17- بَاب فِي الْقَدَرِ
۱۷-باب: تقدیر (قضا و قدر) کا بیان
4691- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بِمِنًى عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الأُمَّةِ: إِنْ مَرِضُوا فَلاتَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلا تَشْهَدُوهُمْ > ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۸۶) (حسن)
(شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ ابو حازم کا سماع ابن عمر سے نہیں ہے)
۴۶۹۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''قدریہ (منکرین تقدیر) اس امت (محمدیہ) کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قدریہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو تقدیر کا منکر ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے، اس فرقہ کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ مجوس دو خالق کے قائل ہیں، یعنی خالق شر وخالق خیر: خالق شر کو اہرمن اور خالق خیر کو یزداں کہتے ہیں، جبکہ اسلام کاعقیدہ یہ ہے کہ خالق صرف ایک ہے چنانچہ
{هل من خالق غير الله} فرما کر قرآن نے دوسرے کسی خالق کی تردید فرما دی، انسان جو کچھ کرتا ہے اس کو اس کا اختیار اللہ ہی نے دیا ہے، اگر نیک عمل کرے گا تو ثواب پائے گا، بد کرے گا توعذاب پائے گا، ہر فعل کا خالق اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی نہیں، یہ مسئلہ نہایت معرکۃ الآراء ہے، عام آدمی کو اس کی ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہئے، سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ مسلمان تقدیر پر ایمان رکھے اور شیطان کے وسوسہ سے بچے، تقدیر کے منکروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے ان سے میل جول بھی درست نہیں۔
4692- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أبي كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُمَرَ مَوْلَى غُفْرَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : $لِكُلِّ أُمَّةٍ مَجُوسٌ، وَمَجُوسُ هَذِهِ الأُمَّةِ الَّذِينَ يَقُولُونَ لا قَدَرَ، مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ فَلا تَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ، وَمَنْ مَرِضَ مِنْهُمْ فَلا تَعُودُوهُمْ، وَهُمْ شِيعَةُ الدَّجَّالِ، وَحَقٌّ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُلْحِقَهُمْ بِالدَّجَّالِ#۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۰۶) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عمر مولی غفرہ'' ضعیف ہیں، نیز اس کی سند میں ایک راوی انصاری مبہم ہے)
۴۶۹۲- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، ان میں کوئی مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو، اور اگر کوئی بیمار پڑے ، تو اس کی عیادت نہ کرو، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا''۔
4693- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ وَيَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَاهُمْ، قَالا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الأَرْضِ: جَاءَ مِنْهُمُ الأَحْمَرُ، وَالأَبْيَضُ، وَالأَسْوَدُ، وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَالسَّهْلُ، وَالْحَزْنُ، وَالْخَبِيثُ، وَالطَّيِّبُ >.
زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى < وَبَيْنَ ذاَلكَ > وَالإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ ۔
* تخريج: ت/تفسیرالقرآن ۳ (۲۹۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۰۰، ۴۰۶) (صحیح)
۴۶۹۳- ابو مو سی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا جس کو اس نے ساری زمین سے لیا تھا ، چنانچہ آدم کی اولاد اپنی مٹی کی مناسبت سے مختلف رنگ کی ہے، کوئی سفید ، کوئی سرخ، کوئی کالا اور کوئی ان کے درمیان ، کوئی نرم خو، تو کوئی درشت خو، سخت گیر ،کوئی خبیث تو کوئی پاک باز''۔
4694- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ الْمُعْتَمِرِ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام، قَالَ: كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَجَلَسَ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ، فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِالْمِخْصَرَةِ فِي الأَرْضِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: < مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ، مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلا كَتَبَ [اللَّهُ] مَكَانَهَا مِنَ النَّارِ أَوْ [مِنَ] الْجَنَّةِ، إِلا قَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً > قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! أَفَلا نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى السَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى الشِّقْوَةِ؟ قَالَ: < اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ: أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشِّقْوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلشِّقْوَةِ > ثُمَّ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ: <{فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى، وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى، وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى}>۔
* تخريج: خ/الجنائز ۸۲ (۱۳۶۲)، تفسیر سورہ اللیل ۳ (۴۹۴۵)، الأدب ۱۲۰ (۶۲۱۷)، القدر ۴ (۶۶۰۵)، التوحید ۵۴ (۷۵۵۲)، م/القدر ۱ (۲۶۴۷)، ت/القدر ۳ (۲۱۳۶)، والتفسیر ۸۰ (۳۳۴۴)، ق/المقدمۃ ۱۰ (۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۶۷)، وقد أخرجہ: حم ۱/۸۲، ۱۲۹، ۱۳۲، ۱۴۰) (صحیح)
۴۶۹۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے، جس میں رسول اللہ ﷺ بھی تھے ، آپ آئے اور بیٹھ گئے ، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی ، چھڑی سے زمین کرید نے لگے ، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت''، لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے نبی! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور ''عمل ترک کر دیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہو گا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ہو گا وہ ضرور بدبختی کی طرف جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' عمل کرو، ہر ایک کے لئے اس کا عمل آسان ہے، اہل سعادت کے لئے سعادت کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں اور بدبختوں کے لئے بدبختی کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں''، پھر نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا:''جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اللہ سے ڈرے ،اور کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو ہم اس کے لئے آسانی اور خوشی کی راہ آسان کردیں گے، اور جو شخص بخل کرے ، دنیوی شہوات میں پڑ کر جنت کی نعمتوں سے بے پروائی برتے اور کلمہ توحید کو جھٹلائے تو ہم اس کے لئے سختی اور بدبختی کی راہ آسان کردیں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اس شیطانی وسوسہ کا جواب رسول اللہ ﷺ نے دیا، جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتا ہے، اور ان کو بدعملی پر ابھارتا ہے، جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے توعمل کیوں کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''کسی کومعلوم نہیں کہ اس کے مقدر میں کیا لکھا ہے''، لہٰذا ہر شخص کو نیک عمل کرنا چاہئے کہ یہی نیکی کی راہ ، اور یہی جنت میں جانے کا سبب ہے ،بندے کو اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کہاں جائے گا نیک عمل کرتے رہنا چاہئے، تاکہ وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہو، اور نتیجے میں جنت نصیب ہو، آمین۔
4695- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ، أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ، فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلاءِ فِي الْقَدَرِ، فَوَفَّقَ اللَّهُ لَنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ دَاخِلا فِي الْمَسْجِدِ، فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلامَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ، إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَفَقَّرُونَ الْعِلْمَ يَزْعُمُونَ: أَنْ لا قَدَرَ، وَالأَمْرَ أُنُفٌ، فَقَالَ: إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيئٌ مِنْهُمْ، وَهُمْ بُرَآءُ مِنِّي، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لايُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلا نَعْرِفُهُ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الإِسْلامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلا > قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيمَانِ، قَالَ: < أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ > قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ، قَالَ: < أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ > قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: < مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ > قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ: < أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّائِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ > قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ، فَلَبِثْتُ ثَلاثًا، ثُمَّ قَالَ: < يَا عُمَرُ! هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ > قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: < فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ >۔
* تخريج: م/الإیمان ۱ (۸)، ت/الإیمان ۴ (۲۶۱۰)، ن/الإیمان ۵ (۴۹۹۳)، ق/المقدمۃ ۹ (۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۲)، وقد أخرجہ: خ/الإیمان ۳۷ (۵۰)، تفسیر سورۃ لقمان 2 (7774)، حم (۱/۲۷، ۲۸، ۵۱، ۵۲) (صحیح)
۴۶۹۵- یحییٰ بن یعمرکہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمن حمیری حج یا عمرے کے لئے چلے ، تو ہم نے دل میں کہا: اگر ہماری ملاقات رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے کرادی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا ، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا: ابو عبدالرحمن! ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن پڑھتے اور اس میں علمی باریکیاں نکالتے ہیں ، کہتے ہیں: تقدیر کوئی چیز نہیں ۱؎ ، سارے کام یوں ہی ہوتے ہیں ، تو آپ نے عرض کیا: جب تم ان سے ملنا تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں، اور وہ مجھ سے بری ہیں(میرا ان سے کوئی تعلق نہیں)، اُس ہستی کی قسم ، جس کی قسم عبداللہ بن عمر کھایا کرتا ہے، اگر ان میں ایک شخص کے پاس احد کے برابر سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو بھی اللہ اس کے کسی عمل کو قبول نہ فرمائے گا، جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئے ، پھر آپ نے کہا: مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی کالے تھے، اس پر نہ تو سفر کے آثار دکھائی دے رہے تھے، اور نہ ہی ہم اسے پہچانتے تھے، یہاں تک کہ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس جا کر بیٹھ گیا ، اس نے اپنے گھٹنے نبی اکرمﷺ کے گھٹنوں سے ملا دئیے، اور اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھ لیا اور عرض کیا:محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، صلاۃ قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روز ے رکھو، اور اگر پہنچنے کی قدرت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو'' ، وہ بولا: آپ نے سچ کہا ،عمر بن خطاب کہتے ہیں: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے ۔
اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ،آپ ﷺ نے فرمایا:''ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر ، آخرت کے دن پراورتقدیر ۲؎ کے بھلے یابُرے ہونے پر ایمان لاؤ''، اس نے کہا: آپ نے سچ کہا۔
پھر پوچھا: مجھے احسان کے بارے میں بتا ئیے ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہوسکے تو(یہ تصور رکھو کہ) وہ تو تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے'' ، اس نے کہا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''جس سے پوچھا جا رہا ہے ، وہ اس بارے میں پو چھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا'' ۳؎ ۔
اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامتیں ہی بتا دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۴؎ ، اور یہ کہ تم ننگے پیر اور ننگے بدن ، محتاج، بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں فخرومباہات کریں گے''،پھروہ چلاگیا، پھرمیں تین ۵؎ (ساعت) تک ٹہرا رہا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ''اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ پو چھنے والا کو ن تھا؟''، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' وہ جبریل تھے، تمہیں تمہارا دین سکھانے آ ئے تھے''۔
وضاحت ۱؎ : بندہ اپنے افعال میں خود مختار ہے اور وہی ان کا خالق ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اللہ تعالی نے ہر چیز کا اندازہ مقرر فرما دیا ہے اب ہر شیٔ اسی اندازے کے مطابق اس کے پیدا کرنے سے ہورہی ہے کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتی۔
وضاحت ۳؎ : مطلب یہاں یہ ہے کہ قیامت کے وقوع کاعلم چونکہ اللہ نے کسی کو نہیں دیا اس لئے نہ تم جانتے ہو اور نہ میں، بلکہ ہر سائل اور مسئول قیامت کے بارے میں ایسا ہی ہے یعنی نہیں جانتا، ہاں قیامت علامات بتلائی گئی ہیں جس سے عبرت حاصل کر کے نیک عمل کرنا چاہئے۔
وضاحت ۴؎ : اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے گا، اولاد اپنے والدین کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنے لگے گی۔
وضاحت ۵؎ : تین ساعت یا تین رات یا چند لمحے۔
4696- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ يَعْمَرَ وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالا: لَقِيَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَذَكَرْنَا لَهُ الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، زَادَ قَالَ: وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ مُزَيْنَةَ، أَوْ جُهَيْنَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فِيْمَا نَعْمَلُ؟ أَفِي شَيْئٍ قَدْ خَلا أَوْ مَضَى، أَوْ فِي شَيْئٍ يُسْتَأْنَفُ الآنَ؟ قَالَ: < فِي شَيْئٍ قَدْ خَلا وَمَضَى > فَقَالَ الرَّجُلُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ: < إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ أَهْلَ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۲) (صحیح)
۴۶۹۶- یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملے تو ہم نے آپ سے تقدیر کے بارے میں جو کچھ لوگ کہتے ہیں اس کا ذکر کیا۔
پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ آپ سے مزینہ یا جہینہ ۱؎ کے ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! پھر ہم کیا جان کرعمل کریں ؟ کیا یہ جان کر کہ جو کچھ ہم کررہے ہیں وہ سب پہلے ہی تقدیر میں لکھا جاچکا ہے، یا یہ جان کر کہ(پہلے سے نہیں لکھا گیا ہے) نئے سرے سے ہونا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا :''یہ جان کر کہ جو کچھ ہونا ہے سب تقدیر میں لکھا جاچکا ہے''، پھر اس شخص نے یا کسی دوسرے نے کہا : تو آخر یہ عمل کس لئے ہے؟ ۲؎ ، آپ ﷺ نے فرمایا : ''اہل جنت کے لئے اہل جنت والے اعمال آسان کردئے جاتے ہیں اور اہل جہنم کو اہل جہنم کے اعمال آسان کر دیئے جاتے ہیں''۔
وضاحت ۱؎ : دو قبیلوں کے نام ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جب جنت و جہنم کا فیصلہ ہوچکا ہے توعمل کیوں کریں، یہی سوچ گمراہی کی ابتداء تھی۔
4697- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، قَالَ: فَمَا الإِسْلامُ؟ قَالَ: < إِقَامُ الصَّلاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَحَجُّ الْبَيْتِ، وَصَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَالاغْتِسَالُ مِنَ الْجَنَابَةِ >.
قَالَ أَبو دَاود: عَلْقَمَةُ مُرْجِئٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۲) (صحیح)
۴۶۹۷- یحیی بن یعمر سے یہی حدیث کچھ الفاظ کی کمی اور بیشی کے ساتھ مروی ہے : اس نے پوچھا: اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''صلاۃ کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، بیت اللہ کا حج ، ماہ رمضان کے صیام رکھنا اور جنابت لاحق ہونے پر غسل کرنا''۔
ابو داود کہتے ہیں: علقمہ مرجئی ہیں۔
4698- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ الْهَمْدَانِيِّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ابْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالا: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَجْلِسُ بَيْنَ ظَهْرَيْ أَصْحَابِهِ، فَيَجِيئُ الْغَرِيبُ فَلا يَدْرِي أَيُّهُمْ هُوَ حَتَّى يَسْأَلَ، فَطَلَبْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَجْعَلَ لَهُ مَجْلِسًا يَعْرِفُهُ الْغَرِيبُ إِذَا أَتَاهُ، قَالَ: فَبَنَيْنَا لَهُ دُكَّانًا مِنَ الطِينٍ، فَجَلَسَ عَلَيْهِ، وَكُنَّا نَجْلِسُ بِجَنْبَتَيْهِ، وَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ، فَذَكَرَ هَيْئَتَهُ، حَتَّى سَلَّمَ مِنْ طَرَفِ السِّمَاطِ، فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ ! قَالَ: فَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ ۔
* تخريج: وحدیث أبی ذر قد أخرجہ: ن/ الإیمان ۶ (۴۹۹۴)، مختصراً، وحدیث أبی ہریرۃ قد أخرجہ: خ/الإیمان ۳۸ (۵۰)، تفسیر سورۃ لقمان ۲ (۴۷۷۷)، م/ الأیمان ۱ (۹)، ق/ المقدمۃ ۹ (۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۲۶) (صحیح)
۴۶۹۸- ابو ذر اور ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے بیچ میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ جب کوئی اجنبی شخص آتا تو وہ بغیر پوچھے آپ کو پہچان نہیں پاتا تھا، تو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ ہم آپ کے لئے ایک ایسی جائے نشست بنا دیں کہ جب بھی کوئی اجنبی آئے تو وہ آپ کو پہچان لے، ابوہریرہؓ کہتے ہیں : چنانچہ ہم نے آپ کے لئے ایک مٹی کا چبوترا بنا دیا، تو آپ ﷺ اس پر بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے ، آگے ابوہریرہ نے اسی جیسی روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ ایک شخص آیا ، پھر انہوں نے اس کی ہیئت ذکر کی ،یہاں تک کہ اس نے بیٹھے ہوئے لوگوں کے کنارے سے ہی آپ کو یوں سلام کیا: السلام علیک یا محمد!، تو نبی اکرمﷺ نے اسے سلام کا جواب دیا ۔
4699- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقُلْتُ لَهُ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْئٌ مِنَ الْقَدَرِ، فَحَدِّثْنِي بِشَيْئٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي، قَالَ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَ [أَنَّ] مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۰ (۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۸۲، ۱۸۵، ۱۸۹) (صحیح)
۴۶۹۹- ابن دیلمی ۱؎ کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہہ پیدا ہو گیا ہے ، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے یہ امید ہو کہ اللہ اس شبہ کو میرے دل سے نکال دے گا، فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور عذاب دینے میں وہ ظالم نہیں ہوگا ،اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے اعمال سے بہت بہتر ہے ، اگر تم احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کردو تو اللہ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرما ئے گاجب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آئو اور یہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ نہ پہنچتا، اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں کہ تمہیں پہنچ جاتا، اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مر گئے تو ضرور جہنم میں داخل ہو گے۔
ابن دیلمی کہتے ہیں : پھر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم ﷺ کی ایک مر فو ع روایت بیان کی۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ابوالبسرعبداللہ بن فیروز الدیلمی۔
4700- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ الْهُذَلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، عَنْ أَبِي حَفْصَةَ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لابْنِهِ: يَا بُنَيَّ إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيقَةِ الإِيمَانِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ، قَالَ: رَبِّ! وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَيْئٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ > يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ مَاتَ عَلَى غَيْرِ هَذَا فَلَيْسَ مِنِّي >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۸۲)، وقد أخرجہ: ت/القدر ۱۷ (۲۱۵۵)، تفسیر سورۃ النون ۶۶ (۳۳۱۹) (صحیح)
۴۷۰۰- ابو حفصہ کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے میرے بیٹے ! تم ایمان کی حقیقت کا مزہ ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ تم یہ نہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ ایسا نہیں کہ نہ ملتا اور جو کچھ نہیں ملا ہے ایسا نہیں کہ وہ تمہیں مل جاتا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے :'' سب سے پہلی چیز جسے اللہ تعالی نے پیدا کیا ، قلم ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا : لکھ، قلم نے کہا:اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ''، اے میرے بیٹے ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: '' جو اس کے علاوہ ( کسی اور عقیدے) پر مرا تو وہ مجھ سے نہیں''۔
4701- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ (ح) وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُخْبِرُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلامِهِ وَخَطَّ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ، تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى >.
قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ: عَنْ عَمْرٍو عَنْ طَاوُسٍ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۳۱ (۳۴۰۹)، القدر ۱۱ (۶۶۱۴)، م/القدر ۲ (۲۶۵۲)، ق/المقدمۃ ۱۰(۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۲۹)، وقد أخرجہ: ت/القدر ۲ (۲۱۳۴)، ط/القدر ۱ (۱)، حم (۲/۲۴۸، ۲۶۸) (صحیح)
۴۷۰۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' آدم اور موسیٰ نے بحث کی تو موسیٰ نے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ ہی نے ہمیں محرومی سے دو چار کیا، اور ہمیں جنت سے نکلوایا، آدم نے کہا: تم موسیٰ ہو تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی گفتگو کے لئے چن لیا، اور تمہارے لئے تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا، تم مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جسے اس نے میرے لئے مجھے پیدا کر نے سے چالیس سال پہلے ہی لکھ دیا تھا، پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ بحث و تکرار اللہ کے سامنے ہوئی جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔
4702- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <إِنَّ مُوسَى قَالَ: يَا رَبِّ! أَرِنَا آدَمَ الَّذِي أَخْرَجَنَا وَنَفْسَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأَرَاهُ اللَّهُ آدَمَ، فَقَالَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ؟ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: نَعَمْ، قَالَ: أَنْتَ الَّذِي نَفَخَ اللَّهُ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَعَلَّمَكَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا، وَأَمَرَ الْمَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ أَخْرَجْتَنَا وَنَفْسَكَ مِنَ الْجَنَّةِ؟ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: وَمَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: أَنْتَ نَبِيُّ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِي كَلَّمَكَ اللَّهُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ لَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ رَسُولا مِنْ خَلْقِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَفَمَا وَجَدْتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فِيمَ تَلُومُنِي فِي شَيْئٍ سَبَقَ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى فِيهِ الْقَضَاءُ قَبْلِي؟ > قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ: < فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۹۷) (حسن)
۴۷۰۲- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے رب! ہمیں آدم کو دکھا جنہوں نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوایا ، تو اللہ نے انہیں آدم کو دکھایا ، موسیٰ نے کہا: آپ ہمارے باپ آدم ہیں ؟ تو آدم نے ان سے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: آپ ہی ہیں جس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی ، جسے تمام نام سکھائے اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا؟ انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا : تو پھر کس چیز نے آپ کو اس پر آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوا دیا ؟ تو آدم نے ان سے کہا: اور تم کون ہو؟ وہ بولے: میں موسیٰ ہوں، انہوں نے کہا : تم بنی اسرائیل کے وہی نبی ہو جس سے اللہ نے پر دے کے پیچھے سے گفتگو کی اور تمہارے اور اپنے درمیان اپنی مخلوق میں سے کوئی قاصد مقرر نہیں کیا؟ کہا: ہاں، آدم نے کہا: تو کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ وہ (جنت سے نکالا جا نا) میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا؟ کہا: ہاں معلوم ہے، انہوں نے کہا: پھر ایک چیز کے بارے میں جس کے متعلق اللہ تعالی کا فیصلہ میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی مقدر ہو چکا تھا کیوں مجھے ملامت کرتے ہو؟''، یہاں پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تو آدم موسیٰ پر غالب آگئے ، تو آدم موسیٰ پر غالب آگئے''۔
4703- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ [الْقَعْنَبِيُّ]، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أُنَيْسَةَ، أَنَّ عَبْدَالْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ [بْنِ الْخَطَّابِ] أَخْبَرَهُ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ: {وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ} قَالَ: قَرَأَ الْقَعْنَبِيُّ الآيَةَ، فَقَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سُئِلَ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلاءِ لِلنَّارِ، وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ > فَقَالَ رَجُلٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ! فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُدْخِلَهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ،حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ فَيُدْخِلَهُ بِهِ النَّارَ> ۔
* تخريج: ت/تفسیر سورۃ الأعراف (۳۰۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۵۴)، وقد أخرجہ: ط/القدر ۱ (۲)، حم (۱/۴۵) (صحیح)
۴۷۰۳-مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت
{وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ} کے متعلق پوچھا گیا ۱؎ ۔ (حدیث بیان کرتے وقت) قعنبی نے آیت پڑھی،) تو آپ نے کہا: جب نبی اکرم ﷺ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:''اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا، اس سے اولاد نکالی اور کہا: میں نے انہیں جنت کے لئے پیدا کیا ہے ،اور یہ جنتیوں کے کام کریں گے ، پھر ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے بھی اولاد نکالی اور کہا : میں نے انہیں جہنمیوں کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ اہل جہنم کے کام کریں گے''، تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! پھرعمل سے کیا فائدہ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اللہ تعالی جب بندے کو جنت کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنتیوں کے کام کراتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنتیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مر جاتا ہے، تو اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے، اور جب کسی بندے کو جہنم کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مر جاتا ہے تو اس کی وجہ سے اسے جہنم میں داخل کر دیتا ہے''۔
وضاحت ۱؎ : اور یاد کرو اس وقت کو جب تمہارے رب نے آدم کی اولاد کو اُن کی پشتوں سے نکالا۔
4704- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ جُعْثُمٍ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَحَدِيثُ مَالِكٍ أَتَمُّ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۵۴) (صحیح)
۴۷۰۴- نعیم بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، پھر انہوں نے یہی حدیث روایت کی ، مالک کی روایت زیادہ کامل ہے ۔
4705- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَقَبَةَ بْنِ مَصْقَلَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <الْغُلامُ الَّذِي قَتَلَهُ الْخَضِرُ طُبِعَ كَافِرًا، وَلَوْ عَاشَ لأَرْهَقَ أَبَوَيْهِ طُغْيَانًا وَكُفْرًا>۔
* تخريج: م/القدر ۶ ( ۲۶۶۱)، ت/التفسیر ۱۹ (۳۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۰)، وقد أخرجہ: خ/العلم ۴۴ (۱۲۲)، حم (۵/۱۲۱) (صحیح)
۴۷۰۵- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''وہ لڑکا جسے خضر (علیہ السلام) نے قتل کردیا تھا طبعی طور پر کافرتھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے ماں باپ کو سر کشی اور کفر میں مبتلا کر دیتا۔
4706- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ فِي قَوْلِهِ {وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ}: < وَكَانَ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۰) (صحیح)
۴۷۰۶- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے فرمان
{وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ} ۱؎ کے بارے میں فرماتے سنا کہ وہ پیدائش کے دن ہی کافر پیدا ہوا تھا۔
وضاحت ۱؎ : ''اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ مومن تھے'' (سورۃ الکہف : ۸۰)
4707- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلامًا يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ، فَتَنَاوَلَ رَأْسَهُ فَقَلَعَهُ، فَقَالَ مُوسَى: {أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً}> الآيَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۴۷۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵) (صحیح)
۴۷۰۷- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''خضر(علیہ السلام) نے ایک لڑکے کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو اس کا سرپکڑا ، اور اسے اکھاڑ لیا، تو موسیٰ (علیہ السلام)نے کہا: کیا تم نے بے گناہ نفس کو مار ڈالا؟''۔
4708- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ (ح) و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، وَالإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: < إِنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ: فَيُكْتَبُ رِزْقُهُ وَأَجَلُهُ وَعَمَلُهُ ثُمَّ يُكْتَبُ شَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلا ذِرَاعٌ، أَوْ قِيدُ ذِرَاعٍ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلا ذِرَاعٌ، أَوْ قِيدُ ذِرَاعٍ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا >۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۰۸)، الأنبیاء ۱ (۳۳۹۳)، القدر ۱ (۶۵۹۴)، م/القدر ۱(۲۶۴۳)، ت/القدر ۴ (۲۱۳۷)، ق/المقدمۃ ۱۰ (۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۲، ۴۱۴، ۴۳۰) (صحیح)
۴۷۰۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم سے رسول اللہ ﷺ نے (آپ صادق اور آپ کی صداقت مسلم ہے) بیان فرمایا: ''تم میں سے ہر شخص کا تخلیقی نطفہ چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع رکھا جاتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ خون کا جما ہوا ٹکڑا رہتا ہے ، پھر وہ اتنے ہی دن گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے، پھر اس کے پاس ایک فر شتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے : تو وہ اس کا رزق ، اس کی عمر، اس کا عمل لکھتا ہے، پھر لکھتا ہے :آیا وہ بدبخت ہے یا نیک بخت ، پھر وہ اس میں روح پھو نکتا ہے ، اب اگر تم میں سے کوئی جنتیوں کے عمل کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس (شخص) کے اور اس ( جنت ) کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا ایک ہاتھ کے برابر فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب(تقدیر) اس پر سبقت کر جاتی ہے اور وہ جہنمیوں کے کام کر بیٹھتا ہے تو وہ داخل جہنم ہو جاتا ہے ،اور تم میں سے کوئی شخص جہنمیوں کے کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس (شخص) کے اور اس (جہنم ) کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا ایک ہاتھ کے برابر کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب(تقدیر) اس پر سبقت کر جاتی ہے، اب وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے تو داخل جنت ہو جاتا ہے''۔
4709- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ : يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: < نَعَمْ > قَالَ: فَفِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟ قَالَ: < كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ >۔
* تخريج: خ/القدر ۲ (۶۵۹۶)، والتوحید ۵۳ (۷۵۵۱)، م/القدر ۱ (۲۶۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۲۷، ۴۳۱) (صحیح)
۴۷۰۹- عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا جنتی اور جہنمی پہلے ہی معلوم ہو چکے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں''، اس نے کہا: پھرعمل کر نے والے کس بنا پر عمل کریں ؟ آپ نے فرمایا: ''ہر ایک کو توفیق اسی بات کی دی جاتی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے ''۔
4710- حَدَّثَنَا [أَحْمَدُ] بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ [بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِيُّ] أَبُوعَبْدِالرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ [الْهُذَلِيِّ]، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ، وَلا تُفَاتِحُوهُمْ >۔
* تخريج:تفردبہ أبوداود، حم (۱/۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۶۹) (ضعیف)
(اس کے راوی'' حکیم بن شریک ھذلی'' مجہول ہیں)
۴۷۱۰- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' تم منکرین تقدیر کے پاس نہ بیٹھو اور نہ ہی ان سے سلام وکلام کی ابتداء کرو ''۔