• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
53- بَاب فِي اللَّعْنِ
۵۳-باب: لعنت کر نے کا بیان​


4905- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ نِمْرَانَ يَذْكُرُ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا لَعَنَ شَيْئًا صَعِدَتِ اللَّعْنَةُ إِلَى السَّمَاءِ فَتُغْلَقُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ دُونَهَا، ثُمَّ تَهْبِطُ إِلَى الأَرْضِ فَتُغْلَقُ أَبْوَابُهَا دُونَهَا، ثُمَّ تَأْخُذُ يَمِينًا وَشِمَالا فَإِذَا لَمْ تَجِدْ مَسَاغًا رَجَعَتْ إِلَى الَّذِي لُعِنَ، فَإِنْ كَانَ لِذَلِكَ أَهْلا وَإِلا رَجَعَتْ إِلَى قَائِلِهَا >.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ: هُوَ رَبَاحُ بْنُ الْوَلِيدِ، سَمِعَ مِنْهُ، وَذَكَرَ أَنَّ يَحْيَى بْنَ حَسَّانَ وَهِمَ فِيهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۰۰) (حسن)
۴۹۰۵- ام الدردا ء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ابو الدرداء کو کہتے ہوئے سناکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے ، تو یہ لعنت آسما ن پر چڑھتی ہے، تو آسما ن کے درواز ے اس کے سا منے بند ہو جاتے ہیں پھر وہ اترکر زمین پر آتی ہے ، تو اس کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں پھر وہ دا ئیں بائیں گھو متی ہے ، پھر جب اسے کوئی را ستہ نہیں ملتا تو وہ اس کی طرف پلٹ آتی ہے جس پر لعنت کی گئی تھی ، اب اگر وہ اس کا مستحق ہو تا ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ وہ کہنے والے کی طرف ہی پلٹ آتی ہے۔


4906- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < { لا تَلاعَنُوا بِلَعْنَةِ اللَّهِ وَلا بِغَضَبِ اللَّهِ وَلابِالنَّارِ} >۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۴۸ (۱۹۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۵) (حسن)
۴۹۰۶- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''اللہ کی لعنت یا اللہ کا غضب یا جہنم کی لعنت کسی پر نہ کیا کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یوں نہ کہو: تجھ پر اللہ کی لعنت ہو، یا اللہ کا غضب ہو،یااللہ تجھے جہنم میں داخل کرے، یہ ممانعت اس صورت کے ساتھ مخصوص ہے کہ آدمی کسی معین شخص پر لعنت بھیجے، اور اگر کسی وصف عام یاوصف خاص کے ساتھ لعنت بھیج رہاہو مثلاً یوں کہے ''لعنة الله على الكافرين''، یا ''لعنة الله على اليهود'' ،یاکسی ایسے متعین کافرپرلعنت بھیج رہاہو جس کاکفر کی حالت میں مرنا معلوم ہو تویہ جائز ہے جیسے ''لعنة الله على الكافرين''، یا ''لعنة الله على أبي جهل''کہنا۔


4907- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَنَّ أُمَّ الدَّرْدَاءِ قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا يَكُونُ اللَّعَّانُونَ شُفَعَاءَ وَلا شُهَدَاءَ >۔
* تخريج: م/البروالصلۃ ۲۴ (۲۵۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۴۸) (صحیح)
۴۹۰۷- ام الدرداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ابو الدردا ء کوسنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ''لعنت کرنے والے نہ سفا رشی ہو سکتے ہیں اور نہ گواہ'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی امت کے فرد نہیں ہوسکتے، کیونکہ آپ کی امت قیامت کے روز دوسری امتوں پر سفارشی اور گواہ ہوگی۔


4908- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ (ح) حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ ابْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ زَيْدٌ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلا لَعَنَ الرِّيحَ، وَقَالَ مُسْلِمٌ: إِنَّ رَجُلا نَازَعَتْهُ الرِّيحُ رِدَائَهُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَلَعَنَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا تَلْعَنْهَا فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ، وَإِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ >۔
* تخريج:ت/البر والصلۃ ۴۸ (۱۹۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۲۶، ۱۸۶۴۱) (صحیح)
۴۹۰۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ہوا پر لعنت کی (مسلم کی روایت میں اس طرح ہے) نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ہوا نے ایک شخص کی چادر اڑا دی ، تو اس نے اس پر لعنت کی ، تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''اس پر لعنت نہ کرو، اس لئے کہ وہ تا بع دار ہے ، اور اس لئے کہ جو کوئی ایسی چیز کی لعنت کرے جس کا وہ اہل نہ ہو تووہ لعنت اسی کی طرف لوٹ آتی ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
54- بَاب فِيمَنْ دَعَا عَلَى مَنْ ظَلَمَهُ
۵۴-باب: ظالم کو بد دعا دینا کیسا ہے؟​


4909- حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: سُرِقَ لَهَا شَيْئٌ فَجَعَلَتْ تَدْعُو عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تُسَبِّخِي عَنْهُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، حم (۶/۴۵، ۱۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۷۷) (ضعیف)
نوٹ: یہی حدیث ۱۴۹۷ میں گزری ہے اس پر حسن کا حکم ہے۔
۴۹۰۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان کی کوئی چیز چوری ہو گئی ، تو وہ اس پر بد دعا کر نے لگیں ، تو ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اس ( چو ر) سے عذاب کو ہلکا نہ کر''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
55- بَاب فِيمَنْ يَهْجُرُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ
۵۵-باب: مسلمان بھائی سے ترک تعلق کیسا ہے؟​


4910- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا تَبَاغَضُوا، وَلا تَحَاسَدُوا، وَلا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلايَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاثِ لَيَالٍ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۵۷ (۶۰۶۵)، ۶۲ (۶۰۷۶)، م/البر والصلۃ ۷ (۲۵۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۰)، وقد أخرجہ: ت/البر والصلۃ ۲۴ (۱۹۳۵)، حم (۳/۱۹۹)، ط/ حسن الخلق ۴ (۱۴) (صحیح)
۴۹۱۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ تم لوگ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اور ایک دوسرے کو پیٹھ نہ دکھاؤ (یعنی ملا قات تر ک نہ کرو) اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو ، اور کسی مسلمان کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ملنا جلنا چھوڑے رکھے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم ایسی ناراضگی سے متعلق ہے جومسلمانوں کے درمیان باہمی معاشرتی حقوق میں کوتاہی کی وجہ سے ہوئی ہو ،اور اگر دینی امور میں کوتاہی کی وجہ سے ہوتویہ جائز ہے، بلکہ بدعتیوں اور ہوا پرستوں سے میل جول نہ رکھنا واجب ہے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلیں، اور حق کی طرف پلٹ نہ آئیں۔


4911- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ يَلْتَقِيَانِ، فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلامِ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۶۲ (۶۰۷۷)، الاستئذان ۹ (۶۲۳۷)، م/البر والصلۃ ۸ (۲۵۶۰)، ت/البر والصلۃ ۲۱ (۱۹۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۷۹)، وقد أخرجہ: ط/حسن الخلق ۴ (۱۳)، حم (۴۱۶۵، ۴۲۱، ۴۲۲) (صحیح)
۴۹۱۱- ابو ایو ب انصا ری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لئے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھو ڑے رکھے کہ وہ دونوں ملیں تو یہ منہ پھیر لے ، اور وہ منہ پھیر لے ، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس کاپہل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں تواضع اور خاکساری زیادہ ہے۔


4912- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ السَّرْخَسِيُّ، أَنَّ أَبَا عَامِرٍ أَخْبَرَهُم، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِلالٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا يَحِلُّ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَهْجُرَ مُؤْمِنًا فَوْقَ ثَلاثٍ، فَإِنْ مَرَّتْ بِهِ ثَلاثٌ فَلْيَلْقَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَإِنْ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ فَقَدِ اشْتَرَكَا فِي الأَجْرِ، وَإِنْ لَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ فَقَدْ بَاءَ بِالإِثْمِ > زَادَ أَحْمَدُ < وَخَرَجَ الْمُسَلِّمُ مِنَ الْهِجْرَةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۰۳)، وقد أخرجہ: م/البر والصلۃ ۸ (۲۵۶۱)، حم (۲/۳۹۲، ۴۵۶) (ضعیف)
۴۹۱۲- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’کسی مومن کے لئے درست نہیں کہ وہ کسی مومن کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے ، اگر اس پر تین دن گزر جائیں تو وہ اس سے ملے اور اس کو سلام کرے ، اب اگر وہ سلام کا جواب دیتا ہے ، تو وہ دونوں اجر میں شریک ہیں اور اگر وہ جواب نہیں دیتا تو وہ گنہ گار ہوا، اور سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے نکل گیا‘‘۔


4913- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ ابْنِ عَثْمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُنِيبِ -يَعْنِي الْمَدَنِيَّ- قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يَكُونُ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلاثَةٍ، فَإِذَا لَقِيَهُ سَلَّمَ عَلَيْهِ ثَلاثَ مِرَارٍ كُلُّ ذَلِكَ لا يَرُدُّ عَلَيْهِ فَقَدْ بَاءَ بِإِثْمِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۷۷)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۶۲ (۶۰۷۷)، حم (۴/۳۲۷) (حسن)
۴۹۱۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ کسی مسلمان کے لئے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے تو جب وہ(تین دن کے بعد) اس سے ملے اسے تین مر تبہ سلام کرے، اور وہ ایک با ر بھی سلام کا جواب نہ دے تو وہ اپنا گناہ لے کر لوٹے گا‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر ’’إثمه‘‘ کی ضمیر سلام کاجواب نہ دینے والے ’’لا يرد عليه‘‘ کی طرف لوٹتی ہو تومفہوم یہ ہوگا کہ سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے بری ہوگیا، اور سلام کاجواب نہ دینے والااپنے قطع تعلق کاگناہ لے کر لوٹا، اور اگر ’’إثمه‘‘ کی ضمیر سلام کرنے والے کی طرف لوٹتی ہوتو مفہوم یہ ہوگا کہ وہ اپنا اور سلام کرنے والے دونوں کاگناہ لے کرلوٹے گا۔


4914- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لايَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاثٍ، فَمَنْ هَجَرَ فَوْقَ ثَلاثٍ فَمَاتَ دَخَلَ النَّار>۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۹۲، ۴۵۶) (صحیح)
۴۹۱۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لئے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھو ڑے رکھے ، لہٰذا جوتین سے زیادہ چھوڑے رکھے پھر وہ(بغیرتوبہ کے اسی حال میں) مرجائے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا‘‘۔


4915- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ أَبِي خِرَاشٍ السُّلَمِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ هَجَرَ أَخَاهُ سَنَةً فَهُوَ كَسَفْكِ دَمِهِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۰) (صحیح)
۴۹۱۵- ابو خراش سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا : ’’جس نے اپنے بھائی سے ایک سال تک قطع تعلق رکھا تو یہ اس کے خون بہانے کی طرح ہے‘‘۔


4916- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ كُلَّ يَوْمِ اثْنَيْنِ وَخَمِيسٍ، فَيُغْفَرُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمَيْنِ لِكُلِّ عَبْدٍ لا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلا مَنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا >.
[قَالَ أَبو دَاود: النَّبِيُّ ﷺ هَجَرَ بَعْضَ نِسَائِهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، وَابْنُ عُمَرَ هَجَرَ ابْنًا لَهُ إِلَى أَنْ مَاتَ].
قَالَ أَبو دَاود: إِذَا كَانَتِ الْهِجْرَةُ لِلَّهِ فَلَيْسَ مِنْ هَذَا بِشَيْئٍ، وَإِنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ غَطَّى وَجْهَهُ عَنْ رَجُلٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۹۸)، وقد أخرجہ: م/البر والصلۃ ۱۱ (۲۵۶۵)، ت/البر والصلۃ ۷۶ (۲۰۲۴)، حم (۲/۴۶۵) (صحیح)
۴۹۱۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ہر دوشنبہ اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر ان دنوں میں ہر اس بندے کی مغفرت کی جاتی ہے ، جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتا البتہ اس بندے کی نہیں جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی اور رقابت ہو، پھر کہا جاتا ہے : ان دونوں (کی مغفرت) کو ابھی رہنے دو جب تک کہ یہ صلح نہ کرلیں ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے اپنی بعض ازواج مطہرات کو چالیس دن تک چھوڑے رکھا، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ایک بیٹے سے بات چیت بند رکھی یہاں تک کہ وہ مرگیا۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ قطع کلامی اگر اللہ کے لئے ہو ۱؎تو اس میں کوئی حرج نہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے ایک شخص سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ کے حقوق میں کسی سے کسی حق کی پاسداری کے لئے ہوتو یہ اس وعید میں داخل نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56- بَاب فِي الظَّنِّ
۵۶-باب: بدظنی اور بد گما نی کی ممانعت​


4917- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلاتَحَسَّسُوا، وَلا تَجَسَّسُوا >۔
* تخريج:خ/النکاح ۴۵(۵۱۴۳)، الأدب ۵۷ (۶۰۶۶)، الفرائض ۲ (۶۷۷۴)، م/البر والصلۃ ۹ (۲۵۶۳)، ت/البر والصلۃ ۵۶ (۱۹۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۰۶)، وقد أخرجہ: ط/حسن الخلق ۴ (۱۵)، حم (۲/۲۴۵، ۳۱۲، ۳۴۲، ۴۶۵، ۴۷۰، ۴۸۲) (صحیح)
۴۹۱۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ظن وگمان کے پیچھے پڑنے سے بچو ۱؎ یا بدگمانی سے بچو، اس لئے کہ بد گما نی سب سے بڑا جھوٹ ہے ، نہ ٹوہ میں پڑو اور نہ جاسوسی کرو''۔
وضاحت ۱؎ : اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظن پر عمل نہ کرو کیونکہ بیشتر شرعی احکام کا تعلق ظن ہی سے ہے مطلب یہ ہے کہ ظن کی تحقیق کے پیچھے نہ پڑو اوربدظنی نہ کرو ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57- بَاب فِي النَّصِيحَةِ وَالْحِيَاطَةِ
۵۷-باب: خلوص و خیر خواہی کا بیان​


4918- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ -يَعْنِي ابْنَ بِلالٍ- عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ، وَالْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ: يَكُفُّ عَلَيْهِ ضَيْعَتَهُ، وَيَحُوطُهُ مِنْ وَرَائِه >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۰۷)، وقد أخرجہ: ت/البر والصلۃ ۱۸ (۱۹۲۹) (حسن)
۴۹۱۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''مومن مومن کا آئینہ ہے، اور مومن مومن کا بھائی ہے ، وہ اس کی جائیدادکی نگرانی کرتا اور اس کی غیرموجودگی میں اس کی حفا ظت کرتا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58- بَاب فِي إِصْلاحِ ذَاتِ الْبَيْنِ
۵۸-باب: میل جول اور مصالحت کرانے کا بیان​


4919- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَلا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلاةِ وَالصَّدَقَةِ؟ > قَالُوا: بَلَى [يَا رَسُولَ اللَّهِ] قَالَ: < إِصْلاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ >۔
* تخريج: ت/صفۃ القیامۃ ۵۶ (۲۵۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۴۴) (صحیح)
۴۹۱۹- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتا ئوں جو درجے میں صیام ، صلاۃ اور زکاۃ سے بڑھ کر ہے ؟'' لوگوں نے کہا: کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا: ''آپس میں میل جول کرا دینا، اور آپس کی لڑائی اور پھوٹ تو سر مو نڈنے والی ہے''۔


4920- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ (ح) وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ (ح) وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَبُّوَيْهِ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لَمْ يَكْذِبْ مَنْ نَمَى بَيْنَ اثْنَيْنِ لِيُصْلِحَ > وَقَالَ أَحْمَدُ [بْنُ مُحَمَّدٍ] وَمُسَدَّدٌ: < لَيْسَ بِالْكَاذِبِ مَنْ أَصْلَحَ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ خَيْرًا أَوْ نَمَى خَيْرًا >۔
* تخريج: خ/الصلح ۲ (۲۶۹۲)، م/البر والصلۃ ۳۷ (۲۶۰۵)، ت/البر والصلۃ ۲۶ (۱۹۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵۳، ۲۰۱۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۰۳) (صحیح)
۴۹۲۰- ام حمید بن عبدالرحمن ( ام کلثوم) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''اس نے جھوٹ نہیں بولا جس نے دو آدمیوں میں صلح کرانے کے لئے کوئی بات خود سے بنا کر کہی۔
احمد بن محمد اور مسدد کی روایت میں ہے، وہ جھوٹا نہیں ہے :''جس نے لوگوں میں صلح کرائی اور کوئی اچھی بات کہی یا کوئی اچھی بات پہنچائی''۔
وضاحت ۱؎ : مثلاً یوں کہے کہ آپ کو تو فلاں نے سلام کہا ہے یا فلاں آپ سے محبت رکھتا ہے یا فلاں آپ کی تعریف کرتا ہے۔


4921- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْجِيزِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَسْوَدِ، عَنْ نَافِعٍ، -يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ- عَنِ ابْنِ الْهَادِي، أَنَّ عَبْدَالْوَهَّابِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ حَدَّثَهُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ قَالَتْ: مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُرَخِّصُ فِي شَيْئٍ مِنَ الْكَذِبِ إِلا فِي ثَلاثٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا أَعُدُّهُ كَاذِبًا الرَّجُلُ يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ يَقُولُ الْقَوْلَ وَلا يُرِيدُ بِهِ إِلا الإِصْلاحَ، وَالرَّجُلُ يَقُولُ فِي الْحَرْبِ، وَالرَّجُلُ يُحَدِّثُ امْرَأَتَهُ، وَالْمَرْأَةُ تُحَدِّثُ زَوْجَهَا >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵۳) (صحیح)
۴۹۲۱- ام کلثوم بنت عقبہرضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی بات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتے نہیں سنا ، سوائے تین باتوں کے، رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : میں اسے جھوٹا شما رنہیں کرتا ، ایک یہ کہ کوئی لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور کوئی بات بنا کر کہے ، اور اس کا مقصد اس سے صرف صلح کرانی ہو ، دوسرے یہ کہ ایک شخص جنگ میں کوئی بات بنا کر کہے ، تیسرے یہ کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کوئی بات بنا کر کہے اور بیوی اپنے شوہر سے کوئی بات بنا کر کہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
59- بَاب عَنِ الْغِنَاءِ
۵۹-باب: گانے کا بیان​


4922- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ قَالَتْ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَدَخَلَ عَلَيَّ صَبِيحَةَ بُنِيَ بِي، فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي، فَجَعَلَتْ جُوَيْرِيَاتٌ يَضْرِبْنَ بِدُفٍّ لَهُنَّ، وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ، إِلَى أَنْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي الْغَدِ، فَقَالَ: < دَعِي هَذِهِ وَقُولِي الَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ >۔
* تخريج: خ/المغازي ۱۲ (۴۰۰۱)، ت/النکاح ۶ (۱۰۹۰)، ق/النکاح ۲۱ (۱۸۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۵۹، ۳۶۰) (صحیح)
۴۹۲۲- ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس اس صبح آئے ، جس رات میرا شب زفاف ہو ا تھا تو آپ میرے بستر پر ایسے بیٹھ گئے جیسے تم ( خالد بن ذکوان) بیٹھے ہو ، پھر(انصار کی) کچھ بچیاں اپنے دف بجانے لگیں اور اپنے غزوئہ بدر کی شہید ہونے والے آباء واجداد کا اوصاف ذکر کرنے لگیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا: اور ہمارے بیچ ایک ایسا نبی ہے جو کل ہونے والی باتوں کو بھی جانتا ہے ، تو آپ نے فرمایا:'' اسے چھوڑ دو اور وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھیں''۔


4923- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمَدِينَةَ لَعِبَتِ الْحَبَشَةُ لَقُدُومِهِ فَرَحًا بِذَلِكَ، لَعِبُوا بِحِرَابِهِمْ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۶۱) (صحیح الإسناد)
۴۹۲۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینے آئے تو حبشی آپ کی آمد پر خوش ہو کر خوب کھیلے اور اپنی برچھیاں لے کر کھیلے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
60- بَاب كَرَاهِيَةِ الْغِنَاءِ وَالزَّمْرِ
۶۰-باب: گانے بجانے کی کراہت کا بیان​


4924- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ الْغُدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ مِزْمَارًا، قَالَ: فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ، وَنَأَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَقَالَ لِي: يَا نَافِعُ هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا؟ قَالَ: فَقُلْتُ: لا، قَالَ: فَرَفَعَ إِصْبَعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، وَقَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَسَمِعَ مِثْلَ هَذَا فَصَنَعَ مِثْلَ هَذَا.
قَالَ أَبُو عَلِيٍّ الْلُؤْلُؤِيُّ: سَمِعْت أَبَا دَاود يَقُولُ: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۸، ۳۸) (صحیح)
۴۹۲۴- نا فع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک با جے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور راستے سے دور ہو گئے اور مجھ سے کہا: اے نافع! کیا تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے میں نے کہا: نہیں، تو آپ نے اپنی انگلیاں کانوں سے نکالیں، اور فرمایا : میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا ، اس جیسی آواز سنی تو آپ نے بھی اسی طرح کیا۔
ابو علی لؤلؤی کہتے ہیں: میں نے ابو داود کو کہتے سنا: یہ حدیث منکر ہے ۔


4925- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُطْعِمُ بْنُ الْمِقْدَامِ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعٌ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ ابْنِ عُمَرَ إِذْ مَرَّ بِرَاعٍ يَزْمُرُ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: أُدْخِلَ بَيْنَ مُطْعِمٍ وَنَافِعٍ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۴۸) (حسن صحیح الإسناد)
۴۹۲۵- نا فع کہتے ہیں کہ میں ابن عمررضی اللہ عنہما کے پیچھے سوار تھا ، کہ ان کا گزر ایک چرواہے کے پاس سے ہوا جو بانسری بجا رہا تھا ، پھر انہوں نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔


4926- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْمَلِيحِ، عَنْ مَيْمُونٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ ابْنِ عُمَرَ فَسَمِعَ صَوْتَ زَامِرٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَنْكَرُهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۱۰) (صحیح الإسناد)
۴۹۲۶- نا فع کہتے ہیں کہ میں ابن عمررضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا تو آپ نے ایک بانسری بجا نے والے کی آواز سنی پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ ان احادیث میں سب سے زیادہ منکر ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صاحب ''عون المعبود'' لکھتے ہیں : ''ولا یعلم وجہ النکارۃ بل إسنادہ قوی ولیس بمخالف لروایۃ الثقات'' یعنی ابو داود نے اسے ''أنکر الروایۃ'' کیوں کہا اس کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوسکی بلکہ سنداً یہ قوی روایت ہے اور ثقات کی روایت کے بھی مخالف نہیں ہے۔


4927- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ، عَنْ شَيْخٍ شَهِدَ أَبَا وَائِلٍ فِي وَلِيمَةٍ، فَجَعَلُوا يَلْعَبُونَ، يَتَلَعَّبُونَ، يُغَنُّونَ، فَحَلَّ أَبُو وَائِلٍ حَبْوَتَهُ، وَقَالَ: سَمِعْتْ عَبْدَاللَّهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الْغِنَاءُ يُنْبِتُ النِّفَاقَ فِي الْقَلْبِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۱۵) (ضعیف)
۴۹۲۷-سلام بن مسکین ایک شیخ سے روایت کرتے ہیں جو ابو وائل کے ساتھ ایک ولیمہ میں موجود تھے تو لوگ کھیل کود اور گانے بجانے میں لگے گئے، تو ابو وائل نے اپنا حبوہ ۱؎ کھولا اور بو لے : میں نے عبداللہ بن مسعود کو کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : گانا بجا نا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔
وضاحت ۱؎ : بیٹھنے کی ایک مخصوص ہیئت کا نام ہے جس میں آدمی سرین کے بل پائوں کھڑا کر کے بیٹھتا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے گھٹنے باندھ لیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
61- بَاب فِي الْحُكْمِ فِي الْمُخَنَّثِينَ
۶۱-باب: ہجڑوں کے حکم کا بیان​


4928- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، أَنَّ أَبَا أُسَامَةَ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ مُفَضَّلِ ابْنِ يُونُسَ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ أَبِي يَسَارٍ الْقُرَشِيِّ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِمُخَنَّثٍ قَدْ خَضَّبَ يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ بِالْحِنَّاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <مَا بَالُ هَذَا؟ > فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَتَشَبَّهُ بِالنِّسَاءِ، فَأَمَرَ بِهِ فَنُفِيَ إِلَى النَّقِيعِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلا نَقْتُلُهُ؟ فَقَالَ: $ إِنِّي نُهِيتُ عَنْ قَتْلِ الْمُصَلِّينَ >.
قَالَ أَبُو أُسَامَةَ، وَالنَّقِيعُ نَاحِيَةٌ عَنِ الْمَدِينَةِ، وَلَيْسَ بِالْبَقِيعِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۶۴) (صحیح)
۴۹۲۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ہجڑا لایاگیا جس نے اپنے ہاتھوں اور پیروں میں مہندی لگا رکھی تھی تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ اس کا کیاحال ہے؟ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول!یہ عورتوں جیسا بنتا ہے ، آپ نے حکم دیا تو اسے نقیع کی طرف نکال دیا گیا ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اسے قتل نہ کردیں؟، آپ نے فرمایا:’’مجھے صلاۃ پڑھنے والوں کو قتل کر نے سے منع کیا گیا ہے‘‘ نقیع مدینے کے نواح میں ایک جگہ ہے اس سے مراد بقیع( مدینہ کاقبرستان ) نہیں ہے۔


4929- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ -يَعْنِي ابْنَ عُرْوَةَ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا مُخَنَّثٌ وَهُوَ يَقُولُ لِعَبْدِ اللَّهِ أَخِيهَا: إِنْ يَفْتَحِ اللَّهُ الطَّائِفَ غَدًا دَلَلْتُكَ عَلَى امْرَأَةٍ تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ >.
[قَالَ أَبو دَاود: الْمَرْأَةُ كَانَ لَهَا أَرْبَعُ عُكَنٍ فِي بَطْنِهَا]۔
* تخريج: خ/المغازي ۵۶ (۴۳۲۴)، اللباس ۶۲ (۵۸۷)، النکاح ۱۱۳ (۵۲۳۵)، م/السلام ۱۳ (۲۱۸۰)، ق/النکاح ۲۲ (۱۹۰۲)، الحدود ۳۸ (۲۶۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۹۰، ۳۱۸) (صحیح)
۴۹۲۹- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ ان کے ہاں تشریف لائے ان کے پاس ایک ہجڑا بیٹھا ہوا تھا اور وہ ان کے بھائی عبداللہ سے کہہ رہاتھا : اگرکل اللہ طائف کو فتح کرا دے تو میں تمہیں ایک عورت بتائوں گا ، کہ جب وہ سامنے سے آتی ہے تو چارسلوٹیں لے کر آتی ہے ، اور جب پیٹھ پھیر کر جاتی ہے تو آٹھ سلوٹیں لے کر جاتی ہے، تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا:’’انہیں اپنے گھروں سے نکال دو‘‘ ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں:’’تقبل بأربع‘‘ کامطلب ہے عورت کے پیٹ میں چارسلوٹیں ہوتی ہیں یعنی پیٹ میں چربی چھاجانے کی وجہ سے خوب موٹی اور تیار ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ وہ عورتوں کی خوبی و خرابی کا شعور رکھتے ہیں گو جماع پر قادرنہیں ہیں۔


4930- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَعَنَ الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالْمُتَرَجِّلاتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَقَالَ: <أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ، وَأَخْرِجُوا فُلانًا وَفُلانًا > يَعْنِي الْمُخَنَّثِينَ۔
* تخريج: خ/ اللباس ۶۱ (۵۸۸۶)، الحدود ۳۳ (۶۸۳۴)، ت/ الأدب ۳۴ (۲۷۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۶۵) (صحیح)
۴۹۳۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے زنا نے مردوں اور مردانی عورتوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا: ’’انہیں اپنے گھروں سے نکال دو اور فلاں فلاں کو نکال دو‘‘ یعنی ہجڑوں کو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
62- بَاب فِي اللَّعِبِ بِالْبَنَاتِ
۶۲-باب: گڑیوں سے کھیلنے کا بیان​


4931- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ، فَرُبَّمَا دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَعِنْدِي الْجَوَارِي، فَإِذَا دَخَلَ خَرَجْنَ، وَإِذَا خَرَجَ دَخَلْنَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۷۳)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۸۱ (۶۱۳۰)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۰)، ق/النکاح ۵۰ (۱۹۸۲) (صحیح)
۴۹۳۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی ، کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ میرے پاس آتے ، میرے پاس لڑکیاں ہوتیں ، تو جب آپ اندر آتے تو وہ باہر نکل جاتیں اور جب آپ باہر نکل جاتے تو وہ اندر آجاتیں۔


4932- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللّه عَنْهَا قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ، أَوْ خَيْبَرَ، وَفِي سَهْوَتِهَا سِتْرٌ، فَهَبَّتْ رِيحٌ فَكَشَفَتْ نَاحِيَةَ السِّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ لُعَبٍ، فَقَالَ: < مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ؟ > قَالَتْ: بَنَاتِي، وَرَأَى بَيْنَهُنَّ فَرَسًا لَهُ جَنَاحَانِ مِنْ رِقَاعٍ، فَقَالَ: < مَا هَذَا الَّذِي أَرَى وَسْطَهُنَّ؟> قَالَتْ: فَرَسٌ، قَالَ: < مَا هَذَا الَّذِي عَلَيْهِ ؟> قَالَتْ: جَنَاحَانِ، قَالَ: < فَرَسٌ لَهُ جَنَاحَانِ؟ > قَالَتْ: أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَيْمَانَ خَيْلا لَهَا أَجْنِحَةٌ؟ قَالَتْ: فَضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۴۲) (صحیح)
۴۹۳۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک یا خیبر سے آئے ، اور ان کے گھر کے طاق پر پر دہ پڑا تھا ، اچانک ہوا چلی ، تو پردے کا ایک کونا ہٹ گیا، اور عائشہؓ کی گڑیاں نظرآنے لگیں ، آپ نے فرمایا: ''عائشہ ! یہ کیا ہے؟'' میں نے کہا: میری گڑیاں ہیں، آپ نے ان گڑیوں میں ایک گھوڑا دیکھا جس میں کپڑے کے دو پر لگے ہوئے تھے، پوچھا: یہ کیا ہے جسے میں ان کے بیچ میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولیں: گھوڑا، آپ نے فرمایا: ''اور یہ کیا ہے جو اس پر ہے؟'' وہ بولیں: دو بازو، آپ نے فرمایا: '' گھوڑے کے بھی بازو ہوتے ہیں؟ وہ بولیں: کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان کا ایک گھوڑا تھا جس کے بازو تھے، یہ سن کر آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں۔
 
Top