70- بَاب فِي تَغْيِيرِ الاسْمِ الْقَبِيحِ
۷۰-باب: برے نام کو بدل دینے کا بیان
4952- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ غَيَّرَ اسْمَ عَاصِيَةَ، وَقَالَ: < أَنْتِ جَمِيلَةٌ >۔
* تخريج: م/الآداب ۳ (۲۱۳۹)، ت/الأدب ۶۶ (۲۸۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۵۵، ۷۸۷۶)، وقد أخرجہ: ق/الأدب ۳۲ (۳۷۳۳)، حم (۲/۱۸)، دي/الاستئذان ۶۲ (۲۷۳۹) (صحیح)
۴۹۵۲- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عا صیہ کا نام بدل دیا ۱؎،اور فرمایا: تو جمیلہ ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عاصیہ عمر کی بیٹی تھی جس کے معنی گنہگار ونا فرمان کے ہیں۔
وضاحت ۲؎ :یعنی آج سے تیرا نام جمیلہ (خوبصورت اچھے اخلا ق و کر دار والی) ہے۔
4953- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءِ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ سَأَلَتْهُ: مَا سَمَّيْتَ ابْنَتَكَ؟ قَالَ: سَمَّيْتُهَا بَرَّةَ، فَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ هَذَا الاسْمِ، سُمِّيتُ بَرَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمُ، اللَّهُ أَعْلَمُ بِأَهْلِ الْبِرِّ مِنْكُمْ > فَقَالَ: مَا نُسَمِّيهَا؟ قَالَ: < سَمُّوهَا زَيْنَبَ >۔
* تخريج: م/الأداب ۳ (۲۱۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۸۴) (حسن صحیح)
۴۹۵۳- محمد بن عمر و بن عطا سے روایت ہے کہ زینب بنت ابو سلمہ نے ان سے پوچھا: تم نے اپنی بیٹی کا نام کیا رکھا ہے ؟ کہا: میں نے اس کا نام ’’بّرہ‘‘ رکھا ہے ،انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس نام سے منع کیا ہے، میرا نام پہلے ’’برہ‘‘ رکھا گیا تھا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا :خو د سے پاکباز نہ بنو ، اللہ خوب جانتا ہے ، تم میں پاکباز کون ہے ، پھر(میرے گھروالوں میں سے)کسی نے پوچھا: تو ہم اس کا کیا نام رکھیں؟ آپ نے فرمایا: ’’زینب ‘‘رکھ دو۔
4954- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ -يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ- قَالَ: حَدَّثَنِي بَشِيرُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ عَمِّهِ أُسَامَةَ بْنِ أَخْدَرِيٍّ أَنَّ رَجُلا يُقَالُ لَهُ أَصْرَمُ كَانَ فِي النَّفَرِ الَّذِينَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَا اسْمُكَ؟ > قَالَ: أَنَا أَصْرَمُ، قَالَ: < بَلْ أَنْتَ زُرْعَةُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۳) (صحیح)
۴۹۵۴- اسامہ بن اخدری تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جسے اصرم(بہت زیادہ کاٹنے والا) کہا جاتاتھا، اس گروہ میں تھاجورسول اللہ ﷺکے پاس آیاتھاتو آپ نے اس سے پوچھا:تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا:میں ’’اصرم‘‘ ہوں ،آپ نے فرمایا: ’’نہیں تم اصرم نہیں بلکہ زرعہ (کھیتی لگانے والے) ہو،( یعنی آج سے تمہارا نام زرعہ ہے)۔
4955- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ يَزِيدَ -يَعْنِي ابْنَ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ هَانِئٍ أَنَّهُ لَمَّا وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَعَ قَوْمِهِ سَمِعَهُمْ يَكْنُونَهُ بِأَبِي الْحَكَمِ، فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَكَمُ، وَإِلَيْهِ الْحُكْمُ، فَلِمَ تُكْنَى أَبَا الْحَكَمِ؟ > فَقَالَ: إِنَّ قَوْمِي إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْئٍ أَتَوْنِي فَحَكَمْتُ بَيْنَهُمْ، فَرَضِيَ كِلا الْفَرِيقَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَا أَحْسَنَ هَذَا، فَمَا لَكَ مِنَ الْوَلَدِ؟ > قَالَ: لِي شُرَيْحٌ وَمُسْلِمٌ وَعَبْدُاللَّهِ، قَالَ: < فَمَنْ أَكْبَرُهُمْ؟ > قُلْتُ: شُرَيْحٌ، قَالَ: < فَأَنْتَ أَبُو شُرَيْحٍ >.
[قَالَ أَبو دَاود: شُرَيْحٌ هَذَا هُوَ الَّذِي كَسَرَ السِّلْسِلَةَ، وَهُوَ مِمَّنْ دَخَلَ تُسْتَرَ].
[قَالَ أَبو دَاود: وَبَلَغَنِي أَنَّ شُرَيْحًا كَسَرَ بَابَ تُسْتَرَ، وَذَلِك أَنْهُ دَخَلَ مِنْ سِرْبٍ]۔
* تخريج: ن/آداب القضاۃ ۷ (۵۳۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲۵) (صحیح)
۴۹۵۵- ابوشریح ہانی کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی قوم کے ساتھ وفد میں آئے، تو آپ نے ان لوگوں کو سنا کہ وہ انہیں ابو الحکم کی کنیت سے پکار رہے تھے ، آپ نے انہیں بلا یا ، اور فرمایا: ’’حکم تو اللہ ہے، اور حکم اسی کا ہے تو تمہاری کنیت ابوالحکم کیوں ہے؟‘‘انہوں نے کہا: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی معا ملے میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ہی ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اور دونوں فریق اس پر را ضی ہوجاتے ہیں ، آپ نے فرمایا: ’’یہ تو اچھی بات ہے ، تو کیا تمہارے کچھ لڑ کے بھی ہیں؟ انہوں نے کہا: شریح ،مسلم اور عبداللہ میرے بیٹے ہیں‘‘ ،آپ نے پوچھا : ان میں بڑا کون ہے؟ میں نے عرض کیا : ’’شریح ‘‘آپ نے فرمایا: تو تم’’ ابوشریح ہو‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں:شریح ہی وہ شخص ہیں جس نے زنجیر توڑی تھی اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جو تستر میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے۔
ابو داود کہتے ہیں:مجھے یہ خبر پہنچی ہے کی شریح نے ہی تستر کادروازہ توڑا تھا اور وہی نالے کے راستے سے اس میں داخل ہوئے تھے۔
4956- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ: < مَا اسْمُكَ؟ > قَالَ: حَزْنٌ، قَالَ: < أَنْتَ سَهْلٌ > قَالَ: لا، السَّهْلُ يُوطَأُ وَيُمْتَهَنُ، قَالَ سَعِيدٌ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُصِيبُنَا بَعْدَهُ حُزُونَةٌ.
قَالَ أَبو دَاود: وَغَيَّرَ النَّبِيُّ ﷺ اسْمَ الْعَاصِ وَعَزِيزٍ وَعَتَلَةَ وَشَيْطَانٍ وَالْحَكَمِ وَغُرَابٍ وَحُبَابٍ وَشِهَابٍ فَسَمَّاهُ هِشَامًا، وَسَمَّى حَرْبًا سَلْمًا، وَسَمَّى الْمُضْطَجِعَ الْمُنْبَعِثَ، وَأَرْضًا تُسَمَّى عَفِرَةَ، سَمَّاهَا خَضِرَةَ، وَشِعْبَ الضَّلالَةِ سَمَّاهُ شِعْبَ الْهُدَى، وَبَنُو الزِّنْيَةِ سَمَّاهُمْ بَنِي الرِّشْدَةِ، وَسَمَّى بَنِي مُغْوِيَةَ بَنِي رِشْدَةَ.
قَالَ أَبو دَاود: تَرَكْتُ أَسَانِيدَهَا لِلاخْتِصَارِ۔
* تخريج: خ/الأداب ۱۰۷ (۶۱۹۰)، ۱۰۸ (۶۱۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۳۳) (صحیح)
۴۹۵۶- سعید بن مسیب کے دادا (حزن رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے ان سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ کہا: حزن ۱؎آپ نے فرمایا: ’’تم سہل ہو، انہوں نے کہا: نہیں ،سہل رونداجانا اور ذلیل کیاجاناہے،سعید کہتے ہیں: تو میں نے جانا کہ اس کے بعد ہم لوگوں کو دشواری پیش آئے گی ( اس لئے کہ میرے دادا نے رسول اللہ ﷺ کا بتایا ہوا نام نا پسند کیا تھا)۔
ابو داودکہتے ہیں: نبی اکرم ﷺنے عاص ( گنہگار) عزیز (اللہ کا نام ہے) ، عتلہ (سختی) شیطان ، حکم (اللہ کی صفت ہے)،غراب ( کوے کو کہتے ہیں اور اس کے معنی دوری اور غربت کے ہیں) ، حباب (شیطان کا نام) اور شہاب ( شیطان کو بھگانے والا ایک شعلہ ہے) کے نام بدل دیئے اور شہا ب کا نام ہشام رکھ دیا، اور حر ب (جنگ ) کے بدلے سلم( امن) رکھا ، مضطجع (لیٹنے والا) کے بدلے منبعث ( اٹھنے والا) رکھا ، اور جس زمین کا نام عفرۃ ( بنجر اور غیرا ٓباد ) تھا ، اس کا خضرہ (سر سبز و شاداب) رکھا، شعب الضلالۃ( گمراہی کی گھا ٹی)کا نام شعب الہدی (ہدایت کی گھاٹی) رکھا،اور بنو زنیہ کا نام بنورَشدہ اور بنو مغویہ کا نام بنو رِشدہ رکھ دیا ۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے اختصار کی غرض سے ا ن سب کی سند یں چھو ڑ دی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : حزن کے معنی سخت او ر دشوارگذارزمین کے ہیں اورسہل کے معنی : نرم اورعمدہ زمین کے ہیں حزن کی ضد۔
4957- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُوعَقِيلٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: لَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مَسْرُوقُ بْنُ الأَجْدَعِ، فَقَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الأَجْدُعُ شَيْطَانٌ >۔
* تخريج: ق/الأدب ۳۱ (۳۷۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۱) (ضعیف)
۴۹۵۷- مسروق کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا تو انہوں نے پوچھا : تم کون ہو؟ میں نے کہا: مسروق بن اجدع، تو آپ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’اجدع تو شیطان ہے‘‘۔
4958- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ رَبِيعِ بْنِ عُمَيْلَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <لا تُسَمِّيَنَّ غُلَامَكَ يَسَارًا وَلا رَبَاحًا وَلا نَجِيحًا وَلا أَفْلَحَ؛ فَإِنَّكَ تَقُولُ: أَثَمَّ هُوَ؟ فَيَقُولُ: لا >، إِنَّمَا هُنَّ أَرْبَعٌ، فَلا تَزِيدَنَّ عَلَيّ ۔
* تخريج: م/الأداب ۲ (۲۱۳۶)، ت/الأدب ۶۵ (۲۸۳۶)، ق/الأدب ۳۱ (۳۷۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۷، ۱۰، ۱۲، ۲۱)، دي/الاستئذان ۶۱ (۲۷۳۸) (صحیح)
۴۹۵۸-سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنے بچے یااپنے غلام کا نام یسار ، رباح ، نجیح اورافلح ہرگز نہ رکھو ، اس لئے کہ تم پوچھو گے:کیا وہاں ہے وہ؟تو جواب دینے والاکہے گا: نہیں( توتم اسے بدفالی سمجھ کر اچھانہ سمجھوگے) (سمرہ نے کہا) یہ تو بس چار ہیں اور تم اس سے زیادہ مجھ سے نہ نقل کرنا۔
4959- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ الرُّكَيْنَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَمُرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نُسَمِّيَ رَقِيقَنَا أَرْبَعَةَ أَسْمَائٍ: أَفْلَحَ، وَيَسَارًا، وَنَافِعًا، وَرَبَاحًا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۱۲) (صحیح)
۴۹۵۹- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ ہم افلح، یسار، نافع اور رباح ان چار ناموں میں سے کوئی اپنے غلاموں یا بچوں کا رکھیں ۔
4960- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنْ عِشْتُ إِنْ شَائَ اللَّهُ أَنْهَى أُمَّتِي أَنْ يُسَمُّوا نَافِعًا وَأَفْلَحَ وَبَرَكَةَ > قَالَ الأَعْمَشُ: وَلا أَدْرِي ذَكَرَ نَافِعًا أَمْ لا < فَإِنَّ الرَّجُلَ يَقُولُ إِذَا جَاءَ: أَثَمَّ بَرَكَةُ؟ فَيَقُولُونَ: لا >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ [عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ] نَحْوَهُ، لَمْ يَذْكُرْ بَرَكَةَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۸۸) (صحیح)
۴۹۶۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اگر اللہ نے چاہا اور میں زندہ رہا تو میں اپنی امت کو نافع ، افلح اور برکت نام رکھنے سے منع کر دوں گا،( اعمش کہتے ہیں: مجھے نہیں معلو م انہوں( سفیان ) نے نافع کا ذکر کیا یا نہیں) اس لئے کہ آدمی جب آئے گا تو پوچھے گا : کیا برکت ہے ؟ تو لوگ کہیں گے:نہیں،(تو لوگ اسے بدفالی سمجھ کر اچھانہ سمجھیں گے)۔
ابو داود کہتے ہیں: ابو زبیرنے جابر سے انہوں نے نبی اکرمﷺسے اسی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں ’’برکت‘‘ کا ذکر نہیں ہے۔
4961- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ ، قَالَ: < أَخْنَعُ اسْمٍ عِنْدَاللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الأَمْلاكِ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: < أَخْنَى اسْمٍ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۱۱۴ (۶۲۰۶)، م/الأداب ۴ (۲۱۴۳)، ت/الأدب ۶۵ (۲۸۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۴۴) (صحیح)
۴۹۶۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’سب سے ذلیل نام والا اللہ کے نز دیک قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جسے لوگ شہنشا ہ کہتے ہوں‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے اسے ابو لزناد سے ، اسی سند سے روایت کیا ہے ، اور اس میں انہوں نے
’’أخنع اسم‘‘ کے بجائے
’’أخنى اسم ‘‘ کہا ہے،(جس کے معنیٰ سب سے فحش اور قبیح نام کے ہیں)۔