9- بَاب فِي الْخُلَفَاءِ
۹-باب: خلفاء کا بیان
4632- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: كَتَبْتُهُ مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلا أَتَى [إِلَى] رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي أَرَى اللَّيْلَةَ ظُلَّةً يَنْطِفُ مِنْهَا السَّمْنُ وَالْعَسَلُ، فَأَرَى النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ بِأَيْدِيهِمْ، فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَأَرَى سَبَبًا وَاصِلا مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ، فَأَرَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ، ثُمَّ وُصِلَ فَعَلا بِهِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بِأَبِي وَأُمِّي لَتَدَعَنِّي فَلأُعَبِّرَنَّهَا، فَقَالَ: <اعْبُرْهَا> قَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَظُلَّةُ الإِسْلامِ، وَأَمَّا مَا يَنْطِفُ مِنَ السَّمْنِ وَالْعَسَلِ فَهُوَ الْقُرْآنُ لِينُهُ وَحَلاوَتُهُ، وَأَمَّا الْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ فَهُوَ الْمُسْتَكْثِرُ [مِنَ الْقُرْآنِ] وَالْمُسْتَقِلُّ مِنْهُ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ فَهُوَ الْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ: تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللَّهُ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ بَعْدَكَ رَجُلٌ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ، أَيْ رَسُولَ اللَّهِ! لَتُحَدِّثَنِّي أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ، فَقَالَ: < أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا > فَقَالَ: أَقْسَمْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَتُحَدِّثَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <لا تُقْسِمْ > ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۲۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۷۵) (صحیح)
۴۶۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے رات کو بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا ، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہاتھا ، پھر میں نے لوگوں کو دیکھا وہ اپنے ہاتھوں کو پھیلائے اسے لے رہے ہیں ، کسی نے زیادہ لیا کسی نے کم ، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے ، پھر میں نے آپ کو دیکھا اللہ کے رسول! کہ آپ نے اسے پکڑ ا اور اس سے اوپر چلے گئے، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑ ا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر ایک اورشخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر اسے ایک اور شخص نے پکڑا تو وہ ٹو ٹ گئی پھر اسے جوڑا گیا ، تو وہ بھی اوپر چلا گیا۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماںباپ آپ پرقربان جائیں مجھے اس کی تعبیر بیان کر نے دیجئے آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اس کی تعبیر بیان کرو‘‘،وہ بولے:بادل کے ٹکڑے سے مراد اسلام ہے، اور ٹپکنے والے گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت (شیرینی )اور نرمی مراد ہے،کم اور زیادہ لینے والوں سے مراد قرآن کوکم یازیادہ حاصل کرنے والے لوگ ہیں،آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی رسی سے مراد حق ہے جس پر آپ ہیں ، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں ، اللہ آپ کو اٹھا لے گا، پھر آپ ﷺ کے بعد ایک اورشخص اسے پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا، پھرایک اورشخص پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا، پھرا سے ایک اورشخص پکڑے گا، تو وہ ٹو ٹ جائے گی تو اسے جوڑا جائے گا، پھر وہ بھی اٹھ جائے گا، اللہ کے رسول!آپ مجھے بتائیے کہ میں نے صحیح کہا یا غلط، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ کچھ صحیح کہا اور کچھ غلط‘‘، کہا : اللہ کے رسول!میں آپ کو قسم دلاتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیے کہ میں نے کیا غلطی کی، تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا :’’قسم نہ دلاؤ‘‘۔
4633- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَأَبَى أَنْ يُخْبِرَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۲۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۸) (ضعیف الإسناد)
(سلیمان بن کثیر زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، لیکن پچھلی سند سے یہ روایت صحیح ہے)
۴۶۳۳- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی قصہ مرفوعاً مروی ہے، لیکن اس میں یہ ہے کہ آپ نے ان کو بتانے سے انکار کر دیا ،(کہ انہوں نے کیا غلطی کی ہے)۔
4634- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا الأَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ: < مَنْ رَأَى مِنْكُمْ رُؤْيَا> فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، رَأَيْتُ كَأَنَّ مِيزَانًا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَحَ عُمَرُ، ثُمَّ رُفِعَ الْمِيزَانُ، فَرَأَيْنَا الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: ت/الرؤیا۱۰ (۲۲۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۴، ۵۰) (صحیح)
۴۶۳۴- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک دن فرمایا: ’’تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟‘‘، ایک شخص بولا: میں نے دیکھا : گویا ایک ترازو آسمان سے اترا ، آپ ﷺ کو اور ابو بکرکو تولا گیا، تو آپ ابو بکر سے بھاری نکلے، پھر عمر اور ابوبکرکو تو لا گیا تو ابو بکربھاری نکلے، پھر عمر اور عثمان کو تولا گیا تو عمر بھاری نکلے، پھر ترازو اٹھالیا گیا، تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے میں نا پسندیدگی دیکھی۔
4635- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ: < أَيُّكُمْ رَأَى رُؤْيَا؟> فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْكَرَاهِيَةَ، قَالَ: فَاسْتَاءَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، يَعْنِي فَسَائَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: < خِلافَةُ نُبُوَّةٍ، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۸۷) (صحیح)
(یہ روایت پچھلی روایت سے تقویت پاکر صحیح ہے، ورنہ اس کے اندر ’’علی بن زیدبن جدعان ‘‘ ضعیف راوی ہیں)
۴۶۳۵- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک دن فرمایا:’’ تم میں سے کس نے خواب دیکھاہے؟‘‘، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی اور چہرے پر ناگواری دیکھنے کا ذکر نہیں کیا بلکہ یوں کہا: رسول اللہ ﷺ کو وہ (خواب) برا لگا، اور فرمایا : ’’وہ نبوت کی خلافت ہے، پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا سلطنت عطا کرے گا‘‘۔
4636- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أُرِيَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ صَالِحٌ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ نِيطَ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَنِيطَ عُمَرُ بِأَبِي بَكْرٍ، وَنِيطَ عُثْمَانُ بِعُمَرَ > قَالَ جَابِرٌ: فَلَمَّا قُمْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قُلْنَا: أَمَّا الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، وَأَمَّا تَنَوُّطُ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ فَهُمْ وُلاةُ هَذَا الأَمْرِ الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ بِهِ نَبِيَّهُ ﷺ .
قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ يُونُسُ وَشُعَيْبٌ لَمْ يَذْكُرَا عَمْرَو [بْنَ أَبَانَ]۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’عمروبن ابان‘‘ لین الحدیث ہیں، نیز جابر رضی اللہ عنہ سے ان کے سماع میں اختلاف ہے)
۴۶۳۶- جابر بن عبداللہرضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’آج کی رات ایک صالح شخص کو خواب میں دکھایا گیا کہ ابو بکر کو رسول اللہ ﷺ سے جوڑ دیاگیا ہے، اور عمر کو ابو بکر سے اور عثمان کو عمر سے ‘‘۔
جابر کہتے ہیں: جب ہم رسو ل اللہﷺ کے پاس سے اٹھ کر آئے تو ہم نے کہا: مرد صالح سے مراد تو رسول اللہ ﷺ ہیں، اور بعض کا بعض سے جوڑے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہی لوگ اس امر( دین) کے والی ہوں گے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے نبی اکرمﷺ کو مبعوث فر مایا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے یونس اور شعیب نے بھی روایت کیا ہے ،لیکن ان دونوں نے عمرو بن ابان کا ذکرنہیں کیا ہے ۔
4637- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنِي عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ رَجُلا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! [إِنِّي] رَأَيْتُ كَأَنَّ دَلْوًا دُلِّيَ مِنَ السَّمَاءِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَشَرِبَ شُرْبًا ضَعِيفًا، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ ،ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَانْتَشَطَتْ وَانْتَضَحَ عَلَيْهِ مِنْهَا شَيْئٌ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۱) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’عبدالرحمن‘‘ لین الحدیث ہیں)
۴۶۳۷- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول!میں نے دیکھا گویا کہ آسمان سے ایک ڈول لٹکا یا گیا پہلے ابو بکرآئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑ کر اس میں سے تھوڑا سا پیا، پھر عمرآئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا، پھر عثمان آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور خوب سیر ہو کر پیا، پھر علی آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں، تووہ چھلک گیا اور اس میں سے کچھ ان کے اوپر بھی پڑ گیا ۔
4638- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: لَتَمْخُرَنَّ الرُّومُ الشَّامَ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا لا يَمْتَنِعُ مِنْهَا إِلا دِمَشْقَ وَعَمَّانَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۶۴) (صحیح الإسناد)
۴۶۳۸- مکحول نے کہا: رومی شام میں چالیس دن تک لوٹ کھسوٹ کرتے رہیں گے اور سوائے دمشق اور عمان کے کوئی شہر بھی ان سے نہ بچے گا۔
4639- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَامِرٍ الْمُرِّيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ الْعَلاءِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الأَعْيَسِ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ سَلْمَانَ يَقُولُ: سَيَأْتِي مَلِكٌ مِنْ مُلُوكِ الْعَجَمِ يَظْهَرُ عَلَى الْمَدَائِنِ كُلِّهَا إِلادِمَشْقَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۶۲) (صحیح الإسناد)
۴۶۳۹- عبدالعزیز بن علاء کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو الأ عیس عبدالرحمن بن سلمان کو کہتے سنا کہ عجم کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تمام شہروں پرغالب آجائے گا سوائے دمشق کے۔
4640- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلاءِ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَوْضِعُ فُسْطَاطِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلاحِمِ أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۵۹) (صحیح)
۴۶۴۰- مکحول کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مسلمانوں کاخیمہ لڑائیوں کے وقت ایک ایسی سرزمین میں ہو گا جسے غوطہ ۱؎ کہا جاتا ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : دمشق کے پاس ملک شام میں ایک جگہ ہے۔
4641- حَدَّثَنَا أَبُو ظَفَرٍ عَبْدُالسَّلامِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ عَوْفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ: إِنَّ مَثَلَ عُثْمَانَ عِنْدَاللَّهِ كَمَثَلِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ يَقْرَؤُهَا وَيُفَسِّرُهَا:{إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا} يُشِيرُ إِلَيْنَا بِيَدِهِ وَإِلَى أَهْلِ الشَّامِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۸۳) (ضعیف)
(عوف بن ابی جمیلۃ اعرابی اور حجاج کے درمیان انقطاع ہے)
۴۶۴۱- عوف الا عرابی کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو خطبہ میں یہ کہتے سنا : عثمان کی مثال اللہ کے نزدیک عیسی بن مریم کی طرح ہے ، پھر انہوں نے آیت کریمہ
{إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا } ۱؎ پڑھی اور اپنے ہاتھ سے ہماری اور اہل شام کی طرف اشارہ کر رہے تھے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’ جب اللہ نے کہا کہ:اے عیسی !میں تجھے پورا لینے والا ہوں، اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں، اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں‘‘ (سورہ آل عمران : ۵۵)
وضاحت ۲؎ : یہ تفسیر بالرائے کی بدترین قسم ہے حجاج نے اس آیت کریمہ کواپنے اور اپنے مخالفوں پر منطبق کرڈالا جب کہ حقیقت سے اس کاکوئی واسطہ نہیں، آج بھی بعض اہل بدعت آیات قرآنیہ کی من مانی تفسیر کرتے رہتے ہیں، اور اہل حق کواہل باطل اور باطل پرستوں کواہل حق باور کراتے ہیں۔
4642- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ(ح) وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ يَخْطُبُ، فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ: رَسُولُ أَحَدِكُمْ فِي حَاجَتِهِ أَكْرَمُ عَلَيْهِ أَمْ خَلِيفَتُهُ فِي أَهْلِهِ؟ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: لِلَّهِ عَلَيَّ أَلا أُصَلِّيَ خَلْفَكَ صَلاةً أَبَدًا، وَإِنْ وَجَدْتُ قَوْمًا يُجَاهِدُونَكَ لأُجَاهِدَنَّكَ مَعَهُمْ، زَادَ إِسْحَاقُ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: فَقَاتَلَ فِي الْجَمَاجِمِ حَتَّى قُتِلَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۶۳۲) (صحیح الإسناد)
۴۶۴۲- ربیع بن خالد ضبی کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو خطبہ دیتے سنا،اس نے اپنے خطبے میں کہا: تم میں سے کسی کا پیغام بر جو اس کی ضرورت سے (پیغام لے جارہا) ہو زیادہ درجے والا ہے، یاوہ جو اس کے گھربار میں اس کا قائم مقام اور خلیفہ ہو؟ ۱؎ تو میں نے اپنے دل میں کہا: اللہ کا میرے اوپر حق ہے کہ میں تیرے پیچھے کبھی صلاۃ نہ پڑھوں، اور اگر مجھے ایسے لوگ ملے جو تجھ سے جہاد کریں تو میں ضرور ان کے ساتھ تجھ سے جہاد کروں گا۔
اسحاق نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے : چنانچہ انہوں نے جماجم میں جنگ کی یہاں تک کہ مارے گئے۔
وضاحت ۱؎ : حجاج کا مطلب یہ تھا کہ بنو امیہ کے خلفاء خصوصا مروان اور اس کی اولاد انبیاء ورسل سے بہتر ہیں، نعوذ باللہ من ہذہ الہقوہ۔
4643- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: اتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ لَيْسَ فِيهَا مَثْنَوِيَّةٌ، وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لَيْسَ فِيهَا مَثْنَوِيَّةٌ، لأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدِ الْمَلِكِ، وَاللَّهِ لَوْ أَمَرْتُ النَّاسَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنْ بَابٍ مِنْ [أَبْوَابِ] الْمَسْجِدِ فَخَرَجُوا مِنْ بَابٍ آخَرَ لَحَلَّتْ لِي دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ، وَاللَّهِ لَوْ أَخَذْتُ رَبِيعَةَ بِمُضَرَ، لَكَانَ ذَلِكَ لِي مِنَ اللَّهِ حَلالا، وَيَا عَذِيرِي مِنْ عَبْدِ هُذَيْلٍ يَزْعُمُ أَنَّ قِرَائَتَهُ مِنْ عِنْدِاللَّهِ، وَاللَّهِ مَا هِيَ إِلا رَجَزٌ مِنْ رَجَزِ الأَعْرَابِ مَاأَنْزَلَهَا اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ عَلَيْهِ السَّلام، وَعَذِيرِي مِنْ هَذِهِ الْحَمْرَاءِ يَزْعُمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَرْمِي بِالْحَجَرِ فَيَقُولُ: إِلَى أَنْ يَقَعَ الْحَجَرُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ، فَوَاللَّهِ لأَدَعَنَّهُمْ كَالأَمْسِ الدَّابِرِ.
قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِلأَعْمَشِ، فَقَالَ: أَنَا وَاللَّهِ سَمِعْتُهُ مِنْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۵۱) (صحیح)
(یہ حجاج بن یوسف کا کلام ہے)
۴۶۴۳- عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو منبر پر کہتے سنا : جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرو ، اس میں کوئی شرط یااستثناء نہیں ہے، امیر المو منین عبدالملک کی بات سنو اور مانو، اس میں بھی کوئی شرط اور استثناء نہیں ہے ، اللہ کی قسم ، اگر میں نے لوگوں کو مسجد کے ایک دروازے سے نکلنے کا حکم دیا پھر وہ لوگ کسی دوسرے دروازے سے نکلے تو ان کے خون اور ان کے مال میرے لئے حلال ہو جائیں گے،اللہ کی قسم! اگر مضر کے قصور پر میں ربیعہ کو پکڑ لوں ، تو یہ میرے لئے اللہ کی جانب سے حلال ہے، اور کون مجھے عبدہذیل (عبداللہ بن مسعود ہذلی ) کے سلسلہ میں معذورسمجھے گاجوکہتے ہیں کہ ان کی قرأت اللہ کی طرف سے ہے قسم اللہ کی ، وہ سوائے اعرابیوں کے رجز کے کچھ نہیں ، اللہ نے اس قرأت کو اپنے نبی علیہ السلام پر نہیں نازل فرمایا، اور کون ان عجمیوں کے سلسلہ میں مجھے معذور سمجھے گاجن میں سے کوئی کہتا ہے کہ وہ پتھر پھینک رہا ہے ، پھر کہتا ہے ، دیکھو پتھر کہاں گرتا ہے ؟ ( فساد کی بات کہہ کر دیکھتا ہے کہ دیکھوں اس کا کہاں اثر ہو تا ہے ) اور کچھ نئی بات پیش آئی ہے، اللہ کی قسم ، میں انہیں اسی طرح نیست و نابود کردوں گا، جیسے گز شتہ کل ختم ہو گیا (جواب کبھی نہیں آنے والا)۔
عاصم کہتے ہیں: میں نے اس کا تذکرہ اعمش سے کیا تو وہ بولے: اللہ کی قسم میں نے بھی اسے ، اس سے سنا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان تمام باتوں میں حجاج محض ایک مغرور اور خود فریبی میں مبتلا حاکم ہے اس کی یہ تمام باتیںخصوصاً عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ اور ان کی قرأت کے تعلق سے غلط محض ہیں، ان کی قرأت بے شک منزل من اللہ اور مؤید من الرسول تھی ۔
4644- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: هَذِهِ الْحَمْرَاءُ هَبْرٌ هَبْرٌ، أَمَا وَاللَّهِ لَوْ قَدْ قَرَعْتُ عَصًا بِعَصًا، لأَذَرَنَّهُمْ كَالأَمْسِ الذَّاهِبِ، يَعْنِي الْمَوَالِيَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۸۴) (صحیح)
۴۶۴۴- اعمش کہتے ہیں کہ میں نے حجا ج کو منبر پر کہتے سنا: یہ گورے(عجمی) قیمہ بنائے جانے کے قابل ہیں قیمہ، موالی (غلامو) سنو، اللہ کی قسم، اگر میں لکڑی پر لکڑی ماروں تو انہیں اسی طرح برباد کر کے رکھ دوں جس طرح گزرا ہوا کل ختم ہوگیا،یعنی عجمیوں کو۔
4645- حَدَّثَنَا قَطَنُ بْنُ نُسَيْرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ -يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ، قَالَ: جَمَّعْتُ مَعَ الْحَجَّاجِ فَخَطَبَ، فَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي بَكْرِ ابْنِ عَيَّاشٍ، قَالَ فِيهَا: فَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لِخَلِيفَةِ اللَّهِ وَصَفِيِّهِ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ: وَلَوْ أَخَذْتُ رَبِيعَةَ بِمُضَرَ، وَلَمْ يَذْكُرْ قِصَّةَ الْحَمْرَاءِ۔
* تخريج: انظر رقم : (۴۶۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۵۱) (صحیح إلی الحجاج)
۴۶۴۵- سلیمان الاعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج کے ساتھ جمعہ کی صلاۃ پڑھی ، اس نے خطبہ دیا ،پھر راوی ابوبکر بن عیاش والی روایت(۴۶۴۳) ذکر کی، اس میں ہے کہ اس نے کہا: سنو اور اللہ کے خلیفہ اور اس کے منتخب عبدالملک بن مروان کی اطاعت کرو، اس کے بعد آگے کی حدیث بیان کی اور کہا: اگر میں مضر کے جرم میں ربیعہ کو پکڑوں ( تو یہ غلط نہ ہوگا) اور عجمیوں والی بات کا ذکر نہیں کیا۔
4646- حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < خِلافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ، أَوْ مُلْكَهُ، مَنْ يَشَاءُ >.
قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ: أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا، وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ، وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلام لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ، قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ، يَعْنِي بَنِي مَرْوَانَ۔
* تخريج: ت/الفتن ۴۸ (۲۲۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۲۱) (حسن صحیح)
۴۶۴۶- سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ خلافت علی منہاج النبوۃ (نبوت کی خلافت) تیس سال رہے گی ۱؎ ، پھر اللہ تعالی سلطنت یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا دے گا‘‘، سعید کہتے ہیں: سفینہ نے مجھ سے کہا: اب تم شمار کرلو: ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال ، عمر رضی اللہ عنہ دس سال ، عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال ، اور علی رضی اللہ عنہ اتنے سال ۔
سعید کہتے ہیں: میں نے سفینہ رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ لوگ ( مروانی ) کہتے ہیں کہ علیؓ خلیفہ نہیں تھے ، انہوں نے کہا:بنی زرقاء یعنی بنی مروان کے ۲؎ چوتڑ جھوٹ بولتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ابوبکر کی مدت خلافت: دوسال، تین ماہ، دس دن، عمر کی: دس سال ، چھ ماہ، آٹھ دن، عثمان ؓکی: گیارہ سال، گیارہ ماہ، نودن، علی کی: چار سال، نوماہ ، سات دن، حسن ؓ کی: سات ماہ، کل مجموعہ: تیس سال ایک ، ماہ ۔
وضاحت ۲؎ : زرقاء بنی امیّہ کی امّہات میں سے ایک خاتون کا نام ہے۔
4647- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < خِلافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ، أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۰) (حسن صحیح)
۴۶۴۷- سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’خلافت علی منہاج النبوۃ (نبو ت کی خلافت ) تیس سال ہے ، پھر اللہ تعالی سلطنت جسے چا ہے گا یا اپنی سلطنت جسے چا ہے گا، دے گا‘‘۔
4648- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَسُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلانٌ إِلَى الْكُوفَةِ أَقَامَ فُلانٌ خَطِيبًا، فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ، فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ- قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: وَالْعَرَبُ تَقُولُ: آثَمُ- قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ عَلَى حِرَائٍ: < اثْبُتْ حِرَاءُ؛ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ > قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ، فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَالَ: أَنَا.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ الأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ عَنِ ابْنِ حَيَّانَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، بِإِسْنَادِهِ [نَحْوَهُ]۔
* تخريج: ت/المناقب ۲۸ (۳۷۵۷)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۸، ۱۸۹) (صحیح)
۴۶۴۸- عبداللہ بن ظالم مازنی کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا : جب فلاں شخص کوفہ میں آیا تو فلاں شخص خطبہ کے لئے کھڑا ہوا ۱؎ ، سعید بن زید نے میرا ہاتھ پکڑکرکہا : ۲؎ کیا تم اس ظالم ۳؎ کو نہیں دیکھتے ۴؎پھر انہوں نے نو آدمیوں کے بارے میں گواہی دی کہ وہ جنت میں ہیں ،اورکہا: اگر میں دسویں شخص (کے جنت میں داخل ہونے) کی گواہی دوں تو گنہگار نہ ہوں گا،(ابن ادریس کہتے ہیں: عرب لوگ( إیثم کے بجائے) آثم کہتے ہیں)، میں نے پوچھا: اور وہ نو کون ہیں ؟ کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اس وقت آپ حراء(پہاڑی) پر تھے :’’ حراء ٹھہر جا ( مت ہل) اس لئے کہ تیرے اوپر نبی ہے یا صدیق ہے یا پھر شہید‘‘ ، میں نے عرض کیا : اور نو کون ہیں؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ، ابو بکر، عمر ، عثمان، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم ، میں نے عرض کیا: اور دسواں آدمی کون ہے؟ تو تھوڑا ہچکچائے پھرکہا: میں۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے اشجعی نے سفیان سے ، سفیان نے منصور سے ، منصور نے ہلال بن یساف سے ، ہلال نے ابن حیان سے اور ابن حیان نے عبداللہ بن ظالم سے اسی سند سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ’’فلاں شخص کوفہ میں آیا‘‘ اس سے کنایہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف ہے، اور’’فلاں شخص خطبہ کے لئے کھڑا ہوا‘‘ اس سے کنایہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی طرف ہے،اس جیسے مقام کے لئے کنایہ ہی بہتر تھا تاکہ شرف صحابیت مجروح نہ ہو۔
وضاحت ۲؎ : یہ عبداللہ بن ظالم مازنی کاقول ہے۔
وضاحت ۳؎ : اس سے مراد خطیب ہے۔
وضاحت۴؎ : جوعلی رضی اللہ عنہ کوبرابھلاکہہ رہا ہے۔
4649- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّيَّاحِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ الأَخْنَسِ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ فَذَكَرَ رَجُلٌ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلام، فَقَامَ سَعِيدُ ابْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ: < عَشْرَةٌ فِي الْجَنَّةِ: النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ > وَلَوْ شِئْتُ لَسَمَّيْتُ الْعَاشِرَ؛ قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۹) (صحیح)
۴۶۴۹- عبدالرحمن بن اخنس سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں تھے ، ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ کا (برائی کے ساتھ) تذکرہ کیا ، تو سعید بن زید رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں رسول اللہ ﷺ پر کہ میں نے آپ کو فرماتے سنا: ’’دس لوگ جنتی ہیں: ابو بکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں ، علی جنتی ہیں ، طلحہ جنتی ہیں ، زبیر بن عوام جنتی ہیں ، سعد بن مالک جنتی ہیں اور عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں‘‘ ، اور اگر میں چاہتا تو دسویں کا نام لیتا، وہ کہتے ہیں: لوگوں نے عرض کیا : وہ کون ہیں؟ تو وہ خاموش رہے، لوگوں نے پھر پوچھا : وہ کون ہیں ؟ تو کہا : وہ سعید بن زید ہیں۔
4650- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْمُثَنَّى النَّخَعِيُّ، حَدَّثَنِي جَدِّي رِيَاحُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ فُلانٍ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ وَعِنْدَهُ أَهْلُ الْكُوفَةِ، فَجَاءَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، فَرَحَّبَ بِهِ وَحَيَّاهُ وَأَقْعَدَهُ عِنْدَ رِجْلِهِ عَلَى السَّرِيرِ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يُقَالُ لَهُ قَيْسُ بْنُ عَلْقَمَةَ فَاسْتَقْبَلَهُ فَسَبَّ وَسَبَّ، فَقَالَ سَعِيدٌ: مَنْ يَسُبُّ هَذَا الرَّجُلُ؟ قَالَ: يَسُبُّ عَلِيًّا، قَالَ: أَلا أَرَى أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يُسَبُّونَ عِنْدَكَ ثُمَّ لا تُنْكِرُ وَلاتُغَيِّرُ، أَنَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ وَإِنِّي لَغَنِيٌّ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ فَيَسْأَلَنِي عَنْهُ غَدًا إِذَا لَقِيتُهُ: <أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ #، وَسَاقَ مَعْنَاهُ، ثُمَّ قَالَ: لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ۔
* تخريج: ق/ المقدمۃ ۱۱ (۱۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۷) (صحیح)
۴۶۵۰- ریاح بن حارث کہتے ہیں: میں کوفہ کی مسجد میں فلاں شخص ۱؎ کے پاس بیٹھا تھا ، ان کے پاس کوفہ کے لوگ جمع تھے ، اتنے میں سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ آئے ، تو انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا،اور دعا دی، اور اپنے پائوں کے پاس انہیں تخت پر بٹھایا ، پھر اہل کوفہ میں سے قیس بن علقمہ نامی ایک شخص آیا ، تو انہوں نے اس کا استقبال کیا ، لیکن اس نے برا بھلا کہا اور سب وشتم کیا،سعید بولے : یہ شخص کسے برا بھلا کہہ رہاہے؟ انہوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ کو کہہ رہا ہے ، وہ بولے:کیا میں دیکھ نہیں رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺکے اصحاب کو تمہارے پاس برا بھلا کہا جا رہا ہے لیکن تم نہ منع کرتے ہو نہ اس سے روکتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے اور مجھے کیا پڑی ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایسی بات کہوں جو آپ نے نہ فرمائی ہو کہ کل جب میں آپ سے ملوں تو آپ مجھ سے اس کے با رے میں سوال کریں : ’’ابو بکر جنتی ہیں ، عمر جنتی ہیں‘‘، پھر اوپر جیسی حدیث بیان فرمایا ، پھر ان( صحا بہ) میں سے کسی کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی جنگ میں شرکت جس میں اس چہرہ غبارآلودہوجائے یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ تم میں کاکوئی شخص اپنی عمر بھر عمل کرے اگرچہ اس کی عمر نوح کی عمر ہو ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
وضاحت۲؎ : ایک شخص کاایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ میں شریک ہونا اور اس کاگردوغبار برداشت کرنا غیرصحابی کی ساری زندگی کے عمل سے بہتر ہے چاہے اس کی زندگی کتنی ہی طویل اور نوح علیہ السلام کی زندگی کے برابر ہوجن کی صرف دعوتی زندگی ساڑھے نوسوسال تھی،اس سے صحابہ کرام کااحترام اور ان کی فضیلت واضح ہوتی ہے اسی لئے امت کا عقیدہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا ولی کسی ادنیٰ صحابی کے درجہ کونہیں پہنچ سکتا، رضی اللہ عنہم اجمعین۔
ٍ
4651- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ (ح) وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ صَعِدَ أُحُدًا، فَتَبِعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ بِهِمْ، فَضَرَبَهُ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: < اثْبُتْ أُحُدُ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ >۔
* تخريج: خ/المناقب ۵ (۳۶۷۵)، ۶ (۳۶۸۶)، ۷ (۳۶۹۷)، ت/المناقب ۱۹ (۳۶۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲) وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۲) (صحیح)
۴۶۵۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرمﷺ احد پہاڑ پر چڑھے پھر آپ کے پیچھے ابوبکر، عمر ، عثمان بھی چڑھے ، تو وہ ان کے ساتھ ہلنے لگا ، نبی اکرمﷺ نے اسے اپنے پائوں سے مارا اور فرمایا: ’’ٹھہرجا اے احد!(تیرے اوپر) ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تیرے اوپر ایک نبی یعنی خود نبی اکرم ﷺ، ایک صدیق یعنی ابو بکر، اوردوشہید یعنی عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم ہیں، یہ تیرے لئے باعث فخر ہے۔
4652- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيِّ، عَنْ عَبْدِالسَّلامِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالانِيِّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ مَوْلَى آلِ جَعْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَأَرَانِي بَابَ الْجَنَّةِ الَّذِي تَدْخُلُ مِنْهُ أُمَّتِي >، فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ مَعَكَ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَمَا إِنَّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۸۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ ابوخالد مولی آل جعدہ‘‘ مجہول ہیں)
۴۶۵۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے پاس جبریل آئے،انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا، اور مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہو گی‘‘، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول!میری خواہش ہے کہ آپ کے ساتھ میں بھی ہوتاتا کہ میں اسے دیکھتا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سنو اے ابوبکر!میری امت میں سے تم ہی سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گے‘‘۔
4653- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ، أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < لا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ >۔
* تخريج: ت/المناقب ۵۸ (۳۸۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۰) (صحیح)
۴۶۵۳- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جہنم میں ان لوگوں میں سے کوئی بھی داخل نہیں ہوگا، جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی (یعنی صلح حدیبیہ کے وقت بیعت رضوان میں شریک رہے)‘‘۔
4654- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ(ح) و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < قَالَ مُوسَى: < فَلَعَلَّ اللَّهَ > وَقَالَ ابْنُ سِنَانٍ: < اطَّلَعَ اللَّهُ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : ۲۶۵۰، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۵) (حسن صحیح)
۴۶۵۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (موسی کی روایت میں
’’فلعل الله‘‘ کا لفظ ہے، اور ابن سنان کی روایت میں
’’اطلع الله‘‘ ہے) ’’ اللہ تعالی بدر والوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں نظررحمت ومغفرت سے دیکھا تو فرمایا : جوعمل چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کامطلب یہ ہے کہ اگر ان اصحاب بدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کے بعد کوئی عمل اللہ کی منشاء کے خلاف بھی ہوجائے تووہ ان سے بازپرس نہ فرمائے گا کیونکہ ان کومعاف کرچکاہے، اس کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کوبداعمالیوں کی اجازت دی جارہی ہے یایہ کہ ان سے دنیامیں بھی بازپرس نہ ہوگی بلکہ اگر خدا نخواستہ وہ دنیا میں کوئی عمل قابل حد کربیٹھے توحد جاری کی جائے گی۔
4655- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَأَتَاهُ -يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ- فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ ﷺ ، فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ، فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۷۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۷۰) (صحیح)
۴۶۵۵- مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ حدیبیہ کے زمانے میں نکلے ، پھر راوی نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس وہ یعنی عروہ بن مسعود آیا اور نبی اکرمﷺ سے گفتگو کرنے لگا، جب وہ آپ سے بات کرتا،تو آپ کی ڈاڑھی پر ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کے پاس کھڑے تھے ، ان کے پاس تلوار تھی اور سر پرخود ، انہوں نے تلوار کے پرتلے کے نچلے حصہ سے اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا: اپنا ہاتھ ان کی ڈاڑھی سے دور رکھ ، عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور بولا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں۔
4656- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ -أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ- حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيَّ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ، عَنِ الأَقْرَعِ مُؤَذِّنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: بَعَثَنِي عُمَرُ إِلَى الأُسْقُفِّ، فَدَعَوْتُهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: وَهَلْ تَجِدُنِي فِي الْكِتَابِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: كَيْفَ تَجِدُنِي؟ قَالَ: أَجِدُكَ قَرْنًا، فَرَفَعَ عَلَيْهِ الدِّرَّةَ، فَقَالَ: قَرْنٌ مَهْ؟ فَقَالَ: قَرْنٌ حَدِيدٌ، أَمِينٌ شَدِيدٌ، قَالَ: كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي يَجِيئُ مِنْ بَعْدِي؟ فَقَالَ: أَجِدُهُ خَلِيفَةً صَالِحًا غَيْرَ أَنَّهُ يُؤْثِرُ قَرَابَتَهُ، قَالَ عُمَرُ: يَرْحَمُ اللَّهُ عُثْمَانَ! ثَلاثًا، فَقَالَ كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي بَعْدَهُ؟ قَالَ: أَجِدُهُ صَدَأَ حَدِيدٍ، فَوَضَعَ عُمَرُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ فَقَالَ: يَا دَفْرَاهُ يَا دَفْرَاهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! إِنَّهُ خَلِيفَةٌ صَالِحٌ، وَلَكِنَّهُ يُسْتَخْلَفُ حِينَ يُسْتَخْلَفُ وَالسَّيْفُ مَسْلُولٌ وَالدَّمُ مُهْرَاقٌ.
قَالَ ابو داود: الدَّفْرُ النَّتْنُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۰۸) (ضعیف الإسناد)
(عیسائی پادری کے قول کا کیا اعتبار؟)
۴۶۵۶- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مؤذن اقرع کہتے ہیں: مجھے عمر نے ایک پادری کے پاس بلا نے کے لئے بھیجا، میں اسے بلا لایا ، تو عمرنے اس سے کہا: کیا تم کتاب میں مجھے ( میرا حال) پاتے ہو ؟ وہ بولا: ہاں ، انہوں نے کہا: کیسا پاتے ہو ؟ وہ بولا : میں آپ کو قرن پاتا ہوں، تو انہوں نے اس پر درہ اٹھایا اور کہا: قرن کیا ہے؟ وہ بولا: لوہے کی طرح مضبوط اور سخت امانت دار، انہوں نے کہا: جو میرے بعد آئے گاتم اسے کیسے پاتے ہو؟ وہ بولا: میں اسے نیک خلیفہ پاتا ہوں،سوائے اس کے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دے گا، عمر نے کہا: اللہ عثمان پر رحم کرے ، (تین مر تبہ) پھر کہا: ان کے بعد والے کو تم کیسے پاتے ہو ؟ وہ بولا: وہ تو لوہے کا میل ہے (یعنی برابر تلوار سے کام رہنے کی وجہ سے ان کابدن اور ہاتھ گویادونوں ہی زنگ آلود ہوجائیں گے) عمرنے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا، اور فرمایا :اے گندے ! بدبو دار(تو یہ کیا کہتا ہے) اس نے کہا: اے امیرالمو منین ! وہ ایک نیک خلیفہ ہو گا لیکن جب وہ خلیفہ بنایا جائے گا تو حال یہ ہو گا کہ تلوار بے نیام ہوگی ، خون بہہ رہا ہو گا، (یعنی اس کی خلافت فتنہ کے وقت ہوگی)۔
ابو داود کہتے ہیں:
’’الدفر‘‘ کے معنی نتن یعنی بدبو کے ہیں۔