• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب فِي الأُرْجُوحَةِ
۶۳-باب: جھو لے کا بیان​


4933- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ (ح) وحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُوأُسَامَةَ، قَالا: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ تَزَوَّجَنِي وَأَنَا بِنْتُ سَبْعٍ أَوْ سِتٍّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْنَ نِسْوَةٌ، وَقَالَ بِشْرٌ: فَأَتَتْنِي أُمُّ رُومَانَ، وَأَنَا عَلَى أُرْجُوحَةٍ، فَذَهَبْنَ بِي، وَهَيَّأْنَنِي، وَصَنَعْنَنِي، فَأُتِيَ بِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَبَنَى بِي وَأَنَا ابْنَةُ تِسْعٍ، فَوَقَفَتْ بِي عَلَى الْبَابِ، فَقُلْتُ: هِيهْ هِيهْ.
قَالَ أَبو دَاود: أَيْ تَنَفَّسَتْ، فَأُدْخِلْتُ بَيْتًا فَإِذَا فِيهِ نِسْوَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقُلْنَ: عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَر َكَةِ، دَخَلَ حَدِيثُ أَحَدِهِمَا فِي الآخَرِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۲۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۵۵، ۱۶۸۸۱) (صحیح)
۴۹۳۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شاد ی کی ،میں سات سال کی تھی، پھر جب ہم مدینہ آئے ، تو کچھ عورتیں آئیں ، بشرکی روایت میں ہے:پھر میرے پاس(میری والدہ) ام رومان آئیں، اس وقت میں ایک جھولہ پرتھی، وہ مجھے لے گئیں اور مجھے سنوارا سجایا پھرمجھے رسول اللہ ﷺکے پاس لے گئیں ، تو آپ نے میرے ساتھ رات گزاری، اس وقت میں نو سال کی تھی وہ مجھے لے کر دروازے پر کھڑی ہوئیں ، میں نے کہا :ہیہ، ہیہ ۔
( ابو داود کہتے ہیں: ہیہ ، ہیہ کا مطلب ہے کہ انہوں نے زور زور سے سانس کھینچی) ، عائشہ کہتی ہیں :پھر میں ایک کمرے میں لائی گئی تو کیا دیکھتی ہو ں کہ وہاں انصار کی کچھ عورتیں( پہلے سے بیٹھی ہوئی ) ہیں ، انہوں نے ’’على الخير والبركة‘‘ کہہ کر مجھے دعا دی۔


3934- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، مِثْلَهُ، قَالَ: عَلَى خَيْرِ طَائِرٍ، فَسَلَّمَتْنِي إِلَيْهِنَّ، فَغَسَلْنَ رَأْسِي وَأَصْلَحْنَنِي، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ضُحًى، فَأَسْلَمْنَنِي إِلَيْهِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۵۵) (صحیح)
۳۹۳۴- ابو اسامہ سے اسی کے ہم مثل مروی ہے اس میں ہے(ان عورتوں نے کہا)اچھا نصیبہ ہے پھرمیری ماں نے مجھے ان عورتوں کے سپرد کردیا، انہوں نے میرا سر دھویااور مجھے سجایا سنوارا ( میں جان نہیں پا رہی تھی کہ یہ سب کیا اور کیوں ہو رہا ہے)کہ چاشت کے وقت رسول اللہ ﷺ نے ہی آکر مجھے حیرانی میں ڈال دیا تو ان عورتوں نے مجھے آپ کے حوالہ کردیا۔


4935- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، قَالَتْ: فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ جَائَنِي نِسْوَةٌ وَأَنَا أَلْعَبُ عَلَى أُرْجُوحَةٍ، وَأَنَا مُجَمَّمَةٌ، فَذَهَبْنَ بِي، فَهَيَّأْنَنِي وَصَنَعْنَنِي، ثُمَّ أَتَيْنَ بِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَبَنَى بِي وَأَنَا ابْنَةُ تِسْعِ سِنِينَ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۲۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۸۱) (صحیح الإسناد)
۴۹۳۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم مدینہ آئے ، تو میرے پاس کچھ عورتیں آئیں ، اس وقت میں جھولے پر کھیل رہی تھی ، اور میرے بال چھوٹے چھوٹے تھے ، وہ مجھے لے گئیں ، مجھے بنایا سنوارا اور مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئیں ، آپ نے میرے ساتھ رات گزاری کی ، اس وقت میں نو سال کی تھی۔


4936- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، بِإِسْنَادِهِ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَتْ: وَأَنَا عَلَى الأُرْجُوحَةِ، وَمَعِي صَوَاحِبَاتِي، فَأَدْخَلْنَنِي بَيْتًا، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقُلْنَ: عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۵۵) (صحیح)
۴۹۳۶- ہشام بن عروہ سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے ، اس میں ہے: میں جھو لے پر تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی تھیں ، وہ مجھے ایک کوٹھری میں لے گئیں توکیا دیکھتی ہوں کہ وہاں انصار کی کچھ عورتیں ہیں انہوں نے مجھے خیر و برکت کی دعائیں دیں۔


4937- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو- عَنْ يَحْيَى -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ- قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا: فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ إِنِّي لَعَلَى أُرْجُوحَةٍ بَيْنَ عِذْقَيْنِ، فَجَائَتْنِي أُمِّي، فَأَنْزَلَتْنِي وَلِي جُمَيْمَةٌ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۲۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۱۰) (حسن صحیح)
۴۹۳۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے اور بنی حارث بن خزرج میں اترے،قسم اللہ کی میں دو شاخوں کے درمیان ڈلے ہوئے جھولے پر جھولا جھول رہی تھی کہ میری ماں آئیں اور مجھے جھولے سے اتارا، میرے سر پر چھوٹے چھوٹے بال تھے اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
64- بَاب فِي النَّهْيِ عَنِ اللَّعِبِ بِالنَّرْدِ
۶۴-باب: چو سر کھیلنے کی ممانعت کا بیان​


4938- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ >۔
* تخريج: ق/الأدب ۴۳ (۳۷۶۲)، ط/الرؤیا ۲ (۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۹۴، ۳۹۷، ۴۰۰) (حسن)
۴۹۳۸- ابو مو سی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جس نے چو سر کھیلا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نا فر ما نی کی''۔


4939- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ فَكَأَنَّمَا غَمَسَ يَدَهُ فِي لَحْمِ خِنْزِيرٍ وَدَمِهِ >۔
* تخريج: م/الشعر ۱ (۲۲۶۰)، ق/الأدب ۴۳ (۳۷۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۵۲، ۳۵۷، ۳۶۱) (صحیح)
۴۹۳۹- بر یدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''جس نے نردشیر(چوسر) کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
65- بَاب فِي اللَّعِبِ بِالْحَمَامِ
۶۵-باب: کبوتر بازی کا بیان​


4940- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَأَى رَجُلا يَتْبَعُ حَمَامَةً، فَقَالَ: < شَيْطَانٌ يَتْبَعُ شَيْطَانَةً >۔
* تخريج: ق/الأدب ۴۴ (۳۷۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۴۵) (حسن صحیح)
۴۹۴۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کبوتری کا ( اپنی نظروں سے) پیچھا کر رہا ہے ( یعنی اڑا رہا ہے) تو آپ نے فرمایا: '' ایک شیطان ایک شیطانہ کا پیچھا کررہا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دونوں شیطان ہیں، کبوتر اڑانے والا اس لئے شیطان ہے کہ وہ اللہ سے غافل اور بے پرواہ ہے، اور کبوتر اس لئے شیطان ہے کہ وہ اڑانے والے کی غفلت کا سبب بنا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
66- بَاب فِي الرَّحْمَةِ
۶۶-باب: رحمت وشفقت اور مہربانی کا بیان​


4941- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُسَدَّدٌ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي قَابُوسَ مَوْلَى لِعَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ : < الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا أَهْلَ الأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ >.
لَمْ يَقُلْ مُسَدَّدٌ: مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَقَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ ۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۱۶ (۱۹۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۰) (صحیح)
۴۹۴۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''رحم کرنے والوں پر' رحمن' رحم فرماتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو ، تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا'' ۔


4942- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا (ح) وحَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ مَنْصُورٌ، قَالَ ابْنُ كَثِيرٍ فِي حَدِيثِهِ: وَقَرَأْتُهُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: أَقُولُ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ؟ فَقَالَ: إِذَا قَرَأْتَهُ عَلَيَّ فَقَدْ حَدَّثْتُكَ [بِهِ]، ثُمَّ اتَّفَقَا: عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ ﷺ صَاحِبَ هَذِهِ الْحُجْرَةِ يَقُولُ: < لا تُنْزَعُ الرَّحْمَةُ إِلا مِنْ شَقِيٍّ >۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۱۶ (۱۹۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۱، ۴۴۲، ۴۶۱، ۵۳۹) (حسن)
۴۹۴۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے صادق ومصدوق ابو القاسم ﷺ کو جو اس کمرے میں رہتے تھے ۱؎ فرماتے سنا ہے :''رحمت (مہربانی و شفقت) صرف بدبخت ہی سے چھینی جاتی ہے '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اشارہ ہے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی جانب جس میں نبی اکرمﷺ رہتے تھے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی بدبخت اپنی سخت دلی کے باعث دوسروں پر شفقت ومہربانی نہیں کرتا جب کہ نیک بخت کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے یعنی وہ بے رحم نہیں ہوتا۔


4943- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ السَّرْحِ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنِ ابْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو يَرْوِيهِ، قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا فَلَيْسَ مِنَّا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۲۲) (صحیح)
۴۹۴۳- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہنچا نے ( اس کا ادب و احترام نہ کرے) تو وہ ہم میں سے نہیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
67- بَاب فِي النَّصِيحَةِ
۶۷-باب: نصیحت وخیر خواہی کا بیان​


4944- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ، إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ > قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < لِلَّهِ وَكِتَابِهِ وَرَسُولِهِ وَأَئِمَّةِ الْمُؤْمِنِينَ وَعَامَّتِهِمْ، أَوْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ >۔
* تخريج: م/الإیمان ۲۳ (۵۵)، ن/البیعۃ ۳۱ (۴۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۰۲، ۱۰۳) (صحیح)
۴۹۴۴-تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے ، یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے ، یقینا، دین خیرخواہی کا نام ہے'' لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! کن کے لئے؟آپ نے فرمایا: ''اللہ کے لئے ، اس کی کتاب کے لئے ، اس کے رسول کے لئے ،مو منوں کے حاکموں کے لئے اور ان کے عام لوگوں کے لئے یا کہا مسلمانوں کے حاکموں کے لئے اور ان کے عام لوگوں کے لئے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اللہ کے لئے خیر خواہی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ کی وحدانیت کا قائل ہو اور اس کی ہرعبادت خالص اللہ کے لئے ہو، کتاب اللہ کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لائے اورعمل کرے، رسول کے لئے خیرخواہی یہ ہے کہ رسول کی نبوت کی تصدیق کرنے کے ساتھ وہ جن چیزوں کا حکم دیں اسے بجالائے اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہے، مسلمانوں کے حاکموں کے لئے خیرخواہی یہ ہے کہ حق بات میں ان کی تابعداری کی جائے اور حقیقی شرعی وجہ کے بغیر ان کے خلاف بغاوت کا راستہ نہ اپنایا جائے، اور عام مسلمانوں کے لئے خیرخواہی یہ ہے کہ ان میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے۔


4945- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ابْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ جَرِيرٍ قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَأَنْ أَنْصَحَ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، قَالَ: وَكَانَ إِذَا بَاعَ الشَّيْئَ أَوِ اشْتَرَاهُ قَالَ: < أَمَا إِنَّ الَّذِي أَخَذْنَا مِنْكَ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِمَّا أَعْطَيْنَاكَ فَاخْتَرْ >۔
* تخريج: ن/ البیعۃ ۶ (۴۱۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۳۹)، وقد أخرجہ: خ/الإیمان ۴۲(۵۷)، مواقیت الصلاۃ ۳ (۵۲۴)، الزکاۃ ۲ (۱۴۰۱)، البیوع ۶۸ (۲۱۵۷)، الشروط ۱ (۲۷۰۵)، الأحکام ۴۳ (۷۲۰۴)، م/الإیمان ۴۳ (۵۶)، ت/البر ۱۷ (۱۹۲۵)، حم (۴/ ۳۵۸، ۳۶۱، ۳۶۴، ۳۶۵) (صحیح الإسناد)
۴۹۴۵- جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سمع وطاعت پر بیعت کی، اور یہ کہ میں ہر مسلمان کا خیر خواہ ہوں گا ، راوی کہتے ہیں: وہ (یعنی جریر) جب کوئی چیز بیچتے یا خریدتے تو فرما دیتے: ہم جو چیز تم سے لے رہے ہیں ، وہ ہمیں زیادہ محبوب و پسند ہے اس چیز کے مقابلے میں جو ہم تمہیں دے رہے ہیں ، اب تم چا ہو بیچو یا نہ بیچو، خریدو یا نہ خریدو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
68- بَاب فِي الْمَعُونَةِ لِلْمُسْلِمِ
۶۸-باب: مسلمان کو مدد دینے کا بیان​


4946- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ وَعُثْمَانُ ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ عُثْمَانُ: وَجَرِيرٌ [الرَّازِيُّ] (ح) وحَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَقَالَ وَاصِلٌ: قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ثُمَّ اتَّفَقُوا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ سَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ >.
قَالَ أَبو دَاود: لَمْ يَذْكُرْ عُثْمَانُ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ < وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ >۔
* تخريج: ت/الحدود ۳ (۱۴۲۵)، البر والصلۃ ۱۹ (۱۹۳۰)، القراء ات ۱۲ (۲۹۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۵۹، ۱۲۵۱۰، ۱۲۸۸۹)، وقد أخرجہ: م/الذکر والدعاء ۱۱ (۲۶۹۹)، ق/المقدمۃ ۱۷ (۲۲۵)، حم (۲/۲۵۲، ۳۲۵، ۵۰۰، ۵۲۲)، دي/المقدمۃ ۳۲ (۳۶۰) (صحیح)
۴۹۴۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دورکردے ، تو اللہ اس کی قیامت کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور فر مائے گا ، اور جس نے کسی نادار و تنگ دست کے ساتھ آسانی و نرمی کا رویہ اپنایا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا و آخرت میں آسا نی کا رویہ اپنائے گا ، اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا ، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے ، جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے ''۔


4947- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ نَبِيُّكُمْ ﷺ : < كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ >۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۱۶ (۱۰۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۸۳، ۳۹۷، ۳۹۸، ۴۰۵) (صحیح)
۴۹۴۷- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تمہارے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''ہر بھلی بات صدقہ ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہر اچھی بات میں ایک صدقہ کا ثواب ہوتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
69- بَاب فِي تَغْيِيرِ الأَسْمَاءِ
۶۹-باب: نام بدل دینے کا بیان​


4948- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا (ح) و حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ دَاوُدَ ابْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي زَكَرِيَّا، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَائَكُمْ >.
[قَالَ أَبو دَاود: ابْنُ أَبِى زَكَرِيَّا لَمْ يُدْرِكْ أَبَا الدَّرْدَاءِ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۹۴)، دي/الاستئذان ۵۹ (۲۷۳۶) (ضعیف)
۴۹۴۸- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ دادا کے ناموں کے ساتھ پکا رے جائو گے ، تو اپنے نام اچھے رکھا کرو‘‘ ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں:ابن ابی زکریا نے ابودرداء کا زمانہ نہیں پایا ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہوا کہ اگر کسی کا نام اچھا نہ ہو تو وہ بدل کر اپنا اچھا نام رکھ لے،اور سب سے بہتر نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔


4949- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ زِيَادٍ [سَبَلانَ]، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَحَبُّ الأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى عَبْدُاللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ >۔
* تخريج: م/الأداب ۱ (۲۱۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۲۰)، وقد أخرجہ: ت/الأدب ۶۴ (۲۸۳۶)، دي/الاستئذان ۶۰ (۲۷۳۷) (صحیح)
۴۹۴۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ کے نزدیک سب سے پسند یدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں‘‘۔


4950- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّالْقَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَقِيلُ بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجُشَمِيِّ -وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الأَنْبِيَاءِ، وَأَحَبُّ الأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَبْدُاللَّهِ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ، وَأَصْدَقُهَا حَارِثٌ وَهَمَّامٌ، وَأَقْبَحُهَا حَرْبٌ وَمُرَّةُ >۔
* تخريج: ن/الخیل ۲ (۳۵۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۴۵) (صحیح)(اس میں تسموا باسماء الأنبیاء
کاٹکڑاصحیح نہیں ہے) (الصحیحۃ ۱۰۴۰،۹۰۴، والارواء ۱۱۷۸ وتراجع الالبانی ۴۶)
۴۹۵۰- ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ -انہیں شرف صحبت حاصل ہے- کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’انبیاء کے نام رکھا کرو، اللہ تعالیٰ کے نز دیک محبوب و پسندیدہ نام ’’عبداللہ‘‘ اور ’’عبدالرحمن‘‘ ہیں،اورسب سے سچے نام ’’حارث‘‘ وہمام ہیں ۱؎،اور سب سے نا پسندیدہ و قبیح نام ’’حرب‘‘ و’’ مرہ‘‘ ہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ یہ دونوں اپنے مشتق منہ سے معنوی طور پر مطابقت رکھتے ہیں چنانچہ حارث کے معنی ہیں کمانے والا، اورہمام کے معنی قصد وارادہ رکھنے والے کے ہیں ،اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جوقصدوارادہ سے خالی ہو،یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں نام سچے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : ان دونوں ناموں میں ان کے ذاتی وصف کے اعتبار سے جوقباحت ہے وہ بالکل واضح ہے۔


4951- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ذَهَبْتُ بِعَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ حِينَ وُلِدَ، وَالنَّبِيُّ ﷺ فِي عَبَائَةٍ يَهْنَأُ بَعِيرًا لَهُ قَالَ: < هَلْ مَعَكَ تَمْرٌ؟ > قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَنَاوَلْتُهُ تَمَرَاتٍ، فَأَلْقَاهُنَّ فِي فِيهِ، فَلاكَهُنَّ، ثُمَّ فَغَرَ فَاهُ، فَأَوْجَرَهُنَّ إِيَّاهُ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < حُبُّ الأَنْصَارِ التَّمْرَ > وَسَمَّاهُ عَبْدَاللَّهِ۔
* تخريج: م/الآداب ۵ (۲۱۴۴)، انظر حدیث رقم : (۲۵۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۷۵، ۲۱۲، ۲۸۷، ۲۸۸) (صحیح)
۴۹۵۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی طلحہ کی پیدائش پر میں ان کو لے کر نبی اکرمﷺ کے پاس آیاآپ اس وقت عبا پہنے ہوئے تھے، اور اپنے ایک اونٹ کودوا لگا ر ہے تھے ، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کھجور ہے؟ میں نے کہا :ہاں ، پھر میں نے آپ ﷺ کو کئی کھجوریں پکڑا ئیں،آپ نے ان کو اپنے منہ میں ڈالا اور چبا کر بچے کا منہ کھولا اور اس کے منہ میں ڈال دیا تو بچّہ منہ چلا کر چو سنے لگا،اس پر نبی اکرمﷺنے فرمایا: ’’انصار کی پسندیدہ چیز کھجور ہے‘‘ اور آپ نے اس لڑکے کا نام ’’عبداللہ‘‘ رکھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
70- بَاب فِي تَغْيِيرِ الاسْمِ الْقَبِيحِ
۷۰-باب: برے نام کو بدل دینے کا بیان​


4952- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ غَيَّرَ اسْمَ عَاصِيَةَ، وَقَالَ: < أَنْتِ جَمِيلَةٌ >۔
* تخريج: م/الآداب ۳ (۲۱۳۹)، ت/الأدب ۶۶ (۲۸۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۵۵، ۷۸۷۶)، وقد أخرجہ: ق/الأدب ۳۲ (۳۷۳۳)، حم (۲/۱۸)، دي/الاستئذان ۶۲ (۲۷۳۹) (صحیح)
۴۹۵۲- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عا صیہ کا نام بدل دیا ۱؎،اور فرمایا: تو جمیلہ ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عاصیہ عمر کی بیٹی تھی جس کے معنی گنہگار ونا فرمان کے ہیں۔
وضاحت ۲؎ :یعنی آج سے تیرا نام جمیلہ (خوبصورت اچھے اخلا ق و کر دار والی) ہے۔


4953- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءِ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ سَأَلَتْهُ: مَا سَمَّيْتَ ابْنَتَكَ؟ قَالَ: سَمَّيْتُهَا بَرَّةَ، فَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ هَذَا الاسْمِ، سُمِّيتُ بَرَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمُ، اللَّهُ أَعْلَمُ بِأَهْلِ الْبِرِّ مِنْكُمْ > فَقَالَ: مَا نُسَمِّيهَا؟ قَالَ: < سَمُّوهَا زَيْنَبَ >۔
* تخريج: م/الأداب ۳ (۲۱۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۸۴) (حسن صحیح)
۴۹۵۳- محمد بن عمر و بن عطا سے روایت ہے کہ زینب بنت ابو سلمہ نے ان سے پوچھا: تم نے اپنی بیٹی کا نام کیا رکھا ہے ؟ کہا: میں نے اس کا نام ’’بّرہ‘‘ رکھا ہے ،انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس نام سے منع کیا ہے، میرا نام پہلے ’’برہ‘‘ رکھا گیا تھا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا :خو د سے پاکباز نہ بنو ، اللہ خوب جانتا ہے ، تم میں پاکباز کون ہے ، پھر(میرے گھروالوں میں سے)کسی نے پوچھا: تو ہم اس کا کیا نام رکھیں؟ آپ نے فرمایا: ’’زینب ‘‘رکھ دو۔


4954- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ -يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ- قَالَ: حَدَّثَنِي بَشِيرُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ عَمِّهِ أُسَامَةَ بْنِ أَخْدَرِيٍّ أَنَّ رَجُلا يُقَالُ لَهُ أَصْرَمُ كَانَ فِي النَّفَرِ الَّذِينَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَا اسْمُكَ؟ > قَالَ: أَنَا أَصْرَمُ، قَالَ: < بَلْ أَنْتَ زُرْعَةُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۳) (صحیح)
۴۹۵۴- اسامہ بن اخدری تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جسے اصرم(بہت زیادہ کاٹنے والا) کہا جاتاتھا، اس گروہ میں تھاجورسول اللہ ﷺکے پاس آیاتھاتو آپ نے اس سے پوچھا:تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا:میں ’’اصرم‘‘ ہوں ،آپ نے فرمایا: ’’نہیں تم اصرم نہیں بلکہ زرعہ (کھیتی لگانے والے) ہو،( یعنی آج سے تمہارا نام زرعہ ہے)۔


4955- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ يَزِيدَ -يَعْنِي ابْنَ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ هَانِئٍ أَنَّهُ لَمَّا وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَعَ قَوْمِهِ سَمِعَهُمْ يَكْنُونَهُ بِأَبِي الْحَكَمِ، فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَكَمُ، وَإِلَيْهِ الْحُكْمُ، فَلِمَ تُكْنَى أَبَا الْحَكَمِ؟ > فَقَالَ: إِنَّ قَوْمِي إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْئٍ أَتَوْنِي فَحَكَمْتُ بَيْنَهُمْ، فَرَضِيَ كِلا الْفَرِيقَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَا أَحْسَنَ هَذَا، فَمَا لَكَ مِنَ الْوَلَدِ؟ > قَالَ: لِي شُرَيْحٌ وَمُسْلِمٌ وَعَبْدُاللَّهِ، قَالَ: < فَمَنْ أَكْبَرُهُمْ؟ > قُلْتُ: شُرَيْحٌ، قَالَ: < فَأَنْتَ أَبُو شُرَيْحٍ >.
[قَالَ أَبو دَاود: شُرَيْحٌ هَذَا هُوَ الَّذِي كَسَرَ السِّلْسِلَةَ، وَهُوَ مِمَّنْ دَخَلَ تُسْتَرَ].
[قَالَ أَبو دَاود: وَبَلَغَنِي أَنَّ شُرَيْحًا كَسَرَ بَابَ تُسْتَرَ، وَذَلِك أَنْهُ دَخَلَ مِنْ سِرْبٍ]۔
* تخريج: ن/آداب القضاۃ ۷ (۵۳۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲۵) (صحیح)
۴۹۵۵- ابوشریح ہانی کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی قوم کے ساتھ وفد میں آئے، تو آپ نے ان لوگوں کو سنا کہ وہ انہیں ابو الحکم کی کنیت سے پکار رہے تھے ، آپ نے انہیں بلا یا ، اور فرمایا: ’’حکم تو اللہ ہے، اور حکم اسی کا ہے تو تمہاری کنیت ابوالحکم کیوں ہے؟‘‘انہوں نے کہا: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی معا ملے میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ہی ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اور دونوں فریق اس پر را ضی ہوجاتے ہیں ، آپ نے فرمایا: ’’یہ تو اچھی بات ہے ، تو کیا تمہارے کچھ لڑ کے بھی ہیں؟ انہوں نے کہا: شریح ،مسلم اور عبداللہ میرے بیٹے ہیں‘‘ ،آپ نے پوچھا : ان میں بڑا کون ہے؟ میں نے عرض کیا : ’’شریح ‘‘آپ نے فرمایا: تو تم’’ ابوشریح ہو‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں:شریح ہی وہ شخص ہیں جس نے زنجیر توڑی تھی اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جو تستر میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے۔
ابو داود کہتے ہیں:مجھے یہ خبر پہنچی ہے کی شریح نے ہی تستر کادروازہ توڑا تھا اور وہی نالے کے راستے سے اس میں داخل ہوئے تھے۔


4956- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ: < مَا اسْمُكَ؟ > قَالَ: حَزْنٌ، قَالَ: < أَنْتَ سَهْلٌ > قَالَ: لا، السَّهْلُ يُوطَأُ وَيُمْتَهَنُ، قَالَ سَعِيدٌ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُصِيبُنَا بَعْدَهُ حُزُونَةٌ.
قَالَ أَبو دَاود: وَغَيَّرَ النَّبِيُّ ﷺ اسْمَ الْعَاصِ وَعَزِيزٍ وَعَتَلَةَ وَشَيْطَانٍ وَالْحَكَمِ وَغُرَابٍ وَحُبَابٍ وَشِهَابٍ فَسَمَّاهُ هِشَامًا، وَسَمَّى حَرْبًا سَلْمًا، وَسَمَّى الْمُضْطَجِعَ الْمُنْبَعِثَ، وَأَرْضًا تُسَمَّى عَفِرَةَ، سَمَّاهَا خَضِرَةَ، وَشِعْبَ الضَّلالَةِ سَمَّاهُ شِعْبَ الْهُدَى، وَبَنُو الزِّنْيَةِ سَمَّاهُمْ بَنِي الرِّشْدَةِ، وَسَمَّى بَنِي مُغْوِيَةَ بَنِي رِشْدَةَ.
قَالَ أَبو دَاود: تَرَكْتُ أَسَانِيدَهَا لِلاخْتِصَارِ۔
* تخريج: خ/الأداب ۱۰۷ (۶۱۹۰)، ۱۰۸ (۶۱۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۳۳) (صحیح)
۴۹۵۶- سعید بن مسیب کے دادا (حزن رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے ان سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ کہا: حزن ۱؎آپ نے فرمایا: ’’تم سہل ہو، انہوں نے کہا: نہیں ،سہل رونداجانا اور ذلیل کیاجاناہے،سعید کہتے ہیں: تو میں نے جانا کہ اس کے بعد ہم لوگوں کو دشواری پیش آئے گی ( اس لئے کہ میرے دادا نے رسول اللہ ﷺ کا بتایا ہوا نام نا پسند کیا تھا)۔
ابو داودکہتے ہیں: نبی اکرم ﷺنے عاص ( گنہگار) عزیز (اللہ کا نام ہے) ، عتلہ (سختی) شیطان ، حکم (اللہ کی صفت ہے)،غراب ( کوے کو کہتے ہیں اور اس کے معنی دوری اور غربت کے ہیں) ، حباب (شیطان کا نام) اور شہاب ( شیطان کو بھگانے والا ایک شعلہ ہے) کے نام بدل دیئے اور شہا ب کا نام ہشام رکھ دیا، اور حر ب (جنگ ) کے بدلے سلم( امن) رکھا ، مضطجع (لیٹنے والا) کے بدلے منبعث ( اٹھنے والا) رکھا ، اور جس زمین کا نام عفرۃ ( بنجر اور غیرا ٓباد ) تھا ، اس کا خضرہ (سر سبز و شاداب) رکھا، شعب الضلالۃ( گمراہی کی گھا ٹی)کا نام شعب الہدی (ہدایت کی گھاٹی) رکھا،اور بنو زنیہ کا نام بنورَشدہ اور بنو مغویہ کا نام بنو رِشدہ رکھ دیا ۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے اختصار کی غرض سے ا ن سب کی سند یں چھو ڑ دی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : حزن کے معنی سخت او ر دشوارگذارزمین کے ہیں اورسہل کے معنی : نرم اورعمدہ زمین کے ہیں حزن کی ضد۔


4957- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُوعَقِيلٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: لَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مَسْرُوقُ بْنُ الأَجْدَعِ، فَقَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الأَجْدُعُ شَيْطَانٌ >۔
* تخريج: ق/الأدب ۳۱ (۳۷۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۱) (ضعیف)
۴۹۵۷- مسروق کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا تو انہوں نے پوچھا : تم کون ہو؟ میں نے کہا: مسروق بن اجدع، تو آپ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’اجدع تو شیطان ہے‘‘۔


4958- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ رَبِيعِ بْنِ عُمَيْلَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <لا تُسَمِّيَنَّ غُلَامَكَ يَسَارًا وَلا رَبَاحًا وَلا نَجِيحًا وَلا أَفْلَحَ؛ فَإِنَّكَ تَقُولُ: أَثَمَّ هُوَ؟ فَيَقُولُ: لا >، إِنَّمَا هُنَّ أَرْبَعٌ، فَلا تَزِيدَنَّ عَلَيّ ۔
* تخريج: م/الأداب ۲ (۲۱۳۶)، ت/الأدب ۶۵ (۲۸۳۶)، ق/الأدب ۳۱ (۳۷۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۷، ۱۰، ۱۲، ۲۱)، دي/الاستئذان ۶۱ (۲۷۳۸) (صحیح)
۴۹۵۸-سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنے بچے یااپنے غلام کا نام یسار ، رباح ، نجیح اورافلح ہرگز نہ رکھو ، اس لئے کہ تم پوچھو گے:کیا وہاں ہے وہ؟تو جواب دینے والاکہے گا: نہیں( توتم اسے بدفالی سمجھ کر اچھانہ سمجھوگے) (سمرہ نے کہا) یہ تو بس چار ہیں اور تم اس سے زیادہ مجھ سے نہ نقل کرنا۔


4959- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ الرُّكَيْنَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَمُرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نُسَمِّيَ رَقِيقَنَا أَرْبَعَةَ أَسْمَائٍ: أَفْلَحَ، وَيَسَارًا، وَنَافِعًا، وَرَبَاحًا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۱۲) (صحیح)
۴۹۵۹- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ ہم افلح، یسار، نافع اور رباح ان چار ناموں میں سے کوئی اپنے غلاموں یا بچوں کا رکھیں ۔


4960- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنْ عِشْتُ إِنْ شَائَ اللَّهُ أَنْهَى أُمَّتِي أَنْ يُسَمُّوا نَافِعًا وَأَفْلَحَ وَبَرَكَةَ > قَالَ الأَعْمَشُ: وَلا أَدْرِي ذَكَرَ نَافِعًا أَمْ لا < فَإِنَّ الرَّجُلَ يَقُولُ إِذَا جَاءَ: أَثَمَّ بَرَكَةُ؟ فَيَقُولُونَ: لا >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ [عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ] نَحْوَهُ، لَمْ يَذْكُرْ بَرَكَةَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۸۸) (صحیح)
۴۹۶۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اگر اللہ نے چاہا اور میں زندہ رہا تو میں اپنی امت کو نافع ، افلح اور برکت نام رکھنے سے منع کر دوں گا،( اعمش کہتے ہیں: مجھے نہیں معلو م انہوں( سفیان ) نے نافع کا ذکر کیا یا نہیں) اس لئے کہ آدمی جب آئے گا تو پوچھے گا : کیا برکت ہے ؟ تو لوگ کہیں گے:نہیں،(تو لوگ اسے بدفالی سمجھ کر اچھانہ سمجھیں گے)۔
ابو داود کہتے ہیں: ابو زبیرنے جابر سے انہوں نے نبی اکرمﷺسے اسی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں ’’برکت‘‘ کا ذکر نہیں ہے۔


4961- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ ، قَالَ: < أَخْنَعُ اسْمٍ عِنْدَاللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الأَمْلاكِ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: < أَخْنَى اسْمٍ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۱۱۴ (۶۲۰۶)، م/الأداب ۴ (۲۱۴۳)، ت/الأدب ۶۵ (۲۸۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۴۴) (صحیح)
۴۹۶۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’سب سے ذلیل نام والا اللہ کے نز دیک قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جسے لوگ شہنشا ہ کہتے ہوں‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے اسے ابو لزناد سے ، اسی سند سے روایت کیا ہے ، اور اس میں انہوں نے ’’أخنع اسم‘‘ کے بجائے ’’أخنى اسم ‘‘ کہا ہے،(جس کے معنیٰ سب سے فحش اور قبیح نام کے ہیں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71- بَاب فِي الأَلْقَابِ
۷۱-باب: القاب کا بیان​


4962- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوجَبِيرَةَ بْنُ الضَّحَّاكِ، قَالَ: فِينَا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي بَنِي سَلَمَةَ {وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ، بِئْسَ الاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ} قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ إِلا وَلَهُ اسْمَانِ أَوْ ثَلاثَةٌ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: < يَا فُلانُ > فَيَقُولُونَ: مَهْ يَارَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَغْضَبُ مِنْ هَذَا الاسْمِ، فَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ {وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ}۔
* تخريج: ت/ تفسیر القرآن ۴۹ (۳۲۶۸)، ق/الأدب ۳۵ (۳۷۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۶۹، ۲۶۰، ۵/۳۸۰) (صحیح)
۴۹۶۲- ابو جبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہمارے یعنی بنو سلمہ کے سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی{وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ، بِئْسَ الاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ} ۱؎ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ آئے اور ہم میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے دو یا تین نام نہ ہوں، تو آپ نے پکارنا شر وع کیا : '' اے فلاں'' تو لوگ کہتے: اللہ کے رسول! اس نام سے نہ پکا ریئے ، وہ اس نام سے چڑھتا ہے ، تو یہ آیت نازل ہوئی {وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ}۔
وضاحت ۱؎ : ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو ، ایمان کے بعد برے نام سے پکارنا برا ہے، (الحجرات : ۱۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72- بَاب فِيمَنْ يَتَكَنَّى بِأَبِي عِيسَى
۷۲-باب: ابو عیسیٰ کنیت رکھنا کیسا ہے؟​


4963- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه ضَرَبَ ابْنًا لَهُ تَكَنَّى أَبَا عِيسَى، وَأَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ تَكَنَّى بِأَبِي عِيسَى فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَمَا يَكْفِيكَ أَنْ تُكْنَى بِأَبِي عَبْدِاللَّهِ؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَنَّانِي، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، وَإِنَّا فِي جَلْجَتِنَا، فَلَمْ يَزَلْ يُكْنَى بِأَبِي عَبْدِاللَّهِ حَتَّى هَلَكَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۸۷) (صحیح)
۴۹۶۳- اسلم کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو مارا جس نے اپنی کنیت ابو عیسیٰ رکھی تھی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بھی ابو عیسی کنیت رکھی تھی ، تو عمرنے ان سے کہا: کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تم ابوعبداللہ کنیت اختیار کرو؟ ۱؎ وہ بو لے: میری یہ کنیت رسول اللہ ﷺ نے ہی رکھی ہے ، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے تو اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئے گئے تھے ، اور ہم تو اپنی ہی طرح کے چند لوگوں میں سے ایک ہیں ۲؎ چنانچہ وہ ہمیشہ ابوعبداللہ کی کنیت سے پکارے جاتے رہے ، یہاں تک کہ انتقال فرما گئے ۔
وضاحت ۱؎ : عمر رضی اللہ عنہ نے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے سے اس وجہ سے منع کیا کہ اس بات کاخدشہ تھا کہ لوگ اس وہم میں نہ مبتلا ہوجائیں کہ عیسی علیہ السلام کا بھی کوئی باپ تھا، یہی وجہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ کنیت رکھنا آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔
وضاحت ۲؎ : مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ عام مسلمان ہیں، اور یہ نہیں معلوم کہ ہمارا انجام کیا ہوگا۔
 
Top