھنا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک نے مجھے ایک کمان ہدیتہ دی، میں نے ( جی میں) کہا یہ کوئی مال تو ہے نہیں ، اس سے میں فی سبیل اللہ تیر اندازی کا کام لوں گا( پھر بھی) میں رسول اللہﷺ کے پا س جائوں گا اور آپ سے اس بارے میں پوچھوں گا ، تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول !میں جن لوگوں کو قرآن پڑھنا لکھنا سکھا رہا تھا ، ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی ہے ، اور اس کی کچھ مالیت تو ہے نہیں ، میں اس سے اللہ کی راہ میں جہاد کروں گا، رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اگر تمہیں پسند ہو کہ تمہیں آ گ کا طوق پہنایا جائے تو اس کمان کو قبول کر لو‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ :صحیح بخاری میں کتاب اللہ کے سلسلہ میں اجرت لینے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرکے اس کی اجرت لینے سے متعلق حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے ، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں مذکور ہے کہ آپ نے ایک شخص کا نکاح کیا اور قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا ، ان روایات کی روشنی میں جمہور علماء کا کہنا ہے کہ تعلیم قرآن ، امامت ، قضاء اور اذان وغیرہ کی اجرت لی جاسکتی ہے ، کیونکہ مذکورہ تینوں روایات سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا کوئی مقابلہ نہیں (کیوں کہ اس کی دونوں سندوں میں متکلم فیہ راوی ہیں )
3417- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ يَسَارٍ، قَالَ عَمْرٌو: [و] حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ نُسَيٍّ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ نَحْوَ هَذَاالْخَبَرِ، وَالأَوَّلُ أَتَمُّ، فَقُلْتُ: مَا تَرَى فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: <جَمْرَةٌ بَيْنَ كَتِفَيْكَ تَقَلَّدْتَهَا >، أَوْ: < تَعَلَّقْتَهَا >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۷۹) (صحیح)
(اس کی سند میں ’’بقیہ ‘‘ ہیں جو صدوق کے درجہ کے راوی ہیں، یہاں حرف تحدیث کی صراحت ہے، عنعنہ کی حالت میں تدلیس کا اندیشہ ہوتا ہے، نیز مسند احمد (۵؍۳۲۴) ابو المغیرہ نے متابعت کی ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ ۲۵۶)
۳۴۱۷- اس سند سے بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے ، لیکن اس سے پہلی والی روایت زیادہ مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ میں نے کہا ـ: اللہ کے رسول! اس با رے میں آپ کی را ئے کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’وہ تمہارے دونوں مونڈھوں کے درمیان ایک انگارا ہے جسے تم نے گلے کا طوق بنا لیا ہے یا اسے لٹکا لیا ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جمہور نے اس کی اجازت دی ہے اور دلیل میں ابن عباسؓ کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ جن کاموں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں بہتر اللہ کی کتاب ہے نیز اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں تعلیم قرآن کے عوض عورت سے نکاح کا ذکر ہے۔
{ أَبْوَاْبُ الإِجَارَةِ }
مزدوری اور کرایہ سے متعلق احکام و مسائل
37- بَابٌ فِي كَسْبِ الْمُعَلِّمِ
۳۷-باب: معلم (مدرس) کوتعلیم کی اجرت لینا کیسا ہے؟
3416- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا، فَقُلْتُ: لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ لآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَلأَسْأَلَنَّهُ، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! رَجُلٌ أَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا مِمَّنْ كُنْتُ أُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، وَلَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: < إِنْ كُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا > ۔
* تخريج: ق/التجارات ۸ (۲۱۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۵) (صحیح)
(اس کے راوی ’’ سعود‘‘ مجہول ہیں اور ’’ مغیرہ ‘‘ سے وہم ہوجاتا تھا، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ ۲۵۶، والارواء ۱۴۹۳)
۳۴۱۶- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ کے کچھ لوگوں کو قرا ٓن پڑھنا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک نے مجھے ایک کمان ہدیتہ دی، میں نے ( جی میں) کہا یہ کوئی مال تو ہے نہیں ، اس سے میں فی سبیل اللہ تیر اندازی کا کام لوں گا( پھر بھی) میں رسول اللہﷺ کے پا س جائوں گا اور آپ سے اس بارے میں پوچھوں گا ، تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول !میں جن لوگوں کو قرآن پڑھنا لکھنا سکھا رہا تھا ، ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی ہے ، اور اس کی کچھ مالیت تو ہے نہیں ، میں اس سے اللہ کی راہ میں جہاد کروں گا، رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اگر تمہیں پسند ہو کہ تمہیں آ گ کا طوق پہنایا جائے تو اس کمان کو قبول کر لو‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ :صحیح بخاری میں کتاب اللہ کے سلسلہ میں اجرت لینے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرکے اس کی اجرت لینے سے متعلق حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے ، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں مذکور ہے کہ آپ نے ایک شخص کا نکاح کیا اور قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا ، ان روایات کی روشنی میں جمہور علماء کا کہنا ہے کہ تعلیم قرآن ، امامت ، قضاء اور اذان وغیرہ کی اجرت لی جاسکتی ہے ، کیونکہ مذکورہ تینوں روایات سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا کوئی مقابلہ نہیں (کیوں کہ اس کی دونوں سندوں میں متکلم فیہ راوی ہیں )
3417- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ يَسَارٍ، قَالَ عَمْرٌو: [و] حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ نُسَيٍّ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ نَحْوَ هَذَاالْخَبَرِ، وَالأَوَّلُ أَتَمُّ، فَقُلْتُ: مَا تَرَى فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: <جَمْرَةٌ بَيْنَ كَتِفَيْكَ تَقَلَّدْتَهَا >، أَوْ: < تَعَلَّقْتَهَا >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۷۹) (صحیح)
(اس کی سند میں ’’بقیہ ‘‘ ہیں جو صدوق کے درجہ کے راوی ہیں، یہاں حرف تحدیث کی صراحت ہے، عنعنہ کی حالت میں تدلیس کا اندیشہ ہوتا ہے، نیز مسند احمد (۵؍۳۲۴) ابو المغیرہ نے متابعت کی ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ ۲۵۶)
۳۴۱۷- اس سند سے بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے ، لیکن اس سے پہلی والی روایت زیادہ مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ میں نے کہا ـ: اللہ کے رسول! اس با رے میں آپ کی را ئے کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’وہ تمہارے دونوں مونڈھوں کے درمیان ایک انگارا ہے جسے تم نے گلے کا طوق بنا لیا ہے یا اسے لٹکا لیا ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جمہور نے اس کی اجازت دی ہے اور دلیل میں ابن عباسؓ کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ جن کاموں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں بہتر اللہ کی کتاب ہے نیز اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں تعلیم قرآن کے عوض عورت سے نکاح کا ذکر ہے۔