90- بَاب فِي تَضْمِينِ الْعَارِيَةِ
۹۰-باب: مانگی ہوئی چیز ضائع اور برباد ہو جائے تو ضامن کون ہو گا ؟
3561- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ >، ثُمَّ إِنَّ الْحَسَنَ نَسِيَ فَقَالَ: هُوَ أَمِينُكَ، لا ضَمَانَ عَلَيْهِ۔
* تخريج: ت/البیوع ۳۹ (۱۲۶۶)، ق/الصدقات ۵ (۲۴۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲، ۱۳)، دي/البیوع ۵۶ (۲۶۳۸) (ضعیف)
(قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
۳۵۶۱- سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ لینے والے ہا تھ کی ذمہ داری ہے کہ جو لیا ہے اسے واپس کرے‘‘ ، پھر حسن بھول گئے اور یہ کہنے لگے کہ جس کو تو ما نگنے پر چیز دے تو وہ تمہاری طرف سے اس چیز کا امین ہے (اگر وہ چیز خو د سے ضا ئع ہو جائے تواس پر کوئی تاوان ( معاوضہ و بدلہ) نہ ہوگا۔
3562- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اسْتَعَارَ مِنْهُ أَدْرَاعًا يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَقَالَ: أَغَصْبٌ يَا مُحَمَّدُ؟ فَقَالَ: < لا، بَلْ عَارِيَةٌ مَضْمُونَةٌ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذِهِ رِوَايَةُ يَزِيدَ بِبَغْدَادَ، وَفِي رِوَايَتِهِ بِوَاسِطٍ تَغَيُّرٌ عَلَى غَيْرِ هَذَا۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۱، ۶/۴۶۵) (صحیح)
۳۵۶۲- صفوان بن امیّہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حنین کی لڑائی کے دن ان سے کچھ زرہیں عاریۃ ً لیں تووہ کہنے لگے: اے محمد ! کیا آپ زبر دستی لے رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’نہیں عاریت کے طورپر لے رہا ہوں، جس کی واپسی کی ذمہ داری میرے اوپر ہوگی‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ یز ید کی بغداد کی روایت ہے اور واسط ۱؎میں ان کی جو روایت ہے وہ اس سے مختلف ہے۔
وضاحت ۱؎ : واسط عراق کا ایک مشہور شہر ہے۔
3563- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ آلِ عَبدِاللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < يَا صَفْوَانُ، هَلْ عِنْدَكَ مِنْ سِلاحٍ؟>، قَالَ: عَارِيَةً أَمْ غَصْبًا؟ قَالَ: < لا، بَلْ عَارِيَةً > فَأَعَارَهُ مَا بَيْنَ الثَّلاثِينَ إِلَى الأَرْبَعِينَ دِرْعًا، وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حُنَيْنًا، فَلَمَّا هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ جُمِعَتْ دُرُوعُ صَفْوَانَ، فَفَقَدَ مِنْهَا أَدْرَاعًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِصَفْوَانَ: <إِنَّا قَدْ فَقَدْنَا مِنْ أَدْرَاعِكَ أَدْرَاعًا، فَهَلْ نَغْرَمُ لَكَ؟>، قَالَ: لايَارَسُولَ اللَّهِ! لأَنَّ فِي قَلْبِي الْيَوْمَ مَا لَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَكَانَ أَعَارَهُ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ ثُمَّ أَسْلَمَ] ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۵) (صحیح)
(پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں مجہول رواۃ ہیں )
۳۵۶۳- عبداللہ بن صفوان کے خا ندان کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ اے صفوان! کیا تیرے پاس کچھ ہتھیار ہیں؟‘‘، انہوں نے کہا:عاریۃً چا ہتے ہیں یا زبر دستی؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’زبردستی نہیں عاریۃً‘‘، چنانچہ اس نے آپ کو بطور عاریۃً تیس سے چالیس کے درمیان زرہیں دیں اور رسول اللہ ﷺ نے حنین کی لڑا ئی لڑی، پھر جب مشرکین ہارگئے اور صفوان رضی اللہ عنہ کی زرہیں اکٹھا کی گئیں تو ان میں سے کچھ زرہیں کھو گئی تھیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’صفوان! تمہاری زرہوں میں سے ہم نے کچھ زرہیں کھو دی ہیں، تو کیا ہم تمہیں ان کا تاوان دے دیں؟‘‘، انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! آج میرے دل میں جو بات ہے( جو میں دیکھ رہا اور سوچ رہا ہوں) وہ بات اس وقت نہ تھی۔
ابو داود کہتے ہیں: انہوں نے اسلام لا نے سے پہلے نبی اکرم ﷺ کو وہ زرہیں عاریۃً دی تھیں پھر اسلام لے آئے (تواسلام لے آنے کے بعد رسول اللہ ﷺسے کون تاوان لیتا ؟)۔
3564- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ نَاسٍ مِنْ آلِ صَفْوَانَ، قَالَ: اسْتَعَارَ النَّبِيُّ ﷺ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۵۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۵)(صحیح)
( روایت نمبر ۳۵۶۲سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں مجہول رواۃ ہیں )
۳۵۶۴- اس سند سے بھی آل صفوان کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کچھ زرہیں عاریۃً لیں ، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔
3565- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ، وَلا تُنْفِقُ الْمَرْأَةُ شَيْئًا مِنْ بَيْتِهَا إِلا بِإِذْنِ زَوْجِهَا >، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَلاالطَّعَامَ؟ قَالَ: < ذَاكَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا >، ثُمَّ قَالَ: < الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ، وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ، وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ >۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۳۴ (۱۲۶۵)، الوصایا ۵ (۲۱۲۰)، ق/الوصایا ۶ (۲۷۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۶۷) (صحیح)
۳۵۶۵- ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ اللہ عزوجل نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے تو اب وارث کے واسطے وصیت نہیں ہے، اور عورت اپنے گھر میں شوہر کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے‘‘، عرض کیا گیا:اللہ کے رسول! کھانا بھی نہ دے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ تو ہم مردوں کا بہترین مال ہے‘‘ ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عاریۃً دی ہوئی چیز کی واپسی ہو گی ( اگر چیز موجود ہے تو چیز، ورنہ اس کی قیمت دی جائے گی) دودھ استعمال کرنے کے لئے دیا جانے والا جانور ( دودھ ختم ہو جانے کے بعد) واپس کر دیا جائے گا، قرض کی ادائیگی کی جائے گی اور کفیل ضامن ہے‘‘( یعنی جس قرض کا ذمہ لیا ہے اس کا ادا کرنا اس کے لئے ضروری ہوگا)۔
3566- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ [الْعُصْفُرِيُّ]، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ [لِي] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا أَتَتْكَ رُسُلِي فَأَعْطِهِمْ ثَلاثِينَ دِرْعًا، وَثَلاثِينَ بَعِيرًا >، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعَارِيَةٌ مَضْمُونَةٌ أَوْ عَارِيَةٌ مُؤَدَّاةٌ؟ قَالَ: < بَلْ مُؤَدَّاةٌ >.
[قَالَ أَبو دَاود: حَبَّانُ خَالُ هِلالٍ الرَّائِيِّ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۲) (صحیح)
۳۵۶۶- یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے مجھ سے فرمایا:’’ جب تمہارے پاس میرے فرستادہ پہنچیں تو انہیں تیس زرہیں اور تیس اونٹ دے دینا‘‘، میں نے کہا: کیا اس عاریت کے طور پر دوں جس کا ضمان لازم آتا ہے یا اس عاریت کے طور پر جو مالک کو واپس دلائی جاتی ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مالک کو واپس دلائی جانے والی عاریت کے طور پر‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں: حبان ہلال الرائی کے ماموں ہیں۔
وضاحت ۱؎ : عاریہ مضمونہ یہ ہے کہ اگر وہ چیز ضائع ہو جائے گی تو اس کی قیمت ادا کی جائے گی ، اور عاریہ موداۃ یہ ہے کہ اگر چیز بعینہٖ موجود ہے تو اسے واپس دینا ہوگا، اور اگر وہ چیز ضائع ہو گئی تو قیمت ادا کرنے کی ذمہ داری نہ ہو گی۔