• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَنْ كَظَمَ غَيْظًا
۳-باب: غصہ پی جا نے والے کی فضیلت کا بیان​


4777- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ -يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ- عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رُئُوسِ الْخَلائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ [اللَّهُ] مِنَ الْحُورِ الْعِينِ مَا شَاءَ >.
[قَالَ أَبو دَاود: اسْمُ أَبِي مَرْحُومٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَيْمُونٍ]۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۷۴ (۲۰۲۱)، صفۃ القیامۃ ۴۸ (۳۴۹۳)، ق/الزھد ۱۸ (۴۱۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۸، ۴۴۰) (حسن)
۴۷۷۷- معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس نے اپنا غصہ پی لیا حالانکہ وہ اسے نافذ کر نے پر قادر تھا تو قیامت کے دن اللہ تعالی اسے سب لوگوں کے سامنے بلائے گا یہاں تک کہ اسے اللہ تعالی اختیا ر دے گا کہ وہ بڑی آنکھ والی حوروں میں سے جسے چاہے چن لے ''۔


4778- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ -يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيّ- عَنْ بِشْرٍ -يَعْنِي ابْنَ مَنْصُورٍ- عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَبْنَاءِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : نَحْوَهُ، قَالَ: < مَلأَهُ اللَّهُ أَمْنًا وَإِيمَانًا > لَمْ يَذْكُرْ قِصَّةَ < دَعَاهُ اللَّهُ > زَادَ < وَمَنْ تَرَكَ لُبْسَ ثَوْبِ جَمَالٍ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ > قَالَ بِشْرٌ: أَحْسِبُهُ قَالَ < تَوَاضُعًا > < كَسَاهُ اللَّهُ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ، وَمَنْ زَوَّجَ لِلَّهِ تَعَالَى تَوَّجَهُ اللَّهُ تَاجَ الْمُلْكِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۰۴) (ضعیف)
۴۷۷۸- نبی اکرم ﷺ کے اصحاب کے فرزندوں میں سے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فرمایا، آپ نے فرمایا:'' اللہ اسے امن اور ایمان سے بھر دے گا اور اس میں یہ واقعہ مذکور نہیں کہ اللہ اسے بلائے گا ، البتہ اتنا اضافہ ہے ، اور جو خو ب (تواضع وفروتنی میں) صورتی کا لباس پہننا ترک کر دے ، حالاں کہ وہ اس کی قدرت رکھتا ہو، تو اللہ تعالی اسے عزت کا جوڑا پہنائے گا، اور جو اللہ کی خاطر شادی کرائے گا ۱؎ تو اللہ اسے بادشا ہت کا تاج پہنائے گا ''۔
وضاحت ۱؎ : ''من زوج لله'' میں مفعول محذوف ہے، اصل عبارت یوں ہے ''من زوج من يحتاج إلى الزواج'' یعنی جوکسی ایسے شخص کی شادی کرائے گا جو شادی کا ضرورت مند ہو، بعض لوگوں نے کہاہے کہ اس کا مفعول''كريمته'' ہے یعنی جو اپنی بیٹی کی شادی کرے گا، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ''من زوَّج'' کے معنی''من أعطى لله اثنين من الأشياء'' کے ہیں، یعنی جس نے اللہ کی خاطر کسی کو دو چیز دی۔


4779- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَا تَعُدُّونَ الصُّرَعَةَ فِيكُمْ؟ > قَالُوا: الَّذِي لا يَصْرَعُهُ الرِّجَالُ، قَالَ: < لا، وَلَكِنَّهُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ >۔
* تخريج: م/البر والصلۃ ۳۰ (۲۶۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۲) (صحیح)
۴۷۷۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' تم لوگ پہلوان کس کو شمار کرتے ہو ؟'' لوگوں نے عرض کیا:اس کو جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں ، آپ نے فرمایا: ''نہیں، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا يُقَالُ عِنْدَ الْغَضَبِ
۴-باب: غصے کے وقت کیا دعا پڑھے؟​


4780- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِالْحَمِيدِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلانِ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَغَضِبَ أَحَدُهُمَا غَضَبًا شَدِيدًا حَتَّى خُيِّلَ إِلَيَّ أَنَّ أَنْفَهُ يَتَمَزَّعُ مِنْ شِدَّةِ غَضَبِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < إِنِّي لأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ [هُ] مِنَ الْغَضَبِ؟ > فَقَالَ: مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ > قَالَ: فَجَعَلَ مُعَاذٌ يَأْمُرُهُ، فَأَبَى وَمَحِكَ، وَجَعَلَ يَزْدَادُ غَضَبًا۔
* تخريج: ت/الدعوات ۵۲ (۳۴۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۴۲)، وقد أ خرجہ: حم (۵/۲۴۰، ۲۴۴) (ضعیف)
۴۷۸۰- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دوشخصوں نے نبی اکرمﷺ کے پاس گالی گلوج کی تو ان میں سے ایک کو بہت شدید غصہ آیا یہاں تک کہ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ ما رے غصے کے اس کی ناک پھٹ جائے گی، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر وہ اسے کہہ دے تو جوغصہ وہ اپنے اندر پا رہا ہے دور ہو جائے گا‘‘ ، عرض کیا : کیا ہے وہ؟ اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا:’’ وہ کہے ’’اللهم إني أعوذ بك من الشيطان الرجيم‘‘ ( اے اللہ! میں شیطان مردود سے تیری پناہ مانگتاہوں) تو معاذ اسے اس کا حکم دینے لگے ، لیکن اس نے انکار کیا ، اور لڑنے لگا ، اس کا غصہ مزید شدید ہوتا چلا گیا۔


4781- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلانِ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ ، فَجَعَلَ أَحَدُهُمَا تَحْمَرُّ عَيْنَاهُ وَتَنْتَفِخُ أَوْدَاجُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنِّي لأَعْرِفُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا هَذَا لَذَهَبَ عَنْهُ الَّذِي يَجِدُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ > فَقَالَ الرَّجُلُ: هَلْ تَرَى بِي مِنْ جُنُونٍ؟.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۱ (۳۲۸۲)، الأدب ۴۴ (۶۰۵۰)، ۷۵ (۶۱۱۵)، م/البر والصلۃ ۳۰ (۲۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۹۴) (صحیح)
۴۷۸۱- سلیمان بن صردکہتے ہیں کہ دوشخصوں نے نبی اکرمﷺ کے پاس گالی گلوج کی تو ان میں سے ایک کی آنکھیں سرخ ہوگئیں، اور رگیں پھول گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر وہ اسے کہہ دے تو جوغصہ وہ اپنے اندر پا رہا ہے دور ہو جائے گا ، وہ کلمہ ’’أعوذ بالله من الشيطان الرجيم‘‘ ہے‘‘، تو اس آدمی نے کہا :کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے جنون ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : غالباً اس نے یہ سمجھا کہ’’أعوذ بالله من الشيطان الرجيم‘‘پڑھنا جنون ہی کے ساتھ مخصوص ہے، یا ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی منافق یا غیر مہذب اور غیر مہذب بدوی رہا ہو۔


4782- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي حَرْبِ ابْنِ أَبِي الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لَنَا: < إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ، وَإِلا فَلْيَضْطَجِعْ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۵۲) (صحیح)
۴۷۸۲- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو چا ہئے کہ بیٹھ جائے، اب اگر اس کا غصہ رفع ہو جائے( تو بہتر ہے) ورنہ پھر لیٹ جائے‘‘۔


4783- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ بَكْرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ أَبَا ذَرٍّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَصَحُّ الْحَدِيثَيْنِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۰۱، ۱۸۴۵۹) (صحیح)
۴۷۸۳- بکر سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ابو ذر کو بھیجا آگے یہی حدیث مروی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: دونوں حدیثوں میں یہ زیادہ صحیح ہے۔


4784- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو وَائِلٍ الْقَاصُّ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ السَّعْدِيِّ فَكَلَّمَهُ رَجُلٌ فَأَغْضَبَهُ، فَقَامَ فَتَوَضَّأَ، [ثُمَّ رَجَعَ وَقَدْ تَوَضَّأَ] فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي عَطِيَّةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ وَإِنَّ الشَّيْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ، فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۶) (ضعیف)
(عروۃ بن محمد لین الحدیث ہیں)
۴۷۸۴- ابو وائل قاص کہتے ہیں کہ ہم عروہ بن محمد بن سعدی کے پاس داخل ہوئے ، ان سے ایک شخص نے گفتگو کی تو انہیں غصہ کر دیا ، وہ کھڑے ہوئے اور وضو کیا ، پھر لوٹے اور وہ وضو کئے ہوئے تھے ، اور بولے : میرے والد نے مجھ سے بیان کیا وہ میرے دادا عطیہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’غصہ شیطان کے سبب ہوتا ہے، اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے، اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے ، لہٰذا تم میں سے کسی کو جب غصہ آئے تو وضو کر لے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب فِي التَّجَاوُزِ فِي الأَمْرِ
۵-باب: عفو و درگزر کر نے اور انتقام نہ لینے کا بیان​


4785- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي أَمْرَيْنِ إِلا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا، مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِنَفْسِهِ، إِلا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ تَعَالَى فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ بِهَا۔
* تخريج: خ/المناقب ۲۳ (۳۵۶۰)، والأدب ۸۰ (۶۱۲۶)، والحدود ۱۰ (۶۸۵۳)، م/الفضائل ۲۰ (۲۳۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۹۵)، وقد أخرجہ: ط/الجامع ۱ (۲)، حم (۶/۱۱۶، ۱۸۲، ۲۰۹، ۲۶۲) (صحیح)
۴۷۸۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو دو کاموں میں جب بھی اختیار کاحکم دیا گیا تو آپ نے اس میں آسان تر کو منتخب کیا ، جب تک کہ وہ گناہ نہ ہو، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہو تے ، اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی خا طر کبھی انتقام نہیں لیا ، اس صورت کے علاوہ کہ اللہ تعالی کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہو تو آپ اس صورت میں اللہ تعالی کے لئے اس سے بدلہ لیتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مثلاً زنا میں رجم کرتے یا کوڑے لگاتے اور چوری میں ہاتھ کاٹتے۔


4786- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خَادِمًا وَلا امْرَأَةً قَطُّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۶۴، ۱۷۲۶۲)، وقد أخرجہ: م/الفضائل ۲۰ (۲۳۲۸)، ق/النکاح ۵۱ (۱۹۸۴)، حم (۶/۲۰۶)، دي/النکاح ۳۴ (۲۲۶۴) (صحیح)
۴۷۸۶- ام المومنین عائشہرضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ کبھی کسی خادم کو مارا، اور نہ کبھی کسی عورت کو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت سے معلوم ہوا کہ بیوی، خادم اور جانور کو تعلیم اور ادب کے لئے مارنا جائز ہے، لیکن نہ مارنا افضل ہے۔


4787- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ -فِي قَوْلِهِ {خُذِ الْعَفْوَ} قَالَ: أُمِرَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَأْخُذَ الْعَفْوَ مِنْ أَخْلاقِ النَّاسِ۔
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ الأعرف ۵ (۴۶۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۷۷) (صحیح)
۴۷۸۷- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اللہ کے فرمان {خُذِ الْعَفْوَ} ( عفو کو اختیار کرو) کی تفسیر کے سلسلے میں روایت ہے ، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کے اخلاق میں سے عفو کو اختیار کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب فِي حُسْنِ الْعِشْرَةِ
۶-باب: حسنِ معا شرت کا بیان​


4788- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ -يَعْنِي الْحِمَّانِيَّ- حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا بَلَغَهُ عَنِ الرَّجُلِ الشَّيْئُ لَمْ يَقُلْ: مَا بَالُ فُلانٍ يَقُولُ؟ وَلَكِنْ يَقُولُ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا؟.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۴۰) (صحیح)
۴۷۸۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کسی شخص کے با رے میں کوئی بری بات پہنچتی تو آپ یوں نہ فرماتے : ’’فلاں کو کیا ہوا کہ وہ ایسا کہتا ہے؟‘‘ ، بلکہ یوں فرماتے : ’’ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو ایسا اور ایسا کہتے ہیں‘‘۔


4789- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَلْمٌ الْعَلَوِيُّ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلا دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَعَلَيْهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَلَّمَا يُوَاجِهُ رَجُلا فِي وَجْهِهِ بِشَيْئٍ يَكْرَهُهُ، فَلَمَّا خَرَجَ قَالَ: < لَوْ أَمَرْتُمْ هَذَا أَنْ يَغْسِلَ ذَا عَنْهُ >.
قَالَ أَبو دَاود: سَلْمٌ لَيْسَ هُوَ عَلَوِيًّا، كَانَ يُبْصِرُ فِي النُّجُومِ، وَشَهِدَ عِنْدَ عَدِيِّ بْنِ أَرْطَاةَ عَلَى رُؤْيَةِ الْهِلالِ فَلَمْ يُجِزْ شَهَادَتَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۴۱۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۷) (ضعیف)
(اس میں سلم العلوی ضعیف ہیں)
۴۷۸۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ،اس پر زردی کا نشان تھا، رسول اللہ ﷺ کا حال یہ تھا کہ آپ بہت کم کسی ایسے شخص کے روبرو ہوتے ، جس کے چہرے پر کوئی ایسی چیز ہوتی جسے آپ ناپسند کرتے تو جب وہ نکل گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ کاش تم لوگ اس سے کہتے کہ وہ اسے اپنے سے دھو ڈالے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: سلم علوی(یعنی اولاد علی میں سے) نہیں تھا بلکہ وہ ستارے دیکھا کرتا تھا ۱؎اور اس نے عدی بن ارطاۃ کے پاس چاند دیکھنے کی گواہی دی تو انہوں نے اس کی گواہی قبول نہیں کی۔
وضاحت ۱؎ : یعنی علو (بلندی) کی طرف دیکھتا تھا کیونکہ ستارے بلندی ہی میں ہوتے ہیں، اسی وجہ سے علو کی طرف نسبت کرکے اُسے علوی کہا جاتا تھا۔


4790- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ فُرَافِصَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَاهُ جَمِيعًا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <الْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ، وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيمٌ >۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۴۱ (۱۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۹۴) (حسن)
۴۷۹۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر فسادی اورکمینہ ہوتا ہے‘‘۔


4791- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتِ: اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ: < بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ > أَوْ < بِئْسَ رَجُلُ الْعَشِيرَةِ > ثُمَّ قَالَ: < ائْذَنُوا لَهُ > فَلَمَّا دَخَلَ أَلانَ لَهُ الْقَوْلَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَنْتَ لَهُ الْقَوْلَ وَقَدْ قُلْتَ لَهُ مَا قُلْتَ، قَالَ: < إِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَاللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ وَدَعَهُ، أَوْ تَرَكَهُ، النَّاسُ لاتِّقَاءِ فُحْشِهِ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۳۸ (۶۰۳۲)، ۴۸ (۶۰۵۴)، ۸۲ (۶۱۳۱)، م/البر والصلۃ ۲۲ (۲۵۹۱)، ت/البر والصلۃ ۵۹ (۱۹۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۸) (صحیح)
۴۷۹۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے ( اند ر آنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ’’ اپنے خاندان کا لڑکا یا خاندان کا آدمی برا شخص ہے‘‘، پھر فرمایا : اسے اجازت دے دو ، جب وہ اندر آگیا تو آپ نے اس سے نرمی سے گفتگو کی ،اس پر عائشہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس سے نرم گفتگو کی حالاں کہ آپ اس کے متعلق ایسی ایسی باتیں کہہ چکے تھے ، آپ نے فرمایا: ’’ لوگوں میں سب سے برا شخص اللہ کے نز دیک قیامت کے دن وہ ہو گا جس سے لوگوں نے اس کی فحش کلا می سے بچنے کے لئے علیحدگی اختیار کر لی ہو یا اسے چھوڑ دیا ہو۔


4792- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْروٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ رَجُلا اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <بِئْسَ أَخُوالْعَشِيرَةِ > فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَكَلَّمَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، لَمَّا اسْتَأْذَنَ قُلْتَ: < بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ > فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطْتَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: < يَا عَائِشَةُ؛ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۵۵) (حسن صحیح)
۴۷۹۲- ا م المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرمﷺ کے پاس اند ر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا: ’’ اپنے کنبے کا برا شخص ہے‘‘ ، جب وہ اند ر آگیا ، تو رسول اللہ ﷺ اس سے کشادہ دلی سے ملے اور اس سے باتیں کیں ، جب وہ نکل کر چلا گیا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب اس نے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ’’ اپنے کنبے کا برا شخص ہے ، اور جب وہ اند ر آگیا تو آپ اس سے کشادہ دلی سے ملے‘‘ ، آپ نے فرمایا: ’’عائشہ! اللہ تعالی کو فحش گو اور منہ پھٹ شخص پسند نہیں‘‘۔


4793- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَتْ: فَقَالَ -تَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ -: < يَا عَائِشَةُ، إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ الَّذِينَ يُكْرَمُونَ اتِّقَاءَ أَلْسِنَتِهِمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۱۱) (ضعیف الإسناد)
۴۷۹۳- اس سند سے بھی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے یہی واقعہ مروی ہے، وہ کہتی ہیں:آپ نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! لوگوں میں سب سے بد ترین لوگ وہ ہیں وہ جن کا احترام و تکریم ان کی زبانوں سے بچنے کے لئے کیا جائے‘‘۔


4794- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ، أَخْبَرَنَا مُبَارَكٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ رَجُلا الْتَقَمَ أُذُنَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَيُنَحِّي رَأْسَهُ، حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ هُوَ الَّذِي يُنَحِّي رَأَسَهُ، وَمَا رَأَيْتُ رَجُلا أَخَذَ بِيَدِهِ فَتَرَكَ يَدَهُ، حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ هُوَ الَّذِي يَدَعُ يَدَهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۳) (حسن)
۴۷۹۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جس نے رسول اللہ ﷺ کے کان پر منہ رکھا ہو (کچھ کہنے کے لئے) تو آپ نے اپنا سر ہٹا لیا ہو یہاں تک کہ خود وہی شخص نہ ہٹا لے ، اور میں نے ایسا بھی کوئی شخص نہیں دیکھا ،جس نے آپ کا ہاتھ پکڑا ہو ، تو آپ نے اس سے ہاتھ چھڑالیا ہو ، یہاں تک کہ خود اس شخص نے آپ کا ہاتھ نہ چھوڑ دیا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب فِي الْحَيَاءِ
۷-باب: شرم و حیاء کا بیان​


4795- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < دَعْهُ فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الإِيمَانِ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۱۶ (۲۴)، ن/الإیمان ۲۷ (۵۰۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۱۳) وقد أخرجہ: م/ الإیمان ۱۲ (۳۶)، ت/الإیمان ۷ (۲۶۱۸)، ق/المقدمۃ ۹ (۵۸)، ط/حسن الخلق ۲ (۱۰)، حم (۲/۵۶، ۱۴۷) (صحیح)
۴۷۹۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ انصارکے ایک شخص پر سے گزرے، وہ اپنے بھائی کو شرم وحیاء کرنے پر ڈانٹ رہا تھا (اور سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم کرنا اچھی بات نہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ، شرم تو ایمان کا ایک حصہ ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگرچہ وہ ایک طبعی خصلت ہے لیکن قانون شرع کے مطابق اس کا استعمال قصد اکتساب اور علم کا محتاج ہے۔


4796- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَثَمَّ بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ، فَحَدَّثَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ > أَوْ قَالَ: < الْحَيَاءُ كُلُّهُ خَيْرٌ > فَقَالَ بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ: إِنَّا نَجِدُ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ أَنَّ مِنْهُ سَكِينَةً وَوَقَارًا، وَمِنْهُ ضَعْفًا، فَأَعَادَ عِمْرَانُ الْحَدِيثَ، وَأَعَادَ بُشَيْرٌ الْكَلامَ، قَالَ: فَغَضِبَ عِمْرَانُ حَتَّى احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ، وَقَالَ: أَلا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَتُحَدِّثُنِي عَنْ كُتُبِكَ، قَالَ: قُلْنَا: يَا أَبَا نُجَيْدٍ، إِيهٍ إِيهِ۔
* تخريج: م/الإیمان ۱۲ (۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۷۸)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۷۷ (۶۱۱۷)، حم (۴/۴۲۷) (صحیح)
۴۷۹۶- ابوقتادہ کہتے ہیں:ہم عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور وہاں بشیر بن کعب بھی تھے تو عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :''حیا خیر ہے پورا کا پورا، یا کہا حیاء پورا کا پورا خیر ہے'' اس پر بشیر بن کعب نے کہا:ہم بعض کتابوں میں لکھا پا تے ہیں کہ حیا میں سے کچھ تو سکینہ اور وقار ہے، اور کچھ ضعف وناتوانی ،یہ سن کر عمران نے حدیث دہرائی تو بشیر نے پھر اپنی بات دہرائی تو عمرانؓ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں، اور بو لے : میں تم سے حدیث رسول اللہ بیان کر رہا ہوں ، اور تم اپنی کتابوں کے با رے میں مجھ سے بیان کرتے ہو۔
ابوقتادہ کہتے ہیں: ہم نے کہا: اے ابو نجید ( عمران کی کنیت ہے)چھوڑئیے جانے دیجئے۔


4797- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلامِ النُّبُوَّةِ [الأُولَى] إِذَا لَمْ تَسْتَحِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ >۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۵۴ (۳۴۸۳)، الأدب ۷۸ (۶۱۲۰)، ق/الزھد ۱۷ (۴۱۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۲۱، ۱۲۲، ۵/۲۷۳) (صحیح)
۴۷۹۷- ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سا بقہ نبو توں کے کلام میں سے باقی ماندہ چیزیں جو لوگوں کو ملی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب تمہیں شرم نہ ہو تو جو چاہو کرو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فِي حُسْنِ الْخُلُقِ
۸-باب: خوش اخلاقی کا بیان​


4798- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ -يَعْنِي الإِسْكَنْدَرَانِيَّ- عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْمُطَّلِبِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۶۴، ۹۰، ۱۳۳، ۱۸۷) (صحیح)
۴۷۹۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’مومن اپنی خوش اخلاقی سے روزے دار اور رات کو قیام کر نے والے کا درجہ پا لیتا ہے‘‘۔


4799- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَحَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالا: حَدَّثَنَا (ح) وحَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ عَطَاءِ الْكَيْخَارَانِيِّ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَا مِنْ شَيْئٍ أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ >.
قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ: قَالَ: سَمِعْتُ عَطَائً الْكَيْخَارَانِيَّ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ عَطَاءُ بْنُ يَعْقُوبَ، وَهُوَ خَالُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَافِعٍ، يُقَالُ: كَيْخَارَانِيٌّ وَكَوْخَارَانِيٌّ۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۶۲ (۲۰۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۴۶، ۴۴۸) (صحیح)
۴۷۹۹- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ (قیامت کے دن) میزان میں خوش خلقی سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہو گی ۔


4800- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ أَبُو الْجَمَاهِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو كَعْبٍ -أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّعْدِيُّ- قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۷۶) (حسن)
۴۸۰۰- ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ میں اس شخص کے لئے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کردے، اگر چہ وہ حق پر ہو ، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لئے جو جھوٹ بو لنا چھوڑ دے اگر چہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لئے جوخوش خلق ہو‘‘۔


4801- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ وَعُثْمَانُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَعْبَدِ ابْنِ خَالِدٍ، عَنْ حَارِثَةَ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ الْجَوَّاظُ، وَلا الْجَعْظَرِيُّ > قَالَ: وَالْجَوَّاظُ الْغَلِيظُ الْفَظُّ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۰۶) (صحیح)
۴۸۰۱- حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جواظ‘‘جنت میں نہ داخل ہوگا اور نہ جعظری جنت میں داخل ہوگا ۱؎ ۔
راوی کہتے ہیں جواظ کے معنی بدخلق اور سخت دل کے ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : یہ دونوں لفظ کثیرالمعانی ہیں ، حافظ ابن الاثیرجواظ کی شرح میں فرماتے ہیں: مال جوڑنے والااورخرچ نہ کرنے والا،یا لحیم شحیم اپنی چال میں اترنے والا ، یا چھوٹا بڑے پیٹ والا،مصباح اللغات میں جواظ کے معنی میں فرمایا: تکبرسے چلنے والا، اجڈ بہت کھانے والا، ابن الاثیرجعظری کے بارے میں فرماتے ہیں: بھدا موٹااورمتکبر، یا ایساشخص جو ڈینگیں مارے، اور اس کے پاس کچھ نہ ہو، اورچھوٹا ناٹا ہو، مولانا وحیدالزمان حیدرآبادی نے ان لفظوں کے ترجمہ میں فرمایا : فریبی یا مال جوڑنے والا ، اور دمڑی خرچ نہ کر نے والا ، یا موٹاغلیظ ، یا بیہودہ چلانے والا بدخلق سرکش (یہ سب جواظ کے معنی تھے) اور مغرور سخت گویا موٹابھدابہت کھانے والا (یہ جب ہے کہ حرام کے مال سے موٹا ہواہو) (ابو داود ۳/۵۸۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ الرِّفْعَةِ فِي الأُمُورِ
۹-باب: معا ملہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یا ڈینگیں مارنا برا ہے​


4802- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَتِ الْعَضْبَاءُ لا تُسْبَقُ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ لَهُ فَسَابَقَهَا فَسَبَقَهَا الأَعْرَابِيُّ، فَكَأَنَّ ذَلِكَ شَقَّ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: <حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لايَرْفَعَ شَيْئًا [مِنَ الدُّنْيَا] إِلا وَضَعَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۹)، وقد أخرجہ: خ/الجھاد ۵۹ (۲۸۷۲ تعلیقًا)، ن/الخیل ۱۵ (۳۶۲۲)، حم (۳/۲۵۳) (صحیح)
۴۸۰۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ( نبی اکرمﷺ کی اونٹنی ) عضبا ء مقابلے میں کبھی پیچھے نہیں رہی تھی ( ایک با ر) ایک اعرابی اپنے ایک نو عمر اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اور اس نے اس سے مقابلہ کیا تو اعرابی اس سے آگے نکل گیا توایسا لگا کہ یہ چیز رسول اللہ ﷺ کے اصحاب پر گراں گزری ہے تو آپ نے فرمایا:'' اللہ کا یہ دستور ہے کہ جو چیز بھی اوپر اٹھے اسے نیچا کر دے''۔


4803- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِنَّ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لا يَرْتَفِعَ شَيْئٌ مِنَ الدُّنْيَا إِلا وَضَعَهُ >۔
* تخريج: خ/الجھاد ۵۹ (۲۸۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳) (صحیح)
۴۸۰۳- اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مرفوعاً مروی ہے اس میں ہے، آپ نے فرمایا:'' اللہ تعالی کا یہ دستور ہے کہ دنیا کی جو بھی چیز بہت اوپر اٹھے تو اسے نیچا کر دے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ التَّمَادُحِ
۱۰-باب: بے جا تعریف اور مدح سرائی کی برائی کا بیان​


4804- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ فَأَثْنَى عَلَى عُثْمَانَ فِي وَجْهِهِ، فَأَخَذَ الْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ تُرَابًا فَحَثَا فِي وَجْهِهِ، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِذَا لَقِيتُمُ الْمَدَّاحِينَ فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمُ التُّرَابَ >۔
* تخريج: م/الزھد ۱۴ (۳۰۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۴۹)، وقد أخرجہ: ت/الزھد ۵۴ (۲۳۹۳)، ق/الأدب ۳۶ (۳۷۴۲)، حم (۶/۵) (صحیح)
۴۸۰۴- ہمام کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف اُنہی کے سا منے کرنے لگا ، تو مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے مٹی لی اور اس کے چہرے پہ ڈال دی اورکہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جب تم تعریف کرنے والوں ۱؎سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کواپنے ظاہر پرمحمول کیا اور علماء کے ایک گروہ نے ان کی موافقت کی ہے، اور کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ ان کے منہ پرمٹی ڈال دو کامفہوم یہ ہے کہ انہیں مایوس کردو اور ان کی بے جاتعریف اور چاپلوسی پر انہیں کچھ نہ دو۔
وضاحت ۲؎ : اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بے جامدح سرائی اور چاپلوسی کواپنی عادت بنالی ہو اور اسی کو اپنے کھانے کمانے کا ذریعہ بنالیا ہو،رہاکسی اچھائی یاخوبی پرکسی کی تعریف کرنا تاکہ دوسروں کے لئے انہیں اپنانے کی ترغیب ہوتویہ ایک اچھی چیز ہے اور ایسا شخص اس وعید میں داخل نہیں ہے۔


4805- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلا أَثْنَى عَلَى رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ لَهُ: < قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ > ثَلاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: <إِذَا مَدَحَ أَحَدُكُمْ صَاحِبَهُ لامَحَالَةَ فَلْيَقُلْ: < إِنِّي أَحْسِبُهُ، كَمَا يُرِيدُ أَنْ يَقُولَ، وَلا أُزَكِّيهِ عَلَى اللَّهِ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۹۵ (۶۱۶۲)، م/الزھد ۱۴ (۳۰۰۰)، ق/الأدب ۳۶ (۳۷۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۱، ۴۵، ۴۶، ۴۷، ۵۰) (صحیح)
۴۸۰۵- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص کی تعریف کی ، تو آپ نے اس سے فرمایا: ’’تم نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی‘‘ ،اسے آپ نے تین با ر کہا ، پھر فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو اپنے ساتھی کی مدح وتعریف کرنی ہی پڑجائے تو یوں کہے : میں اسے ایسے ہی سمجھ رہاہوں،لیکن میں اللہ کے بالمقابل اس کا تزکیہ نہیں کرتا‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ میں اس کاظاہر دیکھ کر ایسا کہہ رہاہوں رہا اس کا باطن تو اس کاعلم اللہ ہی کوہے۔


4806- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ -يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ- حَدَّثَنَا أَبُو مَسْلَمَةَ سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ: قَالَ أَبِي: انْطَلَقْتُ فِي وَفْدِ بَنِي عَامِرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقُلْنَا: أَنْتَ سَيِّدُنَا، فَقَالَ: < السَّيِّدُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى > قُلْنَا: وَأَفْضَلُنَا فَضْلا وَأَعْظَمُنَا طَوْلا، فَقَالَ: < قُولُوا بِقَوْلِكُمْ، أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴، ۲۵) (صحیح)
۴۸۰۶- مطرف کے والدعبداللہ بن شخیرکہتے ہیں کہ میں بنی عامر کے وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا ، تو ہم نے عرض کیا: آپ ہمارے سید، آپ نے فرمایا:’’ سید ہیں تو اللہ تعالی ہے ‘‘ ۱؎،ہم نے عرض کیا : اور آپ ہم سب میں درجے میں افضل ہیں اور دوستوں کو نوازنے اور دشمنوں پر فائق ہونے میںسب سے عظیم ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جو کہتے ہوکہو ، یا اس میں سے کچھ کہو ، (البتّہ) شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے ( کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لئے زیبا نہ ہو)‘‘۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ وہی اس لفظ کاحقیقی مستحق ہے، اور حقیقی معنیٰ میں سید اللہ ہی ہے، اور یہ مجازی اضافی سیادت جو افراد انسانی کے ساتھ مخصوص ہے منافی نہیں، حدیث میں ہے’’أنا سيد ولد آدم ولا فخر‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب فِي الرِّفْقِ
۱۱-باب: نرمی کا بیان​


4807- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يُونُسَ وَحُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ مُغَفَّلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ: يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَيْهِ مَا لايُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۷) (صحیح)
۴۸۰۷- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ رفیق ۱؎ہے ، رفق اور نرمی پسند کرتا ہے ، اور اس پر وہ دیتا ہے ، جوسختی پر نہیں دیتا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ اپنے بندوں کے ساتھ نرمی کرنے والاہے، اس کا معاملہ اپنے بندوں کے ساتھ لطف ومہربانی کا ہوتا ہے ،وہ ان پر آسانی چاہتا ہے، سختی نہیں اور انہیں ایسی چیزوں کا مکلف نہیں بناتا جوان کے بس میں نہیں۔


4808- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ وَأَبُو بَكْرٍ ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، قَالُوا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ الْبَدَاوَةِ، فَقَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَبْدُو إِلَى هَذِهِ التِّلاعِ، وَإِنَّهُ أَرَادَ الْبَدَاوَةَ مَرَّةً فَأَرْسَلَ إِلَيَّ نَاقَةً مُحَرَّمَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ لِي: < يَا عَائِشَةُ، ارْفُقِي فَإِنَّ الرِّفْقَ لَمْ يَكُنْ فِي شَيْئٍ قَطُّ إِلا زَانَهُ، وَلا نُزِعَ مِنْ شَيْئٍ قَطُّ إِلا شَانَهُ >.
قَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ فِي حَدِيثِهِ: مُحَرَّمَةٌ -يَعْنِي- لَمْ تُرْكَبْ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۴۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۵۰) (صحیح)
۴۸۰۸- شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دیہات (بادیہ) جا نے، وہاں قیام کرنے کے بارے میں پوچھا ( کہ کیسا ہے) آپ نے کہا: رسول اللہ ﷺ ان نالوں کی طرف دیہات (بادیہ) جایا کرتے تھے، ایک بار آپ نے باہر دیہات (بادیہ) جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس زکوۃ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹنی بھیجی ، جس پر سواری نہیں کی گئی تھی،اور مجھ سے فرمایا: اے عائشہ!نرمی کرو، اس لئے کہ جس چیز میں نرمی ہوتی ہے ، اسے زینت دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نکل جاتی ہے ، اسے عیب دار بنا دیتی ہے۔
ابن الصبا ح اپنی حدیث میں کہتے ہیں: محرمۃ سے مراد وہ اونٹنی ہے جس پر سواری نہ کی گئی ہو۔


4809- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ تَمِيمِ ابْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ هِلالٍ، عَنْ جَرِيرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <مَنْ يُحْرَمُ الرِّفْقَ يُحْرَمُ الْخَيْرَ كُلَّهُ >۔
* تخريج: م/البر والصلۃ ۲۳ (۲۵۹۲)، ق/الأدب ۹ (۳۶۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶۲، ۳۶۶) (صحیح)
۴۸۰۹- جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جورفق( نرمی) سے محروم کردیا جاتا ہے وہ تمام خیر سے محروم کردیا جاتا ہے‘‘۔


4810- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الأَعْمَشُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ الأَعْمَشُ: وَقَدْ سَمِعْتُهُمْ يَذْكُرُونَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ الأَعْمَشُ: وَلا أَعْلَمُهُ إِلا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: <التُّؤَدَةُ فِي كُلِّ شَيْئٍ، إِلا فِي عَمَلِ الآخِرَةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۴۱) (صحیح)
۴۸۱۰- سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تاخیراورآہستگی ہر چیز میں(بہتر) ہے، سوائے آخرت کے عمل کے ۱؎ ۔
اعمش کہتے ہیں میں یہی جانتا ہوں کہ یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے یعنی مرفوع ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ نیک کاموں میں تاخیر اور التواء {سارعوا إلى مغفرة من ربكم} کے منافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي شُكْرِ الْمَعْرُوفِ
۱۲-باب: نیکی واحسان کا شکر یہ ادا کرنے کا بیان​


4811- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < لا يَشْكُرُ اللَّهَ مَنْ لا يَشْكُرُ النَّاسَ >۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۳۵ (۱۹۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۵، ۴۶۱، ۳۰۳، ۵/۲۱۱، ۲۱۲) (صحیح)
۴۸۱۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا اللہ کا (بھی) شکرادا نہیں کرتا''۔
وضاحت ۱؎ : جس کی عادت وطبیعت میں بندوں کی ناشکری ہو وہ اللہ کے احسانات کی بھی نا شکری کرتا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ اللہ ایسے بندوں کا شکر قبول نہیں فرماتا جو لوگوں کے احسانات کا شکریہ ادا نہ کرتے ہوں۔


4812- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ الْمُهَاجِرِينَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَتِ الأَنْصَارُ بِالأَجْرِ كُلِّهِ، قَالَ: < لا، مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ >۔
* تخريج:ن ''في الیوم واللیلۃ'' (۱۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۰۰، ۲۰۱) (صحیح)
۴۸۱۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مہاجرین نے کہا: اللہ کے رسول! سارا اجر تو انصار لے گئے،آپ نے فرمایا: ''نہیں (ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم اجر سے محروم رہو) جب تک تم اللہ سے ان کے لئے دعا کرتے رہوگے اور ان کی تعریف کرتے رہو گے''۔


4813- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ قَوْمِي، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ أُعْطِيَ عَطَائً فَوَجَدَ فَلْيَجْزِ بِهِ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُثْنِ بِهِ؛ فَمَنْ أَثْنَى بِهِ فَقَدْ شَكَرَهُ، وَمَنْ كَتَمَهُ فَقَدْ كَفَرَهُ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ شُرَحْبِيلَ عَنْ جَابِرٍ.
[قَالَ ابو داود: وَهُوَ شُرَحْبِيلُ، يَعْنِي رَجُلا مِنْ قَوْمِي، كَأَنَّهُمْ كَرِهُوهُ فَلَمْ يُسَمُّوهُ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۷۷) (حسن)
۴۸۱۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس کو کوئی چیز دی جائے پھر وہ بھی ( دینے کے لئے کچھ ) پا جائے تو چا ہئے کہ اس کا بدلہ دے، اور اگر بدلہ کے لئے کچھ نہ پا ئے تو اس کی تعریف کرے ، اس لئے کہ جس نے اس کی تعریف کی تو گویا اس نے اس کا شکر ادا کر دیا ، اور جس نے چھپایا ( احسان کو) تو اس نے اس کی ناشکری کی۔
ابو داود کہتے ہیں : اسے یحییٰ بن ایو ب نے عمارہ بن غز یہ سے ، انہوں نے شرحبیل سے اور انہوں نے جابر سے روایت کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: سند میں'' رجل من قومی'' سے مراد شر حبیل ہیں ، گو یا وہ انہیں نا پسند کرتے تھے ، اس لئے ان کا نام نہیں لیا۔


4814- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < مَنْ أُبْلِيَ بَلائً فَذَكَرَهُ فَقَدْ شَكَرَهُ، وَإِنْ كَتَمَهُ فَقَدْ كَفَرَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۲۹) (صحیح)
۴۸۱۴- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جس شخص کو کوئی چیز ملے اور وہ اس کا تذکرہ کرے تو اس نے اس کا شکر ادا کر دیا اور جس نے اسے چھپایا تو اس نے ناشکری کی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث میں''أبلى بلائً'' جو ''من أعطى عطائًا'' کے معنیٰ میں ہے بلاء ً کا لفظ خیر اور شر دونوں معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔
 
Top