31- بَاب فِي قِتَالِ الْخَوَارِجِ
۳۱-باب: خوارج سے قتال کا بیان
4763- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، أَنَّ عَلِيًّا ذَكَرَ أَهْلَ النَّهْرَوَانِ فَقَالَ: فِيهِمْ رَجُلٌ مُودَنُ الْيَدِ، أَوْ مُخْدَجُ الْيَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ، لَوْلا أَنْ تَبْطَرُوا لَنَبَّأْتُكُمْ مَا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ ﷺ ، قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْهُ؟ قَالَ: قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۴۸ (۱۰۶۶)، ق/المقدمۃ ۱۲ (۱۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۳، ۹۵، ۱۴۴، ۱۵۵، ۱۱۳، ۱۲۱، ۱۲۲) (صحیح)
۴۷۶۳- عبیدہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اہل نہروان ۱؎ کا ذکر کیا اور کہا: ان میں چھوٹے ہاتھ کا ایک آدمی ہے ، اگر مجھے تمہارے اترا نے کا اندیشہ نہ ہو تا تو میں تمہیں بتا تا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی زبا ن سے کس چیز کاوعدہ کیا ہے ان لوگوں کے لئے جو ان سے جنگ کریں گے،راوی کہتے ہیں: میں نے کہا: کیا آپ نے اسے اللہ کے رسول ﷺ سے سناہے؟ انہوں نے کہا: ہاں رب کعبہ کی قسم۔
وضاحت ۱؎ : بغداد اور واسط کے درمیان تین گاؤں ہیں جن میں ایک اونچائی پر ہے دوسرا درمیان میں اور تیسرا نشیب میں ،اسی جگہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے ساتھ جنگ کی۔
4764- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام إِلَى النَّبِيِّ ﷺ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَّمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةٍ: بَيْنَ الأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ الْمُجَاشِعِيِّ، وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ، وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلاثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلابٍ، قَالَ: فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ وَالأَنْصَارُ، وَقَالَتْ: يُعْطِي صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، فَقَالَ: < إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ > قَالَ: فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِينِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقٌ، قَالَ: اتَّقِ اللَّهَ يَا مُحَمَّدُ! فَقَالَ: <مَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ، أَيَأْمَنُنِي اللَّهُ عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ وَلا تَأْمَنُونِي؟! > قَالَ: فَسَأَلَ رَجُلٌ قَتْلَهُ أَحْسِبُهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، قَالَ: فَمَنَعَهُ، قَالَ: فَلَمَّا وَلَّى قَالَ: < إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا، أَوْ فِي عَقِبِ هَذَا، قَوْمًا يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الإِسْلامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ، لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ قَتَلْتُهُمْ قَتْلَ عَادٍ >۔
* تخريج: خ/الأنبیاء ۶ (۴۶۶۷)، المغازي ۶۱ (۴۳۵۱)، تفسیرالتوبۃ ۱۰ (۳۳۴۴)، التوحید ۲۳ (۷۴۳۲)، م/الزکاۃ ۴۷ (۱۰۶۳)، ن/الزکاۃ ۷۹ (۲۵۷۹)، التحریم ۲۲ (۴۱۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴، ۳۱، ۶۸، ۷۲، ۷۳) (صحیح)
۴۷۶۴- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے پاس مٹی سے آلودہ سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا ۱؎ ، آپ ﷺ نے اسے چا ر لوگوں :اقر ع بن حابس حنظلی مجا شعی ، عیینہ بن بد ر فزاری ، زید الخیل طائی جو بنی نبہان کے ایک فرد ہیں اور علقمہ بن علا ثہ عا مری جو بنی کلاب سے ہیں کے درمیان تقسیم کردیا، اس پر قریش اور انصار کے لوگ ناراض ہوگئے اورکہنے لگے: آپ اہل نجد کے رئیسوں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں'' ، اتنے میں ایک شخص آیا ( جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی ، رخسا ر ابھرے ہوئے اور پیشانی بلند ، دا ڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا) اور کہنے لگا:اے محمد! اللہ سے ڈرو ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' جب میں ہی اس کی نافرمانی کر نے لگوں گا تو کو ن اس کی فرمانبر داری کرے گا، اللہ تو زمین والوں میں مجھے امانت دارسمجھتا ہے اور تم مجھے اما نت دا ر نہیں سمجھتے ؟ ''، تو ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے ، تو آپ ﷺ نے منع فرمایا، اور جب وہ لوٹ گیا تو آپ نے فرمایا: ''اس کی نسل میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے ، وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیراس شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے جسے تیر ماراجاتا ہے، وہ اہل اسلام کو قتل کر یں گے ا ور بت پوجنے والوں کو چھوڑ دیں گے ، اگر میں نے انہیں پا یا تو میں انہیں قوم عا د کی طرح قتل کروں گا'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس طرح زمیں سے نکلا ویسے ہی مٹی سمیت بھیج دیا۔
وضاحت ۲ ؎ : یہ حدیث خوارج کے سلسلہ میں ہے، اعتراض کرنے والا خارجیوں کا سردار ہوا،ایک بات اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ نبی کریم ﷺ نے جن لوگوں کو مال دیا تھا وہ نجدی تھے، اور یہ شخص نجدی نہیں تھا، اسی نے ''یا محمد'' کہا جوآج اہل بدعت نے اپنا شعار بنا رکھا ہے، ان لوگوں کو علی رضی اللہ عنہ نے مقام نہروان میں قتل کیا ،آپ ﷺ کے فرمان کہ میں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا کا مطلب یہ ہے کہ ان کو نیست ونابود کردوں گا، جیسے قوم عاد نیست و نابود ہوگئی، قوم عاد سے مشابہت صرف کلی ہلاکت میں ہے۔
4765- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ الأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ وَمُبَشِّرٌ -يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ- الْحَلَبِيَّ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو، قَالَ -يَعْنِي الْوَلِيدَ-: حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلافٌ وَفُرْقَةٌ، قَوْمٌ يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ، يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لا يَرْجِعُونَ حَتَّى يَرْتَدَّ عَلَى فُوقِهِ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ، طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ، يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْئٍ، مَنْ قَاتَلَهُمْ كَانَ أَوْلَى بِاللَّهِ مِنْهُمْ > قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ: < التَّحْلِيقُ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ ومابعدہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲) (صحیح)
(قتادۃ کا ابوسعیدخدری سے سماع نہیں ہے،ہاں، انس سے ثابت ہے)
۴۷۶۵- ابو سعید خدری اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' میری امت میں اختلاف اور تفرقہ ہوگا،کچھ ایسے لوگ ہوں گے، جو باتیں اچھی کریں گے لیکن کام برے کریں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا ، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے،وہ (اپنی روش سے) باز نہیں آئیں گے جب تک تیر سوفار(اپنی ابتدائی جگہ) پر الٹا نہ آجائے ۱؎ ، وہ سب لوگوں اور مخلوقات میں بد ترین لوگ ہیں، بشارت ہے اس کے لئے جو انہیں قتل کرے یا جسے وہ قتل کر یں ، وہ کتاب اللہ کی طرف بلائیں گے ، حا لا نکہ وہ اس کی کسی چیز سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے ہوں گے، جو ان سے قتال کرے گا ، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ سے قریب ہو گا''، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کی نشانی کیا ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' سر منڈانا'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جس طرح تیر کا سوفار پر واپس آنا محال ہے اسی طرح ان کی دین کی طرف واپسی محال ہے۔
وضاحت ۲؎ : بعض لوگوں نے سر منڈانے کو اس حدیث سے مکروہ خیال کیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، یہ ان کی علامت ہوگی اور علامت ونشانی اچھی وبری دونوں ہوتی ہے، رسول اکرمﷺ نے ایک بچہ دیکھا کہ اس کا آدھا سر مونڈا ہوا ہے تو آپ نے فرمایا:''اس کا پورا سرمونڈ دو یا پورا چھوڑ دیا کرو''، خود علی رضی اللہ عنہ جنہوں نے خوارج سے طویل معرکہ آرائی کی اپنا سر منڈوایا کرتے تھے، سر مونڈنے کوعلامت ونشانی کے لئے اختیار کرنا یہ خوارج کی علامت ہے، کبھی کبھی یا بوقت ضرورت سر منڈانا جائز ہے،(قالہ النووی)۔
4766- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، نَحْوَهُ، قَالَ: < سِيمَاهُمُ التَّحْلِيقُ وَالتَّسْبِيدُ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَأَنِيمُوهُمْ >.
[قَالَ ابو داود: التَّسْبِيدُ: اسْتِئْصَالُ الشَّعْرِ] ۔
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۲ (۱۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۹۷) (صحیح)
۴۷۶۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فرمایا، البتہ اس میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: ''ان کی علامت سر منڈانا اور بالوں کو جڑ سے ختم کرنا ہے ، لہٰذا جب تم انہیں دیکھو تو انہیں قتل کر دو''۔
ابو داود کہتے ہیں:
تسبید : بال کو جڑ سے ختم کرنے کو کہتے ہیں۔
4767- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيِ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَدِيثًا فَلأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ فَإِنَّمَا الْحَرْبُ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَاءُ الأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الأَحْلامِ، يَقُولُونَ مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ؛ فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ >۔
* تخريج: خ/المناقب ۲۵ (۳۶۱۱)، وفضائل القرآن ۳۶ (۵۰۵۷)، والمرتدین ۶ (۶۹۳۰)، م/الزکاۃ ۴۸ (۱۰۶۶)، ن/المحاربۃ ۲۲ (۴۱۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۱، ۱۱۳، ۱۳۱) (صحیح)
۴۷۶۷- سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: جب میں رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث تم سے بیان کروں تو آسمان سے میرا گر جا نا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں آپ پر جھوٹ بولوں ، اور جب میں تم سے اس کے متعلق کوئی بات کروں جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہے تو جنگ چالاکی وفریب دہی ہوتی ہی ہے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''آخری زمانے میں کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے، جو تمام مخلوقات میں بہتر شخص کی طرح باتیں کریں گے ، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے ، ان کا ایمان ان کی گردنوں سے نیچے نہ اترے گا ، لہٰذا جہاں کہیں تم ان سے ملو تم انہیں قتل کر دو ، اس لئے کہ ان کا قتل کر نا ، قیامت کے روز اس شخص کے لئے اجر و ثواب کا باعث ہوگا جو انہیں قتل کرے گا''۔
4768- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَيْسَتْ قِرَائَتُكُمْ إِلَى قِرَائَتِهِمْ شَيْئًا، وَلا صَلاتُكُمْ إِلَى صَلاتِهِمْ شَيْئًا، وَلاصِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ شَيْئًا، يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لاتُجَاوِزُ صَلاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ ﷺ لَنَكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلا لَهُ عَضُدٌ وَلَيْسَتْ لَهُ ذِرَاعٌ، عَلَى عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ > أَفَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ وَتَتْرُكُونَ هَؤُلاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ؟ وَاللَّهِ إِنِّي لأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلاءِ الْقَوْمَ؛ فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ، قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلا مَنْزِلا، حَتَّى مَرَّ بِنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ، قَالَ: فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَى الْخَوَارِجِ عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ فَقَالَ لَهُمْ: أَلْقُوا الرِّمَاحَ وَسُلُّوا السُّيُوفَ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، قَالَ: فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ، وَاسْتَلُّوا السُّيُوفَ، وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقَتَلُوا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضِهِمْ، قَالَ: وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلا رَجُلانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلامُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَلَمْ يَجِدُوا، قَالَ: فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه بِنَفْسِهِ، حَتَّى أَتَى نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: أَخْرِجُوهُمْ، فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الأَرْضَ، فَكَبَّرَ، وَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ، وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! [وَ] اللَّهِ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ لَقَدْ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ الَّذِي لاإِلَهَ إِلا هُوَ، حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلاثًا، وَهُوَ يَحْلِفُ ۔
* تخريج: م/ الزکاۃ ۴۸ (۱۰۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۰) (صحیح)
۴۷۶۸- زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے:'' میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قر آن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا ، نہ تمہاری صلاۃ ان کی صلاۃ کے مقابلے کچھ ہو گی، اور نہ ہی تمہارا صیام ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے ، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لئے ( ثواب) ہے حالاں کہ وہ ان پر (عذاب ) ہو گا ، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی ، وہ اسلام سے نکل جائیں گے ، جس طرح تیرشکار سے نکل جاتا ہے ، اگر ان لوگوں کو جو انہیں قتل کر یں گے ، یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے لئے ان کے نبی اکرمﷺ کی زبا نی کس چیز کا فیصلہ کیا گیا ہے ، تو وہ ضر ور اسی عمل پر بھروسا کرلیں گے ( اور دوسرے نیک اعمال چھوڑ بیٹھیں گے) ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کے بازو ہو گا ، لیکن ہاتھ نہ ہو گا، اس کے بازو پر پستان کی گھنڈی کی طرح ایک گھنڈی ہو گی، اس کے اوپر کچھ سفید بال ہوں گے''، تو کیا تم لوگ معاویہ اور ہل شام سے لڑ نے جائوگے ، اور انہیں اپنی اولاد اور اسباب پر چھو ڑدو گے (کہ وہ ان پر قبضہ کریں اور انہیں برباد کریں) اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں ( جن کے بارے میں نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے ) اس لئے کہ انہوں نے ناحق خون بہایا ہے، لوگوں کی چراگاہوں پر شب خون مارا ہے ، چلو اللہ کے نام پر ۔
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں : پھر زید بن وہب نے مجھے ایک ایک مقام بتا یا ( جہاں سے ہو کر وہ خارجیوں سے لڑ نے گئے تھے) یہاں تک کہ وہ ہمیں لے کر ایک پل سے گزرے۔
وہ کہتے ہیں: جب ہماری مڈ بھیڑ ہوئی تو خارجیوں کا سردا رعبداللہ بن وہب راسبی تھا اس نے ان سے کہا : نیزے پھینک دو اور تلواروں کو میان سے کھینچ لو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تم سے اسی طرح صلح کا مطالبہ نہ کریں جس طرح انہوں نے تم سے حروراء کے دن کیا تھا ، چنانچہ انہوں نے اپنے نیز ے پھینک دئیے ،تلواریں کھینچ لیں، لوگوں (مسلمانوں ) نے انہیں اپنے نیزوں سے روکا اور انہوں نے انہیں ایک پر ایک کر کے قتل کیا اور ( مسلمانوں میں سے) اس دن صرف دو آدمی شہید ہوئے ، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں مخدج یعنی لنجے کو تلاش کرو، لیکن وہ نہ پاسکے، تو آپ خود اٹھے اور ان لوگوں کے پاس آئے جو ایک پر ایک کرکے مارے گئے تھے ، آپ نے کہا: انہیں نکالو ، تو انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ سب سے نیچے زمین پر پڑا ہے ،آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور بولے: اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول نے سا ری باتیں پہنچا دیں ۔
پھر عبیدہ سلمانی آپ کی طرف اٹھ کر آئے کہنے لگے: اے امیر المو منین ! قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ وہ بولے : ہاں، اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، یہاں تک کہ انہوں نے انہیں تین بار قسم دلائی اور وہ (تینوں با ر) قسم کھاتے رہے۔
4769- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ مُرَّةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَضِيئِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام: اطْلُبُوا الْمُخْدَجَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَاسْتَخْرَجُوهُ مِنْ تَحْتِ الْقَتْلَى فِي طِينٍ، قَالَ أَبُو الْوَضِيئِ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حَبَشِيٌّ عَلَيْهِ قُرَيْطِقٌ لَهُ إِحْدَى يَدَيْنِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ عَلَيْهَا شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ شُعَيْرَاتِ الَّتِي تَكُونُ عَلَى ذَنَبِ الْيَرْبُوعِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۳۹، ۱۴۰، ۱۴۱)
(صحیح الإسناد)
۴۷۶۹- ابو الوضی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: مخدج ( لنجے ) کو تلاش کرو ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں ہے: لوگوں نے اسے مٹی میں پڑے ہوئے مقتولین کے نیچے سے ڈھونڈ نکالا ،گویا میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں ، وہ ایک حبشی ہے چھوٹا سا کرتا پہنے ہوئے ہے، اس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہے ، جس پر ایسے چھوٹے چھوٹے بال ہیں ، جیسے جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں۔
4770- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: إِنْ كَانَ ذَلِكَ الْمُخْدَجُ لَمَعَنَا يَوْمَئِذٍ فِي الْمَسْجِدِ، نُجَالِسُهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَكَانَ فَقِيرًا، وَرَأَيْتُهُ مَعَ الْمَسَاكِينِ يَشْهَدُ طَعَامَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام مَعَ النَّاسِ وَقَدْ كَسَوْتُهُ بُرْنُسًا لِي.
قَالَ أَبُو مَرْيَمَ: وَكَانَ الْمُخْدَجُ يُسَمَّى نَافِعًا ذَا الثُّدَيَّةِ، وَكَانَ فِي يَدِهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ، عَلَى رَأْسِهِ حَلَمَةٌ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ سِبَالَةِ السِّنَّوْرِ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ عِنْدَ النَّاسِ اسْمُهُ حَرْقُوسُ] ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۳۳) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''نُعیم '' حافظہ کے کمزور راوی ہیں)
۴۷۷۰- ابو مریم کہتے ہیں کہ یہ مخدج( لنجا) مسجد میں اس دن ہمارے ساتھ تھا ہم اس کے ساتھ رات دن بیٹھا کرتے تھے ، وہ فقیر تھا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ مسکینو ں کے ساتھ آکر علی رضی اللہ عنہ کے کھانے پر لوگوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا اور میں نے اسے اپنا ایک کپڑا دیا تھا۔
ابو مریم کہتے ہیں : لوگ مخدج ( لنجے ) کو نا فع ذوالثدیہ ( پستان والا) کا نام دیتے تھے، اس کے ہاتھ میں عورت کے پستان کی طرح گوشت ابھرا ہوا تھا، اس کے سرے پر ایک گھنڈی تھی جیسے پستان میں ہوتی ہے اس پر بلی کی مونچھوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال تھے ۔
ابو داود کہتے ہیں:لوگوں کے نزدیک اس کا نام حرقوس تھا۔