- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,586
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
{ 32- أوَّلُ كِتَاب الْحُدُودِ }
۳۲-کتاب: حدودکے احکام ومسائل
1- بَاب الْحُكْمِ فِيمَنِ ارْتَدَّ
۱-باب: مرتد (دین اسلام سے پھرجانے والے )کے حکم کا بیان
4351- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ [بْنُ مُحَمَّدِ] بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْماَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ عَلِيًّا أَحْرَقَ نَاسًا ارْتَدُّوا عَنِ الإِسْلامِ فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ لأُحْرِقَهُمْ بِالنَّارِ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ > وَكُنْتُ قَاتِلَهُمْ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ > فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيًّا، فَقَالَ: وَيْحَ أمِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: خ/الجہاد ۱۴۹ (۳۰۱۷)، المرتدین ۲ (۶۹۲۲)، ت/الحدود ۲۵ (۱۴۵۸)، ن/المحاربۃ ۱۱ (۴۰۶۴)، ق/الحدود ۲ (۲۵۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۸۷)، وقد أخرجہ: حم ( ۱/۲۸۲، ۲۸۳، ۳۲۳) (صحیح)
۴۳۵۱- عکرمہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو جو اسلام سے پھر گئے تھے آگ میں جلوا دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا:مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ میں انہیں جلائوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ''تم انہیں وہ عذاب نہ دو جو اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ''، میں تو رسول اللہ ﷺ کے قول کی رو سے انہیں قتل کردیتا کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: '' جو اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرلے اسے قتل کردو''، پھر جب علی رضی اللہ عنہ کویہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا: اللہ ابن عباس کی ماں پر ر حم فرمائے انہوں نے بڑی اچھی بات کہی۔
4352- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَحِلُّ دَمُ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلااللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلا بِإِحْدَى ثَلاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ >۔
* تخريج: خ/الدیات ۶ (۶۸۷۸)، م/القسامۃ ۶ (۱۶۷۶)، ت/الدیات ۱۰ (۱۴۰۲)، ن/المحاربۃ ۵ (۴۰۲۱)، ق/الحدود ۱ (۲۵۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۶۷)، وقد أخرجہ: حم ( ۱/۳۸۲، ۴۲۸، ۴۴۴، ۴۶۵)، دی/ الحدود ۲ (۲۳۴۴) (صحیح)
۴۳۵۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کسی مسلمان آدمی کا جو صرف اللہ کے معبود ہونے، اور میرے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو خون حلال نہیں،سوائے تین صورتوں کے: یا تو وہ شادی شدہ زانی ہو، یااس نے کسی کا قتل کیا ہو تو اس کو اس کے بدلہ قتل کیا جائے گا، یا اپنا دین چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوگیا ہو'' ۔
4353- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، إِلا بِإِحْدَى ثَلاثٍ: رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ فَإِنَّهُ يُرْجَمُ، وَرَجُلٌ خَرَجَ مُحَارِبًا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الأَرْضِ، أَوْ يَقْتُلُ نَفْسًا فَيُقْتَلُ بِهَا >۔
* تخريج: ن/المحاربۃ ۹ (۴۰۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۲۶)، وقد أخرجہ: حم ( ۶/۱۸۱، ۲۱۴) (صحیح)
۴۳۵۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کسی مسلمان شخص کا خون جو صرف اللہ کے معبود ہونے اور میرے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو حلال نہیں سوائے تین صورتوں کے ایک وہ شخص جو شادی شدہ ہو اور اس کے بعدزناکا ارتکاب کرے تو وہ رجم کیا جائے گا، دوسرے وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے نکلا ہو تو وہ قتل کیا جائے گا، یا اسے سولی دے دی جائے گی، یا وہ جلا وطن کردیا جائے گا، تیسرے جس نے کسی کو قتل کیا ہوتو اس کے بدلے وہ قتل کیا جائے گا''۔
4354- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى: أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَمَعِي رَجُلانِ مِنَ الأَشْعَرِيِّينَ أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِي وَالآخَرُ عَنْ يَسَارِي، فَكِلاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ، وَالنَّبِيُّ ﷺ سَاكِتٌ، فَقَالَ: < مَا تَقُولُ يَا أَبَا مُوسَى > أَوْ < يَا عَبْدَاللَّهِ بْنَ قَيْسٍ؟ > قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا، وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ قَلَصَتْ، قَالَ: < لَنْ نَسْتَعْمِلَ، أَوْ لا نَسْتَعْمِلُ، عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ، وَلَكِنِ اذْهَبْ أَنْتَ يَا أَبَا مُوسَى، أَوْ يَا عَبْدَاللَّهِ بْنَ قَيْسٍ > فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ مُعَاذٌ قَالَ: انْزِلْ، وَأَلْقَى لَهُ وِسَادَةً، وَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ مُوثَقٌ، قَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ ثُمَّ رَاجَعَ دِينَهُ دِينَ السُّوءِ، قَالَ: لا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ، قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، قَالَ: اجْلِسْ، نَعَمْ، قَالَ: لا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ، قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، فَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ، ثُمَّ تَذَاكَرَا قِيَامَ اللَّيْلِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: أَمَّا أَنَا فَأَنَامُ وَأَقُومُ، أَوْ أَقُومُ وَأَنَامُ، وَأَرْجُو فِي نَوْمَتِي مَا أَرْجُو فِي قَوْمَتِي۔
* تخريج: خ/المرتدین ۲ (۶۹۲۳)، م/الامارۃ ۳ (۱۷۳۳)، ن/الطہارۃ ۴ (۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۸۳)، وقد أخرجہ: حم ( ۴/۴۰۹) (صحیح)
۴۳۵۴- ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا ، میرے ساتھ قبیلہ ٔ اشعر کے دو شخص تھے، ایک میرے دائیں طرف تھا دوسرابائیں طرف، تو دونوں نے آپ سے عامل کا عہدہ طلب کیا،اور آپ ﷺ خاموش رہے، پھر فرمایا:'' ابوموسیٰ !''، یا فرمایا:'' عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟''، میں نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، ان دونوں نے مجھے اس چیز سے آگاہ نہیں کیا تھا جو ان کے دل میں تھا، اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ آپ سے عامل بنائے جانے کا مطالبہ کریں گے، گویا میں اس وقت آپ کی مسواک کو دیکھ رہا ہوں، وہ آپ ﷺ کے مسوڑھے کے نیچے تھی اور مسوڑھا اس کی وجہ سے اوپر اٹھا ہوا تھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہم اپنے کام پر اس شخص کو ہرگز عامل نہیں بنائیں گے یاعامل نہیں بناتے جو عامل بننے کی خواہش کرے، لیکن اے ابو موسیٰ!''، یا آپ نے فرمایا:'' اے عبداللہ بن قیس ! اس کام کے لئے تم جاؤ''،چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں بھیج دیا، پھر ان کے پیچھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھیجا، جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: اترو، اور ایک گاؤ تکیہ ان کے لئے لگادیا،تواچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی ان کے پاس بندھا ہوا ہے، معاذ ؓنے پوچھا: یہ کیسا آدمی ہے؟ ابوموسی نے کہا : یہ ایک یہودی تھا جو اسلام لے آیا تھا، لیکن اب پھر وہ اپنے باطل دین کی طرف پھر گیا ہے، معاذ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے مطابق جب تک یہ قتل نہ کرد یا جائے میں نہیں بیٹھ سکتا، ابوموسیٰ نے کہا: اچھا بیٹھئے، معاذ نے پھر کہا: اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی رو سے جب تک وہ قتل نہ کردیا جائے میں نہیں بیٹھ سکتا،آپ نے تین بار ایسا کہا، چنانچہ انہوں نے اس کے قتل کا حکم دیا، وہ قتل کر دیا گیا، (پھر وہ بیٹھے ) پھر ان دونوں نے آپس میں قیام اللیل ( تہجد کی صلاۃ) کا ذکر کیا تو ان دونوں میں سے ایک نے غالباً وہ معاذ بن جبل تھے کہا :رہا میں تو میں سوتا بھی ہوں، اور قیام بھی کرتا ہوں، یا کہا قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور بحالت نیند بھی اسی ثواب کی امید رکھتا ہوں جو بحالت قیام رکھتا ہوں۔
4355- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا الْحِمَّانِيُّ -يَعْنِى عَبْدَ الْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ- عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى وَبُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَدِمَ عَلَيَّ مُعَاذٌ وَأَنَا بِالْيَمَنِ، وَرَجُلٌ كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلامِ، فَلَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ قَالَ: لا أَنْزِلُ عَنْ دَابَّتِي حَتَّى يُقْتَلَ، فَقُتِلَ، قَالَ أَحَدُهُمَا: وَكَانَ قَدِ اسْتُتِيبَ قَبْلَ ذَلِكَ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۷۳) (صحیح)
۴۳۵۵- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس معاذ آئے ، میں یمن میں تھا، ایک یہودی نے اسلام قبول کرلیا، پھر وہ اسلام سے مرتد ہوگیا، تو جب معاذ آئے کہنے تو لگے: میں اس وقت تک اپنی سواری سے نہیں اتر سکتا جب تک وہ قتل نہ کردیا جائے چنانچہ وہ قتل کردیا گیا، اس سے پہلے اسے توبہ کے لئے کہا جاچکا تھا ۔
4356- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَأُتِيَ أَبُو مُوسَى بِرَجُلٍ قَدِ ارْتَدَّ عَنِ الإِسْلامِ، فَدَعَاهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ قَرِيبًا مِنْهَا، فَجَاءَ مُعَاذٌ، فَدَعَاهُ، فَأَبَى، فَضَرَبَ عُنُقَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ لَمْ يَذْكُرِ الاسْتِتَابَةَ: وَرَوَاهُ ابْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي مُوسَى ولَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الاسْتِتَابَةَ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : ۴۳۵۴، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۹۶، ۹۱۱۳، ۱۹۱۹۵) (صحیح الإسناد)
۴۳۵۶- اس سند سے بھی ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے یہی واقعہ مروی ہے، وہ کہتے ہیں : ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو لے کر آیا گیا جو اسلام سے مرتد گیا تھا، بیس دن تک یا اس کے لگ بھگ وہ اسے اسلام کی دعوت دیتے رہے کہ اسی دوران معاذ رضی اللہ عنہ آگئے تو آپ نے بھی اسے اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کردیا توآپ نے اس کی گردن مار دی ۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے عبدالملک بن عمیر نے ابو بردہ سے روایت کیا ہے لیکن انہوں نے اس میں'' توبہ کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے'' اور اسے ابن فضیل نے شیبانی سے شیبانی نے سعید بن ابی بردہ سے، ابو بردہ نے اپنے والد ابو بردہ سے اور ابوبردہ نے ابوموسیٰ اشعری سے روایت کیا ہے اور اس میں بھی انہوں نے'' توبہ کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے ''۔
4357- حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَلَمْ يَنْزِلْ حَتَّى ضُرِبَ عُنُقُهُ، وَمَا اسْتَتَابَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۴۳۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۹۶) (ضعیف الإسناد)
۴۳۵۷- قاسم سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں ہے کہ جب تک اس کی گردن مار نہیں دی گئی وہ سواری سے نیچے نہیں اترے اور انہوں نے اس سے توبہ نہیں کرائی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس سے پہلے والی روایت کے معارض ہے جس میں ذکر ہے کہ معاذؓ نے اسے اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا لیکن مسعودی کی یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
4358- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَأَزَلَّهُ الشَّيْطَانُ، فَلَحِقَ بِالْكُفَّارِ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُقْتَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَاسْتَجَارَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَأَجَارَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: ن/المحاربۃ ۱۲ (۴۰۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۲) (حسن الإسناد)
۴۳۵۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ۱؎ رسول اللہ ﷺ کا منشی تھا، پھر شیطان نے اس کو بہکا لیا، اور وہ کافروں سے جا ملا تو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم دیا، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے لئے امان مانگی تو آپ نے اسے امان دی۔
وضاحت ۱؎ : یہ عثمان رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی تھے، عثمان انہیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے آئے اور اس کی معافی کے لئے بہت زیادہ شفارش کی تو ان کا قصور معاف ہوگیا۔
4359- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: زَعَمَ السُّدِّيُّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ اخْتَبَأَ عَبْدُاللَّهِ ابْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَجَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَايِعْ عَبْدَاللَّهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، ثَلاثًا، كُلُّ ذَلِكَ يَأْبَى، فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلاثٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: < أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ >؟ فَقَالُوا: مَا نَدْرِي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا فِي نَفْسِكَ، أَلا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ؟ قَالَ: < إِنَّهُ لا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ تَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ الأَعْيُنِ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۶۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۳۸) (صحیح)
۴۳۵۹- سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو عبداللہ بن سعد بن ابی سرح؛ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گیا، پھرآپ نے اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لا کھڑا کیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول ! عبداللہ سے بیعت لے لیجئے، آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی طرف تین بار دیکھا، ہر بار آپ انکار فرماتے رہے، پھر تین دفعہ کے بعد آپ نے اس سے بیعت لے لی پھر آپ ﷺ اپنے صحابہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا:'' کیا تم میں کوئی ایسا نیک بخت انسان نہیں تھا کہ اس وقت اسے کھڑا ہوا پا کر قتل کردیتا، جب اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ میں اس سے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ روکے ہوئے ہوں''، تو لوگوں نے عرض کیا :اللہ کے رسول! آپ کا جو منشا تھا ہمیں معلوم نہ ہوسکا، آپ نے اپنی آنکھ سے ہمیں اشارہ کیوں نہیں کردیا ۱؎ ،آپ ﷺ نے فرمایا:'' کسی نبی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ کنکھیوں سے پوشیدہ اشارے کرے'' ۔
ٍ وضاحت ۱؎ : کیوں کنکھیوں سے اشارہ کرنا یہ ایسے دنیاداروں کا طریقہ ہے جنہیں اللہ کا خوف نہیں ہوتا۔
4360- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَرِيرٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: < إِذَا أَبَقَ الْعَبْدُ إِلَى الشِّرْكِ فَقَدْ حَلَّ دَمُهُ >۔
* تخريج:م/الإیمان (۶۸)، ن/المحاربۃ ۱۰ (۴۰۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۱۷)، وقد أخرجہ: حم ( ۴/۳۶۵) (ضعیف)
۴۳۶۰- جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:'' جب غلام دارالحرب بھاگ جائے تو اس کا خون مباح ہوگیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جب دارالحرب کی طرف بھاگ جانے سے اس کا خون مباح ہوگیا تو اس کے ساتھ اگر وہ مرتد بھی ہوگیا تو بدرجہ اولیٰ اس کا خون مباح ہوگا۔