85- بَاب فِي الرَّجُلِ يُفَضِّلُ بَعْضَ وَلَدِهِ فِي النُّحْلِ
۸۵-باب: باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟
3542- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، وَأَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ، وَأَخْبَرَنَا دَاوُدُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَأَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: أَنْحَلَنِي أَبِي نُحْلا، قَالَ إِسْماَعِيلُ بْنُ سَالِمٍ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ: نِحْلَةً، غُلامًا لَهُ، قَالَ: فَقَالَتْ لَهُ أُمِّي [عَمْرَةُ] بِنْتُ رَوَاحَةَ: ائْتِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَشْهِدْهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ [فَأَشْهَدَهُ] فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ [لَهُ]: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي النُّعْمَانَ نُحْلا وَإِنَّ عَمْرَةَ سَأَلَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَقَالَ: < أَلَكَ وَلَدٌ سِوَاهُ؟>، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: < فَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَ النُّعْمَانَ؟ >، قَالَ: لا، قَالَ: فَقَالَ بَعْضُ هَؤُلاءِ الْمُحَدِّثِينَ: < هَذَا جَوْرٌ>، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: < هَذَا تَلْجِئَةٌ فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي >، قَالَ مُغِيرَةُ فِي حَدِيثِهِ: < أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ وَاللُّطْفِ سَوَائٌ؟ > قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي>، وَذَكَرَ مُجَالِدٌ فِي حَدِيثِهِ: < إِنَّ لَهُمْ عَلَيْكَ مِنَ الْحَقِّ أَنْ تَعْدِلَ بَيْنَهُمْ، كَمَا أَنَّ لَكَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْحَقِّ أَنْ يَبَرُّوكَ >.
قَالَ أَبو دَاود فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ قَالَ بَعْضُهُمْ: < أَكُلَّ بَنِيكَ؟ >، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: <وَلَدِكَ؟>.
وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ فِيهِ: < أَلَكَ بَنُونَ سِوَاهُ؟ >.
وَقَالَ أَبُو الضُّحَى عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ: < أَلَكَ وَلَدٌ غَيْرُهُ؟ >.
* تخريج: خ/الھبۃ ۱۲ (۲۵۸۷)، الشھادات ۹ (۲۶۵۰)، م/الھبات ۳ (۱۶۲۳)، ن/النحل ۱ (۳۷۰۹)، ق/الھبات ۱ (۲۳۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۶۸، ۲۶۹، ۲۷۰، ۲۷۳، ۲۷۶) (صحیح) إلا زیادۃ مجالد
مجالدنے حدیث میں جوزیادتی ذکرکی ہے ، وہ صحیح نہیں ہے )
۳۵۴۲- نعمان بن بشیررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کوئی چیز(بطور عطیہ) دی، ( اسماعیل بن سالم کی روایت میں ہے کہ انہیں اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا ) اس پر میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: رسول اللہﷺ کے پاس جایئے ( اور میرے بیٹے کو جو دیا ہے اس پر) آپ کو گو اہ بنا لیجئے، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس (آپ کو گواہ بنانے کے لئے ) حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے اور (میری بیوی) عمرہ نے کہا ہے کہ میں آپ کو اس بات کا گواہ بنا لوں ( اس لئے میں آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا ہوں) آپ نے ان سے پوچھا: ’’کیا اس کے علاوہ بھی تمہارے اور کوئی لڑکا ہے؟‘‘، انہوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تم نے سب کو اسی جیسی چیزدی ہے جونعمان کو دی ہے؟‘‘ ، انہوں نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ تو ظلم ہے‘‘، اور بعض کی روایت میں ہے: ’’یہ جانب داری ہے ، جائو تم میرے سوا کسی اور کو اس کا گواہ بنا لو ( میں ایسے کاموں کی شہادت نہیں دیتا )‘‘۔
مغیرہ کی روایت میں ہے: کیا تمہیں اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ تمہارے سارے لڑکے تمہارے ساتھ بھلائی اور لطف و عنایت کرنے میں برابر ہوں؟ انہوں نے کہا: ہاں ( مجھے اس سے خو شی ہوتی ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تو اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو ( مجھے یہ امتیاز اور نا انصافی پسند نہیں )‘‘۔
اور مجالد نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے: ’’ ان ( بیٹوں ) کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم ان سب کے درمیان عدل و انصاف کرو جیسا کہ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: زہری کی روایت میں ۱؎بعض نے:
’’ أَكُلَّ بَنِيكَ ‘‘کے الفاظ روایت کئے ہیں اور بعض نے
’’بَنِيْكَ‘‘ کے بجائے
’’وَلَدِك‘‘ کہا ہے، اور ابن ابی خالد نے شعبی کے واسطہ سے
’’أَلَكَ بَنُونَ سِوَاهُ‘‘ اور ابو الضحٰی نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے
’’أَلَكَ وَلَدٌ غَيْرُهُ ‘‘ روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ لفظ ولد مذکر اور مؤنث دونوں کو شامل ہے اور لفظ
بنین اگر وہ سب مذکر تھے تو وہ اپنے ظاہر پر ہے اور اگر ان میں مذکر اور مؤنث دونوں تھے تو یہ علی سبیل التغلیب استعمال ہواہے۔
3543- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ قَالَ: أَعْطَاهُ أَبُوهُ غُلامًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا هَذَا الْغُلامُ؟>، قَالَ: غُلامِي أَعْطَانِيهِ أَبِي، قَالَ: < فَكُلَّ إِخْوَتِكَ أَعْطَى كَمَا أَعْطَاكَ؟ >، قَالَ: لا، قَالَ: < فَارْدُدْهُ >۔
* تخريج: م/الھبات ۳ (۱۶۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۳۵)، وقد أخرجہ: خ/الھبۃ ۱۲ (۵۲۸۶)، ت/الأحکام ۳۰ (۱۳۶۷)، ق/الھبات ۱ (۲۳۷۵)، ط/الأقضیۃ ۳۳ (۳۹)، حم (۴/۲۶۸) (صحیح)
۳۵۴۳- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:ان کے والد نے انہیں ایک غلام دیا ، تو رسول اللہﷺ نے پوچھا:’’یہ کیسا غلام ہے؟‘‘، انہوں نے کہا: میرا غلام ہے ، اسے مجھے میرے والد نے دیا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: ’’جیسے تمہیں دیا ہے کیا تمہارے سب بھائیوں کو دیا ہے ؟‘‘، انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے لوٹا دو‘‘۔
3544- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ الْمُهَلَّبِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلادِكُمُ، اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِكُمْ >۔
* تخريج: ن/النحل (۳۷۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۷۵، ۲۷۸) (صحیح)
۳۵۴۴- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو ، اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادا ئیگی میں برا بری کا خیال رکھا کرو‘‘ ( کسی کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی نہ ہو)۔
3545- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَتِ امْرَأَةُ بَشِيرٍ: انْحَلِ ابْنِي غُلامَكَ، وَأَشْهِدْ لِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَةَ فُلانٍ سَأَلَتْنِي أَنْ أَنْحَلَ ابْنَهَا غُلامًا، وَقَالَتْ [لِي] أَشْهِدْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: < لَهُ إِخْوَةٌ؟ >، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < فَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَ [مِثْلَ] مَا أَعْطَيْتَهُ؟ >، قَالَ: لا، قَالَ: < فَلَيْسَ يَصْلُحُ هَذَا، وَإِنِّي لاأَشْهَدُ إِلا عَلَى حَقٍّ >۔
* تخريج: م/الھبات ۳ (۱۶۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۲۶) (صحیح)
۳۵۴۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : بشیر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے( بشیر رضی اللہ عنہ سے) کہا: اپنا غلام میرے بیٹے کو دے دیں اور رسول اللہﷺ کو اس بات پر میرے لئے گواہ بنا دیں ، تو بشیر رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا : فلاں کی بیٹی (یعنی میری بیوی)نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو غلام ہبہ کروں (اس پر) رسول اللہﷺکو گواہ بنالوں، توآپ ﷺ نے فرمایا:’’اس کے اور بھی بھائی ہیں؟‘‘، انہوں نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ان سب کو بھی تم نے ایسے ہی دیا ہے جیسے اسے دیا ہے‘‘، کہا:نہیں ،تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ درست نہیں، اور میں تو صرف حق بات ہی کی گواہی دے سکتا ہوں‘‘ ( اس لئے اس ناحق بات کے لئے گواہ نہ بنو ں گا) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے واضح ہوا کہ اولاد کے مابین عدل وانصاف واجب ہے اور بلاکسی شرعی عذر کے ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دینا یا خاص کرنا حرام وناجائز ہے ۔