• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
77- بَاب فِيمَنْ أَحْيَا حَسِيرًا
۷۷-باب: ناکارہ جانور کو کار آمد بنا لینے کا بیان​


3524- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ (ح) وَحَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَقَالَ عَنْ أَبَانَ: أَنَّ عَامِرًا الشَّعْبِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ وَجَدَ دَابَّةً قَدْ عَجَزَ عَنْهَا أَهْلُهَا أَنْ يَعْلِفُوهَا فَسَيَّبُوهَا فَأَخَذَهَا فَأَحْيَاهَا فَهِيَ لَهُ > قَالَ فِي حَدِيثِ أَبَانَ: قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَقُلْتُ: عَمَّنْ؟ قَالَ: عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا حَدِيثُ حَمَّادٍ، وَهُوَ أَبْيَنُ وَأَتَمُّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۰۱، ۱۸۸۶۳) (حسن)
۳۵۲۴- عامر شعبی کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو کوئی ایسا جانور پائے جسے اس کے مالک نے ناکارہ و بوڑھا سمجھ کر دانا و چارہ سے آزاد کر دیا ہو، وہ اسے ( کھلا پلا کر ،اور علاج معالجہ کر کے) تندرست کر لے تو وہ جانور اسی کا ہو جائے گا''۔
عبیداللہ بن حمید بن عبدالرحمن حمیری نے کہا:تو میں نے عامر شعبی سے پو چھا : یہ حدیث آپ نے کس سے سنی؟ انہوں نے کہا: میں نے (ایک نہیں) نبی اکرم ﷺ کے کئی صحابہ سے سنی ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں : یہ حما د کی حدیث ہے ، اور یہ زیادہ واضح اور مکمل ہے۔


3525- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ حَمَّادٍ -يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ- عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < مَنْ تَرَكَ دَابَّةً بِمَهْلَكٍ فَأَحْيَاهَا رَجُلٌ فَهِيَ لِمَنْ أَحْيَاهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۰۱، ۱۸۸۶۳) (حسن)
۳۵۲۵- شعبی سے روایت ہے، وہ اس حدیث کونبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ''جو شخص کوئی جانور مرکھپ جانے کے لئے چھوڑ دے اور اسے کوئی دوسرا شخص ( کھلا پلا کر) تندرست کر لے، تو وہ اسی کا ہوگا جس نے اسے (کھلا پلا کر) صحت مند بنایا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
78- بَاب فِي الرَّهْنِ
۷۸-باب: گروی رکھنے کا بیان​


3526- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لَبَنُ الدَّرِّ يُحْلَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَالظَّهْرُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَحْلِبُ النَّفَقَةُ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ عِنْدَنَا صَحِيح۔
* تخريج: خ/الرھن ۴ (۲۵۱۱)، ت/البیوع ۳۱ (۱۲۵۴)، ق/الرہون ۲ (۲۴۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۲۸، ۴۷۲) (صحیح)
۳۵۲۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' دودھ والا جانور جب گروی رکھا ہوا ہو تو اُسے کھلانے پلانے کے بقدر دوہا جائے گا، اور سوار ی والا جانور رہن رکھا ہوا ہو توکھلانے پلانے کے بقدر اس پر سواری کی جائے گی، اور جو سواری کرے اور دوہے اس پر اسے کھلانے پلانے کی ذمہ داری ہوگی''۔
ابوداود کہتے ہیں: یہ حدیث ہمارے نزدیک صحیح ہے۔


3527- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَائَ وَلا شُهَدَائَ يَغْبِطُهُمُ الأَنْبِيَائُ وَالشُّهَدَائُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى >، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! تُخْبِرُنَا مَنْ هُمْ، قَالَ: < هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ وَلاأَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا، فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ، وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ: لا يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ، وَلايَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ >، وَقَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ: {أَلا إِنَّ أَوْلِيَائَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاهُمْ يَحْزَنُونَ} ۱؎ .
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۶۱) (صحیح)
۳۵۲۷- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' اللہ کے بندوں میں سے کچھ لو گ ایسے بھی ہوں گے جو انبیاء وشہداء تو نہیں ہوں گے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو مرتبہ انہیں ملے گا اس پر انبیاء اور شہداء رشک کریں گے''، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول! آپ ہمیں بتائیں وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''وہ ایسے لوگ ہوں گے جن میں آپس میں خونی رشتہ تو نہ ہو گا اور نہ مالی لین دین اور کاروبار ہوگا لیکن وہ اللہ کی ذات کی خاطرایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں گے ، قسم اللہ کی، ان کے چہرے (مجسم) نور ہوں گے ، وہ خود پُرنور ہوں گے انہیں کوئی ڈر نہ ہو گا جب کہ لوگ ڈر رہے ہوں گے، انہیں کوئی رنج و غم نہ ہو گا جب کہ لوگ رنجیدہ وغمگین ہوں گے''، اور آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ} ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث نُسَّاخ کی غلطی سے یہاں درج ہوگئی ہے، اس باب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ، اور ابن داسہ کی روایت میں ہے ، لولوی کی روایت میں نہیں ہے ۔
وضاحت ۲؎ : ''یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں'' (سورہ یونس : ۶۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
79- بَاب فِي الرَّجُلِ يَأْكُلُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ
۷۹-باب: آدمی کا اپنی اولاد کے مال میں سے کھانا درست ہے​


3528- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَمَّتِهِ أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا: فِي حِجْرِي يَتِيمٌ أَفَآكُلُ مِنْ مَالِهِ؟ فَقَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِنَّ مِنْ أَطْيَبِ مَا أَكَلَ الرَّجُلُ مِنْ كَسْبِهِ، وَوَلَدُهُ مِنْ كَسْبِهِ >۔
* تخريج: ت/الأحکام ۲۲ (۱۳۵۸)، ن/البیوع ۱ (۴۴۵۴)، ق/التجارات ۱ (۲۱۳۷)، ۶۴ (۲۲۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۶۱، ۱۷۹۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۱، ۴۲، ۱۲۷، ۱۶۲، ۱۹۳، ۲۲۰)، دي/البیوع ۶ (۲۵۷۹) (صحیح)
۳۵۲۸- عمارہ بن عمیر کی پھوپھی سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پو چھا: میری گود میں ایک یتیم ہے، کیا میں اس کے مال میں سے کچھ کھا سکتی ہوں؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:'' آدمی کی پاکیزہ خوراک اس کی اپنی کمائی کی ہے ، اور اس کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہے''۔


3529- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ -الْمَعْنَى- قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < وَلَدُ الرَّجُلِ مِنْ كَسْبِهِ، مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِهِ، فَكُلُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ >.
قَالَ أَبو دَاود: حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ زَادَ فِيهِ: < إِذَا احْتَجْتُمْ > وَهُوَ مُنْكَرٌ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۹۲) (حسن صحیح)
۳۵۲۹- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' آدمی کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے بلکہ بہترین کمائی ہے ، تو ان کے مال میں سے کھائو ''۔
ابو داود کہتے ہیں: حماد بن ابی سلیمان نے اس میں اضافہ کیا ہے کہ جب تم اس کے حاجت مند ہو( تو بقدر ضرورت لے لو) لیکن یہ زیادتی منکر ہے۔


3530- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي مَالا وَوَالِدًا، وَإِنَّ وَالِدِي يَحْتَاجُ مَالِي، قَالَ: < أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ؛ إِنَّ أَوْلادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلادِكُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۷۰، ۸۶۷۵)، وقد أخرجہ: ق/التجارات۶۴ (۲۲۹۲)، حم (۲/۱۷۹) (حسن صحیح)
۳۵۳۰- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا:اللہ کے رسول! میرے پاس مال ہے اور والد بھی ہیں اور میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے ۱؎ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم اور تمہارا مال تمہارے والد ہی کا ہے ( یعنی ان کی خبر گیری تجھ پر لازم ہے) تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے تو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھائو''۔
وضاحت ۱؎ : بعض نسخوں میں''يحتاج'' ہے، یعنی: ان کے اخراجات میرے مال کو ختم کر دیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
80- بَاب فِي الرَّجُلِ يَجِدُ عَيْنَ مَالِهِ عِنْدَ رَجُلٍ
۸۰-باب: جوشخص اپنا مال کسی اور کے پاس پا ئے تو کیا کرے؟​


3531- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ السَّائِبِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ وَجَدَ عَيْنَ مَالِهِ عِنْدَ رَجُلٍ فَهُوَ أَحَقُّ [بِهِ] وَيَتَّبِعُ الْبَيِّعُ مَنْ بَاعَهُ > ۔
* تخريج: ن/البیوع ۹۴ (۴۶۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۳، ۱۸) (ضعیف)
(اس کے راوۃ'' قتادہ'' اور '' حسن بصری '' دونوں مدلس ہیں اور ''عنعنہ '' سے روایت کئے ہوئے ہیں)
۳۵۳۱- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس ہو بہو پا ئے تو وہی اس کا زیا دہ حق دار ہے اور خریدار اس شخص کا پیچھا کرے جس نے اس کے ہاتھ بیچا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مثلا کسی نے غصب کیا ہو یا چوری کا مال خرید لیا ہو اور مال والا اپنا مال ہوبہو پائے تو وہی اس مال کا حق دار ہوگا اور خریدار بیچنے والے سے اپنی قیمت کا مطالبہ کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
81- بَاب فِي الرَّجُلِ يَأْخُذُ حَقَّهُ َمنْ تَحْتَ يَدِهِ
۸۱-باب: کیا کسی آدمی کا ماتحت اس کے مال سے اپنا حق لے سکتا ہے؟​


3532- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ هِنْدًا أُمَّ مُعَاوِيَةَ جَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَتْ: إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ، وَإِنَّهُ لايُعْطِينِي مَايَكْفِينِي وَبَنِيَّ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ آخُذَ مِنْ مَالِهِ شَيْئًا؟ قَالَ: < خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَبَنِيكِ بِالْمَعْرُوفِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۶۱، ۱۶۹۰۴)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۹۵ (۲۲۱۱)، المظالم ۱۸ (۲۴۶۰)، النفقات ۵ (۵۳۵۹)، ۹ (۵۳۶۴)، ۱۴ (۵۳۷۰)، الأیمان ۳ (۶۶۴۱)، الأحکام ۱۴ (۷۱۶۱)، م/الأقضیۃ ۴ (۱۷۱۴)، ن/آداب القضاۃ ۳۰ (۵۴۲۲)، ق/التجارات ۶۵ (۲۲۹۳)، حم (۶/۳۹، ۵۰، ۶۰۲)، دي/النکاح ۵۴ (۲۳۰۵) (صحیح)
۳۵۳۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺکے پاس آئیں اور (اپنے شوہرکے متعلق) کہا: ابو سفیان بخیل آدمی ہیں مجھے خر چ کے لئے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بیٹوں کے لئے کافی ہو، تو کیا ان کے مال میں سے میرے کچھ لے لینے میں کوئی گناہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' عام دستور کے مطابق بس اتنا لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہارے بیٹوں کی ضرورتوں کے لئے کافی ہو''۔


3533- حَدَّثَنَا خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَائَتْ هِنْدٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبَاسُفْيَانَ رَجُلٌ مُمْسِكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ مِنْ حَرَجٍ أَنْ أُنْفِقَ عَلَى عِيَالِهِ مِنْ مَالِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < لا حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُنْفِقِي بِالْمَعْرُوفِ >۔
* تخريج: م/ الأقضیۃ ۴ (۱۷۱۴، ن/ آداب القضاۃ ۳۰ (۵۴۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۲۵) (صحیح)
۳۵۳۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہند رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان کنجوس آدمی ہیں، اگر ان کے مال میں سے ان سے اجازت لئے بغیر ان کی اولاد کے کھانے پینے پر کچھ خرچ کردوں تو کیا میرے لئے کوئی حرج( نقصان و گناہ) ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''معروف (عام دستور ) کے مطابق خرچ کرنے میں تمہارے لئے کوئی حرج نہیں''۔


3534- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ -يَعْنِي الطَّوِيلَ- عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ الْمَكِّيِّ قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ لِفُلانٍ نَفَقَةَ أَيْتَامٍ كَانَ وَلِيَّهُمْ، فَغَالَطُوهُ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، فَأَدَّاهَا إِلَيْهِمْ، فَأَدْرَكْتُ لَهُمْ مِنْ مَالِهِمْ مِثْلَيْهَا، قَالَ: قُلْتُ: أَقْبِضُ الأَلْفَ الَّذِي ذَهَبُوا بِهِ مِنْكَ؟ قَالَ: لا، حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < أَدِّ الأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ، وَلاتَخُنْ مَنْ خَانَكَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۴) (صحیح)
(اس کا راوی'' فلاں'' مبہم تابعی ہے ، لیکن اگلی حدیث اور دوسرے شواہد کے بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ ۴۲۳)
۳۵۳۴- یوسف بن ماہک مکی کہتے ہیں:میں فلاں شخص کا کچھ یتیم بچوں کے خرچ کا جن کا وہ والی تھا حساب لکھا کرتا تھا، ان بچوں نے (بڑے ہو نے پر) اس پر ایک ہزار درہم کی غلطی نکالی ، اس نے انہیںا یک ہزار درہم دے دئے (میں نے حساب کیا تو) مجھے ان کا مال دوگنا ملا، میں نے اس شخص سے کہا( جس نے مجھے حساب لکھنے کے کام پر رکھا تھا) کہ وہ ایک ہزار درہم واپس لے لوں جو انہوں نے مغالطہ دے کر آپ سے اینٹھ لئے ہیں ؟ اس نے کہا:نہیں( میں واپس نہ لوں گا) مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرما تے ہوے سنا ہے:''جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے اس کی امانت پوری کی پوری لوٹا دو اور جو تمہارے ساتھ خیانت کر ے تو تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو'' ۔


3535- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ وَأَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالا: حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ شَرِيكٍ، -قَالَ ابْنُ الْعَلاءِ: وَقَيْسٌ - عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَدِّ الأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ، وَلا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ >۔
* تخريج: ت/البیوع ۳۸ (۱۲۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۳۶، ۱۸۶۲۳)، وقد أخرجہ: دي/البیوع ۵۷ (۲۶۳۹) (حسن صحیح)
۳۵۳۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا '': جس نے تمہارے پاس امانت رکھی اسے امانت (جب وہ مانگے) لوٹا دو اور جس نے تمہارے ساتھ خیانت ( دھو کے بازی) کی ہو تو تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بظاہر اس حدیث اور ہند رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مابین اختلاف ہے، لیکن درحقیقت ان دونوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ خائن وہ ہے جو ناحق کسی دوسرے کا مال ظلم وزیادتی کے ساتھ لے، رہاوہ شخص جسے اپنا حق لینے کی شرعاً اجازت ہووہ خائن نہیں ہے، جیساکہ ہند رضی اللہ عنہا کو نبی اکرمﷺ نے اپنے شوہر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے مال سے عام دستور کے مطابق لینے کی اجازت دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
82- بَاب فِي قَبُولِ الْهَدَايَا
۸۲-باب: ہد یہ اور تحفہ قبول کرنے کا بیان​


3536- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ وَعَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ مُطَرِّفٍ الرُّؤَاسِيُّ قَالا: حَدَّثَنَا عِيسَى -وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ- عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيْهَا۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۱۱ (۲۵۸۵)، ت/البر والصلۃ ۳۴ (۱۹۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۹۰) (صحیح)
۳۵۳۶- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہد یہ قبول فرما تے تھے، اور اس کابدلہ دیتے تھے۔
3537- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ -يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ- حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < وَايْمُ اللَّهِ لا أَقْبَلُ بَعْدَ يَوْمِي هَذَا مِنْ أَحَدٍ هَدِيَّةً، إِلا أَنْ يَكُونَ مُهَاجِرًا قُرَشِيًّا، أَوْأَنْصَارِيًّا، أَوْ دَوْسِيًّا أَوْ ثَقَفِيًّا >۔
* تخريج: ت/المناقب ۷۴ (۳۹۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۲۰) (صحیح)
۳۵۳۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' قسم اللہ کی! میں آج کے بعد سے مہاجر، قریشی، انصاری ، دوسی اور ثقفی کے سوا کسی اور کا ہدیہ قبول نہ کروں گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کی وجہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی سنن تر مذی کی کتاب المناقب کی آخری حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کو ایک اونٹ تحفہ میں دیا تو آپ نے اس کے بدلے میں اسے چھ اونٹ دئے،پھر بھی وہ ناراض رہا، اس کا منہ پھو لا رہا، جب رسول ﷺکو اس کی خبر ہوئی تو اس وقت آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، اور اس حدیث کو بیان فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
83- بَاب الرُّجُوعِ فِي الْهِبَةِ
۸۳-باب: ہبہ کرکے واپس لے لینا کیسا ہے؟​


3538- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ وَهَمَّامٌ وَشُعْبَةُ، قَالُوا: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْعَائِدِ فِي قَيْئِهِ >.
قَالَ هَمَّامٌ: وَقَالَ قَتَادَةُ: وَلا نَعْلَمُ الْقَيْئَ إِلا حَرَامًا۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۱۴ (۲۵۸۸)، م/الھبۃ ۲ (۱۶۲۲)، ن/الھبۃ ۲ (۳۶۷۲)، ق/الأحکام ۵ (۲۳۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۶۲)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۶۲، (۱۲۹۹)، حم (۱/۲۵۰، ۲۸۰، ۲۸۹، ۲۹۱، ۳۳۹، ۳۴۲، ۳۴۵، ۳۴۹) (صحیح)
۳۵۳۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے لینے والا قے کرکے اُسے پیٹ میں واپس لوٹا لینے والے کے مانند ہے''۔
ہمام کہتے ہیں: اور قتا دہ نے(یہ بھی)کہا:ہم قے کو حرام ہی سمجھتے ہیں ( تو گو یا ہدیہ دے کر واپس لے لینا بھی حرام ہی ہوا)۔


3539- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ -يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ- حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لايَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً أَوْ يَهَبَ هِبَةً فَيَرْجِعَ فِيهَا، إِلا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ، وَمَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَأْكُلُ فَإِذَا شَبِعَ قَائَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ >۔
* تخريج: ت/البیوع ۶۲ (۱۲۹۹)، الولاء والبراء ۷ (۲۱۳۲)، ن/الھبۃ ۲ (۳۷۲۰)، ق/الھبات ۱ (۲۳۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۳، ۷۰۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۷، ۷۸) (صحیح)
۳۵۳۹- عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کوئی عطیہ دے ، یا کسی کو کوئی چیز ہبہ کرے اور پھر اسے واپس لو ٹا لے ، سوائے والد کے کہ وہ بیٹے کو دے کر اس سے لے سکتا ہے ۱؎ ، اس شخص کی مثال جو عطیہ دے کر( یاہبہ کر کے) واپس لے لیتا ہے کتے کی مثال ہے، کتا پیٹ بھر کر کھا لیتا ہے، پھر قے کرتا ہے، اور اپنے قے کئے ہوئے کو دوبارہ کھا لیتا ہے''۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ باپ اور بیٹے کا مال ایک ہی ہے اور اس میں دونوں حق دار ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اپنا مال ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردے اس لئے واپس لینے میں کوئی قباحت نہیں۔


3540- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّ عَمْرَو ابْنَ شُعَيْبٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَثَلُ الَّذِي يَسْتَرِدُّ مَا وَهَبَ كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَقِيئُ فَيَأْكُلُ قَيْئَهُ، فَإِذَا اسْتَرَدَّ الْوَاهِبُ فَلْيُوَقَّفْ فَلْيُعَرَّفْ بِمَااسْتَرَدَّ ثُمَّ لِيُدْفَعْ إِلَيْهِ مَا وَهَبَ >۔
* تخريج: ق/الھبات۲ (۲۳۷۸)، ن/الہبۃ ۲ (۳۷۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۲۲، ۸۶۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۷۵) (حسن صحیح)
۳۵۴۰- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''ہدیہ دے کر واپس لے لینے والے کی مثال کتے کی ہے جو قے کر کے اپنی قے کھا لیتا ہے ، تو جب ہدیہ دینے والا واپس ما نگے تو پانے والے کو ٹھہر کر پو چھنا چاہئے کہ وہ واپس کیوں مانگ رہا ہے ،( اگر بدل نہ ملنا سبب ہو تو بدل دے دے یا اور کوئی وجہ ہو تو )پھر اس کا دیا ہوا اسے لو ٹا دے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
84- بَاب فِي الْهَدِيَّةِ لِقَضَاءِ الْحَاجَةِ
۸۴-باب: کا م نکا لنے کے لئے ہد یہ دینا اور کام نکال دینے پر لینا کیسا ہے؟​


3541- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ شَفَعَ لأَخِيهِ بِشَفَاعَةٍ فَأَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً عَلَيْهَا فَقَبِلَهَا فَقَدْ أَتَى بَابًا عَظِيمًا مِنْ أَبْوَابِ الرِّبَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۶۱) (حسن)
۳۵۴۱- ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس نے اپنے کسی بھائی کی کوئی سفارش کی اور کی اس نے اس سفارش کے بدلے میں سفارش کرنے والے کو کوئی چیز ہد یہ میں دی اور اس نے اسے قبول کر لیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہو گیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ کسی کے حق میں اچھی سفارش یہ مندوب اور مستحسن چیز ہے، اور بسا اوقات سفارش ضروری اور لازمی ہوجاتی ہے ایسی صورت میں اس کا بدل لینا مستحسن چیز کو ضائع کردینے کے مترادف ہے جس طرح سود سے حلال چیز ضائع ہوجاتی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
85- بَاب فِي الرَّجُلِ يُفَضِّلُ بَعْضَ وَلَدِهِ فِي النُّحْلِ
۸۵-باب: باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟​


3542- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، وَأَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ، وَأَخْبَرَنَا دَاوُدُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَأَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: أَنْحَلَنِي أَبِي نُحْلا، قَالَ إِسْماَعِيلُ بْنُ سَالِمٍ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ: نِحْلَةً، غُلامًا لَهُ، قَالَ: فَقَالَتْ لَهُ أُمِّي [عَمْرَةُ] بِنْتُ رَوَاحَةَ: ائْتِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَشْهِدْهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ [فَأَشْهَدَهُ] فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ [لَهُ]: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي النُّعْمَانَ نُحْلا وَإِنَّ عَمْرَةَ سَأَلَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَقَالَ: < أَلَكَ وَلَدٌ سِوَاهُ؟>، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: < فَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَ النُّعْمَانَ؟ >، قَالَ: لا، قَالَ: فَقَالَ بَعْضُ هَؤُلاءِ الْمُحَدِّثِينَ: < هَذَا جَوْرٌ>، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: < هَذَا تَلْجِئَةٌ فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي >، قَالَ مُغِيرَةُ فِي حَدِيثِهِ: < أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ وَاللُّطْفِ سَوَائٌ؟ > قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي>، وَذَكَرَ مُجَالِدٌ فِي حَدِيثِهِ: < إِنَّ لَهُمْ عَلَيْكَ مِنَ الْحَقِّ أَنْ تَعْدِلَ بَيْنَهُمْ، كَمَا أَنَّ لَكَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْحَقِّ أَنْ يَبَرُّوكَ >.
قَالَ أَبو دَاود فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ قَالَ بَعْضُهُمْ: < أَكُلَّ بَنِيكَ؟ >، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: <وَلَدِكَ؟>.
وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ فِيهِ: < أَلَكَ بَنُونَ سِوَاهُ؟ >.
وَقَالَ أَبُو الضُّحَى عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ: < أَلَكَ وَلَدٌ غَيْرُهُ؟ >.
* تخريج: خ/الھبۃ ۱۲ (۲۵۸۷)، الشھادات ۹ (۲۶۵۰)، م/الھبات ۳ (۱۶۲۳)، ن/النحل ۱ (۳۷۰۹)، ق/الھبات ۱ (۲۳۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۶۸، ۲۶۹، ۲۷۰، ۲۷۳، ۲۷۶) (صحیح) إلا زیادۃ مجالد
مجالدنے حدیث میں جوزیادتی ذکرکی ہے ، وہ صحیح نہیں ہے )
۳۵۴۲- نعمان بن بشیررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کوئی چیز(بطور عطیہ) دی، ( اسماعیل بن سالم کی روایت میں ہے کہ انہیں اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا ) اس پر میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: رسول اللہﷺ کے پاس جایئے ( اور میرے بیٹے کو جو دیا ہے اس پر) آپ کو گو اہ بنا لیجئے، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس (آپ کو گواہ بنانے کے لئے ) حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے اور (میری بیوی) عمرہ نے کہا ہے کہ میں آپ کو اس بات کا گواہ بنا لوں ( اس لئے میں آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا ہوں) آپ نے ان سے پوچھا: ’’کیا اس کے علاوہ بھی تمہارے اور کوئی لڑکا ہے؟‘‘، انہوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تم نے سب کو اسی جیسی چیزدی ہے جونعمان کو دی ہے؟‘‘ ، انہوں نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ تو ظلم ہے‘‘، اور بعض کی روایت میں ہے: ’’یہ جانب داری ہے ، جائو تم میرے سوا کسی اور کو اس کا گواہ بنا لو ( میں ایسے کاموں کی شہادت نہیں دیتا )‘‘۔
مغیرہ کی روایت میں ہے: کیا تمہیں اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ تمہارے سارے لڑکے تمہارے ساتھ بھلائی اور لطف و عنایت کرنے میں برابر ہوں؟ انہوں نے کہا: ہاں ( مجھے اس سے خو شی ہوتی ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تو اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو ( مجھے یہ امتیاز اور نا انصافی پسند نہیں )‘‘۔
اور مجالد نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے: ’’ ان ( بیٹوں ) کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم ان سب کے درمیان عدل و انصاف کرو جیسا کہ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: زہری کی روایت میں ۱؎بعض نے:’’ أَكُلَّ بَنِيكَ ‘‘کے الفاظ روایت کئے ہیں اور بعض نے ’’بَنِيْكَ‘‘ کے بجائے ’’وَلَدِك‘‘ کہا ہے، اور ابن ابی خالد نے شعبی کے واسطہ سے’’أَلَكَ بَنُونَ سِوَاهُ‘‘ اور ابو الضحٰی نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے ’’أَلَكَ وَلَدٌ غَيْرُهُ ‘‘ روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ لفظ ولد مذکر اور مؤنث دونوں کو شامل ہے اور لفظ بنین اگر وہ سب مذکر تھے تو وہ اپنے ظاہر پر ہے اور اگر ان میں مذکر اور مؤنث دونوں تھے تو یہ علی سبیل التغلیب استعمال ہواہے۔


3543- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ قَالَ: أَعْطَاهُ أَبُوهُ غُلامًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا هَذَا الْغُلامُ؟>، قَالَ: غُلامِي أَعْطَانِيهِ أَبِي، قَالَ: < فَكُلَّ إِخْوَتِكَ أَعْطَى كَمَا أَعْطَاكَ؟ >، قَالَ: لا، قَالَ: < فَارْدُدْهُ >۔
* تخريج: م/الھبات ۳ (۱۶۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۳۵)، وقد أخرجہ: خ/الھبۃ ۱۲ (۵۲۸۶)، ت/الأحکام ۳۰ (۱۳۶۷)، ق/الھبات ۱ (۲۳۷۵)، ط/الأقضیۃ ۳۳ (۳۹)، حم (۴/۲۶۸) (صحیح)
۳۵۴۳- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:ان کے والد نے انہیں ایک غلام دیا ، تو رسول اللہﷺ نے پوچھا:’’یہ کیسا غلام ہے؟‘‘، انہوں نے کہا: میرا غلام ہے ، اسے مجھے میرے والد نے دیا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: ’’جیسے تمہیں دیا ہے کیا تمہارے سب بھائیوں کو دیا ہے ؟‘‘، انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے لوٹا دو‘‘۔


3544- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ الْمُهَلَّبِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلادِكُمُ، اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِكُمْ >۔
* تخريج: ن/النحل (۳۷۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۷۵، ۲۷۸) (صحیح)
۳۵۴۴- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو ، اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادا ئیگی میں برا بری کا خیال رکھا کرو‘‘ ( کسی کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی نہ ہو)۔


3545- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَتِ امْرَأَةُ بَشِيرٍ: انْحَلِ ابْنِي غُلامَكَ، وَأَشْهِدْ لِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَةَ فُلانٍ سَأَلَتْنِي أَنْ أَنْحَلَ ابْنَهَا غُلامًا، وَقَالَتْ [لِي] أَشْهِدْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: < لَهُ إِخْوَةٌ؟ >، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < فَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَ [مِثْلَ] مَا أَعْطَيْتَهُ؟ >، قَالَ: لا، قَالَ: < فَلَيْسَ يَصْلُحُ هَذَا، وَإِنِّي لاأَشْهَدُ إِلا عَلَى حَقٍّ >۔
* تخريج: م/الھبات ۳ (۱۶۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۲۶) (صحیح)
۳۵۴۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : بشیر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے( بشیر رضی اللہ عنہ سے) کہا: اپنا غلام میرے بیٹے کو دے دیں اور رسول اللہﷺ کو اس بات پر میرے لئے گواہ بنا دیں ، تو بشیر رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا : فلاں کی بیٹی (یعنی میری بیوی)نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو غلام ہبہ کروں (اس پر) رسول اللہﷺکو گواہ بنالوں، توآپ ﷺ نے فرمایا:’’اس کے اور بھی بھائی ہیں؟‘‘، انہوں نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ان سب کو بھی تم نے ایسے ہی دیا ہے جیسے اسے دیا ہے‘‘، کہا:نہیں ،تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ درست نہیں، اور میں تو صرف حق بات ہی کی گواہی دے سکتا ہوں‘‘ ( اس لئے اس ناحق بات کے لئے گواہ نہ بنو ں گا) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے واضح ہوا کہ اولاد کے مابین عدل وانصاف واجب ہے اور بلاکسی شرعی عذر کے ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دینا یا خاص کرنا حرام وناجائز ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
86- بَاب فِي عَطِيَّةِ الْمَرْأَةِ بِغَيْرِ إِذْنِ زَوْجِهَا
۸۶-باب: شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کا کسی کو کچھ دے دینا ناجائز ہے​


3546- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ وَحَبِيبٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يَجُوزُ لامْرَأَةٍ أَمْرٌ فِي مَالِهَا إِذَا مَلَكَ زَوْجُهَا عِصْمَتَهَا >۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۵۸ (۲۵۴۱)، العمری (۳۷۸۷)، ق/الھبات ۷ (۲۳۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۷۹، ۸۶۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۲۱) (حسن صحیح)
۳۵۴۶- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کسی عورت کے لئے جا ئز نہیں کہ وہ اپنے شو ہر کے نکاح میں رہتے ہوئے جو اس کی عصمت کا مالک ہے اپنا مال اس کی اجا زت کے بغیر خرچ کرے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''في مالها'' سے مراد اگر عورت کا اپنا مال ہے تو ایسی صورت میں نہی تنزیہی ہوگی چونکہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے مناسب نہیں کہ شوہر کی اجازت اور مشورہ کے بغیر اپنے مال میں تصرف کرے اور اگر ''في مالها'' سے مراد ''في مال في يدها لزوجها'' ہے یعنی شوہر کے اس مال میں جو اس کے زیر تصرف ہے شوہر کی اجازت کے بغیر تصرف نہیں کرسکتی تو اس صورت میں نہی تحریمی ہوگی۔


3547- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ -يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ- حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لايَجُوزُ لامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلابِإِذْنِ زَوْجِهَا >۔
* تخريج: ت/ الدیات ۳ (۱۳۹۰)، ن/ الزکاۃ ۵۸ (۲۵۴۱)، العمری ۱ (۳۷۸۷، ۳۷۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۸۰، ۸۶۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۷۹، ۱۸۰، ۲۰۷، ۲۱۲)، دی/ الدیات ۱۶ (۲۴۱۷)، ویأتی ہذا الحدیث برقم (۲۵۶۶) (حسن صحیح)
۳۵۴۷- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' کسی عورت کے لئے اپنے شو ہر کے مال میں سے اس کی اجا زت کے بغیر کسی کو عطیہ دینا جا ئز نہیں ہے''۔
 
Top