• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

شمولیت
مارچ 14، 2013
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
19
* تخريج: ت/الصوم ۳۸ (۷۳۸)، ق/الصیام ۵ (۱۶۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵۱)، وقد أخرجہ: دي/الصوم ۳۴ (۱۷۸۱) (صحیح)
مجھے سمجھ نہیں آئی یہ ریفرنس کے ساتھ "تخریج" کیوں لکھا ہے ؟؟؟ کیا ان احادیث کی تخریج ہوئی ہے ؟؟؟؟؟؟ براہ مہربانی واضح کر دیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب فِي الْقَدَرِ
۱۷-باب: تقدیر (قضا و قدر) کا بیان​


4691- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بِمِنًى عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الأُمَّةِ: إِنْ مَرِضُوا فَلاتَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلا تَشْهَدُوهُمْ > ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۸۶) (حسن)
(شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ ابو حازم کا سماع ابن عمر سے نہیں ہے)
۴۶۹۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''قدریہ (منکرین تقدیر) اس امت (محمدیہ) کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قدریہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو تقدیر کا منکر ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے، اس فرقہ کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ مجوس دو خالق کے قائل ہیں، یعنی خالق شر وخالق خیر: خالق شر کو اہرمن اور خالق خیر کو یزداں کہتے ہیں، جبکہ اسلام کاعقیدہ یہ ہے کہ خالق صرف ایک ہے چنانچہ {هل من خالق غير الله} فرما کر قرآن نے دوسرے کسی خالق کی تردید فرما دی، انسان جو کچھ کرتا ہے اس کو اس کا اختیار اللہ ہی نے دیا ہے، اگر نیک عمل کرے گا تو ثواب پائے گا، بد کرے گا توعذاب پائے گا، ہر فعل کا خالق اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی نہیں، یہ مسئلہ نہایت معرکۃ الآراء ہے، عام آدمی کو اس کی ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہئے، سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ مسلمان تقدیر پر ایمان رکھے اور شیطان کے وسوسہ سے بچے، تقدیر کے منکروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے ان سے میل جول بھی درست نہیں۔


4692- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أبي كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُمَرَ مَوْلَى غُفْرَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : $لِكُلِّ أُمَّةٍ مَجُوسٌ، وَمَجُوسُ هَذِهِ الأُمَّةِ الَّذِينَ يَقُولُونَ لا قَدَرَ، مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ فَلا تَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ، وَمَنْ مَرِضَ مِنْهُمْ فَلا تَعُودُوهُمْ، وَهُمْ شِيعَةُ الدَّجَّالِ، وَحَقٌّ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُلْحِقَهُمْ بِالدَّجَّالِ#۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۰۶) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عمر مولی غفرہ'' ضعیف ہیں، نیز اس کی سند میں ایک راوی انصاری مبہم ہے)
۴۶۹۲- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، ان میں کوئی مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو، اور اگر کوئی بیمار پڑے ، تو اس کی عیادت نہ کرو، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا''۔


4693- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ وَيَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَاهُمْ، قَالا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الأَرْضِ: جَاءَ مِنْهُمُ الأَحْمَرُ، وَالأَبْيَضُ، وَالأَسْوَدُ، وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَالسَّهْلُ، وَالْحَزْنُ، وَالْخَبِيثُ، وَالطَّيِّبُ >.
زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى < وَبَيْنَ ذاَلكَ > وَالإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ ۔
* تخريج: ت/تفسیرالقرآن ۳ (۲۹۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۰۰، ۴۰۶) (صحیح)
۴۶۹۳- ابو مو سی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا جس کو اس نے ساری زمین سے لیا تھا ، چنانچہ آدم کی اولاد اپنی مٹی کی مناسبت سے مختلف رنگ کی ہے، کوئی سفید ، کوئی سرخ، کوئی کالا اور کوئی ان کے درمیان ، کوئی نرم خو، تو کوئی درشت خو، سخت گیر ،کوئی خبیث تو کوئی پاک باز''۔


4694- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ الْمُعْتَمِرِ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام، قَالَ: كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَجَلَسَ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ، فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِالْمِخْصَرَةِ فِي الأَرْضِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: < مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ، مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلا كَتَبَ [اللَّهُ] مَكَانَهَا مِنَ النَّارِ أَوْ [مِنَ] الْجَنَّةِ، إِلا قَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً > قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! أَفَلا نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى السَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى الشِّقْوَةِ؟ قَالَ: < اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ: أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشِّقْوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلشِّقْوَةِ > ثُمَّ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ: <{فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى، وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى، وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى}>۔
* تخريج: خ/الجنائز ۸۲ (۱۳۶۲)، تفسیر سورہ اللیل ۳ (۴۹۴۵)، الأدب ۱۲۰ (۶۲۱۷)، القدر ۴ (۶۶۰۵)، التوحید ۵۴ (۷۵۵۲)، م/القدر ۱ (۲۶۴۷)، ت/القدر ۳ (۲۱۳۶)، والتفسیر ۸۰ (۳۳۴۴)، ق/المقدمۃ ۱۰ (۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۶۷)، وقد أخرجہ: حم ۱/۸۲، ۱۲۹، ۱۳۲، ۱۴۰) (صحیح)
۴۶۹۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے، جس میں رسول اللہ ﷺ بھی تھے ، آپ آئے اور بیٹھ گئے ، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی ، چھڑی سے زمین کرید نے لگے ، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت''، لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے نبی! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور ''عمل ترک کر دیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہو گا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ہو گا وہ ضرور بدبختی کی طرف جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' عمل کرو، ہر ایک کے لئے اس کا عمل آسان ہے، اہل سعادت کے لئے سعادت کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں اور بدبختوں کے لئے بدبختی کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں''، پھر نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا:''جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اللہ سے ڈرے ،اور کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو ہم اس کے لئے آسانی اور خوشی کی راہ آسان کردیں گے، اور جو شخص بخل کرے ، دنیوی شہوات میں پڑ کر جنت کی نعمتوں سے بے پروائی برتے اور کلمہ توحید کو جھٹلائے تو ہم اس کے لئے سختی اور بدبختی کی راہ آسان کردیں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اس شیطانی وسوسہ کا جواب رسول اللہ ﷺ نے دیا، جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتا ہے، اور ان کو بدعملی پر ابھارتا ہے، جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے توعمل کیوں کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''کسی کومعلوم نہیں کہ اس کے مقدر میں کیا لکھا ہے''، لہٰذا ہر شخص کو نیک عمل کرنا چاہئے کہ یہی نیکی کی راہ ، اور یہی جنت میں جانے کا سبب ہے ،بندے کو اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کہاں جائے گا نیک عمل کرتے رہنا چاہئے، تاکہ وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہو، اور نتیجے میں جنت نصیب ہو، آمین۔


4695- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ، أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ، فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلاءِ فِي الْقَدَرِ، فَوَفَّقَ اللَّهُ لَنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ دَاخِلا فِي الْمَسْجِدِ، فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلامَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ، إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَفَقَّرُونَ الْعِلْمَ يَزْعُمُونَ: أَنْ لا قَدَرَ، وَالأَمْرَ أُنُفٌ، فَقَالَ: إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيئٌ مِنْهُمْ، وَهُمْ بُرَآءُ مِنِّي، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لايُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلا نَعْرِفُهُ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الإِسْلامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلا > قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيمَانِ، قَالَ: < أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ > قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ، قَالَ: < أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ > قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: < مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ > قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ: < أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّائِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ > قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ، فَلَبِثْتُ ثَلاثًا، ثُمَّ قَالَ: < يَا عُمَرُ! هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ > قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: < فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ >۔
* تخريج: م/الإیمان ۱ (۸)، ت/الإیمان ۴ (۲۶۱۰)، ن/الإیمان ۵ (۴۹۹۳)، ق/المقدمۃ ۹ (۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۲)، وقد أخرجہ: خ/الإیمان ۳۷ (۵۰)، تفسیر سورۃ لقمان 2 (7774)، حم (۱/۲۷، ۲۸، ۵۱، ۵۲) (صحیح)
۴۶۹۵- یحییٰ بن یعمرکہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمن حمیری حج یا عمرے کے لئے چلے ، تو ہم نے دل میں کہا: اگر ہماری ملاقات رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے کرادی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا ، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا: ابو عبدالرحمن! ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن پڑھتے اور اس میں علمی باریکیاں نکالتے ہیں ، کہتے ہیں: تقدیر کوئی چیز نہیں ۱؎ ، سارے کام یوں ہی ہوتے ہیں ، تو آپ نے عرض کیا: جب تم ان سے ملنا تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں، اور وہ مجھ سے بری ہیں(میرا ان سے کوئی تعلق نہیں)، اُس ہستی کی قسم ، جس کی قسم عبداللہ بن عمر کھایا کرتا ہے، اگر ان میں ایک شخص کے پاس احد کے برابر سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو بھی اللہ اس کے کسی عمل کو قبول نہ فرمائے گا، جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئے ، پھر آپ نے کہا: مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی کالے تھے، اس پر نہ تو سفر کے آثار دکھائی دے رہے تھے، اور نہ ہی ہم اسے پہچانتے تھے، یہاں تک کہ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس جا کر بیٹھ گیا ، اس نے اپنے گھٹنے نبی اکرمﷺ کے گھٹنوں سے ملا دئیے، اور اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھ لیا اور عرض کیا:محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، صلاۃ قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روز ے رکھو، اور اگر پہنچنے کی قدرت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو'' ، وہ بولا: آپ نے سچ کہا ،عمر بن خطاب کہتے ہیں: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے ۔
اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ،آپ ﷺ نے فرمایا:''ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر ، آخرت کے دن پراورتقدیر ۲؎ کے بھلے یابُرے ہونے پر ایمان لاؤ''، اس نے کہا: آپ نے سچ کہا۔
پھر پوچھا: مجھے احسان کے بارے میں بتا ئیے ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہوسکے تو(یہ تصور رکھو کہ) وہ تو تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے'' ، اس نے کہا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''جس سے پوچھا جا رہا ہے ، وہ اس بارے میں پو چھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا'' ۳؎ ۔
اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامتیں ہی بتا دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۴؎ ، اور یہ کہ تم ننگے پیر اور ننگے بدن ، محتاج، بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں فخرومباہات کریں گے''،پھروہ چلاگیا، پھرمیں تین ۵؎ (ساعت) تک ٹہرا رہا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ''اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ پو چھنے والا کو ن تھا؟''، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' وہ جبریل تھے، تمہیں تمہارا دین سکھانے آ ئے تھے''۔
وضاحت ۱؎ : بندہ اپنے افعال میں خود مختار ہے اور وہی ان کا خالق ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اللہ تعالی نے ہر چیز کا اندازہ مقرر فرما دیا ہے اب ہر شیٔ اسی اندازے کے مطابق اس کے پیدا کرنے سے ہورہی ہے کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتی۔
وضاحت ۳؎ : مطلب یہاں یہ ہے کہ قیامت کے وقوع کاعلم چونکہ اللہ نے کسی کو نہیں دیا اس لئے نہ تم جانتے ہو اور نہ میں، بلکہ ہر سائل اور مسئول قیامت کے بارے میں ایسا ہی ہے یعنی نہیں جانتا، ہاں قیامت علامات بتلائی گئی ہیں جس سے عبرت حاصل کر کے نیک عمل کرنا چاہئے۔
وضاحت ۴؎ : اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے گا، اولاد اپنے والدین کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنے لگے گی۔
وضاحت ۵؎ : تین ساعت یا تین رات یا چند لمحے۔


4696- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ يَعْمَرَ وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالا: لَقِيَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَذَكَرْنَا لَهُ الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، زَادَ قَالَ: وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ مُزَيْنَةَ، أَوْ جُهَيْنَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فِيْمَا نَعْمَلُ؟ أَفِي شَيْئٍ قَدْ خَلا أَوْ مَضَى، أَوْ فِي شَيْئٍ يُسْتَأْنَفُ الآنَ؟ قَالَ: < فِي شَيْئٍ قَدْ خَلا وَمَضَى > فَقَالَ الرَّجُلُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ: < إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ أَهْلَ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۲) (صحیح)
۴۶۹۶- یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملے تو ہم نے آپ سے تقدیر کے بارے میں جو کچھ لوگ کہتے ہیں اس کا ذکر کیا۔
پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ آپ سے مزینہ یا جہینہ ۱؎ کے ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! پھر ہم کیا جان کرعمل کریں ؟ کیا یہ جان کر کہ جو کچھ ہم کررہے ہیں وہ سب پہلے ہی تقدیر میں لکھا جاچکا ہے، یا یہ جان کر کہ(پہلے سے نہیں لکھا گیا ہے) نئے سرے سے ہونا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا :''یہ جان کر کہ جو کچھ ہونا ہے سب تقدیر میں لکھا جاچکا ہے''، پھر اس شخص نے یا کسی دوسرے نے کہا : تو آخر یہ عمل کس لئے ہے؟ ۲؎ ، آپ ﷺ نے فرمایا : ''اہل جنت کے لئے اہل جنت والے اعمال آسان کردئے جاتے ہیں اور اہل جہنم کو اہل جہنم کے اعمال آسان کر دیئے جاتے ہیں''۔
وضاحت ۱؎ : دو قبیلوں کے نام ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جب جنت و جہنم کا فیصلہ ہوچکا ہے توعمل کیوں کریں، یہی سوچ گمراہی کی ابتداء تھی۔


4697- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، قَالَ: فَمَا الإِسْلامُ؟ قَالَ: < إِقَامُ الصَّلاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَحَجُّ الْبَيْتِ، وَصَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَالاغْتِسَالُ مِنَ الْجَنَابَةِ >.
قَالَ أَبو دَاود: عَلْقَمَةُ مُرْجِئٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۲) (صحیح)
۴۶۹۷- یحیی بن یعمر سے یہی حدیث کچھ الفاظ کی کمی اور بیشی کے ساتھ مروی ہے : اس نے پوچھا: اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''صلاۃ کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، بیت اللہ کا حج ، ماہ رمضان کے صیام رکھنا اور جنابت لاحق ہونے پر غسل کرنا''۔
ابو داود کہتے ہیں: علقمہ مرجئی ہیں۔


4698- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ الْهَمْدَانِيِّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ابْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالا: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَجْلِسُ بَيْنَ ظَهْرَيْ أَصْحَابِهِ، فَيَجِيئُ الْغَرِيبُ فَلا يَدْرِي أَيُّهُمْ هُوَ حَتَّى يَسْأَلَ، فَطَلَبْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَجْعَلَ لَهُ مَجْلِسًا يَعْرِفُهُ الْغَرِيبُ إِذَا أَتَاهُ، قَالَ: فَبَنَيْنَا لَهُ دُكَّانًا مِنَ الطِينٍ، فَجَلَسَ عَلَيْهِ، وَكُنَّا نَجْلِسُ بِجَنْبَتَيْهِ، وَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ، فَذَكَرَ هَيْئَتَهُ، حَتَّى سَلَّمَ مِنْ طَرَفِ السِّمَاطِ، فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ ! قَالَ: فَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ ۔
* تخريج: وحدیث أبی ذر قد أخرجہ: ن/ الإیمان ۶ (۴۹۹۴)، مختصراً، وحدیث أبی ہریرۃ قد أخرجہ: خ/الإیمان ۳۸ (۵۰)، تفسیر سورۃ لقمان ۲ (۴۷۷۷)، م/ الأیمان ۱ (۹)، ق/ المقدمۃ ۹ (۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۲۶) (صحیح)
۴۶۹۸- ابو ذر اور ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے بیچ میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ جب کوئی اجنبی شخص آتا تو وہ بغیر پوچھے آپ کو پہچان نہیں پاتا تھا، تو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ ہم آپ کے لئے ایک ایسی جائے نشست بنا دیں کہ جب بھی کوئی اجنبی آئے تو وہ آپ کو پہچان لے، ابوہریرہؓ کہتے ہیں : چنانچہ ہم نے آپ کے لئے ایک مٹی کا چبوترا بنا دیا، تو آپ ﷺ اس پر بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے ، آگے ابوہریرہ نے اسی جیسی روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ ایک شخص آیا ، پھر انہوں نے اس کی ہیئت ذکر کی ،یہاں تک کہ اس نے بیٹھے ہوئے لوگوں کے کنارے سے ہی آپ کو یوں سلام کیا: السلام علیک یا محمد!، تو نبی اکرمﷺ نے اسے سلام کا جواب دیا ۔


4699- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقُلْتُ لَهُ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْئٌ مِنَ الْقَدَرِ، فَحَدِّثْنِي بِشَيْئٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي، قَالَ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَ [أَنَّ] مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۰ (۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۸۲، ۱۸۵، ۱۸۹) (صحیح)
۴۶۹۹- ابن دیلمی ۱؎ کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہہ پیدا ہو گیا ہے ، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے یہ امید ہو کہ اللہ اس شبہ کو میرے دل سے نکال دے گا، فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور عذاب دینے میں وہ ظالم نہیں ہوگا ،اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے اعمال سے بہت بہتر ہے ، اگر تم احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کردو تو اللہ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرما ئے گاجب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آئو اور یہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ نہ پہنچتا، اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں کہ تمہیں پہنچ جاتا، اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مر گئے تو ضرور جہنم میں داخل ہو گے۔
ابن دیلمی کہتے ہیں : پھر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم ﷺ کی ایک مر فو ع روایت بیان کی۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ابوالبسرعبداللہ بن فیروز الدیلمی۔


4700- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ الْهُذَلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، عَنْ أَبِي حَفْصَةَ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لابْنِهِ: يَا بُنَيَّ إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيقَةِ الإِيمَانِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ، قَالَ: رَبِّ! وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَيْئٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ > يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ مَاتَ عَلَى غَيْرِ هَذَا فَلَيْسَ مِنِّي >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۸۲)، وقد أخرجہ: ت/القدر ۱۷ (۲۱۵۵)، تفسیر سورۃ النون ۶۶ (۳۳۱۹) (صحیح)
۴۷۰۰- ابو حفصہ کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے میرے بیٹے ! تم ایمان کی حقیقت کا مزہ ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ تم یہ نہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ ایسا نہیں کہ نہ ملتا اور جو کچھ نہیں ملا ہے ایسا نہیں کہ وہ تمہیں مل جاتا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے :'' سب سے پہلی چیز جسے اللہ تعالی نے پیدا کیا ، قلم ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا : لکھ، قلم نے کہا:اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ''، اے میرے بیٹے ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: '' جو اس کے علاوہ ( کسی اور عقیدے) پر مرا تو وہ مجھ سے نہیں''۔


4701- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ (ح) وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُخْبِرُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلامِهِ وَخَطَّ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ، تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى >.
قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ: عَنْ عَمْرٍو عَنْ طَاوُسٍ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۳۱ (۳۴۰۹)، القدر ۱۱ (۶۶۱۴)، م/القدر ۲ (۲۶۵۲)، ق/المقدمۃ ۱۰(۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۲۹)، وقد أخرجہ: ت/القدر ۲ (۲۱۳۴)، ط/القدر ۱ (۱)، حم (۲/۲۴۸، ۲۶۸) (صحیح)
۴۷۰۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' آدم اور موسیٰ نے بحث کی تو موسیٰ نے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ ہی نے ہمیں محرومی سے دو چار کیا، اور ہمیں جنت سے نکلوایا، آدم نے کہا: تم موسیٰ ہو تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی گفتگو کے لئے چن لیا، اور تمہارے لئے تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا، تم مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جسے اس نے میرے لئے مجھے پیدا کر نے سے چالیس سال پہلے ہی لکھ دیا تھا، پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ بحث و تکرار اللہ کے سامنے ہوئی جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔


4702- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <إِنَّ مُوسَى قَالَ: يَا رَبِّ! أَرِنَا آدَمَ الَّذِي أَخْرَجَنَا وَنَفْسَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأَرَاهُ اللَّهُ آدَمَ، فَقَالَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ؟ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: نَعَمْ، قَالَ: أَنْتَ الَّذِي نَفَخَ اللَّهُ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَعَلَّمَكَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا، وَأَمَرَ الْمَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ أَخْرَجْتَنَا وَنَفْسَكَ مِنَ الْجَنَّةِ؟ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: وَمَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: أَنْتَ نَبِيُّ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِي كَلَّمَكَ اللَّهُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ لَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ رَسُولا مِنْ خَلْقِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَفَمَا وَجَدْتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فِيمَ تَلُومُنِي فِي شَيْئٍ سَبَقَ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى فِيهِ الْقَضَاءُ قَبْلِي؟ > قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ: < فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۹۷) (حسن)
۴۷۰۲- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے رب! ہمیں آدم کو دکھا جنہوں نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوایا ، تو اللہ نے انہیں آدم کو دکھایا ، موسیٰ نے کہا: آپ ہمارے باپ آدم ہیں ؟ تو آدم نے ان سے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: آپ ہی ہیں جس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی ، جسے تمام نام سکھائے اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا؟ انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا : تو پھر کس چیز نے آپ کو اس پر آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوا دیا ؟ تو آدم نے ان سے کہا: اور تم کون ہو؟ وہ بولے: میں موسیٰ ہوں، انہوں نے کہا : تم بنی اسرائیل کے وہی نبی ہو جس سے اللہ نے پر دے کے پیچھے سے گفتگو کی اور تمہارے اور اپنے درمیان اپنی مخلوق میں سے کوئی قاصد مقرر نہیں کیا؟ کہا: ہاں، آدم نے کہا: تو کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ وہ (جنت سے نکالا جا نا) میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا؟ کہا: ہاں معلوم ہے، انہوں نے کہا: پھر ایک چیز کے بارے میں جس کے متعلق اللہ تعالی کا فیصلہ میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی مقدر ہو چکا تھا کیوں مجھے ملامت کرتے ہو؟''، یہاں پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تو آدم موسیٰ پر غالب آگئے ، تو آدم موسیٰ پر غالب آگئے''۔


4703- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ [الْقَعْنَبِيُّ]، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أُنَيْسَةَ، أَنَّ عَبْدَالْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ [بْنِ الْخَطَّابِ] أَخْبَرَهُ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ: {وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ} قَالَ: قَرَأَ الْقَعْنَبِيُّ الآيَةَ، فَقَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سُئِلَ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلاءِ لِلنَّارِ، وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ > فَقَالَ رَجُلٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ! فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُدْخِلَهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ،حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ فَيُدْخِلَهُ بِهِ النَّارَ> ۔
* تخريج: ت/تفسیر سورۃ الأعراف (۳۰۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۵۴)، وقد أخرجہ: ط/القدر ۱ (۲)، حم (۱/۴۵) (صحیح)
۴۷۰۳-مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت {وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ} کے متعلق پوچھا گیا ۱؎ ۔ (حدیث بیان کرتے وقت) قعنبی نے آیت پڑھی،) تو آپ نے کہا: جب نبی اکرم ﷺ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:''اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا، اس سے اولاد نکالی اور کہا: میں نے انہیں جنت کے لئے پیدا کیا ہے ،اور یہ جنتیوں کے کام کریں گے ، پھر ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے بھی اولاد نکالی اور کہا : میں نے انہیں جہنمیوں کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ اہل جہنم کے کام کریں گے''، تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! پھرعمل سے کیا فائدہ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اللہ تعالی جب بندے کو جنت کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنتیوں کے کام کراتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنتیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مر جاتا ہے، تو اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے، اور جب کسی بندے کو جہنم کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مر جاتا ہے تو اس کی وجہ سے اسے جہنم میں داخل کر دیتا ہے''۔
وضاحت ۱؎ : اور یاد کرو اس وقت کو جب تمہارے رب نے آدم کی اولاد کو اُن کی پشتوں سے نکالا۔


4704- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ جُعْثُمٍ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَحَدِيثُ مَالِكٍ أَتَمُّ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۵۴) (صحیح)
۴۷۰۴- نعیم بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، پھر انہوں نے یہی حدیث روایت کی ، مالک کی روایت زیادہ کامل ہے ۔


4705- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَقَبَةَ بْنِ مَصْقَلَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <الْغُلامُ الَّذِي قَتَلَهُ الْخَضِرُ طُبِعَ كَافِرًا، وَلَوْ عَاشَ لأَرْهَقَ أَبَوَيْهِ طُغْيَانًا وَكُفْرًا>۔
* تخريج: م/القدر ۶ ( ۲۶۶۱)، ت/التفسیر ۱۹ (۳۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۰)، وقد أخرجہ: خ/العلم ۴۴ (۱۲۲)، حم (۵/۱۲۱) (صحیح)
۴۷۰۵- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''وہ لڑکا جسے خضر (علیہ السلام) نے قتل کردیا تھا طبعی طور پر کافرتھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے ماں باپ کو سر کشی اور کفر میں مبتلا کر دیتا۔


4706- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ فِي قَوْلِهِ {وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ}: < وَكَانَ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۰) (صحیح)
۴۷۰۶- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے فرمان {وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ} ۱؎ کے بارے میں فرماتے سنا کہ وہ پیدائش کے دن ہی کافر پیدا ہوا تھا۔
وضاحت ۱؎ : ''اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ مومن تھے'' (سورۃ الکہف : ۸۰)


4707- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلامًا يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ، فَتَنَاوَلَ رَأْسَهُ فَقَلَعَهُ، فَقَالَ مُوسَى: {أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً}> الآيَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۴۷۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵) (صحیح)
۴۷۰۷- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''خضر(علیہ السلام) نے ایک لڑکے کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو اس کا سرپکڑا ، اور اسے اکھاڑ لیا، تو موسیٰ (علیہ السلام)نے کہا: کیا تم نے بے گناہ نفس کو مار ڈالا؟''۔


4708- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ (ح) و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، وَالإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: < إِنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ: فَيُكْتَبُ رِزْقُهُ وَأَجَلُهُ وَعَمَلُهُ ثُمَّ يُكْتَبُ شَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلا ذِرَاعٌ، أَوْ قِيدُ ذِرَاعٍ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلا ذِرَاعٌ، أَوْ قِيدُ ذِرَاعٍ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا >۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۰۸)، الأنبیاء ۱ (۳۳۹۳)، القدر ۱ (۶۵۹۴)، م/القدر ۱(۲۶۴۳)، ت/القدر ۴ (۲۱۳۷)، ق/المقدمۃ ۱۰ (۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۲، ۴۱۴، ۴۳۰) (صحیح)
۴۷۰۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم سے رسول اللہ ﷺ نے (آپ صادق اور آپ کی صداقت مسلم ہے) بیان فرمایا: ''تم میں سے ہر شخص کا تخلیقی نطفہ چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع رکھا جاتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ خون کا جما ہوا ٹکڑا رہتا ہے ، پھر وہ اتنے ہی دن گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے، پھر اس کے پاس ایک فر شتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے : تو وہ اس کا رزق ، اس کی عمر، اس کا عمل لکھتا ہے، پھر لکھتا ہے :آیا وہ بدبخت ہے یا نیک بخت ، پھر وہ اس میں روح پھو نکتا ہے ، اب اگر تم میں سے کوئی جنتیوں کے عمل کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس (شخص) کے اور اس ( جنت ) کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا ایک ہاتھ کے برابر فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب(تقدیر) اس پر سبقت کر جاتی ہے اور وہ جہنمیوں کے کام کر بیٹھتا ہے تو وہ داخل جہنم ہو جاتا ہے ،اور تم میں سے کوئی شخص جہنمیوں کے کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس (شخص) کے اور اس (جہنم ) کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا ایک ہاتھ کے برابر کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب(تقدیر) اس پر سبقت کر جاتی ہے، اب وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے تو داخل جنت ہو جاتا ہے''۔


4709- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ : يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: < نَعَمْ > قَالَ: فَفِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟ قَالَ: < كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ >۔
* تخريج: خ/القدر ۲ (۶۵۹۶)، والتوحید ۵۳ (۷۵۵۱)، م/القدر ۱ (۲۶۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۲۷، ۴۳۱) (صحیح)
۴۷۰۹- عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا جنتی اور جہنمی پہلے ہی معلوم ہو چکے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں''، اس نے کہا: پھرعمل کر نے والے کس بنا پر عمل کریں ؟ آپ نے فرمایا: ''ہر ایک کو توفیق اسی بات کی دی جاتی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے ''۔


4710- حَدَّثَنَا [أَحْمَدُ] بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ [بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِيُّ] أَبُوعَبْدِالرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ [الْهُذَلِيِّ]، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ، وَلا تُفَاتِحُوهُمْ >۔
* تخريج:تفردبہ أبوداود، حم (۱/۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۶۹) (ضعیف)
(اس کے راوی'' حکیم بن شریک ھذلی'' مجہول ہیں)
۴۷۱۰- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' تم منکرین تقدیر کے پاس نہ بیٹھو اور نہ ہی ان سے سلام وکلام کی ابتداء کرو ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب فِي ذَرَارِيِّ الْمُشْرِكِينَ
۱۸-باب: کفار اور مشرکین کی اولاد کے انجام کا بیان​


4711- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنْ أَوْلادِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ: < اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ >۔
* تخريج: خ/الجنائز ۹۲ (۱۳۸۳)، والقدر ۳ (۶۵۹۷)، م/القدر ۶ (۲۶۶۰)، ن/الجنائز ۶۰ (۱۹۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۵، ۳۲۸، ۳۴۰، ۳۵۸) (صحیح)
۴۷۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ نے فرمایا: ''اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ زندہ رہتے تو کیا عمل کرتے''۔


4712- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ(ح) وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ وَكَثِيرُ ابْنُ عُبَيْدٍ الْمَذْحِجِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، الْمَعْنَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ذَرَارِيُّ الْمُؤْمِنِينَ؟ فَقَالَ: < [هُمْ] مِنْ آبَائِهِمْ > فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! بِلا عَمَلٍ؟ قَالَ: < اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ > قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَذَرَارِيُّ الْمُشْرِكِينَ؟ قَالَ: <مِنْ آبَائِهِمْ> قُلْتُ: بِلا عَمَلٍ؟ قَالَ: < اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ؟ >
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۸۴) (صحیح الإسناد)
۴۷۱۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مومنوں کے بچوں کا کیا حال ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' وہ اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے''، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! بغیر کسی عمل کے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیاعمل کرتے''، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور مشرکین کے بچے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے''، میں نے عرض یا: بغیر کسی عمل کے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال ان بچوں کے متعلق تھا جو قبل بلوغت انتقال کرگئے تھے، رسول اکرمﷺ کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہی رہیں گے، اگرچہ ان سے کوئی کفر یا نیک عمل صادر نہ ہوا، لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اگر زندہ رہتے تو کیا کرتے۔


4713- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: أُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِصَبِيٍّ مِنَ الأَنْصَارِ يُصَلِّي عَلَيْهِ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! طُوبَى لِهَذَا لَمْ يَعْمَلْ شَرًّا وَلَمْ يَدْرِ بِهِ، فَقَالَ: < أَوْ غَيْرُ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ! إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْجَنَّةَ، وَخَلَقَ لَهَا أَهْلا، وَخَلَقَهَا لَهُمْ وَهُمْ فِي أَصْلابِ آبَائِهِمْ، وَخَلَقَ النَّارَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلا، وَخَلَقَهَا لَهُمْ وَهُمْ فِي أَصْلابِ آبَائِهِمْ >۔
* تخريج: م/القدر ۶ (۲۶۶۲)، ن/الجنائز ۵۸ (۱۹۴۹)، ق/المقدمۃ ۱۰ (۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۱، ۲۰۸) (صحیح)
۴۷۱۳- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس انصار کا ایک بچہ صلاۃ پڑھنے کے لئے لایا گیا ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! زندگی کے مزے تو اس بچے کے لئے ہیں، اس نے نہ کوئی گناہ کیا اور نہ ہی وہ اسے ( گناہ کو) سمجھتا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: '' عائشہ! کیا تم ایسا سمجھتی ہو حالاں کہ ایسا نہیں ہے؟ اللہ تعالی نے جنت کو پیدا کیا اور اس کے لئے لوگ بھی پیدا کئے اور جنت کو ان لوگوں کے لئے جب بنایا جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے، اور جہنم کو پیدا کیا اور اس کے لئے لوگ بھی پیدا کئے گئے اور جہنم کو ان لوگوں کے لئے پیدا کیا جب کہ وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کامطلب یہ تھا کہ چونکہ اس بچے نے کوئی گناہ نہ کیا اس لئے یہ تو یقینا جنتی ہے، رسول اکرم ﷺ نے اس یقین کی تردید فرمائی کہ بلا دلیل کسی کو جنتی کہنا درست نہیں، جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ تو اللہ نے انسان کے دنیا میں آنے سے قبل ہی کر دیا ہے، اور وہ ہمیں معلوم نہیں تو ہم کسی کو حتمی اور یقینی طور پر جنتی یا جہنمی کیسے کہہ سکتے ہیں، یہ حدیث مندرجہ بالا حدیث سے معارض معلوم ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان بچے جو بچپن ہی میں مرجائیں گے اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے، نیز علماء کا اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، اس حدیث کا یہ جواب دیا گیا کہ حضرت عائشہ کو جنتی یا جہنمی کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے روکنا مقصود تھا اور بس، بعض نے کہا :یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اکرمﷺ کو بتایا نہیں گیا تھا کہ مسلم بچے جنتی ہیں۔


4714- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ، كَمَا تَنَاتَجُ الإِبِلُ مِنْ بَهِيمَةٍ جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّ مِنْ جَدْعَاءَ؟ > قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَرَأَيْتَ مَنْ يَمُوتُ وَهُوَ صَغِيرٌ؟ قَالَ: < اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ >۔
* تخريج: خ/الجنائز ۹۲ (۱۳۸۳)، والقدر ۳ (۶۵۹۲)، م/القدر ۶ (۲۶۵۸)، ن/الجنائز ۶۰ (۱۹۵۱)، ت/القدر ۵ (۲۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۵۷)، وقد أخرجہ: ط/الجنائز ۱۶ (۵۲)، حم (۲/۲۴۴، ۲۵۳، ۲۵۹، ۲۶۸، ۳۱۵، ۳۴۷، ۳۹۳، ۴۷۱، ۴۸۸، ۵۱۸) (صحیح)
۴۷۱۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہو تا ہے ، پھر اس کے والدین اسے یہو دی یا نصرانی بنا ڈالتے ہیں ، جیسے اونٹ صحیح و سالم جانور سے پیدا ہوتا ہے تو کیا تمہیں اس میں کوئی کنکٹا نظر آتا ہے؟''، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا اس کے با رے میں کیا خیال ہے جو بچپنے میں مر جائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے''۔


4715- قَالَ أَبو دَاود: قُرِءَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا أَسْمَعُ: أَخْبَرَكَ يُوسُفُ بْنُ عَمْرٍو، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكًا، قِيلَ لَهُ: إِنَّ أَهْلَ الأَهْوَاءِ يَحْتَجُّونَ عَلَيْنَا بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ مَالِكٌ: احْتَجَّ عَلَيْهِمْ بِآخِرِهِ، قَالُوا: أَرَأَيْتَ مَنْ يَمُوتُ وَهُوَ صَغِيرٌ، قَالَ: < اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۵۳) (صحیح الإسناد)
۴۷۱۵- ابن وہب کہتے ہیں کہ میں نے مالک کو کہتے سنا، ان سے پوچھا گیا: اہل بدعت ( قدریہ ) اس حدیث سے ہمارے خلاف استدلال کرتے ہیں؟ مالک نے کہا: تم حدیث کے آخری ٹکڑے سے ان کے خلا ف استدلال کرو، اس لئے کہ اس میں ہے: صحابہ نے پوچھا کہ بچپن میں مرنے والے کا کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا:''اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے''۔


4716- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ يُفَسِّرُ حَدِيثَ < كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ > قَالَ: هَذَا عِنْدَنَا حَيْثُ أَخَذَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْعَهْدَ فِي أَصْلابِ آبَائِهِمْ حَيْثُ قَالَ {أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ؟ قَالُوا بَلَى}۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۹۱) (صحیح الإسناد)
۴۷۱۶- حجاج بن منہال کہتے کہ میں نے حما د بن سلمہ کو ''كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ'' (ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہو تا ہے) ۱؎ کی تفسیر کرتے سنا ، آپ نے کہا: ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ نے ان سے اسی وقت لے لیا تھا ، جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے، اللہ نے ان سے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب(معبود) نہیں ہوں؟ تو انہوں نے کہا تھا : کیوں نہیں، ضرور ہیں۔
وضاحت ۱؎ : فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی تاویل اس طرح بیان فرمائی کہ چونکہ میثاق الٰہی کے مطابق ہر ایک نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا، لہٰذا اسی اقرار پر وہ پیدا ہوتا ہے، بعد میں لوگ اس کو یہودی، نصرانی ، مجوسی یا مشرک بنا لیتے ہیں۔


4717- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى [الرَّازِيُّ]، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الْوَائِدَةُ وَالْمَوْئُودَةُ فِي النَّارِ >.
قَالَ يَحْيَى [بْنُ زَكَرِيَّا]: قَالَ أَبِي: فَحَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ أَنَّ عَامِرًا حَدَّثَهُ بِذَلِكَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۶۶) (صحیح)
۴۷۱۷- عا مر شعبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''وائدہ ( زندہ در گور کر نے والی) اور مؤودہ ( زندہ درگور کی گئی دونوں) جہنم میں ہیں'' ۱؎ ۔
یحییٰ بن زکریا کہتے ہیں : میرے والد نے کہا: مجھ سے ابو اسحاق نے بیان کیا ہے کہ عامرشعبی نے ان سے اسے بیان کیا ہے، وہ علقمہ سے اور علقمہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور ابن مسعود نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : ''وائدة'' اور ''موؤودة'' سے کیا مراد ہے؟بعض محدثین نے ''وائدہ'' سے زندہ درگور کرنے والی عورت، اور ''موؤودۃ'' سے زندہ درگور کی گئی بچی مراد لی ہے ،اس صورت میں ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ ایک خاص بچی کے بارے میں فرمایا، یہ حکم عام نہیں ہے، بعض محدثین کے نزدیک ''وائدہ'' سے مراد زندہ درگور کرنے والی عورت، اور ''موؤودۃ'' سے مراد وہ عورت ہے جو اپنی بچی کو زندہ درگور کرنے پر راضی ہو، اس صورت میں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔


4718- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: < أَبُوكَ فِي النَّارِ > فَلَمَّا قَفَّى قَالَ: < إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ >۔
* تخريج: م/الإیمان ۸۸ (۲۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۹، ۲۶۸) (صحیح)
۴۷۱۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میرے والد کہاں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تمہارے والد جہنم میں ہیں ''، جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا :'' میرے والد اور تیرے والد دونوں جہنم میں ہیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سے صاف ظاہر ہے اہل فترہ (عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اور نبی اکرمﷺ کی بعثت سے پہلے کے لوگ) اگر مشرک ہیں تو جہنمی ہیں، کیونکہ ان کو دعوت ابراہیمی پہنچی تھی، نبی اکرمﷺ کے والد کے بارے میں یہ حدیث نص صریح ہے، علامہ سیوطی وغیرہ نے جو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوبارہ زندہ فرمایا، یا وہ ایمان لائے اور پھر مرگئے ،تو یہ محض موضوع من گھڑت روایات پر مبنی ہے،ائمہ حدیث مثلا دارقطنی، جورقانی، ابن شاہین، ابن عساکر، ابن ناصر، ابن الجوزی، سہیلی، قرطبی، محب الطبری، ابن سیدالناس، ابراہیم الحلبی وغیرہم نے ان احادیث کومکذوب مفتری اور موضوع قرار دیا ہے،علامہ ابراہیم حلبی نے اس بارے میں مستقل کتاب لکھی ہے، اسی طرح ملاعلی قاری نے شرح فقہ اکبر میں اور ایک مستقل کتاب میں یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے والدین کے ایمان کی بات غلط محض ہے،علی کل حال اس مسئلہ میں زیادہ نہیں پڑنا چاہیئے بلکہ اپنی نجات کی فکر کرنی چاہیئے۔


4719- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ >۔
* تخريج: م/السلام ۹ (۲۱۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۲۵، ۱۵۶، ۲۸۵) (صحیح)
ٍ ۴۷۱۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''شیطان ابن آدم (انسان)کے بدن میں اسی طرح دوڑتا ہے جس طرح خون رگوں میں گردش کر تا ہے''۔


4720- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ وَعَمْرُو ابْنُ الْحَارِثِ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ الْهُذَلِيِّ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ،وَلا تُفَاتِحُوهُمُ الْحَدِيثَ >.
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۴۷۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۶۹) (ضعیف)
(اس کے راوی ''حکیم بن شریک ہذلی''مجہول ہیں)
۴۷۲۰- عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' منکرین تقدیر کے پاس نہ بیٹھو اور نہ ہی ان سے بات چیت میں پہل کرو''۔
 
شمولیت
مارچ 14، 2013
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
19
* تخريج: ت/الصوم ۳۸ (۷۳۸)، ق/الصیام ۵ (۱۶۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵۱)، وقد أخرجہ: دي/الصوم ۳۴ (۱۷۸۱) (صحیح)
مجھے سمجھ نہیں آئی یہ ریفرنس کے ساتھ "تخریج" کیوں لکھا ہے ؟؟؟ کیا ان احادیث کی تخریج ہوئی ہے ؟؟؟؟؟؟ براہ مہربانی واضح کر دیں
مجھے جواب نہیں ملا اس سوال کا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
* تخريج: ت/الصوم ۳۸ (۷۳۸)، ق/الصیام ۵ (۱۶۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵۱)، وقد أخرجہ: دي/الصوم ۳۴ (۱۷۸۱) (صحیح)
مجھے سمجھ نہیں آئی یہ ریفرنس کے ساتھ "تخریج" کیوں لکھا ہے ؟؟؟ کیا ان احادیث کی تخریج ہوئی ہے ؟؟؟؟؟؟ براہ مہربانی واضح کر دیں
یہ پڑھیں۔
سنن ابی داود میں استعمال ہونے والے رموز وعلامات
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب فِي الْجَهْمِيَّةِ
۱۹-باب: جہمیہ کا بیان ۱ ؎​


4721- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَائَلُونَ حَتَّى يُقَالَ هَذَا: خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ: آمَنْتُ بِاللَّهِ >۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۱ (۳۲۷۶)، م/الإیمان ۶۰ (۱۳۴)، ن/ الیوم واللیلۃ (۶۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۳۱) (صحیح)
۴۷۲۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''لوگ ایک دوسرے سے برا برسوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا : اللہ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ لہٰذا تم میں سے کسی کو اس سلسلے میں اگر کوئی شبہ گزرے تو وہ یوں کہے : میں اللہ پر ایمان لا یا '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جہمیہ:اہل بدعت کا ایک مشہور فرقہ ہے جواللہ کی صفات کا منکر ہے اور قرآن کو مخلوق کہتا ہے ، ائمہ دین کی بہت بڑی تعداد نے ان کی تکفیرکی ہے۔
وضاحت ۲؎ : اگر آدمی کو کوئی اس طرح کا شیطانی وسوسہ لاحق ہو تو اس کو دور کرنے اور ذہن سے جھٹکنے کی پوری کوشش کرے اور یوں کہے: میں اللہ پر ایمان لا چکا ہوں، صحیحین کی روایت میں ہے: میں اللہ و رسول پر ایمان لاچکا ہوں۔


4722- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ -يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ- قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ- قَالَ: حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ مَوْلَى بَنِي تَميْمٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، قَالَ: < فَإِذَا قَالُوا ذَلِكَ فَقُولُوا: {اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ} ثُمَّ لِيَتْفُلْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلاثًا وَلْيَسْتَعِذْ مِنَ الشَّيْطَانِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، ن/ عمل الیوم واللیۃ (۶۶۱)، وانظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۷۸) (حسن)
۴۷۲۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ، پھر اس جیسی روایت ذکر کی ، البتہ اس میں ہے ، آپ نے فرمایا: ''جب لوگ ایسا کہیں تو تم کہو: {اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ} ( اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے ۱؎ ، اس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ) پھر وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھو کے اور شیطان سے پناہ مانگے''۔
وضاحت ۱؎ : احد وہ ہے جس کا کوئی مثیل و نظیر نہ ہو ، صمد وہ کہ سب اس کے محتاج ہوں وہ بے نیاز ہے، کسی کا محتاج نہیں۔


4723- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَمِيرَةَ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ، قَالَ: كُنْتُ فِي الْبَطْحَاءِ فِي عِصَابَةٍ فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَمَرَّتْ بِهِمْ سَحَابَةٌ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: < مَا تُسَمُّونَ هَذِهِ؟ > قَالُوا: السَّحَابَ، قَالَ: < وَالْمُزْنَ > قَالُوا: وَالْمُزْنَ، قَالَ: <وَالْعَنَانَ > قَالُوا: وَالْعَنَانَ- قَالَ أَبو دَاود: لَمْ أُتْقِنِ الْعَنَانَ جَيِّدًا- قَالَ: $ هَلْ تَدْرُونَ مَا بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ؟ > قَالُوا: لا نَدْرِي، قَالَ: < إِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَهُمَا إِمَّا وَاحِدَةٌ أَوِ اثْنَتَانِ أَوْ ثَلاثٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً، ثُمَّ السَّمَاءُ فَوْقَهَا كَذَلِكَ > حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ: <ثُمَّ فَوْقَ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَائٍ إِلَى سَمَائٍ، ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلافِهِمْ وَرُكَبِهِمْ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَائٍ إِلَى سَمَائٍ، ثُمَّ عَلَى ظُهُورِهِمُ الْعَرْشُ مَا بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَائٍ إِلَى سَمَائٍ، ثُمَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَوْقَ ذَلِكَ ۔
* تخريج: ت/تفسیر الحاقۃ ۶۷ (۳۳۲۰)، ق/المقدمۃ ۱۳ (۱۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۰۶، ۲۰۷) (ضعیف)
( اس کے راوی ''عبداللہ بن عمیرہ'' لین الحدیث ہیں)
۴۷۲۳- عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بطحا ء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا ،جس میں رسول اللہ ﷺ بھی موجود تھے ، اتنے میں بادل کا ایک ٹکڑا ان کے پاس سے گزرا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا: ''تم اسے کیا نام دیتے ہو؟ ''، لوگوں نے عرض کیا: سحاب( بادل )،آپ ﷺ نے فرمایا : ''اور مزن بھی''، لوگوں نے کہا: ہاں مزن بھی، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اورعنان بھی''، لوگوں نے عرض کیا: اورعنان بھی، (ابو داود کہتے ہیں: عنان کو میں اچھی طرح ضبط نہ کرسکا) آپ ﷺ نے پوچھا: ''کیا تمہیں معلوم ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے ؟'' ، لوگوں نے عرض کیا : ہمیں نہیں معلوم، آپ ﷺ نے فرمایا: ''ان دونوں کے درمیان اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کی مسا فت ہے، پھر اسی طرح اس کے اوپر آسمان ہے'' ، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے سات آسمان گنائے ، ''پھر ساتویں کے اوپر ایک سمندر ہے جس کی سطح اور تہہ میں اتنی دوری ہے جتنی کہ ایک آسمان اور دوسرے آسمان کے درمیان ہے ، پھر اس کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے ہیں جن کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی لمبائی ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کی دوری ہے ، پھر ان کی پشتوں پر عرش ہے ، جس کے نچلے حصہ اور اوپر ی حصہ کے درمیان کی مسافت اتنی ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی ، پھر اس کے اوپر اللہ تعالی ہے''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی فرشتے ان کی شکل میں ہیں۔


4724- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَعْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالا: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ سِمَاكٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۲۴) (ضعیف)
۴۷۲۴- اس سند سے بھی سماک سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ۔


4725- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ سِمَاكٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ الطَّوِيلِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۴۷۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۲۴) (ضعیف)
۴۷۲۵- اس سند سے بھی سماک سے اسی لمبی حدیث کا مفہوم مروی ہے ۔


4726- حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍالرِّبَاطِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ أَحْمَدُ: كَتَبْنَاهُ مِنْ نُسْخَتِهِ، وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! جُهِدَتِ الأَنْفُسُ، وَضَاعَتِ الْعِيَالُ، وَنُهِكَتِ الأَمْوَالُ، وَهَلَكَتِ الأَنْعَامُ، فَاسْتَسْقِ اللَّهَ لَنَا، فَإِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِكَ عَلَى اللَّهِ وَنَسْتَشْفِعُ بِاللَّهِ عَلَيْكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < وَيْحَكَ!! أَتَدْرِي مَا تَقُولُ؟ > وَسَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَمَا زَالَ يُسَبِّحُ حَتَّى عُرِفَ ذَلِكَ فِي وُجُوهِ أَصْحَابِهِ، ثُمَّ قَالَ: < وَيْحَكَ!! إِنَّهُ لا يُسْتَشْفَعُ بِاللَّهِ عَلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ، شَأْنُ اللَّهِ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، وَيْحَكَ!! أَتَدْرِي مَا اللَّهُ، إِنَّ عَرْشَهُ عَلَى سَمَاوَاتِهِ لَهَكَذَا > وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ مِثْلَ الْقُبَّةِ عَلَيْهِ: < وَإِنَّهُ لَيَئِطُّ بِهِ أَطِيطَ الرَّحْلِ بِالرَّاكِبِ > قَالَ ابْنُ بَشَّارٍ فِي حَدِيثِهِ: < إِنَّ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ، وَعَرْشُهُ فَوْقَ سَمَاوَاتِهِ > وَسَاقَ الْحَدِيثَ، و قَالَ عَبْدُالأَعْلَى وَابْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ بَشَّارٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ، وَالْحَدِيثُ بِإِسْنَادِ أَحْمَدَ بْنِ سَعِيدٍ هُوَ الصَّحِيحُ، وَافَقَهُ عَلَيْهِ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَرَوَاهُ جَمَاعَةٌ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ كَمَا قَالَ أَحْمَدُ أَيْضًا، وَكَانَ سَمَاعُ عَبْدِالأَعْلَى وَابْنِ الْمُثَنَّى وَابْنِ بَشَّارٍ مِنْ نُسْخَةٍ وَاحِدَةٍ فِيمَا بَلَغَنِي۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۹۶) (ضعیف)
(ابن اسحاق مدلس ہیں، نیز سند میں اختلاف ہے)
۴۷۲۶- جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اورکہا : اللہ کے رسول! لوگ مصیبت میں پڑ گئے ، گھر بار تبا ہ ہو گئے ، مال گھٹ گئے ، جا نور ہلا ک ہو گئے ، لہٰذا آپ ہمارے لئے با رش کی دعا کیجئے، ہم آپ کو سفارشی بناتے ہیں اللہ کے دربار میں، اوراللہ کو سفا رشی بناتے ہیں آپ کے دربار میں ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تمہارا برا ہو، سمجھتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟''، پھر رسول اللہ ﷺ سبحا ن اللہ کہنے لگے، اور برا بر کہتے رہے یہاں تک کہ اس کا اثر آپ ﷺ کے اصحاب کے چہروں پر دیکھا گیا، پھر فرمایا: ''تمہارا برا ہو اللہ کواس کی مخلوق میں سے کسی کے دربارمیں سفارشی نہیں بنایا جاسکتا، اللہ کی شان اس سے بہت بڑی ہے ، تمہارا برا ہو! کیا تم جانتے ہو اللہ کیا ہے ، اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے (آپ نے انگلیوں سے گنبد کے طو ر پر اشارہ کیا) اور وہ چر چر اتا ہے جیسے پالا ن سوا ر کے بیٹھنے سے چر چرا تا ہے، ( ابن بشار کی حدیث میں ہے) اللہ تعالی اپنے عرش کے اوپر ہے، اور اس کا عرش اس کے آسمانوں کے اوپر ہے ۲؎ ''، اور پھر پوری حدیث ذکر کی ۔
عبدالا علی، ابن مثنّٰی اور ابن بشا رتینوں نے یعقوب بن عتبہ اور جبیر بن محمد بن جبیر سے ان دونوں نے محمد بن جبیر سے اور محمدبن جبیر نے جبیر بن مطعم سے روایت کی ہے ۔
البتہ احمد بن سعید کی سند والی حدیث ہی صحیح ہے ، اس پر ان کی مو افقت ایک جماعت نے کی ہے ، جس میں یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی شامل ہیں اور اسے ایک جماعت نے ابن اسحاق سے روایت کیا ہے جیسا کہ احمد بن سعید نے بھی کہا ہے ، اور عبدالاعلی ، ابن مثنی اور ابن بشار کا سماع جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے ، ایک ہی نسخے سے ہے۔


4727- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَكٍ مِنْ مَلائِكَةِ اللَّهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ، إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَى عَاتِقِهِ مَسِيرَةُ سَبْعِ مِائَةِ عَامٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۸۶) (صحیح)
۴۷۲۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: '' مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فر شتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں ، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عمدہ گھوڑے کی چال سے جیسا کہ دوسری حدیث میں مروی ہے،اس حدیث کا مقصود حاملین عرش کا طول وعرض اور عظمت وجثہ بتانا ہے، اور ستر کاعدد بطور تحدید نہیں ہے بلکہ اس سے کثرت مراد ہے۔


4728- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِءُ، حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ -يَعْنِي ابْنَ عِمْرَانَ- حَدَّثَنِي أَبُو يُونُسَ سُلَيْمُ بْنُ جُبَيْرٍ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقْرَأُ هَذِهِ الآيَةَ {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا} إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى {سَمِيعًا بَصِيرًا} قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَضَعُ إِبْهَامَهُ عَلَى أُذُنِهِ وَالَّتِي تَلِيهَا عَلَى عَيْنِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقْرَؤُهَا وَيَضَعُ إِصْبَعَيْهِ، قَالَ ابْنُ يُونُسَ: قَالَ الْمُقْرِءُ: [يَعْنِي {إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ} يَعْنِي أَنَّ لِلَّهِ سَمْعًا وَبَصَرًا] .
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا رَدٌّ عَلَى الْجَهْمِيَّةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۶۷) (صحیح الإسناد)
۴۷۲۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابو یونس سلیم بن جبیرکہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوآیت کریمہ {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا}۔۔۔ {سَمِيعًا بَصِيرًا} ۱؎ تک پڑھتے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنے انگوٹھے کو اپنے کان پر اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کو آنکھ پر رکھتے، (یعنی شہادت کی انگلی کو) ، ابو ہریرہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے پڑھتے اور اپنی دونوں انگلیوں کو رکھتے دیکھا۔
ابن یونس کہتے ہیں :عبداللہ بن یزید مقری نے کہا: یعنی {إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ} پر انگلی رکھتے تھے، مطلب یہ ہے کہ اللہ کے کان اور آنکھ ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ جہمیہ کا ردّ ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو ان کے مالکوں تک پہنچا دو ۔۔۔۔۔۔اللہ سننے اور دیکھنے والا ہے'' (سورۃ النساء : ۵۸)
وضاحت ۲؎ : اس حدیث میں جہمیہ کا رد بلیغ ہے، جہمیہ اللہ کے لئے صفت سمع وبصر کی نفی کرتے ہیں، رسول اکرمﷺ نے انگوٹھا اور انگلی رکھ کر ان کی تردید فرمادی، جہمیہ تشبیہ سے بچنے کے لئے ایسا کہتے ہیں، جب کہ اس میں تشبیہ ہے ہی نہیں، مقصود صفت سمع (سننا) صفت بصر(دیکھنا) کا اثبات ہے، یہ مقصود نہیں کہ اس کی آنکھ وکان ہماری آنکھ اور کان جیسے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی آنکھ کان اس کی عظمت وجلال کے لائق ہیں، بلا کسی کیفیت تشبیہ، وتمثیل اور تعطیل کے سبحانہ تعالیٰ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب فِي الرُّؤْيَةِ
۲۰-باب: رؤیت باری تعالی کا بیان​


4729- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ وَوَكِيعٌ وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ جُلُوسًا، فَنَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ [لَيْلَةَ الْبَدْرِ] لَيْلَةَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ، فَقَالَ: <إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا لا تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاتُغْلَبُوا عَلَى صَلاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا > ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا}۔
* تخريج: خ/المواقیت ۱۶ (۵۵۴)، التوحید ۲۴ (۷۴۳۵)، م/المساجد ۳۷ (۶۳۳)، ت/صفۃ الجنۃ ۱۶ (۲۵۵۱)، ق/المقدمۃ ۱۳ (۱۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۴ /۳۶۰، ۳۶۲، ۳۶۵) (صحیح)
۴۷۲۹- جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں شب کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: ’’تم لوگ عنقریب اپنے رب کو دیکھو گے ، جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ، تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی زحمت نہ ہو گی ، لہٰذا اگر تم قدرت رکھتے ہو کہ تم فجر اور عصر کی صلاۃ میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو‘‘ ، پھر آپ نے یہ آیت {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا} ۱؎پڑھی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور اپنے رب کی تسبیح کرو ، سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے (سورۃ طہ : ۱۳۰)
وضاحت ۲؎ : قیامت میں موحدین کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا، اہل سنت وجماعت اور صحابہ و تابعین کا یہی مسلک ہے، جہمیہ ومعتزلہ اور بعض مرجئہ اس کے خلاف ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل قرآن وسنت سے موجود نہیں ہے، محض تاویل اور بعض بے بنیاد شبہات کے بل بوتے پر انکار کرتے ہیں، اس باب میں ان کی تردید مقصود ہے۔


4730- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ نَاسٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: < هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي الظَّهِيرَةِ، لَيْسَتْ فِي سَحَابَةٍ؟ > قَالُوا: لا، قَالَ: < هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ فِي سَحَابَةٍ؟ > قَالُوا: لا، قَالَ: < وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ، إِلا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا>۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۶۶)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۲۹ (۸۰۶)، والرقاق ۵۲ (۶۵۷۳)، والتوحید ۲۴ (۷۴۳۷)، م/الإیمان ۸۱ (۱۸۲) والزھد ۱ (۲۹۶۶)، ت/صفۃ الجنۃ ۱۷ (۲۵۵۴)، دي/الرقاق ۸۱ (۲۸۴۳) (صحیح)
ٍ ۴۷۳۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں دوپہرکے وقت سورج کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو؟ ‘‘، لوگوں نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں دقت محسوس کرتے ہو، جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو ؟‘‘، لوگوں نے عرض کیا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہیں اللہ کے دیدا ر میں کوئی دقت نہ ہو گی مگر اتنی ہی جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کے دیکھنے میں ہوتی ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور چونکہ ان کے دیکھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی اسی طرح اللہ کے دیدار میں بھی دقت نہ ہوگی۔


4731- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ(ح) وحَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، الْمَعْنَى، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءِ، عَنْ وَكِيعٍ، قَالَ مُوسَى: ابْنِ عُدُسٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، قَالَ مُوسَى: الْعُقَيْلِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَكُلُّنَا يَرَى رَبَّهُ- قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ:- مُخْلِيًا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ وَمَا آيَةُ ذَلِكَ فِي خَلْقِهِ؟ قَالَ: < يَا أَبَا رَزِينٍ! أَلَيْسَ كُلُّكُمْ يَرَى الْقَمَرَ؟ >- قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ:- لَيْلَةَ الْبَدْرِ مُخْلِيًا بِهِ- ثُمَّ اتَّفَقَا:- قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: < فَاللَّهُ أَعْظَمُ > قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ: قَالَ: < فَإِنَّمَا هُوَ خَلْقٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ، فَاللَّهُ أَجَلُّ وَأَعْظَمُ >۔
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۳ (۱۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱، ۱۲) (حسن)
۴۷۳۱- ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! کیا ہم میں سے ہر ایک اپنے رب کو (قیامت کے دن) بلارکاوٹ دیکھے گا؟ اور اس کی مخلوق میں اس کی مثال کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اے ابور زین! کیا تم سب چودہویں کا چاند بلا رکاوٹ نہیں دیکھتے؟‘‘ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو اللہ تو اور بھی بڑا ہے‘‘،( ابن معاذ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ تو اللہ کی مخلو قات میں سے ایک مخلوق ہے ، اللہ تو اس سے بہت بڑا اور عظیم ہے)‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جب اس کی مخلوق کو ہر ایک بلا روک ٹوک دیکھ لیتا ہے تو اللہ کو جو اس سے بہت ہی بڑا ہے کیوں نہیں دیکھ سکتا ؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب فِي الرَّدِّ عَلَى الْجَهْمِيَّةِ
۲۱-باب: جہمیہ کے رد کا بیان​


4732- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ أَنَّ أَبَا أُسَامَةَ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، قَالَ: قَالَ سَالِمٌ: أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَطْوِي اللَّهُ السَّمَاوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟ ثُمَّ يَطْوِي الأَرَضِينَ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ >- قَالَ ابْنُ الْعَلاءِ: < بِيَدِهِ الأُخْرَى- ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟ >۔
* تخريج: خ/التوحید ۱۹ (۷۴۱۴تعلیقًا)، م/صفۃ القیامۃ (۲۷۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۷۴)، وقد أخرجہ: ق/المقدمۃ ۱۴ (۱۹۸) (صحیح)
(شمال (بایاں ہاتھ) کے ذکر میں عمر بن حمزۃ متفرد ہیں، جبکہ صحیح احادیث میں رب کے دونوں ہاتھ کو دایاں ہاتھ کہا گیا ہے، ملاحظہ ہو: الصحيحة 3136 تراجع الألباني 124)
۴۷۳۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قیامت کے روز اللہ آسمانوں کو لپیٹ دے گا ، پھر انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا، اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے؟ کہاں ہیں تکبر اور گھمنڈ کرنے والے؟ پھر زمینوں کو لپیٹے گا، پھر انہیں اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا، پھر کہے گا: میں ہوں بادشاہ ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے؟ کہاں ہیں اترانے والے؟‘‘۔


4733- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ وَعَنْ أَبِي عَبْدِاللَّهِ الأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < يَنْزِلُ رَبُّنَا كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا حِيْنَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ، فَيَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۳۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۶۳، ۱۵۲۴۱) (صحیح)
۴۷۳۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے ، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور کہتا ہے : کون ہے جو مجھے پکارے، میں اس کی پکار کو قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اسے معاف کردوں‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دونوں احادیث میں اللہ کی صفات کا ذکر ہے جن کا جہمیہ انکار کرتے ہیں، علماء سلف کا مسلک اس بارے میں یہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ جس طرح قرآن وسنت میں وارد ہیں ان کو جوں کا توں باقی رکھا جائے نہ ان کا انکار کیا جائے، اور نہ ان کی تاویل کی جائے، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کی کتاب شرح حدیث النزول دیکھیے جو اس بارے میں دلائل سے پُر اور اپنے باب میں عدیم النظیر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب فِي الْقُرْآنِ
۲۲-باب: قرآن کے کلام اللہ ہونے کا بیان​


4734- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَى النَّاسِ فِي الْمَوْقِفِ، فَقَالَ: < أَلارَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ، فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلامَ رَبِّي >۔
* تخريج: ت/فضائل القرآن ۲۴ (۲۹۲۵)، ق/المقدمۃ ۱۳ (۲۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۹۰)، دی/فضائل ۵ (۳۳۹۷) (صحیح)
۴۷۳۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خود کو مو قف (عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ ) میں لوگوں پر پیش کرتے تھے اور فرماتے: ’’کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے چلے، قریش نے مجھے میرے رب کا کلام پہنچانے سے رو ک دیا ہے ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : رسول اکرمﷺ موسم حج میں مختلف قبائل کے پاس جاتے اور ان میں دین اسلام کی تبلیغ کرتے تھے، اسی کی طرف اشارہ ہے، اس حدیث میں قرآن کو کلام اللہ فرمایا گیا ہے جس سے معتزلہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے جو کلام اللہ کو اللہ کی صفت نہ مان کر اس کو مخلوق کہتے تھے، سلف صالحین نے قرآن کو مخلوق کہنے والے گروہ کی تکفیر کی ہے، جب کہ قرآنی نصوص ، احادیث شریفہ اور آثار سلف سے قرآن کا کلام اللہ ہونا ، اور کلام اللہ کا صفت باری تعالیٰ ہونا ثابت ہے، اور اس پر سلف کا اجماع ہے۔


4735- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ وَعُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ، وَكُلٌّ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ، قَالَتْ: وَلَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى۔
* تخريج: خ/الشھادت ۱۵ (۲۶۶۱)، المغازي ۱۲ (۴۰۲۵)، ۳۴ (۴۱۴۱)، م/التوبۃ ۱۰ (۲۷۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۲۶، ۱۶۱۲۸، ۱۶۳۱۱، ۱۶۵۷۶، ۱۷۴۰۹، ۱۷۴۱۲) (صحیح)
۴۷۳۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرے جی میں میرا معاملہ اس سے کمتر تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی گفتگو فرمائے گا کہ وہ ہمیشہ تلاوت کی جائے گی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کلام کرے، اور قرآن میں اس کو نازل فرمادے جو ہمیشہ تلاوت کیا جائے، ان کا اشارہ واقعہ افک کی طرف تھا۔


4736- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ [يَعْنِي الشَّعْبِيَّ] عَنْ عَامِرِ بْنِ شَهْرٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّجَاشِيِّ فَقَرَأَ ابْنٌ لَهُ آيَةً مِنَ الإِنْجِيلِ، فَضَحِكْتُ، فَقَالَ: أَتَضْحَكُ مِنْ كَلامِ اللَّهِ؟.
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۴۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۸، ۴۲۹، ۴/۲۶۰) (صحیح)
۴۷۳۶- عامر بن شہر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نجاشی کے پاس تھا کہ ان کے ایک لڑ کے نے انجیل کی ایک آیت پڑھی ، تو میں ہنس پڑا انہوں نے کہا: کیا تم اللہ کے کلام پر ہنستے ہو؟۔


4737- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ < أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لامَّةٍ > ثُمَّ يَقُولُ: كَانَ أَبُوكُمْ يُعَوِّذُ بِهِمَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ .
[قَالَ أَبو دَاود: هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْقُرْآنَ لَيْسَ بِمَخْلُوقٍ]۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۱۰ (۳۳۷۱)، ت/الطب ۱۸ (۲۰۶۰)، ق/الطب ۳۶ (۳۵۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۶، ۲۷۰) (صحیح)
۴۷۳۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺحسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے لئے(ان الفاظ میں ) اللہ تعالیٰ پناہ مانگتے تھے ’’أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لامَّةٍ‘‘ (میں تم دونوں کے لئے پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ ، ہر شیطان سے، ہر زہریلے کیڑے (سانپ بچھو وغیرہ) سے اور ہر نظر بد والی آنکھ سے، پھر فرماتے : تمہارے باپ (ابراہیم) اسماعیل و اسحاق کے لئے بھی انہی کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے۔


4738- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ الرَّازِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ابْنِ إِبْرَاهِيمَ وَعَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِذَا تَكَلَّمَ اللَّهُ بِالْوَحْيِ سَمِعَ أَهْلُ السَّمَاءِ لِلسَّمَاءِ صَلْصَلَةً كَجَرِّ السِّلْسِلَةِ عَلَى الصَّفَا، فَيُصْعَقُونَ، فَلا يَزَالُونَ كَذَلِكَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ جِبْرِيلُ، حَتَّى إِذَا جَائَهُمْ جِبْرِيلُ فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ > قَالَ: فَيَقُولُونَ: يَا جِبْرِيلُ! مَاذَا قَالَ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: الْحَقَّ، فَيَقُولُونَ: الْحَقَّ، الْحَقَّ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۸۰)، وقد أخرجہ: خ/التوحید ۳۱ (عقیب ۷۴۸۰تعلیقًا) (صحیح)
۴۷۳۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جب اللہ تعالی وحی کے لئے کلام کرتا ہے تو سبھی آسمان والے آواز سنتے ہیں جیسے کسی چکنے پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہو ، پھر وہ بے ہوش کر دئیے جاتے ہیں اور اسی حال میں رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس جبریل آتے ہیں، جب جبریل ان کے پاس آ تے ہیں تو ان کی غشی جاتی رہتی ہے، پھر وہ کہتے ہیں: اے جبریل ! تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں:حق ( فرمایا) تو وہ سب کہتے ہیں حق (فرمایا) حق (فرمایا) ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب فِي الشَّفَاعَةِ
۲۳-باب: شفاعت کا بیان ۱؎​


4739- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا بَسْطَامُ بْنُ حُرَيْثٍ، عَنْ أَشْعَثَ الْحُدَّانِيِّ، عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < شَفَاعَتِي لأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۱۳) (صحیح)
۴۷۳۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے ہے‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ باب خوارج اور بعض معتزلہ کے رد میں ہے جوشفاعت رسول ﷺ کے منکر ہیں، اہل حدیث واہل سنت شفاعت کے قائل ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جن لوگوں کے کبیرہ گناہ ان کے جنت میں جانے سے مانع ہوں گے جبکہ وہ موحد تھے تو ان کے لئے میری شفاعت جنت میں جانے کا ذریعہ ہوگی، لیکن یہ شفاعت اللہ کے حکم اور ا س کے اِذْن سے ہوگی جیسا کہ آیت الکرسی میں نیز اس آیت میں ہے {يَوْمَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلا} (سورۃ طہ: ۱۰۹) کسی مشرک کو شفاعت نصیب نہ ہوگی، اس لئے ہر آدمی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ شرک و بدعت کو سمجھے، اور اس بات کی پوری کوشش کرے کہ وہ ان سب سے دور رہے، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے بچائے، تا کہ رسول اکرم ﷺ کی شفاعت کا مستحق ہو۔


4740- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِمْرَانُ ابْنُ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَيُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِيِّينَ >۔
* تخريج: خ/الرقاق ۵۱ (۶۵۶۶)، ت/صفۃ جہنم ۱۰ (۲۶۰۰)، ق/الزھد ۳۷ (۴۳۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۳۴) (صحیح)
۴۷۴۰- عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ کچھ لوگ جہنم سے محمد(ﷺ) کی سفارش پر نکالے جائیں گے ،وہ جنت میں داخل ہوں گے ، اور وہ جہنمی کہہ کر پکارے جائیں گے‘‘۔


4741- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَأْكُلُونَ فِيهَا وَيَشْرَبُونَ >۔
* تخريج: م/الجنۃ وصفۃ نعیمھا ۷ (۲۸۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱۶، ۳۶۴) دي/الرقاق ۱۰۷ (۲۸۷۲) (صحیح)
۴۷۴۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺکو فرماتے سنا: ’’جنت والے اس میں کھائیں گے پیئیں گے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث کا باب سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ اس کے متعلقات سے ہے جنت کی نعمتوں سے جنتی کھائیں گے پیئیں گے لیکن وہ کبھی ختم نہ ہوں گی۔
 
Top